Tag: اردو اقتباسات

  • "میاں! اسٹیشن واپس چلو…”

    "میاں! اسٹیشن واپس چلو…”

    اردو کے ممتاز نقاد، بہترین مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی سادگی، اپنے شہر سے ان کی الفت اور تہذیب و ثقافت سے لگاؤ کا یہ قصّہ دل چسپ بھی ہے اور ایک بڑے آدمی کی شخصیت کا وہ پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے، جس سے عام طور پر قاری واقف نہیں ہوتے۔ محمد حسن عسکری اپنی غیر معمولی تنقیدی تحریروں کے لیے اردو ادب میں شہرت رکھتے ہیں۔

    حسن عسکری کے درویش صفت اور سیدھے سادے انسان ہونے کا احوال سنانے والے بھی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ اور وہ ہیں ڈاکٹر عبادت بریلوی جنھیں اردو کا صفِ اوّل کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقدمہ میں اس کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ جن دنوں عسکری صاحب کو روزگار کی شدید ضرورت تھی اور بریلوی صاحب نے کچھ کوشش کر کے انھیں اعظم گڑھ کے شبلی کالج میں انگریزی زبان کے لیکچرر کے طور پر ایک اسامی کے لیے روانہ کیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ روانگی کے بعد تیسرے روز ہی حسن عسکری صاحب سے عربک کالج، دہلی میں ان کا آمنا سامنا ہوگیا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اس واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں:

    ”عسکری صاحب کہنے لگے: صاحب! آپ نے مجھے کہاں بھیج دیا تھا۔ میں اعظم گڑھ تک نہ پہنچ سکا۔ درمیان سے واپس آ گیا۔“ میں نے کہا وہ کیسے؟

    کہنے لگے: میں اعظم گڑھ کے اسٹیشن پر اترا۔ ویران سا اسٹیشن تھا۔ باہر نکل کر میں نے ایک تانگے والے سے کہا کہ میاں! شبلی کالج پہنچا دو۔ وہ تیار ہو گیا۔ میں اس کے تانگے میں سامان رکھ کر بیٹھ گیا۔ اجاڑ سی سڑک پر تانگہ چلنے لگا۔

    کچھ دور اور آگے گیا تو سڑک کچھ اور بھی ویران نظر آنے لگی۔ اس سڑک پر تو بجلی کے کھمبے تک نہیں تھے۔ میونسپلٹی لالٹین لگی تھیں، گاؤں کا سا ماحول معلوم ہوتا تھا۔ لوگ عجیب سے پوربی لہجے میں اردو بول رہے تھے۔ اس ماحول کو دیکھ کر میری طبیعت گھبرا گئی اور اختلاج سا ہونے لگا۔ چناں چہ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس ویران جگہ میں نہیں رہ سکوں گا۔ اس لیے میں نے تانگے والے سے کہا میاں! اسٹیشن واپس چلو، میں شبلی کالج نہیں جاؤں گا۔ میں اس شہر میں رہنے کے لیے تیار نہیں۔

  • امام مالک بن انسؒ اور "لا ادری…”

    امام مالک بن انسؒ اور "لا ادری…”

    یہ ایک حکایت ہے اور ایسی شخصیت سے متعلق ہے جنھیں عالمَ اسلام میں بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اس کے مصنف بھی ایک بڑے عالم فاضل ہیں۔ ہم بات کررہے ہیں امام جمال الدین ابن الجوزیؒ کی جن کی کتاب صید الخاطر سے یہ پارہ لیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا عبد المجید انور نے کیا ہے اور یہ امام جوزی کے خیالات، واردات قلبی اور مشاہدات پر مبنی کتاب ہے۔

    امام جوزی لکھتے ہیں: جب کسی عالم کا قصد صحیح ہو جاتا ہے تو وہ تکلّفات سے بری ہو جاتا ہے۔ بہت سے علماء ایسے ہیں جنھیں "لا ادری "(میں نہیں جانتا) کہتے ہوئے حیا آتی ہے چنانچہ وہ اپنی وجاہت قائم رکھنے کے لیے فتویٰ صادر کر دیتے ہیں تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ انھیں جواب نہیں آیا۔ اگرچہ خود انھیں بھی اپنی بات پر یقین نہیں ہوتا اور یہ انتہائی ذلت اور رسوائی کی بات ہے۔

    حضرت امام مالک بن انسؒ کا واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے ان سے مسئلہ پوچھا، آپ نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا "لا ادری” تو سائل کہنے لگا، میں نے آپ تک پہنچنے کے لیے کئی شہر عبور کیے ہیں۔ فرمانے لگے اپنے شہر میں واپس جا کر کہہ دینا کہ میں نے مالک سے مسئلہ پوچھا تھا انھوں نے جواب میں کہا کہ میں نہیں جانتا۔ اس شخص کے دین اور عقل کو دیکھیے کہ اس نے تکلّف سے کس طرح جان بچا لی اور الله تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوا اور پھر اگر لوگوں کے ہاں اپنی وجاہت ہی مقصود ہے تو ان کے قلوب کسی اور کے قبضے میں ہیں۔ والله میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نفلی صوم و صلٰوة کی کثرت کے ساتھ ساتھ خاموش مزاج بظاہر مسکین طبع اور سادہ لباس والے تھے مگر لوگوں کے دل ان سے بیزار تھے اور ان کی نگاہ میں وہ کچھ عزت نہ رکھتے تھے اور ایسے حضرات بھی دیکھے جو فاخرہ لباس پہنتے ہیں۔ بظاہر مسکنت اور نوافل کی کثرت بھی نہیں مگر لوگوں کے قلوب ان کی محبّت میں کٹے جاتے ہیں۔ میں نے اس کے سبب میں غور کیا، وہ میرے نزدیک ان کا حسن باطن تھا جیسا کہ حضرت انس بن مالکؒ کے بارے میں ہے کہ ان کے ہاں نفلی صوم و صلٰوة کی کثرت نہ تھی بلکہ باطن کا نور تھا۔ پس جس کا باطن درست ہو جائے اس کی فضیلت کی خوشبو پھیلنے لگتی ہے اور لوگوں کے قلوب اس سے مہک اٹھتے ہیں۔

