Tag: اردو اقتباس

  • تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    یہ مجازؔ کا تذکرہ ہے، وہ مجاز جس کا کلام ہندوستان بھر میں مقبول تھا اور خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں جس کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھا کرتے تھے۔ مجاز کی نظموں میں جذبات کی شدّت اور ایسا والہانہ پن تھا جس نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ شاعر اسرارُ الحق مجازؔ کی نظم ’آوارہ‘ نے اپنے دور میں سبھی کو چونکا دیا تھا۔ یہ نظم بہت مقبول ہوئی اور ہر باذوق کی زبان پر جاری ہوگئی تھی۔ مجاز کو شراب نے اتنا خراب کیا کہ عین جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ اردو شاعری کے آسمان پر گویا لمحوں کے لیے چمکے اور پھر ہمیشہ کے لیے سب کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

    معروف ادیب مجتبیٰ حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ اس وقت وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئے تھے۔ شراب نے انھیں برباد کردیا تھا۔ لکھنؤ میں انتقال کرنے والے مجاز کا خاکہ مجبتیٰ حسین کی کتاب نیم رُخ میں شامل ہے۔ مجبتیٰ حسین لکھتے ہیں:

    بارے مجاز ڈائس پر آئے۔ انہوں نے "اعتراف” سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آ رہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے۔ طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جا رہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہو چکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہو کر پڑھے جا رہے تھے:

    خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
    شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
    شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
    خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

    ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آ گیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔ مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔ دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے۔‘

    معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔ جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔ اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔

  • معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوشش

    پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اردو زبان و ادب میں ’پطرس بخاری‘ کے قلمی نام سے خوب لکھا اور بطور مزاح نگار اس قلمی نام سے ان کی منفرد پہچان بنی۔ علمی و ادبی حلقے اور باذوق قارئین انھیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ پطرس بخاری کی ہمہ گیر شخصیت کا تعارف بیک وقت مزاح نگار، نقّاد، مترجم، صحافی، براڈ کاسٹر، ایک ماہرِ تعلیم، اور سفارت کار کے طور پر ہم سے ہوتا ہے۔

    پطرس بخاری کی اپنے دور کے ادب، ادبی سرگرمیوں اور اہلِ قلم کی بعض کم زوریوں پر نظر رہی۔ اس کا اندازہ ان کے ایک انگریزی مقالہ سے ہوتا ہے۔ یہ مقالہ پطرس مرحوم نے ۱۹۴۵ء میں پی ای این کے جے پور میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں پڑھا تھا۔ اس میں ان کا موضوع اردو ادب کا جدید دور یعنی اقبال کے فوراً بعد کا زمانہ تھا۔ مظفر علی سیّد نے اس کا ترجمہ کیا تھا جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    ہمارا ادیب اپنے آپ کو ایک نئے معاشرے میں گھرا ہوا دیکھتا ہے۔ یہ معاشرہ اس کے فہم و بصیرت کی حدوں سے بڑھ کر وسیع اور پیچیدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ اس کے اسلاف کے تجربے اور مشاہدے سے ماورا ہے۔ اور اسی وسیع و عریض حقیقت سے اس کو موافقت پیدا کرنا ہے تاکہ تکمیل اور استحکام حاصل ہو۔ جب تک یہ موافقت پوری نہیں ہوتی۔ وہ بڑے پُر جوش اضطراب کے ساتھ کسی نہ کسی طرز کی محفل بنا کے بیٹھ جائے۔ اسی اضطراب کی وجہ سے اس زمانے کے اکثر ادیب ایک نہ ایک انجمن یا حلقے سے وابستہ ہو گئے ہیں اور ایک دوسرے کے تصانیف پر دیباچے اور پیش لفظ لکھتے رہتے ہیں۔ آج سے پہلے شاید ہی کبھی ہمارے ادیبوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے، محفلیں، انجمنیں اور حلقے بنانے کی ضرورت محسوس کی ہو۔ یہ ادارے کتنی ہی سنجیدگی اور خلوص سے کیوں نہ وجود میں آئے ہوں، معاشرہ سازی کی جعلی اور مجنونانہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اور ادیب کو ان آوارگیوں اور سیاحتوں کی قیمت اپنے تخلیقی جوہر سے ادا کرنی پڑتی ہے۔ ان غیر واضح قسم کی حرکتوں سے اس کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کے ’’کل‘‘ کو پا لے اور چونکہ برونِ خانہ سے اس کا ربط قائم نہیں ہوا، اس کو درونِ خانہ میں تلاش و تجسس سے کام لینا پڑتا ہے۔ مگر اس تلاش کے دوران میں زندگی کا کاروبار ملتوی ہوتا رہتا ہے اور جب تک کوئی زرخیز زمین ملے۔ زندگی کا رس خشک ہو جاتا ہے۔

  • قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ”بنات“ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ”چاکلیٹ کا قلعہ“ بنات میں شایع ہوئی تھی۔ قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ماری پور میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں۔ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی۔

    آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک بی نارتھ ناظم آباد میں ہوئی، کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے اپنے ضخیم ناول ”آگ کا دریا“ اور “سفینۂ غم دل“ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں۔

    مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ”عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں، اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔“ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ”عصمت“ اور ”تہذیبِ نسواں“ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔

    باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھا کر حجرِ اسود کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔

    ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچّے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔ پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں۔ ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔

    (مصنّف حاذق الخیری، ماخذ خود نوشت ’جاگتے لمحے‘)

  • ادب اور عشق

    ادب اور عشق

    ایک بادشاہ نے ایک ملکہ کے حسن و جمال کا شہرہ سنا اور اس پر عاشق ہو گیا۔ پھر وہ تخت و تاج چھوڑ کر اس اجنبی ملک کی طرف اس ملکہ کا دیدار کرنے چلا۔ مگر اس بادشاہ سے زیادہ کمال شہزادہ جانِ عالم نے دکھایا جو ایک توتے کی باتوں میں آکر انجمن آرا کا نادیدہ عاشق ہو گیا اور دربدر خاک بسر پھرا۔ مگر ایک شہزادہ وہ بھی تو تھا جس نے خواب میں ایک صورت دیکھی تھی اور صبح ہونے پر اس نے باپ سے کہا کہ ایسا اس کا ناک نقشہ ہے اور ایسی اس کی چھب ہے، شادی کروں گا تو اسی سے کروں گا، نہیں تو ڈوب مروں گا۔ اور ایک وہ شہزادہ تھا جس نے جوتی دیکھی اور کہا کہ جوتی ایسی ہے تو جوتی والی کیسی ہوگی اور جوتی والی پر مر مٹا۔

    شہزادوں پر منحصر نہیں۔ اُن دنوں سب عشق کرتے تھے اور اسی طور کرتے تھے۔ کوئی نوجوان لکڑہارا درخت کاٹتے کاٹتے کوئی شیریں آواز سنتا وہ آواز اسے لے اڑتی۔ آواز ایسی ہے تو آواز والی کیسی ہوگی۔ پھر جب وہ درخت آہستہ آہستہ کاٹ چکتا تو کوئی پری چہرہ برآمد ہوتی اور وہ اس پر مہربان ہو جاتی۔ مہربان کا لفظ میں نے جان کر استعمال کیا ہے۔ عورت مہربان ہی ہو سکتی ہے، عشق نہیں کر سکتی، عشق مردوں کا پیشہ رہا ہے۔ عورت اس پیشے میں شریک ہو جائے تو یہ اس کی عنایت ہے، نہ ہو تو اس کی شکایت نہ کرنا چاہیے اور جب دونوں ہی گریجویٹ ہوں تو پھر تو شکایت بالکل زیب نہیں دیتی۔

    خیر تو ذکر یہ تھا کہ عشق ان دنوں سچ مچ اندھا تھا۔ دیدار شربتِ وصل کا مرتبہ رکھتا تھا۔ مگر دیدار ہوتا کہاں تھا۔ محبوب کی خوشبو چہار سو پھیلی ہوتی تھی مگر اس کا جلوہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر یہ بات شاید شاعرانہ ہو گئی۔ نثر میں بات یوں ہے کہ ان دنوں مرد اندھا تھا اور عورت تاریک براعظم تھی۔ تاریک براعظم مرد کو پکارتا بھی تھا، ڈراتا بھی تھا۔ اس بلاوے اور ڈراوے سے مہموں اور معرکوں اور واردات نے جنم لیا اور اندھا عشق عہد کی بینائی بن گیا اور اس کی روشنی میں لوگ چلتے تھے اور اپنے کام کرتے تھے۔ اس روشنی میں خودکشیاں ہوئیں، سفر کئے گئے، لڑائیاں لڑی گئیں۔ کبھی ہار کبھی جیت۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب جذبے پر آدمی کا ایمان قائم تھا۔ اپنے جذبے کے واسطے سے بروئے کار ہونے میں اسے کسی صورت عار نہ تھی۔ سری کرشن جی حکیم عصر بھی تھے اور عاشق پیشہ بھی تھے۔ جذبے پر ایمان ہی ایکلیز کو کھینچ کر لڑائی کے محاذ پر لے گیا اور جذبے پر ایمان ہی نے اسے اس معرکے سے بیزار کیا۔ وہ روٹھ گیا۔ اس نے ہتھیار کھول کر رکھ دیے اور کہا کہ بھاڑ میں جائے یونان کی غربت۔ میری محبوبہ کو ایگمنان لے گیا ہے۔ اب میں نہیں لڑوں گا۔

