Tag: اردو اقتباس

  • ’’اوتار‘‘اور ’’رتن ناتھ‘‘

    ’’اوتار‘‘اور ’’رتن ناتھ‘‘

    ہمارے یہاں قریب ہی بھارت میں ایک جگہ ہے جسے بٹھندہ کہتے ہیں۔ صدیوں پہلے اس شہر میں ریت کے میدان میں شام کو نوجوان اکٹھے ہوتے تھے اور اپنے اس زمانے کی (بہت عرصہ، بہت صدیاں پہلے کی بات کر رہا ہوں) کھیلیں کھیلتے تھے۔

    ایک دفعہ کہانیاں کہتے کہتے کسی ایک نوجوان لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے یہ ذکر کیا کہ اس دھرتی پر ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے، لیکن ہمیں پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ اس کے ایک ساتھی ’’رتن ناتھ‘‘ نے کہا تجھے جگہ کا پتا نہیں ہے۔ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں لیکن یہ بات دنیا والے جان گئے ہیں کہ ایک ’’اوتار‘‘ اس دھرتی پر تشریف لایا ہے۔ اب رتن ناتھ کے دل میں ’’کھد بد‘‘ شروع ہو گئی کہ وہ کون سا علاقہ ہے اور کدھر یہ ’’اوتار‘‘ آیا ہے اور میری زندگی میں یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہوگی اور میں کتنا خوش قسمت ہوں گا اگر ’’اوتار‘‘ دنیا میں موجود ہے اور میں اس سے ملوں اور اگر ملا نہ جائے تو یہ بہت کمزوری اور نامرادی کی بات ہوگی۔ چنانچہ اس نے ارد گرد سے پتا کیا، کچھ بڑے بزرگوں نے بتایا کہ وہ عرب میں آیا ہے اور عرب یہاں سے بہت دور ہے۔

    وہ رات کو لیٹ کر سوچنے لگا بندہ کیا عرب نہیں جا سکتا۔ اب وہاں جانے کے ذرائع تواس کے پاس تھے نہیں لیکن اس کا تہیہ پکا اور پختہ ہو گیا۔ اس نے بات نہ کی اور نہ کوئی اعلان ہی کیا۔ کوئی کتاب رسالہ نہیں پڑھا بلکہ اپنے دل کے اندر اس دیوتا کا روپ اتار لیا کہ میں نے اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ہے اور میں نے یہ خوش قسمت آدمی بننا ہے۔ وہ چلتا گیا چلتا گیا، راستہ پوچھتا گیا اور لوگ اسے بتاتے گئے۔

    کچھ لوگوں نے اسے مہمان بھی رکھا ہوگا لیکن ہمارے پاس اس کی ہسٹری موجود نہیں ہے۔ وہ چلتا چلتا مہینوں کی منزلیں ہفتوں میں طے کرتا مکہ شریف پہنچ گیا۔ غالباً ایران کے راستے سے اور اب وہ وہاں تڑپتا پھرتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے۔ اب کچھ لوگ اس کی بات کو لفظی طور پر تو نہیں سمجھتے ہوں گے۔ لیکن اس کی تڑپ سے اندازہ ضرور لگایا ہوگا کسی نے اسے بتایا ہوگا کہ وہ اب یہاں نہیں ہے بلکہ یہاں سے آگے تشریف لے جا چکے ہیں اور اس شہر کا نام مدینہ ہے۔ اس نے کہا میں نے اتنے ہزاروں میل کا سفر کیا ہے یہ مدینہ کون سا دور ہے، میں یہ ٦٠٠ کلو میٹر بھی کر لوں گا۔ وہ پھر چل پڑا اور آخرکار ’’مدینہ منورہ‘‘ پہنچ گیا۔ بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور کہیں بھی اس کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ نہیں آتا جس طرح میں عرض کر رہا ہوں۔

    شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہے کہ ’’بابا رتن ہندی‘‘ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا ’’لیکن غالب گمان ہے اور عقل کہتی ہے اور ہم اندازے سے یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ مدینہ شریف میں حضور نبی کریم کی خدمت میں رہا اور حضور کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھا۔ اب وہ کس زبان میں ان سے بات کرتے ہوں گے، کیسے رابطے کرتے ہوں گے اور رتن کس طرح سے مدینہ شریف میں زندگی بسر کرتا ہوگا؟ کہاں رہتا ہوگا اس کا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ رہتا وہیں تھا اور وہ کب تک وہاں رہا اس کے بارے میں بھی لوگ نہیں جانتے۔ اس کی طلب تھی اور اس کی خوش قسمتی تھی اور خوش قسمتی ہمیشہ طلب کے واسطے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کی طلب نہ ہو تو خوش قسمتی خود گھر نہیں آتی۔ وہ اتنے معزز میزبان کا مہمان ٹھہرا اور وہاں رہا۔‘‘

    آپ کو یاد ہوگا جب رسول پاک نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم مدینہ شریف تشریف لے گئے تو وہاں کی لڑکیوں نے اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دف پر گانا شروع کر دیا کہ ’’چاند کدھر سے چڑھا‘‘ وہ خوش قسمت لوگ تھے۔ ایک فکشن رائٹر کے حوالے سے میں یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا محکمہ پبلک سروس کمیشن کا تو نہیں ہوگا، اس وقت کوئی پبلک ریلیشن یا فوک لور کا ادارہ بھی نہیں ہوگا کہ لڑکیوں سے کہا جائے کہ تم ٹیلے پر چڑھ کے گانا گاؤ۔ وہ کون سی خوش نصیب لڑکی ہوگی جس نے اپنے گھر والوں سے یہ ذکر سنا ہوگا، رات کو برتن مانجھتے یا لکڑیاں بجھاتے ہوئے کہ رسول الله تشریف لا رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ عنقریب پہنچ جائیں گے اور پھر اس نے اپنی سہیلیوں سے بات کی ہوگی اور انھوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ جب وہ آئیں گے تو ہم ساری کھڑی ہو کر دف بجائیں گی اور گیت گائیں گی۔

