Tag: اردو افسانے

  • آتش فشاں پر بنا گھر

    آتش فشاں پر بنا گھر

    اس نے جوں ہی دراز کو ہاتھ لگایا، یکایک دادی کی غصہ بھری آواز نے پیچھے سے جکڑ لیا۔

    ’کیا پریشانی ہے تجھے؟‘ وہ گھبرا کر پلٹی۔ موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے دادی کی آنکھیں انگارے بنی دہک رہی تھیں۔ ’تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ ان درازوں کو ہاتھ مت لگایا کر۔ تجھے سمجھ میں نہیں آتا کیا؟‘

    وہ سہم گئی۔ ماں جیسا نازک بدن کپکپانے لگا۔ وہ دادی کو اکثر غصے میں دیکھتی، مگر اس لمحے یوں لگا کہ جیسے وہ مار ہی ڈالیں گی۔ چند دنوں سے یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ وہ جوں جوں بڑی ہورہی تھی، دادی کی روح میں کسی بت کی طرح سر اٹھائے کھڑا اضطراب اپنا قد بڑھاتا جا رہا تھا۔ وہ جب بھی سامنے آتی، دادی کی آنکھوں میں بے چینی مچلنے لگتی۔ اسے گھر میں ہر طرف آنے جانے کی آزادی تھی۔ وہ اپنے کھلونوں سے کھیلے یا انہیں توڑے۔ اپنی کتابوں میں بنی تصویروں میں رنگ بھرے یا بد رنگ کرے۔ اسے ہر بات کی آزادی تھی۔ مگر جب کبھی دادی کے کمرے میں بنی الماری کی طرف ہاتھ بڑھاتی، چاروں سمت پھرتی شاطر آنکھیں اس کی گردن دبوچ لیتیں اور وہ سہم جاتی۔ ایسے میں نہ جانے کیوں ماں یاد آتی، جو برسوں پہلے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اسے دادی نے یہی بتایا تھا، بلکہ اکثر دادی یہ سبق اسے حفظ کروانے کی حد تک دہراتی رہتی تھیں۔ وہ کہتیں۔

    ’تیری ماں کو تجھ سے محبت نہیں تھی۔ ورنہ مائیں اپنی اولاد کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتیں۔ بہت ظالم تھی تیری ماں اور اس سے ظالم تیرا نانا تھا۔ سور کا بچہ۔۔۔‘

    نانا کا ذکر آتے ہی دادی کے چہرے پر وحشت برسنے لگتی۔ نفرت کی شدید تمازت بوڑھے چہرے پر پھیلی جھریوں کو اور گہرا کر دیتی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو ذہن سوالوں، الجھنوں سے بے نیاز تھا، مگر جوں جوں وہ بڑی ہو رہی تھی، الجھے سوالوں کا ڈھیر بھی اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ ہر گزرتے لمحے سلجھے جوابوں کی خواہش شدید ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں سے اس نے اپنے ذہن کے نہاں خانے میں پوشیدہ شفاف ورق پر سوال لکھنا شروع کر رکھے تھے۔

    ماں کیوں چھوڑ کر چلی گئی؟ نانا اتنے برے آدمی کیوں ہیں؟ دادی میرا چہرہ دیکھ کر چھوٹی اور بڑی تائی امی سے کیا کھسر پھسر کرتی ہیں؟ اس الماری کی درازوں میں کیا ہے جسے دادی مجھ سے چھپارہی ہیں؟ میرے امی بابا، کا رشتہ ناکام ہونے میں غلطی کس کی تھی، یا کس کس کی تھی؟ نانا نے مجھے نہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا میں ان پر بوجھ بن جاتی؟

    اس کا معصوم ذہن کہتا کہ دادی اور گھر کے تمام لوگ سارے جواب جانتے ہیں۔ اسے لگتا کہ سچ وہ نہیں ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔ شاید اصل حقیقت دادی کے چہرے کی دبیز جھریوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ یا تائی امی کے چہرے پر پھیلے تمسخر سے کہیں دور پوشیدہ ہے۔ ممکن ہے بابا کی جھکی ہوئی گردن میں کہیں اٹکا ہوا ہو۔ یا پھر خود ساختہ احساسِ تفاخر کے اونچے مگر کمزور تخت پر بیٹھے ہوے دادا کے ادھورے اور ناکام فیصلوں تلے دھنسا ہوا کراہ رہا ہے۔

    ایک دن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے کانوں سے دادی کی آواز ٹکرائی۔ ’شکل و صورت میں بالکل اپنی ماں جیسی بنتی جا رہی ہے۔‘

    تب وہ دیر تک آئینے میں اپنے چہرے کے خط و خال کو گھورتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ دادی اس کی ماں سے نفرت کرتی ہیں۔ ایسے میں اس کے چہرے میں ماں کی شباہت اتر آنا دادی کو تکلیف دیتا ہے۔ تب اس نے بے دھیانی میں ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچ ڈالا۔ جب وہ اپنی ہی سسکیوں کے بوجھ تلے دبنے لگی تو چیخ نکل گئی۔ آواز سن کر اس کے بابا نے اسے پکڑا اور چیخ کر بولے۔

    ’یہ کیا کر رہی ہو؟‘

    ’میرے چہرے میں دادی کو امی نظر آتی ہیں۔ میں انہیں کھرچ رہی ہوں‘۔ اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

    باب نے پیار سے اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔ باپ کے سپاٹ چہرے پر بے چارگی ابھرنے لگی۔ وہ جان ہی نہ سکی کہ بے چارگی کا یہ بد رنگ احساس اس کی ذہنی سوچ اور صحیح یا غلط کے درمیان فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کو نچلے درجے کی حد تک کمزور سے کمزور تر کیے ہوئے ہے۔

    وہ جب گردن جھکا کے پلٹنے لگا تو اس نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’بابا آپ دادی کو نہیں بتائیں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا۔‘‘

    ’ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گا۔‘ اس کے باپ نے وعدہ کیا۔ مگر جب وہ کچھ دیر بعد لاؤنج میں گئی تو دادی نے تڑاخ سے کہا۔

    ’تیری ماں سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان ہوتا تو میں نہ کھرچ دیتی تیرے چہرے سے۔‘

    یہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔ لمحہ بھر کو اسے بابا پر بہت غصہ آیا۔ اسے یاد آیا کہ پہلے بھی کئی بار اس نے کمرے میں ہونے والی گفتگو دادی کو بتانے سے منع کیا تھا۔ مگر ہر بار اس کے بابا دادی کو جا کر سب بتا دیتے ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ سوچنے لگی۔

    مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ بابا کی ایسی بہت سی حماقتوں کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے دور ہوئی تھی۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال کا اضافہ کر لیا۔ جوں جوں الجھے سوال بڑھ رہے تھے، اس کا اضطراب بھی دو چند ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن وہ ٹیرس میں لٹکے جھولے میں جھولتے ہوئے بے دھیانی میں گیت گنگنا رہی تھی۔

    اماں میرے نانا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔ اچانک اس کے نزدیک اس کا تایا زاد بھائی آیا اور بولا۔

