Tag: اردو اقتباسات

  • مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا

    مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا

    طمانیت نہ کہ انبساط’ طمانیت، نفسِ مطمئنہ، ایک اندازِ نظر، ایک اساسی اندازِ نظر جسے اپنا کر عین ممکن ہے آدمی پر کبھی کوئی آنچ نہ آ سکے۔

    آدمی اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور پھر اسے دوبارہ حاصل کر لیتا ہے۔ اسے پتا ہے کہ دنیا اسی کا نام ہے۔ وہ اپنی غلطی سے یا کسی اور کی غلطی سے ٹھوکر کھاتا ہے اور گر جاتا ہے اور پھر خدا یا دنیا کو قصور وار ٹھہرائے بغیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

    وہ اپنی بدولت یا دوسروں کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے، لیکن اپنے حال زار پر قابو پا لیتا ہے۔مایوسیوں کو پی جاتا ہے اور زیادتیوں کو برداشت کرتا ہے، معمولی حیثیت کے لوگوں کی معمولی باتوں کا چڑھتا دھارا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور وہ اپنے میں ان سب باتوں کی اہلیت طیش میں آئے بغیر دل سخت کئے بغیر پیدا کر لیتا ہے۔

    اس طمانیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر کسی کو اور ہر بات کو شفقت سے کام لے کر معاف کر دیا جائے۔ اس سے یہ مراد بھی نہیں کہ آدمی چپ چاپ مار کھاتا رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ طمانیت اس کے حق میں نہیں کہ آدمی آنکھیں میچ کر بیٹھا رہے۔ اس کے برعکس اس اندازِ نظر کو اپنانے والا آدمی ہر چیز پر نظر رکھتا ہے۔ انسانیت کی طفلانہ غیر اصلاح پذیری اور اس کی غفلت۔ ہولناکیوں کی تہی مغزانہ تکرار اور مدتوں کے گلے سڑے تصورات کے احیا کو تو بالخصوص کبھی اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ خود کو کھیل سے الگ تھلگ کیے بغیر ہی وہ اس کی تہ تک پہنچ جاتا ہے، وہ اعتماد کرتا ہے لیکن حزم کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ محبت کرتا ہے لیکن اس کی ذات کا ایک حصہ دیکھنے بھالنے کی غرض سے آزاد رہتا ہے۔ وہ زیادہ کی توقع نہیں رکھتا اور غیر مترقبہ یافت کو سوغات سمجھتا ہے۔ اس کے دوستانہ رویے میں مسکینی کا شائبہ نہیں ہوتا۔ وہ نہ کسی پر مربیانہ انداز میں دستِ شفقت رکھتا ہے، نہ گھٹنوں کے بل جُھک جانے کے لئے آمادہ رہتا ہے۔ اس کی طمانیت کو خدا رسیدہ اولیاء کے مطمئن توکل اور رنج و غم کے اندر مال سے قطعاً کوئی سروکار نہیں۔ اس طمانیت کا جواز بس اسی دنیا تک ہے اور اسے نہ یہاں کوئی جزا ملے گی نہ اگلے جہاں میں۔ وہ اپنے دوستوں پر اسی طرح بھروسا کرتا ہے جس طرح وہ اس پر بھروسا کرتے ہیں، لیکن کبھی ان کے بھید لینے کی کوشش نہیں کرتا اور نہ کبھی بعض زخموں کے بارے میں کسی قسم کی پوچھ گچھ کرتا ہے، وہ پیچھے پڑ جانے والوں میں سے نہیں۔

    اس طمانیت کی بدولت یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ کسی بھی لحاظ سے حتیٰ کہ ایسے دور میں بھی جو اپنی تیغ بکف عدم رواداری اور بھانت بھانت کی دہشت گردیوں کے لئے بدنام ہے، عقائد کے معاملے میں خود رائے ہو سکے۔ اسے کسی قسم کی قوم پرستی کی فرصت نہیں، خواہ وہ دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہو یا بائیں سے اور یوں وہ آدمی اپنے سماج بدر ہونے کا اعلان کرتا ہے۔

