Tag: اردو اقتباسات

  • ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مدارس کے بوریا نشینوں اور معمر باریش غازیوں نے موت سے بے نیاز ہو کر میرِ کارواں کا کردار ادا کیا۔ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی اور تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔

    ان کی گاندھی سے ایک ملاقات اور اس دوران ہونے والی گفتگو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے، جس کے راوی سید محمد اسلم ہیں جو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: میں نے ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی۔ مسجد کے شمالی دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جو امام صاحب کا قبرستان کہلاتا ہے۔ اسی قبرستان میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی (م 1956ء) اور مولوی سمیع اللہ (م 1969ء) محو خوابِ ابدی ہیں۔

    مولانا لدھیانوی ایک زمانے میں مجلسِ احرار کے صدر تھے اور پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد موصوف مہاجروں کے قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے، لیکن یہاں ان کا جی نہ لگا اور موصوف دسمبر 1947ء کے اواخر میں دوبارہ بھارت چلے گئے۔ 3 جنوری 1948ء کو وہ ’گاندھی جی‘ سے ملے۔ گاندھی جی نے ان سے کہا۔ مولانا کیا آپ بھی پاکستان چلے گئے تھے؟ کیا آپ نے لدھیانہ کی سکونت اس بنا پر ترک کی کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، اگر آپ کا یہی جرم تھا تو آپ اپنے دین کے لیے جان کا نذرانہ پیش نہ کر سکے۔ یہ بات خود مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے راقم الحروف کو سنائی تھی۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ گاندھی جی کی باتیں سن کر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہ گاندھی کے ساتھ ان کی آخری ملاقات تھی۔ 30 جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

    (کتاب ’سفرنامۂ ہند‘، از قلم سید محمد اسلم)

  • شہ رگ کی بیٹھک!

    شہ رگ کی بیٹھک!

    میرے ایک استاد اونگارتی تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ سَر "ایمان کیا ہوتا ہے؟” انہوں نے جواب دیا کہ ایمان خدا کے کہے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے۔ یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی​۔

    اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا۔​
    شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے۔ اس بچے کا باپ نیچے زمین پر کھڑا بڑا بے قرار اور پریشان تھا۔ اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا چھلانگ مار بیٹا۔ "اس لڑکے نے کہا کہ "بابا کیسے چھلانگ ماروں، مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے (اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی)۔

    اس کے باپ نے کہا کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار، تیرا باپ نیچے ہے، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تجھے دیکھ رہا ہوں نا۔

    اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تم مجھے نہیں دیکھ رہے، میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں۔”​
    اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کے ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں۔ اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے۔​

    (از قلم اشفاق احمد، کتاب زاویہ 3)

  • بٹیروں کی لڑائی (انسانی نفسیات کے مشاہدہ پر مبنی ایک دل چسپ تحریر)

    بٹیروں کی لڑائی (انسانی نفسیات کے مشاہدہ پر مبنی ایک دل چسپ تحریر)

    ہندوستانیوں کا خاصہ ہے کہ ان کا ہر شوق ترقی کر کے جلد ’’عیاشی‘‘ کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور اسی کے ساتھ ان کو یہ تاریخی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ انہیں کوئی ایسا شوق ہوتا ہی نہیں جو تجارتی، ادبی، تاریخی یا کم سے کم تمدنی حیثیت سے ان کے ملک اور قوم کے لیے مفید ہو۔

    چنانچہ ان کا سرمایۂ عزت، اثر اور رسوخ حتّٰی کہ جان و مال بھی اسی شوق کی نذر ہو جاتا ہے اور طبی تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس نوع کا جنون جو ہماری زبان میں شوق کہلاتا ہے ’’فسادِ گندم‘‘ کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ سرمایہ داری ان تمام نقائص کی ذمہ دار ہے۔ تیتر بازی سے لے کر مرغ بازی اور ہرقسم کی درمیانی بازیاں امرا ہی کے حصہ میں آگئی ہیں۔ مفلس اور بے زر لوگ اگر ان مشاغل کو اختیار بھی کرتے ہیں تو محض وسیلۂ معاش کی حیثیت سے۔ انہیں اس حیلے سے کم سے کم سرمایہ داروں کی مصاحبت کا شرف ہی حاصل ہوجاتا ہے اور پھر وہ اس سے کافی فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔

    چنانچہ ہمارے ایک غریب ہمسایہ کسی چودھری کے یہاں چلم بھرنے پر ملازم تھے۔ اتفاق سے چودھری صاحب کو بٹیر بازی کا شوق پیدا ہوگیا اور انھوں نے ہزاروں روپیہ اس کی نذر کر دیا۔ ملازم ذہین آدمی تھا، اس نے فوراً ہی میاں کی نگاہیں پہچان لیں اور جھٹ ایک عمدہ قسم کا بٹیر بازار سے خرید کر سہراب نام رکھ دیا اور مشہور کر دیا کہ میاں کے بٹیر کا مقابلہ کرنے کی غرض سے میں نے سہراب کو تیار کیا ہے اور اس کی یہ کیفیت ہے کہ جب سے تیار ہوا ہے ایک طرف ریاست رام پور لرزہ بر اندام ہے تو دوسری طرف الور تھرا رہی ہے۔

    میاں نے جو ملازم کا یہ رجز سنا تو بگڑ کر بولے، ’’دیکھیں تیرا ’سہراب‘ کیسا شہ زور ہے۔ خدا کی قسم میرے ’اسفند یار‘ کی ایک لات کی بھی تاب نہ لاسکے گا۔‘‘

    ملازم نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا، ’’سرکار میں غریب آدمی ہوں۔ حضور کے سامنے زبان کھولتے ہوئے ذرا ڈر معلوم ہوتا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میرا ’سہراب‘ شہر بھر کے پہلوانوں کو پچھاڑ چکا ہے۔ حضور کا ’اسفند یار‘ ماشاء اللہ ہے تو بڑا طاقت ور جانور۔ اکھاڑے بھی بہت سے دیکھ چکا ہے مگر سرکار قصور معاف ہو، سہراب کے لگّے کا وہ بھی نہیں۔‘‘

    اب سرکار کو غصہ آگیا، مگر تھے بڑے قدر دان۔ اس معاملہ میں انھوں نے مساوات کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ وہ مونچھوں پر تاؤ دے کر بولے، ’’فضول بکواس میں سننا نہیں چاہتا۔ دعویٰ ہے تو میدان میں آؤ۔ یہ تو کشتی ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے کا سوال نہیں۔ ہر شخص کو آزادی ہے، اپنا کمال دکھانے کی۔‘‘

    ’’پھر سرکار کچھ انعام مقرر کر دیا جائے۔‘‘

    ’’انعام۔۔۔ ہاں مناسب ہے، تو میں کہتا ہوں، اگر میرے اسفند یار کو تمہارے سہراب نے بھگا دیا تو قسم ہے قبلہ والد صاحب کے سرِعزیز کی دو سو روپے دوں گا۔‘‘

    ’’بجا ہے سرکار۔ مگر ہارنے والے کو بھی دنگلوں میں کچھ مل جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہارنے والے کو پچاس روپے ملیں گے۔‘‘

    اگلے دن کشتی کا اعلان ہوگیا اور سہراب و اسفند یار اپنی اپنی جگہ خم ٹھونکنے لگے۔ تیسرے روز بڑی دھوم سے پہوان اکھاڑے میں آئے۔