    ’میری مما کہتی ہیں کہ جس دن میری تمہاری شادی ہو گی، تم اپنی ماں اور نانا کو ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ گی۔‘ یہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دادی سے جا لپٹتی۔ وہ بولیں۔

    ’اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ یہ تو بچپن ہی میں طے ہو گیا تھا۔ تیری اماں کو اس رشتے پر بہت اعتراض تھا، مگر اب تیری اماں تو یہاں نہیں ہے۔ اب فیصلہ تو ہم کریں گے۔‘

    ’مگر بچپن میں رشتہ طے کرنا تو بہت ظلم ہے۔‘ اس نے تجربے کی بھٹی میں پکا اینٹ سا جواب دے مارا۔

    ’چپ کر۔‘ دادی نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’بالکل اپنی ماں کی طرح سوچتی ہے۔‘

    وہ ایک جھٹکے سے دادی سے دور ہوتے ہوئے بولی۔ ’اس میں غلط کیا ہے؟ بچپن میں جوڑے ہوئے رشتوں کا خراب نتیجہ پہلے سے آپ اس گھر میں بھگت تو رہی ہیں۔‘

    اس کے واضح اشارے کو محسوس کرتے ہی دادی کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے۔ انہوں نے غصے میں چیختے ہوئے کہا۔

    ’بہت زبان چل گئی ہے تیری۔ کاٹ کر پھینک دوں گی۔‘

    وہ اپنے بڑے بیٹے، جسے انہوں نے اپنے تصور میں بہت اونچے سنگھاسن پر بٹھا رکھا تھا، کے بارے میں سچ سننے کو تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے لرزتی جھریوں کے ساتھ غراتے ہوئے کہا۔

    ’تو اس گھر کا کھاتی ہے اور اسی کے بارے میں ایسے گھناؤنے انداز سے سوچتی ہے۔‘ وہ ایک لمحے کو رکیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔’ ایک بات کان کھول کر سن لے، اپنے نانا اور اماں کے انداز میں سوچنا بند کر، ورنہ ان چھوٹے لوگوں کی طرح ہی ہو جائے گی۔‘

    اس نے حیرت سے دادی کو دیکھا۔ نانا کے بارے میں یہ لفظ اس نے پہلے بھی دادا دادی سے سنا تھا۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال درج کرنے کے بارے میں سوچا۔ اس اثنا میں اس کی چھوٹی تائی امی کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں۔

    ’کل اس کے لیے تعویذ بنوا کر لاؤں گی، تاکہ اس کا دماغ درست رہے۔‘

    ’میں کوئی تعویذ واویذ نہیں پہنوں گی۔‘ اس نے فوراً کہا۔

    ’چپ رہ! یہ جو تیرے اندر چار کتابیں پڑھ کر اپنے آپ کو طرم خان سمجھنے والا نانا بولنے لگا ہے، اسے چپ کرنا بہت ضروری ہے۔ کمبخت نہ جانے کیسی سخت مٹی کا بنا ہوا ہے۔ اتنے تعویذ جادو گنڈے کیے، کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ سور کا بچہ۔۔۔ نہ اندھا ہوا اور نہ مر کے دیا۔‘

    دادی نے آخری جملہ بہت دھیرے سے کہا تھا، مگر پھر بھی اس نے سن لیا۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ اکثر تائی امی کو کھانوں پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے، دوسروں کو پڑھی ہوئی شکر والی چائے پلاتے، دادی کے پیروں کے درد اور دادا کے فشار خون کو معتدل کرنے والے تعویذ باندھتے ہوے دیکھا کرتی تھی، مگر وہ حیران تھی کہ برسوں سے نہ دادی کے پیروں کا درد دور ہوا اور نہ دادا کا بلڈ پریشر اعتدال پر آیا۔ البتہ دن بہ دن گھر پر چھوٹی تائی امی کا قبضہ مضبوط ہوتے ہوئے وہ ضرور دیکھ رہی تھی۔

    گھر میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے تجسّس کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔ اکثر اس کا دھیان دادا دادی کے کمرے میں موجود الماری کی درازوں کی طرف چلا جاتا، جنہیں کھولنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ یقیناً وہاں کچھ ایسا ہے جو میری زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ اکثر سوچتی۔ کچھ دنوں سے وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے دادی کے کمرے کی طرف زیادہ جانے لگی تھی، مگر وہاں اکثر دادا ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے یا پھر قوی الجثہ ریسلرز کے طے شدہ اور ڈیزائن کردہ اسکرپٹ والے مقابلے دیکھتے ہوئے پاتی۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان میں ماورائیت سے دلچسپی اور سپر ہیومن نیچر سے لگاؤ کمزور ارادوں کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دادا منصوبے تو بڑے بڑے بناتے ہیں اور اکثر دوسروں کو سناتے بھی بہت ہیں، مگر عملاً کچھ نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہوا آج کے کاموں کو کل پر ٹالنے والا ریٹائر سرکاری افسر کاغذوں پر منصوبے بنا کر اور تصور میں ایورسٹ کی چوٹی سر کرتا رہتا ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے دادا اس سے آنکھیں ملاتے ہوے جھجھکتے ہیں۔ ایک دن اس نے دادی کی غیر موجودگی میں ڈرتے ڈرتے دادا سے سوال کر ڈالا۔

    ’دادا! ایک بات پوچھوں؟‘ ’ہوں۔۔۔انہوں نے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔

    ’اس الماری میں کیا ہے؟ اس نے الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’دادی سے پوچھو۔‘ وہ بولے۔

    ’وہ نہیں بتاتیں۔۔۔‘ اس نے مایوس لہجے میں جواب دیا۔

    ’انہی سے پوچھو۔‘ دادا نے پھر دہرایا۔ ’ویسے تم اس قدر کھوج میں کیوں رہتی ہو؟‘

    ’اگر آپ مجھے ڈانٹیں نہیں تو میں ایک بات کہوں؟‘ اس نے سہمے ہوے لہجے میں کہا۔

    ’کہو‘۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ٹی وی کا ریموٹ بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

    ’دادا مجھے اپنے حوالے سے گھر کی فضا میں جھوٹ تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘ اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہمت کو یکجا کرتے ہوئے کہا۔

    ’تم ابھی بہت چھوٹی ہو‘۔ داد نے اپنے مخصوص انداز میں گردن ہلائی اور ماتھے پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے مزید کہا۔ ’تمہیں معلوم نہیں کہ یہ گھر کتنی محنت سے بنا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بات لڑکیوں کو بتائی جائے۔‘

    وہ مایوس ہو گئی۔ دبیز کارپٹ میں پیر کا انگوٹھا رگڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پلٹ کر جانے لگی۔ یکایک دادا پیچھے سے بولے۔ ان کے لہجے میں حقارت نمایاں تھی۔

    ’سنو۔۔۔اس الماری میں تمہاری ماں کے ہاتھ کا لکھا ہوا خلع نامہ ہے اور اس سے بڑھ کر تمہارے نانا کا وہ خط ہے جس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔‘ وہ چند ساعتوں کے لیے خاموش ہوئے اور پھر بولے۔ ’ہم اس سے بڑے تھے، اسے ہمارا احترام کرنا چاہیے تھا۔‘

