Tag: اردو اقتباس

  • دفتر میں نوکری

    دفتر میں نوکری

    ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے!

    ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘

    ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘

    ’’بھئی، حرام خوری کی بھی حد ہوتی ہے!‘‘

    ’’آخر کب تک گھر بیٹھے ماں باپ کی روٹی توڑو گے۔‘‘

    ’’لو اور سنو، کہتے ہیں، غلامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’میاں صاحبزادے! برسوں جوتیاں گھسنی پڑیں گی، تب بھی کوئی ضروری نہیں کہ۔۔۔‘‘ غرض کہ صاحب گھر والوں، عزیز رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے دن رات کے تقاضوں سے تنگ آکر ہم نے ایک عدد نوکری کر لی۔ نوکری تو کیا کی، گھر بیٹھے بٹھائے اپنی شامت مول لے لی۔ وہی بزرگ جو اٹھتے بیٹھتے بے روزگاری کے طعنوں سے سینہ چھلنی کیے دیتے تھے، اب ایک بالکل نئے انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے؟‘‘

    ’’اماں، نوکری کر لی؟ لاحول ولا قوۃ!‘‘

    ’’ارے، تم اور نوکری؟‘‘

    ’’ہائے، اچھے بھلے آدمی کو کولہو کے بیل کی طرح دفتر کی کرسی میں جوت دیا گیا۔‘‘

    ’’اگر کچھ کام وام نہیں کرنا تھا تو کوئی کاروبار کرتے اس نوکری میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    لیکن ملازمت کا پرُسہ اور نوکری پر جانا دونوں کام جاری تھے۔ ایسے حضرات اور خواتین کی بھی کمی نہ تھی جن کی نظروں میں خیر سے ہم اب تک بالکل بے روزگار تھے۔ لہٰذا ان سب کی طرف سے نوکری کی کنویسنگ بھی جاری تھی۔ روزگار کرنے اور روزگار نہ کرنے کا بالکل مفت مشورہ دینے والوں سے نبٹ کر ہم روزانہ دفتر کا ایک چکر لگا آتے۔

    یہاں چکر لگانے، کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ اب تک ہم کو نوکری مل جانے کے باوجود کام نہیں ملا تھا۔ بڑے صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی پر یہ طے ہونا تھا کہ ہم کس شعبے میں رکھے جائیں گے۔ دفتر ہم صرف حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرنے کی حد تک جاتے تھے۔ فکر اس لیے نہ تھی کہ ہماری تنخواہ جڑ رہی تھی، یعنی پیسے دودھ پی رہے تھے۔ پریشانی اس بات کی تھی کہ اس ’باکار‘ ’بے کاری‘ کے نتیجے میں ہم کہیں ’حرام خور‘ نہ ہو جائیں۔ بے روزگاری کے تقاضوں سے ہم اس قدر تنگ آچکے تھے کہ اب کسی پر یہ ظاہر کرنا نہ چاہتے تھے کہ باوجود روزگار سے لگے ہونے کے ہم بالکل بے روزگار ہیں اور بے روز گا ر بھی ایسے کہ جس سے کار تو کار، بے گار تک نہیں لیا جارہا ہے۔

    روزانہ ہم گھر سے دفتر کے لیے تیار ہو کر نکلتے اور راستے میں سائیکل آہستہ کر کے دفتر کے پھاٹک پر کھڑے چپراسی سے پوچھتے، ’’اماں آیا؟‘‘

    جواب ملتا، ’’ابھی نہیں آیا۔‘‘

    اس کے بعد ہم دفتر میں جا کر حاضری لگا الٹے قدموں باہر آتے، سائیکل اٹھاتے اور شہر کے باہر دیہات، باغوں اور کھیتوں کے چکر لگا لگا کر دل بہلاتے اور وقت کاٹتے۔

    لیکن دو چار دن میں، جب دیہات کی سیر سے دل بھر گیا، تو شہر کے نکڑ پر ایک چائے خانے میں اڈا جمایا۔ پھر ایک آدھ ہفتے میں اس سے بھی طبیعت گھبرا گئی۔ اب سوال یہ کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک ترکیب سوجھ گئی۔ گھر میں کہہ دیا، چھٹی لے لی ہے۔ دو چار دن بڑے ٹھاٹھ رہے آخر جھک مار کر وہی دفتری آوارہ گردی شروع کر دی۔

    اس کے بعد دو ایک دن دفتر میں سوانگ رچایا۔ ایک دن دفتر میں چھٹی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے افسر ایک مختصر علالت کے بعد آج وفات پاگئے۔ مگر یہ خوش آگیں لمحات بھی مدتِ وصل کی طرح جلد ختم ہوگئے۔ اب کیا کریں۔ اسکول کے زمانے میں ہم نے چھٹی حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کر کے تقریباً اپنے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    غیر حاضری کا یہ عذر پیش کرتے۔ ’’دادا جان پر اچانک ڈبل نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ ایک ہی دن میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘

    نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ماسٹر صاحب نے بید کھڑکاتے ہوئے کڑک کر پوچھا، ’’کل کہاں تھے؟‘‘

    رونی صورت بنا کر عرض کیا، ’’والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔ ہم والد مرحوم کی وفاتِ حسرت آیات کی تفصیل میں جانے کے لیے مصائب پر آنے ہی والے تھے کہ ماسٹر صاحب گرجے، ’’تمہارے والد کا تو پچھلے مہینے انتقال ہو چکا ہے۔‘‘

    جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا، ’’ابّا سے مراد بڑے ابّا۔ جنہیں ہم ابّا کہتے تھے۔ ہمارے بڑے ابّا!‘‘

    ماسٹر صاحب ہماری اس تازہ ترین یتیمی سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر تو خیر ہم بالکل بال بال بچ گئے۔ لیکن جب ہم نے اپنی بھاوج کے تیسری بار انتقال کی خبر سنائی تو ماسٹر صاحب کھٹک گئے۔ ہم سے بہ ظاہر رسمی ہمدردی کی مگر شام کو بید لے کر تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئے، جہاں ہمارے خاندان کے ہر مرحوم سے انہوں نے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کے بعد ہم کو ہمارے گھر نما قبرستان میں بید سے مارتے مارتے زندہ درگور کر دیا۔

    چنانچہ اب جو دفتر سے بچنے کے سلسلے میں زمانۂ طالب علمی میں چھٹی کے ہتھکنڈوں پر نظر دوڑائی اور طبیعت گدگدائی تو بجائے دفتر جانے کے گھر میں اعلان کر دیا۔

    ’’ڈائریکٹر صاحب کا آج انتقال ہو گیا۔‘‘ رفتہ رفتہ وقت گزاری سے اتنے عاجز آگئے کہ ایک دن یہ سوچ کر کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، استعفیٰ جیب میں رکھ کر دفتر پہنچے لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ قبل اس کے کہ ہم استعفیٰ پیش کرتے ہمیں یہ خوش خبری سنادی گئی کہ فلاں شعبے سے ہم کو وابستہ کر دیا گیا ہے، جہاں ہم کو فلاں فلاں کام کرنے ہوں گے۔

    اب ہم روزانہ بڑی پابندی سے پورا وقت دفتر میں گزارنے لگے۔ دن دن بھر دفتر کی میز پر جمے ناول پڑھتے، چائے پیتے اور اونگھتے رہتے۔

    جب ہم اپنے انچارج سے کام کی فرمائش کرتے تو وہ بڑی شفقت سے کہتے ایسی جلدی کیا ہے، عزیزم زندگی بھر کام کرنا ہے۔

    ایک دن ہم جیسے ہی دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جن ڈائریکٹر صاحب کو ہم اپنے گھر میں مرحوم قرار دے چکے تھے، وہ ہم کو طلب فرما رہے ہیں۔ فوراً پہنچے۔بڑے اخلاق سے ملے۔ دیر تک اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بولے، ’’اچھا!‘‘

    ’’آپ نے شاید مجھے کسی کام سے یاد فرمایا تھا۔‘‘

    ’’اوہ! ٹھیک ہے۔ سیکریٹری صاحب سے مل لیجیے۔ وہ آپ کو سمجھا دیں گے۔‘‘

    سیکریٹری صاحب سے ایک ہفتے بعد کہیں ملاقات ہوسکی۔ انہوں نے اگلے دن بلایا اور بجائے کام بتانے کے ڈپٹی سیکریٹری کا پتہ بتا دیا۔ موصوف دورے پر تھے۔ دو ہفتے بعد ملے۔ بہت دیر تک دفتری نشیب و فراز سمجھانے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ اس موضوع پر اس اس قسم کا ایک مختصر سا مقالہ لکھ لائیے، آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔

    خوشی کے مارے ہم پھولے نہ سمائے کہ ہم بھی دنیا میں کسی کام آسکتے ہیں۔ دو صفحے کا مقالہ تیار کرنا تھا جو ہم نے بڑی محنت کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔ موصوف نے مقالہ بہت پسند کیا۔

    مزید کام کے لیے ہم ان کے کمرے کا رخ کرنے ہی والے تھے کہ اس دفتر کے ایک گھاگ افسر نے ہمارا راستہ روکتے ہوئے ہمیں سمجھایا، بھیّا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو یا ہم لوگوں کی نوکریاں ختم کرانا چاہتے ہو؟ آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟ جو کام تم کو دیا گیا تھا، اسے کرتے رہو، ہم لوگ دفتر میں کام کرنے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی۔ ناشتہ کرتے وقت اخبار کے میگزین سیکشن پر جو نظر دوڑائی تو وہی مقالہ ہمارے ایک صاحب کے صاحب کے صاحب کے صاحب کے نام نامی اور اسم گرامی کے دم چھلّے کے ساتھ بڑے نمایاں طور پر چھپا ہوا نظر آ گیا۔