    چودھری صاحب اپنے بٹیر کو لیے نہاتی پرتکلف فٹن میں سوار تھے۔ آگے آگے بینڈ بجتا جا رہا تھا، چودھری صاحب پھولوں سے لدے ہوئے تھے۔ اس شان سے اسفند یار معرکہ کارِ زار میں وارد ہوئے تو دوسری طرف سے سہراب اپنے مالک کے ہاتھوں میں جوشِ تَہَوُّر سے سرشار آئے۔ بڑی کروفر سے دونوں پہلوان اکھاڑے میں اترے۔ ایک گھنٹہ تک زبردست مقابلہ رہا۔ دونوں بڑی بے جگری سے لڑے۔ مجمع قطعاً خاموش تھا۔ چودھری صاحب کے حاشیہ نشین دعائیں کر رہے تھے کہ اسفند یار غالب رہے اور غریب طبقہ کے لوگ، جن کو چودھری صاحب کے خوانِ کرم سے کبھی کوئی حصہ نہ ملا تھا، اپنی ہم جنسی کے خیال سے ملازم کے طرفدار تھے۔ وہ سہراب کے لیے فتح کی دعا مانگ رہے تھے۔

    ان دونوں گروہوں کے علاوہ ’’سخن فہم‘‘ حضرات کاطبقہ جو کسی کا طرفدار نہ تھا بلکہ صرف حق کی فتح چاہتا تھا، یہ دیکھ رہا تھا کہ باقاعدہ لڑائی کس طرف سے ہو رہی ہے اور منظم حملہ کا انتظام کس پہلوان کی جانب سے زیادہ ہے۔ کس کی لات اور چونچ فنِ سپہ گری کے اصول پر کام کر رہی ہے اور کون اپنی طاقت کو بے اصول صرف کر رہا ہے۔ یہ لوگ فن کے نقطۂ نگاہ سے لڑائی کو دیکھ رہے تھے اور کسی خاص پہلوان کے غالب و مغلوب ہونے کے طالب نہ تھے۔

    ایک گھنٹہ کے بعد سہراب دبنا شروع ہوا اور اسفند یار کے مُؤیَّدین خوشی کے نعرے بلند کرنے لگے لیکن لوگ دیکھ رہے تھے کہ سہراب نہایت قاعدے سے پٹ رہا تھا۔ اس کی پسپائی میں بھی شجاعت و بہادری کا ایک مستقل درس پنہاں تھا۔ اس کو مغلوب سمجھ کر جو لوگ ہجوم کر رہے تھے ان کو سخن فہم حضرات نے روک دیا اور غالب کی بالکل طرفداری نہ کی۔ انھوں نے جوش کے ساتھ کہا، خبردار، پہلوان کے قریب نہ آنا۔ اس کا دم نہیں ٹوٹا ہے۔ وہ پھر زور پکڑے گا۔ دیکھو ہاتھ نہ لگے نہیں تو سَر کی خیر نہیں۔

    اتنا جاں باز تو اسفند یاری گروہ میں کوئی نہیں تھا کہ اس موقع پر جان اور سر کی بازی لگا بیٹھتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ رجزیہ کلمات سن کر سب کی ہمتیں پست ہوگئیں اور جو عارضی ہلچل مچ گئی تھی وہ سرد پڑ گئی۔

    اب سہراب نے پھر ہمت کی اور ایک جگہ قدم جما کر کھڑا ہو گیا۔ اسفند یار تھک چکا تھا۔ سہراب نے اس کو دانستہ آگے بڑھنے اور اپنے زور کو بے جا صرف کرنے کا موقع دیا تھا۔ چنانچہ اب اس نے مدافعت شروع کی۔ انجام یہ ہوا کہ دوچار لاتوں ہی میں اسفند یار کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور وہ پیچھے ہٹنے لگا۔ سہراب برابر اسے دھکیلتا رہا۔ اسی کشمکش میں ایک دفعہ اسفند یار پھر سے اڑ گیا اور فضا تالیوں کی بے شمار آوازوں سے گونج گئی۔ سہراب کا مالک دوڑ کر اپنے آقا کے قدموں پر گر گیا اور عاجزی سے کہنے لگا، سرکار معاف فرمائیے۔ ہم پیٹ بھرنے کے لیے یہ سب جتن کرتے ہیں۔ ان دو سو کے لیے سال بھر سے سَر مار رہا تھا۔ چپکے چپکے پہلوان کی خدمت کر رہا تھا، جب بالکل تیار ہوگیا تو حضور کے سامنے تذکرہ کیا۔

    انھوں نے فوراً دو سو روپے کے نوٹ گن دیے اور آئندہ کے لیے ابھی سے پانچ سو روپے کا اعلان کر کے کہا، ’’اچھا اگلے مہینے کے شروع میں ہم ’افراسیاب‘ کو لڑائیں گے۔ تمہارے سہراب سے جیتنے والے کو پانچ سو روپے اور ہارنے والے کو سو روپے دیے جائیں گے۔ اب کے دیکھوں گا میں سہراب کو۔‘‘

    ملازم نے ادب سے سر جھکا کر کہا، ’’حضور میرا کیا ہے سب آپ ہی کا ہے۔ میں بھی آپ ہی کا ہوں اور سہراب بھی حضور ہی کا ہے۔‘‘

    سہراب برابر جیتتا رہا۔ مسلسل دس بارہ کشتیاں ہزرا ہزار اور دو دو ہزار کی اس نے لڑیں اور کامیاب رہا۔

    ایک سال کے بعد جو ہم گھر پہنچے تو دیکھا کہ محلہ میں جہاں چلم بھرنے والے ملازم کی جھونپڑی تھی، وہاں ایک عالیشان محل تعمیر ہوگیا ہے جس کے بلند اور شاندار دروازے کے سامنے بٹیروں کے بہت سے پنجرے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس درمیان میں اکثر نوٹس اور سمن اخبارات میں بنام چودھری سعادت حسین ولد امانت حسین ہماری نظر سے گزر چکے تھے اور ہمیں معلوم تھا کہ چودھری صاحب پر ہزاروں روپے کے نالشیں ہوچکی ہیں۔ یہاں آکر یہ حال کھلا کہ چودھری صاحب نے اپنی تمام جائیداد اسفند یار اور افراسیاب کے نذر کر دی۔ اب حالت یہ ہے کہ خدا بخش تو رئیس بنے ہوئے اس فلک بوس محل میں جلوہ افروز ہیں اور چودھری صاحب کا گھر تک نیلام ہوچکا ہے اور ذاتِ شریف پانچ ہزار کی ایک ڈگری کے سلسلہ میں جیل خانہ میں تشریف فرما ہیں۔ مگر دم خم وہی ہیں۔ مہینہ پندرہ روز میں کوئی نہ کوئی خط خدا بخش کے پاس آجاتا ہے جس میں آئندہ دنگل کے متعلق ان کے پرجوش ارادوں کی مفصل اطلاعات درج ہوتی ہیں۔ مگر خدا بخش واقعی خدا بخش ہے۔ وہ نہایت نرمی سے جواب لکھ دیتا ہے۔

    سرکار میرا سہراب بوڑھا ہوگیا ہے۔ اب اس میں لڑنے کی سکت نہیں رہی۔ لنگوٹ کھولنے کی رسم بھی ادا کرچکا ہوں۔ اب تو میں اپنے اس محسن کی خدمت میں مصروف ہوں۔ جب تک زندہ رہے گا خدمت کرتا رہوں گا۔ دنگل کا زمانہ اب نہیں رہا۔ آپ کے افراسیاب میں خدا کے فضل و کرم سے قوت ہے۔ اس کا کس بل نہیں ٹوٹا اور وہ ابھی لڑائی کے کام کا بھی ہے۔ مگر شہر میں اور بہت سے پہلوان موجود ہیں، ان سے لڑائیے غلام کو اب معذور سمجھیے۔

