Tag: اردو اقتباسات

  • سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    اب ایک بالکل مختلف قسم کی صبح یاد آ رہی ہے۔ صبح ہی صبح گھر سے نکلا اور جہاز میں جا بیٹھا۔ کشور ناہید ہم سفر ہیں۔ یہ فلموں کا چکر ہے۔

    اس زمانے میں کشور ناہید اور میں دونوں ہی فلم سنسر بورڈ کے رکن تھے۔ اس واسطے سے مجھے بس ایک ہی شخصیت اس وقت یاد آرہی ہے، سنتوش کمار، کہ وہ بھی ان دنوں اس بورڈ کے رکن تھے اور جو گاڑی انہیں لینے جاتی تھی وہ رستے میں سے مجھے بھی بٹھا لیتی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سنتوش کمار نے پان کی ڈبیا کھولی۔ کس سلیقہ اور محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ میں نے پان ناصر کے ساتھ بہت کھائے تھے۔ وہ زمانہ گزر گیا تو پان کھانا ہی چھوڑ دیا۔ اب سنتوش کمار کی صحبت میں پھر پان کھانے شروع کر دیے تھے، بلکہ بہت سی فلمیں تو ایسی ہوتی تھیں کہ اگر سنتوش کمار کی پانوں کی ڈبیا اور چھالی الائچی کے بٹوے کا سہارا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیا باغ و بہار آدمی تھے اور کیسے بانکے سجیلے۔

    میں نے شروع میں انہیں اس وقت دیکھا تھا جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز کی فلم میں جس کی کہانی منٹو صاحب نے لکھی تھی، وہ ہیرو کا رول ادا کر رہے تھے اور منٹو صاحب کہتے تھے کہ یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا یا اب دیکھ رہا تھا، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے تھے، مگر اسی طرح سرخ و سفید۔ وہی سفید براق کرتا پاجاما، قریب سے اب دیکھا احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ فلم کے بارے میں وہ کہہ دیتے کہ ہاں تو پھر میں بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ جب ہی تو فلم پاس، فیل کے سلسلہ میں سفارش میرے پاس کم کم پہنچتی تھی۔ انہیں پتا تھا کہ جو دو پنچوں سنتوش کمار اور کشور ناہید کی رائے ہوگی وہی اس شخص کی بھی رائے ہو گی۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اصل رائے کے اظہار کی وہاں گنجائش کہاں تھی۔ اس حساب سے تو مشکل ہی سے کوئی فلم اس لائق نکلتی کہ اسے پاس کیا جا سکے۔

    (فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی کتاب ”چراغوں کا دھواں“ سے اقتباس)

  • ادب میں فارمولا بازی

    ادب میں فارمولا بازی

    شعر و ادب کے حسن و قبح کو پرکھنے کی کسوٹی کسی زمانے میں محض زبان و بیان اور قواعد عروض کے چند بندھے ٹکے اصول تھے۔ مشاعروں، نجی صحبتوں اور ادبی معرکہ آرائیوں سے لے کر درس گاہوں تک انہیں اصولوں کی حکمرانی تھی۔

    پھر ایک ایسا دور آیا جب شعری ادبی تحقیقات کو اس تنگنائے سے باہر نکلنے کا موقع ملا اور موضوع و معنی کی قدر و قیمت سے بحث ہونے لگی۔ اردو میں نقد و انتقاد کو صحیح معنوں میں اسی وقت سے پروان چڑھنے کے لیے ایک سازگار فضا میسر آئی مگر یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہماری ادبی تنقید نے روز اوّل سے ہی اخلاقی اور افادی اقدار پر اس قدر توجہ کی کہ شعری اور ادبی تصانیف کے فنی حسن اور تخلیقی و جمالیاتی تقاضوں کو ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ ادب کی تخلیق نہایت پیچیدہ عمل ہے۔ بسا اوقات ایک ایسا شعر یا نثر پارہ جو اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت مفید، معقول اور صالح سماجی یا اخلاقی اقدار کا حامل ہو، بے کیف اور بے اثر معلوم ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف داغ اور جرأت کا کوئی فاسقانہ شعر سن کر منھ سے بے اختیار واہ نکل جاتی ہے۔

    آخر وہ کون سا جادو ہے جو ایک معمولی اور مبتذل خیال یا تجربے کو حسین بنا دیتا ہے اور وہ کون سا عنصر ہے جس کی غیرموجودگی ایک اعلیٰ و ارفع معنی کو تاثیر اور لذت سے محروم کر دیتی ہے۔ اردو تنقید حالی کی افادی و اخلاقی تنقید سے لے کر موجودہ دور کے ادبی دبستانوں تک نہ جانے کتنی منزلیں طے کرچکی ہے مگر ادبی تخلیق کے اس راز کو دریافت کرنے میں عموماً ناکام رہی ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اندر شعر و ادب سے لطف اٹھانے اور اس سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہی نہ ہو یا ہماری جمالیاتی اور تخلیقی حس بالکل کند ہو گئی ہو۔ عام طور پر ہمارا رویہ اس سلسلے میں نارمل ہوتا ہے، خاص طور پر اس شخص کا جو محض ادب کا ایک قاری یا سامع ہو اور شعر یا ادبی تحریر اس کی ذہنی تسکین کے لیے غذا کا کام کرتی ہو مگر ہمارے یہاں گزشتہ تیس برس میں جس طور پر اردو کے ادیبوں اور نقادوں کے ادبی مزاج کی تشکیل ہوئی ہے، اس نے ادبی لطف اندوزی کی راہ میں طرح طرح کی دیواریں کھڑی کردی ہیں۔ نظریہ، فلسفہ، عقیدہ، سماجی افادیت، صحت مندی، رجائیت، اجتماعی شعور اور نہ جانے کتنی اصطلاحات جن کو ہم نے ضرورت سے زیادہ اپنے اوپر طاری کر لیا ہے۔