  • عقلمند اور زیرک بابا

    عقلمند اور زیرک بابا

    میں نے محسوس کیا کہ مرشد ایک بہت ہے سمجھدار، عقلمند اور زیرک بابا ہوتا ہے- وہ تم کو دانش سے قائل نہیں کرتا کیونکہ دانش کی ایک حد ہوتی ہے-

    اور دانش تم کو دور نہیں لے جا سکتی- تمہارا سارا سامان اٹھا کر پہاڑ کے دامن تک جا سکتی ہے اس سے آگے کام نہیں دیتی- چوٹی تک پہنچنے کے لئے پہلے ٹٹو سے کام لینا پڑتا ہے، پھر پیدل چلنا پڑتا ہے- ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ پیدل چلنے کا راستہ بھی مسدود ہو جاتا ہے پھر کمند پھینک کر اور کیلیں ٹھونک ٹھونک کر اوپر اٹھنا پڑتا ہے-

    پھر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دانش اور عقل کی باتوں سے تو تم سمجھ ہی جاؤ گے کیونکہ اس میدان کے تم پرانے شہسوار ہو اور اس معاملے میں تمہاری کافی پریکٹس ہے-
    علم سے تو تم قائل ہو ہی جاؤ گے لیکن یہ قائل ہونا تمہارے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا- تم عقلی طور پر معقول ہو جاؤ گے لیکن اصلی طور پر نہیں-

    ایک روز جب بابا جی جب وضو کرنے کی غرض سے مسجد کی تپنی پر بیٹھے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا، "حضور! باطن کا سفر مرشد کی معیت کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے؟”

    وہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور میرے رسیونگ سینٹر کے ٹیون ہونے کا انتظار کرتے رہے، اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر بولے:

    "کیا جا سکتا ہے لیکن وہ صرف ایک راستہ ہے، وہ راستہ ہے عاجزی کا اور انکساری کا- حضرت آدم کی اس سنت کا جب وہ شرمندگی سے سر جھکائے اور عجز کے ہاتھ سینے پر باندھے الله کے حضور میں حاضر ہو کر بولے مجھ سے بڑی بھول ہو گئی”

    بابا جی نے کہا! "بس یہی ایک طریقہ ہے اور رویہ ہے جسے اپنا کر مرشد کے بغیر باطن کا سفر کیا جا سکتا ہے-” پھر آپ درختوں سے، پرندوں سے، پہاڑوں سے، دریاؤں سے درس لے سکتے ہیں- پتھروں سے بادلوں سے ٹھوکروں سے گیان حاصل کر سکتے ہیں- پھر تو ساری دنیا آپ کو سبق دے سکتی ہے- ساری کائنات آپ کو رمز آشنا بنا سکتی ہے- ”

    (اقتباس، اشفاق احمد از بابا صاحبا)

  • ’’کیا اُدھر باغ بھی ہے؟‘‘

    ’’کیا اُدھر باغ بھی ہے؟‘‘

    محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے بارے میں ایک دوست سے کہا کہ مجھے خبر نہیں کہ اس میں کوئی پائیں باغ بھی ہے۔

    واقعہ نہایت مشہور ہے لیکن اسے محمد حسین آزاد کے گل و گلزار الفاظ میں سنا جائے تو لطف اور ہی کچھ ہوگا، ’’میر(میر تقی میر) صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا۔ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھا کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں۔ کئی برس گزر گئے، اسی طرح بند پڑی رہیں، کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔

    ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا، ’’ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے؟‘‘ میر صاحب بولے، ’’کیا ادھر باغ بھی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھٹے پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اِس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اُس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپ ہو رہے۔

    کیا محویت ہے! کئی برس گزر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر، ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا۔ خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے، آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘

    اس بیان کے داخلی تضادات کو دیکھتے ہوئے شاید ہی کسی کو اس بات میں کوئی شک ہو کہ یہ واقعہ محض سنی سنائی گپ پر مشتمل ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے جن دو تذکروں پر کثرت سے بھروسا کیا ہے، ان میں یہ واقعہ مذکور نہیں۔ میری مراد قدرت اللہ قاسم کے ’’مجموعۂ نعز‘‘ اور سعادت خاں ناصر کے ’’خوش معرکۂ زیبا‘‘ سے ہے۔ لیکن ’’آب حیات‘‘ کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے اور آج تک میر کے بارے میں عام تصور یہی ہے کہ وہ مردم بیزار نہیں تو دنیا بیزار ضرور تھے۔

    دنیا اور علائق دنیا سے انھیں کچھ علاقہ نہ تھا، اپنے کلبۂ احزاں میں پڑے رہنا، دلِ شکستہ کے اوراق کی تدوین کرنا اور اپنی غزلوں کے ’’پھٹے پرانے مسودے‘‘ مجمتمع کرتے رہنا گویا ان کا وظیفۂ حیات تھا۔ اگر مولانا محمد حسین آزاد کا بیان کردہ واقعہ فرضی ہے تو اغلب ہے کہ اس کی بنیاد میر کے حسبِ ذیل شعر پر قائم کی گئی ہوگی۔ دیوانِ پنجم میں میر کہتے ہیں:

    سرو لب جو لالہ و گل نسرین و سمن ہیں شگوفہ ہے
    دیکھو جدھر اک باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا باغ

    (عظیم شاعر میر تقی میر کے فن و شخصیت پر معروف ادیب، نقّاد اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریر سے اقتباس)

  • سچ کی روشنی آنکھوں کے لیے مضر!