    (افسانہ و مضمون نگار کوثر چاند پوری کے مشاہدات پر مبنی تحریر)

  • عینی آپا کی رائے اور فوٹو جینک حافظہ

    عینی آپا کی رائے اور فوٹو جینک حافظہ

    قرۃ العین حیدر اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا اور ایک ناول نگار کی حیثیت سے ان کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ان کے سوانحی ناول ہیں جن میں ان کا منفرد انداز، تاریخی اور سماجی شعور قارئین کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ انھیں اہلِ علم و دانش ہی نہیں پاک و ہند میں موجود ان کے قارئین بھی عینی آپا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    یہاں ہم ابوالکلام قاسمی کی ایک تحریر سے دو پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ عینی آپا سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ باتیں رقم کررہے ہیں جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

    ایک بار دردانہ نے انھیں (عینی آپا) کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ اس زمانے میں ہمارا گھر محض دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ایک ناکافی ورانڈے پر مشتمل تھا۔ پہلے سے تو انھوں نے کھانے میں نمک نہ ڈالنے یا سبزی اور گوشت کے بارے میں اپنی پسند و ناپسندیدگی پر متعدد ہدایات دے دی تھیں مگر جب آئیں تو حد درجہ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ دروازے کی چوکھٹ، کمروں کے دروازوں اور ریفریجریٹر وغیرہ پر جو آیتیں اور دعائیں لگائی گئی تھیں ان کو پڑھتیں اور مجھ سے ان کے معنی دریافت کرتی رہیں۔ ویسے ان آیتوں اور دعاؤں کا ہلکا سا مفہوم ان پر پہلی نظر میں واضح بھی لگتا تھا۔ پھر بولیں کہ خدا کا شکر ہے کہ کوئی تحریر بے موقع اور نامعقولیت سے نہیں لگی ہوئی۔ بھئی تم تو خاصے معقول آدمی ہو۔ چوکھٹ پر گھر کی حفاظت، دروازوں پر عام صحت و عافیت اور فریج پر رزق سے متعلق آیتوں کو پڑھ کر انھیں خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو آیت جس جگہ تھی اسے وہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ معمولی معمولی باتوں سے انسان کے معمولات اور رویوں کے بارے میں گہرائی سے رائے قائم کیا کرتی تھیں۔

    ابوالکلام قاسمی نے ایک قصّہ یوں رقم کیا:
    ایک بار مجھے عینی آپا کے ساتھ یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ شاید امتحان کے کسی کام کے معاوضے کا معاملہ تھا۔ (پیسے وغیرہ کے معاملے میں وہ اپنے واجبات کو کبھی ثانوی حیثیت نہ دیتی تھیں) وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہیں اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہنے لگیں کہ شاید یہ وہی عمارت ہے جو بچپن ہمارا گھر ہوا کرتا تھا، جس میں میری پیدائش ہوئی تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی کوٹھی سچ مچ وہی تھی جس میں کئی سال تک یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار سجاد حیدر یلدرم قیام پذیر رہ چکے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ میرا حافظہ یوں تو بہت اچھا نہیں مگر جیسا بھی ہے، ہے فوٹو جینک ہے۔ یعنی ان کی یادیں تصویری شکلوں میں ان کے حافظے میں محفوظ رہا کرتی تھیں۔ یادوں کی بازگشت کے اس عمل کی انوکھی کارفرمائی ان کی تحریروں میں جگہ جگہ بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔

  • آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    آزاد، جن کے سامنے جوش صاحب منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت جانتے تھے!

    دنیائے فانی میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جنہیں تاریخ بناتی ہے اور کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جو خود تاریخ بناتے ہیں جنہیں تاریخ ساز کہا جاتا ہے۔ بے شک مولانا آزاد ایک ایسی ہی تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے۔

    ایک روز میں اور جوش صاحب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے، جوش صاحب کو کچھ کام تھا لیکن میں یوں ہی ساتھ ہو لیا۔ مولانا ملاقاتیوں میں گھرے ہوئے تھے، جب کچھ دیر رکنے کے بعد بھی ہماری باریابی نہ ہوسکی تو جوش صاحب کہنے لگے، بھئی ہم تو اب چلتے ہیں۔ میں نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ مولانا نے تو آپ کو نہیں وقت دیا، آپ خود ہی تشریف لائے ہیں، ذرا اور انتظار کیجیے۔ جوش صاحب ان معاملات میں ضرورت سے زیادہ حساس تھے چنانچہ انہوں نے فوراً ہی یہ شعر لکھ کر چپڑاسی کے حوالے کیا اور چل پڑے:

    نامناسب ہے خون کھولانا
    پھر کسی اور وقت مولانا

    ابھی ہم دس بیس قدم ہی گئے ہوں گے کہ اجمل خاں ہانپتے ہانپتے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ مولانا کو تو آپ کے آنے کا علم ہی اب ہوا ہے، آپ آئیے مولانا یاد فرمارہے ہیں۔ چنانچہ ہم لوٹ آئے اور مولانا نے ہمیں بلا لیا اور معذرت کی کہ ہمیں انتظار کرنا پڑا۔

    فرمانے لگے کہ تمام وقت سیاسی لوگوں کی صحبت میں گزر جاتا ہے، جی بہت چاہتا ہے کہ کبھی کبھار علمی صحبت بھی میسر ہوتی رہے، کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دو چار دس دن میں کبھی تشریف لے آیا کریں تو کچھ راحت ملے۔ جوش صاحب نے وعدہ فرما لیا، میں تو چونکہ جوش صاحب کے ساتھ تھا، مولانا نے مجھے بھی یہ دعوت دی حالانکہ ان دونوں حضرت کے سامنے میری حیثیت ایک طفلِ مکتب کی بھی نہیں تھی۔

    اسی سلسلے میں ہم ایک شام آٹھ بجے کے قریب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اجمل خاں آئے اور کہنے لگے کہ مولانا پنڈت جواہر لال نہرو جی کا فون آیا ہے، کسی ضروری مشورے کے لئے آپ کے پاس آرہے ہیں۔ یہ سن کر مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو فون کر دو کہ میں ابھی فارغ نہیں ہوں۔ میں نے اور جوش صاحب نے لاکھ کہا کہ ہمارا تو کوئی خاص کام تھا ہی نہیں، یوں ہی چلے آئے تھے، آپ ہماری وجہ سے پنڈت جی کو نہ روکیں، لیکن مولانا نہیں مانے۔ اتنے میں پھر اجمل خاں آگئے اور کہنے لگے کہ پنڈت تو گھر سے چل پڑے ہیں اور دو چار منٹ میں آتے ہی ہوں گے۔ ہم نے پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن مولانا نہیں مانے، اتنے میں پنڈت جی آگئے تو مولانا نے اجمل خاں صاحب سے کہا کہ پنڈت جی کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دو۔ اس کے بعد بھی مولانا نے پانچ سات منٹ ہم لوگوں کے ساتھ گزارے، لیکن جب انہیں احساس ہوگیا کہ ہمیں سخت کوفت ہورہی ہے تو فرمانے لگے آپ ابھی جائیے نہیں، میں پنڈت جی سے بات کر کے آتا ہوں۔ چنانچہ دس بیس منٹ کے بعد مولانا تشریف لائے اور آدھ پون گھنٹہ ہمارے ساتھ باتیں کرتے رہے، اس واقعے کا ذکر کرنے سے مولانا کی عظمت، خود داری، مہمان نوازی اور وقار کا صحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ کتنے آدمی ایسے ہوں گے جو پنڈت جی کو آنے سے روک دیتے؟