    ’جہاں تک مجھے معلوم ہے انہوں نے آپ اور دادی کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی۔ دادا یہ ضروری تو نہیں کہ جو آپ کی عزت کرتے ہیں وہ آپ کی نالائق اولاد کو بھی سر پر بٹھائیں۔‘ اس نے دادا کی طرف دیکھتے ہوئے ایک سچ اگل دیا۔ دادا کے بوڑھے چہرے پر نخوت بھری دبیز جھریاں لرزنے لگیں۔ وہ بولے۔

    ’وہ میرا بیٹا ہے۔ آنے والے کل میں وہ اس خاندان کا سربراہ بنے گا۔ کوئی اس سے آگے نکلے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔

    ’دادا آپ کے اس غرور اور گھمنڈ نے مجھے تنہا کر دیا۔‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ کپکپاتے ہونٹوں پر فریاد لیے پلٹ کر جانے لگی۔ اس کی پشت پر پتھر جیسے لفظ ٹکرائے۔

    ’خلع نامے اور خط میں کیا لکھا ہوا، اس کے مندرجات پر جانے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔ آئندہ اس حوالے سے کوئی بات نہ کرنا۔‘

    وہ گردن جھکائے دروازے کی طرف بڑھی، مگر جوں ہی ادھ کھلے دروازے کی دہلیز پار کرنے کی کوشش کی تو کاٹن کا کُرتا ہینڈل میں اٹک کر چِرتا چلا گیا۔ اس نے بے بسی سے پھٹے ہوئے کُرتے کو دیکھا۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو چھلک پڑے کہ اس گھر کی دہلیز پار کرنا کتنا مشکل ہے۔

    (محمد امین الدّین کا ایک افسانہ)ٰ

  • ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔

    اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیوں کہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے، اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔

    اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمّتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشرافِ سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔

    اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی تُرک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاعِ جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سَر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹّی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوش بُو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں۔ گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیالِ شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسمِ کوہ برف لیے سَر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔

    شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا، مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار، پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد، موجود تھیں جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکّر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلیٰ اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبزہ وار آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہلِ علم ہوتا اُس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحبِ اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجّب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔

    جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے، دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہان سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزری گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے، انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاق رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکرِ الٰہی بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقات کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرضِ مذہبی ہے۔

    (اردو زبان کے نام ور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد 1886ء میں سیرِ ایران کے بعد اپنے وطن (ہندوستان) لوٹے تو اس سفر کی روداد لکھی، یہ مختصر پارہ اسی تحریر سے نقل کیا گیا ہے)

  • ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    ایثار (ایک دل گداز کہانی)

    میں شکار کھیلنے کے بعد گھر کے باغ کی روش پر سے گزر رہا تھا۔ میرا وفادار کتّا مجھ سے چند گز کے فاصلے پر دوڑا چلا جارہا تھا۔ یک لخت اس کی رفتار مدھم پڑ گئی۔ اگلے پنجوں کو اس طرح اٹھانے لگا گویا کسی شکار کو سونگھ رہا ہے۔

    جب میں نے روش پر نظر دوڑائی۔ تو مجھے قریب ہی زمین پر چڑیا کا ایک بچّہ دکھائی دیا جس کی چونچ زرد تھی۔ اور بدن پر نرم نرم روئیں اگ رہے تھے۔ یہ غالباً اپنے گھونسلے سے گر پڑا تھا۔ کیوں کہ آج ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور روش کے آس پاس لگے ہوئے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔

    معصوم بچّہ چپ چاپ زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اڑنے کے لیے ننھّے ننھّے پر پھیلاتا، مگر اتنی طاقت نہ تھی کہ پرواز کرسکے۔ بے چارہ پھڑپھڑا کر رہ جاتا۔

    میرا کتّا اس کی طرف آہستہ آہستہ جارہا تھا کہ دفعتاً قریب کے درخت سے ایک چڑیا اتری اور کتّے اور بچّے کے درمیان زمین پر اس طرح آپڑی جیسے پتّھر گر پڑا ہو۔

    کتّے کے کھلے ہوئے جبڑوں کی طرف دیکھ کر ایک درد ناک اور رحم طلب آواز میں چلائی اور اس کی طرف جھپٹ پڑی۔ وہ اپنے ننھّے بچّے کو میرے کتّے سے بچانا چاہتی تھی۔ اسی غرض کے لیے اس نے اسے اپنے بدن سے ڈھانپ لیا اور چیخ پکار شروع کردی۔ اس کے چھوٹے گلے میں آواز گھٹنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد بے جان ہو کر گری اور مر گئی۔ اور اس طرح اپنے آپ کو قربان کر دیا۔

    وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچّے کو کتّے کا لقمہ بنتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کی نظروں میں میرا کتّا غالباً ایک ہیبت ناک دیو کی مانند تھا۔

    وہ کیا شے تھی۔ جو چڑیا کو شاخِ صنوبر سے کشاں کشاں زمین پر لائی؟

    میرا کتّا حساس تھا۔ چڑیا کو اس طرح قربان ہوتے دیکھ کر ٹھٹھکا اور ایک طرف ہٹ گیا میں نے اسے اپنی طرف اشارہ سے بلا لیا اور آگے بڑھ گئے۔

    یہ واقعہ دیکھ کر مجھے تسکین سی محسوس ہوئی۔ روح سے ایک بوجھ ہلکا ہوتا نظر آیا۔ اس بہادر چڑیا کی غیر معمولی جرأت نے میرے دل میں احترام اور احساسِ فرض کے جذبات موجزن کر دیے۔

    میں نے خیال کیا کہ محبت، موت اور اس کی ہیبت سے کہیں زیادہ ہے اور صرف محبّت ہی ایسی چیز ہے جو زندگی کے نظام کو قائم اور متحرک رکھتی ہے۔

    (عظیم روسی ادیب انتون چیخوف کے قلم سے)

  • سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    یورپ میں سوئٹزر لینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیّاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی و نظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔

    خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور مِلا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دل فریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔

    کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بہ فلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے۔

    تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشانِ چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دل فریبیاں کر رہے ہوں۔ وہ پری جمال اور دل رُبا چہرے جو صد ہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہِ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدّی مگر توانا و تن درست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو، مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہیے۔

    الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم مِلان سے ریل پر سوار ہو کے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ مِلان سے 4 بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوش نما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدّت نہیں نظر آتی تھی۔

    صبح کو تڑکے ہی اٹھائے گئے، اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزر لینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔ چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔

    یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلافِ معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیر ہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
    تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاری گری کا ہاتھ بالکل نہیں لگا تھا۔

    ریل سر سبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہم سفر انگلش دوست بار بار چلّا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔

    جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سَر بہ فلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، مشہور ناول نگار اور جیّد صحافی عبدالحلیم شرر کے سفر نامے سے انتخاب)

  • دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا- مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

    کہتے ہیں کسی شہر سے نزدیک ایک گائوں میں دھوبی رہتا تھا جو قریبی ندی کے کنارے گھاٹ پر کپڑے دھوتا تھا۔ اس کے پاس کہیں سے ایک اچھی نسل کا کتا آگیا جو اسی کے ساتھ رہنے لگا۔ دھوبی صبح سویرے گھاٹ کا رخ کرتا اور کام ختم کر کے ہی لوٹتا۔ یہ اس کا برسوں سے معمول چلا آرہا تھا۔

