Tag: اردو اقتباسات

  • کبیر: ہندو انھیں اپنا بھگت اور مسلمان صوفی بزرگ مانتے ہیں!

    کبیر: ہندو انھیں اپنا بھگت اور مسلمان صوفی بزرگ مانتے ہیں!

    بھگت کبیر ہندوستان کے مشہور صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ مسلمان اور ہندو دونوں ان کو روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اس دور میں فرسودہ روایات، ذات پات کی وجہ سے تفریق اور چھوت چھات میں پڑے لوگوں کو پیار محبت سے رہنے کا درس دیتے رہے اور توہم پرست معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے عمر گزار دی۔

    ہرش کے بعد ساڑھے پانچ سو سال تک ہندوستان سیاسی انتشار کا شکار رہا۔ سلطنت دہلی کے قیام نے اس انتشار کو ختم کر کے شمالی ہند کو ایک سیاسی وحدت کی شکل دی۔ اس نئی سلطنت کے بانی اپنے ساتھ ایک فکر انگیز اور حیات آفرین مذہبی اور معاشرتی نظام لائے تھے۔ اس لئے ہندوستان کی تہذیب کا جزو نہ بن سکے۔ اہلِ ہند انتشار اور پرگندگی کے باوجود پرانی شان دار تہذیبی روایات رکھتے تھے۔

    سیاسی شکست کی وجہ سے یہ روایات انہیں جان سے زیادہ عزیز ہوگئی تھیں اور بہر قیمت ان کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ ان حالات میں نہ تو ہندو مسلمانوں میں جذب ہو سکتے تھے اور نہ مسلمان ہندوؤں میں بلکہ فضا اس حد تک ناسازگار تھی کہ ابتداء میں وہ ایک دوسرے کو متاثر بھی نہ کر سکے۔ اس بیگانگی اور دوئی کو دور کرنے کا سہرا ان صوفیوں کے سر ہے جنہوں نے مذہب کی ظاہری صورت اور طریقِ تجارت کے اختلاف کو نظر انداز کر کے دونوں مذہبوں کے باطنی شعور کو اپنایا اور رواداری، خدمتِ خلق، انسان دوستی اور صلح کل کے مسلک کو عام کر کے مذہبی اور تہذیبی مصالحت کی خوشگوار فضا پیدا کی۔

    بھگتی تحریک نے اپنے مخصوص رنگ میں ان روایات کو اور آگے بڑھایا، اور سماجی اور مذہبی زندگی کی ہر سطح پر اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی وہ مبارک کوشش کی جس سے ہندوستانی تہذیب کو گنگا جمنی روایات کے نشوونما میں بڑی مدد ملی۔

    جنوبی ہند میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ان کے مذہبی عقائد کی اشاعت جن میں وحدانیت، اخوت اور مساوات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اور بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے مذہبی بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی اور بھگتی تحریک کا آغاز ہوا۔ گیارھویں صدی میں سری رنگم کی خاک اٹھنے سے والے عظیم مفکر اور مصلح رامانجا اچاریہ نے بھگتی کے عقیدے کو منظم اور مربوط فلسفے کی شکل دی۔ انھیں کے سلسلہ کے پانچویں بزرگ راما نند ہیں جو چودھویں صدی کے آخر اور پندرھویں صدی کی ابتداء میں گزرے ہیں۔ شمالی ہند میں بھگتی کے عقیدے کو انھیں کی وجہ سے فروغ ہوا۔ انھوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ ذات پات کے نظام کی مخالفت کی اور تمام ذاتوں فرقوں اور مذہبوں کو اشتراک و اتحاد کی دعوت دی۔ ان کے ممتاز چیلوں میں برہمنوں کے علاوہ ایک جاٹ، ایک چمار، ایک نائی اور ایک مسلمان جولاہا بھی تھا۔ یہی مسلمان جولاہا کبیر ہے۔

    بھگتی تحریک کے رہنماؤں میں جو شہرت، مقبولیت اور ہر دلعزیزی کبیر کے حصے میں آئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ ان کے دوہے آج بھی ہندوستان بھر میں گھر گھر پڑھے جاتے ہیں اور ہندو مسلمان، عورت مرد، بچے، بوڑھے، امیر غریب درویش اور دنیا دار سب ہی انھیں اپنی اپنی بول چال میں بے تکلفی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جو کبیر ایسے جانے پہچانے ہیں ان کی زندگی کے حالات کہانیوں، اور روایتوں کے روپ بہروپ میں یوں کھو گئے ہیں کہ ان کے بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ کہنا نہایت مشکل ہے۔ یہاں تک کہ ان کی پیدائش اور موت کی تاریخوں کا بھی صحیح صحیح پتہ نہیں، تاہم عام طور پر یہی مانا جاتا ہے کہ وہ ۱۳۹۸ء میں پیدا ہوئے۔ ایک سو بائیس سال کی عمر پائی اور ۱۵۱۸ء میں انتقال کیا۔

    کبیر کی پیدائش کے متعلق مشہور روایت یہ ہے کہ بنارس کا ایک مسلمان جولاہا نبیرو اپنی بیوی نیما (نعیمہ) کے ساتھ تالاب پر سے گزر رہا تھا۔ تالاب کے کنارے اسے ایک نومولود بچہ پڑا ملا، اس کے اپنے اولاد نہ تھی، اس لئے بچہ کو اٹھا لایا اور پرورش کرنے لگا۔ قاضی نے کبیر نام رکھا اور اسی نام سے یہ بچہ مشہور ہوا۔

    بعض کہتے ہیں کہ سوامی رامانند نے ان جانے میں ایک بیوہ برہمنی کو دعا دی کہ تجھے بیٹا ہو۔ دعا قبول ہوئی، بیوہ بدنامی کے ڈر سے بچہ کو تالاب کے کنارے پھینک آئی جہاں سے نبیرو اسے اپنے گھر اٹھا لیا۔

    جوالاہے نے اس لاوارث بچے کو بڑے پیار سے پالا پوسا، لیکن اس کے گھر تعلیم و تربیت کیا ہو سکتی تھی۔ کبیر ان پڑھ ہی رہے، باپ نے اپنے فن میں طاق کر دیا تھا۔ کبیر بھی کپڑا بنتے اور بازار میں بیچ آتے۔ رامانند کے مرید ہونے کے بعد بھی انھوں نے اپنے پیشے کو نہیں چھوڑا اور دین اور دنیا کو ایک ساتھ نباہتے رہے۔

    کہتے ہیں لڑکپن ہی سے وہ حق و صداقت کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ ذات بات کا مد بھید، مذہب کا اختلاف، رنگ ونسل کا امتیاز، رسمی عبادت کے طور طریق، رسم و رواج کے بندھن، روایات اور توہمات کی غلامی، انھیں بالکل پسند نہ تھی۔ انہیں یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا تھا کہ خدا کے نام پر لوگ جھگڑتے اور مذہب کی دہائی دے کر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ انسان، انسان سے محبت نہیں کرتا بلکہ اس کو ملچھ اور شودر کا نام دے کر حقیر اور ذلیل کرتا ہے۔ کوئی اینٹ پر پتھر کو پوجتا ہے اور کوئی اپنے پندار کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ خدا اور اس کے بندوں کی کسی کو پروا نہیں، عشق اور خدمت خلق کے جذبے سے سب کے دل محروم ہیں۔