    جوش صاحب اردو شاعری کے بادشاہ تھے۔ جتنا ذخیرۂ الفاظ ان کے پاس تھا شاید کسی اور کو نصیب نہ ہوا ہو، لیکن صرف دو ایسی ہستیاں تھیں جن کے سامنے جوش صاحب خاموش رہنا زیادہ مناسب سمجھتے اور وہ تھے مولانا آزاد اور مولانا عبدالسّلام نیازی۔ ایک روز میں نے جوش صاحب سے پوچھا کہ جب کبھی آپ مولانا آزاد یا مولانا عبدالسّلام نیازی سے ملتے ہیں تو اکثر خاموش ہی رہتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ تو جوش صاحب کہنے لگے کہ یہ دونوں حضرات اسی قدر پڑھے لکھے اور عالم ہیں کہ ان کے سامنے منہ نہ کھولنے ہی میں عافیت ہوتی ہے۔

    (اردو کے معروف شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کے مضمون سے اقتباسات)

  • اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    ادب میں اختر الایمان کی پہچان ایک شاعر کی طرح ہے، لیکن وہ تنہا شاعر ہیں جنھوں نے فلم میں رہ کر اپنی شاعری کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا۔ تقریباً نصف صدی وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے، فلموں کے لیے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے رہے لیکن (سوائے فلم ’’غلامی‘‘ کے اوپیرا کے) کوئی گانا انھوں نے فلم کے لیے نہیں لکھا۔

    ایسا نہیں کہ فلم کی سطح تک اتر کر شاعری نہیں کرسکتے تھے مگر ان کا شاعری کے لیے جذبۂ احترام تھا کہ انھوں نے اسے میوزک ڈائریکٹروں کی دھنوں کی تان پر قربان نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ’’شعری جینیس‘‘ کو صرف سنجیدہ اور فکر انگیز شاعری کے لیے ہی محفوظ رکھا اور فلمی ادیبوں کی بھیڑ میں منفرد رہے۔ آج کے دور میں اپنے فن کے لیے اس قدر پرخلوص ہونا بے مثال ہے۔

    اخترالایمان نے نہ صرف یہ کہ فلمی شاعری نہیں کی، بلکہ سیاسی اور نیم سیاسی قصیدے بھی نہیں لکھے۔ اپنی شاعری کو ہر مصلحت سے دور رکھا اور وہی کہا جو شدت سے محسوس کیا اس لیے وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’گرداب‘‘ کی اشاعت (۱۹۴۳ء) کے ساتھ ہی صفِ اوّل کے شاعروں میں شمار کیے جانے لگے تھے اور یہ بلند مرتبہ انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعرانہ عظمت نہ کسی ’’تحریک‘‘ کی رہین منت ہے نہ کسی سیاسی یا غیرسیاسی گروہ یا شخصیت کی۔ وہ تنہا اپنے بل پر نمایاں رہے، بھیڑ میں سب سے الگ۔

    راقم الحروف کی ملاقات اختر الایمان سے ٹھیک ساٹھ سال پہلے ہوئی۔ ۱۹۴۲ء ماہ جون، میرے آبائی قصبہ نگینہ میں آل انڈیا انصار کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کے کونے کونے سے انصاری برادری کے لیڈران آئے تھے۔ میرا مطلب ہے ’’انصاری جدید‘‘ اور اس کانفرنس کی وجہ سے قصبہ کے ایک مشہور حکیم ایوب انصاری اپنی بدنامی سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ تین روزہ کانفرنس کے دوران اپنے گھر سے ہی نہ نکلے۔ اس کانفرنس کے سکریٹری مشہور رہنما قیوم انصاری نے ایسی گرم تقریر کی کہ غیر انصاریوں کو جوش آگیا اور نقصِ امن کا اندیشہ ہونے لگا۔ تب صدر محفل کے کہنے پر اخترالایمان نے جو ان ’جغادریوں‘ کے سامنے ’’طفلِ مکتب‘‘ معلوم ہو رہے تھے، وہ دھواں دھار تقریر کی کہ دونوں فریقوں کو شکایت کی گنجائش نہ رہی۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہ انگریزی سامراج کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے دو گروپ ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ اختر الایمان اس انصار کانفرنس کے ہیرو ٹھہرے۔ اور بعد میں ہم نوجوانوں نے جو ’’ساقی‘‘ میں ان کی نظمیں پڑھتے تھے، ان سے کلام سنانے کی فرمائش کی تو اخترالایمان نے اپنی دو نظمیں ’’نقش پا‘‘ اور ’’محلکے‘‘ ترنم سے سنائیں۔ تب تک ان کا مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔ چند ماہ بعد پھر وہ نگینہ تشریف لائے اور اس رات ہم نے ان کی زبانی وہ سب نظمیں سنیں جو ’’گرداب‘‘ میں شائع ہوئیں۔

    ’’انصار کانفرنس‘‘ کی لیڈری ان کے قدموں میں تھی مگر اختر نے اس سلسلے کو منقطع کردیا۔ ان دنوں وہ ساغر نظامی کے رسالے ’ایشیا‘ کے نائب مدیر تھے۔ نگینہ کے بعد اخترالایمان سے میری ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں مگر وہ جلد ہی علی گڑھ ایم۔ اے کرنے چلے گئے۔ وہاں بھی ایک سال رکے اور ان کے کچھ عرصہ کے لیے قدم تھمے۔ پونا میں اور پھر پونا سے بمبئی۔ بمبئی میں اخترالایمان کو خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے لکھنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ باندرہ میں ان کا دو کمرے کا ایک فلیٹ تھا، گراؤنڈ فلور پر۔ پھر جب ان کی مقبولیت اور آمدنی میں اضافہ ہونے لگا تو انھوں نے اس مکان میں اپنی لائبریری بنالی اور باندرہ میں ہی ایک بڑا فلیٹ خرید لیا۔ بمبئی آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ اس نئے فلیٹ میں وہ ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلم ’’قانون‘‘ جس میں کوئی گانا نہیں تھا، ان کے مکالموں کے باعث بہت مقبول ہوئی اور وہ ان کی کامیابی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ البتہ آخری دنوں میں انھوں نے بیماری اور مالی مجبوریوں کے باعث وہ بڑا فلیٹ بیچ دیا تھا اور باندرہ میں ہی دو کمرے کا فلیٹ خرید لیا تھا۔

    میں ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور اکثر ان کے گھر ان سے ملنے جاتا تھا اور مجھے اخترالایمان نے ہمیشہ ایک مشفق بزرگ کا پیار دیا۔

    جس طرح اخترالایمان نے غزل نہیں لکھی اور فلمی شاعری نہیں کی اسی طرح ان کی وضع داری کا ایک گواہ ان کا لباس بھی تھا۔ وہ ہمیشہ بغیر کالر کا کھدر کا کرتہ اور پاجامہ پہنتے تھے۔ دہلی میں تو سردیوں میں شیروانی پہنتے تھے مگر بمبئی میں بس ان کا یہی ایک لباس تھا۔ کھدر کا سفید کرتہ اور پاجامہ۔ اس لباس میں میں نے انھیں پہلی بار نگینہ میں دیکھا تھا۔ اور اسی لباس میں ان کے انتقال سے کچھ دن پہلے تک دیکھا۔

