Tag: اردو اقتباسات

  • ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    یہ شخصی خاکہ پارو دیوی کا ہے جو سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلا ہے جسے ایک فلم اسٹوڈیو کے شب و روز کے تسلسل میں لکھا گیا ہے۔ منٹو بھی اسی سے وابستہ تھے۔

    اس کے آغاز پر سعادت حسن منٹو نے ایک فلم کمپنی کے مقروض ہوجانے اور مختلف وجوہ کی بنا پر مزید مالی نقصان اٹھانے کی کچھ تفصیل بیان کی ہے جس کے بعد بتایا ہے کہ یہاں اسے ایک پروپیگنڈہ کہانی تیار کرنے کو کہا جاتا ہے اور تب منٹو اور اس کے ساتھیوں کو اسٹوڈیو میں ایک نیا چہرہ نظر آتا ہے۔ پارو نام کی یہ لڑکی اسی پروپیگنڈہ فلم کی سائیڈ ہیروئن کے طور پر خود کو آزمانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ آگے منٹو لکھتا ہے:

    "ایک دن مَیں، واچا، پائی اور اشوک اسٹوڈیو کے باہر کرسیوں پر بیٹھے کمپنی کی ان ہی حماقتوں کا ذکر کر رہے تھے جن کے باعث اتنا وقت، اتنا روپیہ ضائع ہوا کہ اشوک نے یہ انکشاف کیا کہ جو چودہ ہزار روپے رائے بہادر نے ممتاز شانتی کو دیے تھے، وہ انہوں نے اس سے قرض لیے تھے۔ اشوک نے یہ انکشاف اپنی کالی پنڈلی کھجلاتے ہوئے کچھ اس انداز سے کیا کہ ہم سب بے اختیار ہنس پڑے، لیکن فوراً چپ ہو گئے۔”

    "سامنے بجری بچھی ہوئی روش پر ایک اجنبی عورت ہمارے بھاری بھر کم ہیئر ڈریسر کے ساتھ میک اپ روم کی طرف جا رہی تھی۔”

    "دتاّ رام پائی نے اپنے کالے موٹے اور بدشکل ہونٹ کھولے اور خوفناک طور پر آگے بڑھے ہوئے اوندھے سیدھے میلے دانتوں کی نمائش کی اور واچا کو کہنی کا ٹہوکا دے کر اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ۔۔۔ یہ کون ہے؟‘‘”

    "واچا نے پائی کے سر پر ایک دھول جمائی۔ ’’سالے تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا؟‘‘ پائی بدلہ لینے کے لیے اُٹھا تو واچا نے اس کی کلائی پکڑ لی۔ ’’بیٹھ جا سالے۔ مت جا اِدھر۔ تیری شکل دیکھتے ہی بھاگ جائے گی۔‘‘”

    "پائی اپنے اوندھے سیدھے دانت پیستا رہ گیا۔ اشوک جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا، بولا۔ ’’گڈ لکنگ ہے!‘‘ میں نے ایک لحظے کے لیے غور سے اس عورت کو دیکھا اور کہا
    ’’ہاں نظروں پر گراں نہیں گزرتی۔‘‘”

    "اشوک میرا مطلب نہ سمجھا ’’کہاں سے نہیں گزر تی…؟‘‘ میں ہنسا۔ ’’میرا مطلب یہ تھا کہ جو عورت یہاں سے گزر کر گئی ہے۔ اسے دیکھ کر آنکھوں پر بوجھ نہیں پڑتا۔ بڑی صاف ستھری۔۔۔ لیکن قد کی ذرا چھوٹی ہے۔‘‘ پائی نے پھر اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی، ’’ارے، چلے گی۔۔۔ کیوں واچا؟‘‘

    "واچا، پائی کے بجائے اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’دادا منی! تم جانتے ہو، یہ کون ہے؟‘‘ اشوک نے جواب دیا۔ ’’زیادہ نہیں جانتا۔ مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘ کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ کیا گیا، جسے ہم نے پردے پر دیکھا اور سنا اور اپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی، اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا۔ مسکراہٹ بھی غیر دل کش تھی، لیکن پائی اس پر لٹو ہو گیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکر جی سے کہا ’’ونڈر فل اسکرین فیس ہے۔‘‘

    "دَتّا رام پائی فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر۔ فلمستان چونکہ ایسا ادارہ ہے جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی، اس لیے دِتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دوچار ہوتا تھا۔
    ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن ایس مکر جی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پراپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔”

    "اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گھلّو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب ہر رنگین مزاج رئیس کی منظورِ نظر تھی۔ اس کو یہ لوگ میرٹھ کی قینچی کہتے تھے، اس لیے کہ وہ کاٹتی تھی اور بڑا مہین کاٹتی تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی۔ پَر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا جو اسے فلمستان لے آیا۔”

    "جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور مسٹر ساغرؔ نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔ اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔ چھوٹی آستینوں والے پھنسے پھنسے بلاؤز میں اس کی ننگی ننگی باہیں ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھائی دیتیں۔ سفید، سڈول، متناسب اور خوبصورت۔ جلد میں ایسی چکنی چمک تھی جو ’’ولو‘‘ لکڑی پر رندہ پھرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ صبح اسٹوڈیو آئی۔ نہائی دھوئی، صاف ستھری، اُجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، کسی صابن کا اشتہار معلوم ہوئی۔ شام کو جب گھر روانہ ہوتی تو دن گزرنے کے باوجود گرد و غبار کا ایک ذرّہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تر و تازہ ہوتی جیسی صبح کو ہوتی۔”

    "دتاّ رام پائی اس پر اور زیادہ لٹو ہو گیا۔ شوٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی۔ چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے اور اس کے اوندھے سیدھے، میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخن کو کیسے برداشت کرتی تھی۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی کا ڈھانچہ میرے حوالے کیا گیا کہ بڑے غور سے اس کا مطالعہ کروں اور جو ترمیم و تنسیخ میری سمجھ میں آئے، بیان کر دوں۔”

    "نیا ڈھانچہ جب فلمستان کی ’’فل بنچ‘‘ کے سامنے پیش ہوا تو میری وہ حالت تھی جو کسی مجرم کی ہو سکتی ہے۔ ایس مکرجی نے اپنا فیصلہ ان چند الفاظ میں دیا۔ ’’ٹھیک ہے، مگر اس میں ابھی کافی اصلاح کی گنجائش ہے۔‘‘”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے لیے یہ تھی کہ مجھے پارو کو، اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیشِ نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہرحال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہو گئے۔ کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی فضا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔”

    "کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتا رام پائی، اب اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی یہ چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا ’’سالے تو کیوں جلتا ہے۔‘‘”

    "جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کے لیے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہو گئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارو دیوی لکھا گیا۔”

    "دتاّ رام پائی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ یہاں جا دھمکنا شروع کر دیا۔”

    "پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا مرد رہتا تھا۔ قد و قامت میں اس سے دو گنا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور ’’تھامو‘‘ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔”

    "پائی ایسے فخر و ابتہاج سے کینٹین میں پارو سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر نیم عاشقانہ انداز میں کرتا کہ ہنسی آجاتی۔ میں اور ساوک واچا اس کا خوب مذاق اُڑاتے، مگر وہ کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی پارو بھی موجود ہوتی۔ میں اس کی موجودگی میں بھی پائی کے خام اور بھونڈے عشق کا مذاق اُڑاتا۔ پارو بُرا نہ مانتی اور مسکراتی رہتی۔ اس مسکراہٹ سے اس نے میرٹھ میں جانے کتنے دلوں کو اپنی قینچی سے کترا ہو گا۔”

    "پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگو کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقہ سے تھا جو ناشائستگی کی طرف محض تفریح کی خاطر مائل ہوتا ہے۔”

