Tag: اردو اقتباس

  • موسموں کا شہر

    موسموں کا شہر

    انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔

    میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان میں کوئی گالی نہ ہوتی۔ کم و بیش یہی حال ہم اہلیانِ کراچی کا ہے۔ میں اپنے شہر کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ (INDOOR PASTIME) رہا ہے۔ ہر آن بدلتے ہوئے موسم سے جس درجہ شغف ہمیں ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں بہت سے نجومی ہاتھ دیکھ کر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کی پیش گوئی کرتے ہیں اور الغاروں کماتے ہیں۔

    اب سے چند مہینے پہلے تک بعض گرم و سرد چشیدہ سیاست دان خرابیِ موسم کو آئے دن وزارتی رد و بدل کا ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی کا موسم بھی انگریز ہی کی ایک چال ہے۔ لیکن موسم گزیدہ عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ در حقیقت وزارتی رد و بدل کے سبب یہاں کا موسم خراب ہو گیا ہے۔ نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔

    اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو یا پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بت ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھیرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب و ہوا ہی کو اپنے تین دوالوں کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنےمیں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بناپر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں۔ سیلن سے جنس اور دالوں کا وزن دگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو ۱/۴سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘

    ایک اور ایک کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی 32 ویں سالگرہ پر 23 موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ دس سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
    لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔

    یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیل آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہلِ کراچی اس واللہ اعلم بالصواب قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔

    ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چولوں کے کھٹمل گن لیجیے۔ اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کے تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھول بل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم!

    کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیر و سیاحت پر اکسانے میں آب و ہوا کو بڑا دخل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہرگز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بدظن ہو جائیں۔ لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے، کچھ دن یہاں کی بہارِ جاں فزا دیکھ کر میونسپل کارپوریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں، ان کا تعلق اس مخلوق سے ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مثلاً مگرمچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ!

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کی ایک تحریر سے چند پارے)

  • مٹ مٹی!

    مٹ مٹی!

    معلوم ہوا کہ ہدایت جہاں سے ملنی ہوتی ہے، وہیں سے ملتی ہے۔ جہاں کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی نگاہ کام نہیں کرتی وہاں کسی انتہائی گنہگار، بدکار اور برے انسان کی بات بول کام کر جاتے ہیں۔

    ماں باپ کہتے کہتے تھک ہار، عاجز آ جاتے ہیں مگر وہی بات کوئی سجن بیلی کہہ دیتا ہے تو فوراً مان لی جاتی ہے۔

    بڑے بڑے قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں، معالجوں سے افاقہ نہیں ملتا اور فٹ پاتھ پہ بیٹھنے والے اتائی حکیم سے شفا نصیب ہو جاتی ہے۔

    میں نے پڑھا ہے اور بار بار میرے تجربے مشاہدے میں آیا ہے کہ اچھوں، نیکوں اور حاجیوں نمازیوں سے کہیں زیادہ گنہگاروں، خطاکاروں اور بروں کی بات میں اثر ہوتا ہے، وہ زیادہ دل پذیر اور دل نشین ہوتی ہیں۔

    بظاہر برے، بدمعاش، اجڑے ہوئے اور شرابی کبابی لوگ اچھوں، نیکوں سے کہیں بڑھ کر وفادار اور وقت پہ کام آنے والے ہوتے ہیں۔ اکثر اچھوں اور نیکوں کے ہاں اپنی پاک طینتی اور دین داری کا زعم و مان ہوتا ہے اور بروں، بد کاروں، گنہگاروں کے ہاں عجز ہی عجز، شرمندگی ہی شرمندگی اور ہر وقت خود پہ لعن طعن اور توبہ استغفار ہوتی ہے۔

    بس یہی شرم اور خود کو مٹ مٹی سمجھنا ہی میرے اللہ کو پسند ہے۔ کہتے ہیں کہ اتنے خالی پیٹ والے بیمار نہیں ہوتے جتنے کہ خوب بھرے ہوئے پیٹ والے بیمار ہوتے یا مرتے ہیں۔ اس طرح کبھی کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھو۔ خود کو نیک، اچھا، عبادت گزار، ولی اللہ اور دوسروں کو برا نہ کہو کہ کون جانے، کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا؟ بقول شخصے ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔

    (محمد یحیٰی خان کی کتاب "پیا رنگ کالا” سے اقتباس)

  • ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    ایک ہونہار لڑکی جسے ‘جہیز’ نے مار دیا

    کئی برس ہوئے نئی دہلی میں کلکتہ کے ایک ہندو بنگالی کلرک تھے۔ تنخواہ ڈیڑھ دو سو روپیہ ماہوار کے قریب۔ ان کی بیوی مر چکیں تھیں۔ کوئی لڑکا نہ تھا اور صرف ایک لڑکی تھی جس کا نام شیلا تھا۔

    اس زمانہ میں ہر شے ارزاں تھی اور ان بابو جی کے صرف ایک بچّی تھی۔ اس لیے آپ اس بچّی پر کافی روپیہ صرف کرتے اور آپ نے اس لڑکی کی تعلیم کا انتظام دہلی کے کوئین میری اسکول تیس ہزاری میں کیا تھا جہاں مصارف کی زیادتی کے باعث صرف امراء کی لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ شیلا جب چودہ برس کی تھی تو ان کے والد انتقال کر گئے اور گھر میں (جو سرکاری کوارٹر تھا) کوئی نہ رہ گیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک نوعمر اور ناتجربہ کار لڑکی صرف اکیلی رہ جائے تو اس کے دل اور ذہن کی کیا کیفیت ہوگی۔ میرے پاس ایک خاتون کا پیغام پہنچا کہ لڑکی اکیلی رہ گئی ہے۔ اس کے رشتہ دار کلکتہ میں ہیں اور جب تک اس کے چچا اس کو لینے کے لیے نہ آجائیں۔ اس لڑکی کے رہنے کا انتظام کسی خاتون کے ہاں کر دیا جائے۔ لڑکی جوان تھی اور ذمہ داری کا بھی سوال تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی ایک خاتون کے ہاں بھیجوا دیا جائے۔ یہ خاتون بہادر شاہ ظفر بادشاہ کے خاندان میں سے تھیں اور کوئین میری اسکول ہی کی تعلیم یافتہ تھیں۔ یہ "ریاست” اور اس کے ایڈیٹر کی مداح تھیں اور اس خاتون کا کبھی کبھی خط آیا کرتا تھا۔ میں نے ظفر احمد صاحب ( جو میرے اخبار ریاست کے پرنٹر و پبلشر تھے اور دفتر میں کام کرتے تھے) کو بھیج کر لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں بھجوانے کا انتظام کر دیا اور اس خاتون نے اس لڑکی کے لیے اپنے مکان کی اوپر کی منزل میں ایک کمرہ دے دیا اور چوں کہ یہ لڑکی ہندو تھی، اس کے کھانے کا انتظام اس خاتون نے دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل میں کر دیا۔ جہاں سے ہوٹل کا ملازم دونوں وقت کھانا دے جاتا اور میں نے کلکتہ اس کے چچا کو تار بھجوایا کہ شیلا اکیلی ہے۔ اسے آکر لے جائے۔