    سچ کی روشنی آنکھوں کے لیے مضر!

    عہدِ قدیم کے مؤرخ لکھتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں فارس کے شرفا اپنے بچوں کے لئے تین باتوں کی تعلیم میں بڑی کوشش کرتے تھے۔ شہ سواری، تیراندازی اور راست بازی۔

    شہ سواری اور تیراندازی تو بے شک سہل آ جاتی ہوگی، مگر کیا اچھی بات ہوتی کہ اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ راست بازی کن کن طریقوں سے سکھاتے تھے اور وہ کون سی سپر تھی کہ جب دروغ دیو زاد آکر ان کے دلوں پر شیشہ جادو مارتا تھا، تو یہ اس چوٹ سے اس کی اوٹ میں بچ جاتے تھے۔

    اس میں شک نہیں کہ دنیا بری جگہ ہے۔ چند روزہ عمر میں بہت سی باتیں پیش آتی ہیں، جو اس مشت خاک کو اس دیو آتش زاد کی اطاعت کے لئے مجبور کرتی ہیں۔ انسان سے اکثر ایسا جرم ہو جاتا ہے کہ اگر قبولے تو مرنا پڑتا ہے، ناچار مکرنا پڑتا ہے۔ کبھی آبلہ فریبی کر کے جاہلوں کو پھنساتا ہے، جب لقمہ رزق کا پاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت مزے دنیا کے ہیں کہ مکر و دغا ان کی چاٹ لگاتی ہے، اور جزوی جزوی خطائیں ہو جاتی ہیں جن سے مکرتے ہی بن آتی ہے۔ غرض بہت کم انسان ہوں گے جن میں یہ حوصلہ و استقلال ہو کہ راستی کے راستے میں ہر دم ثابت قدم ہی رہیں۔

    یہ بھی یاد رہے کہ انسان کے سچ بولنے کے لئے سننے والے بھی ضرور ہیں، کیوں کہ خوشامد جس کی دکان میں آج موتی برس رہے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ کیا ہوگا اور کون ایسا ہے جو اس قید کا زنجیری نہیں۔ ڈرپوک بیچارا ڈر کا مارا خوشامد کرتا ہے۔ تابع دار امید کا بھوکا آقا کو خوش کرکے پیٹ بھرتا ہے۔ دوست محبت کا بندہ ہے۔ اپنے دوست کے دل میں اسی سے گھر کرتا ہے۔ ایسے بھی ہیں کہ نہ غلام ہیں، نہ ڈرپوک ہیں۔ انہیں باتوں باتوں میں خوش کر دینے ہی کا شوق ہے۔ اسی طرح جب جلسوں میں نمودیے گدھوں کے دعوے بل ڈاگ کی آواز سے کئی میدان آگے نکل جاتے ہیں، تو ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں کچھ امید، کچھ ڈر، کچھ مروت سے، غرض چار ناچار کبھی ان کے ساتھ ساتھ، کبھی پیچھے پیچھے دوڑنا پڑتا ہے۔

    سچ کا عجب حال ہے کہ اتنا تو اچھا ہے، مگر پھر بھی لوگ اسے ہر وقت اچھا نہیں سمجھتے، چنانچہ جب کسی شے پر دل آتا ہے اور سچ اس کے برخلاف ہوتا ہے تو اس وقت سچ سے زیادہ کوئی برا نہیں معلوم ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ حضرت انسان کو حقیقت اور واقعیت سے کچھ غرض نہیں۔ جس چیز کو جی نہیں چاہتا، اس کا جاننا بھی نہیں چاہتے۔ جو بات پسند نہیں آتی اس کا ذکر بھی نہیں سنتے، اس کان سنتے ہیں، اس کان سے نکال دیتے ہیں۔ حکیموں نے جھوٹ سے متنفر ہونے کی بہت سی تدبیریں نکالی ہیں اور جس طرح بچوں کو کڑوی دوا مٹھائی میں ملا کر کھلاتے ہیں، اسی طرح انواع و اقسام کے رنگوں میں اس کی نصیحتیں کیں ہیں تاکہ لوگ اسے ہنستے کھیلتے چھوڑ دیں۔

    واضح ہوکہ ملکہ صداقت زمانی، سلطان آسمانی کی بیٹی تھی جو کہ ملکہ دانش خاتون کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ جب ملکہ موصوفہ نے ہوش سنبھالا تو اوّل تعلیم و تربیت کے سپرد ہوئی۔ جب انہوں نے اس کی پرورش میں اپنا حق ادا کر لیا تو باپ کے دربار میں سلام کو حاضر ہوئی۔ اسے نیکی اور نیک ذاتی کے ساتھ خوبیوں اور محبوبیوں کے زیور سے آراستہ دیکھ کر سب نے صدق دل سے تعریف کی۔ عزتِ دوام کا تاجِ مرصع سر پر رکھا گیا اور حکم ہوا کہ جاؤ اولادِ آدم میں اپنا نور پھیلاؤ۔ عالم سفلی میں دروغ دیو زاد ایک سفلہ نابکار تھا کہ حمقِ تیرہ دماغ اس کا باپ تھا اور ہوسِ ہوا پرست اس کی ماں تھی۔ اگرچہ اسے دربار میں آنے کی اجازت نہ تھی، مگر جب کسی تفریح کی صحبت میں تمسخر اور ظرافت کے بھانڈ آیا کرتے تھے تو ان کی سنگت میں وہ بھی آ جاتا تھا۔

