Tag: اردو اقتباس

  • غیاث احمد گدی اور جامِ سفال!

    غیاث احمد گدی اور جامِ سفال!

    آزادی کے بعد بھارت میں جو افسانہ نگار سامنے آئے ان میں غیاث احمد گدی بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے سیدھے سادے اور علامتی و استعاراتی انداز میں بھی افسانے لکھے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ استعاراتی و علامتی انداز بیان کے باوجود ان میں کہانی پن موجود ہے۔ غیاث احمد گدی نے اپنی افسانہ نویسی کی ابتدا خاص قسم کے معاشرتی افسانوں سے کی جن میں معاشرہ کے مختلف پہلوؤں کو مختلف زاویوں سے پیش کیا۔

    اردو کے افسانہ نگار اور ہندوستانی زبانوں کے فکشن کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنے کے لیے پہچان رکھنے والے سلام بن رزاق نے غیاث احمد گدی سے اپنی ایک ملاقات پر تاثراتی تحریر رقم کی تھی جس سے ایک پارہ قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ ان دونوں شخصیات کا تعلق بھارت سے تھا۔ سلام بن رزاق لکھتے ہیں:

    ان(غیاث احمد گدی) سے چوتھی اور آخری بار میں 1978ء میں الہ آباد میں کل ہند افسانہ سیمینار میں ملا۔ اس سیمینار میں بمبئی سے انور قمر بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ سمینار غالباً اردو افسانے پر پہلا بڑا سمینار تھا۔ جس میں ڈاکٹر قمر رئیس، جناب شمس الرحمن فاروقی، جوگیندر پال، رام لال، قاضی عبدالستار، کلام حیدری کے علاوہ کئی ہم عصر اور نوجوان افسانہ نگار اور نقاد بھی شریک تھے۔ دو دنوں تک خوب محفلیں رہیں لوگ ایک دوسرے سے جی کھول کر ملے۔ غیاث احمد گدی کو اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیوں کہ وہ زیادہ وقت ہمارے ساتھ ہی گزارتے تھے۔

    سمینار کے آخری دن منتظمین کی جانب سے ایک ہوٹل میں ڈنر تھا، دو روز کے لگاتار ادبی مباحث اور نکتہ آفرینوں نے سب کو بری طرح تھکا دیا تھا۔ تقریباً سب کا جی چاہتا تھا کہ ڈنر سے پہلے کہیں سے دو گھونٹ مئے اندوہ رُبا کا انتظام ہوجائے تو ذہن و دل کو تراوٹ ملے۔ مگر سب ایک دوسرے کے لحاظ میں خاموش تھے۔ تبھی کسی نے آکر چپکے سے بتایا کہ قریب ہی کہیں ایک دیسی مے خانہ دریافت ہوا ہے جہاں انگلش نہیں دیسی مل جاتی ہے۔ میں انور قمر، شوکت حیات حمید سہروردی اور دو ایک مقامی نوجوان بزرگوں کی نظر بچا کر ڈائننگ ہال سے باہر نکل گئے، جب گدی صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ ڈاکٹر سید محمد عقیل اور کلام حیدری کی نظر بچا کر ہمارے پیچھے پیچھے آگئے۔ سید محمد اشرف بھی ازراہِ سعادت مندی ساتھ تھے۔ جب ہم لوگ اڈے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں شیشہ و ساغر کا دستور نہیں، جامِ سفالین کا چلن ہے۔ آرڈر دیا گیا۔ فوراً مٹی کے کلہڑوں میں مے خانہ ساز آگئی۔ ہم میں سے کوئی بھی عادی بادہ نوش نہیں تھا البتہ کبھی کبھی روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں چکھنے کے سب گناہ گار تھے۔

    مٹی کے کلہڑوں میں پینے کا ہمارا پہلا اتفاق تھا اور دورانِ گردشِ جام، غالب کا یہ شعر سب کو مزید ترغیب دلا رہا تھا۔

    اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
    جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

    گدی صاحب بہت موڈ میں تھے اور خوب چہک رہے تھے۔ اس محفل کو یاد کرتا ہوں تو گدی صاحب کا دمکتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ اس کے بعد گدی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔

  • سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    سحرؔ کی کراچی آمد اور سی آئی ڈی کا آدمی

    ”یادوں کا جشن“ اردو کے ممتاز شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کی آپ بیتی ہے جس میں اُن کے دور کے معروضی حالات کے ساتھ کئی دل پذیر واقعات اور پُراثر باتیں ہمیں‌‌ پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ کتاب 1983 میں منظرِ عام پرآئی تھی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کا تخلّص سحر تھا اور ہندوستان ہی نہیں پاکستان بھر میں انھیں بطور شاعر پہچانا جاتا تھا۔

    یہ بھی پڑھیے:‌ کنور صاحب کی بذلہ سنجی

    کنور مہندر سنگھ بیدی 1909ء میں منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے شہری ہوگئے اور وہیں دہلی میں وفات پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پہلی مرتبہ 1956ء میں کراچی آئے جس کا ذکر انھو‌ں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔ مہندر سنگھ بیدی سحر لکھتے ہیں:

    "جب میں کراچی پہنچا تو بہت سے دوست مجھے جانتے تھے اور بہت سے جو مجھے نہیں بھی جانتے تھے، ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ کراچی میں پورے سال میں آٹھ، دس انچ بارش ہوتی ہے، اُس روز ایک ہی دن میں چھ انچ بارش ہو چکی تھی اور کراچی کے لحاظ سے شدید سردی کا موسم تھا، مگر اس کے باوجود میرے دوست احباب نے پُرتپاک استقبال کیا۔

    میرے ساتھ چند اور دوست بھی دہلی سے گئے تھے، ان کے قیام کا انتطام بھی وہاں کے بہترین ہوٹلوں میں کیا گیا تھا مگر مجھے میرے پرانے دوست سلطان جاپان والا اپنے پاس لے گئے اور اپنے ہوٹل نازلی میں ٹھہرایا، میں پانچ، چھ دن وہاں ٹھہرا۔ اس قیام میں دوستوں نے اس قدر اور مہمان نوازی کا ثبوت دیا کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

    دعوتوں کا یہ عالم تھا کہ صبح ناشتے سے شروع ہوتی تھیں۔ ناشتے کے بعد دو، دو تین، تین جگہ کافی، پھر لنچ اس کے بعد کئی کئی جگہ چائے اور پھر کلام و طعام کی محفلیں سجتی تھیں، جن لوگوں کے ہاں شام کی چائے پینی ہوتی ناشتے کے وقت سے ہمارے ساتھ ہو لیتے تھے، جہاں بھی میں جاتا دس، بارہ موٹر گاڑیاں میرے ساتھ رہتی تھیں۔ اچھا خاصا جلوس سا دکھائی دیتا تھا۔