    انھیں خیالات کو وہ شعر کا جامہ پہن کر لوگوں کو سناتے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن لوگ ان کا مذاق اڑاتے اور ان کی بات پر کان نہ دھرتے۔ وہ کہتے تھے کہ بے پیرے کی بات کی کیا اہمیت۔ کبیر کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور وہ پیر کی تلاش میں نکل پڑے۔ بہت سے سنتوں اور اہلُ اللہ سے فیض اٹھایا لیکن جس چیز کی انہیں تلاش تھی وہ کہیں نہ ملی۔ بالآخر رامانند جی کے آستانے پر حاضری دی اور من کی مراد مل گئی۔ مسلمان کبیر پنتھیوں کا خیال ہے کہ وہ مانک پور کے شیخ تقی سہروردی کے مرید تھے۔ واقعہ کچھ ہی ہو۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبیر کے ہاں ویدانتیوں اور صوفیوں کے عقاید شیر و شکر ہو گئے تھے۔ انھوں نے اسلام سے بھی اکتساب کیا تھا اور ہندومت سے بھی فیض اٹھایا تھا۔ سنت سادھوؤں کے ساتھ بھی دشت و بیابان کی خاک چھانی تھی۔ اور اولیاء اللہ کے حلقے میں بھی بیٹھے تھے۔ رام نام کی جپ بھی کی تھی اور اسمِ اعظم کا ورد بھی کیا تھا۔ اور اس نتیجے پر پہونچے تھے کہ ان میں سے کسی کے درمیان تضاد نہیں بلکہ وہ ایک ہی تصویر کے دو رخ اور ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلک کے اختلاف کی اہمیت ان کی نظر میں قابلِ اعتنا نہ رہی بلکہ مقصد اور منزل کو وہ سب کچھ جاننے لگے تھے۔

    ان کی بیوی کا نام نیرو بتایا جاتا ہے جس کی پیدائش اور مذہب کی کہانی بھی کبیر کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ تیس سال کی عمر میں کبیر گھومتے گھامتے گنگا کے کنارے ایک بن کھنڈی سادھو کی کٹیا پر پہونچے، سادھو مر چکا تھا، اور کٹیا میں ایک نوجوان لڑکی اکیلی رہتی تھی۔ اس لڑکی نے بتایا کہ ایک دن سادھو گنگا ہی میں اشنان کر رہا تھا۔ ایک ٹوکری بہتے بہتے اس کے بدن سے آن لگی۔ سادھو نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں ایک بچہ کپڑوں میں لپٹا ہوا تھا۔ اس نے گھر لا کر بچے کی پرورش کی اور اس کا نام لوئی رکھا۔

    کبیر لوئی کو اپنے ساتھ لے آئے۔ اس کے بطن سے کمال اور کمالی پیدا ہوئے۔ کمال سے کبیر خوش نہ تھے اس لئے کہ وہ دنیا دار تھا۔

    مرنے سے پہلے کبیر بنارس سے مگہر چلے گئے تھے۔ عوام کا عقیدہ ہے کہ جو کاشی میں مرتا ہے اس کی نجات ہو جاتی ہے، لیکن مگہر میں مرنے والے کا دوسرا جنم گدھے کا ہوتا ہے۔ کبیر توہمات کے خلاف تھے۔ اس لئے انھوں نے بنارس کے بجائے مگہر میں مرنے کو ترجیح دی۔ وہ خود کہتے ہیں: کاشی ہو یا اوسر مگہر مجھے پروا نہیں۔ میرے دل میں رام بسا ہوا ہے۔

    ان کی موت کے واقعہ کے گرد بھی روایتوں کا حسین ہالہ ہے۔ کہتے ہیں کہ کبیر مرے ہیں تو ان کے ہندو اور مسلمان پیروؤں میں جھگڑا ہو گیا, ہندو لاش کو جلاتا اور مسلمان دفن کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں کسی کی آواز آئی۔ چادر کے نیچے تو دیکھو، وہاں کیا دھرا ہے، لاش پر سے چادر بنائی گئی تو بس پھولوں کا ایک ڈھیر تھا۔ آدھے پھول مسلمانوں نے مگہر میں دفن کیے اور آدھے پھول ہندو بنارس لے آئے اور انھیں جلایا۔ راکھ جہاں دفن کی گئی تھی۔ وہاں ایک مٹھ بنایا گیا ہے جو کبیر چورے کے نام سے مشہور ہے۔

    کبیر نے اپنی تعلیم کو منظم شکل دی اور نہ کوئی علیحدہ فرقہ بنایا۔ اپنے خیالات اور جذبات کو وہ گیتوں اور دوہوں کے ذریعہ عوام تک پہونچاتے تھے۔ جو سینہ یہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں۔ بعد میں اس کلام کے کئی مجموعے مرتب اور شائع ہوئے بنے ان کی تعداد (۲۱) اور بعضے (۸۲) بتلاتے ہیں۔

    (مصنف حسینی شاہد کی کتاب امر جیون سے منتخب کردہ جو ہندوستان کے مشاہیر کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا اوّلین ایڈیشن 1964 میں شایع ہوا تھا)

  • تان رس اور میرزا بابر بہادر کے شکاری کتّے

    تان رس اور میرزا بابر بہادر کے شکاری کتّے

    ہندوستان کی سرزمین پر سُروں کی بادشاہت اور ساز و آواز کا صدیوں سے راج رہا ہے۔ یہاں‌ بیسویں صدی کے وسط تک کلاسیکی گائیکی کے میدان میں کئی سریلے اور باکمال ہو گزرے ہیں۔ یہ موسیقار اور گویّے سلاطینِ وقت، نوابوں اور امراء کے درباروں‌ سے منسلک رہے اور عوام میں‌ بھی مقبول تھے۔ انہی میں ایک نام تان رَس کا بھی ہے جو ایک مشہور ہندوستانی گویّے تھے۔

    اپنے فن میں‌ طاق اور اپنے انداز میں‌ یگانہ تان رس کا اصل نام قطب بخش تھا، اور تان رس ان کا شاہی خطاب۔ مغل دور کے اس گویّے کا یہ واقعہ ان کے فن و انداز سے متعلق نہیں بلکہ شاہزادوں اور شاہی خاندان کی اہم شخصیات کے ہنسی ٹھٹھے اور اپنے وظیفہ خواروں‌ سے چھیڑ چھاڑ کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ یہ دل چسپ واقعہ مرزا احمد سلیم شاہ عرش تیموری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔ بائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں قلعے میں دیوان عام کے پیچھے زنانہ محل واقع تھا، جس کو بیٹھک کہتے تھے اس کے قریب ایک بڑا حوض تھا جس پر سنگِ سرخ کا قد آدم کٹہرا لگا ہوا تھا۔

    حوض کے ایک طرف کوٹھے اور دوسری طرف میرزا بابر فرزند اکبر شاہ ثانی کی خوبصورت کوٹھی بنی ہوئی تھی اور وہاں سے ذرا ہٹ کر حضرت ابو ظفر ولی عہد بہادر کا محل تھا۔ وہاں تان رسؔ خاں بیٹھے گائنوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جب تعلیم ختم کر چکے تو چلنے کا ارادہ کیا۔ دریچے میں سے دیکھا کہ شاہزادۂ آفاق میرزا بابر بہادر حوض پر کھڑے ہیں اور دو بڑے کتّے جو صورت شکل اور قد و قامت میں مثل شیر کے ہیں، ساتھ ہیں۔

    تان رسؔ خاں ان کتوں کے خوف سے بڑی دیر تک باہر نہ نکلے لیکن جب بہت دیر ہوگئی تو مجبوراً محل سے باہر آئے اور اس زمانے کے قاعدے کے مطابق منہ پر کپڑا ڈال کر میرزا بابر بہادر سے چھپ کے نکلے مگر صاحبِ عالم عالمیاں کی نگاہ پڑگئی اور للکار کر کہا، ’’کیوں بے تینو!‘‘

    انہوں نے فوراً عرض کیا، ’’غریب پرور!‘‘

    صاحبِ عالم نے فرمایا، ’’کیوں صاحب! اب تو تم الگ الگ جانے لگے۔‘‘

    انہوں نے عرض کیا، ’’حضور! فدوی کی کیا مجال، خانہ زاد نے دیکھا نہیں تھا۔‘‘

    فرمایا، ’’ہاں… اچھا!‘‘

    یہ کہہ کر ایک کتّے کو چھچکارا اور دوسرے کو بھی للکارا۔ بس کیا تھا گویا کتّوں کے بدن میں بجلی کوند گئی۔ نہایت اضطراب کے ساتھ ادھر اُدھر پھرنے لگے۔ کتّے آدمی کی باؤلی کھائے ہوئے نہ تھے، ورنہ اس دن موت تو آنکھوں میں پھر ہی گئی تھی۔ آخر کار تان رسؔ خاں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، جب جا کر کہیں چھٹکارا ملا اور فرمایا، ’’اچھا جاؤ آئندہ خیال رکھنا۔‘‘