    اتفاقاً اس دن وہ بھی آیا ہوا تھا اور بادشاہ کو ایسا خوش کیا تھا کہ اسے ملبوسِ خاص کا خلعت مل گیا تھا۔ یہ منافق دل میں سلطانِ آسمانی سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ ملکہ کی قدر و منزلت دیکھ کر اسے حسد کی آگ نے بھڑکایا۔ چنانچہ وہاں سے چپ چپاتے نکلا اور ملکہ کے عمل میں خلل ڈالنے کو ساتھ ساتھ روانہ ہوا۔ جب یہ دو دعوے دار نئے ملک اور نئی رعیت کے تسخیر کرنے کو اٹھے تو چونکہ بزرگانِ آسمانی کو ان کی دشمنی کی بنیاد ابتدا سے معلوم تھی، سب کی آنکھیں ادھر لگ گئیں کہ دیکھیں ان کی لڑائی کا انجام کیا ہو؟

    سچ کے زور و قوت کو کون نہیں جانتا۔ چنانچہ ملکہ صداقت کو بھی حقیقت کے دعوے تھے۔ اٹھی اور اپنے زور میں بھری ہوئی تھی؛ اسی واسطے بلند اٹھی۔ اکیلی آئی اور کسی کی مدد ساتھ نہ لائی۔ ہاں آگے آگے فتح و اقبال نور کا غبار اڑاتے آتے تھے اور پیچھے پیچھے ادراک پری پرواز تھا۔ مگر صاف معلوم ہوتا تھا کہ تابع ہے، شریک نہیں۔ ملکہ کی شان شاہانہ تھی، اور دبدبہ خسروانہ تھا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ آتی تھی، مگر استقلال کا رکاب پکڑے تھا۔ اور جو قدم اٹھتا تھا، دس قدم آگے پڑتا نظر آتا تھا۔ ساتھ اس کے جب ایک دفعہ جم جاتا تھا، تو انسان کیا فرشتہ سے بھی نہ ہٹ سکتا تھا۔

    دروغ دیو زاد بہروپ بدلنے میں طاق تھا، ملکہ کی ہر بات کی نقل کرتا تھا اور نئے نئے سوانگ بھرتا تو وضع اس کی گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ دنیا کی ہوا و ہوس، ہزاروں رسالے اور پلٹنیں اس کے ساتھ لیے تھیں اور چوں کہ یہ ان کی مدد کا محتاج تھا، اسی لالچ کا مارا کمزور تابع داروں کی طرح ان کے حکم اٹھاتا تھا۔ ساری حرکتیں اس کی بے معنی تھیں اور کام بھی الٹ پلٹ، بے اوسان تھے۔ کیونکہ استقلال ادھر نہ تھا۔ اپنی شعبدہ بازی اور نیرنگ سازی سے فتح یاب تو جلد ہو جاتا تھا، مگر تھم نہ سکتا تھا، ہوا و ہوس اس کے یارِ وفادار تھے اور اگر کچھ تھے تو وہی سنبھالتے رہتے تھے۔

    کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا تھا کہ دونوں کا آمنا سامنا ہو کر سخت لڑائی آ پڑتی تھی۔ اس وقت دروغ دیو زاد اپنی دھوم دھام بڑھانے کے لئے سر پر بادل کا دھواں دھار پگڑ لپیٹ لیتا تھا۔ لاف و گزاف کو حکم دیتا کہ شیخی اور نمود کے ساتھ آگے جاکر غل مچانا شروع کر دو۔ ساتھ ہی دغا کو اشارہ کر دیتا تھا کہ گھات لگا کر بیٹھ جاؤ۔ دائیں ہاتھ میں طراری کی تلوار، بائیں ہاتھ میں بے حیائی کی ڈھال ہوتی تھی۔ غلط نما تیروں کا ترکش آویزاں ہوتا تھا۔ ہوا و ہوس دائیں بائیں دوڑتے پھرتے تھے۔ دل کی ہٹ دھرمی، بات کی پچ، پیچھے سے زور لگاتے تھے۔ غرض کبھی مقابلہ کرتا تھا تو ان زوروں کے بھروسے پر کرتا تھا اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ یہی چاہتا تھا کہ دور دور سے لڑائی ہو۔ میدان میں آتے ہی تیروں کی بوچھاڑ کر دیتا تھا، مگر وہ بھی بادِ ہوائی، اٹکل پچو، بے ٹھکانے ہوتے تھے۔ خود ایک جگہ پر نہ ٹھہرتا تھا۔ دم بدم جگہ بدلتا تھا کیونکہ حق کی کمان سے جب تیر نظر اس کی طرف سر ہوتا تھا تو جھٹ تاڑ جاتا تھا۔

    ملکہ کے ہاتھ میں اگرچہ باپ کی کڑک بجلی کی تلوار نہ تھی، مگر تو بھی چہرہ ہیبت ناک تھا اور رعب خداداد کا خود سر پر دھرا تھا۔ جب معرکہ مار کر ملکہ فتح یاب ہوتی تھی تو یہ شکست نصیب اپنے تیروں کا ترکش پھینک، بے حیائی کی ڈھال منہ پر لئے، ہوا و ہوس کی بھیڑ میں جاکر چھپ جاتا تھا۔ نشان لشکر گر پڑتا تھا اور لوگ پھریرا پکڑے زمین پر گھسیٹتے پھرتے تھے۔ ملکہ صداقت زمانی کبھی کبھی زخمی بھی ہوتی تھی۔ مگر سانچ کو آنچ نہیں، زخم جلد بھر جاتے تھے اور وہ جھوٹا نابکار جب زخم کھاتا تھا تو ایسے سڑتے تھے کہ اوروں میں بھی وبا پھیلا دیتے تھے۔ مگر ذرا انگور بندھے اور پھر میدان میں آن کودا۔