    ہمارے حساب سے اب اگلا آدھ گھنٹے کا کام دو تین مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد دفتر میں مل سکتا تھا، جس پر لعنت بھیجتے ہوئے بجائے دفتر جانے کے ہم نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا، جس کو منظور ہونے میں اتنے دن لگے جتنے دن ہم نے دفتر میں کام بھی نہیں کیا تھا۔

    شاید آپ پوچھیں کہ ملازمت کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ تو میں عرض کروں گا کہ نوکری کھوئی اور دن میں اونگھنے، سونے اور ناول پڑھنے اور وقت گزاری کی عادت پائی۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف مزاح نگار اور صحافی احمد جمال پاشا کی کتاب ستم ایجاد سے ایک شگفتہ تحریر)

  • ادیبوں کے جھگڑے…

    ادیبوں کے جھگڑے…

    اردو ادب کا ایک موضوع معاصرانہ چشمک بھی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور کوئی بھی زمانہ رہا ہو، اس میں اہلِ قلم اور بڑے بڑے ادیب رشک و حسد میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    کئی عالی دماغ اور بلند حوصلہ ایسی ادبی ہستیاں جو اپنے پڑھنے والوں میں مقبول رہی ہیں، وہ بھی باہمی چپقلش اور جھگڑوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں انتہائی پست اور اکثر سوقیانہ پن کا شکار ہوگئے۔ تاہم بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہم عصروں سے چھیڑ چھاڑ اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں ایک حد قائم رکھی۔ یہاں‌ ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔”

    "اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشکؔ بنا تھا۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو رو کر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔”

    شاہد احمد دہلوی آگے لکھتے ہیں۔

    "منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا، لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔”

    "شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اُسے لطف آتا تھا۔ ن م راشد سے میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے؟‘‘

    راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا، ’’دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔‘‘ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے۔ چٹخ کر بولے کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، کتھا کلی، کتھک، منی پوری؟…. فراڈ کہیں کا۔‘‘ بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔”

  • تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامت…

    تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامت…

    انسان، انسان کے ساتھ مل کر رہے تو ملا رہتا ہے، خوش رہتا ہے، لیکن کبھی کبھار ایسی کیفیات بھی آجاتی ہیں کہ سب کے ساتھ رہتا سہتا، سب کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا پھر بھی تنہا رہ جاتا ہے۔

    بات کسی سے کرتا ہے، دھیان کسی طرف رہتا ہے۔ بیٹھا کہیں ہوتا ہے، دھیان کہیں رہتا ہے۔ سامنے کوئی ہوتا ہے اور ذہن کے پردے پر تصویر کسی اور کی ابھرتی ہے۔ یہ تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔

    پھر جب انسان کسی ایسے سے بچھڑ رہا ہوں جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے خواب سے زیادہ حسین، سپنوں سے زیادہ سہانے رہے ہیں اور جس کی بات بات پہ دل کے تاروں میں جلترنگ بجتا رہا ہو تو یہ بچھڑنا قیامت کا بچھڑنا ہوتا ہے۔ تب بیتے ہوئے سارے لمحے، گزری ہوئی ساری باتیں، کہے ہوئے سارے بول آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں، نمی کا غبار بن کر آنکھوں میں اتر آتے ہیں۔ انسان بھری محفل میں تنہا رہ جاتا ہے۔ سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اکیلا رہ جاتا ہے۔

    اکیلے پن کا یہ دکھ بڑا اذیت ناک ہوتا ہے۔ انسان کو کچھ دیکھنے دیتا ہے نہ سوچنے دیتا ہے۔ بس اندر ہی اندر چاٹتا رہتا ہے۔ موسم کی آنکھ مچولیاں ہوں یا پھولوں اور کلیوں کی مسکراہٹیں، خزاؤں کے رنگ ہوں یا بہار کی شوخیاں، برسات کی پن پن ہو یا دمکتے سورج کی لش لش، اس کی آنکھوں میں اتری نمی کا غبار اسے رنگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ بس وہ اپنے اندر قید ہو جاتا ہے اور اس کی ذات کے قفل کی چابی بچھڑنے والا اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

    (معروف مزاح نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف کرنل (ر) اشفاق حسین کی تحریر سے اقتباس)

  • اے حمید کی عیّاشی اور مرزا ادیب کی شرافت

    اے حمید کی عیّاشی اور مرزا ادیب کی شرافت

    اے حمید کی کہانیاں ماضی پرستی کے ساتھ اس رومانوی فضا کو جنم دیتی ہیں جس میں اُن کی کتاب کا قاری دیوانہ وار اور بصد شوق صفحے الٹتا چلا جاتا ہے۔ اے حمید اردو کے مقبول ترین کہانی کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے افسانہ نگاری، ناول اور ڈرامہ نویسی میں بڑا نام پایا۔ یہاں ہم ان کی کتاب یادوں کے گلاب سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا اور اے حمید کی ایک حرکت پر حیرانی بھی ہو گی۔

    “ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

    مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

    ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“
    میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

    آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

    اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“

  • عشق انسان کی ضرورت ہے!