    ہماری ادبی تاریخ کا یہ دور تحریکوں کا دور رہا ہے۔ ادبی تحریکوں سے ادب کے ارتقا میں یقیناً مدد ملتی ہے مگر تحریک زدگی، کبھی کبھی ہم کو اصل ادب سے دور بھی کر دیتی ہے۔ کوئی تحریک اگر چند فارمولوں اور فیشنوں یا چند تنقیدی مفروضات کو ہی ادب کی اساس سمجھنے لگے تو اس تحریک کے سائے میں پروان چڑھنے والا ادیب اور شاعر اپنے شخصی تجربات اور باطنی کیفیات پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے حقیقی جذبات اور دلی وارادت کی نفی کر کے ان خیالات پر اپنی تحریروں کی بنیاد رکھنے لگتا ہے جو دراصل اس کی تخلیقی شخصیت سے فطری مناسبت نہیں رکھتے۔

    ترقی پسند ادب کی تحریک کے عروج و زوال سے آج کے ادیبوں کی نسل بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس تحریک کے سائے میں جس تنقید کو فروغ ہوا وہ شعر یا افسانہ پڑھنے سے پہلے یہ معلوم کرتی تھی کہ یہ ادیب یا شاعر کون ہے؟ اس پر ترقی پسندی کا لیبل لگا ہوا ہے یا نہیں؟ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا رکن ہے یا نہیں؟ اگر رکن ہے تو سیاسی جماعت سے کس حد تک وابستہ ہے جس کے نظریے یا فلسفے کو ترقی پسندی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو وہ چاہے جس طرح کی چیز لکھے، اس کا ذکر نمایاں طور پر ہوتا تھا۔ اس کی جماعتی وابستگی یا وفاداری اس کے تمام ادبی گناہوں اور فنی کوتاہیوں کا بدل بن جاتی تھی۔

    رفتہ رفتہ یہ لے اتنی بڑھی کہ بعض اوقات کسی ادیب کی تحریر کے لیے یہی سند کافی تھی کہ وہ کسی ترقی پسند رسالے میں چھپی ہے۔ بعض رسالے تحریک کے سرکاری آرگن کی حیثیت رکھتے تھے اور اس میں چھپنے والا تمام مواد نقادوں اور ادیبوں کے لیے قابل قبول سمجھا جاتا تھا۔ تحریک پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے جب بعض رسالوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ گویا ان رسالوں میں لکھنے والا خواہ، اس کی تحریر ترقی پسندہی کیوں نہ ہو، اس کی ترقی پسندی مشکوک سمجھی جائے گی۔ منٹو اور عسکری نے ’’اردو ادب‘‘ کے نام سے رسالہ نکالا تھا یا وہ رسالے جن سے میرا جی اوران کے حلقے کے لوگ وابستہ تھے، اسی ذیل میں آتے تھے۔

    ادب میں جدیدیت کا میلان دراصل اسی غیر ادبی مسلک سے انحراف اور رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ صحیح معنوں میں جدید ادیب وہ ہے جو زندگی اور اس کے مظاہر کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں آزادانہ طور پر دیکھنے اور برتنے کی کوشش کرتا ہے اور تخلیقی عمل کو غیر فطری فارمولوں اور مفروضوں سے الگ رکھ کر فطری نشوونما کا موقع دیتا ہے۔ ایسا ادیب چاہے وہ کسی درجے کا ہو اور اس کے موضوعات کا دائرہ خواہ وسیع ہو یا محدود، سب سے پہلے ادب کے تخلیقی اور جمالیاتی تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس کے یہاں اپنے دور کی آگہی اور ہوش مندی ہے اور اس نے زندگی کو رسمی اور روایتی زاویوں سے دیکھنے کے بجائے اس کی حقیقتوں کا از سر نو انکشاف کیا ہے تو اس کی تحریر میں تازگی اور ندرت ضرور ہوگی۔

    مگر ہمارے یہاں تحریکوں نے ادبی مزاج پر ایسا گہرا اثر ڈالا ہے کہ بہت سے وہ ادیب بھی جو اپنے آپ کو جدیدیت کا نمائندہ کہتے ہیں، جدیدیت کو ترقی پسندی کی طرح ایک فارمولا یا فیشن سمجھتے ہیں اور ادبی تخلیق میں اسی منصوبہ بندی سے کام لے رہے ہیں جو ترقی پسندوں کی خصوصیت تھی۔ یہی نہیں بلکہ یہ لوگ بھی سوچنے لگے ہیں کہ فلاں شخص جدید ہے یا نہیں یعنی اس نے اپنے جدید ہونے کا اعلان کیا ہے یا نہیں؟ فلاں ادیب کس رسالے میں اپنی چیزیں چھپواتا ہے؟ اگر ایک ادیب یا شاعر مسلسل ’’شب خون‘‘ یا کسی ایسے ہی رسالے میں چھپتا رہا ہو لیکن اتفاق سے ’’گفتگو‘‘، ’’حیات‘‘ یا اسی قبیل کے کسی اور پرچے میں اس کی تحریر چھپ جائے تو اس کی ’’جدیدیت‘‘ مشکوک سمجھی جاتی ہے۔

    میرا ذاتی خیال ہے کہ اس طرح کے جدید ادیبوں اور گزشتہ دور کے تحریکی ادیبوں کے ادبی مزاج میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح ادب کی ایک مصنوعی فضا میں سانس لے رہے ہیں جو ان کے لیے آئندہ چل کر مہلک ثابت ہوگی۔ جدیدیت کا صحیح راستہ تویہ ہوگا کہ کسی پر لیبل نہ لگایا جائے، نہ کسی رسالے کو جدیدیت کا سرکاری ترجمان سمجھا جائے۔ کوئی تحریر اپنے طرز احساس، رویے اور اسلوب اظہار کی بنا پر ہی جدید کہلانے کی مستحق ہوگی۔ اگر ایسی تحریر ہمیں مخدوم، سردار جعفری، کرشن چندر کے قلم سے بھی نظر آئے تو اسے جدید کہنا ہوگا۔ کسی ادیب یا شاعر کو ہم ایسی اکائی نہیں فرضی کرسکتے جو محض ایک خصوصیت کا حامل ہو اور دوسری خصوصیت کبھی اس میں پیدا ہی نہ ہو۔