    جنگیں طرزِ احساس کو بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ جیسا معرکہ پڑتا ہے ویسا ہی ذہن پیدا ہوتا ہے۔ لڑائی کے محاصرے کی داستان نے ہومر کو پیدا کیا۔ جذبے کے معنی ہونے پر ہومر کا ایمان تھا۔ اس حد تک ایمان کہ اس کے لئے اس واسطے سے پڑنے والا معرکہ ایسی جامعیت رکھتا ہے کہ اسے بیان کر کے شاعر اپنے عہد کے جذبات، احساسات اور عقائد و افکار کی تفسیر کر سکتا ہے۔ مگر دوسری جنگِ عظیم نے کامیو کو پیدا کیا۔ اس نے ایک تو OUTSIDER لکھا، اوپر سے یہ کہا کہ ہر ادیب اپنے عہد کے جذبات کو ایک شکل عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کل کا جذبہ محبت کا تھا۔ آج اتحاد اور آزادی کے جذبات نے دنیا میں ہنگامہ پیدا کر رکھا ہے۔ کل تک یہ ہوتا تھا کہ محبت کے پیچھے آدمی خودکشی کر لیتا تھا، آج اجتماعی جذبات عالمگیر تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔

    کامیو صاحب محبت کو آج کا جذبہ نہیں مانتے مگر آدمی بامروت ہیں۔ انہوں نے ہمیں تمہیں یہ اجازت دی ہے کہ ضروری کاموں سے وقت اگر بچے تو وقتاً فوقتاً عشق کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے اگر ضروری کاموں سے وقت بچنے ہی کا معاملہ ہے تو بہتر ہے کہ عشق طالب علمی کے زمانے میں کر لیا جائے۔ اس وقت آدمی کو ضروری کام نہیں ہوتے۔ بات یہ ہے کہ اگر اسمگلنگ یا چور بازاری یا اس قسم کی اور کوئی حرکت کرکے ہم نے جذباتی خودکشی نہیں کر لی ہے، تو یہ لہو کی بوند جو ہمارے اندر ہے کسی نہ کسی وقت ضرور ہنگامہ آرا ہو گی۔ طالب علمی ہی کے زمانے میں وہ ہنگامہ آرا ہو جائے تو اچھا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال امتحان نہیں دیں گے۔

    پرانی دنیا میں عشق جز وقتی مشغلہ نہیں تھا۔ اس کی حیثیت ضمنی اور غیرضروری کام کی نہیں تھی۔ عشق کے آغاز کے ساتھ سارے ضروری کام معطل ہو جاتے تھے اور آدمی کی پوری ذات اس کی لپیٹ میں آ جاتی تھی۔ یہ صنعتی عہد کا کارنامہ ہے کہ عشق کو ذات کی واردات اور زندگی کا نمائندہ جذبہ ماننے سے انکار کیا گیا اور یورپ کا معاملہ یہ ہے کہ صنعتی عہد کے ساتھ وہاں سے انسانی حوالے غائب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یورپ نے بیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں لڑیں اور دونوں بغیر کسی انسانی حوالے کے۔ بیسویں صدی کا یورپ کسی ہیلن کی خاطر جنگ کرنے کا جگر پیدا نہ کر سکا۔ لہو کی بوند ہنگامہ آرا تو ہوئی مگر کسی جیتی جاگتی ہستی کے حوالے سے نہیں، کسی کھرے اور سچے جذبے کے واسطے سے نہیں۔ کیا ہٹلر اور کیا اس کے حریف، دونوں کے پیشِ نظر کچھ غیرانسانی مجرد قسم کے حوالے تھے، کچھ سامراجی مقاصد تھے۔

    قوموں کو جنگیں تباہ نہیں کرتیں۔ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب جنگ کے مقاصد بدل جاتے ہیں۔ یورپ کے اخلاقی زوال کی ذمہ داری اس واقعے پر ہے کہ اس نے جذبے کو فراموش کیا اور غیرانسانی حوالوں سے دو لڑائیاں لڑیں۔ سو پھر الیڈ اور اوڈیسی کہاں سے پیدا ہو جاتیں۔ ’آوٹ سائڈر‘ ہی لکھا جانا تھا۔ جہاں سب انسانی رشتے اپنے معنی کھو چکے ہیں۔

    رہے ہم، تو ہمارا مغربی سامراج نے ۱۸۵۷ء ہی میں پٹرا کر دیا تھا۔ سن ستاون کے بعد مولانا حالی آئے اور بے چاروں نے سیدھا سچا اعتراف کر لیا کہ،

    کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

    آسمان سے ڈر کر ہم نے انگریزوں کی اطاعت قبول کی اور دل سے ڈر کر ملکہ وکٹوریہ کے زمانے والی انگریزی اخلاقیات میں پناہ لی۔ تب نیچرل اور قومی شاعری کی بدعت شروع ہوئی اور واردات عشق کے واسطے سے ہونے والی شاعری ملعون ٹھہری اور مولانا حالیؔ نے بیان جاری کیا کہ،

    بھائیو! دل نہ لگانا، نہ لگانا ہرگز

    جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز

    یوں تو اس سے بہت پہلے میر صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ،

    وصیت میر نے مجھ کو یہی کی
    کہ سب کچھ ہونا تو عاشق نہ ہونا

    مگر دونوں آوازوں میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ حالیؔ کی آواز ایک سہمے ہوئے آدمی کی آواز ہے، اس آدمی کی جو عشق سے خائف ہے۔ میر کی آواز ایک خوار و خستہ عاشق کا مشورہ ہے۔ اس شخص کا جو پوری واردات سے گزرا ہے۔ ویسے ایک طرح سے یہ اسی قسم کا مشورہ ہے جو تجربے سے ناآشنا نوخیز شہزادوں کو دیا جاتا تھا کہ سب کھونٹ جانا، چوتھے کھونٹ مت جانا، یا سب دروازے کھولنا پر ساتواں درمت کھولنا، مگر یہ مشورہ تھوڑا ہی تھا۔ یہ تو چیلنج ہوتا تھا کہ اگر جگر ہے تو ساتواں در کھولو، ور نہ شریف آدمی بن کر بیٹھے رہو۔ لہو کی بوند ان دنوں مستقل ہنگامہ آرا رہتی تھی۔ سو شہزادے چیلنج کو قبول کرتے تھے اور ساتواں در کھول کر اپنے سر خرابی لاتے تھے۔ خرابی ان کے خون کے اندر تھی۔

    برہمن جنم پتری بناتے تھے اور بتاتے تھے کہ جنون کے آثار ہیں، خرابی کی علامات ہیں، بارہ برس تک آسمان مت دیکھنے دو اور چاندنی میں مت سونے دو۔ مگر خون کا فساد ادبدا کر تاریخ کا گھپلا ڈالتا تھا۔ بارہویں برس کی آخری شب شہزادہ آسمان دیکھ لیتا تھا اور کوئی پری اسے اڑا لے جاتی تھی۔ مگر وہ شخص جو شہزادہ نہیں تھا، شاعر تھا، اس کے لئے عمر کی ہر رات بارہویں برس کی آخری شب بنی اور چاند میں پری نظر آکر خور و خواب میں خلل ڈالتی رہی۔ اس کا نام میر تقی تھا۔ اسے باپ نے نصیحت کی تھی کہ فرزند عشق کیا کر، سعادت مند بیٹے نے صوفی صافی باپ کی نصیحت گرہ میں باندھی۔ عشق کیا، دیوانہ ہوا اور غزل کہی۔

    ایک زمانے کے بعد مولانا حالی آئے۔ اب وقت اور تھا۔ دل کا خوف الگ، آسمان کا خوف الگ، مولانا حالی نہ سید علی متقی بن سکتے تھے، نہ میر تقی بن سکتے تھے۔ عاشقوں اور صوفیوں کا دور گزر چکا تھا۔ یہ مصلحین کا دور تھا۔ واردات کی جگہ وعظ نے لے لی۔ مولانا حالی نے غزل سے کنارہ کیا اور اصلاحی شاعری پر آ رہے۔ فرزندان قوم کو نصیحت کی کہ عشق سے پرہیز کرو اور انگریزی پڑھو۔ فرزندان قوم نے نصیحت قبول کی۔ انگریزی پڑھی اور اصلاحی ادب پیدا کیا۔ عشق کا تقاضا ہوا تو جواب دیا کہ، مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ یعنی ویسی محبت جس میں رکتے رکتے جنون ہو جاتا تھا اور گریبان کے چاک اور دامن کے چاک میں فاصلہ ختم ہو جاتا تھا۔ مگر محبت کسی قسم کی بھی ہو بہرحال محبت ہوگی۔ نئے شاعر کی بصیرت نے یہ نکتہ پیدا کیا۔

    اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
    تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

    یہ اردو کی مخرب الاخلاق شاعری ہے۔ بات یہ ہے کہ اخلاقی ادب اور مخرب الاخلاق ادب کے بارے میں بہت سی باتیں مولویوں نے کہی ہیں۔ کچھ باتیں مولانا حالی اور ڈپٹی نذیر احمد نے کہیں۔ مگر ایک بات ڈی ایچ لارنس نے بھی کہی ہے۔ مگر ٹھہریے! اس سے پہلے ۳۶ء کے ادیبوں کا ایک اخلاقی محاکمہ سن لیجیے۔ جب ان کی مختلف نظموں اور افسانوں پر فحاشی کا الزام لگا تو انہوں نے بیان صفائی یوں دیا کہ جنس کے بیان میں اگر لذت کی کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ فحاشی ہے مگر ہمارے افسانوں اور نظموں میں جنس ایک گھناؤنے پن کے ساتھ پیش ہوتی ہے، اس میں لذت کا رنگ ہوتا ہی نہیں، اس لئے اسے فحاشی نہیں کہا جا سکتا۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ جذبہ ایک گھناؤنی چیز ہے، اس سے بیزار رہنا ہی بھلا ہے۔ اور اب لارنس کی بات سنئے۔ وہ بات یہ ہے کہ جب لکھنے والا ترازو میں اپنا انگوٹھا اڑا دے اور پلڑے کو اپنے مطلب کے موافق جھکانے کی کوشش کرے تو یہ مخرب الاخلاق بات ہے۔