    عشق انسان کی ضرورت ہے!

    محبّت کا جذبہ کسی ایک مخلوق یا شے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انسانوں کی اس دنیا کی بات ہو تو بالخصوص ادیب اور شعرا نے عشق اور محبّت کو اپنی تخلیقات اور تحریروں کا خاص موضوع بنایا ہے۔

    قابل اجمیری کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا
    تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
    عشق انسان کی ضرورت ہے

    ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد عشقِ مجازی اور عشقِ‌ حقیقی کو کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں:

    اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشقِ مجازی اس کی شاخ ہے۔

    جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔

    (کتاب زاویہ، باب: محبت کی حقیقت سے اقتباس)

  • بنّوٹ: عجیب و غریب فن اور دو حیرت انگیز واقعات

    بنّوٹ: عجیب و غریب فن اور دو حیرت انگیز واقعات

    کھیل کے میدان میں چُستی پھرتی دکھانا اور اکھاڑوں میں جسمانی طاقت کا مظاہرہ اور زور آزمائی شاید اُس زمانے کی باتیں‌ ہیں‌ جب غذا اور ہماری خوراک خالص اور مقوّی ہُوا کرتی تھی۔ انسان کسرت اور صحت مند مشاغل کے عادی تھے۔ ایسے طاقت وَر لوگ کسی حملہ آور یا لٹیرے کا مقابلہ بھی ڈٹ کر کیا کرتے تھے۔

    آج کا دور کُشتی، ملاکھڑے، پنجہ آزمائی کا نہیں‌، لیکن ایک ڈیڑھ صدی قبل یہ کھیل اور دیسی ہتھیاروں کا استعمال باقاعدہ فن کا درجہ رکھتا تھا۔ پٹے بازی اور بنّوٹ بھی ایک قسم کے ہتھیار تھے۔ یہاں ہم تقسیمِ ہند سے کئی سال قبل دلّی کے ماہر بنّوٹ باز اور طاقت وَر لٹیرے سے متعلق دو حیران کن واقعات نقل کررہے ہیں۔ یہ ایسے واقعات ہیں جنھیں‌ پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "پٹے بازی اور بنّوٹ یہ دونوں فن حقیقت میں عجیب و غریب ہیں۔ پٹے بازی کے ایک ادنیٰ درجے کا فن ہے مگر بنّوٹ اس کے مقابلے میں میں بہت اعلٰی درجے کا ہے۔ ایک شخص جو عمدہ بنّوٹ جانتا ہے دو، چار نہیں بلکہ دس بیس آدمیوں کے قابو میں نہیں آ سکتا!”

    "ان دونوں فنون کے استاد دہلی میں میں بکثرت موجود تھے مگر اب ان کا بالکل کال ہے۔ سارے شہر میں اس فن کے شاید دو ایک استاد ہوں تو ہوں۔”

    "1881ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جس پر خون کا الزام تھا اور بڑا قوی ہیکل اور زبردست جوان تھا، وہ یکایک دہلی پولیس کے ہاتھ سے ہتھکڑیاں توڑ کر نکل گیا اور ایک سپاہی کی تلوار چھین کر عدالت سے نیچے اتر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ عدالت میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہر چند اس سے تلوار چھیننے کی کوشش کی گئی مگر کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ دلیری سے اس کے پاس جاتا اور اس سے تلوار چھین لیتا۔ وہ برابر آواز پر آواز دے رہا تھا کہ کسی کو جرأت ہو تو میرے سامنے آئے۔”