    زندگی کی طرح خود انسان بھی متحرک اور تغیرپذیر ہے۔ ایک ہی ادیب ایک تخلیق میں قدامت کا حامل ہو سکتا ہے تو دوسری تخلیق میں جدیدیت کا۔ اسی طرح اس کی کوئی تحریر ناکام ہوسکتی ہے تو دوسری کامیاب۔ ادب اور ادبی تنقید کو جمالیاتی معیاروں کے علاوہ دوسرے تمام مفروضات سے بالاتر ہونا ہوگا۔ جدید نسل کو اسی ادبی مزاج اور تخلیقی رویے کو آگے بڑھانا ہے ورنہ جدیدیت بھی کچھ دنوں میں ایک تحریک بن کر رہ جائے گی اور اس کے خلاف بھی وہی رد عمل ہوگا جو گزشتہ تحریکوں کے خلاف ہوا۔

    (شاعر اور جدید اردو تنقید کے بنیاد سازوں میں سے ایک خلیل الرحمٰن اعظمی کی تحریر)

  • نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد (دکن) کے سلسلے میں ہوا تھا، ویسا شاید ہی اور کسی مسئلے کے بارے میں ہوا ہو۔ حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔

    اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلے میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات، روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔ حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا ’مجلس اتحاد المسلمین‘، اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔ اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اُگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعے پر ریاستِ عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔

    ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آرہا تھا، خبریں یہ تھیں کہ حیدرآباد میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔

    نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اِسٹل اگریمنٹ) Agreement Still (Stand کے نام سے ایک سمجھوتا ہوا، جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔

    سنا گیا کہ اس سمجھوتے کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا…!

    ادھر حیدر آباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم، موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پَر تول رہا تھا۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک ’نظام‘ پر تُھو تُھو ہونے لگی اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے ’بی بی سی‘ کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔ اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔ تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

    جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی، جسے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا تھا، تو چند جوشیلے رضا کار ٹینکوں کی زد میں آکر کچلے گئے کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔

    ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم‘ جذبات کی ندی چڑھی ہوئی، جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی، مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے اِکا دُکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔ ادھر اور ہی گُل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعے سے سازش کی بو آنے لگی۔ حیدرآباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتا کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اُکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا…. حیدر آباد کالونی۔

    (ممتاز فکشن نگار اور ادیب انتظار حسین کے کالم ’زوالِ حیدرآباد کی کہانی‘ سے لیا گیا)

  • حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    حکم رانوں کی کوشش تھی کہ ریل گاڑی چل جائے!

    ریل کی نقل و حمل کا آغاز متحدہ ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ 1857ء میں کئی ریلوے کمپنیوں کے انجنیئروں‌ اور بہت سے ہنر مندوں‌ نے یہاں‌ ریلوے ٹریک بچھانے کا کام شروع کیا۔ یہ ریلوے نظام انگریز راج میں یہاں کے عوام کے لیے گویا سب سے بڑا تحفہ تھا۔ اس نے ہندوستان میں دور دراز مقامات تک لوگوں‌ کی رسائی آسان بنا دی اور مسافروں کے علاوہ مال گاڑیوں کے ذریعے بھاری ساز و سامان بھی آسانی سے دوسرے علاقوں تک پہنچنے لگا۔

    معروف صحافی، مصنف اور محقق رضا علی عابدی کی کتاب ’ریل کہانی‘ سے یہ اقتباس اس دور کی ایک تصویر دکھاتا ہے جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں:

    1857ء کے یہ وہی دن تھے، جب برصغیر کے طول و عرض میں ریلوے لائنیں ڈالی جا رہی تھیں اور تیزی سے ڈالی جا رہی تھیں۔

    ہندوستان کے افق پر بغاوت کے اٹھتے ہوئے بادل پہلے ہی نظر آنے لگے تھے اور حکمرانوں کی کوشش یہ تھی کہ ریل گاڑی چل جائے، تاکہ فوجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچانے کا بندوبست ہو جائے۔

    وہ جو آزادی کی دھن میں مگن تھے، سندھ سے لے کر بہار اور بنگال تک اپنی بوسیدہ فرسودہ بھرمار بندوقیں اور طمنچے اٹھائے پھر رہے تھے اور بدیسی حکمرانوں پر قہر کر رہے تھے، لہٰذا ریلوے لائنیں ڈالنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔

    کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرنے کے بعد انگریزوں نے لاہور کا ریلوے اسٹیشن بنایا۔عمارت کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے قلعے کی طرح بنایا گیا۔ اس میں فصیلیں بھی تھیں، برج بھی تھے، رائفلیں داغنے کے لیے فصیلوں روزن بھی تھے، غرض یہ کہ حملہ آور کو پرے رکھنے کے سارے انتظامات تھے۔ اس وقت اسٹیشن کے دونوں سروں پر لوہے کے بہت بڑے در بھی لگائے تھے، تاکہ حملہ ہو تو عمارت کو ہر طرف سے بند کر دیا جائے۔ شروع شروع میں راتوں کو لاہور اسٹیشن کے یہ دونوں آہنی گیٹ بند کر دیے جاتے تھے۔ یہ شاید وہی دن تھے، جب یہاں رات کے وقت ٹرین نہیں چلتی تھی۔

    بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ اسٹیشن قدیم لاہور کی پرانی عمارتوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔کہتے ہیں کہ اسٹیشن کی عمارتوں کی بنیادیں ڈالنے کے لئے زمین کھودی گئی تو گہرائی تک قدیم عمارتوں کی بنیادیں ملیں۔ لاہور والے بتاتے ہیں کہ مغلوں کے محل اسی علاقے میں تھے۔ اب بھی کچھ مغلیہ عمارتیں اسٹیشن کے آس پاس موجود ہیں۔ خود انگریزوں کی جی ٹی روڈ وہیں سے گزرتی تھی، جہاں یہ اسٹیشن ہے، اسے بھی ہٹا کر دور لے جانا پڑا۔

  • قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    اردو ادب میں قتیل شفائی بطور شاعر اپنی غزل گوئی کے ساتھ فلمی گیتوں‌ کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جنھیں پاکستان میں سرکاری سطح پر اور متعدد ادبی تنظیموں نے بھی اعزازات سے نوازا۔ قتیل شفائی کی غزلیں مشہور گلوکاروں نے گائیں اور ان کے فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دیگر ممالک میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا جہاں شرکا فرمائش کرکے قتیل شفائی سے ان کی مشہور غزلیں سنا کرتے تھے۔

    قتیل شفائی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی آپ بیتی میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں‌ جو ان کے فن و شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ پیشِ نظر پارے قتیل شفائی کی آپ بیتی ‘گھنگرو ٹوٹ گئے’ سے لیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    مدراس کے مشاعرے میں جب میں اپنا کلام سن چکا تو دیکھا کہ لمبی لمبی داڑھیوں والے دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مشاعرے کے دوسرے دور میں آپ اپنی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘سنائیں۔

    میں نے ہزار سمجھایا کہ وہ فلم کی غزل ہے اور آپ مجھ سے یہ سن کر بہت بے مزہ ہوں گے۔ مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ غزل آپ کی زبان سے سننے کی بڑی تمنا ہے۔ چنانچہ خاص طور پر اس غزل کے لئے اناؤنسمنٹ ہوئی اور اس کی فرمائش کی گئی۔ میں نے تحت اللفظ یہ غزل پڑھی۔ اور اس پر مجھے جو داد ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔ مجھ سے اس کا ایک ایک مصرح چار چار بار پڑھایا گیا اور پتا چلا کہ یہی وہ غزل تھی جس کی وجہ سے مجھے وہاں بلایا گیا تھا۔

    وہیں سے ہم احمد آباد گئے جہاں پرانے مسلمان بادشاہوں کے آثار دیکھے اور پتھر کی جالیوں کا کام دیکھا جن کا جواب نہیں تھا۔ ایک مسجد میں بھی پتھر کی جالیاں دیکھیں۔ اس کے ایک مینار کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اسے اوپر سے دھکا دیا جائے تو ہلتا ہے۔ اس لئے اس کو مینارِ لرزاں بھی کہتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مینار سنگِ لرزاں سے بنا ہوا ہے۔

    ہمارے ساتھ مشہور خاتون سیدہ اختر حیدر آبادی تھیں جو خاکسار تحریک میں بھی کام کر چکی تھیں۔ انہیں خطیبۂ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بہت موٹی تھیں۔ وہ کچھ انجمنوں کی عہدیدار تھیں اور مشاعروں اور دوسری تقاریب میں ہر جگہ آگے آگے رہتی تھیں۔ جب ہم مینار کے اوپر چڑھے تو یہ ذرا سا ہلتا ہوا نظر آیا۔ سیدہ اختر سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ بنگلور کی رہنے والی تھیں اور مشاعرہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ میرے بہت تعلقات بن گئے تھے لیکن بعض اوقات ایک جملہ تعلقات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔

    جب ہم مینارِ لرزاں سے نیچے اترے تو کہنے لگیں کہ دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ مینار ہلتا ہے۔ میں نے کہا بیگم اختر یہ مینار ہمارے ہلانے سے تو نہیں ہلا البتہ آپ کے اوپر جانے سے ہلا ہے۔ وہ یہ جملہ سننے کے بعد بالکل خاموش ہو گئیں اور اس کے بعد جتنا عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بول چال بند رکھی اور بنگلور کا پروگرام بھی گول کر دیا۔

    دراصل سیدہ اختر حیدر آبادی بہت موٹی تھیں اور خواہ مخواہ جی چاہتا تھا کہ ان سے کوئی شرارت کی جائے۔ اس وقت ہمارے ساتھ پاکستان سے سحاب قزلباش بھی تھیں۔ سیدہ اختر کے بال اتنے لمبے تھے کہ بلا مبالغہ ٹخنوں تک پہنچتے تھے اور کنگھی کر کے انہیں کھلا چھوڑتی تھیں۔ موٹی تو سحاب قزلباش بھی تھیں مگر یہ اچھی شکل و صورت والی تھیں۔ یہ کہنے لگیں کہ مجھے نظر آتا ہے کہ اختر کے بال مصنوعی ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں مصنوعی بال اتنے زیادہ سنبھالے ہی نہیں جا سکتے۔ کہنے لگیں نہیں کسی طرح ان کے بال ٹیسٹ کر کے مجھے بتاؤ۔ جوانی کا زمانہ تھا اور شرارتیں کرنے کے دن تھے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو وہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے عمداً یہ کیا کہ ان کے بیٹھتے ہوئے بال ذرا ادھر رکھ کے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ بال اٹک گئے اور جب میں نے سیٹ بدلوانے کے لئے انہیں اٹھنے کو کہا تو چونکہ بال اٹکے ہوئے تھے اس لئے ان کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ بال کھینچنے سے انہیں تکلیف ہوئی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ میں نے یہ عمداً کیا ہے۔ لیکن سحاب قزلباش کے لئے تصدیق ہو گئی اور اب یہ محترمہ چین سے بیٹھیں۔ اگر انہیں پتا چل جاتا تو یقیناً اس روز ناراضی ہو جاتی۔ میں نے زندگی میں اتنے لمبے بال کسی کے نہیں دیکھے۔

  • مشاعرے کی تمام آمدنی ’جنگی فنڈ‘ میں دی جائے گی

    مشاعرے کی تمام آمدنی ’جنگی فنڈ‘ میں دی جائے گی

    اردو کے ممتاز شاعر صبا اکبر آبادی کو بطور صحافی اور مترجم بھی پہچانا جاتا ہے۔ صبا اکبر آبادی نے کئی واقعات اور ادبی تذکرے بھی لکھے اور ان کی ایسی تحریروں کی بدولت ہمیں کئی دہائیوں پہلے کے مشاہیر اور ادبی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    صبا صاحب نے پاکستان کے شہر راول پنڈی میں منعقدہ ایک مشاعرے کا یہ احوال رقم کرتے ہوئے بتایا ہے کہ شعر سن کر تالیاں بجانا خلافِ‌ ادب ہے اور اگر سامعین باشعور اور تہذیب یافتہ ہوں تو اچھے شعر پر داد دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    راول پنڈی میں میرے ایک دوست سمت پرکاش جین ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر لگے ہوئے تھے۔ جین ہونے کے باوجود اردو زبان اور شعر کے عاشق دل دادہ تھے۔ راول پنڈی اور نواح کے تمام اردو شاعروں سے ان کے گہرے مراسم تھے، جن میں عبدالعزیز فطرت، تلوک چند محروم، فیض احمد فیض نمایاں تھے۔