    "پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بڑی اچھی خاصی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی ایکٹرس بنتی ہے، تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے۔ جیسے کہ وہ گیند ہے جسے بلے کے ساتھ کسی نے ہٹ لگائی ہے اور فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی اس تاک میں ہیں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں چلی آئے۔ لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی جلدی نہیں تھی۔”

    "پائی کی حالت اب بہت زیادہ مضحکہ خیز ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ پارو نے ایک روز اسے گھر مدعو کیا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اسے دو پیگ جونی واکر وسکی کے پلائے تھے۔ جب اس کو بہت زیادہ نشہ ہو گیا تھا تو پارو نے اس کو بڑے پیار سے اپنے صوفے پر لٹا دیا تھا۔ اب اس کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس پر مرتی ہے اور ہم لوگ چونکہ ناکام رہے ہیں، اس لیے حسد کی آگ میں جلتے ہیں۔ اس بارے میں پارو کا ردِعمل کیا تھا، یہ مجھے معلوم نہیں۔”

    "شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو نے ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر فلمائے جانے کا وقت آتا گیا، میرے اندیشے بڑھتے گئے۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ امتحان میں پوری نہیں اُترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہو گی۔”

    "ہم سب نے بڑی کوشش کی کہ اس کا تصنع اور ’’چوبی پن‘‘ کسی نہ کسی طریقے سے دور ہو جائے، مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کو کیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا، مگر سیٹ پر وہ حسبِ منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔ بہرحال اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔”

    "چونکہ مجھے اُس کی طرف سے بہت مایوسی ہوئی تھی اس لیے میں نے اُس کے ’’رول‘‘ میں کتربیونت شروع کر دی تھی۔ میری اِس چالاکی کا علم اُس کو پائی کے ذریعے سے ہو گیا۔ چنانچہ اس نے خالی اوقات میں میرے پاس آنا شروع کر دیا۔ گھنٹوں بیٹھی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہتی۔ بڑے شائستہ انداز میں، مناسب و موزوں الفاظ میں جن میں چاپلوسی کا رنگ بظاہر نہ ہوتا، میری تعریف کرتی۔”

    "ایک دو مرتبہ اس نے مجھے اپنے گھر پر مدعو بھی کیا۔ میں شاید چلا جاتا، لیکن اُن دنوں بہت مصروف تھا۔ ہر وقت میرے اعصاب پر پراپیگنڈہ فلم کا منظرنامہ سوار رہتا تھا۔”

  • دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    ایک زمانہ تھا کہ اہلِ وطن فرش پر دستر خوان بچھاتے، آلتی پالتی مار کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھانا کھاتے۔ پھر جو زمانہ بدلا تو ان کے نیچے کرسیاں اور سامنے میز بچھ گئی جس پر کھانا چُن دیا جاتا۔ پہلے وہ سَر جوڑ کر کھاتے تھے اب سَروں کے درمیان فاصلہ نمودار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا شخص مدّ مقابل نظر آنے لگا۔

    مگر زمانہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ لی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر اور سرو قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جب کہ جنگلی مخلوق چراگاہوں میں چرتی پھرتی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختۂ مشق بناتے تھے، اب باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے آ ملے۔

    اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا ہماری تہذیب کا گراف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے، کیونکہ ہم نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت کو ترک کر کے کھڑے ہو کر اور پھر چل کر کھانا کھانے کے وطیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے یا دانہ دنکا چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھیے کہ اس کے قبضۂ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے۔ فقط یہ دیکھیے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا!

    بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھانوں کی ایک ٹولی وارو ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر اُدھار پر کپڑا بیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر ماحضر تناول فرماتے۔ وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شوربے سے بھری ہوئی پرات بحرُ الکاہل کا منظر دکھاتی، جس میں بڑے گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح ابھری ہوئی دکھائی دیتیں۔ وہ ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شرکائے طعام پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللّٰہ کا پاک نام لے کر کھانے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رُک رُک کر، ٹھہر ٹھہر کر کھاتے، مگر پشتو بغیر رُکے بے تکان بولتے۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ چنانچہ میں ہر شام حجرے کے دروازے میں آکھڑا ہوتا، انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کبھی کبھی برادرانہ اخوّت میں لتھڑا ہوا ایک آدھ لقمہ یا گوشت کا ٹکڑا میری طرف بھی بڑھا دیتے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ان پٹھانوں کی پیش کش کو اگر کوئی مسترد کر دے تو اس کی جان کی خیر نہیں۔ اس لیے میں بادلِ نخواستہ ان کے عطا کردہ لقمۂ تر کو کلّے میں دبا کر آہستہ آہستہ جگالی کرتا اور تا دیر انھیں کھانا کھاتے دیکھتا رہتا۔ عجیب منظر ہوتا۔ وہ کھانے کے دوران میں کمال سیر چشمی کا مظاہرہ کرتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جزاکَ اللّٰہ کے الفاظ وصول کرنے کے بعد اسے اپنے منہ میں ڈالتا۔ اخوّت، محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرزِ عمل سے موازانہ کرتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی، کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی خالہ کے گردا گرد بچّوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے جب بڑی خالہ کھانا تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں ہانڈی میں ڈوئی کے غوطہ لگانے اور پھر وہاں سے برآمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اترنے کے عمل کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتاً بڑی بوٹی چلی جاتی تو بس قیامت ہی آ جاتی۔ ایسی صورت میں خالہ کی گرج دار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے کی تکا بوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی تھی۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیزانِ مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوش گوار فضا از خود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار رہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدّ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔

    دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریکِ طعام حد درجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجیے تو آپ کو نفسا نفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہو گا اور ڈارون کا جہدُ البقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔

    دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حقِ میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر پوری دل جمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوش بُو اور بد بُو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سو گز کی دوڑ میں ہے!

    (ممتاز اردو نقّاد، انشائیہ نگار، اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے بعنوان دستر خوان سے اقتباسات)

  • کتابوں کے عاشق کا احساسِ ملکیت

    کتابوں کے عاشق کا احساسِ ملکیت

    محبّت کرنے والے دوسرے افراد کی طرح کتابوں کے عاشق بھی احساسِ ملکیت کے مارے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں بھی یہ اعتراف کرتا چلوں کہ میری کتابوں کی الماری سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرنے لگے تو میرا جذبۂ رقابت جاگ اٹھتا ہے۔

    مجھے جس منظر کا خوف ہے، وہ تقریباً کلاسیکی ہے اور بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔ کتابیں جمع کرنے کے شوقین فوراً یہ لمحہ پہچان جائیں گے۔ کوئی مہمان ٹہلتا ہوا آپ کی کتابوں والی الماری کے پاس آتا ہے اور اُس پر سرسری نظر دوڑانے لگتا ہے۔ آپ اسی اُمید میں ہیں کہ وہ اُکتا کر جلد ہی اپنی کرسی پر واپس آجائے گا۔ مگر نہیں…

    کتابیں کھینچ کھینچ کر باہر نکالنے لگا ہے اور اب ان کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ بلکہ وہ اُن کو چھو رہا ہے، سہلا رہا ہے۔ وہ اب آپ، میں اور اس شام میں اپنی باقی ماندہ توجہ گم کر چکا ہے۔ جب وہ آخر کار اپنی نشست تک واپس آتا ہے، تو آپ کی الماری سے کتابوں کی ڈھیری اس کے ساتھ ساتھ چلی آتی ہے۔ آپ کو اندازہ ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے مگر آپ اس کے لیے تیار ہیں۔ وہ آپ سے پوچھے گا اور آپ کہہ دیں گے۔ ممکن ہی نہیں!