    "آخر یہ بات طے ہوئی کہ اگر یہ آسانی کے ساتھ تلوار نہ دے تو اسے گولی مار دی جائے کہ اتنے میں ایک میر صاحب جو بہت ہی کمزور ہاتھ پیر کے، پستہ قامت تھے اور غالباً دہلی کے رجسٹری کے محکمے میں کام کرتے تھے اپنے دفتر سے باہر نکل آئے اور حکام سے یہ کہا کہ اگر حکم ہو تو میں اسے زندہ گرفتار کر لوں۔ یہ سن کر ان کو بڑا تعجب ہوا۔ ان سے کہا گیا کہ کیا آپ واقعی اس سے تلوار چھین لیں گے؟ انھوں نے کہا یہ معمولی سی بات ہے۔ میں اس ایک سے نہیں بلکہ کئی ایک آدمیوں سے تلوار چھین سکتا ہوں۔ چنانچہ انہیں حکم ملا۔ انھوں نے ایک پیسہ اپنے رومال میں باندھا اور اس کے آگے گئے۔ اس نے ہنس کر کہا کہ آپ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈالتے ہیں، سامنے سے ہٹ جائیے ورنہ میں تلوار سے آپ کی گردن اڑا دوں گا۔ میر صاحب نے ہنس کر کہا کہ بھائی تیری خیر اسی میں ہے کہ تلوار دے دے، ورنہ تجھے سخت نقصان پہنچے گا۔ وہ یہ سنتے ہی لال پیلا ہو گیا اور میر صاحب پر تلوار لے کے شیر کی طرح جھپٹا۔ میر صاحب نے پینترا کاٹ کے اس کی کلائی پر اس زور سے رومال میں بندھا ہوا ہوا پیسہ مارا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کے کئی گز آگے جا پڑی۔ چوںکہ وہ پیسہ کلائی کی رگ پر لگا تھا، خود ایسا چکرا کے گرا کہ کئی منٹ تک اسے ہوش نہ آیا۔ آخر وہ زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اور میر صاحب کی بڑی واہ واہ ہوئی۔”

    "اسی طرح ایک ڈاکو جس کا قد آٹھ فٹ سے کم نہ تھا اور جو ایک دیو معلوم ہوتا تھا، جس کی قوّت یہاں تک تھی کہ موٹی موٹی زنجیریں بہت آسانی سے توڑ دیا کرتا تھا۔ جس کے آگے آٹھ دس من کا بوجھ اٹھا لینا ایک معمولی بات تھی جو تنہا ڈاکہ مارا کرتا تھا۔ اپنی حسبِ عادت وہ نجف گڑھ کے ایک سپاہی جو انگریزی پلٹن میں ملازم تھا، کے گھر میں آیا۔ اس ڈاکو کی یہ عادت تھی کہ وہ گھر میں گھس کے سارا سامان نہایت اطمینان کے ساتھ باندھ لیتا تھا اور جب چلنے لگتا تھا تو گھر والوں کو جگا کے آگاہ کر دیتا تھا کہ اگر تم سے روکا جائے تو مجھ کو روکو، میں تمہارا سامان لے کے جاتا ہوں۔”

    "اتفاق سے سپاہی کی بیوی اور اس کی بڑھیا ساس کے سوا مکان میں کوئی نہ تھا، اس نے حسبِ عادت ان عورتوں کو جگایا اور کہا میں سامان لے کے جاتا ہوں۔ سپاہی کی بیوی پہلے ہی سے جاگ رہی تھی، اور یہ سارا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے ڈاکو کی آواز سن کر صرف اتنا کہا کہا کہ اچھا تُو میرے گھر کا سامان لے جا رہا ہے، لے جا۔ میں عورت ذات ہوں اور ایک میری بڑھیا ماں ہے۔ اس وقت اگر میرا شوہر ہوتا اور تُو اس کے آگے سے سامان لے جاتا تو میں جانتی کہ تُو بڑا ڈاکو ہے۔ یہ سن کر ڈاکو نے ایک بڑا قہقہہ لگایا اور اس سے دریافت کیا کہ تیرا شوہر کب آئے گا۔ اس نے کہا کہ وہ جلد آنے والا ہے، اس کی رخصت منظور ہو چکی ہے ہے۔ وہ غالباً ہفتہ عشرے میں یہاں پہنچ جائے گا، اس پر ڈاکو بولا کہ ہم یہ سامان یہیں چھوڑ جاتے ہیں، جب تیرا شوہر آئے گا اسی وقت آ کے لے جائیں گے۔ یہ کہہ کر ڈاکو چلا گیا۔ کوئی پندرہ دن کے بعد وہ دیو نژاد ڈاکو جس کے ہاتھ میں ایک من کے وزن کا لوہے کا ڈنڈا رہتا تھا۔ پھر اس سپاہی کے مکان میں آیا۔ اسی طرح بے تکلفی سے اس نے سارا سامان باندھا اور جب اپنا کام کر چکا تو اس نے سپاہی کو جگایا اور کہا میں یہ سامان لے جاتا ہوں۔ سپاہی اٹھ کھڑا ہوا، بانس کی ایک معمولی لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اور اس نے ڈاکو سے کہا تیری اسی میں خیر ہے کہ تو یہ کُل سامان جہاں سے سمیٹا ہے وہیں رکھ دے اور اپنی جان بچا کے چلا جا۔”