    راول پنڈی کے کمشنر نے وار فنڈ (war fund) کے سلسلے میں ایک ’کل ہند‘ مشاعرے کا اہتمام کیا، وہاں جگر، سیماب، صوفی تبسم، ساغر نظامی، عابد علی، تلوک چند محروم نے بھی شرکت فرمائی۔ حفیظ ہوشیار پوری ریڈیو کی جانب سے غالباً مشاعرے کی کارروائی ریکارڈ کرانے کے لیے تشریف لائے تھے، اس لیے کلام نہیں سنایا۔ مشاعرہ ایک سینما ہال میں منعقد ہوا تھا۔ اگلی صف میں ایک جانب انگریز اور دیگر افسران کی کرسیاں تھیں، تو دوسری جانب عمائدین شہر کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔

    مشاعرے کے آغاز میں سمت پرکاش جین نے ’سپاس نامہ‘ پڑھا اور بتایا کہ اس مشاعرے کی تمام آمدنی ’جنگی فنڈ‘ میں دی جائے گی۔ حسرت موہانی نے اپنے خطبۂ صدارت میں انگریزوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم لوگ آپ سے بحیثیت قوم اور انسان عداوت نہیں رکھتے، بلکہ اس طرز حکومت کے خلاف ہیں جو آپ نے ہندوستان میں قائم کر رکھی ہے اور جس کا ڈھلتا سورج ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ ہم اس مشاعرے میں آپ کی محبت میں نہیں، بلکہ نازی ازم اور فاشزم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنے جمع ہوئے ہیں۔ مولانا کی پرجوش تقریر پر سامعین تالیاں بجا کر ان کی تائید کر رہے تھے۔ گورے افسران بھی گاہ گاہ تالیاں بجا دیتے تھے۔ آخر میں مولانا نے سامعین کو مخاطب کر کے کہا اب میں آپ سے عرض کروں گا کہ شعرا کی غزلوں پر تالیوں کی جگہ داد دی جائے یا خاموشی اختیار کی جائے کیوں کہ مشاعرے کے آداب یہی ہیں۔

  • جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    ایک انتہائی پریشان کن ملاقات کے چند روز بعد قصرِ گورنر جنرل سے پھر میری طلبی ہوئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی غلام محمد صاحب نے کہا، ”میں نے تمھارے لیے ملازمت کا بندوبست کر دیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حیدر آباد میں، میں نے ”شہر بدر“ کی اصطلاح سن رکھی تھی۔ میرے مقدر میں کراچی بدر ہونا تھا۔ ان کے چہرے پر درشتی کے آثار دیکھ کر میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ”کیا حکومتِ پاکستان نے ’حیدر آباد ایجنسی‘ کو بند کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے اور کیا پاکستان نے حیدرآباد (دکن) پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کر لیا ہے؟“ اس کا جواب بڑے تیز لہجے میں یہ تھا، ”تم سے میں نے ایک بار کہہ دیا کہ یہ میرا فیصلہ ہے۔“ اب میں کیا کہتا کہ ایک جمہوری نظام میں صدر مملکت کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو گیا۔ اور ایک زیرِ نزاع بین الاقوامی مسئلہ میں یہ اقدام کیسے ممکن ہے، جب متعلقہ وزارت کو اس کا سرے سے علم ہی نہیں۔

    حضور نظام نے چند خطوط جو مجھے 1952ء اور 1953 میں لکھے تھے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ دھونس اور ناجائز دباؤ کی اس کیفیت کو دیکھ کر میں نے وہ خطوط پیش کیے۔ ان خطوط میں مجھے واضح طور پر ہدایت تھی کہ میں حیدر آباد کے موقف پر قائم رہوں اور جو کام کرتا رہوں اسے برابر کرتا رہوں۔ ان میں ایجنسی کے بند ہونے کی افواہوں پر تشویش کا اظہار بھی تھا۔ ان خطوط کو پڑھ کر وہ زیادہ بگڑے اور ان کے اصلی ہونے پر اپنے شبے کا اظہار کیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ وہ مجھے کیسے اور کس طرح وصول ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ جہاں تک ان کے اصلی ہونے کا تعلق ہے، ان پر شبہ کرنا ایک طرح سے میری دیانت اور ایمان داری پر الزام دھرنے کے مترادف ہے۔ وہ خود حیدر آباد (دکن) کے وزیر مالیات کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان سے بہتر حضور نظام کی ذاتی پرائیویٹ مہر سے کون واقف ہوگا۔ اس پر وہ منہ ہی منہ میں کچھ کہتے ہوئے اور غصے میں کانپتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر برآمدے میں چلے گئے۔ رہ رہ کر مجھے خیال آتا تھا کہ اگر ہمارے مابین گفتگو کے ردعمل سے اس نحیف اور بیمار آدمی کی صحت پر کوئی مضر اثر پڑ جائے، تو میرا کیا حشر ہوگا۔ مروجہ سفارتی آداب میں بھی تو ان حالات میں کوئی رہبری نہیں ملتی! چند لمحات کے بعد جب وہ دوبارہ کمرے میں آئے تو کہا ”اگر بالفرض یہ نظام ہی کے خطوط ہیں، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تمھارے نظام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔“