    اس قیام کے دوران مجھے دہلی کے سب ہی پرانے دوست ملے، جس شام مجھے کراچی سے رخصت ہو کر واپس دہلی آنا تھا، اُس روز صبح سویرے ہی ایک صاحب نے مجھے اپنے گھر لے جانے کی درخواست کی، یہ صاحب پہلے ہی دن میرے ساتھ تھے بلکہ مجھے سلا کر جاتے تھے اور میرے بیدار ہو نے سے پہلے ہی آجاتے تھے اور مجھ سے ملنے والوں کی چائے پانی سے تواضع کرتے۔ ان کی خدمت گزاری سے بہت متاثر ہو کر جی چاہتا تھا کہ میں بھی ان کے لیے کچھ کروں جس روز مجھے وہاں سے دہلی واپس آنا تھا، وہ حسبِ دستور اس روز بھی صبح سویرے میرے کمرے میں آگئے اور اس سے پیشتر کہ میں ان سے کچھ کہوں وہ خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ میں آپ کے سامنے یہ انکشاف کر رہا ہوں کہ میں سی۔آئی۔ ڈی کا آدمی ہوں اور میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ میں آپ کے ساتھ رہوں۔ اور دیکھوں کہ کون کون آپ سے ملنے کے لیے آتا ہے اور آپ سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔ میں آپ سے اس قدر مانوس ہو چکا ہوں کہ آپ کو یہ سب بے تکلفی سے بتا رہا ہوں۔ اب میری ایک خواہش ہے اور یہ کہ آپ میرے گھر چلیے میری بیوی اور گھر کے دیگر لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

    اس نے اس محبت سے یہ بات کہی کہ میں انکار نہ کر سکا۔ وہ میرا کراچی میں آخری دن تھا اور مجھے کئی جگہ الوداع کہنے کے لیے جانا تھا مگر میں نے اس سے اس کے گھر چلنے کا وعدہ کرلیا۔ چنانچہ تیار ہو کر میں اس کے ساتھ ہو لیا اور بھی کئی دوست میرے ہمراہ تھے۔ جب اس کا گھر نزدیک آیا تو ہم سب رک گئے اور وہ باقی حضرات سے معذرت کر کے صرف مجھے ساتھ لے کر اپنے گھر لے آیا۔ اس کا گھر گلی میں واقع تھا۔

    میں دروازے پر رک گیا۔ لیکن اس نے کہا کوئی مجھ سے پردہ نہیں کرے گا، میں اندر آجاؤں چنانچہ میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر میں اس وقت صرف اس کی بیوی تھی۔ اس نے ایک صاف تھالی میں کچھ پھل وغیرہ پیش کیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔

    کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے اجازت چاہی تو وہ کہنے لگا میرے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔ دعا کیجیے کہ وہ آپ کی طرح صالح اور نیک ہو۔ مجھے یہ سن کر اپنے گناہوں کا احساس ہوا اور میں نے اُس سے کہا کہ میں ایک گناہ گار آدمی ہوں، مگر وہ بضد رہا۔ آخرکار میں نے اُس ہونے والے بچے کی درازیٔ عمر اور خوش حالی کی دعا مانگی۔

    اُس کی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن سے رخصت لی۔ میرے دل پر اس واقعے کا بہت دیر تک اثر رہا۔ اب جب بھی یاد آتا ہے تو اس شخض کی فراخ دلی، اعتماد، صاف گوئی اور غیر متعصب جذبے کی داد دیتا ہوں۔ مجھے قلق اس بات کا کہ اُس سے اس کا ایڈریس نہ لے سکا ورنہ واپس آکر اسے شکریہ کا خط لکھتا۔‘‘

  • مخمل کا کوٹ

    مخمل کا کوٹ

    دیوان سنگھ مفتون نے اردو ادب اور صحافت میں‌ بڑا نام پایا اُن کے کالم، آپ بیتی اور صحافت کی دنیا میں‌ اُن کے زور دار اداریے بہت مشہور ہیں۔

    1924 میں سردار دیوان سنگھ مفتون نے دہلی سے اپنا مشہور ہفتہ وار با تصویر اخبار ”ریاست“ نکالا تھا اور کہتے ہیں کہ یہ ہر لحاظ سے اعلیٰ پائے کے جرائد کی ہمسری کا دعویٰ کرسکتا تھا۔

    وہ ایک ایسے اہلِ‌ قلم تھے جس نے زندگی کے ہفت خواں طے کرنے کے لیے مختلف کام سیکھے، پیشے اختیار کیے اور اپنی محنت اور لگن سے ادب اور صحافت میں نام وَر ہوئے۔ مفتون نے اپنی تصنیف میں ایک دل چسپ واقعہ لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ایڈیٹر "ریاست” (دیوان سنگھ مفتون)‌ کی عمر ایک ماہ دس روز تھی جب والد کا انتقال ہو گیا اور یتیمی نصیب ہوئی۔ اُس وقت گھر میں روپیہ، زیورات، زمین اور مکانات کے کاغذ تھے۔ کیونکہ والد صاحب نے اپنی کام یاب زندگی میں کافی روپیہ پیدا کیا تھا۔

    والد کے انتقال کے بعد رشتہ داروں نے زمین اور مکانات پر قبضہ کر لیا۔ اور بارہ سال تک بغیر کسی آمدنی کے ضروریاتِ زندگی اور بڑے بھائی اور بہنوں کی چار شادیوں پر روپیہ صرف ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیٹر ریاست کی عمر جب بارہ سال کی تھی تو گھر میں کھانے کے لئے بھی کچھ نہ تھا۔ چنانچہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اور ایڈیٹر ریاست پانچ روپیہ ماہوار پر حافظ آباد میں ایک بزاز کی دکان پر ملازم ہوا۔ کام یہ تھا کہ اندر سے کپڑوں کے تھان لا کر خریداروں کو دکھائے جائیں۔ اس ملازمت کے دو واقعات مجھے یاد ہیں جن کا میرے کیریکٹر پر بہت نمایاں اثر ہوا۔

    یہ دکان ایک ہندو بزاز کی تھی۔ اور اس دکان پر ایک بوڑھا مسلمان درزی اور اس کا جوان بیٹا کام کرتے تھے۔ یہ باپ اور بیٹا حافظ آباد کے قریب کسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ چند دن کے لئے باپ کسی شادی میں شریک ہونے اپنے گاؤں گیا تو اپنی غیر حاضری کے دنوں کے لئے اپنے بیٹے کو چند کپڑے سپرد کر گیا تا کہ ان کو وہ تیار کر رکھے۔ بوڑھا درزی جب واپس آیا تو بیٹے کے سلے ہوئے کپڑوں کو دیکھا تو ان میں کسی بچے کا سبز رنگ کی مخمل کا ایک کوٹ بھی تھا جو اس کے بیٹے نے سبز رنگ کے تاگے کی بجائے سفید رنگ کے تاگے سے سیا تھا۔ اس غلطی کو دیکھ کر بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا، اور کہا کہ
    نالائق تو دیہات کے رہنے والے جاٹ کے لڑکے (جس کا کوٹ سیا تھا) پر رحم نہ کرتا مگر اس مخمل پر تو رحم کرتا جس کا ستیاناس کر دیا۔