    وہ اپنے زمانے کی تمام نام نہاد، سیاہ و سفید نو و کہن اساطیر کی تہ کو پہنچ جاتا ہے۔ مطمئن آدمی شور نہیں مچاتا۔ وہ خواہ مخواہ بول بول کر خود کو ہلکان کرنے کا قائل نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں وہ ان گیتوں کو گانے میں بھی پس و پیش کرتا ہے جنہیں عوام النّاس گاتے پھر رہے ہوں۔ وہ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ ایک بار اس نے ایسا کیا تھا اور بڑا نقصان اٹھایا تھا۔ وہ قدم سے قدم ملا کر جو چلا تو لاشوں سے بھرے ہوئے ایک گڑھے میں جا پہنچنے سے بال بال بچا۔ اسے یوٹو پیاﺅں پر ایمان لانے سے انکار ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ حرارتِ ایمانی سے محروم ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ انسانیت کس قدر مائل بہ بدی ہے اور وہ اس کی طرف سے بدگمان ہے۔ وہ لمبے چوڑے وعدوں کے جھانسوں میں نہیں آتا۔

    اصل نکتہ یہی ہے۔ وہ دھوکا نہیں کھاتا۔ میں مکرر کہتا ہوں جو آدمی طمانیت کے اساسی اندازِ نظر کا حامل ہو، وہ کھیل سے الگ تھلگ رہے بغیر اس کی تہ کو پہنچ جاتا ہے۔ اس پر کوئی فریب کارگر نہیں ہوتا۔ وہ کھیل میں حصّہ لیتا ہے، لیکن اس قدر اندھا دھند طریقے سے نہیں کہ اسی میں مست ہو کر رہ جائے۔ وہ شراکت اور لاتعلقی کے مابین آزادی سے حرکت کرتا رہتا ہے اور ان دونوں کیفیتوں کو جدا رکھنے والی لکیروں کا خود تعین کرتا ہے۔

    (والٹر باؤیر، مترجم محمد سلیم الرحمٰن)

  • ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    وطن عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جان و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومتِ وقت اور برسرِ اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحتِ قلب اور روحتِ روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا، ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔

    مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔

    شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔“

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔ حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • بھرپور زندگی کا راز

    محبت فطری و بنیادی چیز ہے۔ نفرت… انقطاعِ محبت کا نام ہے، جو کسی حادثہ و تصادم کا نتیجہ ہوتی ہے۔

    محبت تمام نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام جذباتِ عالیہ کی خالق ہے، اسی سے آواز میں لوچ، بات میں شیرینی، چہرے پر حُسن، رفتار میں انکسار اور کردار میں وسعت آتی ہے۔

    دوسری طرف غصہ، نفرت، انتقام اور حسد دنیائے دل کو ویران اور چہرے کو بے نور اور خوف ناک بنا دیتے ہیں۔ حاسد اور سازشی کی رفتار تک نا ہموار ہو جاتی ہے، وہ ہر طرف نفرت پھیلاتا ہے۔ اہلِ محبّت، نفرت کا جواب محبت سے دیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں: ”دنیا سے بہترین سلوک کرو اور جواباً تم سے بہترین سلوک کیا جائے گا۔“

    جن لوگوں کے دل میں اللہ بس جاتا ہے ان کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ ہر شخص سے محبت کرتے ہیں۔ خطا کاروں کی خطائیں بخشتے ہیں اور گالیوں کے جواب میں دعائیں دیتے ہیں۔ کسی مفکر کا قول ہے: ”نفرت سے نفرت ختم نہیں ہو سکتی، اس پر محبت سے غلبہ حاصل کرو، دنیا کو محبت کرنا سکھاؤ اور جنت اپنی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یہیں وارد ہو جائے گی۔ ترکِ محبت موت ہے، جو شخص سب سے محبت کرتا ہے اس کی زندگی بھرپور اور کامل ہے اور اس کی زیبائی و توانائی میں سدا اضافہ ہوتا رہے گا۔“