    اور فیض صاحب نے ایک مخرب الاخلاق بات تو یہ کی کہ ترازو کے ایک پلڑے کو ڈنڈی پہ انگوٹھا رکھ کر جھکا دیا اور دوسری مخرب الاخلاق بات انہوں نے یہ کی کہ زندگی کے دکھوں میں تقسیم پیدا کر دی۔ دکھ بٹے ہوئے نہیں ہیں، سب دکھ اکٹھے ہیں۔ ایک دکھ دوسرے دکھ میں اور دوسرا دکھ تیسرے دکھ میں بندھا ہوا ہے۔ وہ سب ایک وحدت میں ڈھل کر زندگی کے غم کی صورت میں منور ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس بات کو نہیں مانتے تو نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو آپ میر کو ایک فراری شاعر کہہ کر رد کر دیں گے، یا اس کے کلیات سے چند دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کے شعر نکال کر یہ ثابت کریں گے کہ میر کو اپنے عہد کے مصائب کا بھی احساس تھا اور وہ سیاسی شعور بھی رکھتا تھا۔ مگر میر کے یہاں تو فرد کے دکھ اور عہد کے دکھ گھل مل کر میر کا غم بنے ہیں۔ سب دکھ ایک وحدت میں ڈھلے تو غم عشق بن گیا۔ اب آپ ایک دکھ کو دوسرے دکھ سے کیسے تمیز کریں۔

    دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
    یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

    اس شعر میں عہد کے غم اور ذات کے غم کو کیسے علاحدہ کریں گے اور غالب کے اس شعر کو آپ کس خانے میں ڈالیں گے،

    اس چمن میں آگ برسے گی کہ آئے گی بہار
    اک لہو کی بوند کیوں ہنگامہ آرا دل میں ہے

    سیاسی شاعری کے خانے میں یا؟ عشقیہ شاعری کے خانے میں؟

    قصہ اصل میں یہ ہے کہ باقی غم بھی تو عشق کے غم ہی کے واسطے سے سمجھ میں آتے ہیں،

    پہنچا جو آپ تک تو وہ پہنچا خدا تئیں
    معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

    خدا تئیں اور عہد تئیں، اور اب پھر میں لارنس سے رجوع کرتا ہوں جس نے کہا تھا کہ انسانی معاملات میں سب سے بڑا رشتہ ہمیشہ مرد اور عورت والا رشتہ رہے گا۔ مرد اور مرد کا رشتہ، عورت اور عورت کا رشتہ، والدین اور اولاد کا رشتہ یہ سب ثانوی رشتے ہیں اور مرد اور عورت کا رشتہ ہر آن، ہر گھڑی بدلے گا اور ہر صورت انسانی زندگی کے لئے نئی کلید بنے گا۔ اور اہم نہ تو مرد ہے نہ عورت ہے اور نہ ان کے رشتے سے پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ بلکہ خود یہ رشتہ اہم ہے۔۔۔ تو غزل اور داستان نے اس رشتے کو انسانی زندگی کی کلید جانا اور عشق کی واردات کے راستے سب انسانی رشتوں کو سمجھا اور حاصل یہ نکلا کہ بندہ بشر ہے اور آدمی کا شیطان آدمی ہے اور بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں۔ پس، اے برے آ میں تجھ سے پیار کروں۔

    یہ آخری بیان فراق کا ہے۔ مگر یہ وہ بصیرت ہے جو اسے کلاسیکی غزل سے ورثے میں ملی ہے اور اس عہد میں عاشق نے بہت گریباں چاک کئے اور صحراؤں کی خاک اڑائی اور دیواروں سے سر پھوڑے مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ باپوں نے بیٹوں کو نصیحت کی کہ بیٹا عشق کیا کرو اور بیٹوں نے عشق کیا۔ ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے واحد صداقت جذبے کو جانا اور ان بیٹوں نے بھی جنہوں نے عقل و دانش کو سر پر چڑھایا۔ ہاں ایک بصیرت حاصل ہوئی۔ آدمی کے بارے میں ایک بصیرت۔ پچھلی غزل اور داستان کا سرمایہ یہی بصیرت ہے۔ اصلاحی دور اور ترقی پسند دور کے ادب کا سرمایہ درس ہے۔ آج کے لکھنے والے کے لئے یہ دونوں رستے کھلے ہیں۔ وہ چاہے تو درس والا رویہ اپنا لے، اس واسطے سے اسے ادب پیدا کرنے کے مقبول عام نسخے میسر آ جائیں گے اور ادب پیدا کرنے کا کام آسان ہو جائے گا اور چاہے تو وہ اول الذکر رستے کو اپنا لے۔ مگر وہ رستہ کٹھن ہے۔ واردات کے رستے بصیرت کی منزل تک پہنچنے کا عمل ہے۔

    (ممتاز فکشن رائٹر اور انتظار حسین کی تحریر)

  • آٹھ طرح کے افسانہ نویس!

    آٹھ طرح کے افسانہ نویس!

    ایک نوخیز افسانہ نگار کو سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج کل افسانہ نگاروں کی قسمیں کتنی ہیں تاکہ وہ یہ طے کرسکے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

    میں نمبر وار گناتا ہوں۔
    (۱) پہلی قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنے افسانوں کی خوبی کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ اپنے اوریجنل افسانوں کی وجہ سے پبلک سے روشناس ہوئے۔ اوّل تو انہوں نے دوسری چیزیں مثلاً فکاہیہ مقالے، تواریخی مضامین، ترجمے اور دوسرے دل چسپ ادبی اور معاشرتی مضامین ویسے بھی کم لکھے اور اگر لکھے بھی تو ان کی بدولت ان کو مقبولیت کا تمغہ نہیں ملا۔ اصل کارنامہ ان کا افسانہ نگاری رہا۔ ایک نہیں ان کے درجنوں افسانے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر، ایسے کہ جب کبھی بھی کسی رسالے میں ان کا افسانہ شائع ہوا تو نہ صرف افسانوں میں ان کا افسانہ بہترین قرار دیا گیا بلکہ رسالے کے تمام مضامین نظم و نثر سے وہ سبقت لے گیا۔ عموماً رسالہ ہاتھ میں آتے ہی لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا افسانہ بھی ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہی پڑھتے ہیں۔ مثال کے طور پر منشی پریم چند۔

    (۲) دوسری قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے انتہائی قابلیت اور خوبی سے غیر ملکی زبانوں کے مشہور افسانہ نویسوں کی کاوشوں سے اردو کو مالا مال کر دیا اور انہوں نے دنیائے ادب میں اسی سے شہرت حاصل کی۔ بدقسمتی سے آج کل کی اصطلاح میں یہ بھی افسانہ نویس کہلاتے ہیں۔

    (۳) ایک اور قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے غیرملکی افسانوں کو ملکی جامہ نہایت ہی خوبی سے پہنایا اور اپنا کمال اسی مخصوص کام میں دکھایا۔ بدقسمتی سے یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۴) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے، جنہوں نے خود بھی اوریجنل افسانے لکھے، غیر ملکی افسانوں کو ملکی لباس بھی خوب پہنایا، دوسری زبانوں کے اچھے افسانوں کے ترجمے بھی خوب پیش کیے اور ان تمام کاموں کو مجموعی طور پر نہایت ہی خوبی سے انجام دیا اور جو کچھ بھی شہرت حاصل کی وہ ان تینوں کاموں سے حاصل کی مگر ان کا ہر کام علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو ایسا نہیں جو ان کو مقبولیت کا وہ درجہ دے سکتا جو ان کو اب حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۵) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت نام پیدا کیا۔ افسانے بھی لکھے اور اچھے لکھے مگر جو کچھ شہرت حاصل کی وہ محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت حاصل کی۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ بھی افسانہ نگار ہیں۔

    (۶) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جو دراصل شاعر ہیں اور انہوں نے شاعری ہی میں نام اور کمال پیدا کیا اور اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن باوجود اس کے اوریجنل افسانے بھی لکھتے ہیں۔ اچھے افسانے مگر ایسے نہیں کہ وہ افسانے ان کو وہ شہرت دیتے جو ان کی اپنی شاعری کی بدولت حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۷) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو تخلّص رکھتے ہیں اور ساتھ ہی دہلوی، جودھپوری وغیرہ کو تخلص کے ساتھ لازمی استعمال کرتے ہیں۔ محض اس نیت سے کہ اگر افسانے کے ساتھ نام شائع نہ ہوا تو لوگ بھول جائیں گے اور پبلک سے روشناس ہونے میں بڑی دیر لگے گی۔ یہ لوگ اپنے افسانوں سے نام پیدا نہیں کرتے بلکہ نام سے افسانہ پیدا کرتے ہیں۔ پڑھنے والوں کے دل پر بجائے افسانے کے نقش کے اپنے تخلص یا قلمی نام کا نقش کھود چکے ہیں۔ ہر قسم کے مضمون، ترجمے، ادب لطیف وغیرہ وغیرہ کے مریض ہیں۔ لوگوں کے ذہن نے اور حافظے نے کام نہ دیا۔ نتیجہ یہ پبلک کو سوائے ان کے تخلص کے اور کچھ یاد نہیں رہا کہ انہوں نے کب افسانے لکھے اور ان میں کیا لکھا تھا، مگر ہاں یہ قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مشہور افسانہ نویس ہیں، جو کچھ بھی انہوں نے نام پیدا کیا وہ تخلص کے زور سے کیا اور فطرت انسانی کا صحیح مطالعہ کر کے اپنے نام کو مخفف کر کے اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