    ان کے غصے سے تمتماتے چہرہ کو دیکھ کر پہلے تو میں چند لمحات خاموش رہا، مگر پھر اس خیال سے کہ اگر یہ بات میں نے اس وقت نہ کہی، تو پھر اسے کہنے کا مجھے کبھی موقع نہیں ملے گا۔ میں نے عرض کیا ”جناب یہی وہ نظام ہیں، جنھوں نے پاکستان کے آڑے وقت پر آپ کی درخواست پر فراخ دلی سے مالی مدد کی تھی اور جن کے دیے ہوئے خریط کو حیدرآباد کے المیے کے چار پانچ برس بعد ہی آپ تسلیم کرتے ہیں۔“ انھوں نے جواب دیا ”وہ غدار ہے…!“ یہ کہہ کر نامعلوم، انھوں نے منہ ہی منہ میں کیا کہا۔ چند لمحات کے بعد اپنے غصے پر ذرا قابو پایا تو فرمایا۔ ”میں بہرحال حیدر آباد ایجنسی کو بند کر رہا ہوں۔ تمھارے لیے ریلوے میں ایک ملازمت کا انتظام ہو گیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    زبردستی ملازمت اختیار کرنے اور کراچی میری رخصتی پر اصرار میرے لیے ناقابل فہم تھا۔ میں ایک مخمصے میں پڑ گیا، مگر اپنے جذبات اور ردعمل کو نظرانداز کر کے میں نے اپنی بات کی طرف رجوع کر کے عرض کیا ”مگر جناب جب تک حیدر آباد کا مقدمہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور زیر تصفیہ ہے، ایجنسی بند کیسے ہو سکتی ہے؟ نواب زادہ لیاقت علی خاں نے مجھے اس بارے میں آپ کی موجودگی میں یقین دہانی کرائی تھی۔“ یہ سن کر وہ طیش میں آگئے…. ”میں نہیں جانتا لیاقت علی خاں نے تمھیں کیا یاد دہانی کرائی تھی۔ بہرحال حالات بدل گئے ہیں۔ ہم لیاقت علی خاں کی یقین دہانیوں کے پابند نہیں ہیں۔ بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حالات ہی نہیں بدلے تھے، اقدار بدل گئی تھیں۔ نظریں بدل گئی تھیں۔ میں نے اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کی کوشش کی اور جس میٹنگ میں مجھے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کی مصدقہ روداد کا ذکر کیا تو ان کا پارہ اور چڑھ گیا اور انھوں نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا، ”اگر تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرو گے، تو میں ایجنسی کے اخراجات کی ادائیگی کی ممانعت کر دوں گا۔“ یہ دھمکی سن کر مجھ پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر روپے پیسے کے معاملے میں یوں بندش ہوگی تو میں اسٹاف کی تنخواہیں کہاں سے دوں گا اور ایجنسی کیسے چل سکے گی۔ اگر میں تنِ تنہا ڈٹے رہنے کا قصد بھی کر لوں، تو پھر کیا کروں گا اگر حکومتِ پاکستان میرا خریطہ واپس لے لے۔

    میری خاموشی پر انھوں نے کہا۔ ”اس لیے بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ ریلوے کے جس عہدے پر تمھارے تقرر کی تجویز زیر غور ہے، تم اس سے بہت سینئر عہدے پر تھے۔“ پھر بڑی شانِ بے اعتنائی سے فرمایا۔ ”مگر اس سے زیادہ ہم تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔“ میں نے بھرے دل سے جواب دیا۔ ”میں نے نہ تو کسی ملازمت کی آپ سے درخواست کی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست یا بالواسطہ آپ سے اس قسم کی کسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔“ اس پر انھوں نے سوال کیا ”پھر آخر تم کیا کرو گے؟“

    میں نے جواب دیا۔ ”اللہ رزاق بھی ہے اور مسبب الاسباب بھی۔ وہ انشا اللہ رزق بھی دے گا اور اس کا سبب بھی بنا دے گا۔“ میرا یہ جواب سن کر انھوں نے ایک ایسی بات کہی جسے سن کر میں ششدر رہ گیا۔ ”تم بات بات میں اللہ کو کیوں بیچ میں لاتے ہو۔“

    اسی سکتے کے عالم میں میرے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ ”اگر مملکتِ اسلامیہ پاکستان میں اللہ کا نام نہ لیا جائے، تو پھر آخر کہاں لیا جائے۔“

    اس پر انھوں نے غصے میں فرمایا۔ اچھا میں بحث نہیں کرتا۔ تم میں کج بحثی کی بہت عادت ہے۔ تم جا سکتے ہو۔“

    (مشتاق احمد خان کی خود نوَشت ”کاروانِ حیات“ سے منتخب پارہ)

  • رچرڈ برٹن: خود کو مسلمان ظاہر کر کے حج کرنے والا انگریز جاسوس

    رچرڈ برٹن: خود کو مسلمان ظاہر کر کے حج کرنے والا انگریز جاسوس

    ہندوستان میں کمپنی کی حکومت جب مستحکم ہوگئی تو اس کے ساتھ ہی یہ خطرہ بھی لاحق ہوا کہ روس اپنے سیاسی تسلط کو وسطی ایشیا میں بڑھا رہا تھا اور کمپنی کے حلقوں میں یہ تصور عام تھا کہ روس وسط ایشیا پر قبضہ کرتے ہوئے ایران کی مدد سے افغانستان آئے گا اور یہاں سے ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ لہٰذا کمپنی کی حکومت نے بخارا، خیواء، یارقند، ہنزہ، ایران اور افغانستان میں مخبروں اور سفارت کاروں کے ذریعے ان علاقوں کے سیاسی حالات، جغرافیائی حدود اور راستوں کی تحقیقات کے لیے معلومات فراہم کیں۔ یہ مخبر سیاحوں اور تاجروں کا بھیس بدل کر ان علاقوں میں گئے۔

    ان جاسوسوں میں سے ایک Richard Burton (سنہ ولادت 1821) تھا، جسے عربی اور فارسی کے علاوہ کئی اور دوسری زبانوں پر مکمل عبور تھا۔ بعد میں اس کی شہرت بطور مترجم، مشرقی علوم کا ماہر اور جاسوس کی وجہ سے ہوگئی۔ اس کے کیریئر کا آغاز کمپنی کی فوج میں جس کا کمانڈر چارلس نیپیر تھا، شروع ہوا اور جب چارلس نیپیر نے سندھ پر حملہ کیا تو یہ اس کے ہمراہ تھا۔