    اب جب حضور کے آنے کا وقت قریب آیا ہوگا تو کسی نے ایک دوسری کو بتایا ہوگا کہ بھاگو، چلو، محکمہ تو کوئی ہے نہیں کہ اطلاع مل گئی ہوگی، یہ طلب کون سی ہوتی ہے، وہ خوش نصیب لڑکیاں جہاں بھی ہوں گی، وہ کیسے کیسے درجات لے کر بیٹھی ہوں گی۔ انھوں نے خوشی سے دف بجا کر جو گیت گایا اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ دل میں اترتے جاتے ہیں۔ انھیں آنحضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر روشنی محسوس ہو رہی ہے، پھر وہ کون سی جگہ تھی جسے بابا رتن ہندی نے قبول کیا اور سارے دوستوں کو چھوڑ کر اس عرب کے ریتیلے میدان میں وہ اپنی لاٹھی لے کر چل پڑا کہ میں تو ’’اوتار‘‘ سے ملوں گا۔

    بہت سے اور لوگوں نے بھی رتن ہندی پر ریسرچ کی ہے۔ ایک جرمن اسکالر بھی ان میں شامل ہیں۔ جب یہ سب کچھ میں دیکھ چکا اور پڑھ چکا تو پھر میرے دل میں خیال آیا بعض اوقات ایسی حکایتیں بھی بن جاتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا تھا۔ یہ پتا چلتا تھا جرمن ریسرچ سے کہ وہ حضور کے ارشاد پر اور ان کی اجازت لے کر واپس ہندوستان آ گئے۔ ہندوستان آئے تو ظاہر ہے وہ اپنے گاؤں ہی گئے ہوں گے اور بٹھندا میں ہی انھوں نے قیام کیا ہوگا، میری سوچ بھی چھوٹی ہے، درجہ بھی چھوٹا ہے، لیول بھی چھوٹا ہے۔ پھر بھی میں نے کہا الله تو میری مدد کر کہ مجھے اس بارے میں کچھ پتا چل جائے اب تو پاکستان بن چکا ہے، میں بٹھندا جا بھی نہیں سکتا اور پوچھوں بھی کس سے ١٤٠٠ برس پہلے کا واقعہ ہے۔

    کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر مسعود سے میری دوستی ہو گئی۔ ان سے ملنا ملانا ہو گیا، وہ گھر آتے رہے، ملتے رہے، ان کے والد سے بھی ملاقات ہوئی وہ کسی زمانے میں اسکول ٹیچر رہے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں ڈاکٹر مسعود کے والد صاحب نے بتایا کہ میں کافی سال بٹھندا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہا ہوں۔ میں نے کہا یا الله یہ کیسا بندہ آپ نے ملوا دیا، میں نے کہا آپ یہ فرمائیں ماسٹر صاحب کہ وہاں کوئی ایسے آثار تھے کہ جن کا تعلق بابا رتن ہندی کے ساتھ ہو۔ کہنے لگے ان کا بہت بڑا مزار ہے وہاں پر اور وہاں بڑے چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ ہندو، مسلمان عورتیں، مرد آتے ہیں اور تمہارا یہ دوست جو ہے ڈاکٹر مسعود، میرے گھر ١٣ برس تک اولاد نہیں ہوئی، میں پڑھا لکھا شخص تھا، ایسی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا جو ان پڑھ کرتے ہیں۔ لیکن ایک دن جا کر میں بابا رتن ہندی کے مزار پر بڑا رویا۔ کچھ میں نے کہا نہیں، نہ کچھ بولا۔ پڑھے لکھے سیانے بندوں کو شرک کا بھی ڈر رہتا ہے، اس لئے کچھ نہ بولا اور مجھے ایسے ہی وہاں جا کر بڑا رونا آ گیا۔

    بابا رتن ہندی کی کہانی کا مجھے پتا تھا کہ یہ مدینہ تشریف لے گئے تھے۔ مزار پر جانے کے بعد میں گھر آ گیا۔ رات کو مجھے خواب آیا کہ جس میں ہندوستانی انداز کے سفید داڑھی والے بابا جی آئے اور کہنے لگے، ’’لے اپنا کاکا پھڑ لے‘‘ (لو، اپنا بچہ لو) یہ الله تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا ہے۔ میں نے کہا جی، یہ کہاں سے آگیا، ماسٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے خواب میں وہ بچہ اٹھایا تو وہ وزنی تھا۔

    میں نے پوچھا ’’بابا جی آپ کون ہیں؟‘‘

    ’’تو وہ کہنے لگے، میں رتن ہندی ہوں۔ کیا ایسے بے وقوفوں کی طرح رویا کرتے ہیں، صبر سے چلتے ہیں، لمبا سفر کرتے ہیں، ہاتھ میں لاٹھی رکھتے ہیں اور ادب سے جاتے ہیں۔‘‘

    ماسٹر صاحب کہنے لگے مجھے سفر اور لاٹھی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں، میں نے ان سے کہا جی اس کا مصالحہ میرے پاس ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ لڑکیاں جو حضور کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھیں وہ خوش قسمت تھیں۔

    ہم کچھ مصروف ہیں۔ کچھ ہمارے دل اور طرف مصروف ہیں۔ ہم اس سفر کو اختیار نہیں کر سکتے لیکن سفر کو اختیار کرنے کی ’’تانگ‘‘ (آرزو) ضرور دل میں رہنی چاہیے اور جب دل میں یہ ہو جائے پکا ارادہ اور تہیہ تو پھر راستہ ضرور مل جاتا ہے۔

    (ممتاز ادیب، ناول اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد کی باتیں)