    دروغ دیو زاد نے تھوڑے ہی تجربہ میں معلوم کر لیا تھا کہ بڑائی اور دانائی کا پردہ اسی میں ہے کہ ایک جگہ نہ ٹھہروں۔ اس لئے دھوکہ بازی اور شبہ کاری کو حکم دیا کہ ہمارے چلنے پھرنے کے لئے ایک سڑک تیار کرو، مگراس طرح کے ایچ پیچ اور ہیر پھیر دے کر بناؤ کہ شاہراہ صداقت جو خط مستقیم میں ہے اس سے کہیں نہ ٹکرائے۔ چنانچہ جب اس نابکار پر کوئی حملہ کرتا تھا تو اسی رستہ سے جدھر چاہتا تھا، نکل جاتا تھا اور جدھر سے چاہتا تھا پھر آن موجود ہوتا تھا۔

    ان رستوں سے اس نے ساری دنیا پر حملے کرنا شروع کر دیے اور بادشاہت اپنی تمام عالم میں پھیلا کر دروغ شاہ دیو زاد کا لقب اختیار کیا۔ جہاں جہاں فتح پاتا تھا، ہوا و ہوس کو اپنا نائب چھوڑتا اور آپ فوراً کھسک جاتا۔ وہ اس فرماں روائی سے بہت خوش ہوتے تھے۔ اور جب ملکہ کا لشکر آتا تھا تو بڑی گھاتوں سے مقابلے کرتے تھے۔ جھوٹی قسموں کی ایک لمبی زنجیر بنائی تھی۔ سب اپنی کمریں اس سے جکڑ لیتے تھے کہ ہرگز ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ مگر سچ کے سامنے جھوٹ کے پاؤں کہاں؟ لڑتے تھے اور متابعت کر کے ہٹتے تھے۔ پھر ادھر ملکہ نے منہ پھیرا، ادھر باغی ہو گئے۔ ملکہ جب آسمان سے نازل ہوئی تھی تو سمجھتی تھی کہ بنی آدم میرے آنے سے خو ش ہوں گے۔ جو بات سنیں گے اسے مانیں گے اور حکومت میری تمام عالم میں پھیل کر مستقل ہو جائے گی۔ مگر یہاں دیکھا کہ گزارہ بھی مشکل ہے۔ لوگ ہٹ دھرمی کے بندے ہیں اور ہوا و ہوس کے غلام ہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ ملکہ کی حکومت آگے بڑھتی تھی مگر بہت تھوڑی تھوڑی۔ اس پر بھی یہ دشواری تھی کہ ذرا اس طرف ہٹی اور پھر بدعملی ہو گئی کیونکہ ہوا و ہوس جھٹ بغاوت کا نقارہ بجا، دشمن کے زیرِ علم جا موجود ہوتے تھے۔

    ہر چند ملکہ صداقت زمانی ان باتوں سے کچھ دبتی نہ تھی کیوں کہ اس کا زور کسی کے بس کا نہ تھا، مگر جب بار بار ایسے پاجی کمینے کو اپنے مقابلہ پر دیکھتی تھی اور اس میں سوا مکر و فریب اور کمزوری و بے ہمتی کے اصالت اور شجاعت کا نام نہ پاتی تھی تو گھٹتی تھی اور دل میں پیچ و تاب کھاتی تھی۔

    جب سب طرح سے ناامید ہوئی تو غصہ ہوکر اپنے باپ سلطان آسمانی کو لکھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بلا لیجئے۔ دنیا کے لوگ اس شیطان کے تابع ہوکر جن بلاؤں میں خوش ہیں ان ہی میں رہا کریں۔ اپنے کئے کی سزا آپ پالیں گے۔ سلطان آسمانی اگرچہ اس عرضی کو پڑھ کر بہت خفا ہوا مگر پھر بھی کوتاہ اندیشوں کے حال پر ترس کھایا اور سمجھا کہ اگر سچ کا قدم دنیا سے اٹھا توجہان اندھیر اور تمام عالم تہ و بالا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس خیال سے اس کی عرض نا منظور کی۔ ساتھ اس کے یہ بھی گوارہ نہ ہوا کہ میرے جگر کا ٹکڑا جھوٹے بد اصلوں کے ہاتھوں یوں مصیبت میں گرفتار رہے۔ اسی وقت عالم بالا کے پاک نہادوں کو جمع کر کے ایک انجمن منعقد کی۔ اس میں دو امر تنقیح طلب قرار پائے۔

    (۱) کیا سبب ہے کہ ملکہ کی کارروائی اور فرماں فرمائی دنیا میں ہر دل عزیز نہیں۔
    (۲) کیا تدبیر ہے جس سے اس کے آئینِ حکومت کو جلد اہلِ عالم میں رسائی ہو اور اسے بھی ان تکلیفوں سے رہائی ہو۔