    محبت کا سب بڑا وصف انکسار ہے۔ دوسروں سے نفرت کرنے والے کرخت، مغرور، تند مزاج اور بدمزاج ہوتے ہیں اور اہلِ محبت بول میں میٹھے، چال میں دھیمے اور مزاج کے نرم ہوتے ہیں۔ اس میں قطعاً کوئی کلام نہیں کہ غرور حماقت ہے اور تواضع بہت بڑی دانش۔

    کسی دانا کا قول ہے: ”اگر دانش حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکسار پیدا کرو اور اگر حاصل کر چکے تو زیادہ خاکسار بنو۔“

    (’مَن کی دنیا‘ از ڈاکٹر غلام جیلانی برق سے اقتباس)

  • بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا "ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9 بجے سے 12 تک بلا روک ٹوک تشریف لا سکتے ہیں۔”

    ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھے زمین ہے جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں، تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

    اس کی درد ناک بپتا سن کر میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60۔70 میل دور اس گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔

    ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شر انگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے جز دان اٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا۔

    "حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں۔”

    گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔” ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر اٹھا لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی اراضی کا انتقال کر دیا۔

    میں نے بڑھیا سے کہا۔ "لو بی بی تمہارا کام ہو گیا، اب خوش رہو۔” بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا اور پاس کھڑے نمبردار سے کہا۔ "سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟”

    نمبر دار نے تصدیق کی تو بڑھیا کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے، اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیے۔

    اس ادائے معصومانہ اور محجوبانہ پر مجھے بے اختیار رونا آ گیا۔ کئی دوسرے لوگ بھی آب دیدہ ہو گئے۔ یہ سولہ آنے واحد "رشوت” ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظروں میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔

    میں نے ان آنوں کو آج تک خرچ نہیں کیا کیوں کہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے مالا مال کر دیا۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے انتخاب)

  • لالو کھیت اور مرغیوں کا ٹاپا

    لالو کھیت اور مرغیوں کا ٹاپا

    ’’پتہ نہیں یہ خواجہ معین الدین کے ڈرامہ ”لال قلعہ سے لالو کھیت تک“ کی برکت تھی یا اس علاقہ میں بسنے والے مہاجروں کا کمال تھا۔ بہرحال لالو کھیت نے پاکستان کے ابتدائی برسوں میں بہت شہرت کمائی۔

    خیر، لاہور میں ہمارا اپنا ایک لالو کھیت تھا۔ لالو کھیت تو لالو کھیت نہیں رہا، لیاقت آباد بن گیا۔ مگر کرشن نگر بدستور کرشن نگر چلا آتا ہے۔ اسے اسلام پورہ بنانے کی کوششیں ابھی تک تو بار آور ہوئی نہیں ہیں۔ میں نے پاکستان میں قدم رکھنے کے بعد یہیں آنکھ کھولی تھی۔

    خوب جگہ تھی۔ اجڑی اجڑی اور ساتھ ہی میں اتنی آباد کہ بازار سے گزرتے ہوئے کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ یہ سب کھوے پناہ گیروں کے تھے جو رفتہ رفتہ پناہ گیر سے مہاجر بن گئے۔ انہیں پناہ گیروں میں وہ ایک بڑھیا بھی تھی جس کے منہ سے نکلا ہوا معصوم سا فقرہ عسکری صاحب نے لپک لیا اور اس میں سے پاکستان کا فلسفہ کشید کر لیا۔ وہ ہمارے آگے آگے پناہ گیروں کی ایک ٹولی میں گھری چل رہی تھی اور اپنی رو میں بول رہی تھی۔ کہنے لگی اے بھیا ملک ولک کیا ہے۔ بس بچارے مسلمانوں نے لشٹم پشٹم ایک کچا گھر کھڑا کر لیا ہے۔ چلو سر چھپانے کو ایک کونا تو مل گیا۔