  • مولوی، مولانا اور مسٹر

    مولوی، مولانا اور مسٹر

    پکالیں پیس کر دو روٹیاں تھوڑی سی جو لانا
    ہماری کیا ہے اے بھائی نہ مسٹر ہیں نہ مولانا

    مجھ مسکین بے نوا کے حسب حال تو مولانا اکبر حسین کا وہ شعر ہے جو اس تحریر کا زیب عنوان ہے اور یہ بر سبیل انکسار نفس نہیں، بلکہ از راہ حقیقت۔ لیکن وائے بر حال ان حضرات کے جن کے ناموں کے پہلے دکن ریویو میں مولوی کا لفظ لکھا دیکھ کر ہمارے دیرینہ کرم فرما مولانا وبالفضل اولیٰنا مولوی ثناء اللہ صاحب ایڈیٹر اہل حدیث کو اس قدر طیش آیا کہ آپ نے ایک طویل مضمون ان کی شان میں لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی۔

    مولانا نے اپنی شان ثقاہت کو بالائے طاق کر بہ تقلید روش عوام کالانعام اپنے مضمون میں جا بجا اشعار بھی درج کئے ہیں جن کا مقصود ان کے زعم میں اظہار شوخی یا تفنن طبع ہو تو لیکن ہماری دانست میں اس مضمون کے حصہ نثر کا سب سے بڑا وصف اس کی تلخی اور حصہ نظم کی سب سے بڑی صنعت اس کی بے نمکی ہے۔

    معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی شان جلالی کو سب سے زبردست تحریک اس خیال نے پہونچائی کہ مولوی کا لقب و عرف عام میں ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو زبان عربی میں دینی معلومات پر عبور رکھتے ہوں کیوں ایسے لوگوں کے نام کے ساتھ استعمال کیا گیا جن پر مولوی کی یہ پرانی دقیانوسی تعریف صادق نہیں آتی۔ چنانچہ اسی حالت عتاب و بر افروختگی میں آپ دکن ریویو کے مولویوں کی نسبت فرماتے ہیں:
    گر مولویت ہمیں است کہ ایشاں وارند
    وائے گر پس امروز بو و فردا

    بہتر ہوتا کہ مولانا شاعر کے مشہور شعر
    اگر اسلام ہمیں است کہ واعظ دارد
    وائے گر از پس امروز بود فردائے

    میں اپنے مجتہدانہ تصرف سے فن عروض کو یوں زیر بار احسان نہ فرماتے۔ اور سکتہ متواتر و زحاف مسلسل کے جدید صنائع کی ایجاد سے مشرقی شاعری کو جو نکتہ چینوں کی نظروں میں پہلے ہی تصنع کے بوجھ کے تلے بہت کچھ دبی ہوئی ہے اور زیادہ گرانبار نہ کرتے۔

    چونکہ ہمارا عمل ظن المومنین خیرا کے اصول پر ہے اس لئے ہم یہ تو نہ کہیں گے کہ مولانا کے مضمون زیر بحث کا تعریضی حصہ اس معتدل نکتہ چینی کا جواب ہے جو اسلام نمبر سلک اوّل میں رحمۃ للعالمین کی شرح کرتے وقت ہم نے مولانا کی مراتب فضیلت و مدارج مولویت کا ادب قائم رکھ کر کی تھی خواہ ہمارے پاس اصول مذکور کی عمومیت میں شان استثنا پیدا کرنے کے لئے یہ دلیل موجود ہی ہو کہ اس سے پہلے دکن ریویو میں لفظ مولوی کا استعمال علی الرغم استدلال مولانا ہوا ہے۔ لیکن مولانا کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوا البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ مولانا نے اس لفظ کو ایک خاص گروہ اور ایک خاص طبقہ سے مخصوص کرنے میں اس بخل سے کام لیا ہے جس کی ہمیں ان کی سی روشن خیال اور زمانہ شناس عالم سے توقع نہ تھی۔ زمانہ سدا ایک نہیں رہتا۔ جو حالت قدیم سے چلی آرہی تھی ممکن نہیں کہ وہ بدستور قائم رہے اور زمانے کے گوناگوں انقلابات کے سانچہ میں ڈھل کر نئی شکل نہ پیدا کرے۔

    جہاں نے ساز بدلا ساز نے نغموں کی گت بدلی
    گتوں نے رنگ بدلا رنگ نے یاروں کی مت بدلی
    فلک نے دور بدلا دور نے انسان کو بدلا
    گئے ہم تم بدل قانون بدلا سلطنت بدلی
    (اکبر الہ آبادی)

    اب وہ وقت آگیا ہے کہ پرانے رسمی عقیدے چھوڑے جائیں اور نئے عقائد زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں کے لحاظ سے قائم کئے جائیں۔ اور انہیں ضرورتوں اور مصلحتوں کا ایک اقتضا یہ بھی ہے کہ لفظ مولوی جس کا اطلاق پہلے صرف عربی جاننے والوں پر ہوتا تھا تعلیم یافتہ گروہ کے ان مسلمان افراد پر ہو جن کی تعداد بفضل خدا روز بہ ترقی کر رہی ہے اور جو اپنے ناموں کے ساتھ لفظ مسٹر کا یورپین اور بدیہی دم چھلا لگانے کے مقابلہ میں اپنی ہی زبان کا کوئی لفظ استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

    لفظ مولوی کی صرفی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اصل میں مولائی تھا جس کے معنی تھے میرے آقا۔ لیکن بوتہ تعلیل میں پگھل کر مولوی ہوگیا اور عرف عام کی توجہ سے پیرایۂ معنی سے عاری ہو کر یہ خود تو صدرہ اور شمس بازغہ کی رٹنے والوں کا علم ہوگیا اور ریائے متکلم علم بردار بن گئی ۔اس سے واضح ہوگا کہ مولوی محض ایک اعزازی لقب تھا جس کا استعمال مخاطب یا غائب کے نام کے ساتھ بلحاظ اوس کے علو شان کے تکریماً کیاجاتا تھا، عام اس سے کہ وہ شان دینی ہو یا دنیوی۔ چنانچہ اب تک بھی سلطان مراکو مولائی کہلاتے ہیں۔ اور سلطان المعظم کو بھی مولانا کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ البتہ چونکہ اسلام نے ہمیشہ علم و فضل کا بہت بڑا مرتبہ مانا ہے اسی لئے لفظ مولوی خصوصیت کے ساتھ تعلیم یافتہ اشخاص کے لئے استعمال ہونے لگا۔ اور چونکہ تعلیم کی حصول کا ذریعہ مسلمانوں کے لئے زبان عربی ہی تھی اس لئے مولوی وہی کہلاتے تھے جو عربی میں دستگاہ رکھتے تھے۔

    لیکن اس زمانہ میں جب کہ حصول علم کے ذرایع عربی ہی تک محدود نہیں جب کہ اردو ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی اور ملکی زبان بن کر روز افزوں ترقی کر رہی ہے، جب کہ انگریزی فارسی، عربی اردو ایک مسلمان نوجوان کی تعلیم میں منفرداً یا مجتمعا کافی حصہ لے رہی ہیں۔ جب کہ لسانی عصبیت کا تقاضا ہورہا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ملکی زبان میں انہیں زبانوں کے الفاظ کی آمیزش جائز رکھی جائے جن سے اس کا زیادہ قریب کا رشتہ ہے ۔ لفظ مولوی کو صرف ان چند لوگوں کے لئے مخصوص کر دینا جو ضرب یضرب ضرباً کی حد سے ایک انچ آگے نہ بڑھ سکے ہوں اس لفظ پر سخت ظلم کرنا ہے۔