    (۸) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو آئے دن اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح کسی رسالے کے آنریری ایڈیٹر یعنی مدیر اعزازی بن جائیں۔ اس سے یہ آسانی ہوتی ہے کہ اگر اپنا افسانہ کسی رسالہ کو چھپنے بھیجتے تو وہ اشتہارات کا نرخ پیش کرتا، اب مفت چھپ جائے گا۔ یہ لوگ اڈیٹر کو خط لکھتے ہیں تو عموماً کسی آنریری مجسٹریٹ کے خط سے مسودہ تیار کرتے ہیں جو کمشنر کو لکھا گیا ہو۔ یہ افسانہ نویس سرکار ادب کے آنریری مجسٹریٹ ہیں۔ مدیر اعزازی ہوتے ہی رسالہ ان کا ہو جاتا ہے، خود ایڈیٹر صاحب اس بات پر زور دیا کرتے ہیں کہ اپنے رسالے کا خیال رکھیے، ان کے ہر قسم کے مضامین رسالے میں شائع ہوتے ہیں۔ کسی کے نیچے کبھی ’ٹیگور‘ لکھنا بھول گئے، کبھی ’منقول‘ لکھنے سے رہ گیا۔

    جس طرح آنریری مجسٹریٹ سرکار اور پبلک کی خاطر اپنا خرچ کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی سرکار ادب اور رعایائے ادب کی خاطر اپنا بیش قیمت وقت اور ڈاک خرچہ صرف کرتے ہیں۔ کبھی کبھار آنکھ بچا کر ایک آدھ اوریجنل افسانہ بھی رسالے میں شائع کر دیتے ہیں۔ ایڈیٹر بھی چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کہ چلو رہنے بھی دو۔ روز یہ بدعت تھوڑے ہی ہوگی۔ جس طرح آنریری مجسٹریٹ تساہلی کرے تو اس کے اختیارات ضبط ہو جاتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اگر ٹھیک کام نہ کریں اور توسیع اشاعت میں کوشاں نہ رہیں تو ان کے اختیارات بھی ضبط ہو جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی تقرری کے لیے دوسرے پر گنے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ آنریری مجسٹریٹ کا اور ان دونوں کا منتہائے نظر اور مقصد اوّلین خطاب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایک دن وہ آتا ہے کہ دونوں کو خطاب مل جاتا ہے۔ ایک کو بادشاہ کی سالگرہ پر دوسرے کو رسالے کی سالگرہ پر۔ اس کے بعد ایک کو خان بہادر کہتے ہیں اور ایک کو افسانہ نویس! چنانچہ مدیران اعزازی بھی افسانہ نویس ہیں۔

    قصہ مختصر آج کل ہر مضمون نگار، نامہ نگار، فکاہیہ نگار، مزاحیہ نگار، شاعر، مترجم، وغیرہ وغیرہ افسانہ نگار یا افسانہ نویس کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجھے اس سے کچھ بحث نہیں کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے یا یہ کہ کارروائی کہاں تک صحیح اور درست ہے۔ مجھے تو ایک مبتدی کی توجہ صرف اس بات کی طرف مبذول کرنا ہے کہ وہ محض افسانہ نویسی کے نام کے پیچھے نہ دوڑے، ورنہ کوشش رائیگاں جائے گی۔ اس کو یہ کوشش کبھی نہ کرنا چاہیے کہ کسی نہ کسی طرح لفظ ’’افسانہ نویس‘‘ کا اس پر اطلاق ہوجانا ہی کافی ہے۔ خوب اچھی طرح ایک مبتدی کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان آٹھ طرح کے افسانہ نویسوں میں سے کوئی بھی صحیح معنی میں افسانہ نویس نہیں۔ سوائے قسم اوّل کے اور مبتدی کو طے کرلینا چاہیے کہ اس کو سوائے پہلی قسم کے اور کسی طرح کا افسانہ نگار بننا کسی طرح بھی منظور نہیں۔

    (یہ تحریر مرزا عظیم بیگ چغتائی کی ہے، وہ ممتاز طنز و مزاح نگار، اور ادبی مضمون نویس تھے)

  • طارق چھتاری: "جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے!”

    طارق چھتاری: "جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے!”

    طارق چھتاری کا خیال ذہن میں آتا ہے تو ع۔۔۔ فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں، والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں اور اس میں سن و سال کی کوئی قید نہیں کہ جن کے تصور سے روشنی پیدا ہوتی ہے اور یہ روشنی دیر تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔

    طارق چھتاری سے اپنی پہلی ملاقات یاد نہیں لیکن ان کا تصور آتے ہی جو پہلا منظر سامنے آتا ہے اس کا مختصراً بیان کچھ یوں ہے۔ پس منظر میں مسلم یونیورسٹی کی اونچی سرخ عمارتیں، تارکول کی سڑک کے دو رویہ سرکش و سرسبز درخت، جاڑوں کا موسم، ایک وجیہ و شکیل نو عمر جس کے بدن پر گہرے رنگ کا قدرے لمبا کوٹ تھا اور ہاتھوں میں ایک سرخ بائسیکل کے ہینڈل تھے یا شاید اسکوٹر کے ہینڈل تھے۔ وہ اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہم عمر دو لڑکے اور تھے۔ میں انھیں دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔ یہ لڑکے اس زمانے کی یونیورسٹی کے خوش لباسوں میں یگانہ تھے۔ آج سے تیس بتیس برس پہلے کی یونیورسٹی۔ طارق چھتاری نے ایک مضمون میں اس زمانے کا بڑا سچا اور دل کش نقشہ کھینچا ہے۔ کچھ سطریں اس مضمون سے مستعار ہیں، ’’یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کی پرکشش اور سحر آگیں رومانوی فضا یونیورسٹی کے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُبھارنے اور استعمال کرنے کی محرک ہوا کرتی تھی۔ کنیڈی ہاؤس کا خوش نما احاطہ، مولانا آزاد لائبریری کے سامنے کا وسیع سبزہ زار، فیکلٹی آف آرٹس کی سہ منزلہ جدید طرز کی خوب صورت عمارت کے صدر دروازے پر بنے حوض، مختلف عمارتوں کو ایک دھاگے میں پرونے والی صاف شفاف دھلی دھلائی سی سفید ٹھنڈی سڑکیں۔ پام، ساگون، گل مہر اور یوکلپٹس کے اونچے اونچے درخت۔ کینٹین کے وسیع وعریض ہال کی نیم تاریک اور پُرسکون فضا میں صوفے نہایت سلیقے سے آراستہ ہیں، طالبِ علم خراماں خراماں چلے آرہے ہیں، برآمدے نما پورٹیکو میں داخل ہوتے ہیں اور رنگین شیشوں والے محراب دار بڑے دروازے سے اندر پہنچ کر صوفوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سعادت مند ویٹر پانی کے گلاس ٹرے میں لیے قریب آتے ہیں اور جھک کر میز پر سجا دیتے ہیں۔ سینئر طالبِ علم آرڈر دے دیتا ہے، اس کی آواز اتنی نرم اور دھیمی ہوتی ہے کہ اگر خاص طور سے سننے کی کوشش نہ کی جائے تو شاید برابر بیٹھا شخص بھی نہ سن سکے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ طالبِ علم گفتگو میں محو ہی رہتے ہیں اور ویٹر پانی لگا کر خاموشی سے بغیر آرڈر لیے واپس چلا جاتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد وہ ایک ٹرے میں ٹیکوزی ڈھکی کیتلی، دودھ دان، شکر دان، چمچے اور چند پیالیاں لے کر اس طرح آتا ہے جیسے طالبِ علموں کی خواہشات اور ضروریات سے وہ پہلے سے واقف ہو۔ نہ کسی کو آرڈر دینے کی ضرورت ہے، نہ اسے آرڈر لینے کی، گویا وہ سب کے دل کی زبان سمجھتا ہے۔

    اس زمانے میں اس کینٹین کا کنٹریکٹ اُردو کے ایک مشہور شاعر جناب جاوید کمال کے پاس تھا۔ کاؤنٹر پر کبھی جاوید کمال صاحب اور کبھی میکش بدایونی صاحب بیٹھے نظر آتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد کبھی کبھی جذبی صاحب بھی شام کی چائے پینے اسی کینٹین میں تشریف لاتے۔ ان شخصیات کی موجودگی آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی، صغیر افراہیم، شارق ادیب، فرحت احساس، خورشید احمد، نسیم صدیقی، غضنفر، اظہار ندیم، پیغام آفاقی، پرویز جعفری، عبدالرحیم قدوائی، قمرالہدیٰ فریدی، اسعد بدایونی، شہپررسول، غیاث الرحمٰن، ابن کنول اور سیّد محمد اشرف کو اکثر و بیش تر وہاں کھینچ لاتی۔ گفتگو شروع ہوتی، کبھی کسی ادبی مسئلے پر بحث ہو رہی ہے، کبھی کوئی مضمون پڑھا جا رہا ہے، کبھی شاعری سنی جارہی ہے اور کبھی افسانہ، یہاں سے اٹھ کر یہ احباب کبھی شہریار صاحب تو کبھی قاضی عبدالستار صاحب کے دولت کدے پہنچتے اور بہت سی گتھیاں ان اہل دانش کی گفتگو سن کر سلجھ جاتیں۔ ان دنوں علی گڑھ کے یہ نوجوان ادیب ترقی پسند تحریک اور جدیدیت دونوں کے فکری اور فنی رویوں سے غیر مطمئن تھے اور کسی نئی راہ کی تلاش میں تھے۔