    اختر الایمان کا ایک وصف بہت کاٹ دار تقریر کرنا تھا۔ ان کی سب سے پہلے تقریر تو میں نے انصار کانفرنس کے اسٹیج پر سنی اور دوسری تقریر ۱۹۴۴ء میں دہلی کے دربار ہال میں جہاں ترقی پسندوں اور رجعت پرستوں کے درمیان باقاعدہ مناظرہ ہوا تھا۔ ایک طرف خواجہ محمد شفیع، مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور سلطان اور دوسری طرف سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور اخترالایمان تھے۔ اختر الایمان کی تقریر مدلل اور برجستہ تھی۔ ایک کامیاب ڈبیٹر کی تقریر اخترالایمان کی تیسری معرکۃ الآراء تقریر میں نے بمبئی میں صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں سنی۔ یہ بھی ایک مناظرہ ہی تھا۔

    یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سردار جعفری کی انانیت نے اختر الایمان کو پنپنے نہ دیا لیکن جب ۱۹۶۰ء میں جدیدیت کی رو چلی تو اس گروپ نے اختر الایمان کو اپنا بنالیا تو اختر الایمان کو دیر سے ہی سہی، اپنی کاوشوں کا صلہ ملا اور ادبی حلقوں میں وہ سردار جعفری سے کہیں بہتر شاعر تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر اپنے وقت کے ان دونوں بڑے شاعروں میں ایک محتاط دوستی تھی۔ محفلی زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا، ملنا جلنا بھی تھا۔ لیکن معاصرانہ چشمک کی ایک لہر دونوں طرف تھی۔

    اختر الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیق القلب اور ہمدرد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔ میں اختر الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اختر الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔ اخترالایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب ولہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے بازگشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔ ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے سوائے ایک نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کے۔

    (ہندوستان کے مشہور شاعر اور ادیب رفعت سروش کے ایک مضمون سے چند پارے)

  • فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم یوں تو کھیل ہے، لیکن اس کا بنانا کھیل نہیں۔ ارادے اور روپ ریکھا سے لے کر فلم بنانے تک بیچ میں بیسیوں، سیکڑوں ایسی رکاوٹیں آتی ہیں کہ بڑے دل گردے والا آدمی بھی دم توڑ سکتا ہے۔

    سوشل فلم باقی دوسری فلموں سے الگ نہیں، لیکن زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ سماج مختلف قسم کا ہے۔ کئی مذہب، نسل، صوبے، بولیاں ٹھولیاں ہیں۔ جمہوری نظام نے انفرادی طور سے سب کو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں اور مجموعی طور پر برابری کے حقوق۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان حقوق کے خلاف ہوں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور سے ابھی میرے بھائیوں کو ان حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا۔

    مجھے یاد ہے، جب میں نے فلم ’مرزا غالب‘ لکھی تو اوّل اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ ان کے خیالات اور ان کی شاعری کی عظمت سے روشناس ہوں۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے، جس کی مدد سے آپ اس عہد کے سماج کی پرچھائیاں قلم بند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں، ’’آواز اٹھی اور نہ آنسو بہے۔ شہنشاہ ہند کی حکومت جمنا کے کنارے تک رہ گئی۔‘‘

    مغل عہد ختم ہو رہا تھا اور برٹش سامراجیت دھیرے دھیرے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اس وقت وہ ایک سادہ مگر دکھ بھرے جملے میں اس عہد کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں، ’’ارے کہاں ہو دلّی والو۔۔۔؟ دن دہاڑے ہی سو گئے؟‘‘ اس پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا صاحب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے، ان کے دل نہیں تھا۔ وہ کتنے دل والے تھے، ان کے خطوط پڑھ کر پتا چلتا ہے۔

    تاریخی فلموں کا ذکر محض تذکرہ ہے، کیونکہ حقیقت میں وہ کسی نہ کسی طرح سماجک پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کا اشارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراج رنجیت سنگھ کے بارے میں فلم بنانا آسان نہیں ہے۔ حقیقت سے متعلق دو مؤرخوں کی رائے آپس میں نہیں ملے گی۔ پھر وہ مقصد ان کی زندگی کے انفرادی پہلو کو فلم کے پردے پر نہیں لانے دے گا۔ آپ کو کئی اداروں سے کلیرنس حاصل کرنا ہوگا اور جب وہ حاصل ہوگا تو اسکرپٹ کی شکل بالکل بدل چکی ہوگی، جس میں آپ اپنا چہرہ پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہو جائیں گی۔ آپ بہت اچھے ہیں، میں بھی بہت اچھا ہوں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے، وغیرہ وغیرہ اور اگر آپ ان کے شکوک کے خلاف جائیں گے تو مورچے لگیں گے، آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اور آپ گھر کے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

    آپ زیبُ النساء کے بارے میں فلم نہ ہی بنائیں تو اچھا ہے، کیونکہ وہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی اور اس لیے سیزر کی بیوی کی طرح تمام شکوک اور شبہوں سے اوپر۔ عاقل خان گورنر ملتان سے ان کی محبت کو نہ صرف مشکوک سمجھا جائے گا، بلکہ اس کی صحت، میرا مطلب ہے، قصے کی صحّت کو بیہودہ قرار دیا جائے گا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں، حال ہی میں ستیہ جیت رے نے، جنہیں دنیا ایک بڑے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مانتی ہے، ایک فلم بنائی جس میں ایک نرس دکھائی گئی جو اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہو کر رات کو دھندا کرتی ہے۔ اب وہ ایک انفرادی بات تھی جس کا اجتماعی طور پر نرس پیشہ عورتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پر اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ نرسوں نے آندولن چلایا اور شری رائے کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ مرزا غالب، اور ’سنسکار‘ جیسی فلموں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انہیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔ اس کے بنانے والے کو راشٹر پتی اپنے ہاتھوں سے سورن پدک اور مان پتر پیش کرتے ہیں۔

    ساماجک فلم اپنے یہاں بنانے میں اپنے یہاں دیش کے حالات بہت آڑے آتے ہیں۔ مختلف گروہ، قومیں اور مقصد تو ایک طرف، خود سرکار بھی اس گناہ سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر سرکار کی پالیسی اہنسا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجیے گا کہ کئی ہنسا استعمال کرنے والوں کو ہم نے اپنا رہنما مانا ہے، ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور اس کے سہرے گائے ہیں۔ میں شہید بھگت سنگھ کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ شہید بھگت سنگھ اوّل اور آخر کرانتی کاری تھے، وہ من سے سوشلسٹ تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے بنا برٹش سامراجیہ کا تختہ الٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ان کے بارے میں فلم بنائیں تو دوسری طرف ان کے اسمبلی میں بم پھینکنے کے واقعے کو یا تو چھوڑ دینا ہوگا اور یا پھر اس کا بیان یوں کرنا ہوگا کہ وہ صرف سامراجیہ کو چونکانا چاہتے تھے۔

    تبھی ایک اندرونی تضاد پیدا ہو جائے گا۔ کیا لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس سانڈرس کی ہتیا بھی انہوں نے انگریزوں کو چونکانے کے لیے کی تھی؟ اگر آپ ان واقعات کو ایسے ہی دکھائیں گے جیسے کہ وہ واقع ہوئے تو آپ حملوں کا نشانہ بنیں گے، کیونکہ ملک میں کئی ایسے گروہ ہیں جو گولی بندوق میں یقین رکھتے ہیں اور سرکار کی پالیسی ایسی ہے کہ وہ دھماکہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ورنہ ان کروڑوں نوجوانوں کا کیا ہوگا جو دن رات یونیورسٹی کیمپس میں اودھم مچاتے رہتے ہیں۔

