Tag: اردو اقتباسات

  • باصلاحیت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!

    باصلاحیت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!

    ایک نوجوان امریکی، جون کینیڈی ٹول نے A Confederacy of Dunces کے نام سے ناول لکھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ایک بہت اچھا ناول لکھنے میں کام یاب ہو گیا ہے۔ اس نے چار پانچ بڑے ناشروں سے رجوع کیا۔ ہر جگہ اس کے ناول کو مسترد کر دیا گیا۔ بددل ہو کر اس نے خودکشی کر لی۔

    اس کی ماں کو بہت صدمہ پہنچا۔ اتفاق سے برس ہا برس بعد کسی محفل میں اس کی ملاقات معروف ادیب واکر پرسی سے ہوئی۔ ماں نے شکوہ کیا کہ ناشر بڑے ادب ناشناس اور بے لحاظ ہیں۔ میرے بیٹے نے بڑا اچھا ناول لکھا تھا۔ ہر جگہ اس کے ناول کو مسترد کر دیا گیا۔ ناکامی کی تاب نہ لا کر اس نے خودکشی کر لی۔

    واکر پرسی نے یہ سن کر، دل رکھنے کے لیے، کہا کہ مسودہ مجھے بھجوا دیں۔ میں پڑھ کر دیکھتا ہوں۔ جب واکر پرسی نے مسودہ پڑھا تو اسے اندازہ ہوا کہ بڑی عمدہ تحریر ہے۔ اس نے اپنے ناشر سے کہا کہ یہ ناول قابلِ اشاعت ہے۔ ناشر اپنے مدیروں کے مقابلے میں اپنے کام یاب مصنّفوں کی سفارش کو زیادہ معتبر سمجھتے ہیں۔ ناول شائع کر دیا گیا اور صرف شائع نہیں ہوا بلکہ امریکا کے سب سے اہم ادبی انعام پلٹزر پرائز کا مستحق بھی گردانا گیا۔ لیکن اس سے بیچارے مصنّف کو کیا ملا؟

    یہ کوئی واحد مثال نہیں۔ ادب اور فن کے میدان میں بڑے بڑے فن کاروں کے ساتھ یہی سلوک ہوا۔فان گوخ، جس کی تصویریں اب کروڑوں میں بکتی ہیں، مفلسی میں فوت ہوا۔ موتزارٹ کے پائے کا موسیقار مغرب میں کوئی کوئی ہو گا۔ وہ بھی مفلوک الحال مرا۔

    یہاں ایک لطیفہ یاد آیا۔ ڈورس لیسنگ نے ادب کا نوبیل انعام ملنے کے بعد اپنا نیا ناول کسی فرضی مصنّف کے نام سے اپنے ناشر کو بھجوا دیا۔ ناشر نے یا اس کے مدیروں نے بلا تامل اسے مسترد کر دیا۔

    ایملی ڈکنسن کا اب سربرآوردہ امریکی شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ زندگی میں اس کی کوئی قدر نہ ہوئی۔ شاید چھ یا سات نظمیں شائع ہوئیں۔ مدیر اس کی نظموں کو سمجھ ہی نہ سکے۔ سوچا کہ یہ تو مفہوم ٹھیک سے ادا کرنے پر بھی قادر نہیں۔ اوقات نگاری بھی بے ڈھنگی ہے۔ انہوں نے نظموں کو اپنی دانست میں ٹھیک کر کے مگر پوری طرح بگاڑ کر چھاپا۔ نظموں کی درگت بنتے دیکھ کر وہ چھپنے چھپانے سے تائب ہو گئی۔ ایک قصبے میں عزلت گزیں ہو کر پوری زندگی گزار دی۔

    وفات کے بعد اس کے جاننے والوں نے اس کی نظمیں، جن کی تعداد تقریباً اٹھارہ سو تھی، چھپوا دیں۔ ان کی بھی سمجھ میں نہ آیا کہ نظموں میں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس کی معنویت کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بھی، اپنی سمجھ کے مطابق، نظموں کو ٹھیک ٹھاک کر کے چھاپا۔ دوسرے لفظوں میں نظموں کی انفرادیت کو ملیا میٹ کر دیا۔ ایملی ڈکنسن کے صحیح ادبی مقام کا تعین کہیں بیسویں صدی میں جا کر ہوا۔ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہونے کی سزا مل کر رہتی ہے۔

    قصہ مختصر یہ کہ باصلاحیت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو قدر دان ہی نصیب نہ ہوں۔ بعض ادیب اور شاعر اپنی زندگی میں مشہور ہو جاتے ہیں۔ بعد میں ان کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ بعضوں کو جیتے جی کوئی داد نہیں ملتی۔ بعد میں ان کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔

    یوں کہیے کہ فن ایک دریا ہے۔ بعض لوگ کسی نہ کسی طرح تیر کر دوسرے کنارے پر جا پہنچتے ہیں۔ وہاں ان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے یا نظر انداز کر دیا جاتا ہے، کون جانے۔ اور جو ڈوب جاتے ہیں وہ بھی کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہوں گے۔

    (محمد سلیم الرحمٰن کی تحریر سے اقتباس)

  • "میل خوردہ قالین خرید لیا گیا…”

    "میل خوردہ قالین خرید لیا گیا…”

    ایک روز شہاب صاحب کی اپنی بیگم سے قالین خریدنے کے معاملے پر تکرار ہوگئی۔ شہاب صاحب سفید قالین خریدنا چاہتے تھے جب کہ بیگم کو اعتراض تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

    "عفّت اٹھ کر بیٹھ گئی اور استانی کی طرح سمجھانے لگی۔ ہمارے ہاں ابنِ انشا آتا ہے، پھسکڑا مار کرفرش پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف مالٹے دوسری طرف گنڈیریوں کا ڈھیر۔ جمیل الدین عالی آتا ہے، فرش پر لیٹ جاتا ہے سگرٹ پر سگرٹ پی کر ان کی راکھ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیر دیتا ہے۔ ایش ٹرے میں نہیں ڈالتا۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان دوسرے میں زردے کی پڑیا لیے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔

    ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلے کی ٹپکتی ہوئی پیٹی لے کر آئے گا۔ وہ یہ سب تحفے بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں۔ سال میں کئی بار سید ممتاز حسین بی۔ اے ساٹھ سال کی عمر میں ایم۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فاؤنٹن پین چھڑک چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔

    صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی مکئی کی روٹی اور ساگ مکھن گاؤں سے لاتا ہے تو آتے ہی قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ قرینے سے باورچی خانے میں رکھ دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ نہ شاعر ہے، نہ ادیب بلکہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔

    عفّت کی بات بالکل سچ تھی، لہٰذا ہم نے صلح کر لی اور ایک میل خوردہ رنگ کا قالین خرید لیا گیا۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب سے اقتباس)