  • ”حضور پرمٹ!“

    ”حضور پرمٹ!“

    عشرت رحمانی ایک ممتاز ادیب، مؤرخ، نقاد اور براڈ کاسٹر تھے جنھوں نے لگ بھگ سو کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ آج عشرت رحمانی کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام امتیاز علی خان تھا۔ 16 اپریل 1910ء کو رام پور (یو پی) میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آگئے اور یہیں 20 مارچ 1992ء کو وفات پائی۔ تاریخی اور سوانحی موضوعات پر انھوں نے بڑا وقیع کام کیا۔ آل انڈیا ریڈیو پر سے عشرت رحمانی کی وابستگی ان دنوں ہوئی جب پطرس بخاری وہاں کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ اردو کے مایہ ناز ادیب اور مقبول مزاح نگار پطرس بخاری اپنی طباعی، غیر معمولی ذہانت اور مختلف علوم وفنون میں واقفیت رکھنے کے سبب ہندوستان بھر میں جانے جاتے تھے۔ پطرس بخاری کی شگفتہ مزاجی، بزلہ سنجی اور ہمہ گیر لیاقت و ذہانت ہر اعلیٰ وادنیٰ محفل میں ان کی ذات کو ممتاز بنائے رہتی تھی۔ عشرت بخاری کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور وہ بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں ہم عشرت رحمانی کی ایک تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا ہے۔

    عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”

    "بخاری صاحب کا حاکمانہ برتاؤ اپنے ماتحت افسران ہی کے ساتھ مشفقانہ نہیں تھا بلکہ تمام درجوں کے ملازمین کے ساتھ بھی پسندیدہ تھا۔ ہر اہل کار ان کے حسنِ سلوک اور اخلاقِ حمیدہ کا گرویدہ اور معترف تھا۔ ماتحت عملہ میں جو ادیب، شاعر اور ان کے دوست احباب شامل تھے ان کے ساتھ دفتر میں نہایت باضابطہ اور باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل نظر آتے لیکن نجی صحبتوں میں اسی انداز کی بے تکلفی برتتے، جس حیثیت کے تعلقات ہوتے۔ ضابطہ کی پابندی کا یہ حال تھا کہ ایک بار اسٹوڈیو کے محافظ نے ان کو حسبِ ضابطہ بغیر پرمٹ دروازے کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ نئی دہلی پارلیمنٹ اسٹریٹ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں بالائی منزل پر ڈائریکٹر جنرل کے دفاتر تھے۔ اور زیریں منزل میں دہلی اسٹیشن کے دفاتر اور اسٹوڈیوز واقع تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک دن بخاری صاحب اپنے دفتر سے اُٹھ کر بغرض معائنہ اسٹوڈیوز کی عمارت میں جانے لگے۔اسٹوڈیوز کے دروازے پر محافظ موجود تھا جس کا پہلا فرض یہ تھا کہ وہ اندر جانے والے ہر شخص کو ٹوکے اور داخلے کا پرمٹ دیکھ کر دروازہ کھولے ورنہ باہر ہی روک دے۔

    بخاری صاحب کا حکم تھا کہ اس ضابطہ کی سختی سے پابندی کی جائے اور وہ خود پرمٹ کارڈ اپنے لئے بھی ساتھ رکھتے تھے۔ اس وقت اتفاق سے پرمٹ ساتھ لے جانا بھول گئے۔ محافظ نے حسبِ صابطہ ادب سے سلام کیا۔ اور عرض کیا۔ ”حضور پرمٹ!“ ڈائریکٹر جنرل بخاری نے جیب میں ہاتھ ڈالا پرمٹ کارڈ نہ پایا، خاموشی سے مسکرائے اور واپس اپنے دفتر چلے گئے، تھوڑی دیر بعد چپراسی آیا اور محافظ کی طلبی کا حکم سنایا۔ ”ڈائریکٹر جنرل کو اس طرح بے باکی سے روک دیا۔ اب خیریت نہیں۔“ محافظ بے چارہ تھرتھر کانپنے لگا۔ باضابطہ پیشی ہوئے اور محافظ جو ڈرتا ہانپتا حاضر ہوا تھا خوش خوش اکڑتا ہوا اپنی ڈیوٹی پر واپس گیا۔ ڈائریکٹر جنرل نے اس کی فرض شناسی اور مستعدی کی تعریف کر کے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ اور کئی روز تک اس محافظ کے چرچے براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں ہوتے رہے۔”

  • ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    انسان کو حیوانِ ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔

    اس لیے کہ دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلّاقِ عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدودِ گریہ بخشے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہو جاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزشِ غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آجاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کر لو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔

    لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قد آدم دیوارِ قہقہ کھڑی کر لیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمۂ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا؛

    ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم
    نہ شبنم، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

    حسّ مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں با آسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرطِ اوّل یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟‘‘ مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیرِ لب کا سزاوار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے، ان کی بے مہری و کم نگاہی سے۔ ان کی سَر خوشی و ہوشیاری سے۔ ان کی تر دامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کردیکھنے والا ہاتھ۔

    صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

    ایک صاحبِ طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرف دار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا…. کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخیٔ تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوز و گداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصرًا اتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہوجاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

    لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و رواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلاً انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کے قلم سے)

  • ریڈیو اناؤنسر اور سورۂ روم

    ریڈیو اناؤنسر اور سورۂ روم

    ہمارے دین میں سب سے اہم چیز ڈسپلن ہے۔ میں تین چار برس پہلے کینیڈا گیا تھا، وہاں ایک یوری انڈریو نامی ریڈیو اناؤنسر ہے۔ اب وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ اس کی آواز بڑی خوب صورت آواز ہے۔