    وہ کتا بڑا وفادار تھا اور دن رات اس کے گھر کی رکھوالی کرتا۔ جب صبح سویرے دھوبی گھاٹ پر چلا جاتا تو وہ اپنے مالک کی دہلیز پر جیسے اس کی واپسی کی راہ تکتے بیٹھا رہتا۔

    دھوبی کی بیوی روز گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا لیتی اور گھاٹ پر جانے لگتی تب کتا بھی اس کے ساتھ چل پڑتا، بیوی تو کھانا دے کر لوٹ آتی مگر کتا وہیں رک جاتا اور اپنے مالک کے ساتھ لوٹتا۔ یہ اس کی عادت بن گئی تھی۔

    دھوبی کی بیوی کھانا باندھتی تو ایک روٹی کتے کے لیے بھی ساتھ ہی باندھ دیا کرتی تھی کہ گھاٹ پر اس کا شوہر کتے کے آگے ڈال دے گا۔ اسے یقین تھا کہ جب وہ کھانا کھائے گا تو اس وقت کتا بھی تقاضا کرے گا۔

    دھوبی کی بیوی کھانا چھوڑ کر واپس آجاتی اور ادھر وہ بے زبان جانور گھاٹ پر اس انتظار میں رہتا کہ کب مالک روٹی نکالے اور اسے بھی دے۔ دھوبی کام سے فارغ ہو کر کھانا کھاتا، لیکن یہ سوچ کر کتے کو روٹی نہ ڈالتا کہ گھر پر دے دی گئی ہو گی۔

    دھوبی کتے کی بے چینی کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکا۔ کتا کم زور ہونا شروع ہو گیا اور ایک روز مر گیا۔ گائوں والوں نے بڑا افسوس کیا۔ سب اس کی موت کی وجہ جاننا چاہتے تھے۔

    ایک روز چند گاؤں والے جمع تھے کہ کتے کا ذکر نکلا کسی نے کچھ پوچھا، کسی نے کچھ، مگر ایک سیانے نے سوال کیا کہ اسے روٹی کتنی ڈالی جاتی تھی؟

    دھوبی نے بیوی کو بلایا کہ بتائو کتے کے آگے روٹی کتنی ڈالتی تھی؟ تب یہ راز کھلا کہ انجانے میں دھوبی سمجھتا رہا کہ گھر اور اس کی بیوی سمجھتی رہی کہ گھاٹ پر کتے کو روٹی مل رہی ہے۔ مگر ماجرا اس کے برعکس تھا۔

    یوں سب اس نتیجے پر پہنچے کہ کتے کی موت کا اصل سبب "بھوک اور فاقہ” ہے۔ تب کسی سیانے نے کہا:

    "یک در گیر و محکم گیر” (ایک در پکڑو اور مضبوط پکڑو) اور یوں یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ "دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا”

    ARY News Urdu- انٹرٹینمنٹ، انفوٹینمنٹ میگزین

  • اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    آج اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ ہے۔

    منٹو نے معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔

    اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔

    مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوب صورت، فیشن ایبل، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا یہ افسانہ نگار ہم عصر ادیبوں میں نمایاں شخصیت کا مالک تھا لیکن پھر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں، دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گِھر کر محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔

    منٹو اپنی بیوی صفیہ کے ساتھ

    منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انھیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی سرجری کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جا سکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو اپنی بیٹیوں نزہت، نگہت اور نصرت کے ساتھ

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انھیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    اپنی عمر کے آخری سات برسوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے، جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انھوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پر حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شایع کیا تھا۔

  • جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    اسلام آباد: پاکستان میں تعینات سیاحت کے بے حد شوقین جرمن سفیر مارٹن کوبلر پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی سیاحت کے بعد اردو ادب کے بھی شائق نکل آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن سفیر مارٹن کوبلر پاکستان کے تین صوبوں کے مشہور اور تاریخی مقامات کی سیاحت کر چکے ہیں، انھوں نے سیر کے دوران عام لوگوں سے تعلق رکھنے کی ایک نئی نظیر قائم کی۔

    پاکستانی کھانوں، بالخصوص بریانی، پلاؤ اور مٹن ڈشز کے شوقین مارٹن کوبلر اب اردو ادب کے بھی شوقین نکل آئے ہیں۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جرمن سفیر کی پوسٹس فالو کرنے والوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب انھوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اردو فکشن کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی کتاب کا مطالعہ کرتے دکھائی دیے۔

    یاد رہے کہ آج دنیا بھر میں ارتھ آور منایا جا رہا ہے، جس کے تحت رات کے 8:30 سے 9:30 تک ایک گھنٹے کے لیے تمام روشنیاں بھجائی جا رہی ہیں۔

    مارٹن کوبلر نے اس حوالے سے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اندھیرے میں نظر آ رہے ہیں، اور اردو کے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے افسانے پڑھ رہے ہیں۔

    جرمن سفیر نے لکھا کہ انھوں نے سفارت خانے اور اپنی رہائش گاہ کی تمام غیر ضروری روشنیاں بھجا دی ہیں، کیا آپ لوگ بھی ارتھ آور منا رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمی تبدیلی سے متعلق شعور اجاگر کیا جانا بے حد ضروری ہے، اپنی زمین، اور فطرت کے بچاؤ کے لیے لائٹس بجھا دیں، اور اس طرح توانائی، پیسا اور سیارہ بچائیں۔

    خیال رہے کہ تصویر میں منٹو کی جو کلیات دکھائی دے رہی ہے، یہ خالد حسن نے اردو سے انگریزی میں ترجمہ اور ایڈٹ کی ہے۔

  • افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘

    ڈاکٹر افشاں ملک

    ناصر دفتر سے لوٹا تو روزانہ کی طرح امّاں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھیں‘ ہاتھ میں تھمی تسبیح کے اک تواتر سے گرتے دانے ،بند آنکھیں اور بے آواز ہونٹوں کی جنبش بتا رہی تھی کہ کوئی ورد جاری ہے۔ شہلا اپنے کمرے میں اپنی کسی دل چسپی میں مگن تھی اور ملازمہ معمول کے مطابق باورچی خانے میں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی۔

    ناصر کی شادی کو ایک سال ہونے والا تھا لیکن امّاں نے ابھی تک اس کی بیوی شہلا کو گھر کی ذمہ داریوں سے دور ہی رکھا تھا۔ وہ خود ملازمہ کے ساتھ مل کر بڑی خوش اسلوبی سے گھر چلا رہی تھیں ۔ لیکن ناصر چاہتا تھا کہ اب شہلا گھر کی ذمّہ داریاں سنبھال لے۔ وہ جب بھی امّاں کو ملازمہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مصروف دیکھتا تو بڑی محبت سے کہتا: ” امّاں اب آپ گھرکے کاموں کی ذمّہ داری شہلا کو سونپ کر سبک دوش ہو جائیں ،آرام کریں اور ہم دونوں سے اپنی خدمتیں کروائیں ۔“