    کمیٹی میں یہ بات کھلی کہ درحقیقت ملکہ کی طبیعت میں ذرا سختی ہے اور کارروائی میں تلخی ہے۔ صدرِ انجمن نے اتفاق رائے کر کے اس قدر زیادہ کہا کہ ملکہ کے دماغ میں اپنی حقیت کے دعوؤں کا دھواں اس قدر بھرا ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ ریل گاڑی کی طرح سیدھے خط میں چل کر کامیابی چاہتی ہیں، جس کا زور طبیعتوں کو سخت اور دھواں آنکھوں کو کڑوا معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو اس کی راستی سے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔ کبھی ایسے فساد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کا سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ دور اندیشی اور صلاح وقت کے بغیر کام نہیں چلتا۔ پس اسے چاہئے کہ جس طرح ہو سکے اپنی سختی اور تلخی کی اصلاح کرے۔ جب تک یہ نہ ہوگا لوگ اس کی حکومت کو رغبت سے قبول نہ کریں گے کیوں دیو دروغ کی حکومت کا ڈھنگ بالکل اس کے خلاف ہے۔ اوّل تو اس میں فارغ البالی بہت ہے اور جو لوگ اس کی رعایا میں داخل ہوجاتے ہیں، انہیں سوا عیش و آرام کے دنیا کی کسی بات سے خبر نہیں ہوتی۔ دوسرے وہ خود بہروپیا ہے۔ جو صورت سب کو بھائے وہی روپ بھر لیتا ہے اور اوروں کی مرضی کا جامہ پہنے رہتا ہے۔

    غرض اہل انجمن نے صلاح کر کے ملکہ کی طرزِ لباس بدلنے کی تجویز کی۔ چنانچہ ایک ویسا ہی ڈھیلا ڈھالا جامہ تیار کیا جیسا کہ جھوٹ پہنتا تھا اور وہ پہن کر لوگوں کو جل دیا کرتا تھا۔ اس جامہ کا مصلحت زمانہ نام ہوا۔ چنانچہ اس خلعت کو زیبِ بدن کر کے ملکہ پھر ملک گیری کو اٹھی۔ جس ملک میں پہنچتی اور آگے کو راستہ مانگتی، ہوا و ہوس حاکم وہاں کے اسے دروغ دیو زاد سمجھ کر آتے اور شہر کی کنجیاں نذر گزرانتے۔ ادھر اس کا دخل ہوا ادھر ادراک آیا اور جھٹ وہ جامہ اتار لیا۔ جامہ کے اترتے ہی اس کی اصل روشنی اور ذاتی حسن و جمال پھر چمک کر نکل آیا۔ چنانچہ اب یہی وقت آ گیا ہے، یعنی جھوٹ اپنی سیاہی کو ایسا رنگ آمیزی کر کے پھیلاتا ہے کہ سچ کی روشنی کو لوگ اپنی آنکھوں کے لئے مضر سمجھنے لگے ہیں۔

    اگر سچ کہیں پہنچ کر اپنا نور پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے جھوٹ سے کچھ زرق برق کے کپڑے مانگ تانگ کر لاتا ہے۔ جب تبدیل لباس کر کے وہاں جا پہنچتا ہے تو وہ لفافہ اتار کر پھینک دیتا ہے۔ پھر اپنا اصلی نور پھیلاتا ہے کہ جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے۔

    (اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور انشاء پرداز محمد حسین آزاد کی ایک نہایت متاثر کن تحریر)

  • حمید اختر جنھیں لاہور میں ایک چائے والے کی تلاش تھی

    حمید اختر جنھیں لاہور میں ایک چائے والے کی تلاش تھی

    یہ حمید اختر کا تذکرہ ہے جو ایک صحافی، اور ادیب تھے اور ترقی پسند تحریک سے دیرینہ وابستگی رکھتے تھے۔ حمید اختر قیام پاکستان کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اسی پاداش میں دو سال جیل میں گزارے۔ حمید اختر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے گہرے دوست تھے اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ ہیرو بننے کے لیے بمبئی پہنچے تھے۔

    یہ پارہ حمید اختر کی زندگی کے اہم اور دل چسپ واقعات پر مبنی ہے۔ یہ لاہور شہر میں قیام کی روداد ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    1944-45 ء کے دوران پاؤں کی گردش حمید اختر اور ساحر کو کچھ عرصہ کے لیے لاہور بھی لے آئی۔ اس دور کے متعلق کئی واقعات جڑے ہوئے ہیں، جو حمید اختر نے اپنے مختلف کالموں میں بیان کیے ہیں۔ حمید اختر اور ساحر سے پہلے، میٹرک کرنے کے بعد ان کے دوست شیر محمد قیصر (ابن ِانشا ) 1942میں لاہور آچکے تھے۔ اس بارے میں حمید اختر لکھتے ہیں:’’میٹرک میں نمایاں کامیابی اور وظیفہ حاصل کرنے کے باوجود انہوں (ابن ِ انشا) نے مرحوم حمید نظامی کو، جن سے ان کی خط و کتابت تھی، لکھا کہ گھریلو حالات کی وجہ سے، وہ وظیفے کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کی بجائے ملازمت کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ مرحوم حمید نظامی نے انہیں تعلیم جاری رکھنے، اسلامیہ کالج میں داخلہ دلانے اور کچھ مالی وسائل مہیا کرنے کے وعدہ پر لاہور آنے کے لیے مجبور کیا، جہاں پہنچ کر وہ اسلامیہ کالج میں داخل ہوگئے اور بیڈن روڈ کے ایک مکان کی اوپر کی منزل میں واقع اخبار کے دفتر میں مقیم ہوئے۔ ہم اپنے پرانے دوست کے نئے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پہلی بار لاہور پہنچے اور تلاش کرتے کرتے بیڈن روڈ پر واقع اخبار کے دفتر میں پہنچے تو ہم نے ابنِ انشا مرحوم اور حمید نظامی مرحوم دونوں کو ایک ہفتہ وار اخبار کے فولڈ کیے ہوئے پرچے کے ڈھیر پر ٹکٹ چسپاں کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔‘‘