    ظاہر ہے کہ یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچتا ہے۔ وہ بے چارہ بھی اس قدر گھبرایا ہوا ہے جتنے کہ آپ، اور وہ بڑی ہمت کر کے سوال پوچھ ہی لیتا ہے۔ ارے وہ غائب دماغی کے سے انداز میں کہتا ہے جس وقت وہ رخصت ہونے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے،

    ” کیا میں یہ کتابیں مستعار لے سکتا ہوں؟ ”

    ” بالکل، کوئی بات نہیں۔۔”

    ” میں ہفتے بھر میں واپس کر دوں گا۔۔”

    ” جتنا مرضی چاہے وقت لگا لیں۔۔”

    ” آپ نے بُرا تو نہیں مانا؟ ”

    ” برا؟ آخر برا ماننے کی کیا بات ہے؟”

    معروف نقاد اناطول برو یارد نے احساس ملکیت کے مارے ہوئے کتابوں کے تمام عشاق کی ترجمانی کر دی تھی، جب اُس نے مانگے پر کتابیں دینے کے بارے میں مضمون لکھا: "جوں ہی کتاب کسی کو مانگے پر دے دی جاتی ہے، میں فوراً اُس کی کمی محسوس کرنے لگتا ہوں۔ ہر غائب کتاب ان باقی سب کتابوں کو بدل دیتی ہے جو میری الماری میں رہ گئی ہیں۔ میرے کتب خانے کا مزاج وہ نازک گیسٹالٹ، برہم ہو جاتا ہے۔ جب تک کہ کتاب واپس نہیں کر دی جاتی، میں اپنے آپ کو اُس والد یا والدہ کی طرح محسوس کرتا ہوں جو رات گئے اپنی بیٹی یا بیٹے کے دوستوں کی مشکوک پارٹی سے گھر واپس آنے کا انتظار کر رہا ہے۔ کتابیں مانگے پر دینے میں سب سے مشکل مرحلہ واپسی کے وقت ہوتا ہے۔ ایسے لمحوں میں، دوستی محض ایک تار تک سمٹ کر رہ جاتی ہیں۔ میں اُن کی طرف دیکھتا ہوں کہ اذیت یا نشاط، یا آنسو تبدیلی لرزتے ہاتھ کپکپاتی ہوئی آواز۔ مگر کتاب مانگنے والا عام طور پر بس یہی کہتا ہے، ” بڑا مزہ آیا۔”…. ” بڑا مزہ آیا۔” جیسے کہ کتابیں اسی کام کے لیے ہوتی ہیں۔۔”

    "اصولی طور پر مجھے کتابیں عاریتاً دینا اچھا لگتا ہے، یہ ادشا شیام کا کہنا ہے جو پڑھنے کے معاملے میں عقیدت کی حد تک شوق رکھتی ہیں، مگر حقیقت میں، اب میں بہت محتاط ہوگئی ہوں کہ کتابیں کس کو دوں۔ پہلے میں ان کا امتحان لینے کے لیے ” ریڈرز ڈائیجسٹ ” کے پرانے شمارے پڑھنے کے لیے دیتی ہوں اور یہ اگر وقت پر واپس مل جائیں اور خراب نہ ہوئے ہوں تو پھر میں کتابیں دینے کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔ ورنہ پھر میں بڑی سہولت کے ساتھ ان کتابوں کی تلاش کو ملتوی کرتی رہوں گی جو مانگی گئی ہیں۔ ارے، مگر خود مانگنا!!! مجھے کتابیں مانگ کر پڑھنا بہت پسند ہے اور میں ایسا کرتی بھی ہوں۔ مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے معلوم ہے میں کتابوں کی احتیاط کروں گی اور میں ان کو واپس کرنے کے معاملے میں بھی دھیان رکھتی ہوں۔”

    کتابیں جمع کرنے والے کئی افراد سے میں نے پوچھا کہ کتابیں مستعار دینے کا معاملہ اِس قدر صدمے کا سبب کیوں ہے۔ کثرت سے ملنے والے تین جواب یہ تھے: "زیادہ تر لوگ اُس وقت کتاب واپس نہیں کرتے جس کا وعدہ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بھلا بھول کیسے سکتے ہیں؟ میں تو اُس وقت سے اِس بات کو بھول نہیں پایا جب سے کتاب میں نے پڑھنے کے لیے دی ہے۔۔”

    ” یہ صرف دیر سے واپس کرنے کی بات نہیں۔ وہ جتنا وقت چاہے لے لیں، بات یہ ہے کہ وہ کتاب خراب کر دیتے ہیں۔ کتاب واپس آئے گی تو صفحے کتّے کے کان کی طرح مڑے ہوئے ہوں گے یا داغ دار یا پھر پشتہ مڑا ہوا۔”

    "مجھے اس کی پروا نہیں کہ کب واپس ملے گی اور کس حالت میں۔ سب سے زیادہ مایوسی اِس بات سے ہوتی ہے، اور یہ بات میرا دل توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اتنے مہینوں کے بعد بھی کتاب انہوں نے پڑھی ہی نہیں۔”

    مگر ہم شروع سے ہی احساسِ ملکیت کے مارے ہوئے تو نہیں تھے۔ بچپن اور لڑکپن کے پُر لطف مشغلوں میں یہ بھی شامل تھا کہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے دوستوں، سہیلیوں سے کتابوں اور کامک کا تبادلہ کیا کرتے۔ بڑے ہو کر ہم نے یہ مسرت کم کر دی ہے۔ بچپن میں ہم بہت تن دہی کے ساتھ کامک بکس کا تبادلہ کرتے اور کالج کے دنوں میں بڑی آزادی کے ساتھ ایک دوسرے کو کتابیں دیا کرتے۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی پسندیدہ ادیب یا کتاب ایسی ہوتی جس کے پڑھنے کے لیے ہم اپنے ہم جماعتوں سے پُر زور سفارش کر رہے ہوتے۔

    ” تمہارا مطلب ہے کہ تم نے ابھی تک وڈ ہاؤس کی کوئی کتاب نہیں پڑھی؟ میں کل ہی ایک پرا ڈھیر لے آؤں گا۔

    ” میں ایک بہت ہی حیرت انگیز کتاب پڑھ رہا ہوں۔ اس کا نام ہے ” زین اینڈی دی آرٹ آف موٹر سائیکل مین ٹیننس” تم میری کاپی لے لینا، جوں ہی میں ختم کرلوں۔”

    مجھے یاد ہے کہ میرا ایک ہم جماعت پوری کلاس کو "کیچ 22 ” کی کاپی باری باری دے رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اتنی مزاحیہ کتاب سے ناواقف رہنا کوئی برداشت نہیں کر سکے گا۔ خود میں نے بھی بالکل ہی اجنبی لوگوں کو ” دی چوزین ” اور ” مائی نیم از ایشرلیف ” کے نسخے سرمنڈھ دیے۔

    اور یہ سب اس عہد کی بات ہے جب ہم خراب ہونے یا برباد ہونے کی صورت میں اپنی پسند کی کتاب کے نئے نسخے خریدنے کی ہمّت بھی نہیں کر سکتے۔ مگر بے کھٹکے کتابیں مانگتے بھی تھے اور مانگے دیتے بھی تھے۔

    اہم بات یہ تھی کہ کوئی اور بھی وہ کتاب پڑھے جو ہمارے لیے وقیع ہے۔ یہ عمل آپ کو ایک کلیسائی عزم سے بھر دیتا تھا اور یہ دوستی کے رشتے استوار کرتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے پسندیدہ ادیب کو پڑھنا بڑی قربت کی بات تھی بلکہ ہے۔ کوئی بھی اور بات دوستی کو اس طرح مستحکم نہیں کرتی اور تعلق میں گہرائی نہیں لاتی جتنا کہ کتابوں کا تبادلہ۔

    میں نے اس طرح کا سب سے پسندیدہ اور سخاوت سے بھر پور عمل دیکھا ہے، وہ میری دوست پرسنا کا اپنے دوستوں کو کتابوں کی الماری کی طرف بلا کر اپنی پسند کی کتاب مستعار لینے کی دعوت دینا ہے: ” میں دوسروں کو کتابیں مستعار دینے کی جبریہ عادت رکھتی ہوں۔” اس نے اعتراف کیا۔ ” یہ بات جس قدر بھی غیر عملی لگے، آخر کار یہ بہت تسکین بخش عمل ہے۔ مجھے یہ تصور ہی اچھا لگتا ہے کہ جس کتاب کی میں قائل ہوں وہ میرے کسی دوست کے ہاتھوں میں ہو۔”