    "دیو نژاد ڈاکو بہت حقارت سے خندہ زن ہوا اور کہا کہ ڈنڈا جو میرے ہاتھ میں ہے اتنے وزن کا ہے کہ تو اسے اٹھا نہیں سکتا۔ تین ڈنڈے سے ایک زبردست بھینسے اور سانڈ کو بٹھا دیتا ہوں۔ تیری عورت حقیقت میں بڑی دلیر ہے کہ اس نے مجھ سے دو بہ دو باتیں کی تھیں۔ ایسی عورت پر مجھے رحم کھانا چاہیے۔ تیری اس جرأت سے یقینا وہ بیوہ ہو جائے گی اور تو مفت میں جان دے دے گا۔ میرے ایک ہاتھ کا بھی تُو نہیں ہے۔ بس تُو جا اور اپنی بیوی کی جوانی پر رحم کھا کے اپنے پلنگ پر سو جا۔”

    "سپاہی نے ایک قہقہہ مارا اور پھر جھلا کے کہا کہ اس بیہودگی سے کوئی نتیجہ نہیں، اگر تو اپنی جان کی خیر چاہتا ہے تو اس سامان کو کھول اور جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دے۔ ڈاکو کو سپاہی کی یہ بد زبانی اچھی نہ معلوم ہوئی۔ اس نے فوراً اپنے لوہے کا ڈنڈا رسید کیا۔ سپاہی چونکہ ہوشیار کھڑا تھا اس کا ہاتھ خالی دے کے اور بڑی دلیری سے للکار کے کہا کہ او نامراد! اگر تجھ میں میں جرأت ہے تو اور دل کا حوصلہ نکال لے۔ چنانچہ ڈاکو نے غصے میں آ کے ڈنڈا پھرا کے مارا، مگر وہ بھی خالی گیا۔ سپاہی نے اس پر کہا کہ لے اب سنبھل، تیرے دو وار ہو چکے ہیں، تیسرا وار میرا ہے۔ یہ کہہ کر کچھ ایسی لکڑی اس کی شہ رگ پر ماری کہ وہ دیو چکرا کے گر پڑا۔ سپاہی اس کے پاس کھڑا ہو گیا اور زور سے ٹھوکر مار کے کہا، بس اس برتے پر اتنا پھول رہا تھا، ایک معمولی بانس کی لکڑی بھی نہ کھا سکا۔ چنانچہ بڑی دیر میں اسے ہوش آیا، مگر اس میں کسی قسم کی ہمت نہ رہی۔ وہ سپاہی کے پیروں پر گر پڑا اور کہا مجھے امان دو، میں تمہارا مدتُ العمر خادم رہوں گا۔”

    "یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جو لوگ بنّوٹ کے فن سے ناواقف ہیں وہ ممکن ہے کہ اسے کہانی سمجھیں یا مبالغہ خیال کریں، مگر فی الواقع جنہوں نے بنّوٹ کے استادوں کو دیکھا ہے یا کم و بیش اس فن کی خود ورزش کر چکے ہیں، وہ اسے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک صاحبِ فن کس آسانی سے دس بیس آدمیوں پر غالب آ سکتا ہے۔ دہلی میں 1857ء سے پہلے اور بعد تک لکڑی اور بنّوٹ کے علیحدہ علیحدہ اکھاڑے تھے۔ شرفا اور امرا کے بچّے اس کی باقاعدہ تعلیم پاتے تھے۔ اسی طرح پنجہ اور کلائی کے استاد دہلی میں ایسے موجود تھے جن کی نظیر اب نہیں ملتی۔”

    (دہلی کی یادگار ہستیاں از امداد صابری)

  • ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    وطن عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جان و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومتِ وقت اور برسرِ اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحتِ قلب اور روحتِ روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا، ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔

    مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔

    شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔“

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔ حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • آزادی سے گریز

    ”جب برائیاں خوبی کہلائیں اور مفاد پرستی وجہِ احترام بن جائے تو ملکی نظام کی مدافعت کم زور ہوتی چلی جاتی ہے، اور نظام خود مزید برائیوں کو جنم دینے لگتا ہے۔

    ایسے میں محض ضمیر کی آواز یا جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا کافی نہ ہوگا، کیوں کہ صرف ضمیر کی آواز ایک نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسے مخصوص حالات میں للکار کی ضرورت ہے۔ جب کوئی نظام خود معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ناہم واری کو فروغ دینا شروع کرتا ہے، تو کچھ عرصے بعد عوام اتنے بے بس ہوجاتے ہیں کہ وہ بتدریج خود ہی اس ظالمانہ معاشرے کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔

    یہاں تک کہ وہ آزادی کو بھی حاصل کرنے سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ باالفاظ دیگر انہیں آزادی کے تصور ہی سے خوف آنے لگتا ہے، بلکہ مظلوم خود ہی ایسے معاشرے کو قائم رکھنے میں ظالم کی مدد کرنے لگتا ہے۔