    ناصر کی اس محبت پر امّاں کی آنکھیں بھر آتیں: ”بس بیٹا‘ رہنے دو ابھی اسے آزاد کچھ دن۔ عمر پڑی ہے کام کرنے کے لیے۔ یہی کچھ دن ہوتے ہیں لڑکیوں کے جب وہ کچھ آزادی محسوس کرتی ہیں۔ بعد میں تو بچوں کی دیکھ بھال اور گھر گرہستی کے کاموں میں گزر جاتی ہے ان کی ساری زندگی اور ملازمہ بھی توہے میری مدد کے لیے بس ذرا نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے سو میں دیکھ لیتی ہوں ۔“

    ناصر نے اماں کے اکیلے پن کو دیکھتے ہوئے گھر کے کاموں کے لیے کل وقتی ملازمہ بہت پہلے ہی رکھ لی تھی۔ بھلی اور ایمان دار عورت تھی، کوئی بچہ بھی نہ تھا، شوہر کے انتقال کے بعد بے گھر ہو گئی تھی۔ یوں اسے بھی مخلص لوگ اور ایک چھت میسر آ گئی تھی ۔امّاں اور ناصر اسے گھر کے فرد جیسا ہی سمجھتے تھے۔

    ناصر کی دلہن کے روپ میں شہلا امّاں کو بہت اچھی لگتی تھی، وہ اس کی خوب ناز برداریاں کرتیں، اس سے پوچھ پوچھ کر اس کی پسند کے کھانے پکواتیں، کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتیں، سجا سنورا دے کھ کر خوش ہوتیں، ہزاروں دعاﺅں سے نوازتیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خوش دیکھ کر مطمئن ہو جاتیں۔ لیکن شہلا عجیب مزاج کی لڑکی تھی اسے نہ امّاں پسند تھیں اور نہ امّاں کی محبت کے انداز بھاتے تھے۔ اسے صرف ناصر پسند تھا بلا شرکت غیرے۔

    امّاں کا دل چاہتا کہ شہلا ان کے پاس بیٹھے بات کرے لیکن شہلا ناصر کے دفتر جاتے ہی اپنے کمرے تک محدود ہو جاتی، گھر میں ہوتی تو ٹیلی ویژن پر ڈیلی سوپ اور فلمیں دیکھ کر وقت گزارتی، سہیلیوں سے فون پر باتیں کرتی اورسارا سارا دن یوں ہی اپنے کمرے میں گزار دیتی۔ یا پھر اسے ناصر کے ساتھ باہر گھومنے جانا پسند تھا۔ امّاں کی قربت اسے گوارا نہ تھی۔ شروع کے دنوں میں شہلا کی کم گوئی کو امّاں نے شرم پر محمول کیا لیکن رفتہ رفتہ اس کی بے نیازی انہیں محسوس ہونے لگی۔ جہاندیدہ تھیں، ایسے ہی رویوں کی ستائی ہوئی بھی تھیں سو خاموشی اختیار کرلی۔ ناصر سے بھی کچھ نہ کہا لیکن وہ شہلا کے اس رویے سے بے خبر نہ تھا اورخاموشی سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ شہلا کسی وقت نہ امّاں کے پاس بیٹھتی ہے نہ ان سے مخاطب ہوتی ہے اور اگر امّاں خود اس سے مخاطب ہوتی ہیں تو لیے دیے انداز میں نپے تلے جواب دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔

    جب تک ناصر گھر میں رہتا اور امّاں کے پاس بیٹھا ہوتا تو شہلا کو بھی ناصر کی وجہ سے بادلِ نخواستہ امّاں کے پاس بیٹھنا پڑتا لیکن اس کی کوشش یہی رہتی کہ ناصر بھی امّاں سے دور رہے۔ مگردفتر سے لوٹ کرناصرکا امّاں کے پاس بیٹھ کر کچھ وقت گزارنا روزانہ کا معمول تھا اور جب سے شادی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ امّاں اور شہلا روزانہ کچھ وقت ساتھ گزاریں ،باتیں کریں۔ شہلا جب تک آکر نہ بیٹھتی ناصر اسے آوازیں دیتا رہتا۔ ناصر کے اصرار پر شہلا وہاں آکر بیٹھ تو جاتی لیکن اس کے چہرے سے بے زاری صاف جھلکتی جسے امّاں کے ساتھ ہی ناصر بھی خوب سمجھتا تھا بلکہ اب تو ملازمہ بھی امّاں کے تئیں شہلا کے اس رویے کو سمجھنے لگی تھی۔


    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں


    ناصر کی فکر دن بدن بڑھتی جا رہی تھی، وہ ہر حال میں امّاں اور شہلا کے درمیان اچھے تعلقات کا متمنی تھا ۔ ایک طرف شہلا اس کی بیوی جس سے وہ محبت کرتا تھا اوردوسری طرف امّاں تھیں جن کا دل دکھانے کا خیال بھی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔ امّاں سے تواس کا رشتہ ہی بہت انوکھا تھا بلکہ سچ تو یہ تھا کہ ان میں تو کوئی رشتہ ہی نہیں تھا نہ وہ اس کی سگی ماں تھیں نہ سوتیلی وہ تو اس کی منھ بولی ماں تھیں۔ ناصر کے دل میں ان کے لیے بے حد عزت و احترام تھا اوروہ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے تھے۔

    امّاں اور ناصر کے اس انوکھے رشتے کی کہانی بھی خوب تھی۔ ناصر صحافی تھا اور ایک مشہور ٹی وی چینل میں ریسرچ اور اسکرپٹ رائٹنگ کے شعبے سے منسلک تھا۔ حالیہ پروجیکٹ کے تحت چینل کی طرف سے اسے ایسے فلاحی اداروں کا سروے سونپا گیا تھا جو عمر رسیدہ، بیوہ اور بے سہارا خواتین کے تحفظ اور فلاح کے لیے کام کر رہے تھے۔ ”آشیانہ“ نام کے ایک غیر سرکاری’ اولڈ ایج ہوم ‘ میں اس کی ملاقات صابرہ خاتون سے ہوئی تھی۔ سروے کے دوران بزرگ اور بے سہارا خواتین کے بہت سے مسائل اور کچھ ایسی تلخ سچائیاں سامنے آئیں جن کا ناصر پر بہت گہرا اثر ہوا۔ وہ بے سہارا اور عمر رسیدہ خواتین جن کا دنیا میں کوئی نہیں تھا، ان اداروں میں انہیں روٹی کپڑے اور ایک محفوظ چھت کے ساتھ ہی بیماری میں دوا علاج بھی اگر میسر تھا تو غنیمت تھا اور وہ اتنی سہولیات ملنے پر مطمئن اور خوش بھی تھیں۔ زندگی کی ڈھلتی شام میں ان کے لیے اتنا بھی بہت تھا۔ مگر ایسی بزرگ خواتین جو اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوکر یہاں پناہ گزین ہو گئی تھیں ذہنی طور پر زیادہ مایوس اور دکھی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اپنوں کا انتظار جیسے ٹھہر گیا تھا۔ اور کئی کئی برس گزر جانے کے بعد بھی آس کی ڈورکویقین سے تھامے وہ اپنوں کی راہ دیکھ رہی تھیں کہ شاید ان کے دل میں کبھی محبت کا دیا روشن ہو جائے اور وہ انہیں یہاں سے لے جائیں۔ صابرہ خاتون بھی ایک ایسی ہی ماں تھیں جو اپنے بیٹوں کی بے رخی کا شکار ہو کر اس ادارے میں آئی تھیں۔ تفصیلی بات چیت کے دوران انہوں نے ناصر کو بتایا تھا۔