    (مضمون "کتابیں مانگنا” از پردیپ سبیچین، ماخوذ ادبی رسالہ دنیا زاد)

  • افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    ہندوستان میں‌ برطانوی راج میں سول سرونٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والوں میں ایک نام جی ای سی ویکفیلڈ کا تھا۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنّف تھے۔ ”پچاس برس کی یادداشتیں“ ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔

    پہلے مسٹر ویکفیلڈ کا مختصر تعارف پیش ہے۔ جی ای سی ویکفیلڈ کا پورا نام جارج ایڈورڈ کیمبیل (George Edward Campbell Wakefield) تھا۔ وہ مسٹر ویکفیلڈ مشہور تھے۔ ان کا تعلق ملتان سے تھا جہاں انھوں نے ایک برطانوی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ ویکفیلڈ کا سنہ پیدائش 1873 اور وفات کا سال 1944 ہے۔ ویکفیلڈ کی دادی ہندوستانی تھیں جنھوں نے عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔

    مسٹر ویکفیلڈ برصغیر میں نصف صدی تک مختلف محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جن میں مالیات، زراعت شامل ہیں، انھوں نے نظامِ دکن کے لیے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اس دوران ویکفیلڈ کو کئی دل چسپ تجربے ہوئے اور انھوں نے بعض ناقابلِ یقین اور حیرت انگیز واقعات بھی دیکھے اور ان کو ویکفیلڈ نے خاص طور پر قلم بند کیا۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ شہزادوں اور مہاراجوں کے حالات اور واقعات شامل ہیں۔

    مسٹر ویکفیلڈ نے اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں‌ درج کیا ہے۔ ”افغان امیر شیر علی خان ہندوستان کے دورے پر آئے تو ابّا جان نے ایک مقام پر اُن کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ رخصت ہوتے وقت امیر نے اُنہیں بُلا بھیجا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرے آرام کی خاطر اچھے انتظامات کیے۔ ابّا جان نے معروف فارسی محاورے کے مطابق کہہ دیا کہ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ اس پر امیر نے خیمے کے اندر موجود ہر چیز باندھنے کا حکم دیا اور وہ ساری اشیا واقعی افغانستان لے گیا جن میں ایک پیانو بھی شامل تھا۔ بعد میں مالیات کے حکام برسوں ابّا جان کے پیچھے پڑے رہے کہ آپ نے اتنی قیمتی اشیا امیر کو مفت پیش کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔“

  • ‘پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا!’

    ‘پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا!’

    دلّی کے غریبوں میں بھی یہ بات تھی کہ وہ کسی نہ کسی ہنر میں یکتا ہونا چاہتے تھے، چنانچہ جو ہنر یا فن انہیں پسند آتا اسے اس فن کے استاد سے باقاعدہ سیکھتے تھے۔

    استاد اپنے شاگردوں سے پیسہ کوڑی نہیں لیتے تھے۔ اس لیے بڑے بے نیاز ہوتے تھے۔ شاگرد خدمت کر کے استاد کے دل میں گھر کر لیتا تھا اور کسی بات سے خوش ہوکر استاد شاگرد کو دوچار گُر بتا دیا کرتا تھا۔

    دراصل خدمت لینے میں یہ گُر پوشیدہ تھا کہ استاد شاگرد کی خو بُو سے اچھی طرح واقف ہو جاتا تھا۔ استاد کو اندازہ ہو جاتا کہ شاگرد اس فن کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ اطاعت و فرماں برداری کرتا ہے یا نہیں۔ جو کچھ ہم کہیں گے اسے مانےگا یا نہیں؟ اگر ہم نے بتایا اور اس نے نہ کیا تو ہماری بات نیچی ہوگی اور شاگرد کا کچا پن ہماری بدنامی کا باعث ہوگا، لہٰذا خوب کَس لیتے تھے۔ کوڑی پھیرا بازار کا کراتے، برتن منجھواتے، گھر کی جھاڑو دلواتے، ہاتھ پاؤں دبواتے۔ جو اِن ناگواریوں کو گوارا کر لیتا، اسے اس کے ظرف کے مطابق اپنا فن یا ہنر سکھا دیتے۔ نااہل کو کبھی کوئی استاد کچھ نہ دیتا تھا۔ اناڑی کے ہاتھ میں تلوار دینا بندر کے ہاتھ میں استرا دینا ان کے نزدیک گناہ تھا۔

    معمولی سی بات ہے پنجہ لڑانا، مگر دلّی میں اس کے بھی استاد تھے۔ پنجہ لڑانا بھی ایک فن تھا اور اس کی بھی کچھ رکاوٹیں تھیں جنہیں استاد سے سیکھا جاتا تھا۔ دلّی کے میر پنجہ کش کا نام بہت مشہور ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ پنجہ لڑانے والوں کا خط خراب ہو جاتا ہے، مگر میر پنجہ کش نہ صرف پنجہ کشی کے استاد تھے بلکہ اپنے زمانے کے اعلیٰ درجہ کے خوش نویس بھی تھے۔ ان کی لکھی ہوئی وصلیاں دیکھ کر آج بھی آنکھوں میں نور آتا ہے۔ اٹھارہ سال پہلے تک دلّی میں بعض نامی پنجہ کش تھے جو اپنے شاگردوں کو زور کراتے اور پنجے کے داؤ پیچ بتاتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دبلا پتلا سا نوجوان ہے جو ایک قوی ہیکل دیہاتی سے پنجہ پھنسائے بیٹھا ہے۔ دیہاتی کا چہرہ زور لگا لگا کر سرخ ہوا جا رہا ہے مگر نوجوان کا ہاتھ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اس نے کچھ اس انداز سے انگلیاں چڑھا رکھی ہیں کہ دیہاتی کی ساری طاقت بیکار ثابت ہو رہی ہے۔

    جب دیہاتی کام یاب نہیں ہوتا تو کہتا ہے، ’’نہیں جی، یوں نہیں میری انگلی اتر گئی تھی۔‘‘ پھر خوب انگلیاں جما کر کہتا ہے، ’’ہاں اب لو۔‘‘ مگر اب کے بھی اس کی پیش نہیں جاتی۔ کہتا ہے، ’’میاں جی اب تم موڑو۔‘‘ نوجوان اس کا پنجہ ایسے پھیر دیتا ہے جیسے موم کا ہو۔ دیہاتی حیران ہوکر کہتا ہے، ’’ٹھیرو میاں جی، مجھے اپنی انگلیاں تو جما لینے دو۔‘‘

    ’’لے بھئی چودھری، تو بھی کیا یاد کرے گا خوب گانٹھ لے۔ اچھا اب ہوشیار ہو جاؤ۔‘‘ اور پھر چودھری کا پنجہ نہیں رکتا اور پھرتا چلا جاتا ہے۔ دراصل ہنر اور فن میں گاؤ زوری نہیں چلتی۔ جبھی تو رستمِ زماں گاما پہلوان اپنے سے دوگنے پہلوانوں کو مار کر لیا کرتا تھا۔

    (اردو کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، ماہرِ موسیقی اور مدیرِ مشہور رسالہ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی کے مضمون دلّی کے حوصلہ مند غریب سے اقتباس)

  • عرب ہوٹل:’’لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈّہ‘‘

    عرب ہوٹل:’’لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈّہ‘‘

    لاہور کے کچھ ادبی اور ثقافتی مرکز ایسے ہیں جنہیں لوگ بالکل فراموش کر چکے ہیں اور ان کا ذکر اب صرف تذکروں میں ہی ملتا ہے۔ ان میں کچھ ادبی ٹھکانے تو اپنے زمانے میں بڑی شہرت کے مالک تھے جہاں علم و ادب کے نامور لوگ اپنی محفلیں سجایا کرتے تھے۔