    دنیا میں زوال کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ شیلا کے چچا نے جب سنا کہ اس کے بھائی کا انتقال ہو چکا ہے اور شیلا دہلی میں اکیلی ہے تو اس نے بھی کچھ زیادہ پروا نہ کی اور لڑکی کو کلکتہ لا کر رکھنا ایک بوجھ سمجھا اور جب اسے بار بار لکھا گیا تو یہ کئی روز بعد دہلی پہنچا اور شیلا دو ہفتہ کے قریب کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں رہیں۔ اس دو ہفتہ کے قیام میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ صرف ایک واقعہ دل چسپ ہے۔

    میرے پاس اطلاع پہنچی کہ شیلا کو بخار ہے۔ میں نے ظفر صاحب کو بھیجا کہ وہ کسی ڈاکٹر کو دکھا کر دوا کا انتظام کر دیں۔ ظفر صاحب کوچۂ چیلاں گئے ۔ شیلا کو اس وقت بخار نہ تھا۔ ظفر صاحب نے کہا کہ وہ ڈاکٹر کو بُلا کر دکھا دیتے ہیں تو شیلا نے کہا کہ ڈاکٹر کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خود ڈاکٹر کے ہاں جا کر نبض دکھا کر دوا لے آئے گی۔ ظفر صاحب نے ڈولی منگائی (اس زمانہ میں دہلی میں ڈولیوں کا رواج بہت تھا اور عورتیں ڈولیوں میں ہی جایا کرتی تھیں)۔ شیلا جب ڈولی میں سوار ہونے لگی تو کمزوری کے باعث یہ کچھ لڑکھڑا سی گئی۔ ظفر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کمزور ہیں تو چاہا کو سہارا دے کر ڈولی میں بٹھا دیں۔ مگر جب ظفر صاحب سہارا دینے لگے تو اس نے بے اختیاری کے عالم میں کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔”

    شیلا ڈولی میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاں گئیں۔ ظفر صاحب ساتھ تھے۔ ڈاکٹر کو نبض دکھائی گئی اور شیلا دوا لے کر واپس کوچۂ چیلاں پہنچ گئی۔ ظفر صاحب جب دفتر میں واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ جب وہ سہارا دینے والے تھے تو شیلا نے کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔” یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب آج سے چالیس پچاس برس پہلے ہر ہندو عورت کسی غیر مرد کو چھونا بھی پاپ اور گناہ سمجھتی تھی۔ شیلا کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے گھر قیام کیے دو ہفتے ہو گئے تھے کہ اس کے چچا اس کو لینے دہلی پہنچے۔ پہلے اپنے بھائی کے کوارٹر میں گئے۔ وہاں پڑوسیوں نے بتایا کہ شیلا کوچۂ چیلاں فلاں مسلمان خاندان کے گھر رہتی ہے۔ شیلا کے چچا نے جب یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے یہ سمجھ لیا کہ شیلا مسلمان ہوگئی ہے۔ وہ کوچۂ چیلاں میں اس خاتون کے یہاں پہنچا اور دروازہ پر شور پیدا کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ ایک معصوم لڑکی کو اغوا کر کے لائے ہو۔ شیلا اوپر کے کمرے میں تھی۔ جب اس نے یہ شور سنا تو نیچے آئی اور چچا کو دیکھا، کہ وہ غصہ کی حالت میں دشنام طرازی کر رہا ہے۔ شیلا نے جب یہ کیفیت دیکھی تو اس نے اپنے چچا کو تمام اصل حالات بتائے اور کہا کہ دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل سے کھانا آتا ہے، صرف ازراہِ ہمدردی اسے یہاں رکھا گیا ہے۔ شیلا کے چچا کو جب اصل حالات معلوم ہوئے تو بے حد شرمندہ ہوا، اس نے معافی چاہی اور وہ شیلا کو لے کر رات کی گاڑی سے کلکتہ روانہ ہو گیا۔

    شیلا جب کلکتہ پہنچی تو خاندان میں اس کی شادی کا سوال پیدا ہوا اور لڑکے کی تلاش شروع ہوئی۔ بنگالی ہندوؤں میں بغیر جہیز کے لڑکی کی شادی کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لڑکے والے دس دس پندرہ پندرہ اور بیس تیس ہزار روپیہ طلب کرتے ہیں اور اگر کسی کے پانچ لڑکے ہوں تو اس کا خاندان امیر ہو جاتا ہے۔ شیلا کا باپ معمولی کلرک تھا۔ جو اپنی بیٹی پر فراخ دلی کے ساتھ روپیہ صرف کرتا رہا۔ شیلا کے چچا کے پاس بھی روپیہ نہ تھا اور اگر ہوتا تو شاید وہ پھر بھی شیلا کے جہیز میں ہزار ہا روپیہ نہ دیتا۔ جہیز کے لیے روپیہ نہ ہونے کے باعث شیلا کے چچا نے اس کی سگائی ایک معمر بنگالی کے ساتھ کر دی جو انبالہ چھاؤنی میں گڈس کلرک تھا۔ شیلا کی شادی ہونے کے چھ ماہ بعد شیلا کا شوہر جگر کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ یہ رخصت لے کر علاج کے لیے کلکتہ گیا۔ وہاں اسپتال میں داخل ہوا اور اسپتال میں ایک ماہ زیرِ علاج رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔

    شیلا کے بیوہ ہوتے ہی گھر کے لوگوں نے اس کو مجبور کیا کہ یہ رواج کے مطابق اپنے بال کٹوا دے تا کہ بدصورت نظر آئے۔ شیلا کوئین میری اسکول کی اچھے گھرانے کی لڑکیوں کے ساتھ پڑھی ہوئی تعلیم یافتہ خوب صورت اور نو عمر لڑکی تھی۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ اس کے بال نہ کاٹے جائیں۔ (بنگالی عورتوں کے بال بے حد حسین ہوتے ہیں اور بنگالی عورتیں اپنے بالوں کو لمبے چمکیلے اور خوب صورت بنانے پر کافی محنت کرتی ہیں) مگر گھر والوں نے خاندان کے وقار کے خیال سے شیلا کے بال کاٹ دیے۔ شیلا کو ایک کمرے میں بند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ تا کہ اس کی منحوس صورت شادی شدہ عورتیں نہ دیکھیں اور ان کا سہاگ قائم رہے۔ کیوں کہ بنگالیوں کے خیال کے مطابق سہاگن عورتوں کو صبح ہی صبح بیوہ عورتوں کی صورت نہ دیکھنی چاہیے۔ شیلا کی جب یہ کیفیت ہوئی تو اس نے مجھے انگریزی میں ایک خط لکھا کیوں کہ وہ اُردو نہیں جانتی تھیں اور میں بنگالی زبان سے واقف نہ تھا جس میں اس کے شادی ہونے اور بیوہ ہونے کے تمام حالات تفصیل سے درج تھے اور لکھا تھا کہ ظفر صاحب کو کلکتہ بھیج دو تا کہ وہ دہلی چلی آئے۔ کیوں کہ اس کی موجودہ زندگی ناقابلِ برداشت حد تک اذیت میں ہے۔

    جب یہ خط پہنچا تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ میں نے ظفر صاحب کو کلکتہ بھیجا کہ وہ شیلا کو دہلی لے آئیں اور یہاں اس کا کوئی انتظام کیا جائے ظفر صاحب کلکتہ گئے تو وہاں ان کے پہنچنے سے ایک روز پہلے شیلا زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کر چکی تھی۔ ظفر صاحب نے بتایا کہ اس بے گناہ اور معصوم لڑکی کی شادی معمر اور بیمار شخص کے ساتھ کر کے سوسائٹی نے اس پر بہت بڑا ظلم کیا۔ کیوں کہ جہیز کے لیے روپیہ نہ تھا اور جہیز بغیر کوئی اچھا لڑکا شادی کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے اس ظلم کے مقابلہ پر موت کو ترجیح دی۔ یہ دن رات کمرہ میں پڑی رہتی۔ جب اس کی موت ہوئی تو اس کے پاس کوئی نہ تھا اور صبح گھر والوں نے دیکھا کہ اس کی لاش چارپائی پر پڑی ہوئی ہے۔ ظفر صاحب یہ حالات سن کر واپس آگئے۔ مجھے حالات سن کر بے حد تکلیف ہوئی۔ مگر سوائے اخبار میں غم و غصہ اور اظہار افسوس کے کر ہی کیا سکتا تھا۔ چناں چہ اسی ہفتہ شیلا کی موت پر ریاست میں ایک درد ناک نوٹ لکھا گیا۔ جس میں جہیز کی لعنت پر آنسو بہائے گئے۔

    (از قلم دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر "ریاست” اخبار)

  • ابوالکلام:‌ چار باغ اسٹیشن سے قیصر باغ کی بارہ دری تک

    ابوالکلام:‌ چار باغ اسٹیشن سے قیصر باغ کی بارہ دری تک

    اردو کی پسماندہ صحافت میں الہلال نکال کر ابوالکلام نے ایک نئے شان دار اور یادگار دور کا آغاز کیا، الہلال کے ساتھ ابوالکلام کا طرزِ انشا بھی اتنا انوکھا اور نرالا تھا کہ جو سمجھ گیا اس نے بھی داد دی اور جو نہ سمجھ سکا داد دینے پر وہ بھی مجبور ہو گیا!

    1924ء میں کہ میں ندوہ کی ابتدائی جماعت کا ایک طالب علم تھا، علی برادران کے ساتھ ابوالکلام بھی لکھنؤ آئے۔ رات کو رفاہِ عام کے ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ مسلمانانِ لکھنؤ کا منعقد ہوا، ندوہ سے کئی طالبِ علم جلسہ کی شرکت کے لیے گئے، میں بھی ساتھ ہو لیا، بڑی دیر تک مولانا کی تقریر ہوتی رہی مگر میری سمجھ میں کچھ خاک نہ آیا، گھر میں بچپن سے ابوالکلام کا ذکر عقیدت و عظمت کے ساتھ سنتا چلا آ رہا تھا، میرے بڑے بھائی سید عقیل احمد صاحب جعفری تو ابوالکلام کے پرستاروں میں تھے، اسی "پروپیگنڈہ‘‘ کا اثر تھا میں رفاہِ عام کے جلسہ میں چلا گیا، لیکن جا کر پچھتایا کہ نہ معلوم یہ اتنے مشہور کیوں ہیں؟

    اگست 1928 میں کانگریس کی مشہورِ زمانہ نہرو رپورٹ قیصر باغ کی بارہ دری (لکھنؤ) میں پیش ہوئی، ندوہ کے طلبہ قومی معاملات میں عملی حصہ لینے کے خوگر تھے۔ اور مقامی قومی کارکن قومی تقریبات کے مواقع پر ان کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کے عادی تھے، اس آل پارٹیز کانفرنس کے سلسلہ میں بھی ندوہ سے رضاکاروں کی طلبی ہوتی، ندوی رضا کاروں کے دستہ کا ایک فرد میں بھی تھا۔

    میرے ذمہ ڈیوٹی یہ تھی، کہ چند رضاکاروں کے ساتھ چار باغ اسٹیشن پر موجود رہوں اور جو زعمائے قوم اور راہ نمایانِ ملّت تشریف لائیں انہیں منزلِ مقصود تک پہچانے کے انتظام میں اپنے سردار کا ہاتھ بٹاؤں۔