    میں اس وجہ سے کہ وہ اچھا اناؤنسر ہے اور اب مسلمان ہوگیا ہے، اس سے ملنے گیا۔ وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجوہات کے بارے میں بتاتا رہا۔ اس نے مسلمان ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سورۂ روم پڑھ کر مسلمان ہوا ہے۔ میں پھر کبھی آپ کو بتاؤں گا کہ اُس کو سورۂ روم میں کیا نظر آیا۔ میں نے کہا کہ اب ہمارے حالات تو بڑے کمزور ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ اسلام کا نام تو جلی حروف میں سامنے دیوار پر بڑا بڑا کر کے لکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا، نہیں! ہم تو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر جس طرح سے ہم کو گھیرا جا رہا ہے، اس نے کہا ٹھیک ہے گھیرا جا رہا ہے، لیکن اس صورتِ حال میں نکلنے کا بھی ایک انداز ہے۔ ہم نکلیں گے۔ میں نے کہا ہم کیسے نکلیں گے؟ اُس نے کہا کہ جب کوئی پانچ چھ سات سو امریکی مسلمان ہو جائیں گے اور اسی طرح سے چھ سات سو کینیڈین مسلمان ہو جائیں اور ساڑھے آٹھ نو سو سکینڈے نیوین مسلمان ہو جائیں گے تو پھر ہمارا قافلہ چل پڑے گا، کیونکہ We are Disciplined۔ اسلام ڈسپلن سکھاتا ہے، نعرہ بازی کو نہیں مانتا۔

    میں بڑا مایوس، شرمندہ اور تھک سا گیا۔ اُس کی یہ بات سن کر اور سوچا کہ دیکھو! ہر حال میں ان کی چڑھ مچ جاتی ہے۔ یہ جو گورے ہیں یہ یہاں بھی کام یاب ہو جائیں گے۔

    اسلام، جو ہم کو بہت پیارا ہے، ہم نعرے مار مار کر، گانے گا گا کر یہاں تک پہنچے ہیں اور یہ ہمیں مل نہیں رہا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس میں ہمارا کوئی حصّہ نہیں ہوگا؟ تو اس نے کہا کہ نہیں! آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ یار! ہمارا بھی جی چاہے گا کہ ہمارا بھی اس میں کوئی حصّہ ضرور ہو۔ کہنے لگا، ایسا کریں گے کہ جب ہمارا قافلہ چلے گا تو تم بھی بسترے اٹھا کر پیچھے پیچھے چلتے آنا اور کہنا Sir we are also Muslim۔ لیکن آپ میں وہ ڈسپلن والی بات ہے نہیں اور دنیا جب آگے بڑھی ہے تو وہ نظم سے اور ڈسپلن سے ہی آگے بڑھی ہے۔

    جب اس نے یہ بتایا کہ دیکھئے ہمارے دین میں اوقات مقرر ہیں۔ وقت سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں ہو سکتی۔ اس کی رکعات مقّرر ہیں۔ آپ مغرب کی تین ہی پڑھیں گے۔ آپ چاہیں کہ میں مغرب کی چار رکعتیں پڑھ لوں کہ اس میں اللہ کا بھی فائدہ اور میرا بھی فائدہ، لیکن اس سے بات نہیں بنے گی۔ آپ کو فریم ورک کے اندر ہی رہنا پڑے گا۔ پھر آپ حج کرتے ہیں۔ اس میں کچھ عبادت نہیں کرنی، طے شدہ بات ہے کہ آج آپ عرفات میں ہیں، کل مزدلفہ میں ہیں۔ پرسوں منٰی میں ہیں اور بس حج ختم اور کچھ نہیں کرنا، جگہ بدلنی ہے کہ فلاں وقت سے پہلے وہاں پہنچ جانا ہے اور جو یہ کر گیا، اس کا حج ہو گیا، کچھ لمبا چوڑا کام نہیں۔

    دین میں ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا گیا ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے۔ جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔

    (اردو کے ممتاز ادیب اور معروف افسانہ نگار اشفاق احمد کی ایک تحریر)

  • امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    امتحان سے قبل غبارِ خاطر کا مطالعہ!

    غبارِ خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ایک انشاء پرداز، صاحبِ اسلوب ادیب تھے جن کا تحریر و تقریر میں کوئی ثانی نہیں۔ ان کی تصنیف غبارِ خاطر کا کی نثر شگفتہ اور پیرایہ دلنشیں ہے۔

    مختار مسعود بھی اردو ادب میں‌ اپنے اسلوب اور تصانیف کی وجہ سے شہرت اور مقام رکھتے ہیں۔ اپنے عہد کی ممتاز ادبی شخصیات اور بڑے بڑے قلم کاروں‌ کی طرح‌ مختار مسعود بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کی تحریروں میں سحر میں‌ رہے اور اس کا تذکرہ اپنی کتابوں‌ میں‌ کیا ہے۔ یہاں‌ ہم مولانا آزاد کے تعلق سے مختار مسعود کے قلم سے نکلے چند پارے نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    بی اے کا امتحان شروع ہونے سے پانچ دن قبل مولانا آزاد کی ’غبارِ خاطر ‘ ہاتھ آگئی جسے پڑھنا شروع کیا تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ پانچ روز بعد بی اے کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔ چوبیس گھنٹے بعد جب یہ کتاب پڑھ کے رکھی تو اُس کا جادو پوری طرح چڑھ چکا تھا۔

    مختار مسعود لکھتے ہیں: ’’غبارِ خاطر ختم ہوئی۔ میں نے اُسے جہاں سے اُٹھایا تھا وہاں واپس رکھنا چاہا (تو) کتاب نے کہا (کہ اب) باقی باتیں امتحان کے بعد ہوں گی۔ اِس وقت تو (مجھے) تم سے ایک عہد لینا ہے کہ ’’میں مسمٰی مختار مسعود متعلم بی اے (سال آخر) بقائمی ہوش و حواس اور بہ رضا و رغبت یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر حالات سازگار ہوئے اور زندگی نے موقع دیا تو میں بالیدگی، شائستگی اور حکمت کے اِس سبق کو جو مجھے اردو اور فارسی کی اِس (لازوال) نثر نے دیا ہے قرضِ حسنہ سمجھتے ہوئے بقلم خود قسط وار اُتارنے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔

    وہ اس کتاب کے مطالعہ کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’امتحان کا خوف دل سے جاتا رہا۔ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت اور دانش سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ (اسی طرح ) فکر و نظر کا بھی تعلیمی اسناد (ڈگریوں) سے کوئی علاقہ نہیں۔ (اس) زور پر نہ کوئی اچھا شعر کہہ سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔ نہ اچھی کہانی کہہ سکتا ہے اور نہ اچھی تصویر بنا سکتا ہے۔ اِن منزلوں کے راستے اور (ہی) ہیں۔ سنگلاخ اور دشوار گزار۔ تلوے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ جسم پسینے پسینے اور چور چور ہو جاتا ہے (کیونکہ ) جسم ایک آرام طلب ذات ہے۔ ’کسب ِ کمال‘ کے لیے اُسے بہت بے آرام ہونا پڑتا ہے۔ تب جاکر ’عزیز جہاں شوی ‘ کی منزل آتی ہے۔ اور آدمی مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ!قدرت کتنی فیاض ہے۔ اور انسان کتنا نا سمجھ۔۔‘‘(حرفِ شوق)

  • جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی

    شاعر کو تلمیذِ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے، لیکن میر تقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔

    ولی دکنی، سودا، نظیر اکبرآبادی، انیس، غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہے گا۔ ڈیڑھ سو برس سے اردو کے عظیم شعراء میر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے آئے ہیں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ ’’آپ بے بہرہ ہے ہے جو معتقد میر نہیں۔‘‘

    یوں تو میر کی بد دماغی کے بہت سے افسانے مشہور ہیں لیکن انہوں نے خود اپنی آپ بیتی ’’ذکرِ میر‘‘ میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ رعایت خاں کے نوکر تھے لکھتے ہیں، ’’ایک چاندنی رات میں خان کے سامنے ڈوم کا لڑکا چبوترے پر بیٹھا گا رہا تھا۔ (خان نے) مجھے دیکھا تو کہنے لگا کہ میر صاحب، اسے اپنے دو تین شعر ریختے کے یاد کرا دیجیے تو یہ اپنے ساز پر درست کر لے گا۔ میں نے کہا، یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگا میری خاطر سے۔ چونکہ ملازمت کا پاس تھا۔ طوعا و کرہا تعمیل کی اور پانچ شعر ریختے کے اسے یاد کرائے۔ مگر یہ بات میری طبعِ نازک پر بہت گراں گزری۔ آخر دو تین دن کے بعد گھر بیٹھ رہا۔ اس نے ہر چند بلایا، نہیں گیا، اور اس کی نوکری چھوڑ دی۔‘‘ (بحوالہ، میر کی آپ بیتی۔ نثار احمد فاروقی)

    (علی سردار جعفری کے مضمون بعنوان میر: صبا در صبا سے اقتباس)

  • ‘چھوٹا کام’ کرنے والا ایک بڑا آدمی

    ‘چھوٹا کام’ کرنے والا ایک بڑا آدمی

    اٹلی میں ایک مسٹر کلاؤ بڑا سخت قسم کا یہودی تھا۔ اس کی کوئی تیرہ چودہ منزلہ عمارت تھی۔

    صبح جب میں یونیورسٹی جاتا تو وہ وائپر لے کر رات کی بارش کا پانی نکال رہا ہوتا اور فرش پر ٹاکی لگا رہا ہوتا تھا یا سڑک کے کنارے جو پٹری ہوتی ہے اسے صاف کر رہا ہوتا۔ میں اس سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے آدمی ہو کر۔ اس نے کہا یہ میرا کام ہے، کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا، جب میں نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے اور میں اس ڈسپلن میں داخل ہو گیا ہوں تو میں یہ کام کروں گا۔

    میں نے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انبیاء کی صفت ہے، جو انبیاء کے دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ وہ چھوٹے کام ضرور کرے۔ ہم کو یہ نوکری ملی ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریاں چَرائی تھیں اور ہم یہودیوں میں یہ بکریاں چَرانا اور اس سے متعلقہ نچلے لیول کا کام موجود ہے تو ہم خود کو حضرت موسٰی علیہ السلام کا پیروکار سمجھیں گے۔

    اس نے کہا کہ آپ کے نبی اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے۔ قمیص کو پیوند یا ٹانکا خود لگاتے تھے۔ کپڑے دھو لیتے تھے۔ راستے سے جھاڑ جھنکار صاف کر دیتے تھے، تم کرتے ہو؟

    میں کہنے لگا مجھے تو ٹانکا لگانا نہیں آتا، مجھے سکھایا نہیں گیا۔ وہ آدمی بڑی تول کے بات کرتا تھا۔ مجھے کہتا تھا دیکھو اشفاق تم استاد تو بن گئے ہو، لیکن بہت سی چیزیں تمہیں نہیں آتیں۔ جب کام کرو چھوٹا کام شروع کرو۔ اب تم لیکچرار ہو کل پروفیسر بن جاؤ گے۔ تم جب بھی کلاس میں جانا یا جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگنا اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا۔ ہمیشہ اپنی آواز کو دور پیچھے کی طرف پھینکنا۔ وہ لوگ جو بڑے شرمیلے ہوتے تھے، شرمندہ سے جھکے جھکے سے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔ آپ کا وصف یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنی بات ان کے لیے کہیں۔ جب بات چھوٹوں تک پہنچے گی تو بڑوں تک خود بخود پہنچ جائےگی۔ میں اس کی باتوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی تحریر چھوٹا کام سے اقتباس)

  • خدمت کی کوئی قضا نہیں!

    خدمت کی کوئی قضا نہیں!

    لاہور میں جب میں نے ایک بابا سے کہا کہ میں صوفی بننا چاہتا ہوں تو انہوں نے پوچھا کس لئے؟

    میں نے کہا اس لئے کہ یہ مجھے پسند ہے۔ آپ نے کہا مشکل کام ہے سوچ لو۔ میں نے عرض کیا۔ اب مشکل نہیں رہا کیوں کہ اس کی پرائمری اور مڈل پاس کر چکا ہوں، پاسِ انفاسِ نفی اثبات کا ورد کر لیتا ہوں، اسمِ ذات کے محل کی بھی پریکٹس ہے، آگے کے راستے معلوم نہیں، وہ آپ سے پوچھنے آیا ہوں اور آپ کی گائیڈینس چاہتا ہوں۔

    بابا نے ہنس کر کہا تو پھر تم روحانی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہو، صوفی بننا نہیں چاہتے۔

    میں نے کہا کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ کہنے لگے، روحانی طاقت حاصل کرنے کا مقصد صرف خرق عادات یعنی کرامات کا حصول ہے اور یہ طاقت چند مشقوں اور ریاضتوں سے پیدا ہو سکتی ہے، لیکن تصوف کا مقصد کچھ اور ہے!