    رچرڈ برٹن کے کیریئر کا ایک اہم حصہ 1853ء میں حج کا سفر تھا۔ چونکہ مکہ مدینہ میں غیر مسلموں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اس نے مسلمانوں کا بھیس بدل کر پہلے خود کو ایرانی اور بعد میں افغان باشندہ کہا۔ چونکہ اسے فارسی زبان پر مہارت تھی اس لیے کسی کو اس کے یورپی ہونے کا شک نہیں گزرا۔ اپنے حج کے سفر کی معلومات کو اس نے نوٹس کے ذریعے محفوظ کر لیا تھا۔ حج کے بارے میں اہلِ یورپ کو یہ تجسس تھا کہ وہاں کیا رسومات ہوتی ہیں اور کیسے حج کیا جاتا ہے۔ رچرڈ بر ٹن سے پہلے بھی کچھ سیاح بھیس بدل کر حج کا سفر کر چکے تھے اور انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو شائع بھی کرایا تھا۔ انہی میں سے ایک (متوفی John Burk Hardt (1817 تھا جس نے ابراہیم کے نام سے مکہ مدینے کا سفر 1814ء میں کیا۔

    رچرڈ بر ٹن نے ان یورپی سیاحوں کے سفر ناموں کا مطالعہ کیا تھا، تا کہ وہ خود کو مسلمان ثابت کر کے حج کی مذہبی رسومات کو بھی ادا کر سکے۔ اس وقت حجاز اور نجد کے علاقے ترکوں کے زیر حکومت تھے اور مکہ مدینہ جانے والے راستے حاجیوں کے لیے غیر محفوظ تھے۔ راستے میں عرب بد و قبائل حاجیوں کے قافلوں کو لوٹتے تھے۔ رچرڈ برٹن سفر کی تمام معلومات کو اکٹھا کر کے قاہرہ سے بحری جہاز کے ذریعے جدہ روانہ ہوا۔ اس نے جہاز میں جانے والے مسافروں کا حال بھی لکھا ہے کہ تکالیف اٹھا کر جدہ پہنچتے تھے۔ جدہ سے مدینے تک کا سفر اونٹ اور اونٹنیوں کے ذریعے کیا۔ اس سفر میں اس کا ایک ہندوستانی نوکر بھی اس کے ساتھ تھا۔ برٹن نے بہت جلد عربوں سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے اور ان کی عادات اور رسم و رواج اختیار کر لی۔ خاص طور سے وہ بار بار لکھتا ہے کہ عربوں میں کافی پینے اور تمباکو کے استعمال کرنے کا بہت رواج ہو گیا تھا اور وہ خود بھی ان کے ساتھ اس میں برابر کا شریک تھا۔ برٹن نے پہلے مدینے کا رخ کیا اور قیام کر کے رسول کے مقبرے کی زیارت کی اور پھر حضرت حمزہ کے مزار پر بھی گیا۔ اس دوران وہ پابندی سے نماز پڑھتا تھا اور مسلمانوں کے طور طریقے پر عمل کرتا تھا۔ مدینے کے قیام کے بعد وہ حج کے موقع پر مکہ گیا اور وہاں اس نے حج کی تمام رسومات ادا کیں اور کسی کو یہ شک نہیں ہونے دیا کہ وہ غیر مسلمان ہے۔

    حج سے واپسی کے دوران اس نے دو جلد میں اپنے سفر کے حالات لکھے ہیں خاص طور سے اس نے تفصیل کے ساتھ ان رسومات کا ذکر کیا ہے جو حج کے موقع پر کی جاتی ہیں، اسی سفر نامے کے ذریعے اہل یورپ کو مسلمانوں کے حج کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہوئیں۔

    رچرڈ برٹن کی دوسری اہم تصنیفات میں مشہور عربی داستان الف لیلہ کا انگلش ترجمه The Book of the Thousand Nights and a Night ہے۔ اس نے ہندوستانی جنسیات پر لکھی جانے والی کتاب کاما سوتر اور عربی میں لکھی جانے والی کا Perfumed Garden کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کی خدمات کے عوض رائل سوسائٹی آف جیوگرافی نے اسے اپنا ممبر بنایا اور برطانوی حکومت نے اسے Knighthood یا سر کا خطاب دیا۔ ان تصنیفات کے علاوہ اس نے اور بھی کئی موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔

    1890ء میں اس کی وفات ہوئی اور اس کے مقبرے کو خیمے کی شکل میں تعمیر کیا گیا۔ برٹن کی شخصیت اس لیے اہم ہے کہ اس نے بیک وقت کئی ملکوں کی سیاحت بھی کی، جاسوسی بھی کی۔ غیر ملکی زبانوں پر عبور حاصل کیا اور اپنے تجربات اور علم کو تصنیف و تالیف کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا۔ اس سے اس کی ذہانت اور توانائی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ کہ ایک فرد اپنی شہری زندگی میں بیک وقت کئی منصوبوں کو پورا کر سکتا ہے۔

    (ڈاکٹر مبارک علی کتاب "ماضی کی داستان” سے اقتباسات)

  • بکریاں اور ڈسپلن

    بکریاں اور ڈسپلن

    یہ ضرور یاد رکھیے کہ انبیا کی غلامی یا ان کے نوکروں میں شامل ہونے کے لیے چھوٹے کام کو ضرور اختیار کریں۔ اگر آپ ان کی نوکری چاہتے ہیں تو! کیونکہ انہوں نے یہ کام کیے ہیں۔

    میرا منجھلا بیٹا جب ایف اے میں تھا تو کہنے لگا، مجھے دو بکریاں لے دیں، پیغمبروں نے بکریاں چَرائی ہیں، میں بھی چراؤں گا۔ ہم نے اس کو بکریاں لے دیں، لیکن وہ پانچویں چھٹے دن روتا ہوا آ گیا اور کہنے لگا یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں ایک کو کھیت سے نکالتا ہوں تو دوسری بھاگ کر ادھر چلی جاتی ہے۔ پھر اس نے دونوں کے گلے میں رسی ڈال دی۔