    ہر ٹرین پر دس پانچ معمولی اور دو چار بڑے "لیڈر” تشریف لاتے رہتے تھے۔ کوئی ٹیلر پیلس میں مہاراجہ صاحب محمود آباد کا ذاتی مہمان ہے، کوئی ٹھاکر نواب علی کے قصر فلک نما کو اپنا نشیمن بنائے ہوئے ہے، آخری ٹرین سے مولانا ابوالکلام آزاد تشریف لائے۔ آپ کی پیشوائی کے لیے ہم معمولی رضاکاروں کے علاوہ چند سربر آوردہ شخصیتیں بھی پلیٹ فارم پر ٹہل رہی تھیں، مہاراجہ محمود آباد کی طرف سے ان کے پرائیوٹ سکریٹری مسٹر سعید الرّحمٰن قدوائی موجود تھے اور ندوہ کے ارباب انتظام کی طرف سے نواب علی حسن خاں ناظم ندوۃُ العلماء نے اپنے بڑے صاحبزادے امیر حسن صاحب کو بھیجا تھا لیکن مولانا نے دونوں دعوتیں بڑی خندہ پیشانی اور وسعتِ قلب کے ساتھ مسترد کر دیں، انہوں نے فرمایا، میرے بھائی یہ سچ ہے آپ مجھے اپنے ہاں ٹھہرانا چاہتے ہیں لیکن مجھے آرام ہوٹل ہی میں ملے گا، قبل اس کے کہ سعید الرّحمٰن صاحب یا امیر حسن صاحب مزید اصرار فرمائیں، مولانا ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر محمد جان کے ہوٹل کی طرف روانہ ہو چکے تھے، ان دونوں میزبانوں کی حالت اس وقت قابلِ دید تھی۔

    خیال زلف دوتا میں نصیر پیٹا کر
    گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

    میں نے سوچا یہ کیسا اکل کھرا لیڈر ہے جو مہاراجہ اور نواب جیسے جلیل القدر میزبانوں تک کی دعوت پوری استغنا کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے۔ عجیب شخص ہے۔ پھر یہ دیکھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے ایوانِ زر نگار میں دھواں دھار تقریریں ہورہی ہیں، کبھی بپن چندر گوپال گرج رہے ہیں، کبھی مسٹر اینے بسنٹ کی آواز کانوں کے پردے سے ٹکرارہی ہے، ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا لیڈر اپنی گرمیٔ گفتار کے کمالات دکھا رہا ہے، لیکن ابوالکلام صاحب ابوالسّکوت بنے بیٹھے ہیں، پرائیوٹ مجلسوں میں بلبل ہزار داستان کی طرح چہکتے ہیں، لیکن جلسۂ عام میں مہر بہ لب۔

    بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست

    بعض لوگوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اس اجتماع کو مجلسِ مشاعرہ اور نہرو رپورٹ کو اس کا مصرعہ طرح سمجھ کر مولانا سے بھی طبع آزمائی کی درخواست کی، لیکن مولانا نے انکار فرما دیا، میرے بھائی تقریریں کافی ہو چکیں، کسی مزید تقریر کی کیا ضرورت ہے؟ مہاراجہ محمود آباد پاس بیٹھے تھے، انہوں نے بھی بڑا اصرار کیا، اب مولانا نے زبان کے بجائے صرف گردن سے جواب دینا شروع کیا۔

    یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
    واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں

    میں رضا کار کی حیثیت سے ڈائس کے قریب کھڑا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، حیرت اس پر تھی کہ یہ شخص مہاراجہ کے اصرار کو بھی خاطر میں نہیں لایا، جن کی شاعرانہ تعریف مسز سروجنی نائیڈو تک نے اپنی لچھے دار تقریر میں کر ڈالی۔

    خوب ادائیں ہیں اس لیڈر کی بھی، زمانہ اور آگے نکل گیا۔

    (از قلم: رئیس احمد جعفری)

  • دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    دریاؤں کے پانی کا مہمان نوازی پر اثر

    پروفیسر آذر کی دعوت میں مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ پنجابی لطائف نے بھی بہت دل چسپی پیدا کر دی اور باتوں باتوں میں آذر صاحب نے سب سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ ہر شخص ایمان داری کے ساتھ بتائے کہ دہلی میں آکر اس نے کیا کچھ حاصل کیا یعنی علمی، مالی یا دوسرے اعتبار سے اس نے دہلی میں آکر کیا فوائد حاصل کیے۔

    سب لوگوں نے بتانا شروع کیا، کسی نے کہا کہ اس نے ایک لاکھ روپیہ پیدا کیا، کسی نے بتایا کہ اس نے علمی اعتبار سے یہ مدارج طے کیے۔ کسی نے ظاہر کیا کہ اس نے فلاں فلاں ترقی و پوزیشن حاصل کی۔ جب میری باری آئی تو میں نے کہا چوں کہ آپ لوگ سچ بتا رہے ہیں اور سچ پوچھ رہے ہیں اس لیے میں سچ عرض کرتا ہوں کہ دہلی میں آنے کے بعد مالی اعتبار سے میرے قرضہ میں تو کئی گنا اضافہ ہوا لیکن جب دہلی میں آیا تھا تو بے حد مخلص اور مہمان نواز تھا۔ مگر اب طبیعت میں کمینہ پن اور خود غرضی پیدا ہو چکی ہے۔ چناں چہ پہلے اگر کوئی دوست ایک دو روز کے لیے بھی آجاتا تو اس کو کئی کئی ہفتے تک جانے نہ دیا جاتا۔ مہمان کی خدمت گزاری میں لطف اور حظ محسوس ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ چھے چھے ماہ اور ایک ایک سال تک دوست مستقل مہمان کی صورت میں مقیم رہے اور ایک دوست مسٹر محسن ایڈیٹر اودھ اخبار لکھنؤ جو بعد میں ایسوسی ایٹڈ پریس میں ملازم ہو کر دہلی تشریف لائے تھے۔ غالباً دو سال تک بطور مہمان رہے اور جب بھی وہ اپنے لیے مکان لے کر رہنا چاہتے تو ان کو روک لیا جاتا۔ مگر اب کیفیت یہ ہے کہ اگر کوئی دوست دہلی میں تشریف لانے کی اطلاع خط یا تار کے ذریعہ دیتا ہے تو میں اسٹیشن نہیں جاتا تاکہ وہ کسی دوسری جگہ قیام کر لے۔ اگر وہ پھر بھی آجائے تو مہمان کی خدمت گزاری طبیعت پر بھاری محسوس ہوتی ہے اور اس فرق کی وجہ دہلی کا پانی اور دہلی کی فضا ہے جس کا اثر طبیعت پر ہوا۔