    چنانچہ اس مسلمان بوڑھے باپ نے مخمل کے اس کوٹ کی سلائی کو کھولا، سفید تاگے نکالے اور سبز تاگے سے سیا۔

    اس واقعہ کا میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ چاہے میں نے چھ روپیہ تنخواہ لی یا بارہ روپیہ یا دو سو روپیہ اور چاہے ملازمت کی یا خود اپنا کام کیا۔ تمام زندگی ہمیشہ کام کو دیکھ کر کام کیا نہ کہ اس کے معاوضہ کو۔ ہمیشہ بارہ گھنٹے سے اٹھارہ گھنے تک کام کیا۔ چاہے تنخواہ کچھ بھی ملتی تھی۔ اور شاید ایک دفعہ بھی ایسا نہ ہوا ہو گا کہ کسی کام کو کرتے ہوئے اُس پر پوری توجہ نہ دی ہو۔ غرض میرے کیریکٹر پر اس واقعہ نے بہت بڑا اثر کیا۔

  • ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    ”گاندھی جی سے ملاقات کی راہ نکالو!”

    مولانا حبیب الرّحمٰن کے بیٹے عزیز الرّحمٰن جامعی نہایت ہوشیار نوجوان تھے، انہیں شوق تھا کہ بڑے بڑے آدمیوں سے ملتے، والد کا ذکر کرتے اور کوئی نہ کوئی خبر اڑا لاتے، ان دنوں زعمائے احرار کی خبروں کا منبع عزیز الرّحمٰن ہی تھے۔ گاندھی، نہرو آزاد وغیرہ کے ہاں تو ان کا آنا جانا روز ہی کا تھا، ان سے ملاقات نہ ہوتی، ان کے سیکرٹریوں سے مل آتے، سیکرٹریوں سے نہ ملتے، تو ان کے سٹینو گرافروں سے مل آتے لیکن خبریں زور کی لاتے اور اکثر خبریں صحیح نکلتی تھیں۔

    ایک دن میں نے اور نواب زادہ نصر اللہ خاں نے ان سے کہا کہ گاندھی جی سے ملنے کی راہ نکالو، عزیز نے کہا کہ ’’ابھی چلو، گاندھی جی نے بھنگی کالونی میں کٹیا ڈال رکھی ہے، کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔‘‘ ہم تیار ہو گئے۔

    میں، نواب زادہ، انور صابری اورعزیز الرّحمٰن بھنگی کالونی پہنچے تو گاندھی جی وائسریگل لاج گئے ہوئے تھے۔ ان کی کٹیا ہری جنوں کی بستی کے بیچوں بیچ لیکن کھلے میدان میں تھی۔ کوئی تیس گز ادھر بانس بندھے ہوئے تھے اور یہ کھلا دروازہ تھا۔ یہاں سے قریب ہی ایک خیمہ تھا، جس میں رضاکاروں کا سالار رہتا، ادھر ادھر کچھ چارپائیاں پڑی تھیں۔ کرسیوں کا نشان تک نہ تھا، گاندھی جی کی بیٹھک کا تمام حصہ فرشی تھا، کچھ دیر تو ہم بعض دوسرے مشتاقین کے ساتھ بانس کے دروازے پر کھڑے رہے، پھر عزیز الرّحمن نے ہمت کی اور پیارے لال کو کہلوایا، اس نے بلوایا، پیارے لال گاندھی جی کا سکریٹری تھا، عزیز الرّحمٰن نے اس سے کہا کہ ’’ہم اس غرض سے آئے ہیں۔‘‘ وہ نیم راضی ہوگیا، کہنے لگا ’’آپ سامنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھیں، باپو ابھی آتے ہیں، ان کی مصروفیتیوں کا تو آپ کو اندازہ ہے، ممکن ہے کوئی اور وقت دیں۔‘‘

    ہم ٹھہر گئے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ میں ان دنوں کھدر پہنتا لیکن سر پر جناح کیپ رکھتا تھا۔ انور صابری نے قلندروں کا جھول پہن رکھا اور عزیز الرّحمٰن مولویوں کے چغہ میں تھا۔ کوئی چالیس منٹ ٹھہرے ہوں گے کہ گاندھی جی کی کار کی آمد کا غل ہوا۔ اتنے میں درجن ڈیڑھ درجن دیویاں بھی آگئیں، گاندھی جی کی کار سڑک سے اندر داخل ہوئی، دیویوں نے پاپوشی کرنی چاہی لیکن گاندھی جی تیر کی طرح نکل کر ہمارے پاس رک گئے۔ ہم نے ہاتھ اٹھا کر آداب کیا، مسکرائے۔

    ’’آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’پنجاب سے۔‘‘

    ’’آپ نے بہت تکلیف کی؟‘‘۔

    ’’جی نہیں، ہم آپ کے درشن کرنے آئے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے کہا: ’’مہاتما جی! میں مولانا حبیب الرّحمٰن لدھیانوی کا بیٹا ہوں۔‘‘

    ’’اچھا! وہ مولوی صاحب جو مجھ سے بہت لڑتے ہیں۔‘‘

    عزیز الرّحمٰن نے ہم تینوں کا تعارف کرایا، گاندھی جی مسکراتے رہے۔ ملاقات کا وقت مانگا، گاندھی جی نے ہامی بھر لی، کہا: ’’آپ لوگ پرسوں شام پانچ بجے آدھ گھنٹے کے لیے آجائیں۔‘‘

    عزیز نے کہا:’’آپ کے سیکریٹری ٹرخا دیتے ہیں، ذرا ان سے بھی کہہ دیں۔‘‘

    گاندھی جی نے کہا:’’کوئی بات نہیں، یہ کھڑے ہیں، ان سے میں نے کہہ دیا ہے۔‘‘ مزید کہا: ’’کل بھی میں آپ کو بلا سکتا ہوں لیکن کل میرا مون برت ہے۔ آپ باتیں کریں، تو میں سلیٹ پر لکھ کر جواب دوں گا، کچھ کہنا سننا ہے، تو پرسوں کا وقت ٹھیک رہے گا۔‘‘