    وہ کیا؟ میں نے پوچھا۔ تو بابا نے کہا تصوف کا مقصد خدمتِ خلق اور مخلوقِ خدا کی بہتری میں لگے رہنا ہے۔ مخلوق سے دور رہنا رہبانیت ہے، اور الله کی مخلوق میں الله کے لئے رہنا یہ پاکی ہے اور دین ہے۔ مجھے اس بابا کی یہ بات اچھی نہ لگی، بیچارہ پینڈو بابا تھا اور اس کا علم محدود تھا۔

    میں اٹھ کر آنے لگا تو کہنے لگا روٹی کھا کر جانا۔ میں نے کہا، جی کوئی بات نہیں، میں ساہیوال پہنچ کر کھا لوں گا۔

    کہنے لگا، خدمت سعادت ہے، ہمیں اس سے محروم نہ کرو۔ میں طوعاً و کرہاً بیٹھ گیا۔ بابا اندر سے رکابی اور پیالی لے آیا۔ پھر اس نے دیگچے سے شوربہ نکل کر پیالی میں ڈالا اور دال رکابی میں، چنگیر سے مجھے ایک روٹی نکال کر دی جسے میں ہاتھ میں پکڑ کر کھانے لگا۔ وہاں مکھیاں کافی تھیں۔ بار بار حملے کرتی تھیں۔

    بابا میرے سامنے بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کے لئے کندوری ہلانے لگا اور میں روٹی کھاتا رہا۔

    اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ کونے میں اس کے مریدوں اور چیلوں نے تھوڑی سی جگہ لیپ پوت کر کے ایک مسجد سی بنا رکھی تھی۔ وہاں دس بارہ آدمیوں کی جماعت کھڑی ہو گئی۔

    مجھے یہ دیکھ کر بڑی ندامت ہوئی کہ میں روٹی کھا رہا ہوں اور پیر مکھیاں جھل رہا ہے۔ میں نے کہا بابا جی آپ نماز پڑھیں۔

    کہنے لگے، آپ کھائیں۔

    میں نے کہا، جی مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی ہے آپ جا کر نماز پڑھیں۔

    مسکرا کر بولے، کوئی بات نہیں آپ کھانا کھائیں۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کہا جنابِ عالی، انہوں نے نیت بھی باندھ لی ہے، آپ نماز ادا کر لیں قضا ہو جائے گی۔

    بابا ہنس کر بولا، نماز کی قضا ہے بیٹا، خدمت کی کوئی قضا نہیں۔ آپ آرام سے روٹی کھائیں۔

    (اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد کے قلم سے)

  • گلشنِ امید کی بہار

    گلشنِ امید کی بہار

    امید ایک رفیقِ ہمدم ہے کہ ہرحال اور ہر زمانہ میں ہمارے دَم کے ساتھ رہتا ہے۔ دَم بہ دَم دلوں کو بڑھاتا ہے اور سینے کو پھیلاتا ہے۔ خیالات کو وسعت دیتا ہے۔ اور نئی نئی کامیابیوں کی ترغیبیں دیتا ہے، غرض ہمیشہ کسی نہ کسی خوش حالی کا باغ پیشِ نظر رکھتا ہے کہ یا اس سے کوئی کلفت رفع ہو یا کچھ فرحت زیادہ ہو۔

    خدائی کی نعمتیں اور ساری خوش نصیبی کی دولتیں حاصل ہو جائیں، پھر بھی یہ جادو نگار مصور ایک نہ ایک ایسی تصویر سامنے کھینچ دیتا ہے جسے دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ بس یہ بات ہو جائے گی تو ساری ہوسیں پوری ہوجائیں گی اور پھر سب آرزوؤں سے جی سیر ہو جائے گا۔

    امید کا ہونا ہر حال میں ضروری ہے۔ مفلسی، بیماری، قید، مسافرت، بہت سے دنیا کے دکھ درد ہیں کہ امید نہ ہو تو ہر گز نہ جھیلے جائیں۔ آسا جیے، نراسا مرے۔

    یہ نعمت جو بظاہر ہر کس و ناکس میں عام ہو رہی ہے، وہ ضروری شے ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر حالت بھی ہم کو اس صورت سے بے نیاز نہیں کر سکتی کیوں کہ حقیقت میں یہ مشغلہ زندگی کے بہلاوے ہیں۔ اگر ان کا سہارا ہمارا دل نہ بڑھاتا رہے تو ایک دَم گزارنا مشکل ہو جائے اور زندگی وہال معلوم ہونے لگے:

    ایک دم بھی ہم کو جینا ہجر میں تھا ناگوار
    پر اُمیدِ وصل پر برسوں گوارا ہو گیا

    اس میں شک نہیں کہ امید دھوکے بہت دیتی ہے اور اُن باتوں کی توقع پیدا کرتی ہے جو انسان کو حاصل نہیں ہوسکتیں۔ مگر وہ دھوکے اصلی نعمتوں سے سوا مزہ دیتے ہیں اور موہوم وعدے قسمت کی لکھی ہوئی دولتوں سے گراں بہا اور خوش نما معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی معاملہ میں ناکام بھی کرتی ہے تو اُسے ناکامی نہیں کہتی، بلکہ قسمت کی دیر کہہ کر ایک اس سے بھی اعلیٰ یقین سامنے حاضر کر دیتی ہے۔

    (صاحبِ اسلوب نثر نگار، شاعر اور مؤرخ و تذکرہ نگار محمد حسین آزاد کے مضمون سے اقتباس)