    اسی بازار کے ایک نکڑ پہ ایک دکان کے تھڑے پہ ایک میر صاحب بیٹھے تھے۔ پورا نام تھا میر عترت حسین۔ مظفر نگر سے لٹ پٹ کر آئے تھے۔ مگر اس تھڑے پہ آ کر ایسے بیٹھے تھے جیسے پشتوں سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پان سگریٹ کی اس دکان پر گاہک تو کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ شعر و شاعری کا چسکا رکھنے والوں اور گپ ہانکنے والوں کی پھڑ جمی رہتی تھی۔ جب بے فکروں کا ہجوم زیادہ ہوا تو میر صاحب نے ایک اعلان نامہ لکھ کر دکان پر آویزاں کر دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہمارے حلقۂ خاص میں داخل ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔ آدمی گریجویٹ ہو، خوش شکل ہو، مذاقِ سخن رکھتا ہو، زبان صحیح بولتا ہو۔

    اس حلقۂ خاص کے رکن رکین ڈاکٹر صفدر حسین تھے کہ وہ بھی مظفر نگر ہی سے تعلق رکھتے تھے اور اس دکان سے چند قدم کے فاصلہ پر ایک مکان میں آکر بسے تھے۔ دوسرا رکن جو مجھے یاد آ رہا ہے وہ سانولی رنگت والا گورنمنٹ کالج کا ایک ایم اے کا طالب علم تھا۔ نام تھا سلیم گیلانی جو شاعری سے زیادہ موسیقی کا دلدادہ تھا۔ آگے چل کر ریڈیو پاکستان کے واسطے سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔

    تو کرشن نگر کا بازار تو بہت آباد تھا۔ مگر گلیاں اجڑی اجڑی نظر آتی تھیں۔ کتنے گھر ابھی تک بے آباد تھے۔ مکان بہت اچھے بنے ہوئے، دو دو منزلہ، سہ سہ منزلہ۔ باہر تالے پڑے ہوئے۔ اندر فرنیچر سے آراستہ۔ نقشہ بتا رہا تھا کہ یہاں کوئی فساد نہیں ہوا۔ بس ان مکانوں کے مکین اچانک یہاں سے رخصت ہوئے ہیں اور اس طرح رخصت ہوئے ہیں کہ اوپر کی منزلوں کی جو کھڑکیاں کھلی تھیں وہ کھلی ہی رہ گئیں۔ دن میں ان مکانوں پر اداسی برستی۔ رات کے اندھیرے میں وہ بھوت بن جاتے تھے۔ اور جب تیز ہوا چلتی تو کھڑکیوں کے پٹ دھاڑ دھاڑ بولتے تھے۔
    جو مکان آباد ہو گئے تھے وہ مکان اپنے مکینوں کے ساتھ گھلے ملے نظر نہیں آتے تھے۔ مکانوں کی اپنی شان، مکینوں کا اپنا رنگ۔ ایک ڈرائنگ روم کا نقشہ اب یہ تھا کہ اندر فرنیچر ایک کونے میں سمیٹ دیا گیا تھا۔ باقی جگہ میں بھوسہ بکھرا ہوا تھا۔ آگے برآمدے میں بھینس بندھی ہوئی تھی۔

    میرا عسکری صاحب کے ساتھ بسیرا تھا۔ اور عسکری صاحب نے اپنے ایک پھپھیرے ممیرے یا خلیرے بھائی کے گھر میں چھاؤنی چھائی تھی۔ یہ گھر بس واجبی واجبی تھا۔ میں نے عسکری صاحب سے کہا کہ عسکری صاحب کرشن نگر میں یار تو بڑے اچھے اچھے آراستہ و پیراستہ مکانوں میں آ کر براجمان ہوئے ہیں۔ آپ کے بھائی نے یہ کیسا مکان الاٹ کرایا تھا۔ فرنیچر کے نام یہاں تو ایک کرسی بھی نظر نہیں آ رہی۔