    ہم نے صاد کیا ، گاندھی جی نے ہاتھ باندھ کر پرنام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کٹیا میں داخل ہوگئے۔ دوسرے لوگ ہمیں حیرت سے تکتے رہے۔

    (1946 میں شورش کاشمیری نے دہلی میں قیام کے دوران کئی قومی لیڈروں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں جن کا ذکر اپنی کتاب بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل میں کیا ہے، یہ پارہ اسی کتاب سے لیا گیا ہے)

  • سیّد عطا اللہ شاہ بخاری، قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب

    سیّد عطا اللہ شاہ بخاری، قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب

    یہ تذکرہ ہے سیّد عطا اللہ شاہ بخاری کا جنھیں متحدہ ہندوستان میں ان کی دینی خدمات اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ شعر و ادب سے گہرے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا گیا۔

    عطا اللہ شاہ بخاری شعر شناس بھی تھے اور شاعر بھی جب کہ قدرت نے خطابت کا بے پناہ ملکہ بھی ودیعت کر رکھا تھا اور لوگ ان کی تقریر سننے کے لئے دور دراز سے چلے آتے تھے۔ اردو اور فارسی پر عبور حاصل تھا اور ان زبانوں میں ہزاروں اشعار ازبر تھے۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور زیادہ تر شاعری فارسی میں کی۔ یہاں ہم عطا اللہ شاہ بخاری کے ذوقِ‌ ادب سے متعلق مستند کتابوں‌ سے چند اقتباسات نقل کررہے ہیں۔

    شورش کاشمیری لکھتے ہیں: ’’وہ (اپنی)‌ نانی اماں کی زبان دانی سے فیض پانے پر فخر کرتے اور شاد عظیم آبادی سے اپنی ہم صحبتی و ہم سخنی کے واقعات بڑے کرّو فخر سے بیان کرتے، جہاں تک اردو زبان سے آشنائی کا تعلق تھا وہ کسی بھی اہلِ زبان سے اپنے تئیں کم نہ سمجھتے تھے۔ اپنی زبان کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا…. اور یہ غلط نہ تھا۔‘‘

    شاہ جی کی سخن فہمی کے بارے میں ماہر القادری جن کا شمار اپنے دور کے معروف شعراء میں ہوتا ہے، لکھتے ہیں: ’’داد دینے کا انداز والہانہ تھا۔ میں نے زندگی میں بہت کم لوگوں کو اتنی صحیح اور معقول داد دیتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

    احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، احسان دانش، حفیظ جالندھری، ماہر القادری، تاثیر، سالک، فیض، ساحر لدھیانوی، جگر مراد آبادی، عدم وغیرہم کو آپ کی ہم نشینی و بزم آرائی کا موقع ملا۔

    اقبال، غالب اور حافظ کو خوب ڈوب کر پڑھا تھا۔ ان کے کلام کے حوالے سے بڑا جامع تبصرہ فرماتے اور وقیع الفاظ میں ان شعراء کو خراجِ تحسین پیش کرتے اور ان شعراء کے اشعار بھی نوکِ زبان تھے جنھیں برجستہ و برمحل برت کر داد پاتے۔ مرزا غالب کے کئی اشعار ازبر تھے۔

    عبدالمجید سالک کے بیٹے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی کتاب ‘‘وے صورتیں الٰہی‘‘ میں عطا اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کا ذکر یوں‌ کیا ہے: اس کے بعد (شاہ جیؒ) ہمیں قیام گاہ پر لے گئے وہاں خوب محفل جمی، باتوں باتوں میں فرمایا ’’دو کتابیں ہمیشہ میرے پاس رہتی ہیں۔ قرآنِ حکیم اور دیوانِ غالب لیکن اوپر قرآنِ حکیم رہتا ہے اور نیچے دیوانِ غالب۔‘‘

    میں بے ساختہ پکار اٹھا، ہاں…. مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے!

    وہ ہنس پڑے کہنے لگے، کیسے چھپے رہتے، آخر ابنِ سالک ہو۔

  • پُرخلوص اور رسمی تعزیت

    پُرخلوص اور رسمی تعزیت

    ہمارا خیال ہے کہ مرنے سے زیادہ مرنے والے کی تعزیت مشکل ہے کیوں کہ موت تو بن بلائے ہنستی ہوئی خود گھر پر آجاتی ہے اور تعزیت کے لیے منھ لٹکائے ہوئے دوسرے کے گھر جانا پڑتا ہے۔

    اور جانا ہی نہیں بلکہ مرحوم کی ’’بے وقت موت‘‘ کو (چاہے وہ نوے برس کی عمر ہی میں کیوں نہ ہوئی ہو) ایک ’’ناقابل تلافی نقصان‘‘ ثابت کرتے ہوئے ان کی فرضی خوبیوں کی فہرست اس تفصیل کے ساتھ گنانا ہوتی ہے کہ اگر مرحوم سُن لیں تو خود انھیں ہنسی آجائے اور انھیں اپنی موت پر رشک آنے لگے، اس لیے کہ زندگی میں کسی کو کبھی ان کے حق میں ایک کلمۂ خیر کہنے کی توفیق نہ ہوئی اور موت کی بدولت آج انھیں تعزیت کرنے والوں کے منھ سے ایسے مدحیہ قصیدے سننے کو مل رہے ہیں کہ کیا کسی بادشاہ کو زندگی میں درباری شاعروں سے سننے کو ملے ہوں گے۔

    تعزیت پُرخلوص بھی ہوتی ہے اور رسمی بھی۔ مگر وہ چاہے رسمی ہو، چاہے مخلصانہ دونوں مشکل ہیں کیوں کہ اگر مرنے والے سے آپ کو خلوص تھا تو آپ کی حالت خود تعزیت کے لائق ہوگی اور ایسی حالت میں آپ تعزیت کرنے جائیں گے تو آپ مرحوم کے پس ماندگان کو تسلّی دینے کے بجائے خود رونے لگیں گے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے،