  • تھینکس ٹو نیاز بابا…

    تھینکس ٹو نیاز بابا…

    بھارتی فلموں کے مکالمہ نویس اور کہانی کار جاوید صدیقی نے اپنے فنی سفر کا آغاز ستیہ جیت رے کی شہرۂ آفاق فلم شطرنج کے کھلاڑی سے بطور مکالمہ نویس کیا تھا۔ یہ بات ہے 1977 کی۔

    فلم ‘دل والے دلہنیا لے جائیں گے’ کو شاید ہم سرحد پار کی فلم انڈسٹری کی، پڑوسی وڑوسی ملک کی کہانی کہہ کر ہم آسانی سے آگے نہیں‌ بڑھ سکیں‌ گے۔ محبّت کے جنون اور جذبے پر یہ فلم جاوید صدیقی کے قلم ہی سے نکلی تھی۔ اس کے علاوہ امراؤ جان، بازی گر، ڈر، غدار، ہم دونوں، چاہت، بازو، دِل کیا کرے، تال، زبیدہ، ہم کسی سے کم نہیں، کوئی مِل گیا جیسی معروف فلمیں بھی جاوید صدیقی کے کریڈٹ پر آئیں۔

    جاوید صدیقی محض 17 سال کی عمر میں‌ ممبئی چلے گئے تھے جہاں فلم نگری میں اپنی قسمت آزمائی۔ جاوید صدیقی زندگی کی اسّی سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں۔ جاوید صدیقی فلمی دنیا سے قبل اردو صحافت سے وابستہ رہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے اس سینئر قلم کار اور مصنّف نے کئی شخصیات کے خاکے بھی تحریر کیے جن پر مشتمل کتاب "روشن دان” کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں انھوں نے اعتراف کیا کہ نوّے فلمیں لکھنے کے باوجود ان کے اندر کہیں نہ ادب کے تئیں تشنگی باقی تھی اور ایک تخلیقی کسک موجود تھی جس نے یہ کتاب لکھنے کے لیے انہیں مہمیز کیا۔

    جاوید صدیقی کی اس کتاب سے ہم ایک دل چسپ قصّہ یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ قصّہ جاوید صدیقی نے اک بنجارہ کے نام سے نیاز حیدر کا خاکہ قلم بند کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ انہی کی زبانی سنیے:

    بابا کا ایک مزے دار قصہ ہری بھائی (سنجیو کمار) نے مجھے سنایا تھا۔ جب تک وشوا متر عادل بمبئی میں رہے ہر سال اپٹا کی ’’دعوت شیراز‘‘ ان کے گھر پر ہوتی رہی۔ ہر نیا اور پرانا اپٹا والا اپنا کھانا اور اپنی شراب لے کر آتا تھا اور اس محفل میں شریک ہوتا تھا۔ ساری شراب اور سارے کھانے ایک بڑی سی میز پر چن دیے جاتے، جس کا جو جی چاہتا کھا لیتا اور جو پسند آتا وہ پی لیتا۔ یہ ایک عجیب و غریب محفل ہوتی تھی جس میں گانا بجانا ناچنا، لطیفے، ڈرامے سبھی کچھ ہوتا تھا۔ اور بہت کم ایسے اپٹا والے تھے جو اس میں شریک نہ ہوتے ہوں۔ ایسی ہی ایک ’’دعوتِ شیراز‘‘ میں ہری بھائی نیاز بابا سے ٹکرا گئے۔ اور جب پارٹی ختم ہوئی تو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ ہری بھائی دیر سے سوتے تھے اور دیر سے جاگتے تھے، اس لیے وہاں بھی صبح تک محفل جمی رہی۔ پتہ نہیں کس وقت ہری بھائی اٹھ کے سونے کے لیے چلے گئے اور بابا وہیں قالین پہ دراز ہو گئے۔

    دوسرے دن دوپہر میں ہری بھائی سو کر اٹھے اور حسبِ معمول تیّار ہونے کے لیے اپنے باتھ روم میں گئے۔ مگر جب انھوں نے پہننے کے لیے اپنے کپڑے اٹھانے چاہے تو حیران ہو گئے، کیوں کہ وہاں بابا کا میلا کرتا پاجامہ رکھا ہوا تھا اور ہری بھائی کا سلک کا کرتا اور لنگی غائب تھے۔

    ہری بھائی نے نوکر سے پوچھا تو تصدیق ہو گئی کہ وہ مہمان جو رات کو آئے تھے صبح سویرے نہا دھوکر سلک کا لنگی کرتا پہن کے رخصت ہو چکے ہیں۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

    اس کہانی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کچھ دو مہینے بعد ایک دن اچانک نیاز بابا ہری بھائی کے گھر جا دھمکے اور چھوٹتے ہی پوچھا: ’’ارے یار ہری! پچھلی دفعہ جب ہم آئے تھے تو اپنا ایک جوڑ کپڑا چھوڑ گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘

    ہری بھائی نے کہا: ’’آپ کے کپڑے تو میں نے دھلوا کے رکھ لیے ہیں مگر آپ جو میرا لنگی کرتا پہن کے چلے گئے تھے وہ کہاں ہے؟‘‘ بابا نے بڑی معصومیت سے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، سر کھجایا اور بولے: ’’ہمیں کیا معلوم تمھارا لنگی کرتا کہاں ہے؟ ہم کوئی ایک جگہ کپڑے تھوڑی بدلتے ہیں؟‘‘

    ہری بھائی جب بھی یہ قصہ سناتے تھے بابا کا جملہ یاد کر کے بے تحاشہ ہنسنے لگتے تھے۔‘‘