    گو یہ تمام دوست خود بھی دہلی کی فضا کے اس اثر کو اپنے اندر محسوس کرتے تھے مگر تعجب کا اظہار کر رہے تھے۔ کیوں کہ ان کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ میں اس کمزوری کا اقرار کروں گا۔ چناں چہ میں نے اس کے ثبوت میں تفصیل کے ساتھ ان کو ذیل کے وہ واقعات بتائے جن کا میری ذات کے ساتھ تعلق تھا۔

    میں جب مانسہ( پٹیالہ) میں میڈیکل پریکٹس کرتا تھا۔ اس زمانہ دہلی میں ایک شاعر منشی عبد الخالق خلیق رہتے تھے۔ ان سے خط کتابت تھی۔ ان کے خط آیا کرتے کہ میں کبھی دہلی آؤں۔ چھ ماہ تک جب ان کے خط آتے رہے اور انہوں نے دہلی آنے کے لیے بار بار لکھا تو میں ان سے ملنے کے لیے مانسہ سے دہلی آیا۔ میں دہلی اور دہلی کے لوگوں کے حالات سے قطعی نا واقف تھا اور یہ خیال بھی نہ تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دوست کے بار بار لکھنے کے بعد ملنے کے لیے جائے تو وہ دعوت دینے والے کے مکان پر نہ ٹھہرے۔

    میں نے دہلی ریلوے سٹیشن پر اترنے کے بعد تانگے میں سامان رکھوایا اور بازار لال کنوال میں پہنچا۔ وہاں گلی چابک سواراں کے سرے پر تانگہ والے سے یہ کہہ کر تانگہ کھڑا رکھنے کے لیے کہا کہ میں ابھی آ کر سامان لے جاتا ہوں۔ میں گلی چابک سواراں کے اندر منشی عبد الخالق صاحب خلیق کے مکان پر پہنچا۔ خلیق صاحب کو آواز دی۔ اپنے دہلی آنے کی اطلاع پہلے دے چکا تھا۔ میری آواز سن کر خلیق صاحب مکان سے باہر نکلے اور بہت اخلاق اور تپاک سے ملے۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ میرا قیام کہاں ہے؟۔ میں اس سوال کا کیا جواب دیتا۔ یہ خیال بھی نہ کر سکتا تھا کہ اگر کوئی شخص ڈیڑھ سو میل کا سفر کر کے ملنے کے لیے آئے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ قیام کہاں ہے۔ کیوں کہ پنجاب میں اگر کوئی شخص کسی سے ملنے کے لیے جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ہوٹل یا سرائے میں ٹھہرے۔ میزبان اس کو اپنی توہین سمجھتا ہے اور تمام پنجاب میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہرا کر لطف، حظ اور اپنی عزت محسوس نہ کرتا ہو۔

    خلیق صاحب کا یہ سوال سن کر کہ میں کہاں ٹھہرا ہوں۔ میں کچھ حیران سا ہو گیا اور میں نے کھسیانا سا ہو کر جواب دیا کہ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ چناں چہ ان سے شام کو پھر ملنے کا وعدہ کر کے میں گلی سے باہر آیا اور تانگہ والے سے کہا کہ کسی ہوٹل میں لے چلو ۔ تانگے والا مجھے مہاراجہ ہوٹل میں لے گیا۔ جہاں میں نے قیام کیا اور شام کو خلیق صاحب کا نیاز حاصل کرنے کے لیے پھر ان کے مکان پر آیا۔ وہ مجھے حکیم محمود علی خاں ماہر اکبر آبادی جو بعد میں دہلی میں آنریری مجسٹریٹ اور خطاب یافتہ خاں صاحب تھے کے مکان پر لے گئے۔ جہاں ہم کچھ دیر بیٹھے اور علمی موضوع پر باتیں کرتے رہے۔ میں دو تین دن دہلی میں رہ کر اور دہلی دیکھ کر واپس مانسہ چلا آیا۔

    یہ کیفیت تو مہمان نوازی کے متعلق دہلی کی فضا کی ہے۔ میں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ میں جب دہلی آیا تو مہمان نوازی کے اعتبار سے خالص طور پر پنجابی تھا اور دو دو چار چار دن کے عارضی مہمانوں کے علاوہ چھ چھ ماہ اور سال سال تک رہنے والے مستقل مہمان بھی ہوا کرتے اور دوپہر کو لنچ پر اور رات کو ڈنر پر آٹھ آٹھ دس دس اصحاب ضرور ہوتے۔ اگر کوئی مہمان جانا چاہتا تو مختلف طریقوں سے یعنی گاڑی جانے کا وقت غلط بتا کر یا گھڑی کو پیچھے کر کے اسے روک لیا جاتا اور گر کوئی مہمان آجاتا تو دل کو مسرت سی محسوس ہوتی۔ لیکن دہلی کے پانی اور یہاں کی فضا کا اثر آہستہ آہستہ ہوتا گیا۔

    پروفیسر آذر صاحب کے ہاں ڈنر پارٹی والے دوستوں کو میں نے یہ واقعات بیان کرنے کے بعد بتایا کہ اگر دہلی کی فضا مہمان نوازی کے خلاف ہے تو اس میں دہلی والوں کا قصور نہیں، یہ پانی کا اثر ہے۔ ہر دریا کے اندر مختلف اجزا ہوتے ہیں اور ان اجزا کا دل دماغ اور قویٰ پر اثر ہوتا ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں سب سے زیادہ مہمان نواز صوبہ سرحد کے لوگ ہیں۔ اس کے بعد پوٹھوہار (راولپنڈی، جہلم) کے علاقہ کے لوگ، ان سے کم گوجرانولہ، لاہور اور امرتسر کے لوگ اور ان سے کم لدھیانہ اور انبالہ کے لوگ۔ اس کے بعد نمایاں فرق شروع ہوتا ہے اور جہاں جہاں جمنا کا پانی سیراب کرتا ہے۔ وہاں مہمان نوازی کے اعتبار سے بالکل ہی صفائی ہے۔ چناں چہ پنجاب کے صوبہ کے لوگوں میں شاید اس بات کا یقین نہ کیا جائے گا کہ دہلی ،لکھنؤ، الہ آباد اور بنارس وغیرہ میں پانی پلانے والے پانی کی قیمت ایک یا دو پیسہ لے لیتے ہیں۔ حالاں کہ پنجاب میں پانی کی قیمت لینا ایک گناہ اور پاپ سمجھا جاتا ہے اور پانی پلانے والا چاہے کتنا بھی غریب ہو پانی کی قیمت قبول نہیں کر سکتا۔