    ”ان کے دو بیٹے ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ میں مقیم آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دو سال پہلے ان کے شوہر کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا اور وہ اکیلی رہ گئیں۔ والد کے گزر جانے کے بعد بچوں نے ان سے رابطہ کیا تسلی دی اور کاروباری مصروفیت کی بنا پر فوری آنے سے معذرت کرتے ہوئے جلد ہی اپنے پاس بلانے کا یقین دلایا۔ مگر دو سال کا عرصہ گزر جانے پر بھی نہ وہ آئے اور نہ ہی مجھے اپنے پاس بلایا۔ شوہر کے گزر جانے کا صدمہ، بڑھتی عمر اور اکیلا پن مجھے اندرہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں مجھے بس اپنے بچوں کا انتظارتھا۔ میرا انتظار بڑھتا جا رہا تھا لیکن نہ وہ خود آرہے تھے اور نہ مجھے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ ہاں میرے دونوں بیٹوں کی باقاعدگی سے بھیجی گئی رقم سے میرا بینک بیلنس بڑھتا جا رہا تھا اوران کی بے رخی اور بے اعتنائی سے میرا دل خالی ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے ان کے پیسوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ میری خوشی تو اپنے بچوں اور ان کے بچو ں کے ساتھ رہنے میں تھی۔ حالاں کہ میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اپنا جما جمایا کاروبار چھوڑ کر انڈیا میرے پاس آکر نہیں رہ سکتے لیکن میں تو ان کے پاس جا کر رہ سکتی تھی۔ نہ معلوم وہ خود مجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے یا ان کی بیویوں کو میرا وہاں ان کے ساتھ رہنا گوارا نہیں تھا۔“

    بولتے بولتے ان کا گلا بھر آیا تھا مگر وہ خاموش نہیں ہوئیں شاید آج پہلی بار انھوں نے کسی سے اپنا درد بانٹا تھا۔

    ”تنہائی اور خاموشی مجھے ڈر انے لگی تھی، میری دل چسپی ہر چیز سے ختم ہوگئی تھی، میرے گھر کا وہ باغیچہ جس میں میرے لگائے ہوئے بیلے اور موگرے کے پھولوں کی مہک سے فضا میں ہر وقت بھینی بھینی سی خوش بو پھیلی رہتی تھی سوکھنے لگا تھا۔ دیسی گلاب کے وہ پودے بھی میری توجہ سے محروم ہو چلے تھے جن پر کھلنے والے پیازی رنگ کے پھولوں کی مہک سے میری روح تک معطّر ہو جایا کرتی تھی۔ میرے بچوں کا بچپن ان کی معصوم شرارتیں، اچھل کود اور ہنسی کی وہ آوازیں جوگھر کے ہر گوشے میں محفوظ تھیں، تصور میں مجھے اپنا چہرہ دکھا تیں تو میری بے چینی اور بڑھ جاتی۔ اپنے ہی گھر میں ایک بھٹکی ہوئی روح کی طرح میں چکراتی پھرتی۔ تب گھبرا کر میں نے وہ گھر بیچ دیا اور ساری رقم اسی ادارے کو دے دی اور میں خود بھی یہیں آگئی، کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا میرے پاس۔ میں نے سوچا یہاں میرے جیسی اور بھی عورتیں ہوں گی سب مل کر ایک دوسرے کا درد بانٹ لیں گی۔ جب سے یہاں آئی ہوں تنہائی کا احساس کافی حد تک کم ہوگیا ہے مگر دل کا درد کم نہیں ہوتا!“

    صابرہ خاتون کی آپ بیتی سن کر ناصر بہت اداس ہو گیا تھا۔ وہ خود بھی اس دنیا میں اکیلا تھا اور اکیلے پن کے درد کو بہ خوبی سمجھتا تھا۔ اس کی ماں اس کی پیدائش کے وقت ہی چل بسی تھی‘جب وہ ایک سال کا تھا تب اس کا باپ بھی ایک حادثے کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ بوڑھی دادی تھی جس نے تین سال کی عمر تک اسے اپنے سینے سے لگائے رکھا لیکن ایک دن اچانک جب دادی بھی چل بسی تو محلے کا کوئی شخص از راہِ ہمدردی اسے ایک یتیم خانے میں چھوڑ آیا جہاں اس کی پرورش ہوئی۔

    ناصر ایک ذہین اور سلجھا ہوا بچہ تھا، اس کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے یتیم خانے کے مہتمم سر فراز علی نے ذاتی طور پراس کی سرپرستی کی ذمّہ داری اپنے سر لے لی اوراس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ ناصر نے بھی ان کو کبھی مایوس نہیں کیا، تعلیمی مراحل بہ خوبی طے کیے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے صحافت کو بہ طور کیریئر چنا۔ تین سال پرنٹ میڈیا میں کام کرنے کے بعد ناصر نے الیکٹرانک میڈیا کی طرف رخ کیا اور اس میدان میں بھی اپنی محنت اور لگن سے بہت جلد اپنی شناخت قائم کر لی۔

    صابرہ خاتون سے مل کرجب ناصر لوٹا تو اس نے اپنے دل میں ایک مضبوط فیصلہ کرلیا تھا۔ اس نے ایک ہفتے کے اندر ہی ” آشیانہ “پہنچ کر صابرہ خاتون سے دوبارہ ملاقات کی اورنم ناک آنکھوں اور بھرّائی ہوئی آواز میں ان سے اپنی دلی تمنا کا اظہارکر دیا۔

    صابرہ خاتون کو اس وقت ناصر ایک معصوم بچہ نظر آیا۔ ایک لمحے کو انہیں محسوس ہوا کہ ایک اونچے پورے مرد کے اندر کا بچہ ماں کی مامتا پانے کے لیے بے قرار ہے۔ پیٹ کی اولاد نے تو آنکھیں پھیر لی تھیں لیکن دو ملتجی غیر آنکھیں ان کے چہرے پر جمی ہوئی ان سے مامتا کی بھیک مانگ رہی تھیں۔ بس وہی ایک لمحہ زخمی مامتا پر جیسے مرہم کا ٹھنڈا پھاہا رکھ گیا، صابرہ خاتون نے ناصر کی خواہش پر ہامی بھردی ۔

    ناصر نے ضابطے کے مطابق حلف نامہ جمع کرایا اور صابرہ خاتون کوماں بنا کراپنے گھرلے آیا ۔ دونوں کے بیچ کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک خوبصورت اور مضبوط رشتہ بن گیا۔ ان کو ناصر کے ساتھ رہتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے اوراب وہ ناصر کی شادی کر کے ایک ماں کا فرض ادا کرنا چاہتی تھیں۔ ایک دن جب ناصر بہت اچھے موڈ میں ان کے پاس بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا تب انہوں نے اس کی شادی کی بات چھیڑ دی۔