    حمید اختر کو پہلی ہی بار لاہور بھا گیا، جو مستقبل میں ہمیشہ کے لیے ان کا شہر بننے والا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ابن ِانشا ملازمت کی غرض سے انبالہ چلے گئے اور حمید اختر کے پاؤں کی گردش جاری رہی۔ وہ دوبارہ اس وقت لاہور آئے جب گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے نکالے جانے کے بعد ساحر بغرضِ تعلیم لاہور آگئے۔ انہیں ملنے حمید اختر ہر ہفتے لاہور آجاتے۔ یوں روشنیوں کے اس شہر سے ان کی پہچان اور محبت بڑھتی گئی۔ ان دِنوں کے لاہور کے بارے میں حمید اختر بیان کرتے ہیں :’’1944-45 میں اسے (ساحر کو) ادب ِ لطیف کی ادارت مل گئی۔ ہم چونکہ بیکار پھر رہے تھے اس لیے اس زمانے میں ہم نے تقریباً چھ ماہ اس شہر میں مستقل قیام کیا۔ ان دِنوں لاہور شہر کتنا خوبصورت اور دل لبھانے والا تھا، آج اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ آبادی تین لاکھ کے قریب تھی۔ شہر کی بڑی اور اہم سڑکوں پر روزانہ چھڑکاؤ کیا جاتا تھا۔ ڈاک دن میں دو بار تقسیم ہوتی تھی۔ شامیں اتنی بھرپور اور ثقافتی پروگراموں کی اس قدر کثرت ہوتی تھی کہ شام گزارنے کا فیصلہ مشکل ہوجاتا۔ کہیں کنسرٹ ہے تو کہیں موسیقی کی محفل برپا ہے۔ اوپن ایئر تھیئٹر میں اس وقت بھی ڈرامے اسٹیج ہوتے تھے۔ دہلی دروازے کے باہر عظیم الشان سیاسی جلسوں کا زور رہتا۔ اس کے علاوہ دن بھر ہوٹلوں اور ادبی پرچوں کے دفاتر میں جو محفلیں برپا ہوتیں ان کا ایک اپنا ہی انداز تھا۔ انار کلی میں نگینہ بیکری میں باری علیگ‘ گوپال مِتل‘ میاں طفیل محمد اور بہت سے دوسرے سیاسی اور ادبی لوگ بحث میں مصروف نظر آتے۔ کافی ہاؤس میں بھی رونقیں لگی رہتیں۔ یہ ہماری جوانی کا زمانہ تھا جس میں انسان زمین پر قدم رکھتے ہوئے بھی آسمان کی طرف محوِ پرواز رہتا ہے۔ ہم ان دِنوں شب بیداری اور خالص آوارہ گردی کے جنون میں مبتلا تھے۔

    مجھے یاد ہے ایک رات‘ نصف شب کے بعد ہم چائے کی تلاش میں دہلی دروازے کے باہر اس چائے والے کو رات بھر ڈھونڈتے رہے جس کے بارے میں سنا تھا کہ اس کے چائے کے دیگچے میں احمد شاہ ابدالی کے وقت سے لے کر آج تک پانی ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ ہم نے اسے ڈھونڈا اور پھر اکثر راتیں اس چائے خانے کے تھڑے پر گزاریں۔ شورش کاشمیری ان دِنوں چار پانچ برس کی قید کے بعد رہا ہو کر نیا نیا لاہور آیا تھا۔ اس سے ملاقاتیں بھی رہیں جو بڑی پکی دوستی میں بدل گئیں۔ اس کے توسط سے مولانا عطا اللہ شاہ بخاری جیسے عظیم اور بڑے لوگوں کی صحبتیں بھی میّسرآئیں۔ خود شورش بھی اپنی ذات میں کسی انجمن سے کم نہیں تھا‘‘۔ دہلی دروازے کا وہ چائے خانہ دہلی دروازے کے سامنے واقع ایک عمارت کے‘ جس کی بالائی منزل پر ’مجلس ِ احرار‘ اور’ مجلس اصلاح چار سو بیساں‘ کے بڑے بڑے بورڈ برابر برابر آویزاں تھے، حمید اختر کا محبوب چائے خانہ بن گیا۔ جہاں انہوں نے ساحر کے ساتھ مستقبل کے کتنے ہی خواب دیکھے اور مستقبل کے کتنے ہی منصوبے بنائے۔

    (کتاب: ’’سوانح عمری: حمید اختر‘‘ سے انتخاب)

  • ”کھاٹ بُنا لو“ یا ”چارپائی بُنا لو؟“

    ”کھاٹ بُنا لو“ یا ”چارپائی بُنا لو؟“

    کتاب ‘لال قلعہ کی ایک جھلک’ کے مصنّف سید ناصر نذیر فراق دہلوی ہیں۔ وہ اردو کے ایک بڑے ادیب، شاعر اور انشا پرداز تھے۔ مذکورہ کتاب ان متعدد واقعات اور قصائص پر مبنی ہے جو مصنّف نے سن رکھے تھے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے کی دلّی اور لال قلعے کے دل چسپ واقعات کے علاوہ اس کتاب سے ہمیں اس دور کے بعض سماجی رویوں اور شاہی خاندان کے حالات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔

    یہاں ہم اسی کتاب سے اُس دور میں زبان و بیان کے ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ سید ناصر نذیر فراق دہلوی لکھتے ہیں:

    اکبرِ ثانی کے حضور میں پرچا گزرا کہ آج شاہ جہاں آباد میں شہر والوں نے کھٹ بُنوں کو خوب مارا پیٹا، کیوں کہ کھٹ بُنوں کا قاعدہ ہے کہ جب وہ شہر میں پھیری پھرنے آتے ہیں، تو آواز لگاتے ہیں، ”کھاٹ بُنا لو کھاٹ… کھاٹ بُنا لو کھاٹ!“