    اس وقت علی گڑھ میں کئی ایسے ریسٹورنٹ تھے جہاں ادیب اور شاعر بیٹھتے۔ کیفے ڈی لیلیٰ، کیفے ڈی پھوس، پیراڈائز، کبیرؔ کا ٹی ہاؤس، عاشق علی کی کینٹین، رائل کیفے اور Monsieurکے علاوہ راجا پنڈر اول کا ایک خوب صورت ریستوراں ’’Seven Stars‘‘ بھی تھا۔ رائل کیفے اور Monsieur جدید طرز کے ریسٹورینٹ تھے جہاں بلیرڈ کی میزیں بھی تھیں مگر سیون اسٹارس ایسا ریستوراں تھا جس میں قدیم وضع کے صوفے، نقشیں چمنیوں والے شمع دان، عالی شان فانوس، انگلستانی کروکری اور خوش اخلاق و خوش گفتار و خوش رو راجا قاسم علی خاں نواب آف پنڈر اوّل کی بہ نفس نفیس موجودگی۔ وہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے، شعر سنتے اور شعر سناتے۔‘‘

    ان ناموں میں جاوید حبیب، نذیر بوم اور محی الدین اظہر کانام بھی شامل سمجھا جائے۔

    اس زمانے میں دن طویل ہوتے تھے اور راتیں طویل تر۔ کلاس روم کی پڑھائی کے علاوہ ذہن پر اگر کوئی بوجھ ہوتا تھا توبس یہ کہ اخراجات کے لیے گھر سے جو روپے آتے ہیں وہ مہینہ سے پہلے ختم نہ ہوجائیں۔ دل میں ترنگیں تھیں اور آنکھوں میں اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے، گلابی گلابی رنگوں کے خواب لشکارے مارتے تھے۔ اس زمانے میں زندگی کے طے شدہ مقاصد کا اتنا رواج نہیں تھا جتنا اب ہے۔ خود میں نے یونیورسٹی چھوڑ نے سے ڈیڑھ دو برس پہلے سوچا تھا کہ مستقبل میں دو وقت کی روٹی کا کیا انتظام ہو۔ طارق چھتاری نے بھی یقیناً وقت کو اتنے ہی عرصے تک بہلا پھسلا کر رکھا ہوگا اور غالباً دوستوں نے ایساہی کیا ہوگا۔ وہ وقت اور تھا۔ شروع میں طارق چھتاری کا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھا جو عرفِ عام میں شاعر و ادیب کہلاتے تھے۔ پھر دھیرے دھیرے شاعروں اور ادیبوں کی جماعت کو احساس ہوا کہ ایک ذہین، شگفتہ مزاج، باحوصلہ اور بامروت شخص آپ ہی آپ ان کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ بغیر کسی اعلان کے ہوا تھا۔ میرے استاد زادے اور ہم وطن اور بڑے بھائی کے دوست شارق ادیب (ڈاکٹر مظفر سیّد) نے ایک دن چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا،

    ’’یارا شرف! طارق کو دیکھ کر فاختہ کا خیال آتا ہے۔‘‘

    مجھے ان کا یہ جملہ آدھا سچ لگا۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ بولے، ’’یہ اس لیے کہ فاختہ کسی کو زک نہیں پہنچاتی۔ بے ضرر ہوتی ہے۔‘‘

    طارق چھتاری کے بارے میں اس وقت میری معلومات کم تھیں لیکن پرندوں کے بارے میں اچھی خاصی تھیں۔ میں نے کہا، ’’فاختہ اپنے سے چھوٹی چڑیا کے لیے رحم دل ہے لیکن اس سے زیادہ طاقت کا کوئی پرندہ اگر اس کو تکلیف دے تو وہ فضا میں اُڑ اُڑ کر اس سے ٹکر لیتی ہے۔‘‘

    میں نے اپنے قصبے کے آنگن میں لیٹے لیٹے ایسے کئی منظر یاد کیے جس میں بڑی فاختہ (یا حق تو، یا دوست تو) نے فضا میں اس کوے پر کئی کاری جھپٹیں کی تھیں جو اس کا گھونسلہ خراب کرنا چاہتا ہے۔ میں نے یہ سب بیان کیا تو شارق ادیب ہنس پڑے۔

    اس شام ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ طارق چھتاری کوؤں کے علاوہ باقی تمام مخلوق کے لیے فاختہ کی طرح بے ضرر ہیں۔

    کچھ دن بعد شارق ادیب نے مجھے مطلع کیا کہ چوں کہ طارق چھتاری نجی محفلوں میں کسی غائب شخص کے بارے میں برے کلمات نہیں کہتے، اسی بے ضرر ہونے کی صفت کی وجہ سے انھیں فاختہ سے تشبیہ دی گئی۔ اب جو غور کیا تو طارق چھتاری کے کردار کی ایک اور خوبی سامنے آئی کہ وہ کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے۔ یہ خوبی یا خرابی اب تک باقی ہے۔

    اس زمانے میں طارق چھتاری کو بزرگوں سے بہت لگاؤ تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں جب جب رشید صاحب کے گھر گیا تو طارق چھتاری وہاں موجود تھے یا دروازے سے نکل رہے تھے، یا رشید صاحب نے ان کی آمد کا ذکر کیا۔

    1975ء تک علی گڑھ کے طالبِ علم ادیب دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے، لیکن میں نے اکثر دیکھا کہ طارق چھتاری کو کسی کے ساتھ سے پرہیز نہیں تھا۔ علی گڑھ میں اس وقت علم و ادب سے وابستہ مندرجہ ذیل شخصیات تھیں۔ طارق چھتاری نے اپنے ایک ہم عصر پر شخصی مضمون لکھتے وقت ان سب کو یاد کیا ہے۔

    طارق چھتاری کے خلاقانہ انتظام کا ایک نمونہ گورکھ پور ریڈیو اسٹیشن پر نظر آیا۔ طارق چھتاری نے فکشن پر ایک ایسے سمینار کا اہتمام کیا جس میں اردو اور ہندی کہانی لکھنے والوں کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اردو اور ہندی کی کہانی پر دو مضمون پڑھے جاتے ایک اردو نقاد کا دوسرا ہندی نقاد کا۔ مقصد صرف یہ نہیں تھاکہ دونوں زبانوں کے ادیب اور نقاد ایک ساتھ جمع ہوجائیں۔ اصل مدعا یہ تھاکہ ایک زبان کی کہانی پر اسی زبان کے نقاد اور دوسری زبان کے نقاد کی تنقید کا فرق سامنے آسکے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس بہانے کئی اچھے افسانے اور کئی اچھے مضامین وجود میں آگئے۔

    نیّر مسعود نے اپنی کہانی ’’وقفہ‘‘ پڑھی تھی۔ خورشید احمد نے ایک ہندی کہانی پر بہت اچھا مضمون پڑھا تھا۔ دو دن کی ان محفل آرائیوں کے روح رواں طارق چھتاری تھے۔ ان محفلوں میں قاضی عبدالستار اور کے پی سنگھ جیسے بزرگ بھی تھے، گو اس وقت وہ ایسے بزرگ نہیں تھے۔ ایک لطیفے کا صدور بھی ہوا۔ علی گڑھ سے جب گورکھ پور چلنے کی تیاری ہورہی تھی تو میں نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ آپ میرا بھی ریزرویشن کرا دیں، جب وہاں ریڈیو سے پیسہ ملے گا تب ادا کر دوں گا۔ فرمایا، ’’آپ خورد ہیں اورآپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے بڑوں سے ایسی فرمائش کریں۔ میں کے پی سنگھ سے کہتا ہوں۔‘‘

    غرض یہ کہ ریزرویشن ہوا اور ہم لوگ گورکھ پور پہنچے۔ کڑاکے کے جاڑے تھے۔ تمام ادیب گرم لباس میں ملبوس تھے۔ دوپہر کے وقت ریڈیو سے پیسے ملے۔ میں نے فوراً حساب لگایا اور بیچ محفل میں جا کر قاضی صاحب سے کہا، ’’یہ ٹکٹ کے پیسے ہیں۔‘‘

    انھوں نے تیوری چڑھا کر ڈانٹا اور کہا، ’’خوردوں کو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح بزرگوں کو روپے واپس کریں۔ میں ان روپوں کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا۔ آپ یہ روپے کے پی سنگھ کو دے دیں۔ میں ان سے لے لوں گا۔ یا بصورت دیگر کل صبح جب میں دستانے پہنے ہوں تب آپ یہ روپے مجھے دیجیے گا۔‘‘

    علی گڑھ میں کوئی ادیب شاعر آئے، شہریار اور طارق چھتاری سے ضرور ملاقات کرتا ہے۔ طارق چھتاری شعبۂ اُردو سے مہمان خانے تک اس مہمان کا ساتھ دیتے ہیں اور ضرورت پڑے تو اس مہمان کی ملاقات یونیورسٹی کے دوسرے ادیبوں سے کرانے میں پٹرول اور وقت دونوں کی پروا نہیں کرتے اور یہ سب کچھ بے غرض ہوتا ہے۔ وہ شعبۂ اُردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے غیر رسمی چیف آف دی پروٹو کول ہیں۔ طارق چھتاری ادب میں اپنی شہرت اور مقبولیت اور شعبے میں منصب کے اس درجے پر فائز ہیں کہ انھیں ان محنتوں اور زحمتوں کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن ان معاملات میں وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ بنگال کے کسی دور افتادہ قصبے کا اُردو کا کوئی استاد اگر شعبۂ اُردو میں قدم رکھے گا تو سب سے پہلے طارق چھتاری کو ہی دریافت کرے گا اور یہ عین ممکن ہے کہ طارق چھتاری نے اس دن سے پہلے اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھی ہوگی۔