    سب سے پہلے میں عرب ہوٹل کا ذکر کروں گا۔ عرب ہوٹل ریلوے روڈ اسلامیہ کالج کے بالکل سامنے واقع تھا۔ کہتے ہیں کہ 1926ء سے 1936ء تک لاہور کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا خاموش مرکز رہا۔ یہاں اس زمانے میں خواجہ دل محمد، ڈاکٹر تاثیر، عابد علی عابد، حفیظ جالندھری، گوپال متل، پنڈت ہری چند اختر، مولانا چراغ حسن حسرت، پروفیسر فیاض محمود، عبدالمجید بھٹی اور باری علیگ بیٹھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آنے والوں میں عبدالمجید سالک شامل تھے۔ جس زمانے میں مَیں نے عرب ہوٹل دیکھا اس وقت وہاں مولانا چراغ حسن حسرت کی شخصیت سب سے نمایاں تھی۔ میں عرب ہوٹل گیا بھی حسرت صاحب سے ملنے تھا کیونکہ ان کی فیملی سے ہمارے گھر والوں کے دیرینہ مراسم تھے اور حسرت صاحب مجھے جانتے تھے۔ یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔

    عرب ہوٹل کا ماحول مجھے ذرا پسند نہیں تھا۔ میں نے رنگون، بمبئی اور کلکتہ میں بڑے بڑے ریستوران اور ہوٹل دیکھے تھے۔ عرب ہوٹل ان کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے اندر ایک تنور بھی تھا، جہاں نان لگتے تھے اور سالن وغیرہ بھی پکتا تھا اور چائے بھی پکتی تھی جو چینی کی زرد پرانی چینکوں میں چھوٹے (فنجانوں) پیالوں میں اور کپ میں بھی دی جاتی تھی۔ بڑا غریبانہ ہوٹل تھا۔ وہاں کے نان تنور سے نکلتے تو ان کی خوشبو سے ہی بھوک تیز ہو جاتی تھی۔ بُھنے ہوئے گوشت کی فل پلیٹ بھی ملتی تھی اور ہاف پلیٹ بھی ملتی تھی۔ کباب بے حد لذیز تھے۔ بھنے ہوئے گوشت کی ہاف پلیٹ شاید دو آنے کی ہوتی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں عرب ہوٹل میں تنور کی وجہ سے گرمی زیادہ ہوتی تھی۔

    چند ایک میزیں لگی تھیں۔ حسرت صاحب سگریٹ سلگائے چائے کی پیالی سامنے رکھے اپنی خاص نشست پر بڑی شان سے بیٹھے ہوتے۔ ان کے گرد لوگ ان کی باتیں سننے کے لئے بڑے ادب سے بیٹھے ہوتے تھے۔ میرے لیے ان لوگوں کے چہرے اجنبی تھے۔ صرف باری علیگ کا چہرہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ حسرت صاحب نے سادہ اور آسان اردو میں جس میں ہندی کے الفاظ کی آمیزش بھی تھی کچھ طبع زاد کہانیاں لکھی تھیں جن کے بارے میں بعد میں گوپال متل نے لکھا تھا کہ اگر حسرت صاحب کی یہ کہانیاں دیونا گری رسم الخط میں ترجمہ کر دی جاتیں تو انڈیا والے حسرت صاحب کو ہندی کا بہت بڑا ادیب تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ عرب ہوٹل کے مالکان میں ایک درمیانی عمر کے گورے چٹے خوبصورت آدمی تھے جو عرب تھے اور اردو پنجابی بڑی روانی سے بول لیتے تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی۔ ان کے ساتھی جو شاید ان کے پارٹنر تھے وہ بھی گورے چٹے تھے مگر ان کا قد درمیانہ اور چہرے کے نقوش موٹے تھے۔ میں ان دنوں لکھتا لکھاتا بالکل نہیں تھا۔ ادب کا طالب علم تھا اور مشہور ادیبوں کی کہانیاں بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ گوپال متل نے اپنی کتاب ’’لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ میں عرب ہوٹل کا تھوڑا سا نقشہ کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    ’’اسلامیہ کالج کے سامنے عرب ہوٹل لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈہ تھا۔ ان میں زیادہ تر ادیب، شاعر اور صحافی تھے۔ یہ ایسے اداروں میں کام کرتے تھے جہاں تنخواہ بڑی قلیل ملتی تھی۔ بروقت نہیں ملتی تھی اور کسی ماہ ناغہ بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن یہ اپنے حال میں مست رہتے تھے اور اپنی زندہ دلی پر غمِ زمانہ کی پرچھائیاں نہیں پڑنے دیتے تھے۔عرب ہوٹل بڑا ہی غریب نواز ہوٹل تھا۔ وہ کبابوں، نصف نان اور چائے کی ایک پیالی میں صبح کا ناشتہ ہو جاتا تھا اور بھنے ہوئے گوشت کی نصف پلیٹ اور ایک نان میں ایک وقت کا کھانا ہو جاتا تھا۔ مولانا چراغ حسن حسرت عرب ہوٹل کے میر مجلس تھے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ’’الہلال‘‘ میں کام کیا تھا۔ زمیندار میں وہ ’’فکاہات‘‘ کے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھتے تھے جس کی اس زمانے میں بڑی دھوم تھی۔ عبدالمجید بھٹی کا دفتر عرب ہوٹل کے پاس ہی تھا۔ پہلے وہ بچوں کی نظمیں لکھا کرتے تھے۔ ان دنوں وہ بالغوں کے لئے نظمیں لکھنے لگے تھے۔ عرب ہوٹل کے حاضر باشوں میں انتہائی دل چسپ شخصیت باری علیگ کی تھی۔ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے انہوں نے جو کتاب لکھی وہ بے حد مشہور ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن چھپے۔ بڑے آزاد خیال اور قلندر صفت آدمی تھے۔ پنجابی زبان کے عاشق تھے۔ ایک بار کہنے لگے…’’جب کوئی پنجابی اردو بولتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے جھوٹ بول رہا ہو۔‘‘

    ’’خواجہ دل محمد ایم اے، ڈاکٹر تاثیر، عابد علی عابد، حفیظ جالندھری، چراغ حسن حسرت، پروفیسر فیاض محمود، باری علیگ، عبدالمجید سالک اور عبدالمجید بھٹی ان لوگوں کے دم قدم سے عرب ہوٹل میں گہما گہمی رہتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ عرب ہوٹل سے ایک ایک کرکے جدا ہوتے گئے۔ آخر میں صرف چراغ حسن حسرت صاحب اور باری علیگ عرب ہوٹل کی رونقیں بحال کرنے کے لیے رہ گئے۔ حسرت صاحب فوجی اخبار کی ادارت سنبھالنے کے لیے دلّی چلے گئے تو عرب ہوٹل کی وہ گہما گہمی ختم ہو گئی جو لاہور کے ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے دم سے قائم تھی۔‘‘

    عرب ہوٹل سے میرا رابطہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ حسرت صاحب چلے گئے تو میں نے بھی عرب ہوٹل میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کر دیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔

    (اے حمید کے قلم سے)

  • فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہو سکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کررہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے، کہیں نہ تھے۔ کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثّار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ اس لیے کہ اُن کی اردو دانی ہی ایک حد تک اُن کے لیے فارسی دانی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں میں اب تک خواجہ عزیز الدین صاحب کا ایسا محققِ فارسی اگلی بزمِ سخن کے یاد دلانے کو پڑا ہوا ہے جو اپنے کمال کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں کمیاب ہیں۔ اور پرانے سن رسیدہ ہندوؤں میں بھی متعدد فارسی کے اسکالر ملیں گے جن کا ایک نمونہ سندیلہ کے راجہ درگا پرشاد صاحب ہیں۔ جن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا۔ زمین و آسمان بدل گئے۔ آب و ہوا بدل گئی۔ مگر وہ آج تک وہی ہیں۔ فارسی دانی کی داد دینے اور لینے کو موجود ہیں۔ اور اگلی تاریخ کے ایک کرم خوردہ ورق کی طرح چومنے چاٹنے اور آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں۔”