    (فکر و دانش کے موتی، ایس ایم ظفر)

  • ”وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں…“

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد حکومتِ پاکستان نے مجھے یقین دلایا تھا کہ حیدرآباد پر بھارت کے قبضے سے میرا سفارتی رتبہ اور حیثیت متاثر نہیں ہوگی اور تمام مراعات برقرار رہیں گی۔

    نواب زادہ لیاقت علی خاں کو حکومت کی اس یقین دہانی کا شدت سے احساس تھا اور جن دشوار حالات میں، میں اپنے مؤقف کو نباہ رہا تھا، وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے۔

    حیدر آباد کے سقوط کے بعد اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ریلوے نے مجھے ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی۔ جب نواب زادہ صاحب کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا ”مشتاق! کیا تم اپنی ذمے داری سے دست بردار ہونا چاہتے ہو…؟“ میں نے جواب دیا ”میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے، جب تک حکومتِ پاکستان میرے اسنادِ تقرر کو تسلیم کرتی ہے، میرے لیے اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“

    میرے اس جواب پر لیاقت علی خاں نے خود ریلوے والوں سے کہہ کر ملازمت کی پیش کش واپس کرا دی۔ اس کے بعد وہ معمول سے بھی زیادہ میرا خیال کرنے لگے۔ اس کے برخلاف غلام محمد صاحب جن سے حیدر آباد کے معاملات میں مجھ سے براہِ راست تعلق تھا، کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ میں کسی نہ کسی طرح اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو جاؤں۔ چناں چہ انھوں نے خود ہی مجھے مرکزی سیکریٹریٹ میں عہدے کی پیش کش کرا دی، جسے میں نے نواب زادہ علی لیاقت علی خان سے پوچھے کے بغیر ہی مسترد کر دیا۔

    اس پر غلام محمد صاحب مجھ سے کئی دنوں تک بہت ناراض رہے۔ علاوہ ازیں بعض اعلیٰ عہدے داروں کے روّیے سے یہ تاثر ہونے لگا کہ وہ میری سفارتی پوزیشن کو کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اب تک جہاں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اب وہاں بے اعتنائی اور بے رخی برتی جانے لگی۔ بعض حضرات موقع محل دیکھے بغیر ایسی بات کہہ دیتے تھے، جس سے ان کے دل کی بات ظاہر ہو جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایک حیدر آبادی مہاجر کی شادی ایک وزیرِ مملکت کے گھرانے میں طے پائی۔ حیدر آباد کا نمائندہ ہونے کی بنا پر میں برات کا سربراہ تھا۔ جیسے ہی برات دلہن کے گھر داخل ہوئی، ایک بڑے افسر نے خواجہ ناظم الدّین صاحب کو، جو مہمان خصوصی تھے، مخاطب کر کے کہا ”لیجیے جناب اب حیدر آبادی ہماری لڑکیوں کو بھی لے جانے لگے۔“ مجھے یہ مذاق بھونڈا اور بے موقع معلوم ہوا اور میں نے جواباً عرض کیا ”مگر جنابِ عالی، وہ سب گھر داماد ہیں، کوئی فکر کی بات نہیں۔ کوئی باہر نہیں جائے گا۔“ مطلب یہ کہ آپ حیدر آبادیوں کے پاکستانی معاشرے میں ضم ہونے کو برا کیوں مناتے ہیں۔ یہ جواب سن کر وہ شرمندہ ہوگیا اور خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس جواب کو بہت سراہا۔

    ان حالات میں نواب زادہ صاحب کی شفقت اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی حمایت کے باوجود میں روز بروز یہ محسوس کرنے لگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ میرے مشن میں دل چسپی میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور جو مراعات مجھے شروع سے حاصل تھیں یا قاعدے کے مطابق یا انصاف کی رُو سے مجھے ملنی چاہیے تھیں، ان کے بارے میں ’احتیاط‘ برتی جانے لگی اور جو غلط استدلال میری اسناد کی پیش کشی کے وقت بروئے کار لایا گیا، وہ آہستہ آہستہ میری حاصل شدہ مراعات کو بھی متاثر کرنے لگا۔ مثلاً موٹر پر لگائی جانے والی پلیٹ کا ہی معاملہ تھا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ جو سفارتی مراعات میرے ہم رتبہ سفیر کو نئی دہلی میں حاصل تھیں، جس میں پلیٹ کا امتیازی نشان بھی شامل تھا، مجھے بھی ملنی چاہییں، لیکن اس پر ٹال مٹول ہوتا رہا۔

    (نواب مشتاق احمد خان حیدر آباد دکن کے پاکستان میں پہلے اور آخری نمائندے تھے جن کی خود نوشت ’کاروانِ حیات‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، یہ پارے اسی کتاب سے لیے گئے ہیں)