    ادبی جلسوں میں طارق چھتاری سب کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ ادیب اور شاعر انھیں بہت توجہ سے سنتے ہیں۔ کسی سمینار یا سمپوزیم کی نظامت کر رہے ہوں یا Moderation کر رہے ہوں تو ان کی باتیں سننے میں دل لگتا ہے۔ ادبی معاملات میں وہ بہت صاف گو ہیں لیکن یہ صاف گوئی کسی کی دل آزاری یا حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بنتی۔ وہ اپنی بات بہت سلیقے، تہذیب اور پُر زور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

    ستر کی دہائی کے آخری حصے میں ان کی کہانیاں سامنے آئیں۔ یہ وقت ترقی پسندی اور جدیدیت کی سخت آویزش کا دور تھا۔ طارق چھتاری اور علی گڑھ میں ان کے معاصرین ان دونوں گروہوں میں سے کسی ایک کے بھی باد فروش بننا نہیں چاہتے تھے۔ ان دونوں گروہوں کے بڑوں کے درمیان کھڑے ہوکر طارق چھتاری بہت اطمینان سے اپنا موقف بیان کرتے اور لہجے کو تاب دار کیے بغیر اپنی بات مکمل کرکے ہی گفتگو ختم کرتے۔ ہم لوگ ذرا اکھڑ لہجے، طنز آمیز مکالموں اور دل آزار جملوں سے کام لیتے تھے۔ اس لیے اکثر بھول چوک ہوجاتی تھی۔ طارق چھتاری ایسے تمام موقعوں پر اپنے نرم لہجے، دلیل کی قطعیت اور مناسب مثالوں کے ہتھیاروں سے کام لے کر ہم لوگوں کی حماقتوں کی تلافی کردیتے تھے۔

    ( طارق چھتاری اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ وہ 1970ء کے بعد کی نسل کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ بھارت کے معروف ادیب اور افسانہ نگار سید محمد اشرف کے طارق چھتاری کے فن اور شخصیت پر ایک مضمون سے یہ پارے نقل کیے گئے ہیں)

  • معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اور روکھی روٹی

    معین احسن جذبی اردو زبان کے ان شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں بہت کم کہا، لیکن اردو ادب کے معتبر اور نمایاں شاعروں میں شمار ہوئے۔ ان کی شاعری نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور ان کے متعدد اشعار ضرب المثل بنے۔

    اردو زبان کے اس مقبول شاعر سے متعلق غضنفر علی کے ایک مضمون سے یہ اقتباسات مصنّف کی یادوں پر مشتمل ہیں۔ غضفر علی کا تعلق بھارت سے ہے۔ وہ شاعر، ناقد اور فکشن رائٹر ہیں۔ انھوں نے اس تحریر میں جذبی سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ معین احسن جذبی 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں وفات پاگئے تھے۔ غضنفر لکھتے ہیں:

    "احمد جمال پاشا نے جب میرا تعارف کرایا تو جذبی صاحب اس درجہ خوش ہوئے جیسا کہ کوئی مشفق استاد یا شفیق باپ ہوتا ہے۔ مجھ سے ان کے خوش ہونے کی میرے خیال میں تین وجہیں رہی ہوں گی، پہلی وجہ یہ کہ میں اس شعبے کا طالب علم تھا جسے جذبی نے اپنا گھر سمجھا۔ دوسری یہ کہ میں اس زبان میں ریسرچ کررہا تھا جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز تھی اور تیسری شاید یہ کہ میرے اندر بھی وہ صلاحیت موجود تھی جس کی بدولت کوئی تخلیقی فن کار کسی کو اپنے قبیلے کا فرد سمجھنے لگتا ہے۔ ان میں قوی تر سبب یہ تھا کہ میں ان کے شعبے کا طالبِ علم تھا جو اس حقیقت کا غماز بھی تھا کہ اُن کو اپنے شعبے سے کس درجہ لگاؤ تھا، مگر افسوس کہ اس شعبے نے ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور اس حد تک گزند پہنچائی کہ انھوں نے برسوں اس کی طرف رخ نہیں کیا۔ یہ شعبے کی کوئی نئی بات نہیں تھی، بلکہ یہ روایت پہلے سے چلی آرہی تھی اور بعد تک باقی رہی۔ اس روایت کی آگ میں رشید احمد صدیقی بھی جلے، آلِ احمد سرور بھی جھلسے اور کئی دوسرے بھی اس کی لپٹوں میں لپیٹ لیے گئے۔ اس شعبے کی ایک مثبت اور مضبوط روایت بھی رہی۔ وہ یہ کہ بہت دنوں تک اس میں تخلیقیت کا بول بالا رہا۔ رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھ پوری، آلِ احمد سرور، معین احسن جذبی، خورشید الاسلام، خلیل الرحمان اعظمی، راہی معصوم رضا، شہریار، قاضی عبدالستار ایک سے ایک مشہورِ زمانہ تخلیق کار اس سے وابستہ رہے اور اپنے فن پاروں سے اس کے نام میں چار چاند لگاتے رہے مگر دل کو گداز کرنے، ذہن کو بالیدہ بنانے اور روح کو گرمانے والی اس روایت کو کسی کی نظر لگ گئی۔ غیر تخلیقیت کے سحر نے اس کے ارد گرد ایسا حصار کھڑا کیا کہ تخلیقیت کا داخلہ بند ہوگیا۔ تخلیقیت کے اکّے دکّے نمائندے کسی طرح داخل ہونے میں کام یاب ہوئے بھی تو وہ ہمیشہ غیر تخلیقی بلاؤں کی زد پہ رہے۔

    سیوان کی اس ملاقات میں گوشہ نشینی اختیار کرنے اور مسلسل چپّی سادھ لینے والے جذبی نے ایسی جلوت پسندی اور محفل بازی کا ثبوت دیا کہ ہم دنگ رہ گئے۔ دورانِ دورِ میکشی انھوں نے ایسے ایسے قصّے سنائے اور نشے کی ترنگوں کے ساتھ لطائف کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑے کہ ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ عالمِ سرور میں ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں جذبی نے ترنم سے غزلیں بھی سنائیں۔ ترنم سے غزلیں سنتے وقت بار بار مجھے ایک واقعہ یاد آتارہا: کسی محفل میں یونی ورسٹی کے ایک استاد نے جذبی سے ترنم کی فرمائش کر دی۔ جسے سن کر جذبی چراغ پا ہوگئے اور غصّے میں ایسا دیپک راگ الاپنا شروع کیا کہ لیکچرر صاحب کو اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا۔ وہ تو بھلا ہو اس محفل میں موجود کچھ نبض شناس سینئر استادوں کا کہ جنھوں نے انگلیوں میں دبے سگار کو ماچس کی تیلی دکھا دکھا کر جذبی کی حالتِ جذب کو ٹھنڈا کیا ورنہ تو اس جونیئر استاد کا اس دن خدا ہی حافظ تھا۔

    اس واقعہ کے ساتھ ساتھ میں جذبی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایک طرف تو جذبی کسی استاد کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب بغیر کسی فرمائش کے طلبہ کو ترنم سے غزل سناتے ہیں۔ جذبی کی شخصیت کا یہ تضاد پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آیا، ہاں اتنا ضرور محسوس ہوا کہ جذبی طریقتِ شعر و سخن کے مجذوب تھے۔ مجذوب جو صرف من کی سنتا ہے۔ من کہتا ہے تو اللہ ھو کا نعرۂ مستانہ بھی لگاتا ہے اور من نہیں کہتا ہے تو بس ہُو کا عالم لیتا ہے۔

    اس ملا قات کے دوران جذبی کے جذب و مستی کے کئی اور رنگ بھی دیکھنے کو ملے، غزل سنانے کے بعد شراب کا ایک لمبا گھونٹ بھر کر بولے غضنفر! کباب کے بغیر شراب پینا کیا ایسا نہیں لگتا جیسے غریب مزدور روکھی روٹی کھا رہے ہوں مگر ہم لوگ تو غریب ہیں نہیں، تو پھر یہ روکھی روٹی کیوں؟ جاؤ گھر والوں کو بولو کہ کباب دے جائیں۔

    میں محفل سے اٹھ کر جمال پاشا کے قلعہ نما محل کے دروازے کے پاس پہنچا اور آہستہ آہستہ دستک دینا شروع کیا۔ پانچ سات منٹ تک مسلسل دستک دینے کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھلا تو جذبی صاحب اٹھ کر خود بھی دروازے کے پاس آگئے اور بولے:

    ’’اس طرح ناک کرنے سے بڑے دروازے نہیں کھلتے، انھیں پیٹنا پڑتا ہے۔ یوں۔‘‘ اور وہ دھڑا دھڑ دروازے پر مُکّے مارنے لگے۔ دھڑدھڑ کی آواز پر واقعی دروازہ کھل گیا۔ ایک گھبرایا اور ہڑبڑایا ہوا خادم قسم کا آدمی باہر نکلا اور ہکلاتا ہوا بولا،

    ’’جی، فرمائیے۔‘‘

    ’’کباب لاؤ! کباب۔‘‘ میرے منہ کھولنے سے پہلے ہی جذبی صاحب بول پڑے‘‘

    کباب! وہ اس طرح چونکا جیسے کسی پکّے مسلمان سے شراب پلانے کی فرمائش کر دی گئی ہو۔‘‘