    شہر والوں نے کہا نکلے تمہاری کھاٹ۔ یہ کیا بری فال منہ سے نکالتے ہو۔ پھر جو انہیں پیٹا تو پیٹتے پیٹتے جھلنگا بنا دیا اور اس ٹکسال باہر لفظ سے توبہ کروائی اور سمجھایا کہ بجائے کھاٹ بُنا لو کے چار پائی بُنا لو کہا کرو، چناں چہ جب سے اب تک کھاٹ بُنے، چارپائی بُنا لو ہی کہتے ہیں۔

    اس تکلف و تنبیہہ اور تدبیر اور تدبر سے اردو معلیٰ کو سنوارا گیا ہے۔ اور جگہ اردو کو چار چاند نہیں لگ سکتے۔ ان کھٹ بُنوں کی ایک صفت قابلِ رشک ہے کہ شاہ جہاں کے عہد سے آج تک ان کا کسی قسم کا مقدمہ عدالتِ شاہی میں نہیں آیا۔ ان کا سرگروہ جو چوہدری کہلاتا ہے، وہی چُکا دیتا ہے۔

  • حقیقی اور مجازی ربوبیت کیا ہے؟

    حقیقی اور مجازی ربوبیت کیا ہے؟

    ربوبیت کا اطلاق کس ذات پر ہوگا؟ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے بڑی علمی و ادبی شخصیت نے اس دل چسپ انداز میں مثال دیتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا محتاج کو روپیا دے دے، تو یہ اس کا کرم ہوگا، احسان ہوگا، لیکن وہ بات نہ ہوگی جسے ربوبیت کہتے ہیں۔

    ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل و بلوغ کے لیے وقتاً فوقتاً جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں، ان سب کا سر و سامان ہوتا رہے، نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبت و شفقت کے ساتھ ہو، کیوں کہ جو عمل محبت و شفقت کے عاطفہ سے خالی ہوگا ربوبیت نہیں ہو سکتا۔
    یعنی انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ اچھا سلوک یعنی اس کی محتاجی کو ختم کرنا یا اور کوئی قسم کا احسان کرنے سے ربوبیت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کے جود اور احسان سے تعبیر کیا جائے گا، جب کہ ربوبیت کے لیے ایک تسلسل اور اہتمام ضروری ہے، جو ایک ذات باری تعالیٰ سے ہی ممکن ہے۔

    آگے آزاد صاحب حقیقی ربوبیت (اللہ تعالیٰ کی ربوبیت) کی مجازی ربوبیت (ماں کی ربوبیت) کے ساتھ مثال دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو محض گوشت پوست کا ایک متحرک لوتھڑا ہوتا ہے اور زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا ہے سب کی سب پرورش و تربیت کی محتاج ہوتی ہیں، یہ پرورش محبت و شفقت، حفاظت و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے، جب تک بچہ اپنے جسم و ذہن کے حد بلوغ تک نہ پہنچ جائے، پھر پرورش کی ضرورتیں ایک دو نہیں بے شمار ہیں، ان کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر حالت کے مطابق محبت کا جوش، نگرانی کی نگاہ اور زندگی کا سرو سامان ملتا رہے۔ حکمت الٰہی نے ماں کی محبت میں ربوبیت کے یہ تمام خدوخال پیدا کر دیے ہیں، یہ ماں کی ربوبیت ہے، جو پیدائش کے دن سے لے کر بلوغ تک بچے کو پالتی، بچاتی، سنبھالتی اور ہر وقت اور ہر حالت کے مطابق اس کی ضروریات پرورش کا سامان مہیا کرتی رہتی ہے۔

    جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہ تھا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا تھا، جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی، جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی تھی جب کھڑے ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑ لی اور ایک ایک قدم چلانے لگی، پس یہ بات کہ ہر حالت اور ضرورت کے مطابق ضروریات مہیا ہوتی رہیں اور نگرانی وحفاظت کا ایک مسلسل اہتمام جاری رہا، وہ صورت حال ہے جس سے ربوبیت کا مفہوم کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)

  • "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    "ہم اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے!”

    جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہوں، جہاں دوپہر ہر روز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح و شام چہکیں، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و مسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟

    مصیبت ساری یہ ہے کہ خود ہمارا دل و دماغ ہی گم ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے سے باہر ساری چیزیں ڈھونڈتے رہیں گے، مگر اپنے کھوئے ہوئے دل کو کبھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ حالانکہ اگر اسے ڈھونڈ نکالیں تو عیش و مسرت کا سارا سامان اسی کوٹھڑی کے اندر سمٹا ہوا مل جائے۔ ایوان و محل نہ ہوں تو کسی درخت کے سائے سے کام لے لیں، دیبا و مخمل کا فرش نہ ملے تو سبزۂ خود رو کے فرش پر جا بیٹھیں، اگر برقی روشنی کے کنول میسر نہیں ہیں تو آسمان کی قندیلوں کو کون بجھا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں اوجھل ہو گئیں ہیں تو ہو جائیں، صبح اب بھی ہر روز مسکرائے گی، چاندنی اب بھی ہمیشہ جلوہ فروشیاں کرے گی، لیکن اگر دل زندہ پہلو میں نہ رہے، تو خدارا بتلائیے اس کا بدل کہاں ڈھونڈیں؟ اس کی خالی جگہ بھرنے کے لیے کس چولھے کے انگارے کام دیں گے۔

    میں آپ کو بتلاؤں اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز کیا ہے؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا۔ کوئی حالت ہو، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ دھیمی نہیں پڑے گی، میں جانتا ہوں کہ جہاں زندگی کی ساری رونقیں اسی میکدۂ خلوت کے دم سے ہیں۔ یہ اجڑا اور ساری دنیا اجڑ گئی۔

    (انشاء پرداز مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِ خاطر سے اقتباس)