    کہنے لگے کہ اس مکان میں ایک ہی چیز ملی تھی وہ بھی مالک مکان آ کر لے گیا۔ میں نے پوچھا”وہ کیا چیز تھی۔“

    بولے ”تمہارے آنے سے کوئی دو تین دن پہلے ایک سکھ فوجی جیپ پر سوار پاکستانی پہرے میں یہاں آیا۔ کہا کہ ”یہ ہمارا مکان تھا۔ باقی سامان تو ہم نے سنگھوا لیا تھا۔ مگر یہاں ہماری مرغیوں کا ٹاپا رہ گیا ہے۔“

    ”مرغیوں کا ٹاپا۔“ میں نے حیران ہو کر پوچھا:

    بولا ”بات یہ ہے جی کہ ٹاپا نہ ہونے سے مرغیوں کے سلسلہ میں ہمیں بڑی پریشانی ہو رہی ہے۔ مہربانی کر کے ہمارا ٹاپا دے دیجیے۔“

    سکھ فوجی نے ٹاپا جیپ پہ رکھا اور پاکستانی سپاہیوں کے پہرے میں بحفاظت تمام…. یہاں سے لے گیا۔‘‘

    (ممتاز ادیب اور فکشن نگار انتظار حسین کی کتاب چراغوں کا دھواں سے ایک پارہ)

  • جب کراچی میں‌ اردو زبان کے ایک ممتاز شاعر کو جیل جانا پڑا…

    جب کراچی میں‌ اردو زبان کے ایک ممتاز شاعر کو جیل جانا پڑا…

    اردو کے ممتاز شاعر مرزا یگانہ ہندوستان سے پاکستان آئے اور یہاں ان کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

    وہ اپنے بیٹوں سے ملنے کے لیے عارضی پرمٹ پر کراچی آئے تھے لیکن پرمٹ کی میعاد ختم ہو جانے پر جیل ہو گئی۔ خیر کسی طرح کراچی سے دہلی بھجوا دیے گئے جس کا ذکر انہوں نے اپنے ایک خط میں کیا ہے۔ قارئین کی توجہ کے لیے اس خط سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔

    ’’بات یہ ہے کہ عارضی پر مٹ لے کر چند دنوں کے لیے وہاں ( پاکستان) گیا تھا فقط اپنے لڑکوں کو دیکھنے کے لیے۔ درمیان میں ایسے واقعات پیش آگئے کہ پرمٹ کی مدت گزر گئی اور اس طرح پاکستان سے واپس آنا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ مگر خدا بھلا کرے دو شریف النفس ہندوؤں کا جنھوں نے نہایت محنت اور ہم دردی کے ساتھ مجھے پرمٹ دلا کر تین گھنٹے کے اندر کراچی سے دہلی پہنچا دیا اور وہاں سے پھر لکھنؤ آگیا۔ اب میں بڑی خوشی سے مرنے کو تیار ہوں۔‘‘

    یگانہ کو آخری عمر میں بہت سے صدمات اُٹھانے پڑے۔ اہلِ محلّہ نے محلّے سے نکال دیا اور بیوی نے گھر سے۔ گھر چھوڑ کر ایک جھونپڑی میں رہنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس بارے میں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو لکھتے ہیں۔