    تسلّی میں بھی تخم غم بو دیے
    وہ سمجھاتے سمجھاتے خود رو دیے

    اور اگر آپ رسمی طورپر اس خیال سے تعزیت کے لیے نکلے ہیں کہ؛

    کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

    آج آپ جن کی تعزیت کے لیے جارہے ہیں کل ان کے لڑکے آپ کی تعزیت کے لیے آئیں گے یا یہ مرحوم آپ کے کسی بزرگ کی موت پر آپ کے گھر تعزیت کے لیے آئے تھے تو ایسی صورت میں تعزیت کا کام مشکل سےمشکل تر ہوجاتا ہے کیوںکہ آپ دراصل تعزیت کرنے نہیں بلکہ اس تعزیتی قرض کو ادا کرنے جاتے ہیں جو آپ پر واجب الادا تھا اور آپ جانتے ہیں کہ قرض کی ادائیگی کوئی آسان کام نہیں، خصوصیت کے ساتھ وہ قرض جو تر کے میں ملا ہو اور پھر اس قرض کا کیا کہنا جو روپیوں پیسوں کا نہیں، آنسوؤں اور غموں کا ہو۔ پیسے کا قرض تو ایک اُدھار لے کر دوسرے کو ادا کیا جاسکتا ہے لیکن آنسو نہ اُدھار لیے جاسکتے ہیں نہ دیے جاسکتے ہیں ان کے لیے تو ایکٹروں یا گویوں کی طرح ریاض کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے تعزیت ایک فن ہو گیا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی فن کے حصول میں کتنے پا پڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ خدا نظر بد سے بچائے، اگر آپ شاعر ہیں تو ایک اور مثال پیش کر دوں۔ شاعر ہونے کی وجہ سے آپ جانتے ہی ہیں کہ سیروں خون تھوکنا پڑتا ہے تب جاکے شعر برآمد ہوتا ہے۔

    بس یہی حال تعزیت کا ہے۔ گڑے مردے اکھاڑنے پڑتے ہیں اپنے باپ دادا کی موت یاد کر کے آنسو اکٹھا کرنے پڑتے ہیں اور پھر جب یہ سارے درد و غم جمع ہوجاتے ہیں تب جاکے کہیں تعزیت کا قرض ادا ہو پاتا ہے۔

    قرض کے ذکر پر یاد آگیا کہ تعزیت کرنے کی طرح قرض مانگنا بھی بڑے فنکار کا کام ہے۔ قرض اور تعزیت دونوں کے لیے منھ لٹکانا ضروری ہوتا ہے لیکن فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ قرض کے لیے گھر سے نکلتے وقت منھ خود بخود لٹکا ہوتا ہے اور تعزیت کے لیے مرنے والے کے گھر پہنچ کر منھ لٹکانا پڑتا ہے۔ منھ کے خود لٹکے ہونے اور ارادتاً لٹکانے میں جو نازک فرق ہے اسے صرف حالات سے مجبور ہوکر قرض مانگنے والے کا ہی دل محسوس کرسکتا ہے۔ رسمی تعزیت کرنے والے کبھی محسوس نہیں کرسکتے۔

    جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے قرض کی مصیبت بار بار برداشت کرنے کی وجہ سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے لیے تعزیت کی مشکل اس حد تک ضرور آسان ہوگئی ہے کہ ہمیں مرنے والے کے گھر پہنچ کر زبردستی روہانسا منھ نہیں بنانا پڑتا بلکہ ہماری صورت ہی اب روہانسی ہوگئی ہے۔ البتہ اگر کسی جگہ خلوص کی بنا پر زیادہ رقت طاری کرنے کی ضرورت ہوئی تو ہم تعزیت کے وقت قرض کی ادائیگی کا بھی تصور کرلیتے ہیں۔ اس طرح فاقہ مستی کا رنگ لانے کے خوف سے ہمارا چہرہ خاصا سوگوار ہو جاتا ہے اور مرنے والے کے پسماندگان کے دلوں پر ہمارے خلوص کا کافی اثر پڑتا ہے۔ حالاںکہ ہم جانتے ہیں کہ اس میں خلوص و ہمدردی سے زیادہ ہمارے حالات کو دخل ہے جنھوں نے ہمیں بغیر کسی خاص کوشش کے تعزیت جیسے مشکل فن میں اُن پیشہ ور تعزیت مندوں سے کہیں زیادہ کامیاب بنا دیا ہے جو اس تاک میں ہی بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی اللہ کو پیارا ہو اور وہ اپنے فن کے مظاہرے کے لیے پہنچ جائیں۔

    آپ کہیے گا کہ یہ پیشہ ور تعزیت مند کیسے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں پیشہ ور تعزیت مند وہ ہیں جو ایک خاص بندھے ٹکے انداز میں تعزیتی تقریر کرتے ہیں اور اس تقریر کے دوران جگہ جگہ شعر بھی پڑھتے ہیں، مثلاً،

    حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھِلے مرجھا گئے

    ایک پیشہ ور تعزیت مند، پُرسے میں پہنچتا ہے اور پہنچتے ہی زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کرتا ہے کہ ’’مشیّت ایزدی میں کیا چارہ ہے،

    موت سے کس کو رستگاری ہے
    آج وہ، کل ہماری باری ہے‘‘

    ’’آدمی پانی کا بُلبلہ ہے، ایک دم کا ٹھکانا نہیں۔‘‘ پھر آہ سرد بھرتے ہوئے شعر پڑھتا ہے،

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے
    یہ نمائش سراب کی سی ہے

    ’’بھیّا صبر کرو، جس کی امانت تھی اس نے لے لی۔ اپنا یہاں کیا ہے جس پر بھروسہ کیا جائے۔ سامان سو برس کے ہیں کل کی خبر نہیں، ہم کو بھی ایک دن اسی راہ پر جانا ہے۔ ہر ایک پر یہ دن آنے والا ہے،

    بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
    صبر کرو صبر کے سوا چارہ کیا ہے

    مگر اب تعزیت زیادہ مشکل نہیں رہی اس لیے کہ فن تعزیت کے فن کاروں نے جیسا کہ آپ نے ابھی دیکھا اچھا خاصا تعزیتی لٹریچر رسمی تعزیت کرنے والوں کی آسانی اور سوگواروں کی پریشانی کے لیے فراہم کردیا ہے جس میں مرحوم کی بے وقت موت کو ناقابل تلافی نقصان قرار دینے سے لے کر مرحوم کے جوار رحمت میں جگہ پانے کی توقع تک تمام مراحل کے لیے ڈھلے ڈھلائے جملے موجود ہیں۔ بس اب تعزیت کرنے والے کا کام صرف منھ بنا کر اور موقع بے موقع آہ سرد بھر کر انھیں جملوں کو بے دھڑک دُہرا دینا ہے۔

    ایک مرتبہ میرے ایک قریبی دوست کے بچہ کا انتقال ہوگیا۔ پلوٹھی کا لڑکا تھا۔ ماں باپ دونوں کی آنکھ کا تارا۔ اس کے مرنے کا دونوں کو قدرتاً بڑا قلق ہوا۔ میں دورے پر گیا ہوا تھا۔ چار روز بعد جب واپس آیا تو بیگم سے اس سانحہ کی اطلاع ملی۔ سامان گھر پر ڈال، سیدھا دوست کے گھر روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ان کی روانگی کا انتظام ہے۔ کچھ سامان باہر رکھا ہے اور ایک تانگہ بھی کھڑا ہے۔ بہرحال میں نے آواز دی تو انھیں جھنجھلا کر زور سے یہ کہتے سنا کہ کہہ دو گھر پر نہیں ہیں۔ میں یہ بات سُن رہا تھا۔ پہلے تو میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں مگر پھر زور سے پکارا کہ ’’بھائی‘‘ میں ہوں سعید! یہ سنتے ہی وہ ڈیوڑھی میں آگئے اور لپٹ کر رونے لگے۔ میرا بھی دل بھر آیا مگر زبان سے تسلّی اور تعزیت کے الفاظ نکلنے نہیں پائے تھے کہ دل نے بے ساختہ آواز دی،