    ’’ہاں بھئی کباب؛ کہو تو ہجّے کر کے بتاؤں‘‘ جذبی صاحب کا لہجہ سخت ہوگیا۔

    ’’مگر کباب تو نہیں ہیں۔‘‘ قدرے سنبھلتے ہوئے اس خادم نما آدمی نے جواب دیا

    ’’کیا کہا؟ کباب نہیں ہیں؟ اتنی بڑی حویلی، وہ بھی ایک مسلمان رئیس کی اور کباب نہیں؟ نہیں نہیں، کباب ضرور ہو گا جا کر کچن میں دیکھو!‘‘ جذبی صاحب کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ اس شاندار حویلی میں کباب نہیں ہوں گے۔

    وہ آدمی چپ رہا۔

    ’’کیا اس حویلی میں کچن نہیں ہے؟‘‘

    کچن کیوں نہیں ہوگا صاحب!‘‘

    تو پھر جاتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’بات یہ ہے صاحب۔۔۔‘‘

    ’’ہم کچھ سننے والے نہیں، تم جاؤ اور فوراً کباب لاؤ۔ ہمارے منہ کا مزہ بگڑا جا رہا ہے جاؤ! منہ کیا تاک رہے ہو؟‘‘جذبی صاحب نے اسے بولنے نہیں دیا۔

    اس خادم یا خادم نما آدمی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے عزّت دار مالک کے اس معزز مہمان سے کس طرح نمٹے کہ قدرت کو اس کی حالت پر ترس آگیا اور اس نے اس کی مدد کے لیے خود مالک کو بھیج دیا۔ عین اسی وقت احمد جمال پاشا اپنی موٹر سے آدھمکے۔ شاید ہمیں وہ لینے آئے تھے۔ موٹر سے اتر کر سیدھے دروازے کے پاس آگئے۔ غالباً انھوں نے ہمیں دور ہی سے دیکھ لیا تھا۔ پاس آکر گھبراہٹ کے لہجے میں بولے:

    ’’سر! آپ یہاں؟‘‘

    ’’ارے بھائی! تمھارے اس خادم سے کب سے کباب لانے کو کہہ رہے ہیں مگر یہ ہے کہ۔۔۔

    ’’سر! آج کھانے کا انتظام کالج میں کیا گیا ہے نا، اس لیے یہاں کے تمام باورچی ادھر لگے ہوئے ہیں۔‘‘ جمال پاشا نے صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔

    ’’باورچی ہی تو گئے ہیں کچن اٹھ کر تو نہیں چلاگیا!‘‘ جذبی صاحب نے صورتِ حال کو پھر سے بے قابو کر دیا۔

    ’’دراصل کئی دنوں سے کالج فنکشن میں مصروف ہونے…

    ’’رہنے دو، رہنے دو، میں سب سمجھ گیا۔ پاشا تم کیسے مسلمان ہو کہ گھر میں کباب تک نہیں رکھتے۔ لگتا ہے یہاں آ کر تم بھی بہاری ہوگئے ہو۔‘‘

    ’’بہاری ہی نہیں سر!میں تو شدھ شاکا ہاری بھی ہوگیا ہوں، مانسا ہاری۔۔۔ بیماریوں نے جسم و جان کو دبوچ جو رکھا ہے۔ جلد تشریف لے چلیے، شامی، سیخ اور بہاری تینوں وہاں آپ کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

    ’’پاشا! میں مان گیا کہ تم واقعی مزاح نگار ہو۔ اپنے گھر کی عریانیت پر تم نے کتنا خوب صورت اور دبیز پردہ ڈال دیا، چلو میں نے تمھیں معاف کیا۔‘‘

    مصنّف نے اپنے اس مضمون کا عنوان ‘دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں’ رکھا ہے جو معین احسن جذبی کی اس مشہور غزل سے مستعار لیا گیا ہے‌۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
    یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

    جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
    اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

    جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
    جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

    دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
    دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

  • “رنگیل پیڑھی“

    “رنگیل پیڑھی“

    اگر کسی نے اللہ کو پانا ہو تو وہ صبر کرنے لگ جائے تو اس کا کام بن جاتا ہے جب کہ لوگ اس کے لئے ورد، وظیفے کرتے ہیں۔ ناک رگڑتے ہیں، لیکن اللہ کو صبر کرنے والے پا لیتے ہیں۔

    میں نے شاید اسی محفل میں پہلے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میری ایک تائی تھیں۔ وہ تیلن تھی۔ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ تائی بے چاری کولہو پیلتی تھی۔ نہایت پاکیزہ عورت تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئی لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ جب میں اس سے ملا تو تائی کی عمر کوئی ساٹھ برس کے قریب تھی۔ اس کے پاس ایک بڑی خوبصورت “رنگیل پیڑھی“ تھی، وہ اسے ہر وقت اپنی بغل میں رکھتی تھی، جب بیل کے پیچھے چل رہی ہوتی تو تب بھی وہ اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ وہ ساگ بہت اچھا پکاتی تھی اور میں سرسوں کا ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ وہ مجھے گھر سے بلا کے لاتی تھی کہ آ کے ساگ کھا لے، میں نے تیرے لئے پکایا ہے۔

    ایک دن میں ساگ کھانے اس کے گھر گیا۔ جب بیٹھ کر کھانے لگا تو میرے پاس وہی “پیڑھی“ پڑی تھی۔ میں نے اس پر بیٹھنا چاہا تو وہ کہنے لگی “ ناں ناں پتر ایس تے نئیں بیٹھنا“ (نہ نہ بیٹا، اس پر مت بیٹھنا)، میں نے کہا کیوں اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ کیا میں تیرا پیارا بیٹا نہیں۔ کہنے لگی تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے۔ تو مجھے سارے گاؤں سے پیارا ہے لیکن تو اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔

    کہنے لگی بیٹا جب تیرا تایا فوت ہوا تو مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ “بی بی تیرے اوپر بہت بڑا حادثہ گزرا ہے لیکن تو اپنی زندگی کو سونا بھی بنا سکتی ہے۔ یہ تجھے اللہ نے عجیب طرح کا چانس دیا ہے۔ تو اگر صبر اختیار کرے گی تو اللہ تیرے ہر وقت ساتھ ہو گا کیونکہ یہ قرآن میں ہے کہ “اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ تائی کہنے لگی کہ میں نے پھر صبر کر لیا۔ جب کئی سال گزر گئے تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تو ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے اور اس کے بیٹھنے کے لئے ایک اچھی سی کرسی چاہیے کہ نہیں؟ تو میں نے “رنگیل پیڑھی“ بنوائی اور اس کو قرینے اور خوبصورتی سے بنوایا۔ اب میں اس کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہوں اور جب بھی اللہ کو بیٹھنا ہوتا ہے میں اسے اس پر بٹھا لیتی ہوں۔ میں کپڑے دھوتی ہوں، اپنا کام کرتی ہوں، روٹیاں ساگ پکاتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے اور وہ صبر کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔

    خواتین و حضرات ایسے لوگوں کا تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اس بات کو یہاں تک محسوس کیا۔ وہ قرآن میں کہی بات کو دل سے مان گئے وہ خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔ ہم جیسے لوگ “ٹامک ٹوئیاں“ مارتے ہیں اور ہمارا رخ اللہ کے فضل سے سیدھے راستے ہی کی طرف ہے۔ ہم سے کچھ کوتاہیاں ایسی ضرور ہو جاتی ہیں جو ہمارے کئے کرائے پر “ کُوچی“ پھیر دیتی ہیں۔ جس سے ہمارا بدن، روح، دل خراب ہو جاتا ہے۔

    (ممتاز ادیب اور دانشور اشفاق احمد کی کتاب زاویہ دوّم سے اقتباس)

  • قصہ گوئی: یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے!

    قصہ گوئی: یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے!

    جامع مسجد دہلی کے ’’دروازہ شمالی کی طرف ۳۹ سیڑھیاں ہیں۔ اگرچہ اس طرف بھی کبابی بیٹھے ہیں اور سودے والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑا تماشا اس طرف مداریوں اور قصہ خوانوں کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خواں مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستانِ امیر حمزہ کہتا ہے۔ کسی طرف قصہ حاتم طائی اور کہیں بوستان خیال ہوتی ہے اور صد ہا آدمی اس کے سننے کو جمع ہوتے ہیں۔‘‘
    (آثارُ الصنادید۔ سرسید احمد خان)

    دلّی والوں کو قصہ کہنے اور سننے کا یہ چسکا کچھ سر سید ہی کے زمانے میں نہ تھا، بلکہ محمد شاہی عہد میں بھی ان کا یہی عالم تھا۔ خواجہ بدرالدّین امان دہلوی بوستانِ خیال کے مترجم حدایق الانضار کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’اتفاقاً جہاں میر محمد تقی خیال (مصنف بوستان خیال) فروکش تھا، قریب مکان کے ایک نشست گاہ میں چند اشخاص جمع ہوتے تھے اور ایک قصہ گو ان کے روبرو امیر حمزہ کا جو تمام جہان میں مشہور ہے، بیان کیا کرتا تھا۔‘‘

    قصہ گوئی کی یہ عادت دنیا کی ہر تہذیب اور ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ جہاں ارسطو نے آدمی کو سیاسی حیوان اور حیوان ناطق ایسے نام دیے، وہاں اسے ایک نام قصہ گو کا بھی دینا چاہیے۔ گویا قصہ کہنے پر وہ مختار ہی نہیں بلکہ مجبور بھی ہے۔ وہ اپنی نفسیات کے دفینے اور اپنے مستقبل کے خواب کو انہی قصوں کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ خواہ وہ قصّے دیوی دیوتا، جن و پری، وحوش و طیور کے ہوں یا اشجع پاستاں اور ہمارے آپ کے ایسے چلتے پھرتے انسانوں کے۔ یہ سارے اقسام قصص کے اس ایک مظہر کی مختلف صورتیں ہیں کہ جن نعمتوں سے ہمیں زندگی میں محروم کیا جاتا ہے، ہم ان کے حصول کی آرزو اپنے خوابوں کی دنیا میں کرتے ہیں۔ باتیں ساری عالم کی ہی ہوتی ہیں، صرف ان کا اعادہ عالمِ خواب میں کیا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ قصہ گو جس قدر بے خود و بے ہوش اور خواب میں ڈوبا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ وحدت زماں یا قومی تاریخ کی وحدت کا احساس رکھتا ہے۔