    سوشل فلم بناتے وقت ہم ہر ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ آپ قومی ایکتا پر فلم بنا رہے ہوں تو آپ میں ہمت نہیں ہوگی کہ رانچی، بھیونڈی اور مالیگاؤں کے واقعات کو ان کی صحیح صورت میں پیش کر سکیں، کیونکہ ان میں ایک مذہب یا قوم کے لوگوں نے دوسرے پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے۔ آپ ہندو مسلم فساد دکھاتے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں دو ہندو مرے ہوں وہاں دو مسلمان مار کے دکھائیں۔ اس پر بھی نہ ہندوؤں کی تسلی ہوگی نہ مسلمانوں کی۔ دونوں آپ سے ناخوش، دونوں ناراض اور اس پر آپ کو سینسر سرٹیفکیٹ لینے میں تکلیف ہوگی۔

    نوجوانوں کے بارے میں فلم بنائیے تو صرف یہیں تک پہنچیے کہ بڑوں کا عشق، عشق تھا اور چھوٹوں کی محبت بدنامی اور بدکاری۔ اُسے ’اُچت‘ مت لکھیے کہ شری مدبھا گوت سے لے کر اب تک استری اور پرشوں کے بیچ کیا کیا گردانیں ہوئیں۔ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ چند مصیبتوں میں پڑے بڑوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ وہ انہیں سیاسی اور رہنما نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو اپنے ہی الٹے معنی پہناتے ہیں۔

    سوشل فلم بنانے والے کی حیثیت اس عورت کی طرح ہے جو غرارہ پہنے ہوئے کسی پارٹی میں گئی اور جب لوٹی تو برسات ہو چکی تھی اور گھر کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ اس کے مرد نے سر والٹر ریلے کی طرح راستے میں اینٹیں اور سلیں رکھ دیں اور وہ غرارے کو سنبھالتی ہوئی چلی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک اینٹ ٹیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ دھپ سے پانی میں گری۔۔۔ غرارے سمیت! ساودھانی اُسے لے ڈوبی۔

    نا بابا۔ ساماجک فلم بنانے میں بڑی جوکھم ہے۔ چاروں طرف سے آپ ننگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بدن پر کھال بھی نہیں اور نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ فلمیں ساماجک اور دوسری کن حالات میں بنتی ہیں، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ نام کی ہمیں پوری آزادی ہے مگر اس کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں، اس عالم میں مجاز کا شعر یاد آ جاتا ہے،

    حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
    کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا

    (اردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار اور فلمی مکالمہ نویس راجندر سنگھ بیدی کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • ڈاکٹر مقصود زاہدی: ایک بے داغ، دل آویز شخصیت

    ڈاکٹر مقصود زاہدی: ایک بے داغ، دل آویز شخصیت

    کچھ دوست اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کے متعلق کچھ لکھنا چاہو تو سوائے قصیدے کے اور کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتا۔ گہری دوستی، انتہائی قربت، شب و روز کی بے تکلف صحبتوں، ذہنی رشتوں اور نظریاتی ہم آہنگی کے باوجود برسوں کی ہم سفری میں بھی ان کی کوئی ایسی چوری ہم پکڑ نہیں سکتے جس پر جی کھول کر قہقہہ لگانے کا موقع میسر آئے۔ کوئی ایسی گمراہی نظر نہیں آتی جو ان کے لئے توشۂ آخرت ثابت ہو۔ ڈاکٹر مقصود زاہدی ایک ایسی ہی بے داغ دل آویز شخصیت ہے۔

    وہ کوئی ایسا گہرا آدمی بھی نہیں جس کے اندر تہ خانوں میں اپنے معاشقوں اور آوارگیوں کو پالنے کے لچھن ہوں اور ان تہ خانوں کے چور دروازوں تک رسائی جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو۔ وہ تو پیٹ کا اتنا ہلکا ہے کہ پہلی ملاقات ہی میں آپ کو اپنے دوستوں، ملاقاتیوں، یہاں تک کہ اپنے مریضوں کو بوالعجبیاں تک سنا ڈالے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کے بعض ممنوع ابواب کے علاوہ اور کوئی بات بھی کسی سے نہیں چھپاتا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنی افتادِ طبع کے باعث چھپا ہی نہیں سکتا۔ پھر اسے اپنی پارسائی و پاک بازی کا بھی کوئی گھمنڈ نہیں رہا۔ وہ ایک شریف اور مہذب آدمی ضرور ہے۔ لیکن ایسا گیا گزرا بھی نہیں۔ نہ خشک ملّا ہے، نہ بے رنگ سوشلسٹ، نہ صراط المستقیم کی پیمائش کرنے والا مسلمان، نہ اخلاق کا مبلغ، نہ جمالیاتی حس سے کورا فلسفی، نہ جہالت کا دوست، نہ عقل کا دشمن، اس نے منہ زور جوانی کا طوفانی دور بھی گزارا ہے۔ شکل و صورت بھی لاکھوں میں ایک ہے، ہم نے اسے ڈھلتی عمر میں دیکھا اور سچ پوچھئے تو ایک ادیب شاعر یا نظریاتی انسان کے طور پر نہیں (کہ اس وقت تک ہم پر اس کے جوہر نہیں کھلے تھے) بلکہ اپنے خوب رُو دوستوں میں اضافے کے طور پر اسے قبول کیا۔ سرخی سپیدی تو نظرِ بد دور اس ساٹھے پاٹھے دور میں بھی اس کے حسین و جمیل چہرے پر ٹھاٹھیں مارتی محسوس ہوتی ہے۔ جوانی میں نہ جانے کیا قیامت ہو گا۔

    وہ قیام پاکستان کے بعد لٹ لٹا کر یہاں پہنچا۔ اس وقت وہ سب کچھ ہار کر قلندر بن چکا تھا، لیکن ہمت اور حوصلہ نہیں ہارا۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن فکر و نظر کی روشنی تھی، علم کی دولت تھی، اس نے راولپنڈی میں نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا، ٹیوشنیں پڑھائیں، کتابوں کی دکان تھنکرز کارنر کے نام سے کھولی۔ آخر برما شیل میں معقول ملازمت مل گئی اور کچھ عرصہ بعد وہ تبدیل ہو کر پشاور آگیا۔ اس وقت اس کی شادی ہو چکی تھی اور ایک گول مٹول پیارا سا بچہ بھی جنم لے چکا تھا۔ پشاور آتے ہی اس نے یہاں کے اہلِ قلم سے فرداً فرداً مل کر اپنا تعارف کرایا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اس کے نظریاتی رشتوں نے سارے فاصلے سمیٹ کر ہمیں قریب تر کر دیا تھا۔ دفتری اوقات کے بعد اس کا زیادہ وقت میرے ساتھ ہی گزرتا۔ ان دنوں ابھی اس کے حالات اچھے نہیں تھے لیکن میں نے اسے کبھی حالات کا رونا روتے یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔

    زاہدی کے آنے سے پشاور کی ادبی فضا چمک اٹھی۔ تنقیدی نشستوں میں ہماہمی پیدا ہو گئی اور لکھنے والوں میں ایک تخلیقی لہر سی دوڑ گئی۔ ایک دفعہ مشہور ادبی ماہنامہ’’ساقی‘‘ کے مدیر و مالک شاہد احمد دہلوی مرحوم ایک ریڈیو پروگرام کے سلسلے میں پشاور وارد ہوئے۔ زاہدی اور ان کے نہایت گہرے اور دیرینہ مراسم تھے۔ اس نے انہیں کھانے پر مدعو کیا اور مجھے بھی بلایا۔ پہلی دفعہ زاہدی کا ٹھکانہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک شکستہ حال مکان تھا جس میں بجلی تک نہیں تھی۔ گھر کا سامان دو چارپائیوں اور چند ایک ٹوٹے پھوٹے برتنوں پر مشتمل تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ہم نے ایک بوریے پر بیٹھ کر لالٹین کی مدھم روشنی میں کھانا کھایا۔ لیکن اس کی خود اعتمادی نے بڑا متاثر کیا۔ زاہدی نے نہ تو کوئی معذرت کی۔ نہ شرمندگی محسوس کی، بلکہ اس کی تلافی کچھ اس طرح اپنی سدا بہار مسکراہٹ، جادو اثر گفتگو اور لطیفوں اور چٹکلوں سے کی کہ کسی اور طرف دھیان دینے کا موقع ہی نہ دیا۔ سارے وقت بچوں کی طرح اس کے فلک شگاف قہقہے گونجتے رہے۔

    میرے معاشی حالات جو کبھی اچھے نہیں رہے، ان دنوں بھی دگرگوں تھے۔ لیکن زاہدی کی حالت دیکھ کر اپنے مصائب بھول گیا اور وہاں سے جا کر کئی دنوں تک اس آہنی انسان کے عزم اور حوصلے کی داد دیتا رہا۔ مجھے زندگی کے متعلق اس کے اس رویے سے ایک نئی روشنی ملی۔ بعد میں اسی جگہ ہم نے لالٹین کے ٹمٹماتے اجالے میں اپنی زندگی کے بعض نہایت اہم فیصلے کیے۔ دلوں کے چراغ جلا کر بجلی کی کمی کو پورا کیا۔ علم و آگہی کی ضیا سے ذہنوں کو منور کیا۔ اپنی فکری الجھنوں کو سلجھا کر ذاتی اور کائناتی رشتوں کو استوار کیا۔ سماجی شعور اور عصری بصیرت حاصل کی۔ غمِ ذات کی حد بندیاں توڑ کر انسانی سوچ کے ہمہ گیر فلسفے کو اپنایا، اس وقت کہیں جا کر مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ زاہدی ان افلاس زدہ حالات میں فلگ شگاف قہقہے لگانے کی ہمّت کیسے کرتا ہے، اپنے ذاتی دکھوں کو اہمیت کیوں نہیں دیتا، اور حالات کی ستم ظریفی نے جو پہاڑ اس پر توڑے ہیں، ان کی شکوہ گزاری کو قابلِ اعتبار کیوں نہیں سمجھتا؟

    ہمیں اپنی دوستیوں کی وسعت پر بڑا فخر ہے، لیکن زاہدی کے تعلقات کا طول و عرض دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ پورے برصغیر ہندو پاک میں شاید ہی کوئی ایسی قابل ذکر ادبی سیاسی، مذہبی اور علمی شخصیت ایسی ہو گی جس سے اس کی اچھی خاصی راہ و رسم نہ ہو، سید مطلبی فرید آبادی سے قائداعظم تک، علامہ اقبال سے احمد ندیم قاسمی تک، علامہ عبدالسلام، نیازی سے مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تک، اور مولوی عبدالحق سے دادا امیر حیدر تک سیکڑوں ہزاروں بڑی شخصیتوں کو اس نے اتنے قریب سے دیکھا ہے اور وہ ان کے متعلق اتنا کچھ جانتا ہے کہ اگر اس نے یاداشتوں کا یہ خزینہ محفوظ نہ کیا تو وطن عزیز کی ادبی سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا نہایت قیمتی حصہ ضائع ہو جائے گا، کیونکہ ان عظیم حضرات کے متعلق موجودہ دوستوں میں سے کسی کو بھی صحت کے ساتھ ان تفصیلات کا علم نہیں جن کا عینی شاہد زاہدی ہے۔

    زاہدی شروع ہی سے ادب کا ایک ذہین قلم کار تھا۔ اس نے ایک ایسے پُرآشوب دور میں آنکھ کھولی جب برصغیر میں جنگ آزادی کی تحریک اپنے پورے عروج پر تھی اور انگریز سامراج کی غلامی سے گلو خلاصی کے لیے ہر نوجوان دار و رسن کی آزمائش سے گزرنے کو بے تاب تھا۔ پھر تلاشِ روزگار کے لیے اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ وہ شہر شہر قریہ قریہ سرگرداں پھرتا رہا۔ اس آوارہ گردی میں اسے محنت و سرمایہ کی کش مکش کا نہایت تلخ تجربہ ہوا‘ طبقاتی تفریق اور سماجی ناہمواریوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا بلکہ اس زہر کو اپنے رگ و پے میں سرایت کرتے ہوئے محسوس کیا۔ پھر تقسیمِ ملک کے ساتھ ہی مذہبی اور نسلی فسادات کے الاؤ سے گزر کر وہ پاکستان پہنچا۔ آگ اور خون کے اس سیلاب میں اُس نے ہزاروں، لاکھوں بے گناہوں کو مذہبی تعصب کے بھینٹ چڑھتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہنستے بستے شہروں کی تباہی اور پُر امن گھرانوں کی بربادی کے مناظر نے اس کے احساس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
    پاکستان آ کر اسے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی کمینگیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ خوف ناک واقعات ایک ہوش مند انسان کو پاگل بنانے کے لیے کچھ کم نہ تھے۔ لیکن اس کی سوچ ایک ترقی پسند دانشور کی سوچ تھی۔ انسانی شرف پر غیر متزلزل یقین اور اس انقلاب میں کشت و خون کے اقتصادی، معاشی اور طبقاتی اسباب کے شعور نے اسے زندگی سے مایوس نہیں ہونے دیا اور وہ محنت و ہمّت جو اس کی گھٹی میں پڑی تھی اس کے لیے ایک نئی زندگی کے آغاز کا سہارا بنی۔

    زاہدی ایک عرصے تک افسانہ نگار، انشائیہ نگار اور نقاد کے طور پر ادبی حلقوں سے متعارف رہا۔ پھر اچانک اُس نے رباعیات و قطعات لکھ کر لوگوں کو چونکا دیا۔ پھر اس کی نظمیں اور غزلیں چھپنے لگیں۔ میں اس کی ادبی، سیاسی، سماجی بصیرت اور غیر معمولی ادبی صلاحیتوں کا ہمیشہ قائل رہا، لیکن مجھے اس کی شعر گوئی کے متعلق کبھی حسنِ ظن نہیں تھا۔ جب پہلی دفعہ اس کی رباعیات میری نظر سے گزریں تو سب سے زیادہ اچنبھا مجھے ہوا اور میں نے اسے لکھا۔ ’’شاعری کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی کوشش نہ کرو، نثر تمہارا میدان ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دو، اسی میں تمہارا بھلا ہے۔‘‘میرے اس فقرے نے جیسے اس پر تازیانے کا کام کیا اور وہ زیادہ زور و شور اور پوری لگن سے لکھتا رہا۔ اور آخر رباعیات و قطعات میں اس نے اپنے آپ کو منوا کر ہی دم لیا۔

    پھر ماہنامہ کتاب میں اس کے چند ادبی خاکے سامنے آئے تو دوستوں کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کہ یہ خاکے نہ صرف بھرپور اور معلومات افزا تھے بلکہ ایک منفرد اسلوب کے حامل بھی تھے۔ زبان کی چاشنی کے علاوہ ان خاکوں میں زاہدی کا غیر معمولی سیاسی و سماجی شعور رچا بسا تھا۔

    زاہدی کی صحبت گزرے ہوئے دنوں کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ اس میں شک نہیں کہ ترقی پسندی کے جراثیم پہلے سے میرے اندر موجود تھے اور اپنے معاصرین سے میری سوچ خاصی مختلف تھی لیکن اس نے مجھے انسانی قدروں سے روشناس کرایا، قلم کے استعمال میں اپنی ذمے داری کا احساس دلایا، فنی سفر میں نئی روشنیوں کی راہ دکھائی اور میری سوچ کو وسعت دے کر بے کراں بنا دیا۔

    (معروف ادیب، شاعر اور نقّاد فارغ بخاری کے مضمون سے چند اقتباسات جس میں انھوں نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم اور دوست مقصود زاہدی کے فن اور شخصیت کو پیش کیا ہے)

  • "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان

    "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان

    اہلِ علم و دانش، ادیب اور دوسرے بڑے بڑے لوگ ہمیں اپنے مشاہدات اور تجربات سے زندگی کے وہ اسرار و رموز اور ایسی باتیں سکھا گئے ہیں جو ہمارے فکر و شعور کی بلندی اور روحانی ترقّی کا ذریعہ ہیں یہ ایک ایسی ہی تحریر جو بہت سادہ اور ایک عام سے عمل کی ترغیب دیتی ہے، لیکن ہماری زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    سردار دیوان سنگھ مفتون کے نام سے ادب کے رسیا اور باذوق قارئین ضرور واقف ہوں گے اور ان کی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا ہوگا۔ برطانوی راج میں متحدہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے سردار صاحب نے صحافی، ادیب اور شاعر کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ وہ مدیر ریاست اخبار، دہلی رہے اور اس زمانے میں انھوں نے کئی مضامین اور کالم تحریر کیے جو قارئین میں مقبول ہوئے۔ یہ انہی کی ایک خوب صورت تحریر ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بچّوں کی فطرت ہے کہ ان کو دنیا میں صرف دو باتیں متاثر کر سکتی ہیں اور یہ صرف ان دو سے ہی خوش ہو سکتے ہیں۔ ایک کھانے کے لیے ان کو کچھ دیا جائے۔ دوسرے ان سے اخلاص و محبت کے ساتھ پیش آیا جائے۔

    اگر کسی بچّے کو یہ دونوں اشیا اپنے خاندان کے کسی دشمن سے بھی نصیب ہوں تو یہ بچّہ اپنے گھر والوں کو بھول کر دشمن خاندان کے لوگوں سے مانوس ہو جاتا ہے اور "ایڈیٹر ریاست” کا ایمان ہے کہ مالی ، ذہنی اور روحانی خوش حالی کے لیے ضرورت مند غریب لوگوں اور بچوں کی دعائیں بہت ہی پُراثر ہوتی ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں نے جب تک ضرورت مند دوستوں، غریب لوگوں اور معصوم بچّوں کی امداد کی مجھے روپے پیسے کے اعتبار سے کبھی کمی نہ ہوئی اور میں نے جب بھی ان لوگوں کی خدمت گزاری سے ہاتھ کھینچا میری مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور فاقہ کشی شروع ہوگئی۔ چناں چہ مجھے جب کبھی زیادہ ذہنی کوفت ہو تو میں پانچ، سات یا دس روپے کے اچھے اچھے پھل اور مٹھائیاں منگا کر محلہ کے غریب بچوں میں تقسیم کر دیا کرتا ہوں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ذہنی کوفت اور تشویش سے فوراً ہی نجات مل جاتی ہے اور حالات درست ہو جاتے ہیں۔

    یہ کیفیت تو تشویش یا ذہنی کوفت کو دور کرنے کے متعلق ہے۔ عام طور پر بھی محلّہ اور پڑوسیوں کے بچّے مجھ سے بہت مانوس ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان بچّوں کے والدین سے نہ میں نے کبھی تعلقات پیدا کیے اور نہ میں نے ان لوگوں کے نام اور حالات سے واقف ہونے کی کبھی کوشش کی۔”

    (از قلم سردار دیوان سنگھ مفتون، مدیر ریاست اخبار، دہلی)

  • کون جعلی سکّوں پر اپنی نیت خراب کرے؟

    کون جعلی سکّوں پر اپنی نیت خراب کرے؟

    تقسیمِ ہند سے قبل کا دلّی زبان و ادب ہی نہیں زبان کے چٹخاروں کے لیے بھی مشہور تھا۔ یہاں کے پکوان کی طرح تہذیب و ثقافت کا بھی ہندوستان بھر میں چرچا تھا۔ لیکن ہر قوم اور شہر میں کچھ بد اطوار یا جرائم پیشہ بھی ضرور ہوتے ہیں اور یہ ایک عام بات ہے۔ دلّی میں بعض ٹھگ، لٹیرے، اور نوسر باز بھی مشہور تھے اور جہاں‌ دلّی کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بڑے ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے، وہیں ان ٹھگوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے بعض دل چسپ واقعات بھی ان کی کتابوں میں پڑھے جاسکتے ہیں۔

    بازاروں میں اور ان مقامات پر جہاں بہت سے لوگ جمع ہوتے ہوں اکثر جیب کترے بھی موجود ہوتے ہیں جو ہاتھ کی صفائی اس طرح دکھاتے کہ لٹنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا اور وہ نقدی سے محروم ہوجاتا۔ وہ یہ کام بڑی مہارت اور باریکی سے کرتے کہ ذرا چوک ہوئی نہیں اور بھرے بازار میں لوگوں کے ہاتھوں پٹائی اور پھر قانون کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دلّی میں کئی جیب کترے موجود تھے جو انفرادی اور گروہ کی شکل میں لوگوں کی جیب کاٹنے کو نکلتے تھے۔ یہ جیب تراش اپنا ‘فن’ اپنی اولاد اور شاگردوں کو منتقل کرتے تھے اور ان کو باقاعدہ اس کی تربیت دیتے تھے۔ ان میں سے بعض اس کام میں اس قدر ماہر اور نامی گرامی تھے کہ لوگوں میں اگرچہ عزّت نہ تھی، مگر ان کا نام لے کر ان کے اس ‘ہنر’ کا ذکر کیا جاتا تھا۔ یہ بڑے فن کار قسم کے لوگ تھے۔چالاک اور نہایت پھرتیلے۔ ایسے جیب کتروں کا شہرہ سن کر ان کو آزمانے کے لیے ایک صاحب دلّی چلے آئے اور چند دن بعد ان کو اپنی معلوم ہوا کہ جیب کتروں نے انھیں تاڑ تو رکھا تھا، لیکن ان کی جیب نہ کاٹی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ یہ جاننے کے لیے اخلاق احمد دہلوی کی کتاب ’’پھر وہی بیان اپنا‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    "دہلی میں ایک جیب کترے تھے جن کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی طرح دو دھارا تھا اور کلمے کی انگلی پتھر پر گھس گھس کر شیشے کی مانند سخت کرلی تھی۔ بس جہاں ان کی انگلی لگ جاتی تو قینچی کو پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ ایک صاحب کوئی باہر کے، خواجہ حسن نظامی کے ہاں آئے اور شکایت کی۔”

    ’’دہلی کے جیب کترے کی بڑی دھوم سنی تھی۔ آج ہمیں دہلی کے بازاروں میں پھرتے چار دن ہوگئے ہیں لیکن کسی کو مجال نہیں ہوئی کہ ہماری جیب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیں۔‘‘

    "خواجہ صاحب نے اس چٹکی باز کو بلوایا اور ان صاحب سے اس چٹکی باز کا آمنا سامنا کرایا۔ اس ہنرمند نے مسکرا کر کہا۔”

    ’’خواجہ صاحب! میرے شاگردوں نے ان صاحب کا حلیہ بتایا تھا۔ چار دن سے انگرکھے کی اندر کی جیب میں پیتل کی آٹھ ماشیاں (آٹھ ماشا وزن کے سکے) ڈالے گھوم رہے ہیں اور وہ بھی گنتی کے چار۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کون جعلی سکوں پر اپنی نیت خراب کرے گا۔‘‘