    (از قلم عبدالحلیم شرر لکھنوی)

  • برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برطانوی راج میں مضحکہ خیز مقدمات اور سزائیں

    برصغیر میں تجارت کا پروانہ لے کر آنے والے انگریزوں نے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے اپنے قدم جمائے اور ہندوستان میں برطانوی راج قائم ہوگیا تو انتظامی امور کے ساتھ قانون سازی اور عدالتی نظام بھی متعارف کروایا۔ انگریزی قانون کے ذریعے بااختیار افسر ہندوستانیوں‌ کی تذلیل کر کے خوش ہوتے تھے۔

    غدر کے بعد تو ہر انگریز افسر کو اختیار تھا اور وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا حکم یا پھانسی دینے یا جیل بھیجنے کا حکم دے دیتا تھا۔ باغیوں ہی نہیں عام شہریوں کا بھی قتل کیا گیا اور معمولی جرم پر یا کسی انگریز افسر کی مرضی کے خلاف کام ہوجانے پر سزا سنا دی جاتی تھی۔

    یہاں ہم برطانوی راج میں جرم و سزا سے متعلق کتاب تاریخِ جرم و سزا سے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ اس کے مصنّف امداد صابری ہیں‌ جن کی یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

    امداد صابری ہندوستان کے نام ور صحافی اور مجاہدِ آزادی تھے جنھیں تحریر اور تقریر میں کمال حاصل تھا۔ انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو ادب اور تاریخ کے موضوع پر بہت مفید اور لائقِ مطالعہ ہیں۔ ان کی کتاب سے اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    طریقۂ عدل
    اس زمانہ میں عدل کا طریقۂ کار انتہائی مہمل اور طفلانہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیسٹنگز نے عدالتوں کا بندوبست کیا۔ اور انگریزی عدالتوں کی بنیاد رکھی۔اور اس نے انگریزی کلکٹروں کے ساتھ پنڈت اور مولوی مقرر کئے جو ان کو دھرم شاستر اور فقہ کے اصول سمجھاتے تھے۔ اس نے کلکتہ میں اپیل کی دو عدالتیں بھی قائم کیں جو دیوانی اور فوجداری مقدمات علیحدہ علیحدہ فیصلہ کرتی تھیں۔ قانون کی ایک کتاب بنائی گئی تھی تاکہ عوام قانون سے واقف ہو جائیں۔

    بنگال کے پہلے سپرنٹنڈنٹ کی ڈائری
    انگریزی قانون پر شروع میں جس طرح عمل درآمد ہوا وہ بہت بھونڈا اور مضحکہ خیز تھا جو شاید کسی بھی حکومت کے دور میں اس بے ڈھنگے طریقے سے شروع نہ کیا گیا ہوگا۔ جب سپریم کورٹ (موجودہ ہائیکورٹ ) قائم ہوا اور اس کی حیثیت یہ تھی کہ چند زیورات تک چوری کے مقدمات ابتدائی سماعت کے لئے وہاں پیش کئے جاتے تھے۔ اور سزائے تازیانہ، تشہیر کرنے اور جوتوں کی سزا دینے اور دریا پار کرنے کا اختیار بطور خود سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تھا۔

    اگر آپ کو وہ مضحکہ خیز منظر دیکھنا ہے تو آئیے کلکتہ کے پہلے سپرنٹنڈنٹ پولیس پلیڈل کی ڈائری کے چند اوراق ملاحظہ کیجئے۔

    بھگوڑے ملازم کی سزا
    4 جون 1775، آج میں ناشتہ سے فارغ ہو کر اپنے برآمدہ میں بیٹھا ہوا حقہ پی رہا تھا کہ مسٹر جان نگول کے ملازم نے رپورٹ کی کہ اس کے آقا کا باورچی رنجن کام چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اور اس کی جگہ جو نیا باورچی رکھا گیا ہے اسے رنجن نے مارا۔ میں نے رنجن کو بلوایا۔ معلوم ہوا وہ پرانا مفسد ہے اور ایسی حرکتوں کی بناء پر اس کا کان بھی کاٹا جا چکا ہے۔ میں نے حکم دیا کہ رنجن کو دس بید لگائے جائیں اور اسے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔

    دھوکہ دہی کی سزا
    کرنل واٹسن نے رپورٹ کی کہ رام سنگھ نے انہیں دھوکہ دیا اور اپنے کو بڑھئی ظاہر کر کے تنخواہ وصول کی حالانکہ وہ حجام ہے اور بڑھئی کے کام سے بالکل واقف نہیں۔ حکم ہوا کہ رام سنگھ کے پندرہ بید لگائے جائیں اور قلی بازار میں کرنل واٹسن کی کوٹھی تک اسے تشہیر کیا جائے۔

    مرمت حسبِ وعدہ نہ کرانے/ لونڈی کے فرار پر سزا
    کپتان اسکاٹ نے شکایت کی کہ بنارسی نے ان کی گاڑی کی مرمت حسبِ وعدہ نہیں کی، حکم دیا گیا کہ بنارسی کے دس جوتے لگائے جائیں۔ اینڈرسن پگی نے رپورٹ کی کہ ان کی لونڈی بھاگ گئی لیکن اسے چوکیدار نے گرفتار کر لیا۔ لونڈی کے دس بید لگائے گئے اور اسے مسٹر اینڈرسن کے حوالے کر دیا گیا۔

    چوری کی سزا
    جیکب جوزف نے شکایت کی کہ اس کے باورچی متھول نے چند برتن چرائے۔ میں نے حکم دیا کہ ملازم کو ہرنگ باڑی میں اس وقت تک قید رکھا جائے جب تک وہ برتن واپس نہ کر دے۔ رام ہری نے فریاد کی کہ رام گوپال اس کے بچے کی گردن سے تلسی دانہ اتار کر بھاگ رہا تھا اسے موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ حکم ہوا کہ مجرم کو پانچ جوتے لگا کر اسے سارے شہر میں تشہیر کیا جائے۔

    سرکاری حکم نہ ماننے کی سزا
    آٹھویں ڈویژن کے سپاہی بائیکس نے ایک لڑکے کے مولیہ کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کیا۔ وہ کئی بار چوری کے الزام میں سزا یاب ہو چکا تھا اور آخری مرتبہ میں نے حکم دیا تھا کہ اسے پندرہ بید لگا کر ہمیشہ کے لئے دریائے ہگلی کے دوسری جانب نکال دیا جائے۔ لڑکا مفسد ہے، میرے حکم کے خلاف دریا کو عبور کیا پھر کلکتہ آیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ میں نے اسے بیس بیدوں کی سزا دی اور دریا پار کرا دیا۔

    راہ گیروں کو چھیڑنے کی سزا
    مسٹر نوملے نے اپنے حقہ بردار کلو کی رپورٹ کی کہ وہ سڑک پر راہگیروں کو چھیڑتا ہے، حکم ہوا پانچ جوتے لگائے جائیں۔

    غلط رپورٹ کرنے کی سزا
    باقر محمد نے مسماۃ رام رجنی کے خلاف شکایت کی کہ اس نے مستغیث کی بیوی کو مغلط گالیاں دی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ باقر محمد کی بیوی بھی مسماۃ رام رجنی سے کم بد مزاج اور جنگجو نہیں ہے۔ دونوں عورتیں آپس میں گالی گلوچ کرتی رہتی ہیں۔ چونکہ اس فضول شکایت سے میرا وقت خراب ہوا تھا اس لئے باقر محمد اور رام رجنی دونوں کو پانچ پانچ روپیہ جرمانہ کی سزا دی اور کہہ دیا کہ آئندہ اس قسم کی شکایت میرے کانوں تک پہنچی تو رام رجنی اور محمد باقر کی بیوی دونوں کو دریا پار کرا دیا جائے گا۔