    میں نے بابا جی سے پوچھا کہ انبیا کو بکریاں چرانے کا حکم کیوں دیا جاتا تھا، تو بابا جی نے فرمایا کہ چونکہ آگے چل کر زندگی میں ان کو نہ ماننے والے لوگوں کا سامنا کرنا تھا۔ ان کا کفار سے واسطہ پڑنا تھا۔ اس لیے ان کو بکریوں کے ذریعے سے سکھایا جاتا تھا، کیونکہ دنیا میں جانوروں میں نہ ماننے والا جانور بکری ہی ہے۔ اپنی مرضی کرتی ہے۔

    آپ نے دیکھا ہو گا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے، جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے، اس پر غور کریں۔ میں تو اتنا اچھا watcher نہیں ہوں، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں اور مضبوط کندھوں اور پر استقلال جمائے ہوئے قدموں، اپنے سارے وجود اور اپنے سارے Self کی طاقت کے ساتھ ہٹ نہیں لگاتا، بلکہ اس کے سر کی ایک چھوٹی سی جنبش ہوتی ہے، جو نظر بھی نہیں آتی۔ اس جنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکا۔ لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے، تب شارٹ لگتی ہے۔

    سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھ کرتی ہے۔ میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں، مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا، کیونکہ ہماری بتّی تو سبز تھی، لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے، ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے۔

    یہ سوچ خطرناک ہے، بظاہر کچھ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں۔

    (ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی سبق آموز باتیں)

  • کائنات کی حقیقت اور انسان کی خواہش

    کائنات کی حقیقت اور انسان کی خواہش

    جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جس کائنات میں وہ آ نکلا ہے اس کی حقیقت معلوم کرے!

    اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کائنات کی حقیقت معلوم نہ ہو گی وہ جان نہیں سکتا کہ خود اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے۔ کائنات کی حقیقت سے اسے اپنی حقیقت کا سراغ ملتا ہے، کیوں کہ وہ خود بھی کائنات کا ایک اہم جزو ہے۔ اور اپنی حقیقت وہ اس لیے جاننا چاہتا ہے تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ اسے اپنی عملی زندگی کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے اور اس زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ اپنی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کرے کہ اس سے اپنے لیے اسی دنیا میں یا اگلی دنیا میں (اگر وہ بھی ہو تو) بہترین قسم کے نتائج اور ثمرات حاصل کر سکے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے متعلق ہر قسم کے تسلی بخش سوالات کا جواب حاصل کر لے گا تو اسی جواب میں اسے اپنے متعلق ہر قسم کے ممکن سوالات کا تسلی بخش جواب بھی مل جائے گا اور پھر وہ اس جواب کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کا صحیح حل معلوم کر سکے گا اور اپنی زندگی کا استعمال صحیح طریقے سے کر سکے گا۔

    یہی وجہ ہے کہ کائنات کی حقیقت کا جو تصور بھی وہ قائم کرتا ہے وہ اپنی عملی زندگی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے مطابق بناتا ہے گویا اس کے لیے حقیقت تلاش کرنا نہ تو کوئی تفریحی مشغلہ ہے اور نہ ہی کوئی علمی یا نظری مسئلہ بلکہ ایک شدید عملی ضرورت ہے جس کی اچھی یا بری تشفی اس کی روزمرہ زندگی کے تمام حالات اور اس کی تمام چھوٹی اور بڑی تفصیلات کو معین کرتی ہے۔

    بدنی ضروریات کی تشفی کو تو ہم ایک عرصہ تک التوا میں بھی ڈال سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس ذہنی اور عملی ضرورت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ملتوی کر دیں تو ہمارا دماغی توازن بگڑنے لگتا ہے اور ہم جنون، ہسٹریا، خوف، غم، پریشانی ایسے ذہنی امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

    یہ کہنا غلط ہے کہ حقیقت کائنات کے تصورات یا نظریات حکماء یا فلاسفہ سے مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل انسان کی فطرت اس طرح سے بنی ہے کہ آج تک کوئی تندرست فرد عالم یا جاہل ایسا نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے جو حقیقت کائنات کا کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، مختصر یا مفصل، منظم یا غیر منظم، عالمانہ یا جاہلانہ تصور نہ رکھے اور اپنی ساری زندگی کو اس کے مطابق نہ بنائے۔ حکماء یا فلاسفہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اور لوگوں کی نسبت زیادہ ذہین اور زیادہ باریک بین ہوتے ہیں اور اپنے ذوق اور اپنی افتاد طبیعت کے لحاظ سے حقیقتِ کائنات کے مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے زیادہ موزوں اور مستعد ہوتے ہیں جیسے بعض افراد عام لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرنے یا کپڑا بننے اور بدنی ضروریات کی چیزیں تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے نوعِ بشر کے حکماء اور فلاسفہ عام لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت کی چیز یعنی حقیقت کائنات کا صحیح تصور جو ہماری زہنی اور روحانی سطح کی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں۔

    ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقیقتِ کائنات کے متعلق خود ان کا اور دوسرے لوگوں کا تصور زیادہ سے زیادہ صحیح ہو تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ صحیح بنا سکیں لیکن حقیقت کائنات کے تصور کی ضرورت ہر انسان کے لیے اس قدر شدید اور فوری اور ناقابلِ التوا ہوتی ہے کہ لوگ کبھی فلسفیوں اور حکیموں کی تحقیق اور تجسس کے ایسے نتائج کا اظہار نہیں کرتے جو آئندہ کسی وقت دستیاب ہونے والے ہوں بلکہ جو نظریات پہلے ہی موجود ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ قبول کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں اور وہی نظریہ اپنی اولادوں کو وراثت میں سونپ جاتے ہیں لیکن اگر بعد میں آنے والی نسلیں کسی اور نظریہ سے جو کسی اور حکیم یا فلسفی نے پیش کیا ہو متاثر ہو جائیں تو اپنے نظریہ کو بدل لیتی ہیں اور پھر ان کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق بدل جاتی ہے۔

    تاریخ کے بڑے بڑے انقلابات اسی طرح داناؤں، فلسفیوں اور حکیموں کے نظریات سے پیدا ہوتے ہیں۔

    (اقتباس کتاب "حکمتِ اقبال” از محمد رفیع الدین)