    ہمارے اس بیان سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم خدا نخواستہ عربی کے مخالف ہیں۔ گو ہم خود شومی قسمت سے اس زبان میں اتنی مہارت نہیں رکھتے کہ مولانا ابوالوفا کے معیار کے لحاظ سے لقب مولوی کے مستحق قرار پا سکیں لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جس شخص کو انگریزی کے ساتھ عربی نہیں آتی وہ صحیح معنوں میں تعلیم یافہت نہیں کہاجاسکتا۔ انگلستان میں تعلیم یافتہ ہونے کے لئے فرانسیسی و لاطینی جاننا لازمی ہے ۔ دنیائے اسلام میں یہی لزوم عربی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، لیکن اس سے پھر بھی یہ نہیں لازم آتا کہ مولوی کا اعزازی و تکریمی لقب کسی مسلمان گریجویٹ یا انڈر گریجویٹ یا کسی اور لکھے پڑھے مسلمان کو نہ دیا جائے ۔ ہماری رائے میں وہ وقت آگیا ہے کہ مولویت اور عربیت میں تفریق کردی جائے ۔ دونوں لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ نئی تعلیم یافتہ جماعت میں کثرت سے ایسے لوگ گنائے جا سکتے ہیں جو مسٹر کہلانا پسند نہیں کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے لئے کون سا اعزازی لقب تجویز کیا جائے ۔ اردو میں صرف دو لفظ ایسے ہیں جو موزوں طور پراس ضرورت کو رفع کرتے ہیں۔ منشی اور مولوی۔ ان دونوں میں زیادہ جامع مولوی ہے۔ منشی سے انشا پرداز مراد ہے۔

    مولوی سے مراد ہے مخدومی اور اس لئے وہ انگریزی مسٹر کا صحیح مرادف و بدل ہوسکتا ہے۔ لفظ مسٹر کی تاریخ بھی انگریزی میں وہی ہے جو عربی میں مولوی کی ہے۔ یہ پہلے ماسٹر تھا جس کے معنی مالک یا آقا کے ہیں۔ بدلتے بدلتے مسٹر ہوگیا۔ انگلستان کی قومی یک رنگی و یکجہتی کو دیکھئے کہ مسٹر کے لقب کا مستحق ادنی سے اعلیٰ تک اپنے اپنے طبقہ میں ہر شخص ہے ۔ جان مارلے با ایں ہمہ جلالت قدر و تبحر علمی مسٹر کہلاتے ہیں اور ایک ادنی درجہ کا جاہل گورا جس کا باپ لندن کی گلیوں میں بوٹ صاف کرتے کرتے مر گیا وہ بھی مسٹر ہی کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔

    ہمارے ملک میں ابھی تک اتنی آزادی نہیں آئی اور اس کے علاوہ لفظ مولوی کا پرانا مفہوم لوگوں کے ذہن میں اس قدر راسخ ہوگیا ہے کہ ابھی توقع نہیں ہے کہ اس کا استعمال ہر کس و ناکس کے نام کے ساتھ کیا جائے ۔ لیکن جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں وہ وقت ضرور آگیا ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان عام اس سے کہ وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں آپس میں ایک دوسرے کو مولوی کے لقب سے مخاطب کیا کریں۔ ریاست حیدرآباد دکن میں یہ راز اچھی طرح سمجھ لیا گیا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ اس بارہ میں ہندوستان کے دوسرے حصے اس کی تقلید نہ کریں۔

    مولانا ابو الوفا اور ان کے ہم خیال علما اگر ہماری اس تحریر کو اپنے حقوق میں غاصبانہ دست اندازی سے تعبیر کریں تو ہم ان کی خدمت بابرکت میں نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ ان کے مقدس گرو کے لیے مولانا اور علماء کے مہتم بالشان القاب موجود ہیں جن کے استعمال میں ہم عامیوں اور جاہلوں کی مجال نہیں کہ ان کے شریک و سہیم ہوسکیں۔ مولوی میں ی صیغہ واحد متکلم کی ہے اور اگر ایک شخص دوسرے شخص کو مولوی کہے تو اخلاق محمدی کے لحاظ سے اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی قباحت ہی نہیں بلکہ ہر طرح اولیٰ و انسب ہے ۔ بر خلاف اس کے مولانا میں نا جمع متکلم ہے۔ اور اس کا استعمال اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مخاطب مخدوم انام ہے اور یہ ایک ایسا درجہ ہے جو حقیقت میں علمائے کرام ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ طبقہ علما کے لئے علامی و فہامی اور حکیم و مجتہد کے القاب کیا کچھ کم موجود ہیں جو انہیں مولوی کے لقب سے جدائی اختیار کرنا بھی شاق گذرے۔

    از: فقیر

    (ماخوذ از رسالہ: دکن ریویو سلسلۂ جدید (اسلام نمبر، سلک دوم 1907)

  • ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ!“

    شاہد احمد دہلوی کے قلم سے کتنے ہی واقعات اور تذکرے نکلے اور بطور حوالہ و یادگار آج بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی تحریریں متحدہ ہندوستان کی اُس دلّی کی یاد تازہ کرتی ہیں جو مسلم دور کی تہذیب و ثقافت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ دلّی کے شاہد صاحب بٹوارے کے بعد وہاں گئے تو اسے بہت مختلف پایا۔ مذہب اور ثقافت کی بنیاد پر دوستیاں اور میل جول ہونے لگا تھا۔ روشن خیال اور بلند فکر لوگ دلّی سے چلے گئے تھے یا پھر تنگ دل اور بغض و عناد سے بھرے ہوئے ہندوؤں کے ڈر سے خاموش تھے اور ایک مشترکہ کلچر کو تباہ و برباد ہوتا دیکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی کو اردو کا صاحب طرز ادیب، مترجم اور ماہرِ موسیقی کہا جاتا ہے جن کی یہ تحریر موجودہ دور کے بھارت کی عکاسی کرتی ہے جو آج اپنی سیکولر شناخت کھو چکا ہے اور مودی کی پھیلائی ہوئی نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ وہاں بالخصوص مسلمانوں کو ریاستی سرپرستی میں اپنی املاک اور عبادت گاہوں سے محروم ہونا پڑ رہا ہے اور جھوٹے الزامات کے بعد یا مکان اور مسجد وغیرہ کو غیر قانونی تعمیر کہہ کر مسمار کیا جا رہا ہے اور یہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بے دخلی کا ایک عمل ہے۔ شاہد احمد دہلوی بتاتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد بھی کراچی میں ہندوؤں کی جائیداد، ان کا مال و دولت محفوظ رہا بلکہ مسلمان ان کی جائیدادوں‌ پر قبضہ نہیں کرسکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ایک دوست کی وساطت سے دلّی کا ایک چکر لگانے کا موقع ملا۔ اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ دلّی کی ساری مسجدیں خالی کرا لی گئی ہیں، لیکن دیکھا یہ کہ آدھی سے زیادہ اب بھی آباد ہیں۔ پولیس انھیں آکر نکال جاتی ہے اور تالا توڑ کر یہ پھر آباد ہو جاتے ہیں، جو مسجدیں شہید کر دی گئیں، وہاں ان کے اب آثار بھی باقی نہیں ہیں۔ ’چرخے والان‘ کی سرخ پتھر کی مسجد کا اب کوئی نشان باقی نہیں۔ ایک صاحب نے وہاں گھر یا مندر تعمیر کرانا شروع کر دیا تھا، مگر حکومت نے تعمیر رکوا دی۔ ’پہاڑ گنج‘ اور ’سبزی منڈی‘ میں سب مسجدیں آباد ہیں۔ ان کے نل اور بجلی کے سلسلے کاٹ دیے گئے ہیں، لیکن مکین اب بھی انھیں نہیں چھوڑتے… چھوڑیں تو جائیں کہاں…؟ مسلمانوں کے جتنے مکان تھے، ان پر قبضے پہلے کیے جا چکے تھے، جو بچے ہوئے تھے، ان پر ’کسٹوڈین‘ کا قبضہ ہوگیا، پھر مسلمانوں نے خود پیشگی کرائے اور پگڑیاں لے کر ’شرنارتھیوں‘ کو آباد کر دیا کہ ’کسٹوڈین‘ کی گھتی میں جائیداد نہ پڑ جائے۔ دلّی میں امن کی خبریں سن کر اکثر دلّی والے پاکستان سے واپس آرہے تھے، لیکن ان کے رہنے کے لیے مکان نہیں تھے، جو ان کے ذاتی مکان تھے وہ یا تو ’شرنارتھیوں‘ کو الاٹ ہو چکے تھے یا شرنارتھیوں سے کچھ لے کر خود مسلمانوں نے انھیں بسا دیا تھا۔ ان کے خالی ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی اور حکومت نے بھی اعلان کر دیا تھا کہ مکان واپس نہیں دلائے جا سکتے۔ واپس آنے والے مسلمان مارے مارے پھر رہے تھے، جو صاحبِ جائیداد تھے، وہ چاہتے تھے کہ اپنی جائیدادیں بیچ ڈالیں، تو حکومت اس کی بھی اجازت نہیں دیتی تھی۔ نہ بیچنے کی اور نہ تبادلے کی۔ اس بات میں حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور نہ اب تک کوئی فیصلہ ہوا ہے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ انکم ٹیکس والوں سے واجبات سے بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے آؤ تو جائیداد بک سکتی ہے، لیکن ان کے باوجود ’کسٹوڈین‘ کی طرف سے اجازت نہیں ملتی۔”