    چور کی تشہیر/ کام چور کو جوتوں کی سزا
    مسٹر کینڈل نے اپنی مہترانی کے خلاف شکایت کی کہ وہ آبدار خانہ کی بوتلیں چرا کر ایک کالے (یعنی ہندوستانی) دکاندار بکتا رام کے ہاتھ فروخت کرتی ہے۔ بکتا رام نے اقبال جرم بھی کیا۔ نیٹو (Native) بنیوں کی شرارت کا سدباب کرنے کے لئے حکم دیا گیا کہ بیس بید بکتا رام کے لگائے جائیں۔ اور دس بید مہترانی کے اور دونوں کو پنجرے میں بٹھا کر تشہیر کی جائے۔

    کمپنی کے کلرک مسٹر پیسیج نے شکایت کی کہ خدا بخش اور پیاری نے ان سے پیشگی تنخواہ لے لی ہے مگر دونوں کام نہیں کرتے۔ دونوں کو دس دس جوتوں کی سزا دی گئی۔

    چاول کے عمل سے ملزم کی گرفتاری
    مسٹر ولنکسن کے بنگلہ میں چوری ہوئی، انہوں نے عمل کے ذریعے چور پکڑنے کے لئے ایک ملّا کی خدمت حاصل کی۔ ملّا نے ان کے ملازموں کو چاول چبانے کے لئے دیے۔ ولنکسن کی دائی گوری کے منہ سے سوکھے چاول نکلے اور اس پر شبہ ہوا۔ دائی نے ملّا کو بطور رشوت دس روپے نقد دیے کہ وہ مسٹر ولنکسن سے اس کی چوری کا ذکر نہ کرے۔ مسٹر ولنکسن کو خبر ہو گئی۔ انہوں نے مجھ سے رپورٹ کی۔ حکم دیا گیا کہ دائی کو تفتیش کے لئے تیسرے ڈویژن کے تھانہ میں بند رکھا جائے۔

    جوتا لگانا قانونی سزا تھی
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری کے مطالعہ سے ہندوستان میں برطانوی انصاف کی ابتدائی انگریز پرستی کی قلعی کھل جاتی ہے کہ وہ کس طرح رعایا پر انگریزوں کا رعب جمانے کے لئے صرف حسبِ وعدہ مرمت نہ ہونے پر جوتے پڑواتا ہے۔ اس ڈائری سے ان باتوں پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہندوستانی امراء کس طرح انگریزوں کے جلو میں بھی مشعلچی ہوتے تھے۔ اور انگریز حقہ پیتے تھے۔ لونڈی غلام رکھنے کا عام رواج تھا۔ انگریزوں کے قبضہ میں بھی لونڈیاں تھیں۔ اگر کوئی لونڈی اپنے مالک کے ظلم و ستم سے بھاگتی تو اسے سزائے تازیانہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔جوتے لگانا ایک قانونی سزا تھی۔ برطانوی نظم و نسق سے پیشترعادی مجرموں کا ایک کان کاٹا جاتا تھا۔

    مولویوں کے عملیات کا زور
    اس زمانہ کے انگریز بھی مولویوں کے عملیات کے قائل تھے۔ اور چوری تک کے معاملات میں مولویوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ اور وہ اٹھارہویں صدی میں مشتبہ چوروں کا پتہ چاول چبوا کر لگاتے تھے۔

    سزائے تشہیر کا طریقہ
    مسٹر پلیڈل کی ڈائری میں بعض مجرموں کے لئے جو سزائے تشہیر تجویز کی ہے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مجرم کو بڑے سے چوبی پنجرے میں بند کر دیتے تھے۔ اور پنجرہ ایک خاص قسم کی بنی ہوئی اونچی گاڑی کے دھرے سے (جس کے پہیے پندرہ سولہ فٹ بلند ہوتے تھے) لٹکا دیا جاتا تھا۔ پولیس کے سپاہی گاڑی کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک شخص ڈھول بجا کر مجرم کے نام، جرم اور نوعیتِ جرم کی تشہیر کرتا تھا۔

  • عشق انسان کی ضرورت ہے!

    عشق انسان کی ضرورت ہے!

    محبّت کا جذبہ کسی ایک مخلوق یا شے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انسانوں کی اس دنیا کی بات ہو تو بالخصوص ادیب اور شعرا نے عشق اور محبّت کو اپنی تخلیقات اور تحریروں کا خاص موضوع بنایا ہے۔

    قابل اجمیری کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا
    تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
    عشق انسان کی ضرورت ہے

    ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد عشقِ مجازی اور عشقِ‌ حقیقی کو کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں:

    اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشقِ مجازی اس کی شاخ ہے۔

    جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔

    (کتاب زاویہ، باب: محبت کی حقیقت سے اقتباس)

  • بنّوٹ: عجیب و غریب فن اور دو حیرت انگیز واقعات

    بنّوٹ: عجیب و غریب فن اور دو حیرت انگیز واقعات

    کھیل کے میدان میں چُستی پھرتی دکھانا اور اکھاڑوں میں جسمانی طاقت کا مظاہرہ اور زور آزمائی شاید اُس زمانے کی باتیں‌ ہیں‌ جب غذا اور ہماری خوراک خالص اور مقوّی ہُوا کرتی تھی۔ انسان کسرت اور صحت مند مشاغل کے عادی تھے۔ ایسے طاقت وَر لوگ کسی حملہ آور یا لٹیرے کا مقابلہ بھی ڈٹ کر کیا کرتے تھے۔

    آج کا دور کُشتی، ملاکھڑے، پنجہ آزمائی کا نہیں‌، لیکن ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ کھیل اور دیسی ہتھیاروں کا استعمال باقاعدہ فن کا درجہ رکھتا تھا۔ پٹے بازی اور بنّوٹ بھی ایک قسم کے ہتھیار تھے۔ یہاں ہم تقسیمِ ہند سے کئی سال قبل دلّی کے ماہر بنّوٹ باز اور طاقت وَر لٹیرے سے متعلق دو حیران کن واقعات نقل کررہے ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جنھیں‌ پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "پٹے بازی اور بنّوٹ یہ دونوں فن حقیقت میں عجیب و غریب ہیں۔ پٹے بازی کے ایک ادنیٰ درجے کا فن ہے مگر بنّوٹ اس کے مقابلے میں میں بہت اعلٰی درجے کا ہے۔ ایک شخص جو عمدہ بنّوٹ جانتا ہے دو، چار نہیں بلکہ دس بیس آدمیوں کے قابو میں نہیں آ سکتا!”

    "ان دونوں فنون کے استاد دہلی میں میں بکثرت موجود تھے مگر اب ان کا بالکل کال ہے۔ سارے شہر میں اس فن کے شاید دو ایک استاد ہوں تو ہوں۔”

    "1881ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جس پر خون کا الزام تھا اور بڑا قوی ہیکل اور زبردست جوان تھا، وہ یکایک دہلی پولیس کے ہاتھ سے ہتھکڑیاں توڑ کر نکل گیا اور ایک سپاہی کی تلوار چھین کر عدالت سے نیچے اتر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ عدالت میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہر چند اس سے تلوار چھیننے کی کوشش کی گئی مگر کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ دلیری سے اس کے پاس جاتا اور اس سے تلوار چھین لیتا۔ وہ برابر آواز پر آواز دے رہا تھا کہ کسی کو جرأت ہو تو میرے سامنے آئے۔”