    جس سے بڑھے بے تابی دل کی ایسی تسلّی رہنے دے…

    زبان نے دل کے مشورے کو فوراً مان لیا کیوںکہ اُسے بارہا تجربہ ہوچکا تھا کہ نازک جذبات کی ترجمانی اس نے ہمیشہ خاموش رہ کر زیادہ اچھے طریقہ پر کی ہے۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ اس کے بعد میں نے بچہ کی بیماری اور موت کے متعلق کچھ پوچھنے کے بجائے ان کی روانگی کا سبب دریافت کرنا زیادہ مناسب خیال کیا۔

    انھوں نے کہا کہ بچہ کی جدائی سے ہم دونوں کے دلوں پر جو گزری ہے اس کے متعلق کچھ کہنا ہی بے کار ہے لیکن ماں کی بُری حالت ہے۔ چار دن ہوگئے ہیں طرح طرح سے بہلانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن تعزیت کرنے والوں نے میری اور خاص طورپر میری بیوی کی زندگی تلخ کردی ہے۔ میری ہزار کوششوں کے باوجود ان ظالموں نے ایک منٹ کے لیے غم بھلانے کی فرصت نہ دی اور جب میں نے محسوس کیا کہ تعزیت کرنے والی بیبیاں رُلا رُلا کر بچہ کے ساتھ میری بیوی کو بھی قبرستان پہنچائے بغیر دم نہیں لیں گی تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ تھوڑے دنوں کے لیے یہاں سے ہٹ جاؤں۔

    چنانچہ ہم لوگ دو ہفتہ کے لیے پہاڑ پر جارہے ہیں تاکہ ہمارے دُکھے دل نادان تعزیت کرنے والوں کی بیداد سے بچ سکیں اور زخموں کو مندمل ہونے کا موقع مل سکے، ابھی وہ یہ جملہ پورا بھی نہ کر پائے تھے کہ میں نے دیکھا کہ ایک رکشا سڑک سے ان کے گھر کی طرف مڑ رہا ہے اور اس پر ایک برقعہ پوش خاتون بیٹھی ہیں۔ مجھے فوراً موقع کی نزاکت کا احساس ہوا اور میں نے دوڑ کر رکشے والے سے پوچھا، ’’کس کے یہاں جانا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں برقعہ پوش خاتون نے بھرائی ہوئی آواز میں میرے دوست کا نام لیا۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور میں نے خیال کیا کہ اگر اس وقت یہ خاتون تعزیت کے لیے وہاں گئیں تو انہیں گھر واپس ہونے کے بجائے اسپتال نہ جانا پڑے۔ اس لیے میں نے منھ سکھا کر کہا کہ میں انہی کے گھر سے لوٹ رہا ہوں۔ اُن کی بیوی حالت زیادہ خراب ہوگئی تھی اس لیے میرے دوست انھیں لے کر ان کے میکے چلے گئے ہیں اور غالباً ایک ماہ بعد واپس آئیں۔ اس پر انھوں نے ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ ہاں بیٹا! مصیبت ایک طرف سے نہیں آتی۔ میں نے جلدی سے کہا، جی ہاں! دیکھیے نا چاروں طرف سے چلی آرہی ہے۔ اس کے بعد وہ دل میں تعزیت کی تمنا لیے اپنے گھر واپس گئیں۔

    (عبدالمجیب سہالوی کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    ہمارے ہاں مزاح کیوں نہیں؟

    اس سوال پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی گئی ہے۔ بہر حال کبھی کبھی لوگوں کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے جدید ادب میں مزاح کیوں نہیں ہے؟ یعنی خالص مزاح، ورنہ ویسے تو افسانوی ادب کا بیشتر حصّہ طنز پر مشتمل ہے اور طنزیہ نظموں کے علاوہ بہت سی اور نظموں میں بھی طنزیہ عناصر آ جاتے ہیں۔

    ادب میں مزاح کی کمی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف اردو ادب تک ہی محدود ہو۔ اس کا تعلق بیسویں صدی کے ہر ادب سے ہے بلکہ صنعتی دور کے ادب سے ہے۔ یوں ہونے کو تو مغرب میں مزاحیہ ادب کی تھوڑی بہت تخلیق ہو رہی ہے اور طنز و تضحیک سے لے کر FANTASY تک ہر چیز موجود ہے۔ اگر خالص ادبی حثییت رکھنے والی چیزیں ختم بھی ہو جائیں تو بھی جب تک MUSIC HALL زندہ سلامت ہیں، مغربی تہذیب سے مزاح غائب نہیں ہو سکتا بلکہ اگر کاڈویل کی بات مانیں تو میوزک ہال کی تخلیقات کو پرولتاری آرٹ کہنا پڑے گا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود خود مغرب میں چوسر، رابیلے، سروانیٹنراور شیکسپئر کی قسم کا عظیم المرتبت مزاحیہ ادب پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ہاں البتہ جوئس کی کتابوں کے بہت سے حصّے مستثنیٰ کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں، مگر ان مزاحیہ اور طربیہ حصوں کے پہلو بہ پہلو جوئس کے یہاں حزن بھی بلا کا موجود ہے۔ بہرحال جوئس سے قطع نظر عمومی حیثیت سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بیسویں صدی وہ زمانہ ہی نہیں جہاں طربیہ روح پھلے پھولے۔

    ہمارے دور کا انسان ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہے۔ وہ مستقبل کو نہیں بھول سکتا۔ چنانچہ وہ اپنے آپ کو حال کے لمحے میں بھی اس طرح جذب نہیں کر سکتا جس طرح صنعتی دور سے پہلے کا انسان کر سکتا تھا۔ اور پھر مستقبل بھی ایسا کہ جو ہمیشہ خوفناک نہ سہی، مگر اتنا بے شکل ہے کہ دل میں تردد پیدا کر دیتا ہے۔ بیسویں صدی کا انسان اس یقین کے ساتھ نہیں ہنس سکتا کہ کل بھی وہ اسی طرح ہنس سکے گا۔ پہلے آدمی کے لئے حیات بعد ممات کا عقیدہ ایک بہت بڑا سہارا تھا، اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی کہ ایسی طاقت موجود ہے جس کی رضا کے مطابق ہر بات ہوتی ہے۔ یہ طاقت انسان سے بلند تر ہونے کے باوجود بہت سی باتوں میں انسان سے مشابہ تھی۔