    "اس کے برخلاف کراچی میں ہندوؤں نے اپنی جائیدادیں اور کاروبار خوب پگڑیاں لے لے کر بڑے بڑے منافعوں پر بچیں اور گھر کی ایک ایک چیز پورے داموں پر فروخت کی۔ حد یہ کہ جھاڑو تک بیچی اور آرام سے پاکستان کو اور جناح کو کوستے اور گالیاں دیتے ہوئے بمبئی روانہ ہوگئے۔ کراچی میں مجال ہے کسی کی کہ کسی گھر پر قبضہ تو کرلے، اسی وقت پولیس آکر ہتھکڑی لگا دیتی ہے۔ دلّی میں مسلمانوں کو زبردستی گھروں سے نکال کر ’شرنارتھی‘ بس جاتے ہیں اور جو تھانہ پولیس کرو تو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ”تمھارے لیے پاکستان بن گیا ہے، وہاں چلے جاؤ اور ان غریبوں کو یہاں رہنے دو، خوشی سے نہیں تو ناخوشی سے رہنے دو گے۔ زندہ چلے جاؤ، ورنہ کوئی مار مور دے گا۔“

    (تصنیف ’دلّی کی بپتا‘ سے ماخوذ)

  • پاکستان اور ابوالکلام آزاد کی برہمی

    پاکستان اور ابوالکلام آزاد کی برہمی

    مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندوستان بھر میں بے پناہ شہرت اور عزت ملی۔ وہ ایک قوم پرست ہندوستانی تھے۔

    مولانا آزاد کو ان کی سیاسی بصیرت، دینی فہم، علمی و ادبی کاوشوں کی وجہ سے بھی شہرت ملی۔ وہ سعودی عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی زبان پر عبور رکھنے والے مولانا آزاد کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ آزاد، ان چند بڑے ہندوستانی لیڈروں میں سے تھے جن کو مسلم لیڈر کہلوانا پسند نہیں تھا اور انھیں ایک قوم پرست کے طور پر پہچانا گیا۔ تقسیمِ ہند کی مخالفت کرنے والے مولانا آزاد نے بٹوارے کے اعلان کے بعد ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو بھی پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا لیکن بعد میں انھوں نے پاکستان کو ایک مملکت اور خودمختار ریاست کی حیثیت سے دیکھا اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تو کئی لیڈر اور عام مسلمان بھی جو ان کے مخالف ہوچکے تھے، حیران رہ گئے۔ تحریکِ آزادی کے اس مقبول لیڈر کی جماعت کانگریس تھی اور وہ گاندھی کے ساتھ رہے تھے۔ پاکستان کے متعلق مولانا آزاد کی رائے اور ان کے جذبات کیا تھے، یہ ایک واقعہ کی شکل میں پیشِ‌ خدمت ہے۔

    پنجاب یونیورسٹی نے ان دنوں جرمن اور فرانسیسی پڑھانے کے لیے شام کی کلاسیں شروع کی ہوئی تھیں۔ میں نے اور میرے رفیقِ کار محمد اجمل نے جرمن کلاس میں داخلہ لے لیا۔

    ڈاکٹر بی اے قریشی جو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہ چکے تھے، ہمارے استاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو غازی آباد کے رہنے والے تھے خاصا عرصہ برلن میں گزار چکے تھے۔ ایک مرتبہ کئی روز بعد کلاس میں آئے۔ واپسی پر ہم نے سبب پوچھا۔ تو کہنے لگے ”دلّی چلا گیا تھا۔“

    دلّی ان دنوں آنا جانا روز کا معمول تھا۔ لوگ احتیاطاً صرف اتنا دیکھ لیتے کہ امن و امان کی صورت کیا ہے؟ کیوں کہ وہاں سے اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ اس لیے ہم نے پوچھا، ”دلّی میں قیام کہاں رہا…؟“ کہنے لگے، ”مولانا آزاد کے ہاں…“

    یہ سن کر اشتیاق بڑھا، تو میں نے پوچھا: ”مولانا کا خیال پاکستان کے بارے میں کیا ہے؟“ کہنے لگے: ”میرے روبرو ایک صاحب لاہور سے وارد ہوئے تھے۔ مولانا نے ان سے پوچھا ’کہیے لاہور ان دنوں کیسا ہے…؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے، بڑی ناگفتہ بہ حالت ہے، ہمیں تو پاکستان چلتا دکھائی نہیں دیتا…‘ ان کے اتنا کہنے پر مولانا کا مزاج برہم ہو گیا اور وہ جوش میں آ کے کہنے لگے، ’جائیے واپس، لاہور اور پاکستان کو چلائیے۔ اب اگر پاکستان مٹ گیا، تو ایشیا سے مسلمان کا نام مٹ جائے گا۔“

    یہ گفتگو ہمارے لیے تعجب کا باعث تھی، اس لیے کہ ہم مولانا کو اور ہی رنگ میں دیکھنے کے عادی تھے۔ کئی برس گزرے ایک محفل میں، میں نے اس واقعہ کو دہرایا۔ وہاں اتفاق سے ہمارے دفتر کے فورمین محمد عثمان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان ہمارے ساتھ ’ڈان‘ (دلّی) میں کام کر چکے تھے۔ ان کی ہمدردیاں جمعیت علمائے ہند کے ساتھ تھیں۔ اس لیے وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ دلّی میں ٹھیرے رہے۔ پہلی عید الفطر کے روز وہ آصف علی کے مکان پر قوم پرست، مسلمان راہ نماؤں سے عید ملنے گئے۔ مولانا بھی وہاں موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ”مسلمانانِ عالم کی فلاح اسی میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور پھلے پھولے۔“

    (مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے ماخوذ)

  • سب کچھ کھونے کے بعد بھی میں راضی بہ رضا ہوں!

    سب کچھ کھونے کے بعد بھی میں راضی بہ رضا ہوں!