    نیاز حیدر کی پہلو دار شخصیت کو عیاں کرتے ہوئے جاوید صدیقی ایک جگہ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں: جوہو کولی واڑہ اور اس کے آس پاس بہت سی چھوٹی موٹی گلیاں ہیں، بابا ایسی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور دور تک اندھیرا تھا، دو چار بلب جل رہے تھے مگر وہ روشنی دینے کے بجائے تنہائی اور سناٹے کے احساس کو بڑھا رہے تھے۔ بابا تھوڑی دور چلتے پھر رک جاتے، گھروں کو غور سے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اچانک وہ رک گئے، سامنے ایک کمپاؤنڈ تھا جس کے اندر دس بارہ گھر دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی گھر ایک منزل سے زیادہ نہیں تھا اور بیچ میں چھوٹا سا میدان پڑا ہوا تھا جس میں ایک کنواں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ بابا نے کہا یہی ہے اور گیٹ کے اندر گھس گئے۔ میں بھی پیچھے پیچھے تھا مگر ڈر رہا تھا کہ آج یہ حضرت ضرور پٹوائیں گے۔ بابا کمپاؤنڈ کے بیچ میں کھڑے ہو گئے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ کسی گھر میں روشنی نہیں تھی۔ بابا نے زور سے آواز لگائی: ’’لارنس…‘‘

    کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ میرا خوف اور بڑھنے لگا۔ کولیوں کی بستی ہے وہ لوگ ویسے ہی سرپھرے ہوتے ہیں آج تو پٹائی یقینی ہے۔

    بابا زور زور سے پکار رہے تھے: ’’لارنس… لارنس!…‘‘ اچانک ایک جھوپڑے نما گھر میں روشنی جلی، دروازہ کھلا اور ایک لمبا چوڑا بڑی سی توند والا آدمی باہر آیا، جس نے ایک گندا سا نیکر اور ایک دھاری دار بنیان پہن رکھا تھا۔

    جیسے ہی اس نے بابا کو دیکھا ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی: ’’ارے بابا! کدھر ہے تم؟ کتنا ٹائم کے بعد آیا ہے؟‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے بابا کو دبوچ لیا اور پھر زور زور سے گوانی زبان میں چیخنے لگا۔ اس نے بابا کا ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف کھینچنے لگا: ’’آؤ آؤ اندر بیٹھو… چلو چلو‘‘ پھر وہ میری طرف مڑا: ’’آپ بھی آؤ ساب! آجاؤ آ جاؤ اپنا ہی گھر ہے۔ ‘‘ ہم تینوں ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں دو تین میزیں تھیں، کچھ کرسیاں اور ایک صوفہ، اندر ایک دروازہ تھا جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ بابا پوچھ رہے تھے: ’’کیسا ہے تُو لارنس؟… ماں کیسی ہے؟… بچہ لوگ کیسا ہے؟‘‘

    اتنی دیر میں اندر کا پردہ کھلا اور بہت سے چہرے دکھائی دینے لگے۔ ایک بوڑھی عورت ایک میلی سی میکسی پہنے باہر آئی اور بابا کے پیروں پر جھک گئی۔ بابا نے اس کی خیر خیریت پوچھی، بچوں کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور جب یہ ہنگامہ ختم ہوا تو لارنس نے پوچھا: ’’کیا پیئیں گے بابا؟‘‘

    ’’وہسکی…‘‘ بابا نے کہا۔ لارنس اندر گیا اور وہسکی کی ایک بوتل ٹیبل پہ لا کے رکھ دی۔ اس کے ساتھ دو گلاس تھے، کچھ چینی کچھ نمک سوڈے اور پانی کی بوتلیں۔ بابا نے پیگ بنایا، لارنس الٰہ دین کے جن کی طرح ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہو گیا: ’’اور کیا کھانے کاہے بابا؟… ماں مچھّی بناتی، اور کچھ چہیئے تو بولو… کومڑی (مرغی) کھانے کا موڈ ہے؟‘‘ بابا نے مجھ سے پوچھا: ’’بولو بولو بھئی کیا کھاؤ گے؟‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بابا کی اتنی آؤ بھگت کیوں ہو رہی ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا کہ وہ لارنس کے مستقل گراہکوں میں سے ایک ہوتے تو بھی رات کے دو بجے ایسی خاطر تو کہیں نہیں ہوتی۔ یہاں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بابا اپنی سسرال میں آ گئے ہوں۔

    تھوڑی دیر میں تلی ہوئی مچھلی بھی آ گئی، ابلے ہوئے انڈے بھی اور پاؤ بھی۔ بہر حال مجھ سے برداشت نہیں ہوا، کھانا کھاتے ہوئے میں نے بابا سے پوچھا: ’’بابا اب اس راز پر سے پردہ اٹھا ہی دیجیے کہ اس لارنس اور اس کی ماں سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘

    کہانی یہ سامنے آئی کہ برسوں پہلے جب بابا اپنی ہر شام لارنس کے اڈے پر گزارا کرتے تھے تو ایک دن جب لارنس کہیں باہر گیا ہوا تھا اس کی ماں کے پیٹ میں درد اٹھا تھا، درد اتنا شدید تھا کہ وہ بیہوش ہو گئی تھی۔ اس وقت بابا اسے اپنے ساتھ لے کر اسپتال پہنچے، پتہ لگا کہ اپینڈکس پھٹ گیا ہے، کیس بہت Serious تھا آپریشن اسی وقت ہونا تھا ورنہ موت یقینی تھی۔ بابا نے ڈاکٹر سے کہا آپ آپریشن کی تیاری کیجیے اور نہ جانے کہاں سے اور کن دوستوں سے پیسے جمع کر کے لائے، بڑھیا کا آپریشن کرایا اور جب لارنس اسپتال پہنچا تو اسے خوش خبری ملی کہ اس کی ماں موت کے دروازے پہ دستک دے کے واپس آ چکی ہے۔ تھینکس ٹو نیاز بابا….

    اس کہانی میں ایک خاص بات یہ ہے کہ لارنس اور اس کی ماں کے بار بار خوشامد کرنے کے باوجود بابا نے وہ پیسے کبھی واپس نہیں لیے جو انھوں نے اسپتال میں بھرے تھے۔

    صبح تین بجے کے قریب جب میں بابا کو لے کر باہر نکل رہا تھا تو میں نے پلٹ کر دیکھا تھا، لارنس کی ماں اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھی اور لارنس اپنے ہاتھ جوڑے سَر جھکائے اس طرح کھڑا تھا جیسے کسی چرچ میں کھڑا ہو۔‘‘