  • رشید احمد صدیقی کا گھر اور کنواں

    ’’رشید احمد صدیقی کا گھر سال کے تین سو پینسٹھ دن کھلے گھر کا منظر پیش کرتا تھا۔ اس کیفیت کا اطلاق گھر کے دونوں حصّوں پر ہوتا تھا۔

    کیا مردانہ اور کیا زنانہ۔ آنا جانا لگا رہتا۔ پیدل، سائیکل، تانگہ، موٹر اور گاہے ٹم ٹم۔ رشتہ دار، شاگرد، مداح، احباب، مشاہیر اور بن بلائے مہمان۔

    اسٹاف کالونی میں دور دُور تک کوئی اور گھرانا اتنا خوش معاشرت اور دوست دارانہ نہ تھا۔ یہ بات سنی سنائی نہیں دیکھی بھالی ہے۔ میں ان کا ہم سایہ تھا لیکن یہ مضمون ہم سائیگی کے مشاہدات اور تجربات کے بارے میں نہیں ہے۔

    رشید احمد صدیقی کا گھر ایک اور اعتبار سے دوسرے تمام گھروں سے مختلف تھا۔ ان کے قطعۂ زمین کے مغربی جانب کنارے پر ایک بڑا سا کنواں تھا۔ رشید صاحب نے مکان کی دیوار میں خم دیا اور کنوئیں کو گھر میں شامل کرنے کی بجائے چار دیواری سے باہر رہنے دیا تاکہ لوگ آزادی سے اس کا پانی استعمال کر سکیں۔ نہ منڈیر پر تختی لگی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، نہ کنویں پر کہیں لکھا تھا کہ آبی ذخیرہ کے جملہ حقوق بحق مصنفِ خنداں محفوظ۔ اس نیک کام کی ہر ایک نے دل کھول کر داد دی۔

    عنایت علی خان نے جن کا پلاٹ حاجی صاحب اور صدیقی صاحب کے گھروں کے درمیان تھا مکان بنانے کے منصوبے کو مؤخر کیا۔ کاشت کاری اور چاہی آب پاشی کا تجربہ شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ قطعۂ زمین پالیز میں بدل گیا۔ عنایت علی خان کے کھیت کے خربوزے اور تربوز خوش ذائقہ اور خوش رنگ تھے۔ رشید صاحب کے کنوئیں کے پانی کی تاثیر ہی کچھ ایسی تھی۔

    یہ ایک بڑا سا کنواں تھا۔ چمڑے کا بہت بڑا ڈول ڈالتے جو چرس کہلاتا۔ بیلوں کی جوڑی اس کا موٹا اور مضبوط رسہ کھینچتی ہوئی ڈھلان میں اُتر جاتی۔ بیل کھڈ کے آخری سرے تک پہنچتے اور چرس مینڈھ تک آ جاتا۔ ایک صحت مند آدمی جسے بارا کہتے پہلوانی گرفت سے پانی بھرے چرس کو اپنی طرف کھینچتا۔ تھوڑا سا پانی چھلک کر کنارے کی بلندی سے کنوئیں کی گہرائی میں گرتا۔ چھن چھن چھناک کی آواز بلند ہوتی۔ باقی پانی پختہ اینٹوں کے فرش سے سیلابی ریلے کی طرف بہتا ہوا کھالے میں جا پہنچتا جو اسے رشید احمد صدیقی کے گلابوں اور عنایت علی خان کے خربوزوں تک لے جاتا۔

    ایک رات مَیں کوئی آدھ گھنٹہ تک اس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا رہا۔ رات ان دنوں مغرب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی تھی۔ آج کل کی طرح نہیں کہ روشنیوں سے ہار مان کر آدھی رات سے پہلے منہ چھپاتی پھرتی ہے۔ میں بستر پر لیٹا ہی تھا کہ تاریکی اور خاموشی میں ایک ترنم گونجا۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ آواز کی کشش نے مجبور کیا اور میں کشاں کشاں اس کنوئیں پر جا پہنچا۔ آواز دیوار کے اس پار رشید صاحب کے مردانہ صحن سے آرہی تھی۔ جگر مراد آبادی اپنے وجد آور ترنم سے غزل سنا رہے تھے۔

    میں کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ شروع گرمیوں کی ٹھنڈی رات۔ گئی بہار کی بچی بچائی خوشبو لیے آہستہ آہستہ چلنے والی پُروا۔ مطلع بالکل صاف۔ نہ بادل کا ٹکڑا، نہ گرد و غبار، نہ چمنی چولھے کا دھواں۔ فضا میں صرف غزل کے مصرعے تیر رہے تھے۔ سوچ کے پَر کھل گئے۔‘‘

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس، رشید احمد صدیقی اردو کے معروف مزاح نگار اور ادیب تھے)