    جنوری 1948ء میں ایبٹ آباد سے واپسی پر میں نے چند روز پھر راول پنڈی میں قیام کیا۔ اسی دوران پاکستان میں آزادی کے بعد عید میلادالنبی کی متبرک تقریب پہلی بار منائی گئی۔

    خون کے دریاؤں کو پار کر کے اور عزیز و اقارب اور اپنے پیاروں کو مسخ شدہ نعشوں کی چھوٹی بڑی پہاڑیوں کو عبور کر کے مہاجرین کو سرزمین پاکستان میں آکر چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ ایک نظریۂ حیات کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد جذبے میں فراوانی اور ایمان میں تازگی تھی اس لیے اللہ اور رسول کے نام پر حاصل کیے ہوئے وطن میں اس موقع پر عوام میں بڑا جوش اور جذبہ تھا۔

    افواج پاکستان کے چھوٹے بڑے جلوس شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں سے گزر رہے تھے۔ میں بھی جلوس دیکھنے کے لیے ایک جگہ کھڑا ہوگیا۔ میرے پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ جیسے ہی فوج کا ایک دستہ اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتا اور درود و سلام پڑھتا ہوا پاس سے گزرا، اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ یہ سماں دیکھ کر ایک شوخ نوجوان جو پاس ہی کھڑا تھا ان سے مخاطب ہو کر بولا ”بھائی صاحب، یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ آپ روتے کیوں ہیں؟“ سفید ریش بزرگ نے امنڈتے ہوئے آنسوؤں کے سیلاب میں بہتے ہوئے جواب دیا: ”عزیز من، یہ رنج کے آنسو نہیں۔ یہ خوشی اور مسرت کے آنسو ہیں۔ ورنہ وحدہ لاشریک کی قسم۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے اس غلام کے پاس رنج کے آنسو بہانے کے لیے کافی جواز ہے۔ بیٹا، تم یقین مانو کہ یہ ناچیز گناہ گار، جو آپ کے سامنے کھڑا ہے، بھِک منگا نہیں ہے۔ وہ ’چاندنی چوک‘ دہلی کا ایک خوش حال سوداگر تھا، لیکن اب اس کے پاس ان چیتھڑوں کے سوا کچھ نہیں، جو اس کی ستر پوشی کر رہے ہیں۔ اس کی دکان کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس کے جدی مکان کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ساری عمر کی پونجی لوٹ لی گئی۔ اس کی گھر والی کو ظالموں نے اس کے سامنے قیمہ قیمہ کر ڈالا۔ اس کی جوان بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے پکڑ کر لے گئے۔ اس کے دودھ پیتے بچے کا جو حشر کیا اس کو بیان کرنے کی اس میں طاقت نہیں۔ عزیز من، میں ضرورت مند ہوں، مظلوم ہوں، اللہ کی اس وسیع دنیا میں تنہا اور بے یار ومددگار ہوں، لیکن باوجود اس کے میں خوش ہوں اور خوشی کے آنسو بہا رہا ہوں۔ یہ اس لیے کہ یہ سب کچھ کھونے کے بعد میں اپنی آنکھوں سے یہ روح پَرور منظر دیکھ رہا ہوں۔ اپنے کانوں سے سروَر دوعالم ﷺ پر درود و سلام سن رہا ہوں۔ الحمدللہ سب کچھ کھونے کے بعد میں راضی بہ رضا ہوں۔ میرا ایمان الحمدللہ سلامت ہے اور میں اپنے آپ کو خسارہ میں نہیں پاتا۔“

    سوال کرنے والا شوخ نوجوان یہ سن کر والہانہ انداز میں اس عمر رسیدہ صاحب ایمان بزرگ سے لپٹ گیا۔ آس پاس جتنے بھی لوگ تھے اور جس کسی نے یہ دل کو تڑپا دینے والی گفتگو سنی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ اللہ اللہ کیا عجب ایمان افروز اور دل دہلانے والا منظر تھا۔

    (نواب مشتاق احمد خان کی خود نوشت ”کاروان حیات“ کا ایک ورق)

  • رپورتاژ: چند ادیب اور اُن کی کتابیں

    رپورتاژ: چند ادیب اور اُن کی کتابیں

    افسانوی انداز کی جذباتیت اور غیر افسانوی طرز کی روداد نگاری کو ہم رپورتاژ کہہ سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جب کوئی اہلِ قلم چشم دید واقعات پر خیال آرائی کے ساتھ زبان کی چاشنی کا اہتمام کرتا ہے تو وہ دراصل رپورتاژ لکھ رہا ہوتا ہے۔

    لفظ رپورتاژ (Reportage) کو انگریزی زبان کے لفظ رپورٹ (Report)کے ہم معنی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنف کو عموماً صحافتی تحریر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مصنف جان کیری (John carry) نے رپورتاژ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رپورتاژ عینی شاہد کے ذریعے ضبطِ تحریر میں لائے گئے ایسے ٹھوس حقائق ہیں جو حادثے یا واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قلم بند کیے گئے ہوں۔ وقت اور تاریخ کا تعین اور خود مصنف کا عینی شاہد ہونا رپورتاژ کو زیادہ معتبر بنا دیتا ہے۔‘‘

    اُردو کے معروف نقاد محمد حسن عسکری نے رپورتاژ پر یوں اظہار خیال کیا ہے کہ ’’یہ نام ہی اس لیے اختراع کیا گیا تھا کہ بعض تحریروں کو صحافت اور ادب دونوں سے الگ کیا جا سکے۔‘‘ اگر عالمی ادب میں رپورتاژ کی ابتدا کی بات کی جائے تو اس صنف کا وجود ہمیں فرانسیسی، انگریزی، امریکی اور روسی ادب میں انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ملتا ہے۔ تاہم اس صنف نے بیسویں صدی کے شروع میں اپنے آپ کو مستحکم کیا۔ حقیقت نگاری کی تحریک کے زیر اثر دوسری عالمی جنگ کے دوران انگریزی ادب میں کثرت سے رپورتاژ لکھے گئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب میں رپورتاژ کا سہرا ترقی پسند ادیبوں کے سر ہے، تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

    ابتداً ترقی پسند ادبیوں نے اپنی کانفرنسوں اور جلسوں کی روداد کو قلم بند کرنا شروع کیا اور یوں اردو ادب اور صحافت میں رپورتاژ کی روایت قائم ہوئی۔ حمید اختر اس حوالے سے ترقی پسند ادیب اور ایسے صحافی تھے جنھوں نے کئی رپورتاژ لکھے ہیں جو بہت دل چسپ بھی ہیں اور اہم دستاویز بھی۔ وہ قدوس صہبائی کے ہفتہ وار اخبار’’نظام‘‘ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کی روداد لکھتے تھے۔ اسے رپورتاژ کی ابتدائی شکل مانا گیا جس کا تذکرہ معروف ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر نے اپنی کتاب ’’روشنائی‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’حمید اختر ایک نئی ادبی صنف کے موجد سمجھے جا سکتے ہیں۔ ان کی یہ ہفتہ واری سرگزشت دراصل ایک دل چسپ رپورتاژ تھی۔‘‘

    اگرچہ سجّاد ظہیر نے اردو میں حمید اختر کو اس صنف کا بانی کہا ہے لیکن حقیقتاً سجاد ظہیر خود اس صنف کے باقاعدہ بانیوں میں سے تھے کیونکہ اردو ادب میں قیام پاکستان سے قبل ۱۹۴۰ء میں ’’یادیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی سجاد ظہیر کی تحریر کو اردو کا پہلا باقاعدہ رپورتاژ قرار دیا گیا ہے۔ سجاد ظہیر نے ایک اور رپورتاژ ’’سینڈھرسٹ روڈ‘‘ کے نام سے بھی لکھا لیکن اسے ’’یادیں‘‘ جیسی مقبولیت حامل نہ ہو سکی۔ اردو میں دوسرا باقاعدہ رپورتاژ کرشن چندر کے رپورتاژ ’’پودے‘‘ کو مانا جا تا ہے جو ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ یہ رپورتاژ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس جو اکتوبر ۱۹۴۵ء میں حیدر آباد میں ہوئی، کی روداد ہے جسے کرشن چندر نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں قلم بند کیا تھا۔ کرشن چندر کا ایک اور رپورتاژ ’’صبح ہوتی ہے‘‘ ۱۹۴۹ء میں تریچور میں منعقدہ ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے دوران پیش آنے والے واقعات پر مبنی تھا۔ تاہم اسے وہ شہرت نہ ملی جو ’’پودے‘‘ کے حصّے میں آئی۔

    ابراہیم جلیس بھی اردو ادب اور صحافت کا وہ نام ہے جن کے رپورتاژ مقبول ہوئے۔ ابراہیم جلیس کا رپورتاژ ’’شہر‘‘ منظر عام پر آیا جس میں ۱۹۴۶ء کے دور پر مبنی ابراہیم جلیس کے قیامِ بمبئی کی مکمل روداد پڑھنے کو ملتی ہے۔ ابراہیم جلیس کے دیگر رپورتاژوں میں ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ، ’’جیل کے دن جیل کی راتیں‘‘ اور ’’سپید اور سرخ ستارے کے درمیان‘‘ شامل ہیں۔ ۱۹۴۸ء میں دہلی سے لاہور کی طرف ہونے والی ہجرت کو موضوع بنا کر شاہد احمد دہلوی نے ’’ دلّی کی بپتا‘‘ کے نام سے رپورتاژ لکھا جو ہندو مسلم فسادات کی روداد ہے۔ تقسیم ہند کے تناظر میں لکھا گیا ایک اور رپورتاژ فکر تونسوی کا ’’چھٹا دریا‘‘ ہے جو ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا۔ عصمت چغتائی نے ۱۹۵۲ء میں منعقدہ کل ہند اُردو کانفرنس میں شرکت کے لیے بمبئی سے بھوپال تک کا سفر کیا جسے بعد ازاں انہوں نے ’’بمبئی سے بھوپال تک‘‘ کے نام سے رپورتاژ کی شکل میں شائع کیا۔ عصمت چغتائی کے علاوہ قرۃ العین حیدر اور حجاب امتیاز علی کے علاوہ دیگر خواتین نے بھی رپورتاژ نگاری میں نام کمایا۔

    ممتاز مفتی کے رپورتاژ ’’لبیک‘‘ کے ذکر کے بغیر اُردو رپورتاژ کی تاریخ ادھوری ہے۔ یہ رپورتاژ سفر حج کی روداد ہے جسے ممتاز مفتی نے نہایت عقیدت سے قلم بند کیا۔ اس کے علاوہ محمود ہاشمی، خواجہ احمد عباس، قدرت اللہ شہاب، ڈاکٹر انور سدید وہ دیگر کے رپورتاژ بھی قابلِ ذکر ہیں۔

  • شاد عارفی: وہ خط جس میں شاعر نے اپنی زندگی کا درد ناک پہلو بیان کیا ہے

    شاد عارفی: وہ خط جس میں شاعر نے اپنی زندگی کا درد ناک پہلو بیان کیا ہے

    یہ تذکرہ ہے شاد عارفی کا جو اردو کے اہم شاعروں میں سے ایک تھے۔ غزل اور ںظم دونوں ہی اصناف میں شاد نے طبع آزمائی کی اور اپنی پہچان بنائی۔

    ان کا اصل نام احمد علی خان اور شاد ان کا تخلص تھا۔ وہ زندگی بھر معاش کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ زندگی کی تلخیوں نے ان کی زبان پر بھی گویا تلخی گھول دی تھی۔ ہم عصروں پر نکتہ چینی اور ان کے بارے میں شاد کی رائے اکثر اچھی نہ ہوتی۔

    ‘مشاہیر، خطوط کے حوالے سے…’ وہ عنوان ہے جس کے تحت دکن کے معروف ادیب اور نقاد رؤف خیر کے چند تنقیدی مضامین اکٹھے کیے گئے ہیں جن میں سے ایک مضمون میں انھوں نے شاد عارفی کو ان کے مکاتیب کی اوٹ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ رؤف خیر نے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے: یہ ادب کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب خطوط لکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ ادب ہی کیا کسی بھی فن کے نابغۂ روزگار کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحریر کا حسن اور واقعیت خطوط ہی سے تو جھلکتی ہے جو لکھنے والے کا ذہن اور ذہنیت پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ آگے چل کر رؤف خیر نے شاد عارفی پر بات کی ہے جس سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ رؤف خیر لکھتے ہیں:

    شاد عارفی زندگی بھر مسائل سے دوچار رہے۔ ماں کا مکان بیچ کر ماں کی تجہیز و تکفین کی۔ بیوی چند ہی ماہ ساتھ دے کر اسقاطِ حمل کے ساتھ خود بھی زندگی سے منہ موڑ گئیں۔ اولاد کا سکھ شاد نے نہیں دیکھا۔ رام پور میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے گزارہ کرتے تھے۔ کچھ ٹیوشن کر لیا کرتے تھے۔ مختلف فیکٹریوں میں معمولی سے کام پر لگے ہوئے تھے۔ رام پور کی مشہور صولت پبلک لائبر یری میں لائبریرین کی طرح کچھ دن گزارے۔ کبھی کہیں بجٹ اکاؤنٹنٹ بنے رہے۔ نواب رام پور کی شخصی حکومت کے شاد خلاف تھے۔ گویا وہ رام پور کے مخدوم محی الدین تھے۔ شاد لکھتے ہیں:

    ’’آخر میں جب ریاست (رام پور) مرج ہونے لگی تو اس سے پہلے رام پور کی پبلک نے کانگریس سے مل کر آئینی حکومت کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس میں برابر کا شریک رہا۔ بیسیوں نظمیں حکومت پر جائزہ کے تحت لکھ کر اپنا فرض ادا کیا کہ یہ شخصی حکومت اور اس کا ظلم و ستم ختم ہو۔ کانگریس بر سر اقتدار آ کر ان تاجداروں اور ظل الٰہیوں کو ان کی تنخواہوں مقرر کر کے نظم و نسق خود سنبھال لے۔ جمہوریت کا دور دورہ ہو۔ عوام کو پنپنے کا موقع ملے۔‘‘

    اور مزے کی بات یہ کہ عوامی جمہوریت کے خواہش مند شاعر کو ترقی پسندوں نے کبھی گلے نہیں لگایا اور برسر اقتدار آ کر خود کانگریس نے شاد کو ’’خطرناک‘‘ سمجھ کر دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا۔

    شاد عارفی اپنی درد ناک زندگی کے بارے میں خود ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت میری عمر ۶۲باسٹھ سال ہے۔ ۱۹۰۰ء میری پیدائش ہے، اس لیے سن کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں۔ بھارت کی حکومت کے دس مہینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ جب سے بے نوکری، بے سہارا ہوں۔ مگر اس مدت میں میرا پرونڈنٹ فنڈ حکومت نے اب تک نہیں دیا بلکہ حال ہی میں اکاؤنٹنٹ جنرل الہ آباد نے بہت غل غپاڑے کے بعد بڑا معقول جواب دیا ہے کہ چونکہ تمہارے حسابات کے رجسٹر کھو گئے ہیں اس لیے تمہارا فنڈ بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے، اس لیے صبر کرو اور بھارت کی حکومت کو اس کی درازی عمر کی دعائیں دو۔ والدہ صاحبہ کی پنشن بھی بھارت سرکار نے بلا سبب بند کر دی۔ یہ پنشن ریاست لوہارو سے تھی۔ متواتر درخواستیں دیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور وہ انتظار کرتے کرتے راہی بقا ہو گئیں۔

    میں نے گھر بیچ کر مرحومہ کی تجہیز و تکفین کی، جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں اور شہر کے اندر کرائے کے مکانوں میں خانہ بدوش زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘ (بحوالہ: ایک تھا شاعر)

    اور ان کرائے کے مکانوں کا حال بھی شاد عارفی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔

    باہر برکھا بیت چکی ہے اندر ٹپکا لگا ہوا ہے
    آدھے بستر پر لیٹا ہوں آدھا بستر بھیگ چکا ہے

    یہ ساری مصیبتیں یہ سارے مسائل اس لیے تھے کہ شاد عارفی اپنے کھرے پن کی وجہ سے کسی قسم کی مصلحت یا مصالحت پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔

  • جمشید نسروانجی اور ”داغی تجارت“

    جمشید نسروانجی اور ”داغی تجارت“

    کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے۔ شہر کی ترقی کے ساتھ انھوں نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اقدامات کیے اور بہت سے منصوبوں کو مکمل کیا۔ وہ ایک دردمند اور حساس طبع انسان بھی تھے جس نے شہر میں خاص طور پر بار برداری کے جانوروں جیسے گھوڑوں اور گدھوں کی دیکھ بھال اور ان کا خیال رکھنے کے لیے بھی خوب کام کیا۔ اس حوالے بھی متعدد واقعات مشہور ہیں۔

    جمشید نسروانجی کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ وہ 1933ء میں رئیسِ‌ شہر ہوئے تھے اور کراچی اور اس کے شہریوں کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہاں ہم ضیا الدین احمد برنی کی کتاب ’عظمت رفتہ‘ سے کراچی کے اس محسن کی زندگی کا ایک باب نقل کررہے ہیں۔ برنی صاحب کی یہ کتاب 1961ء میں شایع ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

    جمشید مہتا نسروانجی کے والد کا کاروبار شراب کا تھا۔ برطانوی حکومت چوں کہ جمشید نسروانجی کی سیاست سے ناخوش تھی، اس لیے اس نے شراب کی غیر ملکی ایجینسیوں کو بند کرا دیا، جس کی وجہ سے انھیں زبردست نقصان اٹھانا پڑا، مگر وہ اپنے بیٹے کے طریقۂ کار سے خوش رہے۔ جمشید نسروانجی بھی مسرور تھے کہ انھیں اس لعنتی کام سے چھٹکارا ملا۔ وہ شراب کو مغربی تہذیب کی ”برکات“ میں شمار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ وہ ایسے روپے کو بھی نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، جو اس ”داغی تجارت“ سے حاصل ہوا ہو۔ وہ دنیا میں اسلام کو شراب بندی کا سب سے زبردست مبلّغ سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ پاکستان میں شراب نوشی کے بڑھتے ہوئے رحجانات کو اندیش ناک قرار دیتے تھے۔

    بہت کم لوگوں کو معلوم ہے (مگر یہ حقیقت ہے) کہ جمشید نسروانجی پابندی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اور ماہ رمضان میں روزے رکھتے تھے اور اپنے خرچ سے ہر سال چند مسلمانوں کو حج کے لیے بھی بھیجتے تھے۔ جمشید نسروانجی مال دار آدمی تھے، مگر انھیں روپے پیسے سے مطلق محبت نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسے خدمت خلق میں خرچ کرتے رہتے تھے۔

    ماما پارسی گرلز ہائی اسکول (کراچی) بھی انہی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ انھوں نے اپنے ہم مذہب پارسیوں میں رقص کے رواج کو کم کرنے کی انتہائی کوشش کی۔ وہ اسے معاشرے کے لیے خطرے کا سگنل قرار دیتے تھے۔ اس نصف صدی میں پارسیوں میں وقتاً فوقتاً جتنی اصلاحی تحریکیں اٹھیں، وہ بڑی حد تک جمشید نسروانجی کی جدوجہد کی رہین منت ہیں۔

  • شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار

    شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار

    ہندوستان میں دلّی، لکھنؤ، دکن اور دیگر ریاستیں جب تک خود مختار اور خوش حال رہیں، وہاں کے نواب اور امراء کی شان و شوکت اور آن بان بھی سلامت رہی۔ ان کے دسترخوان بھی خوب سجائے جاتے تھے۔ شادی بیاہ اور تہوار وغیرہ تو ایک طرف عام دنوں میں بھی ضیافتیں نوابوں کے محل اور کوٹھیوں کی رونق میں اضافہ کرتی تھیں۔

    اس دور میں ماہر طباخ اور رکاب دار ہندوستان میں موجود تھے جو نہایت لذیذ اور عمدہ کھانے تیار کرتے تھے طرح طرح کے نمکین اور میٹھے کھانے لطافت، نفاست اور کمال مہارت کے ساتھ بنائے جانے کے بعد جس طرح چُنے جاتے وہ بھی ایک فن تھا اسی دور کے ایک رکاب دار کا تذکرہ مرزا جعفر حسین نے یوں رقم کیا ہے:

    اسی طرح ایک کلاس رکاب داروں کا حَسن گنج پار میں آباد تھا۔ یہ لوگ جاڑوں میں جوزی حلوا سوہن، پیڑیاں اور مختلف قسم کے حلوے اور گرمیوں میں چٹنیاں، رُب اور مربّے بناتے تھے۔ ہر رکاب دار کسی نہ کسی رئیس کی ڈیوڑھی سے وابستہ تھا۔ ہر زمانے میں دوسرے تیسرے روز سامان تیار کر کے لاتا اور ایک ہی ٹھکانے فروخت کر کے فرصت حاصل کر لیتا تھا۔ اس طبقے پر بھی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں زوال آگیا تھا۔ لیکن ایک خوش نصیب رکاب دار کا واقعہ دل چسپ ہے۔ اس شخص کا نام اعظم علی یا عظیم اللہ تھا۔ یہ میرے گھرانے سے منسلک تھا۔ اسی سال جب کہ میں وکالت کے پیشے میں داخل ہوا تھا اُس نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اُس کی وکالت شیخ مستنصر اللہ صاحب مرحوم ڈپٹی کلکٹر کے اجلاس پر کر دوں۔ میں نے فوج داری کی عدالتوں سے غیر متعلق ہونے کی بنا پر بہت کچھ معذرت چاہی مگر وہ نہ مانا اور مجھے زبردستی اس لیے لے گیا کہ شیخ صاحب مرحوم سے میرے مراسم تھے۔

    یہ مقدمہ قمار بازی کا تھا۔ عدالت نے مجھے دیکھا، پھر مؤکل کو گھورا اور مجھ سے فرمایا کہ یہ آپ کو اس لیے لایا ہے کہ اس کی سزا کم ہو جائے، میں اس پر کئی بار جرمانہ کر چکا ہوں آج پھر جرمانہ کر دوں گا۔ مگر آئندہ پھر چالان ہوا تو ضرور جیل کی سزا دوں گا۔ شیخ صاحب پرانے طرز کے حاکم تھے، اُن کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی یہ ساری کارروائی ان کے یہاں اردو میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ہر حال پچاس روپیہ جرمانہ کیا، ملزم نے فوراً جمع کر دیا۔ مگر اسی وقت سے وہ مفرور ہوگیا۔ اس واقعہ کے تخمیناً آٹھ برس کے بعد میں نے حیدرآباد دکن کی ایک عالی شان دکان پر یہ بورڈ لگا دیکھا۔ ”شاہانِ اودھ کے دربار کا رکاب دار“ میں بے حد اشتیاق کے ساتھ دکان کے اندر چلا گیا تو دیکھا کہ میاں عظیم اللہ ایک تخت پر قالین، گاؤ اور تکیے کے فرش و آرائش سمیت ایک بڑی نفیس سٹک (حقہ کا حصّہ) کے دَم گھسیٹ رہے ہیں۔ انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ میرا استقبال کیا اور میری بہت تواضع کی۔

    حالات دریافت کرنے پر انھوں نے فرمایا کہ ”جوا چھوٹ نہیں سکتا تھا لہٰذا جیل جانے کے ڈر سے شہر چھوڑ دیا۔ یہاں آ کر دکان کھولی، حسن اتفاق سے سرکار نظام کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اللہ کی رحمت سے کاروبار میں فروغ ہو گیا اور خدا کے فضل سے بہت آرام ہے۔“