    ’’تمہاری امّاں نے مجھے اتنا عاجز کیا کہ میں تنگ ہو کر پروفیسر مسعود حسن خان صاحب کے باغ میں اک حجرے میں ( آگے چھپڑ ڈال کر) جاکر ٹھہر گیا۔ اور 15 جون کو میں مسعود صاحب کے ہاں چلا گیا۔ آخر جولائی سے بارش کی شدت ہونے لگی اور یہاں طبیعت کا یہ حال کہ دو قدم چل نہیں سکتا۔ پیٹ میں سانس نہیں سماتی، گھڑی گھڑی نڈھال ہو کر پلنگ پر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ ایک بڈھا نوکر مل گیا جو خبر گیری کرتا تھا، مگر جب وہ کھانے پینے کے لیے باہر چلا جاتا تھا تو پھر میں اکیلا رہ جاتا۔ پھر خدا یاد آجاتا۔

    آس پاس کوئی نہیں، جب حالت زیادہ خراب ہو گئی تو پھر میں یہی پہلے مکان میں واپس آگیا۔ تمہاری امّاں میری اس چند روزہ زندگی سے اتنی بیزار ہیں کہ میرا ساتھ رہنا انھیں گوارا ہی نہیں۔ تم یہاں کیوں آئے، میرے ٹھکانے پر کیوں آئے، جب جانتے تھے کہ میں یہاں رہتی تو کیوں آئے۔۔۔۔ دوبارہ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی آئیں۔ خیر اب شہر میں سجاد حسین کی بیوی کراچی جانے لگیں تو تمہاری اماں بھی اُٹھ کھڑی ہوئیں اور ہمیشہ کے لیے مجھے تنہا چھوڑ گئیں۔ اس سِن میں ایسے مریض کو اس طرح مارنا چاہا کہ پانی دینے والا بھی نہ ہو۔ بار بار فرماتی تھیں کہ اب مزہ مل جائے گا تنہائی کا، نہایت کرب و ایذا میں ہوں۔‘‘

    یگانہؔ کلاسیکی غزل گو شاعر تھے۔ انہوں نے غزل کے موضوعات کے دائرے کو ایک نئی جہت اور بلندی عطا کی تھی، لیکن ان کی ذات اور نجی زندگی اپنوں‌ اور غیروں کے برے سلوک اور خراب رویّوں کی وجہ سے تکیف اور صدمات سہتے گزری جس کا اندازہ ان کے تحریر کردہ خط سے لگایا جاسکتا ہے۔

  • انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا۔

    آدمی کی پوری ذات محبت کے واسطے سے بروئے کار آتی ہے نہ کہ دوستی کے حوالے سے اور جن کی نفرت عمیق نہیں ہوتی ان کی محبت بھی عمیق نہیں ہوتی۔ رہا کھدر کے کُرتے کا معاملہ تو وہ جوگیا ہو یا نیلا، انتہا اس کی پاکستان میں بہرصورت موٹرکار ہے۔ وہ دورِ جاگیرداری گزر گیا جب سعادت حسن منٹو ململ کا سفید کرتا پہن کر تانگے میں مال پر نکلا کرتے تھے۔ اب لاہور کی مال پر تانگا ممنوع ہے اور نئی قدروں نے موٹر کار کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    ادب اور موٹر کار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب شعر اور افسانہ گھسیٹ دینے کا نام نہیں ہے۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔ ادب اور موٹر کار کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ موٹر تیز چلتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب سواری تیز چلتی ہے تو ادب کی گاڑی رک جاتی ہے۔ مثلاً جب سے پاکستان کے ادیبوں نے رائٹرز گلڈ کے توسط سے ہوائی جہاز میں سفر کرنا شروع کیا ہے، انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ابن انشاؔ نے جتنے عرصے میں پورے یورپ کا دورہ کیا، اتنے عرصے میں میں صرف ایک افسانہ لکھ سکا۔

    مولانا محمد حسین آزادؔ جب لاہور کے اکبری دروازے سے گورنمنٹ کالج کی طرف چلتے تھے تو ان کا گھوڑا بہت سست چلتا تھا مگر ان کی نثر سرپٹ دوڑتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ کی کار بہت تیز چلتی ہے۔ البتہ مصرع پوئیاں چلتا ہے۔

    میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں استعارے اور تصورات سکے ہوتے ہیں۔ اپنے وقت میں خوب چلتے ہیں۔ وقت کا سکہ بدلتا ہے توان کی بھی قیمت گر جاتی ہے۔ مگر وضع دار لکھنے والے اپنے لفظ، استعارے، ترکیبیں اور تصورات پتھر پہ بجا کے نہیں دیکھتے اور انہیں چالو سمجھ کر آخر دم تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔

    ملکہ کے وقت کے تین گھسے ہوئے سکے:

    (1) جوشؔ ملیح آبادی کی عقلی شاعری۔

    (2) نیازؔ فتح پوری اور نئی پود کی دہریت۔

    (3) انسان دوستی۔

    چند استعارے جنہیں پھپھوندی لگ چکی ہے: سحر، اندھیرا، رہزن، رہبر۔

    کلاسیکی شاعری کے وہ استعارے جو نئے ترقی پسند شاعروں کے ہاتھوں معنی کھو بیٹھے، دار و رسن، زنداں، قفس، منصور۔ غدر سے پہلے کے لفظ، لہجے اور ترکیبیں جن کے کنارے گھس چکے ہیں، معاذ اللہ، ارے توبہ، لہو کے چراغ، پرچم، گہرا سناٹا، خلا، سسکیاں، آکاش، سماج، دھندلکا، حریری ملبوس، غم جاناں، غم دوراں، عظیم ادب، آفاقیت، ابدی اقدار، انفرادیت، رچاؤ، سوز و گداز۔

    اردو تنقید کی زنگ آلود ضرب الامثال:

    (1) ادب نام ہے تنقید حیات کا۔

    (2) ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

    (3) ادب شخصیت کا اظہار ہے۔

    (4) ادب پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔

    (5) ہر ادب اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے۔

    (6) ادب روایت کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

    گھسی ہوئی دونیاں چونیاں، رمبو، بایلئر، ٹی ایس ایلیٹ، غالب، گورکی، موپساں۔

    (انتظار حسین کے مضمون ادب کی الف، ب، ت سے اقتباسات)

  • "ہمارا عقیدہ”

    "ہمارا عقیدہ”

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ انڈہ پہلے آیا یا مرغی۔

    کچھ لوگ کہتے ہیں انڈہ۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقۂ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈہ اسکول۔ ہمیں انڈہ اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملّتِ بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہِ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریبِ شہر ہو تو اس کے لیے انڈہ پہلے اور غریبِ شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈہ اس کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے۔

    (ابنِ انشا کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

  • کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بین فرق ہماری سمجھ میں آیا، یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔

    ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ “پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے، ’‘فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعۂ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘ اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگّا کھاتا ہے۔

    ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اور معاملاتِ محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی نا واقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857ء کی رست خیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔

    اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لیے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔

    غالبؔ نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچّہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ کرکٹ کے رسیا ہم جیسے ناآشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لیے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘ عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتی بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹیفک کھیل ہے۔ بَکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔

    بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔

    فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبعِ نازک کے لیے نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کے لیے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘ محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لیے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔

    اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زرّیں اصول سے سراسر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنیٰ نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہے اور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہٰذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجیے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔

    ہم بذاتِ خود سو فی صد تفریح کے حق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہِ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریقِ تعلیم سے جدید طرزِ تفریح ہزار درجے بہتر ہے؛ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘چراغ تلے’ سے ایک شگفتہ پارہ)

  • گاہک اور دکان دار

    گاہک اور دکان دار

    کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکان دار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔

    قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلّی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلّی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھا لیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھا دیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبّے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سَر پر رکھ کر ہوا ہو گیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔

    یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔

    مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلّی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادرانِ اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔

    مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رام چندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجا دیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمر بند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔

    (’’آبِ گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)