    یہ طاقت غضب ناک سہی مگر رحیم و کریم تھی۔ کم سے کم انسان کو تھوڑا بہت یہ ضرور معلوم تھا کہ یہ طاقت کن باتوں سے خوش ہوتی ہے اور کن باتوں سے ناراض۔ ان تصورات پر سے اعتقاد اٹھ جانے کے بعد کوشش کی گئی ہے کہ ان کی جانشینی چند معاشیاتی یا عمرانی نظریوں کے سپرد کی جائے، مگر یہ نظریے ابھی تک عوام کے شعور میں جذباتی تجربوں کا درجہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ چنانچہ اب ان کے پاس اپنی دنیا کو سمجھنے کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا جو انہیں مطمئن کر سکے۔ ہر نیا واقعہ اتفاق یا حادثے کی حیثیت رکھتا ہے اور عوام کی ذہنی حالت کچھ حیرانی اور سراسیمگی کی زیادہ ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں اگر کوئی مزاح نگار پیدا بھی ہو جائے تو اسے ایسی پبلک نہیں ملے گی جو ہنسنے کے لئے تیار ہو۔ چیٹرٹن کے اندر بڑا مزاح نگار بننے کی کچھ صلاحیت موجود تھی، لیکن ماحول کا جبر دیکھئے، ساری عمر وہ ہنسنے کی ضرورت پر وعظ کہتا رہا، مگر خود نہیں ہنس سکا (یعنی کسی بڑی مزاحیہ تخلیق کی شکل میں)

    ایک اور وقت ہمارے زمانے کے مزاح نگار کو پیش آتی ہے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس چیز پر ہنسا جا سکتا ہے اور اس چیز پر نہیں۔ ماحول اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ کسی چیز کو غور سے دیکھنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ جو چیز آج طربیہ ہے کل وہ حزنیہ بن جاتی ہے۔ ان کے اس طرح گڈمڈ ہو جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چیز یا تو ہولناک نظر آنے لگی ہے یا مضحکہ خیز۔ لیکن جب ہر چیز مضحکہ خیز ہو گئی تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ آپ کسی چیز پر بھی ہنس نہیں سکتے۔ سوچئے کہ آپ ALICE IN WONDERLAND والی دنیا میں پہنچ جائیں تو آپ کے دماغ کی کیا حالت ہوگی؟

    ہنسی کے لئے تضاد اور تقابل کا وجود لازمی ہے۔ تضاد کے بغیر چیزوں کی معنویت غائب ہونے لگتی ہے۔ جب ساری چیزیں ایک سی بے معنی ہوگئیں تو ہنسی کی گنجائش کہاں رہی؟ ہمارے زمانے میں کوئی STANDARD OF FORMALITY ہی باقی نہیں رہتا ہے، حالانکہ مزاح کے لئے یہ چیز بنیادی طور پر ضروری ہے۔ غیر معمولی باتیں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ ہم انہیں روزمرّہ کی چیزیں سمجھ کر قبول کرنے لگے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب باتیں ہمارے اندر رنج و غم بلکہ وحشت اور دیوانگی تک پیدا کرتی ہوں۔ لیکن جب تک ہم انہیں معمول سے ہٹتی ہوئی باتیں نہ سمجھیں ہم ان پر ہنس نہیں سکتے۔

    کچھ ہماری دنیا میں نظریہ بازی کا شوق بھی بہت بڑھ گیا ہے اور واقعی ہمارے زمانے کے واقعات ہیں بھی بہت اہم۔ ساری انسانیت کا مستقبل بلکہ انسانیت کی زندگی تک ان کے رجحانات پر منحصر ہے۔ چنانچہ ہر چیز ایک مسئلہ بن گئی ہے اور ایسا مسئلہ کہ جس سے لطف لینے کا وقت بالکل نہیں ہے بلکہ جسے جلدی سے جلدی سمجھنا ہے اور کوئی حل تلاش کرنا ہے۔ ہر چیز اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے کہ بے پروائی سے اس پر ہنستے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ہاں جب ہم کسی چیز کا حل نہیں تلاش کر سکتے تو شکست، مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے ایک زہر خند ضرور ہمارے ہونٹوں تک آ جاتا ہے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے ادب میں اذیت پرستانہ طنز کی بڑی فراوانی ہے۔

    اور بہت سی چیزوں کی طرح اس بحرانی دور میں ادب اور ادیب بھی بڑی غیر ضروری اور بے کار سی چیزیں معلوم ہونے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ادیب کو بھی شدت سے یہ احساس ہوگیا ہے کہ سماج اب اس کی ضرورت نہیں سمجھتی، یا اسے سامانِ تعیش میں گنا جاتا ہے جس کا بوجھ اب سماج نہیں اٹھا سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ چند ادیب سماج سے بے نیاز ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ہر آدمی میں تو اتنا بل بوتا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ادیبوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے سماج پر اپنی اہمیت واضح کرنے اور اپنا کھویا ہوا وقار پا لینے کی کوشش کی ہے۔ وہ سماج کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی ذمہ دار آدمی ہیں، ہم بھی نظریے بنا سکتے ہیں، ہمارے پاس بھی مسائل کے حل موجود ہیں، ہمارا بھی مقصد ایک ہے۔ ادیب اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں غیر ذمہ دار یا غیرسنجیدہ نہ سمجھ لیا جائے، لہٰذا وہ کوشش کر کر کے اپنے چہرے پر شکنیں ڈالتے ہیں، خود اپنے آپ کو زبردستی یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم بڑے سنجیدہ اور ذمہ دار آدمی ہیں، حالانکہ زندگی سے لطف لینا خود ایک بڑ ی ذمہ داری ہے۔ اس طرح یہ ادیب اپنے اندر ہنسی کا گلا خود دبائے رکھتے ہیں۔

    یہ ایسی باتیں تھیں جو صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مزاحیہ ادب کی تخلیق کو روک رہی ہیں۔ لیکن اردو کے نئے ادب میں مزاح کی کمی کے علاوہ ایک اور بھی سبب ہے۔ اردو کے ادیبوں کا سرمایہ بس لے دے کے ادیب بننے کی خواہش ہے۔ ان کی جڑیں نہ تو ادب میں مضبوط ہیں نہ زندگی میں۔ جس زندگی نے انہیں پیدا کیا ہے اس سے نہ تو انہیں واقفیت ہے نہ اس سے محبت۔ یوں حب الوطنی کا اظہار اور چیز ہے، لیکن جس طرح ہم سرشار اور نذیر احمد کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ماحول میں ڈوبے ہوئے تھے اور اپنی دنیا سے محبت کرتے تھے، اس طرح کے جملے ہم نئے ادیبوں کے متعلق استعمال نہیں کرسکتے۔ عصمت چغتائی اس بات سے بہت حد تک مستثنی ہیں۔ ذاتی خواہشات کے میدان کو چھوڑ کر اردو کے اکثر و بیشتر نئے ادیبوں کو زندگی سے کچھ یوں ہی سا علاقہ ہے۔ غریبوں سے ہمدری کے تمام اعلانوں کے باوجود زندگی سے ناواقف ہیں۔