    ”بیٹا میں چاہتی ہوں تمہاری شادی ہوجائے‘ گھر بس جائے تمہارا۔“

    ”گھر تو بسا ہوا ہے امّاں!“

    ”کب اور کیسے؟ “ صابرہ بیگم نے حیران ہو کر ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” آپ کے آجانے سے امّاں‘ ‘ وہ شرارت پر آمادہ تھا۔

    ”بے وقوف لڑکے‘ میں تیری شادی کی بات کر رہی ہوں۔ “ ناصرکی بات سن کر وہ مسکرائے بغیرنہ رہ سکی تھیں۔

    ”دیر سے شادی ٹھیک نہیں بچّے۔ اگر تم نے کوئی لڑکی پسند کر رکھی ہو تو بتاؤ، ورنہ میں کچھ کرتی ہوں۔“

    ”ارے نہیں امّاں! میں نے کوئی لڑکی وڑکی پسند نہیں کر رکھی‘ بس آپ کو پسند کیا تھا اور لے آیا۔“ وہ بہ دستور مذاق کے موڈ میں تھا اور ہنس رہا تھا لیکن صابرہ خاتون کو سنجیدہ دیکھ کر بول اٹھا ۔”اچھا اچھا ‘ جیسی آپ کی مرضی! لیکن میری ایک شرط ہے کہ شادی آپ کی پسند سے ہوگی اورآپ کو حق ہے جس پر چاہیں قربان کر دیں مجھے‘ اُف بھی نہ کروں گا۔ “

    وہ چھیڑنے سے باز نہیں آرہا تھا۔ اس کی رضا مندی مل جانے پر صابرہ خاتون نے سرفراز علی کی بیوی کی مدد سے دو ایک لڑکیاں دیکھیں اور شہلا کو پسند کرکے بہو بنالائیں۔

    ناصر کی زندگی میں شہلا بہار بن کر چھا گئی۔ خلوتیں آباد ہوئیں تو زندگی اس کے سامنے ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ دل میں مسرت اور شادمانی کے موسم اُتر آئے، بشاشت اس کے چہرے سے عیاں ہونے لگی، اس کی زندگی میں اب خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔

    چند مہینے ہی اچھے گزرے پھر رفتہ رفتہ صابرہ خاتون کے تئیں شہلا کا رویّہ بدلنے لگا۔ اس کی نظروں میں ان کے لیے نہ احترام ہوتا نہ محبت۔ امّاں کو اس طرح نظر اندازکرتے دیکھ کر ناصرکو تشویش ہونے لگی۔ اسے شہلا کے رویے کی وجہ سے اپنے دل میں امّاں سے عجیب سی شرمندگی محسوس ہوتی۔ وہ توتصوّر میں بھی امّاں کو دکھ نہیں پہنچا سکتا تھا۔ زندگی میں ان کے آجانے سے اس نے ماں کی مامتا کو محسوس کیا تھا اور ایک ایسا رشتہ جیا تھا جس کا مزہ اس نے چکھا ہی نہیں تھا، اس کی زندگی کے اتنے بڑے خلا کو صابرہ خاتون نے اپنی بے لوث محبت سے پُر کیا تھا۔ وہ بےچین ہو اٹھا اور اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شہلا سے کھل کر بات کرے گا اور اسے سمجھائے گا۔ امّاں سے اپنے رشتے کی نوعیت بتائے گا۔ ناصر کو یقین تھا کہ شہلا پڑھی لکھی لڑکی ہے احساس دلانے پراپنے رویے پر ضرورغور کرے گی۔ لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی ناصر نے اس سے کھل کر بات کی تو وہ بھی کھل کر سامنے آگئی، دل میں صابرہ خاتون کو لے کر جو غبار بھرا ہوا تھا ایک جھٹکے میں نکال باہر کیا۔

    ”ناصر اچھا ہوا تم نے ہی بات چھیڑ دی۔ میں خود تم سے بات کرنے والی تھی۔“

    ”ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اگر امّاں سے تمہیں کوئی شکایت ہو تو مجھے بتاﺅ۔ یوں تووہ تم سے اور مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں سارا گھر سنبھال رکھا ہے انہوں نے پوری طرح آزاد ہو تم۔ وہ اسے احساس دلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن شہلا تو جیسے ناصر کی کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی اپنی ہی کہے جا رہی تھی۔

    ”ناصر حیرت ہوتی ہے مجھے تمہاری حرکتیں دیکھ کر۔ تمہارا سارا دھیان صرف امّاں کی خوشی میں ہی رہتا ہے۔ ۔چہرہ پڑھتے رہتے ہو تم ان کا۔ میں تو تمہیں نظر ہی نہیں آتی۔ لوگ سگی ماؤں کی اتنی پرواہ نہیں کرتے جتنی تم اس غیرعورت کی کرتے ہو۔ اور تم کوئی بچّے تو تھے نہیں کہ تمہیں ماں کی اتنی ضرورت تھی کہ اپنی ماں نہیں تھی تو اولڈ ایج ہوم سے ہی ماں کے نام پراٹھا لائے ایک عورت۔“

    وہ ایسا زہر اگلے گی ناصر کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ گنگ سا بیٹھا وہ اسے دیکھ رہا تھا مگرشہلا کے ترکش میں ابھی کچھ تیر باقی تھے۔

    ”تنگ آگئی ہوں میں ان کی دخل اندازی سے۔ ہر وقت نصیحتیں، ہر وقت تاکیدیں، ناصر کو یہ پسند ہے، وہ پسند نہیں ہے۔ ناصر لاابالی سا ہے، اس کی بکھری چیزیں سمیٹ کر رکھ دیا کرو۔ اس کی پسند کی ایک ڈش بنا لیا کرو۔ اس کی الماری ٹھیک کردیا کرو، حد ہوگئی ہے ناصر۔ اچھا یہ بتاﺅ وہ ہوتی کون ہیں مجھ پر اس طرح حکم چلانے والی؟ بس ایک منھ بولا رشتہ ہی تو ہے تمہارے اور ان کے درمیان۔ اور سنو، وہ جس طرح تمہارے اوپر حکم چلاتی ہیں مجھے وہ بھی پسند نہیں ہے۔ تمہیں نہیں لگتا کہ حد پار کر رہی ہیں وہ؟“

    ”خاموش ہو جاﺅ! اب ایک لفظ بھی آگے مت بولنا۔‘‘ ناصرچیخ پڑا۔ ’’کتنی بے حس ہو تم! جذبات سے عاری عورت۔ اور کیسی تعلیم حاصل کی ہے تم نے کہ ذرا تمیز نہیں ہے تمہیں۔بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، ادب لحاظ سب طاق پر رکھ دیا ہے۔ کبھی سوچا تم نے کہ تمہارا یہ رویّہ کتنا دکھ دیتا ہوگا انہیں؟“

    ناصر کے اندر ایک درد سا اتر آیا لیکن شہلا کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی اسے توجیسے اپنے اور ناصر کے درمیان صابرہ خاتون کا وجود برداشت ہی نہیں تھا ۔امّاں کو لے کردونوں کے بیچ سرد جنگ شروع ہو گئی آپس میں بات چیت بھی کم ہو گئی، دونوں کھنچے کھنچے سے رہنے لگے۔ کئی دن یوں ہی گزر گئے۔