    لیکن چوں کہ قصہ صرف قومی یا انفرادی نفسیات ہی کی ایک تاریخ نہیں ہے بلکہ انسانی تجربات کے نچوڑ، تصورِ حیات و کائنات کی ترسیل کا بھی ایک ذریعہ ہے، اس لئے یہ عالمِ بے داری کی بھی ایک شے ہے۔ وہ ایک مخصوص عہد کے ایک مخصوص معاشرے کے شعور کا بھی مظہر ہوتا ہے۔ اس شعور کی نوعیت اور اس کی سطح کیا ہے؟ مظاہرِ فطرت کو دیوی دیوتاؤں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے یا ان سے جدا کر کے ان کے اسباب و حل پر غور کیا گیا ہے۔ یہ باتیں تاریخی اور اضافی ہیں۔ اس سے اس بات پر حرف نہیں آتا کہ آدمی فطرتاً قصہ گو واقع ہوا ہے۔ وہ حقیقت کو خواہ وہ عالمِ خواب کی ہو یا عالمِ بے داری کی، زندگی کی ہو یا بعد زندگی کی، ٹھوس اور محسوس صورتوں میں متصور کرنے کا عادی رہا ہے، عادی ہے اور غالباً رہے گا۔

    قصہ گوئی زندگی سے فرار اختیار کرنے کا نہیں بلکہ زندگی سے دست و گریباں رہنے کا ایک مقصدی مشغلہ ہے۔ ہم زندگی میں جن طاقتوں سے ہار جاتے ہیں انہیں خواب میں یا ان قصوں میں مفتوح کرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ ہم جن چیزوں کی آرزو میں مرتے ہیں، ان کی تحصیل کا خواب انہی کہانیوں میں دیکھتے ہیں، لیکن ان کہانیوں کا یہ صرف ایک پہلو ہے، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی کے سفر میں جو نشیب و فراز، امتداد سن و سال کے آتے ہیں، ان سے مساعدت اور مطابقت پیدا کرنے کی تعلیم اور بقدرِ حوصلہ مبدا و معاد کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام بھی ہم ان کہانیوں کے ذریعے لیتے آئے ہیں۔ زندگی کی اس عظیم خدمت کو جو ہم ان کہانیوں سے لیتے آئے ہیں کیوں کر فرار اور عیش کوشی سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قصہ کہنے کے لیے فراغت درکار ہے اور اس کے سننے کے لئے شاید اس سے زیادہ فراغت چاہیے اور یہ فراغت اسی وقت ملتی ہے جب کہ معاشی خوش حالی ہوتی ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد ہی تفریح ہے، جیسا کہ مرزا غالب نے ازراہ تفنن طبع کہا ہے، ’’داستان گوئی من جملہ فنونِ سخن ہے۔ سچ ہے دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔‘‘

    تفریح تو اس کا صرف ایک پہلو ہے، جیسا کہ کسی بھی مقصد کی تعمیل میں پایا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ مقصد بہ حسنِ تمام پورا ہو۔ مقصد اور ادائے مقصد کا اتحا د ہی کسی عمل کو فن کارانہ عمل میں تبدیل کرتا ہے، حسن ان دونوں کے اتحادِ کامل سے نمو پاتا ہے۔ نہ کہ وہ پہلے سے کہیں موجود رہتا ہے۔ تبھی تو ہمارے شعرا دستِ قاتل کی اداکاری کی بھی داد دیتے رہے ہیں۔ ع: نظر لگے نہ کہیں ان کے دستِ بازو کو۔

    پھر بھی وہی فرماتے ہیں کہ یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔ شاید اس لیے کہ ہمارا یہ فن ان کے زمانے میں زندگی کے مقاصد سے اپنا رشتہ توڑ رہا تھا۔ لیکن ہم ان کی یہ بات اس دور کی داستان کے بارے میں کیوں کر سچ مانیں، جب کہ ہمارے فن اور ہماری زندگی کے مقاصد کے درمیان ایک گہرا رشتہ تھا۔ میں نے قصہ چہار درویش کو اسی نقطۂ نظر اور اسی زمانے کے پس منظر میں دیکھا ہے، لیکن اس سے اس حقیقت پر پردہ نہیں پڑتا ہے کہ غالب کے زمانے سے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب سے سر سیّد احمد خاں نے سوپر نیچرل کو نیچرل کے میدان سے خارج کر دیا، داستان گوئی جس میں سوپر نیچر کا ذکر لازمی طور سے ہوتا، ہمارے لیے صرف دل بہلانے کا ایک فن رہ گیا تھا اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لیے ہم معذرت خواہ ہوں۔

    زندگی کے ارتقائی تغیرات میں نہ صرف زندگی کے مقاصد بدلتے رہتے ہیں بلکہ حصول مقاصد کے ذرائع بھی بدلتے رہتے ہیں۔ سرسید کے نیچری عہد میں داستانوں نے ناول اور مختصر کہانیوں کے لیے جگہ خالی کی، جن میں اب ہم نیچرل دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن اس سے داستانوں سے لطف اندوز ہونے کی ہماری صلاحیت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے برعکس کچھ زیادہ بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ اب ہم ان داستانوں کی جذباتی اور داخلی گرفت سے آزاد ہو گئے ہیں۔ آج ان کا تجزیہ ہم خارجی انداز سے کرنے پر زیادہ قادر ہیں اور جس طرح کہ ایک بالغ آدمی اپنے بچپن کے تجربوں کے اعادے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہوتا ہے، اسی طرح اس عہد کا بالغ آدمی بھی، ان داستانوں کے مطالعے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے طریقِ فکر کی بدلتی ہوئی صورت کو دیکھ کر ازمنہ قدیم کے طریقِ فکر کو سمجھنے پر زیادہ سے زیادہ قادر ہو سکتا ہے اور اس طرح انسانی نفسیات کے مطالعے میں زیادہ گہرائی اور بصیرت حاصل کر سکتا ہے۔

    (اردو کے ترقی پسند نقاد اور محقق ممتاز حسین کے مضمون سے اقتباسات)

  • شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ہند کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور مذہب کی بنیاد پر فسادات میں قتل و غارت گری پر کئی افسانے اور مضامین سپردِ‌ قلم کیے ہیں جو زمین پر لکیر کھینچے جانے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اس وقت کے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ لرزہ خیز اور نہایت درد ناک بھی ہیں اور بعض جگہ ان واقعات کی بدولت ایک مضحکہ خیز اور دل چسپ صورتِ حال نے جنم لیا۔

    منٹو ایک مضمون میں دو ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جو اسی دور میں بلوے اور لڑائی جھگڑوں‌ کے دوران پیش آئے۔ یہ غالباً ہندوستان کے کسی شہر میں پیش آنے والے دو دل چسپ واقعات ہیں۔ منٹو لکھتے ہیں:

    ایک سڑک پر ایک انگریز اپنی موٹر میں جا رہا تھا۔ چند آدمیوں نے اس کی موٹر روک لی۔ انگریز بہت گھبرایا کہ نہ معلوم یہ سر پھرے لوگ اس کے ساتھ کس قسم کا وحشیانہ سلوک کریں گے، مگر اس کو حیرت ہوئی جب ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’دیکھو، اپنے شوفر کو پیچھے بٹھاؤ اور خود اپنی موٹر ڈرائیو کرو۔۔۔ تم نوکر بنو اور اس کو اپنا آقا بناؤ۔‘‘ انگریز چپکے سے اگلی سیٹ پر چلا گیا۔ اس کا شوفر بوکھلایا ہوا پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بلوہ پسند لوگ اتنی سی بات پر خوش ہو گئے۔ انگریزکی جان میں جان آئی کہ چلو سستے چھوٹ گئے۔

    ایک جگہ بمبئی کے ایک اردو فلمی اخبار کے ایڈیٹر صاحب پیدل جا رہے تھے۔ بل وصول کرنے کی خاطر انہوں نے سوٹ ووٹ پہن رکھا تھا۔ ہیٹ بھی لگی تھی۔ ٹائی بھی موجود تھی۔ چند فسادیوں نے انہیں روک کر کہا، ’’یہ ہیٹ اور ٹائی اتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے ڈر کے مارے یہ دونوں چیزیں ان کے حوالے کر دیں۔ جو فوراً دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونک دی گئیں۔ اس کے بعد ایک نے ایڈیٹر صاحب کا سوٹ دیکھ کر کہا، ’’یہ بھی تو انگریزی ہے، اسے کیا نہیں اتروانا چا ہیے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب سٹپٹائے کہ اب کیا ہوگا، چنانچہ انہوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ ان لوگوں سے کہا، ’’دیکھو، میرے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے جسے پہن کر میں فلم کمپنیوں میں جاتا ہوں اور مالکوں سے مل کر اشتہار وصول کرتا ہوں۔ تم اسے جلا دو گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ میری ساری بزنس برباد ہو جائے گی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کی آنکھوں میں جب ان لوگوں نے آنسو دیکھے تو پتلون اور کوٹ ان کے بدن پر سلامت رہنے دیا۔