    اگر اپنی کمزوری کا اظہار کرنا اس کمزوری کو رفع اور دل میں طہارت پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے تو میں یہ صاف الفاظ میں اقرار کرتا ہوں کہ جمنا کے پانی کے باعث میں اس خوبی سے محروم ہو چکا ہوں جو اخلاص اور مہمان نوازی کے متعلق مجھ میں چند برس پہلے موجود تھی۔

    (مشہور صحافی اور ادیب دیوان سنگھ مفتون کے قلم سے)

  • ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر 1921ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لا تعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِ اقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبد القادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضامین کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سید امتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہو سکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔ سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔

    بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    1922ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تا دیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔

    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لا تعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    اسی طرح مجھ سے انہوں نے بارہا کہا کہ آپ اخبار میں ایک چوکھٹا مستقل طور پر لگاتے رہیں جس کے اندر جلی حروف میں یہ عبارت مرقوم ہو کہ ’’بائیں ہاتھ چلو۔‘‘ روزانہ یہ چوکھٹا چھپتا رہے گا تو یقین ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو بائیں ہاتھ چلنے کی اہمیت کا احساس ہوتا جائے گا۔

    میں خود ماضی پر نظر بازگشت ڈالتا ہوں۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب، مؤرخ، نقاد اور مترجم غلام رسول مہر کی ایک تحریر)

  • ‘ڈاک’

    ‘ڈاک’

    تعجب ہوگا کہ اس ڈاک کا ہمارے لغت میں پتہ نہیں۔ عربی میں ڈاک کے لئے برید کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں حضرت امیر معاویہ نے سب سے پہلے اس نظام کو قائم کیا اور برید اس کا نام پڑا۔

    ہمارے عجمی اہلِ لغت نے اس کو فارسی بریدن سے لیا اور بتایا کہ چونکہ ڈاک کے لئے دُم بریدہ یعنی دُم کٹے گھوڑے کام میں لائے جاتے تھے اس لئے ڈاک کو برید کہنے لگے۔ حالانکہ اگر یہ اشتقاق درست بھی ہوتا تو زیر کے بجائے ب کو پیش ہونا چاہیے تھا۔ اب نئی تحقیق یہ ہے کہ یہ یونانی اور لاطینی سے عربی میں آیا ہے اور وریڈاس کی اصل ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ پہلے یہی لفظ آیا پھر ترکی لفظ اولاغ چلا۔ (برنی ص 447 کلکتہ) مگر فوراً ہی اس کی جگہ ایک ہندوستانی لفظ نے رواج پایا اور وہ لفظ دھاوا ہے۔ چنانچہ تغلقوں کی تاریخ میں یہ لفظ بولا گیا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے سفرنامہ میں بعینہ یہی لفظ لکھا ہے برنی نے فیروز شاہی میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔ (ص 447 کلکتہ) مگراس کو دھاوا کیوں کہتے تھے، اس کا پتہ اپنوں سے نہیں بلکہ ابنِ بطوطہ جیسے بیگانے سے چلتا ہے۔

    وہ کہتا ہے کہ دھاوا کے معنی اہلِ ہند میں تہائی میل کے ہیں۔ چونکہ یہ ہرکارے ہر تہائی میل پر مقرر ہوتے تھے اس لئے اس کو دھاوا کہتے تھے اور استعمال سے راستے کے بجائے خود راستے والے پیادے کو دھاوا کہنے لگے۔ لیکن غریب نا آشنائے زبان کو اس میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ دھاوا کے معنی سنسکرت میں دوڑنے کے ہیں، چونکہ یہ دوڑ کر چلتے تھے اس لئے ان کی چال کو دھاوا کہنے لگے۔ پھر خود دھاوا ہوگئے اور ہر تہائی میل پر جہاں ٹھہرتے تھے، وہ دھاوا، ہو گیا۔ دھاوے کے ان پیادوں کی چوکیاں ہر تہائی میل پر دلّی سے لے کر دولت آباد تک بنی ہوئی تھیں۔ پیادہ گھنگھرو دار لاٹھی کو کندھے پر رکھ کر تیزی سے دوڑتا ہوا اگلے دھاوے تک پہنچتا تھا وہاں دوسرا پیادہ گھنگھرو کی آواز سن کر تیار رہتا تھا۔ وہ فوراً اس سے ڈاک لے کر آگے کے دھاوے کو دوڑتا تھا۔ اس طرح سندھ سے دلّی 5 دن میں ڈاک پہنچتی تھی۔

    اس دھاوے کی یادگار ہماری زبان میں دھاوا کرنا، دھاوے پر چڑھنا، دھاوا بول دینا آج بھی موجود ہے اور دھاوے کے پیادے کو پایک کہتے تھے جو پیک کی صورت میں محرم کی تقریب میں امام کے نقلی قاصدوں کا ہم نے نام رکھا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آل تیمور نے جب ہندوستان پر دھاوا کیا تو یہ لفظ یہاں سے مٹ چکا تھا۔ چنانچہ اکبر کے زمانہ میں جب بدایونی نے اس لفظ کو استعمال کیا تواس کو ترجمہ کی ضرورت ہوئی۔

    فرشتہ نے جہانگیر کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی تو دھاوا کا لفظ مٹ کر ڈاک چوکی کا لفظ پیدا ہوچکا تھا۔ مگر کہتا ہے کہ اس کو پہلے یام (ی ا م) کہتے تھے۔ سلطان علاؤ الدین کے حال میں لکھتا ہے، ’’از دہلی تا آنجا ڈاک چوکی کہ بزبان سلف یام می گفتند می نشاندہ۔‘‘ یہ یام فارسی استعمال میں ہے، دکن میں مدراس سے لے کر پونا تک اس کے لئے ٹپ ٹپال اور ٹپہ خانہ بولا جاتا ہے۔ ریاست حیدرآباد کا سرکاری لفظ یہی ہے۔