    میرا مطلب ذہنی علم سے نہیں بلکہ اعصابی ادراک سے ہے۔ اگر میرا یہ الزام کچھ غیرمتوازن معلوم ہوتا تو امتحان بھی کچھ مشکل نہیں۔ اردو کے سارے نئے ادب میں سے صرف ایک افسانہ ایسا نکال کر دکھا دیجیے جس میں ہندوستان کی زندگی اور ہندوستان کی روح اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتی ہو۔ ایک ایسا افسانہ جسے پڑھ کر کوئی غیر ملکی آدمی یہ کہہ سکے کہ ہاں، اس افسانے میں ہندوستان سما گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں صرف PICK PAPERS جیسی چیز سے مطمئن ہوں گا۔ یہاں تو اسکاٹ کے THE TWO DROVERS کے مقابلے کا افسانہ ملنا مشکل ہے۔

    اردو کے ادیبوں کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ انہیں اپنی زبان ہی نہیں آتی۔ ہمارے ادیبوں نے عوام کو بولتے ہوئے نہیں سنا، ان کے افسانوں میں زندہ زبان اور زندہ انسانوں کا لب و لہجہ نہیں ملتا۔ ایسی صورت میں مزاح کی تخلیق ممکن ہی نہیں۔ ادب کی اور اصناف کی بہ نسبت مزاح کہیں زیادہ سماجی چیز ہے۔ جب تک مزاح دوسروں کے اندر آواز بازگشت پیدا نہیں کرتا، کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ آواز بازگشت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک زبان پر قدرت حاصل نہ ہو۔ لوگوں کو رلانے کے لئے اتنے فن کی ضرورت نہیں جتنی ہنسانے کے لئے ہے۔ ہمارے لکھنے والوں کو ایک طرف تو اردو نہیں آتی، دوسری طرف زیادہ تعداد ایسے ادیبوں کی ہے جنہیں صرف اتنی انگریزی آتی ہے کہ عبارت کا مفہوم سمجھ لیں۔ جب وہ کسی انگریزی مصنف سے اثر پذیر ہوتے ہیں تو وہ اس اثر کا تجزیہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا موٹی موٹی باتوں کی نقل تو وہ خیر بری بھلی کر لیتے ہیں مگر اصلی چیز ان کی گرفت میں نہیں آتی۔

    بہرحال اور جتنی رکاوٹیں ہیں وہ دور بھی ہو جائیں تب بھی اردو میں مزاحیہ ادب کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نہیں بن سکتا، جب تک کہ اردو کے ادیب اردو سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔

    (اردو کے ممتاز نقاد، مترجم اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی ایک فکرانگیز تحریر)

  • دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وہ پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو ۳۲ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے، اس کو جوڑ کر دکھاؤ۔

    اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہوکے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے، میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا۔

    اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کے دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی۔

    (’’زاویہ‘‘ اشفاق احمد سے اقتباس)

  • ناول، جو کسی نے نہیں‌ پڑھا تھا!

    ناول، جو کسی نے نہیں‌ پڑھا تھا!

    راجندر سنگھ بیدی سے لاہور میں اپنی ایک ملاقات کا ذکر سعادت حسن منٹو نے بھی کیا ہے جو پرانی انار کلی کے اس کمرے میں ہوئی جہاں باری علیگ اور حسن عباس رہتے تھے۔

    "گنجے فرشتے” میں منٹو نے باری علیگ کے خاکے میں لکھا ہے: "راجندر سنگھ بیدی، روسی ناول نویس شولوخوف کے "اینڈ کوائٹ فلوز دی ڈون” کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔ یہ ناول ہم میں سے کسی نے بھی نہیں پڑھا تھا۔ لیکن بیدی کچھ اس انداز سے گفتگو کر رہا تھا کہ مجھے خواہ مخواہ اس میں شریک ہونا اور یہ ظاہر کرنا پڑا کہ ناول میرا پڑھا ہوا ہے۔ جب میں نے اس کا اظہار کیا تو بیدی بوکھلا سا گیا۔ باری صاحب تاڑ گئے کہ معاملہ کیا ہے اور شولوخوف کی ناول نویسی پر ایک لیکچر شروع کر دیا۔

    نتیجہ یہ ہوا کہ بیدی صاحب کو تھوڑی دیر کے بعد بڑے بینڈے پن سے اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس نے شولوخوف کا زیرِ تبصرہ ناول نہیں پڑھا۔ میں نے بھی حقیقت کا اظہار کر دیا۔ باری صاحب خوب ہنسے اور آخر میں انہوں نے مخصوص انداز میں حاضرین کو بتایا کہ شولوخوف کا نام انہوں نے پہلی مرتبہ بیدی صاحب کے منھ سے سنا ہے اور اس کی ناول نویسی پر جو لیکچر انہوں نے پلایا ہے ان کی دماغی اختراع ہے!!

    (محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)

  • مولانا ابو الکلام آزاد کی ”انا“

    مولانا ابو الکلام آزاد کی ”انا“

    یہ تذکرہ ہے برصغیر کی دو علمی اور ادبی شخصیات کا جن کے افکار اور کردار کی ہندوستان کی تہذیب اور سیاست پر گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ایک تھے انشاء پرداز اور صاحبِ اسلوب ادیب آزاد اور دوسرے بے مثل خطیب اور شعلہ بیاں مقرر نواب بہادر یار جنگ۔

    ان دونوں کا تذکرہ ہندوستان کی سبھی ممتاز اور قابل شخصیات نے بڑی عقیدت اور محبّت سے کیا ہے۔ یہ اقتباس ملّا واحدی کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظام المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہو گئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔ ”

    "مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔ وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔”

    "مولانا ابوالکلام کو تو اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابوالکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اوّل کے مقرر تھے۔”

    "مولانا ابوالکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔”

    "مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیر معمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابوالکلام اپنی مشہور ”انا“ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔”

    "مولانا ابوالکلام کی ”انا“ مغروروں اور متکبّروں کی سی ”انا“ نہیں تھی۔ وہ بس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابل ستائش ”انا“ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینئس۔ مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910ء میں تھے 1947ء تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔”