Tag: اردو اقتباسات

  • نجات کا طالب غالب

    نجات کا طالب غالب

    مرزا غالب کی غزلیں‌ ہی نہیں ان کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ غالب نے اردو زبان میں خطوط نویسی میں پُر تکلّف زبان، القاب اور روایتی طریقۂ سلام و پیام کو اہمیت نہ دی بلکہ اس روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی کو خوش مزاجی، لطف اور تازگی سے بھر دیا۔ ابنِ‌ انشاء اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر تھے جن کی کتاب خمارِ گندم میں شامل غالب کا ایک فرضی خط یہاں ہم نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    منشی صاحب میاں داد خاں سیاح

    یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہا ہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔

    یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلد بھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔

    خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھا کر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گھڑے ہیں اور اندازِ تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے، ابنِ انشا۔

    کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسر دخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچا دی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔

    نجات کا طالب
    غالب

  • گلشنِ امید کی بہار

    گلشنِ امید کی بہار

    امید ایک رفیقِ ہمدم ہے کہ ہرحال اور ہر زمانہ میں ہمارے دَم کے ساتھ رہتا ہے۔ دَم بہ دَم دلوں کو بڑھاتا ہے اور سینے کو پھیلاتا ہے۔ خیالات کو وسعت دیتا ہے۔ اور نئی نئی کامیابیوں کی ترغیبیں دیتا ہے، غرض ہمیشہ کسی نہ کسی خوش حالی کا باغ پیشِ نظر رکھتا ہے کہ یا اس سے کوئی کلفت رفع ہو یا کچھ فرحت زیادہ ہو۔

    خدائی کی نعمتیں اور ساری خوش نصیبی کی دولتیں حاصل ہو جائیں، پھر بھی یہ جادو نگار مصور ایک نہ ایک ایسی تصویر سامنے کھینچ دیتا ہے جسے دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ بس یہ بات ہو جائے گی تو ساری ہوسیں پوری ہوجائیں گی اور پھر سب آرزوؤں سے جی سیر ہو جائے گا۔

    امید کا ہونا ہر حال میں ضروری ہے۔ مفلسی، بیماری، قید، مسافرت، بہت سے دنیا کے دکھ درد ہیں کہ امید نہ ہو تو ہر گز نہ جھیلے جائیں۔ آسا جیے، نراسا مرے۔

    یہ نعمت جو بظاہر ہر کس و ناکس میں عام ہو رہی ہے، وہ ضروری شے ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر حالت بھی ہم کو اس صورت سے بے نیاز نہیں کر سکتی کیوں کہ حقیقت میں یہ مشغلہ زندگی کے بہلاوے ہیں۔ اگر ان کا سہارا ہمارا دل نہ بڑھاتا رہے تو ایک دَم گزارنا مشکل ہو جائے اور زندگی وہال معلوم ہونے لگے:

    ایک دم بھی ہم کو جینا ہجر میں تھا ناگوار
    پر اُمیدِ وصل پر برسوں گوارا ہو گیا

    اس میں شک نہیں کہ امید دھوکے بہت دیتی ہے اور اُن باتوں کی توقع پیدا کرتی ہے جو انسان کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔ مگر وہ دھوکے اصلی نعمتوں سے سوا مزہ دیتے ہیں اور موہوم وعدے قسمت کی لکھی ہوئی دولتوں سے گراں بہا اور خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ میں ناکام بھی کرتی ہے تو اُسے ناکامی نہیں کہتی، بلکہ قسمت کی دیر کہہ کر ایک اس سے بھی اعلیٰ یقین سامنے حاضر کر دیتی ہے۔

    (صاحبِ اسلوب نثر نگار، شاعر اور مؤرخ و تذکرہ نگار محمد حسین آزاد کے مضمون سے اقتباس)

  • فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں​!

    فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں​!

    حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے ادیب اور ذہین فن کار اور شو بزنس کے ایک کام یاب آرٹسٹ کی موت کے باوجود لاہور کا سارا کاروبار نارمل طریق پر چلتا رہے گا۔

    شاہ عالمی چوک سے لے کر میو اسپتال کے چوک تک ٹریفک اسی طرح پھنسا رہے گا، کوچوان گھوڑوں کو اونچے اور قریبی کوچوان کو نیچے لہجے میں گالیاں دیتے رہیں گے۔ اسپتال کے اندر مریضوں کو کھانا جاتا رہے گا۔ ٹیلی فون بجتا رہے گا، بجلی کا بل آتا رہے گا، فقیر سوتا رہے گا، چوڑھے ٹاکی مارتے رہیں گے، استاد پڑھاتے رہیں گے، ریکارڈنگ ہوتی رہے گی، قوال گاتے رہیں گے، فاحشہ ناچتی رہے گی، ڈاکیا چلتا رہے گا، سوئی گیس نکلتی رہے گی، تقریریں ہوتی رہیں گی، غزلیں لکھی جاتی رہیں گی، سوئی میں دھاگہ پڑتا رہے گا، قتل ہوتا رہے گا، زچہ مسکراتی رہے گی، بچہ پیدا ہوتا رہے گا۔

    شادمان کی لڑکی ٹیلی فون پر اپنے محبوب سے گفتگو کر رہی ہو گی اور آپریٹر درمیان میں سن رہا ہو گا، موچی کے باہر بڈھے گھوڑوں کے نعل لگ رہے ہوں گے اور گھوڑا اسپتال میں نو عمر بچھڑے آختہ کیے جا رہے ہوں گے۔

    چلّہ کاٹنے والے دعائے حزب البحر پر داہنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر اوپر کی طرف اٹھا رہے ہوں گے۔ لڈو بناتا ہوا حلوائی اٹھ کر سامنے والی نالی پر پیشاب کر رہا ہو گا۔ لبرٹی مارکیٹ میں دو نوجوان ایک لڑکی کے پیچھے گھوم رہے ہوں گے، دلہنوں کے جسموں سے آج ایک اجنبی مہک ابھی اٹھ رہی ہو گی۔ بچے گلی میں کیڑی کاڑا کھیل رہے ہوں گے اور قریبی مکان میں ایک ماں اپنے بیٹے کو پیٹ رہی ہو گی جس کا خاوند ایک اور عورت کے ساتھ جہانگیر کے مقبرے کی سیر کر رہا ہو گا۔ یونیورسٹی میں لڑکیاں کھلے پائنچوں کی شلواریں پہن کر لڑکوں سے یونین کی باتوں میں مصروف ہوں گی اور ہیلتھ سیکریٹری لاٹ صاحب کے دفتر میں اپنی ریٹائرمنٹ کے خوف سے یرقانی ہو رہا ہو گا۔

    کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک ادیب اور فن کار نے ساری عمر پھوئی پھوئی کر کے اپنی شہرت اور نیک نامی کا تالاب بھرا ہو گا اور دن رات ایک کر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہو گا اور اس ایک چھوٹے سے حادثے سے وہ سارے دلوں سے نکل گیا ہو گا۔ ہر یاد سے محو ہو گیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے جنم دیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے سچ مچ یاد کیا تھا اور اس دل سے بھی جس نے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے دلی محبّت کی تھی۔

    تیسرے چوتھے روز اتوار کے دن حلقۂ اربابِ ذوق ادبی میں میرے لیے ایک قرار دادِ تعزیت پاس کی جائے گی۔ عین اسی وقت حلقۂ اربابِ ذوق سیاسی میں بھی ایک قرار داد تعزیت پیش کی جائے گی۔ سب متفقہ طور پر اسے منظور کریں گے، لیکن اس کے آخری فقرے پر بحث کا آغاز ہو گا کہ حلقۂ اربابِ ذوق کا یہ اجلاس حکومت سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ مرحوم کے لواحقین کے لیے کسی وظیفے کا بندوبست کیا جائے۔ اس پر حاضرین دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔

    ایک اس کے حق میں ہو گا کہ یہ فقرہ رہنے دیا جائے کیونکہ مرحوم ایک صاحبِ حیثیت ادیب تھا اور اس کی اپنی ذاتی کوٹھی ماڈل ٹاؤن میں موجود ہے۔ پھر کوٹھی کی تفصیلات بیان کی جائیں گی، کچھ اسے دو کنال کی بتائیں گے، کچھ تین کنال کی، کچھ دبی زبان میں کہیں گے کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی خاتون ہے وہ نوکری بھی کر سکتی ہے اور لکھنے لکھانے کے فن سے بھی آشنا ہے۔
    ریڈیو آنے جانے والے ایک ادیب سامعین کو بتائیں گے کہ بانو کی ذاتی آمدنی ریڈیو ٹی وی سے دو ہزار سے کم نہیں۔ میرے ایک دور کے رشتہ دار ادیب اعلان کریں گے کہ وہ ایک مال دار گھرانے کا فرد تھا اور اس کا اپنے باپ کی جائیداد میں بڑا حصّہ ہے جو اسے باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ پھر کوئی صاحب بتائیں گے کہ ورثا کو بورڈ سے گریجویٹی بھی ملے گی۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کے ایک ادب نواز کلرک، جو حلقے کی میٹنگوں میں باقاعدگی سے آتے ہیں بتلائیں گے، اس نے اپنے تینوں بچّوں کی انشورنس بھی کرا رکھی تھی۔ گو ان کی رقم بیس بیس ہزار سے زائد نہیں۔ طویل بحث کے بعد اتفاقِ رائے سے یہ فیصلہ ہو گا کہ آخری فقرہ کاٹ دیا جائے، چنانچہ آخری فقرہ کٹ جائے گا۔

    پھر مجھ پر آٹھ آٹھ منٹ کے تین مقالے پڑھے جائیں گے اور آخری مضمون میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ میں دراصل پنجابی زبان کا ایک ادیب اورشاعر تھا اور مجھے پنجاب سے اور اس کی ثقافت سے بے انتہا پیار تھا۔

    یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد دن ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہونے لگیں گے اور میری پہلی برسی آ جائے گی۔ یہ کشور ناہید کے آزمائش کی گھڑی ہو گی، کیونکہ ہال کی ڈیٹس پہلے سے بک ہو چکی ہوں گی اور میری برسی کے روز آل پاکستان ٹیکنیکل اسکولز کے ہنر مند طلبا کا تقریری مقابلہ ہو گا، کشور کو پاکستان سینٹر میں میری برسی نہ منا سکنے کا دلی افسوس ہو گا اور وہ رات گئے تک یوسف کامران کی موجودگی میں کفِ افسوس ملتی رہے گی۔

    لوگ اس کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کو ایک ایشو بنا لیں گے اور لوگ جو عمر بھر مجھے جائز طور پر ناپسند کرتے رہے تھے وہ بھی کشور ناہید کے ’برخلاف‘ دھڑے میں شامل ہو جائیں گے۔ مجھ سے محبّت کی بنا پر نہیں کشور کو ذلیل کرنے کی غرض سے، پھر ذوالفقار تابش کی کوششوں سے گلڈ کے بڑے کمرے میں یہ تقریب منائی جائے گی اور عتیق اللہ، شکور بیدل، ریاض محمود، غلام قادر، سلیم افراط مجھ پر مضمون پڑھیں گے۔

    کس قدر دکھ کی بات ہے کہ زمانہ ہم جیسے عظیم لوگوں سے مشورہ کیے بغیر ہم کو بھلا دے گا۔ میں ہُوا… نپولین ہوا، شہنشاہ جہانگیر ہوا، الفرج رونی ہوا، ماورا النّہر کے علما ہوئے، مصر کا ناصر ہوا، عبدالرحمٰن چغتائی ہوا، کسی کو بھی ہماری ضرورت نہ رہے گی اور اتنے بڑے خلا پانی میں پھینکے ہوئے پتھر کی طرح بھر جائیں گے۔ ہماری اتنی بڑی قربانیوں کا کہ ہم فوت ہوئے اور فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں، لوگ یہ صلہ دیں گے۔

    افسوس زمانہ کس قدر بے وفا ہے اور کس درجہ فراموش کار ہے۔

    ( اردو کے نام ور ادیب اور افسانہ نگار نے اپنی موت کے پس منظر میں‌ یہ تحریر سپردِ قلم کی تھی)

  • "اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے!”

    "اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے!”

    عام آدمی کے لیے شاید یہ امر تعجب خیز ہو کہ فن کار یا اہلِ قلم کی اکثریت اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور تخلیقی کام پر بہت کم معاوضہ یا محنتانہ پاتے رہے ہیں۔ آج اگرچہ صورتِ‌ حال پہلے جیسی نہیں، لیکن خالص ادب تخلیق کرنے والوں کو چھوڑ کر اب آرٹسٹ یا کانٹینٹ رائٹر کو باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے، ؒمگر یہ سلسلہ بھی بڑے اور مشہور ناموں تک محدود ہے۔

    ادیب و شعراء کو کل بھی اکثر ادارے، مدیر اور ناشر وغیرہ چھوٹے اور کم معروف ناموں کو طے کردہ معمولی رقم کی بروقت ادائیگی میں ‘ناکام’ ہوجاتے تھے اور آج بھی قلم کی مزدوری کرنے والا ‘مفت’ کام کیے جارہا ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب آج کی طرح سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن چینل اور دوسرے ذرایع ابلاغ یا پلیٹ فارم نہیں‌ تھا جس پر کوئی فن کار یا ادیب و شاعر اپنے ساتھ ناانصافی کا شور مچاتا، جب کہ آج کوئی اوسط درجے کا فن کار بھی فیس بک پوسٹ یا ٹویٹ کر دے اور عوام میں بات پھیل جائے تو ادارہ یا کوئی فرد اپنی ساکھ بچانے کے لیے فوراً اس کا حق دے کر معاملہ ختم کرنا چاہے گا۔ یہاں ہم معروف ہندوستانی قلم کار دلیپ سنگھ کی ایک تحریر سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جس میں طنز و مزاح کے پیرائے اسی حقیقت کو عیاں کیا گیا ہے۔

    دلیپ سنگھ کی پیدائش 1932ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم کے بعد ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔ دلیپ سنگھ بھارت میں‌ وزارتِ خارجہ سے منسلک رہے اور ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ وہ 8 اگست 1994 کو نئی دہلی میں وفات پاگئے تھے۔

    دلیپ سنگھ کی کتاب "سارے جہاں کا درد” کے دیباچہ سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    "1954 میں جب میرا پہلا طنزیہ مضمون اردو کے ایک مؤقر رسالہ میں شائع ہوا تو میں دس دن کے بعد معاوضہ لینے کے لیے رسالہ کے دفتر میں پہنچ گیا۔ دفتر میں اس وقت چھ سات آدمی موجود تھے۔ جوں ہی میں نے معاوضہ کا ذکر کیا، دفتر میں موجود لوگوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا، اتنا زوردار کہ مجھے احساس ہوا کہ قہقہہ چھ سات آدمیوں کا نہیں، ساٹھ ستّر آدمیوں کا ہے۔ ان لوگوں کی ہنسی رکی تو مدیر محترم نے مجھے بتایا کہ اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے۔”

    "مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ رواجوں کے اس دیس میں یہ رواج رائج ہونے سے کیسے رہ گیا؟ وضاحت کرتے ہوئے مدیر صاحب نے فرمایا کہ جب مدیر ہی کو تنخواہ نہیں ملتی تو مضمون نگاروں کو معاوضہ کس بات کا؟ جب میں نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ لوگ پھر لکھتے کیوں ہیں؟
    تو کہنے لگے کہ شہرت کی خاطر۔”

    "یوں تو مجھے شہرت حاصل کرنے سے کوئی عذر نہیں تھا لیکن اس سے زیادہ مجھے ان دنوں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت تھی۔ پھر بھی سوچا کہ چلو شہرت تو حاصل کرو، ہو سکتا ہے جب بہت مشہور ہو جاؤں تو لوگ روٹی بھی کھلانے لگیں۔”

    "میں یہ سوچ کر اس رسالہ کے دفتر سے نیچے اترا کہ شاید مجھے دیکھتے ہی قارئین کرام آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔ رسالہ جس میں میرا مضمون چھپا تھا، میری بغل میں تھا۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا تو آنکھوں پر بٹھانا تو درکنار مجھے کوئی اپنی رکشا میں مفت بٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا بھی کہ میں ادیب ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ سیکڑوں ادیب اس بازار میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ میں جوتیاں چٹخاتا گھر کی طرف چل دیا۔”

    "بعد میں، میں نے غور و خوض کی تو پتا چلا کہ اردو کے رسائل کے پڑھے جانے کا عالم یہ ہے کہ اکثر انہیں وہی حضرات پڑھتے ہیں جو ان میں لکھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنا مضمون پڑھنے کے بعد رسالہ سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ ورق گردانی کرنے سے رسالے کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ایسی حالت میں یہ بوقتِ ضرورت کام نہیں آ سکے گا اور سند نہیں بن سکے گا۔”

  • فراق گورکھپوری سے ایک یادگار ملاقات

    فراق گورکھپوری سے ایک یادگار ملاقات

    پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکا کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے ناراین پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔

    ان سے معلوم ہوا کہ الٰہ آباد میں وہ فراق گورکھپوری کی انڈر گریجویٹ کلاس میں تھیں اور ان سے ذاتی طور پر انس رکھتی تھیں۔ میں چونکہ شعبۂ انگریزی کی لٹریری سوسائٹی The Three Hundred کا پروفیسر انچارج تھا، میں نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ اب کے جب وہ اپنے والدین سے ملنے الٰہ آباد جائیں تو فراق گورکھپوری صاحب کو راضی کریں کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک توسیعی لیکچر دینے کے لیے تشریف لائیں۔ ہم ٹرین سے فرسٹ کلاس کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی رہائش کا گیسٹ ہاؤس میں بندوبست ہو گا۔اور میں ذاتی طور پر ایک چپراسی کو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ان کے پاس حاضر رہنے کا انتظام کر دوں گا، اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود بھی موجود رہوں گا۔

    فراق گورکھپوری آئے۔ آڈیٹوریم میں ان کی تقریر نے جیسے ہم سب کو مسحور کر لیا۔ شستہ انگریزی لہجہ، اس پر ہر پانچ چھ جملوں کے بعد اردو سے (موضوع سے متعلق) ایک دو اشعار، اور پھر انگریزی میں گل افشانی۔ یہ تجربہ ہم سب کے لیے نیا تھا، کیونکہ ہم تو کلاس روم میں صرف (اور صرف) انگریزی ہی بولتے تھے۔ ایک گھنٹہ بولنے کے بعد تھک گئے۔ میں چونکہ اسٹیج پر تھا اور مجھے بطور شاعر جانتے تھے، مجھے کہا کہ جب تک وہ تھرموس سے ’’پانی‘‘ پی کر سانس لیں گے، میں کچھ سناؤں۔

    میں نے اپنی ایک نظم انگریزی میں اور ایک اردو میں سنائی۔ تین چار گھونٹ ’’پانی‘‘ پینے اور دس پندرہ منٹ تک آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دَم ہو گئے۔ ایک بار پھر چالیس پنتالیس منٹوں تک بولے۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سبھی مسحور بیٹھے تھے، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ تب کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بھائی، کوئی کھانا وانا بھی ملے گا کہ نہیں!‘‘ اور تب طلبہ کو بھی خیال آیا کہ انہیں ہوسٹل کے میس میں کھانے کے لیے پہنچنا ہے، جس کا وقت گزر چکا ہے۔

    شام کو میں گیسٹ ہاؤس پہنچا تو انتظار ہی کر رہے تھے۔ میں وہسکی کی ایک بوتل اپنے اسکوٹر کے بیگ میں رکھ کر لایا تھا اور باورچی خانے میں سوڈے کی بوتلیں پہلے ہی لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر راج کمار بھی آ گئے۔ خاموش طبع انسان تھے اور بہت کم پیتے تھے، اس لیے گفتگو کا فرض ہم دونوں نے ہی ادا کیا۔ میں مودبانہ انداز سے ، لیکن کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتا اور پھر ان کے منہ سے گل افشانی شروع ہو جاتی۔

    ایک موضوع جو زیرِ بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تینوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں ، مسئلہ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے)۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ ‘‘ کو حالتِ جماع میں دیکھتا ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔

    فراق جیسے حالتِ استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوہی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لواطت تو خیر، …..میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اوّل و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔‘‘

    خوش ہو گئے۔ فرمایا، ’’کبھی الٰہ آباد آئیں تو غریب خانے پر بھی تشریف لائیں۔

    (بھارتی ادیب، شاعر اور نقّاد ستیہ پال آنند کے قلم سے)

  • وہ معاملہ جس میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں!

    وہ معاملہ جس میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں!

    نامہ بَر تُو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
    کیسے ہوتے ہیں وہ خط ”جو پہنچائے جاتے ہیں“

    خطوط کی ترسیل میں تاخیر یا ان کی گم شدگی صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں۔

    ہماری جو سہیلیاں ہمیں امریکہ سے خطوط لکھتی ہیں وہ ہمیں آٹھ دس دن کے بجائے ہمیشہ ڈیڑھ دو ماہ بعد ملتے ہیں اور لندن سے آنے والی ڈاک اس اعتبار سے سب پر بازی لے گئی ہے کہ اوّل تو موصول نہیں ہوتی اور جو موصول ہوتی ہے تو لفافہ کسی کنواری اور اَن چھوئی دوشیزہ کے دامن کی طرح بے داغ ہوتا ہے۔

    گزشتہ چھ ماہ میں ہمیں لندن سے صرف دو خطوط موصول ہوئے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ پہلا خط سپردِ ڈاک کئے جانے کے پورے ڈیڑھ ماہ بعد ملا تو اس طرح کہ نہ صرف اس پر چسپاں ٹکٹ بلکہ پورا لفافہ کورا تھا۔ اس پر پاکستان تو کجا لندن کے بھی کسی ڈاک خانے کی کوئی مہر نہیں لگی تھی۔ میں نے جوابی خط میں اپنی دوست عذرا کو وہ ٹکٹ اتار کر بھیجتے ہوئے لکھا کہ یہ خط نہ جانے کس طرح دونوں ممالک کے ڈاک خانوں سے نظریں بچا کر چُھپ چُھپا کر میرے گھر تک پہنچ گیا۔ شاید اسی لئے اس نے دس دن کا سفر ڈیڑھ ماہ میں طے کیا ہے۔ بہر کیف یہ میرے تو کسی کام نہیں آئے گا، تم دوبارہ استعمال کر لو مگر تاکید کر دینا کہ اس مرتبہ یوں چُھپتے چُھپاتے سفر نہ کرے۔ عذرا نے میرے لکھے پر عمل کیا مگر خط نے اس کی ایک نہ سنی اور پھر اسی طرح چُھپتے چُھپاتے مجھ تک پہنچا۔ اس مرتبہ اس کے سفر کا دورانیہ پورے دو ماہ پر محیط تھا۔ میں نے پھر اس ٹکٹ کو احتیاط سے اتار کر جوابی خط میں روانہ کر دیا کہ ”برکتی“ ٹکٹ ہے۔ ساری زندگی کام آئے گا۔

    لگتا ہے دونوں ممالک کے محکمہ ہائے ڈاک تم سے بہت خوش ہیں۔ تمہارے سارے خطوط اسی ایک ٹکٹ پر بھیجنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ عذرا نے پھر اسی ”برکتی“ ٹکٹ کو استعمال کرتے ہوئے جواب ارسال کیا۔ پندرہ روز پہلے اس کا فون آیا تو معلوم ہوا کہ اسے اس ”برکتی“ ٹکٹ کے ساتھ جواب ارسال کئے دو ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر وہ ہنوز مفقود الخبر ہے۔مذکورہ خط کے بموجب مجھے اس عرصہ میں یہاں اس کے کچھ کام کروا کے ان کی رپورٹ بھیجنی تھی مگر یہاں چوں کہ خط ہی نہیں ملا تو کیسا کام اور کیسی رپورٹ؟ اب اس نے گھبرا کے فون کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ خط تو اب تک یہاں پہنچا ہی نہیں۔ یقیناً اسے پھر لندن اور کراچی کے محکمہ ہائے ڈاک کے اہلکاروں کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں دیر ہورہی ہے۔ اصل ماجرا تو اس کے موصول ہونے پر ہی معلوم ہوگا (اگرموصول ہوگیا۔) سرِدست ہم اسی بات پر خوش ہیں کہ کسی معاملے میں سہی، ہم انگریزوں کے برابر تو ہوئے۔ ہمارے اور ان کے محکمۂ ڈاک کی کار گزاری کا معیار یکساں ہے۔

    بعض ناشکرے لوگ محکمۂ ڈاک کی اس کار گزاری پر ناراض رہتے ہیں اور اس نے جو اپنا معیار بڑھانے کی خاطر ارجنٹ میل سروس کا شعبہ بنایا ہے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب کھانے کمانے کے دھندے ہیں۔ ایک روپے کی جگہ سات روپے لیتے ہیں اور ڈاک پھر بھی وقت پر نہیں پہنچاتے۔ حالاں کہ دیکھا جائے تو اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر محکمۂ پولیس اپنی پرانی کار گزاری پر ایگل اسکواڈ، ہاک اسکواڈ اور پولیس سٹیزن لائژن کمیٹی قائم کرسکتا ہے تو محکمۂ ڈاک کو ایسا کرنے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ آخر وہ کیوں نہ کھائے کمائے؟

    جہاں تک ڈاک کی بروقت ترسیل کا تعلق ہے تو اس کے لئے جگہ جگہ کوریئر سروس کمپنیاں قائم کردی گئی ہیں۔ اگر آپ اپنا خط واقعی پہنچانا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ خط بھیجنے میں سنجیدہ ہیں تو ان کی خدمات حاصل کیجئے۔ ٹھیک ہے ان کا معاوضہ بھی زیادہ ہے مگر آپ یہ بات کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ ان کا اہل کار آپ کی ڈاک کو مکتوب الیہ کے ہاتھوں میں دے کر آتا ہے۔ نہ صرف ہاتھوں میں دے کر آتا ہے بلکہ ان سے وصولی کی سنَد بھی لکھواتا ہے تاکہ ان کے پاس مکرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اس لحاظ سے کام کے مقابلے میں دام زیادہ نہیں۔

    اوپر ہم نے لفظ واقعی کا استعمال یوں کیا ہے کہ بعض عاشق اسی مقولے پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ

    خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
    ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

    سوچئے۔ ایسے بے مقصد خطوط محبوب تک نہ بھی پہنچ پائیں تو کیا حرج ہے؟ لہٰذا، اگر آپ کا تعلق بھی ایسے ہی عاشقوں سے ہے اور آپ بغیر مطلب کے خط پہ خط لکھتے ہیں تو پھر انہیں بلا کھٹکے سپردِ ڈاک بھی کرتے جائیے۔ محکمۂ ڈاک انہیں وہیں پہنچائے گا جو ان کا اصل مقام ہونا چاہئے یعنی کوئی برساتی نالہ یا کچرا کنڈی۔۔۔ یوں جب آپ کے فضول اور بے مطلب کے محبت نامے محبوب تک نہیں پہنچ پائیں گے تو وہ آپ سے ناراض بھی نہیں ہوگا۔ لیجئے محکمۂ ڈاک کی ایک مثبت کار گزاری تو سامنے آئی کہ اس نے آپ کو محبوب کی ناراضگی سے بچالیا۔

    اب جب کہ محکمۂ ڈاک کا ایک مثبت پہلو سامنے آہی گیا ہے تو اس کو مزید طعن و تشینع کا نشانہ بنانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ اس کالم کو یہیں ختم کردیا جائے۔ یوں بھی اچھا ہے یا بُرا ہے پر محکمۂ ڈاک ہے تو ہمارا۔ اتنی گنجائش تو رہنی ہی چاہیے کہ وہ ہمارے خطوط دیر سے سہی، پہنچا تو دیا کرے۔

    (حمیر اطہر سینئر صحافی، ادیب اور کالم نویس اور متعدد کتب کی مصنّف ہیں، پیشِ نظر اقتباسات ان کے 1992 کے مطبوعہ فکاہیہ کالم سے لیے گئے ہیں، جو حمیرا اطہر کی منتخب فکاہیہ تحریروں پر مشتمل کتاب "بات سے بات” میں بھی شامل ہے)

  • غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ عملاً کسی مخصوص گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عملی زندگی، پنشن اور روزی کے لئے جدوجہد کرنے اور ادبی کاموں میں لگے رہنے تک محدود تھی۔

    روزی کے لئے جدوجہد ان کی طبقاتی زندگی کا مظہر تھی۔ ان کی محنت دماغی تھی جس کے خریدار اور قدر داں امراء اور کھاتے پیتے لوگ ہو سکتے تھے۔ ان کی نگاہ میں عرب اور ایران کے قدر داں بادشاہ اور امراء تھے، خود ہندوستان میں مغل سلاطین، امرائے گولکنڈہ اور بیجا پور کے دربار تھے، جہاں عرفیؔ، نظیریؔ، قدسیؔ، صائبؔ، کلیمؔ اور ظہوریؔ وغیرہ اپنی اسی خصوصیت کی قیمت پا چکے تھے اور عزت کی زندگی بسر کر چکے تھے۔ اس لئے وہ بھی اچھے سے اچھے قصائد لکھ کر، اچھی سے اچھی غزلیں کہہ کر، علمی کام کر کے باوقار زندگی بسر کرنے کا حق اور اطمینان چاہتے تھے۔ ان کے سپاہ پیشہ بزرگوں نے تلوار سے عزت حاصل کی تھی، وہ قلم سے وہی کام لینا چاہتے تھے۔

    اس طرح ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اور ذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچہ میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انھوں نے اس طور پر عمارت کھڑی کی جو انھیں ذہنی طور پر ورثہ میں ملا تھا۔ بس انھوں نے یہ کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چند ایسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ تو ممکن تھے نہ جن کے نقشہ ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالبؔ کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لئے غذا فراہم کرتا تھا اور علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انھیں ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے نقادوں نے جدت، تازگی اور طرفگیٔ مضامین سے تعبیر کیا ہے۔

    اسلام اور دوسرے مذاہب کا مطالعہ، تاریخ، اخلاقیات، ہیئت، طب، منطق، تصوف، یہی وہ علوم ہیں جو رائج تھے اور انہی سے غالبؔ نے زندگی کے سمجھنے میں مدد لی تھی۔ اسلامی علوم اور تصوف جو غالبؔ تک پہنچے تھے، ایران ہو کر پہنچے تھے، اور جب ہم ایران میں لکھی ہوئی مذہب، تاریخ اور اخلاقیات کی کتابوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی تقاضوں سے ان میں کئی عناصر جذب ہو گئے تھے۔ بعض عناصر تو مقامی تھے۔ بعض تجارتی راہوں سے وہاں آئے تھے۔ چنانچہ ایران میں جو علمی آثار عباسیوں کے زمانے میں نمایاں ہوئے ان میں عربی، یونانی، زردشتی اور ہندی اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

    عباسیوں کے زمانے میں ایران کا قومی احیاء بھی ہوا جسے تاتاریوں کی یورش سے دب جانا پڑا۔ ایران نے تاجر اور سپاہی پیدا کئے لیکن تاجر منظم نہ ہو سکے اور سپاہیوں نے انفرادی طور پر سلطنتیں قائم کرکے شاہی نظام کو مضبوط بنا دیا۔ یہیں سے غالبؔ کو وہ فلسفۂ مذہب و اخلاق ملا جس کو آج تک اسلامی نظام فلسفہ میں اونچی جگہ حاصل ہے اور غالبؔ کے زمانہ میں تو دوسرے خیالات کی طرف ہندوستانیوں کا ذہن جا ہی نہیں رہا تھا۔ یہیں سے انھوں نے تصوف کے وہ خیالات لئے جو ایران میں تو افلاطونیت سے مخلوط ہوکر اسلامی عقائد کی سخت گیری کے خلاف پیدا ہوئے تھے، اور جنھیں رسمی مذہب پرستی سے اختلاف رکھنے والے شاعروں نے ہر دل عزیز بنایا۔ یہاں پھر یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ غالبؔ صوفی مشرب ہونے اور وحدت میں عقیدہ رکھنے کے باوجود تصوف کے سارے اصول کو عملی صوفیوں کی طرح نہیں مانتے تھے۔ وحدت الوجود کی طرف ان کا میلان کچھ تو مسائل کائنات کے سمجھنے کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا اور مذہب کی ان ظاہر داریوں سے بچ نکلنے کا ایک بہانہ تھا جو ان کی آزاد پسند طیعت پر بار تھیں۔

    غالبؔ جس سماج کے فرد تھے اس میں باغیانہ میلان اور آزادی کا جذبہ داخلی طور پر تصوف ہی میں نمایاں ہو سکتا تھا کیونکہ غالبؔ کو کوئی خارجی سہارا آزادی کے لئے حاصل نہ تھا۔ کوئی علمی یا ادبی تحریک جس سے وابستہ ہوکر وہ اپنے طبقہ کے ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود آگے بڑھ جاتے، موجود نہیں تھی۔ وہ زمانہ کچھ دن بعد آیا۔ جب سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور زندگی کے نئے مطالبات کی روشنی میں ایک ادبی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ غالبؔ کی ذہنی ترقی کا دور غدر تک ختم ہو چکا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی بارہ سال تک زندہ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ غدر کے بعد غالبؔ کی شاعری تقریباً ختم ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ان کے خطوں میں جس طرح نمایاں ہیں، ان کے اشعار میں نمایاں نہ ہو سکے۔ انھوں نے غدر کے پہلے ہی فضا کی ساری اداسی اور افسردگی کو داخلی بنا کر سینہ میں بھر لیا تھا، اس لئے جذبہ کا وہ تسلسل قائم رہا اور خارجی تغیرات نے نئی داخلی سمتیں نہیں اختیار کیں۔
    ذرائع پیداوار اور انسانی شعور کے عمل اور رد عمل سے زندگی آگے بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک مختلف سماجی اور معاشی منزل پر ہوتے ہیں اور ان کے فلسفۂ زندگی اور تمدنی شعور کی منزلیں بھی کم وبیش اس سے مناسبت رکھتی ہیں۔

    انیسویں صدی کے وسط میں جب ہندوستان اقتصادی پستی کی اس منزل میں تھا، یورپ میں مشینی انقلاب ہو چکا تھا اور سماجی شعور ڈارونؔ، مارکس اور اینگلزؔ کو پیدا کر چکا تھا۔ ہندوستان کا ذہین سے ذہین مفکر اس تخلیقی گرمی سے خالی تھا جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور اپنے اندر اجتماعی روح کی پرورش کرتی ہے۔ غالبؔ نے بھی عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے اندر انسان اور کائنات، فنا اور بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلام روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسرت، آرزوئے زیست اور تمنائے مرگ، کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت و ریا کاری غرضیکہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔

    غالبؔ کے مطالعہ کے دوران میں ایک دل کش حقیقت کی طرف ذہن ضرور منتقل ہوتا ہے کہ گو وہ ہندوستانی سماج کے دورِ انحطاط سے تعلق رکھتے تھے یعنی ایسے انحطاط سے تعلق رکھتے تھے جو ہر طبقہ کو بے جان بنائے ہوئے تھا لیکن ان کی فکر میں توانائی اور تازگی، ان کے خیالوں میں بلندی اور بیباکی کی غیرمعمولی طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس توانائی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس طبقہ میں اور اس کے نصب العین میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس سے غالبؔ کا تعلق تھا۔ پھر اس کی جستجو کہاں کی جائے؟ کیا یہ سب کچھ تخیل محض کا نتیجہ ہے؟ ان کی شاعری کا سارا حسن ان کے انفرادی بانکپن کا عکس ہے یا غالبؔ انسان سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور گو ان کی نگاہوں کے سامنے ان کو جنم دینے والی تہذیب نزع کی ہچکیاں لے رہی تھی، جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن وہ پھر بھی نئے آدم کے منتظر تھے جو زندگی کو پھر سے سنوار کر محبت کرنے کے قابل بنادے۔

    (سیّد احتشام حسین کے مضمون ‘غالب کا تفکر’ سے اقتباسات، آج مرزا غالب کا یومِ پیدائش ہے)

  • جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    منٹوؔ کو شراب پینے کی لت خدا جانے کب سے تھی۔ جب تک وہ دلّی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی۔ بمبئی جانے کے بعد انھوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی۔

    جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا۔ اس لیے انھیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادب جیسی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو ؔ ہی کا کام تھا۔ صحت پہلے کون سی اچھی تھی۔ رہی سہی شراب نے غارت کر دی۔ کئی دفعہ مرتے مرتے بچے۔ روٹی ملے یا نہ ملے بیس روپے روز شراب کے لیے ملنے چاہیے۔ اس کے لیے اچھا بُرا کچھ روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا۔ انھیں لے کر وہ کسی ناشر کے پاس پہونچ جاتے۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انھیں خریدا۔ پھر بے ضرورت پھر اُپرانے اور منہ چھپانے لگے۔ دور سے دیکھتے کہ منٹو آ رہا ہے تو دکان سے ٹل جاتے۔ منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہو گئی تھی جو آخر میں اختر شیرانی اور میرا جی کی۔ بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔

    اگست 1954 میں کئی سال بعد لاہور گیا تھا۔ لاہور کے ادیب، شاعر، ایڈیٹر اور پبلشر ایک بڑی پارٹی میں جمع تھے کہ غیر متوقع طور پر منٹو بھی وہاں آگئے۔ اور سیدھے میرے پاس چلے آئے۔ ان کی حالت غیر تھی۔ میں نے کہا آپ تو بہت بیمار ہیں۔ آپ کیوں آئے؟ میں سے اٹھ کر خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔ بولے ہاں بیمار تو ہوں مگر جب یہ سنا کہ آپ یہاں آ رہے ہیں تو جی نہ مانا۔

    اتنے میں ایک شامت کا مارا پبلشر ادھر آ نکلا۔ منٹو نے آواز دی، "اوئے ادھر آ۔” وہ رکتا جھجکتا آگیا۔

    "کیا ہے تیری جیب میں نکال۔” اس نے جیب میں سے پانچ روپے نکال کر پیش کیے مگر منٹو پانچ روپے کب قبول کرنے والے تھے۔ "حرام زادے دس روپے تو دے۔” یہ کہہ کر اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور دس روپے کا نوٹ نکال کر پھر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ پبلشر نے بھی سوچا کہ چلو سستے چھوٹے۔ وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ منٹو پندرہ بیس منٹ تک بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر ان کی بے چینی بڑھ گئی اور عذر کر کے رخصت ہوگئے۔ مجھ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

    پانچ مہینے بعد اخبارات سے معلوم ہوا کہ منٹو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے پھر چپکے سے شراب پی لی تھی۔ خون ڈالتے ڈالتے مر گئے۔

    (گنجینۂ گوہر از قلم شاہد احمد دہلوی سے اقتباس)

  • ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ”جب کوئی ہمارے ساتھ گستاخی کرے تو اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا“

    ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُ المطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔

    کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلالپوری ان کثیرُ المطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا اور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔

    مطالعے کی اس وسعت کے ساتھ ان کی دل چسپیوں کے میدان بھی گوناگوں تھے جو نفسیات، ناول و افسانہ، موسیقی اور مصوری سے ہوتے ہوئے جنسیات تک چلے گئے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ کیسے کر لیا تھا؟ انہوں نے اس کا جو جواب دیا، اسے سن کر مجھے اپنی زندگی کے رائیگاں چلے جانے کا بہت افسوس ہوا۔ کہنے لگے ”سیّد صاحب! اس میں میرا کوئی بڑا کمال نہیں ہے۔ میں نے بس اتنا کیا ہے کہ زندگی میں اپنا وقت بہت کفایت شعاری سے استعمال کیا ہے۔ میں نے اسے روزمرہ کے فضول مشاغل میں ضائع نہیں ہونے دیا۔ میں نے کبھی بے مقصد مطالعہ نہیں کیا اور جو کچھ بھی پڑھا ہے ایک منصوبے کے تحت پڑھا ہے، چاہے وہ فلسفہ ہو، تاریخ ہو یا ناول و افسانہ ہو اور پھر اس کے باقاعدہ نوٹس (Notes) لیے ہیں اور میرے ان نوٹس کے پلندوں سے بوریاں بھر گئی ہیں۔ چنانچہ آج کل کسی موضوع پر لکھتے ہوئے مجھے جب بھی ان پڑھی ہوئی کتابوں کی طرف رجوع لانے یا ان کا حوالہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے، میں اپنے یہی نوٹس نکال کر سامنے رکھ لیتا ہوں اور وہ سب کچھ جو میں نے پڑھا تھا، مستحضر ہو جاتا ہے۔“

    لیکن پتا نہیں کیوں اس سارے مطالعے اور علم و دانش کے باوجود شاہ صاحب کی شخصیت اور مزاج میں ایک کمی محسوس ہوتی تھی اور وہ کمی تھی رواداری اور لچک کی، مخالف کی بات برداشت کرنے کی….ایسی کمی جس کی توقع ایک اسکالر سے نہیں کی جاتی۔

    مجھے کئی موقعوں پر یوں لگا کہ شاہ صاحب میں بعض چیزوں کے حق میں اور بعض چیزوں کے خلاف خاصا تعصب موجود ہے اور اس معاملے میں ان کا رویہ بالکل بے لچک ہے۔ وہ جب کسی بات پر اڑ جاتے تو پھر اس کے خلاف کوئی دلیل نہ سنتے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ زندگی بھر تدریس کے منصب پر فائز رہے اور استاد حضرات کے مخاطب ہمیشہ چونکہ ان کے کم علم شاگرد ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ دوسرے لوگوں سے بھی جب بات کرتے ہیں تو لاشعوری طور پر استادی کی سطح ہی سے بات کرتے ہیں یا اس کی وجہ شاہ صاحب کا وہ خاص مزاج اور طبیعت ہو سکتی ہے جو انہیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی۔ کچھ بھی ہو شاہ صاحب کو اپنی اس مزاجی خصوصیت کی وجہ سے بعض موقعوں پر کافی ناخوش گوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ میرے ذہن میں آتا ہے:

    ایک دن حسبِ معمول ”فنون“ کی محفل جمی ہوئی تھی کہ اتفاق سے سابق مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے نظم گو شاعر صلاح الدّین محمد آ نکلے۔ پہلے تو کچھ شعر و سخن پر گفتگو ہوئی، پھر باتیں سیاست کی طرف چل نکلیں۔ صلاح الدین محمد کا خیال تھا کہ دوسرے صوبوں اور خصوصاً کراچی اور اس میں آباد اُردو بولنے والے طبقے کے ساتھ اہلِ پنجاب کا رویہ ہم دردانہ اور منصفانہ نہیں تھا۔ شاہ صاحب نے حسبِ توقع پنجاب اور اہلِ پنجاب کا دفاع کیا اور اپنی بات کے حق میں دلائل دیے، لیکن اس بحث میں دونوں طرف کچھ تیزی آ گئی۔ شاہ صاحب اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔ اتنے میں صلاح الدّین محمد کی زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکل گیا، ”سید صاحب! آپ بھی اپنے علم کے باوجود نہایت متعصب اور پست ذہنیت رکھنے والے انسان ہیں۔“ یہ سننا تھا کہ شاہ صاحب جلال میں آ گئے اور غصے میں بے قابو ہو کر اس مہمان کو ایسی بے نقط سنائیں کہ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے۔

    ان کی اس تیز و تند تقریر کا ٹیپ کا جملہ یہ تھا کہ ”ہم جلالپور کے رہنے والے ہیں، جب کوئی ہمارے ساتھ اس طرح گستاخی کرے تو وہ اپنی جان بچا کے نہیں لے جا سکتا۔“ صلاح الدّین محمد کو فوراً ہی احساس ہوا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ اب وہ معذرت کر رہے ہیں، معافی مانگ رہے ہیں کہ یہ فقرہ ان کے منہ سے بے ساختہ سوچے سمجھے نکل گیا ہے لیکن شاہ صاحب کا پارہ جب ایک دفعہ چڑھ گیا تو نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اتنے میں وہ اٹھے اور اپنی چھڑی سنبھال دفتر کی سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے گئے۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد شاہ صاحب نے ”فنون“ کے دفتر آنا چھوڑ دیا اور کسی کے ہاتھ کوئی پیغام بھی نہ بھیجا۔ ہم لوگوں نے پہلے کچھ عرصہ تو ان کے آنے کا انتظار کیا لیکن جب ان کی غیر حاضری کو ایک مہینہ گزر گیا تو مدیر ”فنون“ اور راقم السّطور نے طے کیا کہ ان کے گھر جا کر انہیں منانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایک دن ہم ان کے گھر ساندہ جا نکلے۔ ہم اندر سے ڈر رہے تھے کہ خدا جانے ہمیں یوں دیکھ کر ان کا فوری ردعمل کیا ہو گا۔ ہم نے جب گھنٹی بجائی تو یہ امکان بھی ہم نے سوچ رکھا تھا کہ شاہ صاحب جب باہر نکل کر ہمیں دیکھیں گے تو بڑی رکھائی سے کہیں گے ”فرمائیے، آپ صاحبان نے کیسے زحمت کی!“ لیکن خدا کا شکر کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ شاہ صاحب باہر آئے تو ہم دونوں کو دیکھ کر نہال ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے ہم سے ملے اور ہمیں اندر لے گئے۔ اِدھر اُدھر کا حال دریافت کرتے رہے۔ چائے اور فرنچ ٹوسٹوں کے ساتھ ہماری تواضع کی۔ پھر پیشتر اس کے کہ ہم کچھ بولیں، خود ہی کہنے لگے ”اس دن میں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک نہیں تھا، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ میں ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہوں۔ جب کوئی ناگوار بات سن کر مجھے غصہ آتا ہے تو یہ بلڈ پریشر یکلخت شوٹ کر جاتا ہے اور میرے لیے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بہرحال مجھے اس واقعے کا بہت افسوس ہے۔“ ہم نے شاہ صاحب کو اطمینان دلایا کہ وہ بات آ گئی ہو گئی ہے اور ان کے لیے اب گھر میں محصور رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم ”فنون“ کی محفل سے ان کی غیر حاضری کو بہت محسوس کر رہے ہیں، اس لیے مہربانی کر کے اب وہ آنا شروع کر دیں۔ شاہ صاحب نے ہماری بات مان لی اور ان کے آجانے سے ”فنون“ کی ہفتہ وار مجلس پھر سے آباد ہو گئی۔

    (اردو کے ممتاز محقّق، مترجم اور عربی داں محمد کاظم کے ایک مضمون سے اقتباس)

  • ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر

    ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر

    اردو شاعری میں راشد کو نظم نگاری کے باعث جو مقام ملا، اسے اُن کی شاعری پر تنقید اور اعتراضات ماند نہیں کرسکے۔ ن م راشد رجحان ساز اور اردو نظم کے بڑے شاعر کہلائے۔

    ممتاز ادیب اور مشہور افسانہ نگار غلام عبّاس نے راشد سے متعلق اپنی یادیں رقم کرتے ہوئے اُن کے مشہور شعری مجموعہ اور اس کے ناشر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘ماوریٰ’’ چھپ گئی۔ چغتائی صاحب نے اس کا بہت خوب صورت گرد پوش بنایا تھا۔ کرشن چندر نے دیباچہ لکھا تھا۔ جیسا کہ توقع تھی کتاب ملک میں بہت مقبول ہوئی۔ اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ کچھ رسائل و جرائد میں اس کے خلاف تنقیدیں بھی چھپیں مگر اس کی مقبولیت پر کچھ اثر نہ پڑا۔

    اس دوران میں دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا۔ اور وہ کپتان بن کر ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد واپس آئے تو دلّی میں میرے ہی پاس آکر ٹھہرے۔ ان کی عدم موجودگی میں ‘‘ماوریٰ’’ کا دوسرا ایڈیشن چھپ گیا تھا۔ جس کی ایک جلد میں خرید لایا تھا۔ خوش خوش اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔ اچانک ان کا چہرہ غصّے سے متغیر ہو گیا۔ ناشر نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی وہ نظمیں بھی رسائل سے لے کر شامل کر دی تھیں جو انہوں نے ‘‘ماوری’’ کے چھپنے کے بعد پچھلے ڈیڑھ دو سال میں کہی تھیں۔ حالانکہ انہوں نے ناشر کو اس کی سخت ممانعت کر دی تھی۔ راشد شاید ان نظموں کو اپنے دوسرے مجموعے کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

    وہ اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے۔ رات کو نیند بھی نہ آئی۔ بس تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر وردی پہن کر گھر سے نکل گئے، تین چار دن غائب رہے۔ اس کے بعد آئے تو بڑے ہشاش بشاش، لپٹ لپٹ کر گلے ملتے اور قہقہے لگاتے رہے۔

    بولے، جانتے ہو میں کہاں سے آرہا ہوں؟ لاہور سے۔ میں اس صبح اپنے دفتر سے اجازت لے کر لاہور روانہ ہو گیا تھا۔ میں سیدھا انار کلی چوک کے تھانے میں پہنچا۔ میں نے تھانے دار سے کہا، میں فوج میں کپتان ہوں۔ میں جنگ کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب ہم جنگ پر ملک سے باہر جائیں تو سرکار ہمارے پیچھے ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ اب دیکھیے میرے ساتھ میرے پبلشر نے کیا کیا، اس کے بعد میں نے تھانے دار کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔ اس نے کہا، صاحب آپ فکر نہ کریں، میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر ناشرکی دکان پر تالا ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جس پریس میں کتاب چھپی تھی اس کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔

    ‘‘ماوریٰ’’ کا ناشر بڑا اکڑ باز تھا۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کبھی کبھی مارپیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ مگر راشد کی اس کارروائی سے اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔ گڑگڑا کر راشد سے معافی مانگی اور کہا کہ میں پوری رائلٹی کے علاوہ ایک ہزار روپیہ اس کا ہرجانہ بھی دوں گا۔ پریس والے بے قصور تھے، انہیں معاف کر دیا گیا۔ البتہ ان کے رجسٹر سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ پہلا ایڈیشن ایک ہزار نہیں جیسا کہ اس میں درج تھا بلکہ دو ہزار جلدوں کا چھاپا گیا تھا۔ چنانچہ ناشر کو ایک ہزار کی مزید رائلٹی ادا کرنی پڑی۔