    بہرحال ڈاک کا لفظ جہانگیر کے زمانہ میں یا اس سے پہلے سے بولا جانے لگا۔ اس کی اصلیت پر میں غور کرتا رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس کے معنی منزل کے ہوں گے چونکہ یہ منزل بہ منزل جاتے تھے اس لئے اس کو ڈاک کہنے لگے اوراس کے ہر پڑاؤ کو ڈاک چوکی بمعنی پہرہ جس کی ایک یادگار چوکیدار ہمارے پاس موجود ہے۔ اسی لئے انگریزوں نے اسی اصول سے بنگال سے الہ آباد تک اپنے منزل بہ منزل سفروں کے لئے جو مختصر قیام گاہیں بنائیں ان کو ڈاک بنگلہ کہا اور اب بھی وہ یہی کہے جاتے ہیں اور اگر لغت گڑھنے کا الزام نہ قائم کیا جائے تو جی چاہتا ہے کہ یہ کہوں کہ ہندوستان اور افغانستان کی سرحد پر ڈکہ اور بنگال کی حد پر ڈھاکہ اور دوسری طرف موتی ہاری سے نیپال کے پاس دوسرا ڈھاکہ اسی منزل گاہ کے باقی نشان ہیں۔ بہرحال منزل نے راستے کی اور راستے نے خط و لفافہ اور اشیائے ڈاک کی صورت اختیار کی اور اب وہ ڈاک کے پچھلے معنی کی صورت ڈاک بٹھانا، ڈاک لگانا، یعنی جلدی جلدی منزل بمنزل یا ہاتھوں ہاتھ چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا رہ گیا ہے۔

    فیضِ ساقی نے مرے ڈاک لگا رکھی ہے
    (راسخؔ)

    روح ہے ہرجسم میں مشتاقِ اخبارِ اجل
    اس لئے یہ آمد و رفتِ نفس کی ڈاک ہے
    (ناسخؔ)

    اسی سے ڈاک بولنا بھی ایک محاورہ ہے یعنی نیلام میں منزل بمنزل کسی چیز کی قیمت بڑھانا۔

    کچھ دن ہوئے ایک قلمی ہندوستانی فارسی لغت برادرم پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی (اسماعیل کالج بمبئی) کے پاس نظر سے گزرا۔ یہ لغت کسی ایرانی یا پارسی نے لکھا ہے۔ تالیف کا سنہ نہیں معلوم۔ اس میں ایک لفظ ڈانکیہ دیکھا جس کے معنی نقیب کے لکھے ہیں۔ نقیب شاہی درباروں میں درباریوں کو با ادب رہنے کے لئے زور سے آواز لگایا کرتے تھے۔ ڈانکنا کے معنی زور سے آواز لگانے کے ہیں۔ اس سے دوسرا خیال یہ ہوتا ہے کہ ڈاک کی اصل ڈانک اور ڈاکیہ کی ڈانکیہ ہے، چونکہ ڈاک کا چوب دار آواز دیتا ہوا چلتا تھا، اس لئے اس کو ڈانکیہ اور اس کے کام کو ڈانک کہا گیا اور ڈانک نے ڈاک کی صورت بدل کر منزل بمنزل رفتار کے معنی اختیار کر لیے۔

    (ہندوستان کے نام وَر سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور کئی کتابوں کے مصنّف سید سلیمان ندوی کے الفاظ اور ان کے معنی سے متعلق مضمون سے اقتباس)

  • افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    افغان امیر شیرعلی خان اور فارسی محاورہ

    ہندوستان میں‌ برطانوی راج میں سول سرونٹ کے طور پر خدمات انجام دینے والوں میں ایک نام جی ای سی ویکفیلڈ کا تھا۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنّف تھے۔ ”پچاس برس کی یادداشتیں“ ان کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے ایک دل چسپ واقعہ تحریر کیا ہے۔

    پہلے مسٹر ویکفیلڈ کا مختصر تعارف پیش ہے۔ جی ای سی ویکفیلڈ کا پورا نام جارج ایڈورڈ کیمبیل (George Edward Campbell Wakefield) تھا۔ وہ مسٹر ویکفیلڈ مشہور تھے۔ ان کا تعلق ملتان سے تھا جہاں انھوں نے ایک برطانوی جوڑے کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ ویکفیلڈ کا سنہ پیدائش 1873 اور وفات کا سال 1944 ہے۔ ویکفیلڈ کی دادی ہندوستانی تھیں جنھوں نے عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔

    مسٹر ویکفیلڈ برصغیر میں نصف صدی تک مختلف محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جن میں مالیات، زراعت شامل ہیں، انھوں نے نظامِ دکن کے لیے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اس دوران ویکفیلڈ کو کئی دل چسپ تجربے ہوئے اور انھوں نے بعض ناقابلِ یقین اور حیرت انگیز واقعات بھی دیکھے اور ان کو ویکفیلڈ نے خاص طور پر قلم بند کیا۔ ان میں عام لوگوں کے علاوہ شہزادوں اور مہاراجوں کے حالات اور واقعات شامل ہیں۔

    مسٹر ویکفیلڈ نے اپنی کتاب میں ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں‌ درج کیا ہے۔ ”افغان امیر شیر علی خان ہندوستان کے دورے پر آئے تو ابّا جان نے ایک مقام پر اُن کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ رخصت ہوتے وقت امیر نے اُنہیں بُلا بھیجا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرے آرام کی خاطر اچھے انتظامات کیے۔ ابّا جان نے معروف فارسی محاورے کے مطابق کہہ دیا کہ یہ سب آپ ہی کا ہے۔ اس پر امیر نے خیمے کے اندر موجود ہر چیز باندھنے کا حکم دیا اور وہ ساری اشیا واقعی افغانستان لے گیا جن میں ایک پیانو بھی شامل تھا۔ بعد میں مالیات کے حکام برسوں ابّا جان کے پیچھے پڑے رہے کہ آپ نے اتنی قیمتی اشیا امیر کو مفت پیش کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔“

  • جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    کھیل کا میدان ہو یا اکھاڑا پُھرتی اور جسمانی طاقت کا مظاہرہ یا زور آزمائی آج بھی مختلف شکلوں‌ میں‌ دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ سب فن جیسا درجہ رکھتا تھا اور اس کے ماہر داد و تحسین بٹورتے تھے۔ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کے ہندوستان کی بات کریں‌ تو مختلف گھریلو ساختہ اور سادہ ہتھیار شغل اور تفریح‌ کے لیے ہی نہیں‌، جان و مال کی حفاظت اور کسی موقع پر اپنا دفاع کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔

    اردو کے ممتاز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے یہ اقتباسات اُسی زمانے کے ماہر بنّوٹیوں اور غلیل بازوں‌ سے متعلق ہیں، یہ باتیں اور واقعات دل چسپ بھی ہیں‌ اور ہمارے لیے کسی حد تک حیران کُن بھی۔