    امّاں کی وجہ سے ناصر بات کو زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا تھا، سو اس نے خود ہی شہلا سے بات کرنے کی پہل کر دی۔ شہلا بھی شاید انتظار میں ہی تھی، اس نے بھی زیادہ نخرے نہیں دکھائے۔ ماحول میں کچھ اچھی سی تبدیلی ہوئی تو ناصر کو بھی سکون کا احساس ہوا اورحالات کے بہتر ہونے کی آس بھی بندھ گئی۔

    اس دن جب ناصر دفتر سے لوٹا تو خلافِ معمول شہلا کو اچھے موڈ میں دیکھ کر اسے اطمینان سا ہوا۔ سوچنے لگا کہ شاید شہلا کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں پہنچا تو شہلا کو اپنا منتظر بھی پایا۔ ادھر کافی دنوں سے وہ دیکھ رہاتھا کہ جب وہ بیڈ روم میں آتا تو شہلا اسے سوئی ہوئی ملتی، نہ معلوم سو جاتی تھی یا سوجانے کا ناٹک کرتی تھی۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوگیا۔

    ’’کیا بات ہے بھئی آج تو تم جاگ رہی ہو، کیا ہمارا انتظار ہو رہا تھا ؟“ اس نے مسکراتے ہوئے شریر انداز میں شہلا کی طرف دیکھا۔

    ”ہاں ناصر! میں کئی دن سے سوچ رہی تھی کہ تم سے بات کروں لیکن تم ناراض تھے تو میری ہمت ہی نہیں ہوئی۔“ بڑی ادا سے اس نے ناصر کی طرف دیکھا۔

    ” ہاں تھا تو ناراض۔ تم منا لیتیں۔ میں تو منتظر تھا۔ خیر کوئی بات نہیں میں منا لیتا ہوں تمہیں۔ بتاؤ کیا بات ہے؟“ وہ ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

    ” ناصر غلطی میری بھی ہے اتنے دنوں میں بھی تم سے دور دور رہی۔“

    شہلا کی اس تبدیلی پر ناصرکو حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہو رہی تھی۔ و ہ اسے اب اور شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھاوہ تو بس یہی چاہتا تھا کہ شہلا ماں کے رشتے کی نوعیت کو سمجھ لے ان کی عزت کرے ان سے محبت کرے بس!

    ”ہاں تم کیا کہنا چا رہی تھیں کہو نہ۔ دل کی بات دل دار سے کہنے میں اتنی شرم؟“ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ ایک قاتل ادا سے شہلا نے ناصر کے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں اور اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔

    ”ناصر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم امّاں کو واپس ’آشیانہ‘ پہنچا دو؟“

  • افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    گھروں میں کُتب بینی کو رواج دینا اور مطالعے کا ماحول بنانا کتنا اہم، ضروری اور خواب ناک ہے، اس کا اندازہ ڈاکٹر افشاں ملک کی مختصر کتھا پڑھنے سے ہوتا ہے۔کس طرح ایک گھر کے جیتے جاگتے انسان اپنے پرکھوں سے مِل آتے ہیں، اپنی ثقافت کی خوش بو گھر کی مٹی میں سونگھ لیتے ہیں اور کئی زمانے آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔

    افشاں ملک کا تعلق علی گڑھ سے ہے، گھرانے میں کئی پُشتوں میں کوئی ادیب، شاعر نہیں گزرا، لیکن دادا، پَر دادا کا ذوقِ مطالعہ عروج پر رہا۔ افشاں کے گھرانے کی زندگی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ایک وراثت ہے جو بہترین ہے، افضل ہے، جسے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا جانا چاہیے، یہ وراثت کتابیں اور مطالعہ ہے۔

    ڈاکٹر صاحبہ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی اور ایک دن چھپکے سے افسانوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ وہ بیس سال سے انسان اور اس کے فلاحی رشتوں کو مدِ نظر رکھ کر افسانے لکھ رہی ہیں۔ لیکن کیا ’انسان‘ کہہ کر بات ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، یہ ’انسان‘ تو خود بے پناہ خانوں میں منقسم ہے، طرح طرح کے تعصبات میں جکڑا ہوا ہے۔


    افشاں ملک کا افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘ پڑھیں


    [bs-quote quote=”افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/08/afshan-Malik-2.jpg”][/bs-quote]

    اردو افسانہ اس وقت بھارت اور پاکستان میں بہت مقبول صنف بن چکی ہے۔ بے شمار نئے اور جوان خون کے حامل افسانہ نویس سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ کیا وہ ’انسان‘ کے گوناں گوں تعصبات کو درست طور پر سمجھ کر، اسے اس کے نظریات سمیت افسانوں کی زینت بنا رہے ہیں یا مصنف خود اپنے تعصبات اور نظریات کے پرچار کے لیے کردار تخلیق کر رہے ہیں۔

    افشاں کا خیال ہے کہ موجودہ عہد کا انسان روزی روٹی کی فکر سے زیادہ فرقہ پرستی، دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا اسیر ہے۔ خاتون افسانہ نویس کہتی ہیں کہ وہ اس انسان کو اس تشویش ناک صورتِ حال سے باہر نکالنے کے لیے افسانے لکھتی ہیں۔

    نعیم بیگ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بینکار اور اردو انگریزی ناول نگار ہیں۔ مقامی اور خطے کی سیاست اور جنگی صورتِ حال پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی ثقافتی یلغار، ہندوستان کی تقسیم، عالمی جنگوں کے اثرات اور انگریز کے چھوڑے ہوئے جاگیر داری نظام نے ہماری ثقافت کے خال و خد کو داغ دار اور دھندلا کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں افشاں ملک اپنے افسانوں کے ذریعے اپنی مٹی کی خوش بو محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    [bs-quote quote=”مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ’اضطراب‘ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو افشاں ملک کے قلم سے ترتیب پایا ہے۔ اس مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں۔ آپ اکثر ڈائجسٹوں میں کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں، یہ کہانیاں ایک ہی موضوع ’محبت‘ کے گرد گھومتی ہیں، محبت بھی مرد اور عورت والی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں قاری کو زندگی کے کسی گہرے اور سنجیدہ تجربے سے روشناس نہیں کراتیں۔


    انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول


    افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مرد عورت، میاں بیوی، مرد مرد، اور عورت عورت کے تعلقات کی مختلف پرتوں کے ساتھ ساتھ سماجی سیاسی شعور بھی مل جاتا ہے۔ ان کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک عورت ہوتے ہوئے افسانے میں عورت کے کردار کو پیش کرتے ہوئے تانیثی (عورت سے متعلق) تعصبات کا شکار نہیں ہوتیں۔

    اضطراب کے افسانے پڑھتے ہوئے آپ کو لطف بھی آئے گا اور دماغ کے کینوس پر کچھ سنجیدہ نقوش بھی مرتب ہوں گے۔ ان افسانوں میں چند کے نام یہ ہیں: گورِ غریباں، افتادہ اراضی، گود لی ہوئی ماں، پینٹنگ، اور آسیب زدہ۔