    "آخر یہ بات طے ہوئی کہ اگر یہ آسانی کے ساتھ تلوار نہ دے تو اسے گولی مار دی جائے کہ اتنے میں ایک میر صاحب جو بہت ہی کمزور ہاتھ پیر کے، پستہ قامت تھے اور غالباً دہلی کے رجسٹری کے محکمے میں کام کرتے تھے اپنے دفتر سے باہر نکل آئے اور حکام سے یہ کہا کہ اگر حکم ہو تو میں اسے زندہ گرفتار کر لوں۔ یہ سن کر ان کو بڑا تعجب ہوا۔ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ واقعی اس سے تلوار چھین لیں گے؟ انھوں نے کہا یہ معمولی سی بات ہے۔ میں اس ایک سے نہیں بلکہ کئی ایک آدمیوں سے تلوار چھین سکتا ہوں۔ چنانچہ انہیں حکم ملا۔ انھوں نے ایک پیسہ اپنے رومال میں باندھا اور اس کے آگے گئے۔ اس نے ہنس کر کہا کہ آپ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالتے ہیں، سامنے سے ہٹ جائیے ورنہ میں تلوار سے آپ کی گردن اڑا دوں گا۔ میر صاحب نے ہنس کر کہا کہ بھائی تیری خیر اسی میں ہے کہ تلوار دے دے، ورنہ تجھے سخت نقصان پہنچے گا۔ وہ یہ سنتے ہی لال پیلا ہو گیا اور میر صاحب پر تلوار لے کے شیر کی طرح جھپٹا۔ میر صاحب نے پینترا کاٹ کے اس کی کلائی پر اس زور سے رومال میں بندھا ہوا ہوا پیسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے کئی گز آگے جا پڑی۔ چوںکہ وہ پیسہ کلائی کی رگ پر لگا تھا، خود ایسا چکرا کے گرا کہ کئی منٹ تک اسے ہوش نہ آیا۔ آخر وہ زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اور میر صاحب کی بڑی واہ واہ ہوئی۔”

    "اسی طرح ایک ڈاکو جس کا قد آٹھ فٹ سے کم نہ تھا اور جو ایک دیو معلوم ہوتا تھا، جس کی قوّت یہاں تک تھی کہ موٹی موٹی زنجیریں بہت آسانی سے توڑ دیا کرتا تھا۔ جس کے آگے آٹھ دس من کا بوجھ اٹھا لینا ایک معمولی بات تھی جو تنہا ڈاکہ مارا کرتا تھا۔ اپنی حسبِ عادت وہ نجف گڑھ کے ایک سپاہی جو انگریزی پلٹن میں ملازم تھا، کے گھر میں آیا۔ اس ڈاکو کی یہ عادت تھی کہ وہ گھر میں گھس کے سارا سامان نہایت اطمینان کے ساتھ باندھ لیتا تھا اور جب چلنے لگتا تھا تو گھر والوں کو جگا کے آگاہ کر دیتا تھا کہ اگر تم سے روکا جائے تو مجھ کو روکو، میں تمہارا سامان لے کے جاتا ہوں۔”

    "اتفاق سے سپاہی کی بیوی اور اس کی بڑھیا ساس کے سوا مکان میں کوئی نہ تھا، اس نے حسبِ عادت ان عورتوں کو جگایا اور کہا میں سامان لے کے جاتا ہوں۔ سپاہی کی بیوی پہلے ہی سے جاگ رہی تھی، اور یہ سارا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ڈاکو کی آواز سن کر صرف اتنا کہا کہا کہ اچھا تُو میرے گھر کا سامان لے جا رہا ہے، لے جا۔ میں عورت ذات ہوں اور ایک میری بڑھیا ماں ہے۔ اس وقت اگر میرا شوہر ہوتا اور تُو اس کے آگے سے سامان لے جاتا تو میں جانتی کہ تُو بڑا ڈاکو ہے۔ یہ سن کر ڈاکو نے ایک بڑا قہقہہ لگایا اور اس سے دریافت کیا کہ تیرا شوہر کب آئے گا۔ اس نے کہا کہ وہ جلد آنے والا ہے، اس کی رخصت منظور ہو چکی ہے ہے۔ وہ غالباً ہفتہ عشرے میں یہاں پہنچ جائے گا، اس پر ڈاکو بولا کہ ہم یہ سامان یہیں چھوڑ جاتے ہیں، جب تیرا شوہر آئے گا اسی وقت آ کے لے جائیں گے۔ یہ کہہ کر ڈاکو چلا گیا۔ کوئی پندرہ دن کے بعد وہ دیو نژاد ڈاکو جس کے ہاتھ میں ایک من کے وزن کا لوہے کا ڈنڈا رہتا تھا۔ پھر اس سپاہی کے مکان میں آیا۔ اسی طرح بے تکلفی سے اس نے سارا سامان باندھا اور جب اپنا کام کر چکا تو اس نے سپاہی کو جگایا اور کہا میں یہ سامان لے جاتا ہوں۔ سپاہی اٹھ کھڑا ہوا، بانس کی ایک معمولی لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اور اس نے ڈاکو سے کہا تیری اسی میں خیر ہے کہ تو یہ کُل سامان جہاں سے سمیٹا ہے وہیں رکھ دے اور اپنی جان بچا کے چلا جا۔”

    "دیو نژاد ڈاکو بہت حقارت سے خندہ زن ہوا اور کہا کہ ڈنڈا جو میرے ہاتھ میں ہے اتنے وزن کا ہے کہ تو اسے اٹھا نہیں سکتا۔ تین ڈنڈے سے ایک زبردست بھینسے اور سانڈ کو بٹھا دیتا ہوں۔ تیری عورت حقیقت میں بڑی دلیر ہے کہ اس نے مجھ سے دو بہ دو باتیں کی تھیں۔ ایسی عورت پر مجھے رحم کھانا چاہیے۔ تیری اس جرأت سے یقینا وہ بیوہ ہو جائے گی اور تو مفت میں جان دے دے گا۔ میرے ایک ہاتھ کا بھی تُو نہیں ہے۔ بس تُو جا اور اپنی بیوی کی جوانی پر رحم کھا کے اپنے پلنگ پر سو جا۔”

    "سپاہی نے ایک قہقہہ مارا اور پھر جھلا کے کہا کہ اس بیہودگی سے کوئی نتیجہ نہیں، اگر تو اپنی جان کی خیر چاہتا ہے تو اس سامان کو کھول اور جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دے۔ ڈاکو کو سپاہی کی یہ بد زبانی اچھی نہ معلوم ہوئی۔ اس نے فوراً اپنے لوہے کا ڈنڈا رسید کیا۔ سپاہی چونکہ ہوشیار کھڑا تھا اس کا ہاتھ خالی دے کے اور بڑی دلیری سے للکار کے کہا کہ او نامراد! اگر تجھ میں میں جرأت ہے تو اور دل کا حوصلہ نکال لے۔ چنانچہ ڈاکو نے غصے میں آ کے ڈنڈا پھرا کے مارا، مگر وہ بھی خالی گیا۔ سپاہی نے اس پر کہا کہ لے اب سنبھل، تیرے دو وار ہو چکے ہیں، تیسرا وار میرا ہے۔ یہ کہہ کر کچھ ایسی لکڑی اس کی شہ رگ پر ماری کہ وہ دیو چکرا کے گر پڑا۔ سپاہی اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور زور سے ٹھوکر مار کے کہا، بس اس برتے پر اتنا پھول رہا تھا، ایک معمولی بانس کی لکڑی بھی نہ کھا سکا۔ چنانچہ بڑی دیر میں اسے ہوش آیا، مگر اس میں کسی قسم کی ہمت نہ رہی۔ وہ سپاہی کے پیروں پر گر پڑا اور کہا مجھے امان دو، میں تمہارا مدتُ العمر خادم رہوں گا۔”

    "یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جو لوگ بنّوٹ کے فن سے ناواقف ہیں وہ ممکن ہے کہ اسے کہانی سمجھیں یا مبالغہ خیال کریں، مگر فی الواقع جنہوں نے بنّوٹ کے استادوں کو دیکھا ہے یا کم و بیش اس فن کی خود ورزش کر چکے ہیں، وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک صاحبِ فن کس آسانی سے دس بیس آدمیوں پر غالب آ سکتا ہے۔ دہلی میں 1857ء سے پہلے اور بعد تک لکڑی اور بنّوٹ کے علیحدہ علیحدہ اکھاڑے تھے۔ شرفا اور امرا کے بچّے اس کی باقاعدہ تعلیم پاتے تھے۔ اسی طرح پنجہ اور کلائی کے استاد دہلی میں ایسے موجود تھے جن کی نظیر اب نہیں ملتی۔”

    (دہلی کی یادگار ہستیاں از امداد صابری)