    ہندوستان کے ماہر بِنَّوٹ باز سے متعلق دل چسپ قصّہ یہاں‌ پڑھیے

    لکڑی یا بِنَّوٹ کا فن بھی ایک ایسا ہی فن ہے جس کا جاننے والا قوی سے قوی حریف کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ یہ دراصل ’’بن اوٹ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی کوئی روک نہیں ہے۔ استاد گھنٹوں اس کے پینتروں کی مشق کراتے ہیں۔ بِنَّوٹیوں میں مچھلی کی سڑپ ہونی چاہیے۔ اگر چستی پھرتی نہیں ہو گی، مار کھا جائے گا۔ لدھڑ آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا فن ہے کہ اس پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر یہ فن سَر تا پا عمل ہے، اس لیے کسی استاد سے سیکھے بغیر نہیں آتا۔

    دلّی کے 1947ء کے فسادات میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ جب ہندو لٹھ بندوں نے کسی محلّے پر حملہ کیا تو چند مسلمان لونڈے لکڑیاں لے کر باہر نکلے اور کائی سی پھٹتی چلی گئی، لٹھ دھرے کے دھرے رہ گئے اور ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے بھری ہو گیا۔ اپنی آنکھوں تو نہیں دیکھا، ہاں کان گنہگار ہیں کہ ایسے ایسے بھی بنوٹیے ہو گزرے ہیں جو تلواریے سے تلوار چھین لیتے تھے اور اس کی گٹھری بنا کر ڈال دیتے تھے۔ البتہ یہ کمال ہم نے ضرور دیکھا ہے کہ چارپائی کے نیچے کبوتر چھوڑ دیجیے، کیا مجال جو بنّوٹیا اسے نکل جانے دے۔ یہی کیفیت بانک، پٹہ، گتکہ، چھری اور علمی مد کے ہنر مندوں کی تھی۔ بجلی سی چمکی اور حریف ختم۔

    تیر اندازی کے تو ہم نے قصے ہی سنے ہیں البتہ بعض بڈھوں کی غلیل بازی دیکھی ہے۔ وہ غلیل، یہ آج کل کی دو شاخہ وائی کی شکل کی غلیل نہیں ہوتی تھی۔ یہ کوئی دو ہاتھ لمبے لچک دار بانس کو چھیل کر بنائی جاتی تھی۔ اس کے دونوں سروں کے درمیان دہرا تانت کھینچ کر باندھا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل کمان جیسی ہو جاتی تھی۔ دہرے تانت کے بیچوں بیچ دو انگل چوڑا کپڑا غُلّہ رکھنے کے لیے ہوتا تھا۔ جب غلیل استعمال میں نہ ہوتی تو اس کا چلہ اتار دیا جاتا تھا تاکہ بانس کے جھکاؤ کا زور قائم رہے۔ غُلّے خاص طور سے چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے۔ اگر زیادہ مضبوط درکار ہوتے تو چکنی مٹی میں روئی ملالی جاتی تھی اور گیلے غلوں کو دھوپ میں سکھا لیا جاتا تھا۔ دلّی میں غلیل کا سچا نشانہ لگانے والے آخر وقت تک باقی تھے۔ چور کے پاؤں کی ہڈی غُلّے سے توڑ دیتے تھے۔

    جس زمانے میں مکّہ سے مدینہ اونٹوں پر جایا کرتے تھے، تو دلّی کے ایک غلیل باز بھی حج کو گئے تھے۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ بعض دفعہ بدو لوگ قافلے کو لوٹ لیتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے ساتھ غلیل بھی لیتے گئے تھے۔ سوئے اتفاق سے ان کے قافلہ پر بدوؤں نے حملہ کر دیا۔ بڑے میاں نے اپنی غلیل کچھ فاصلے پر پھینک دی اور سب کے ساتھ کجاوے میں اتر آئے۔ جب بدو قافلے کو لوٹ کر گٹھریاں باندھنے میں مصروف ہوئے، تو بڑے میاں نے لٹیروں کے سردار کی پیشانی پر ایسا تاک کر غُلّہ (مٹّی کی خاص گولیاں جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں) مارا کہ وہ چِلّا کر گر پڑا۔ اب جو بھی چونک کر دیکھتا کہ یہ کیا معاملہ ہے اس کی کن پٹی پر غلہ لگتا اور وہ ڈھیر ہو جاتا۔

    جب کئی جوان لوٹ گئے تو بڑے میاں نے للکار کر کہا، ’’خیریت چاہتے ہو تو مال چھوڑ دو اور اپنے آدمیوں کو اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ تم میں سے ایک بھی بچ کر نہیں جا سکے گا۔‘‘ بدؤں نے کچھ توقف کیا تو انہوں نے اتنی دیر میں دو ایک کو اور لٹا دیا۔ لہٰذا لٹیروں نے جلدی جلدی اپنے زخمیوں کو اٹھایا اور وہاں سے چمپت ہو گئے۔

    دلّی میں ایسے بھی غلیل کے نشانہ باز کبھی تھے جو ایک غُلّہ ہوا میں اوپر مارتے اور جب وہ غُلّہ واپس آنے لگتا تو دوسرا غلہ اس پر مارتے اور دونوں غُلّے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر جاتے۔

  • فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    فارسی دانی اور اگلی تاریخ کا ایک کرم خوردہ ورق

    لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہو سکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کررہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے، کہیں نہ تھے۔ کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثّار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ اس لیے کہ اُن کی اردو دانی ہی ایک حد تک اُن کے لیے فارسی دانی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مسلمانوں میں اب تک خواجہ عزیز الدین صاحب کا ایسا محققِ فارسی اگلی بزمِ سخن کے یاد دلانے کو پڑا ہوا ہے جو اپنے کمال کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں کمیاب ہیں۔ اور پرانے سن رسیدہ ہندوؤں میں بھی متعدد فارسی کے اسکالر ملیں گے جن کا ایک نمونہ سندیلہ کے راجہ درگا پرشاد صاحب ہیں۔ جن کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا۔ زمین و آسمان بدل گئے۔ آب و ہوا بدل گئی۔ مگر وہ آج تک وہی ہیں۔ فارسی دانی کی داد دینے اور لینے کو موجود ہیں۔ اور اگلی تاریخ کے ایک کرم خوردہ ورق کی طرح چومنے چاٹنے اور آنکھوں سے لگانے کے قابل ہیں۔”

    (از قلم عبدالحلیم شرر لکھنوی)