Tag: اردو اقتباس

  • بھرپور زندگی کا راز

    محبت فطری و بنیادی چیز ہے۔ نفرت… انقطاعِ محبت کا نام ہے، جو کسی حادثہ و تصادم کا نتیجہ ہوتی ہے۔

    محبت تمام نیکیوں کا سرچشمہ اور تمام جذباتِ عالیہ کی خالق ہے، اسی سے آواز میں لوچ، بات میں شیرینی، چہرے پر حُسن، رفتار میں انکسار اور کردار میں وسعت آتی ہے۔

    دوسری طرف غصہ، نفرت، انتقام اور حسد دنیائے دل کو ویران اور چہرے کو بے نور اور خوف ناک بنا دیتے ہیں۔ حاسد اور سازشی کی رفتار تک نا ہموار ہو جاتی ہے، وہ ہر طرف نفرت پھیلاتا ہے۔ اہلِ محبّت، نفرت کا جواب محبت سے دیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں: ”دنیا سے بہترین سلوک کرو اور جواباً تم سے بہترین سلوک کیا جائے گا۔“

    جن لوگوں کے دل میں اللہ بس جاتا ہے ان کی پہچان ہی یہی ہے کہ وہ ہر شخص سے محبت کرتے ہیں۔ خطا کاروں کی خطائیں بخشتے ہیں اور گالیوں کے جواب میں دعائیں دیتے ہیں۔ کسی مفکر کا قول ہے: ”نفرت سے نفرت ختم نہیں ہو سکتی، اس پر محبت سے غلبہ حاصل کرو، دنیا کو محبت کرنا سکھاؤ اور جنت اپنی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یہیں وارد ہو جائے گی۔ ترکِ محبت موت ہے، جو شخص سب سے محبت کرتا ہے اس کی زندگی بھرپور اور کامل ہے اور اس کی زیبائی و توانائی میں سدا اضافہ ہوتا رہے گا۔“

    محبت کا سب بڑا وصف انکسار ہے۔ دوسروں سے نفرت کرنے والے کرخت، مغرور، تند مزاج اور بدمزاج ہوتے ہیں اور اہلِ محبت بول میں میٹھے، چال میں دھیمے اور مزاج کے نرم ہوتے ہیں۔ اس میں قطعاً کوئی کلام نہیں کہ غرور حماقت ہے اور تواضع بہت بڑی دانش۔

    کسی دانا کا قول ہے: ”اگر دانش حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکسار پیدا کرو اور اگر حاصل کر چکے تو زیادہ خاکسار بنو۔“

    (’مَن کی دنیا‘ از ڈاکٹر غلام جیلانی برق سے اقتباس)

  • جن چیزوں کو ہم تفریح سمجھ بیٹھے ہیں، وہ تفریح کہلا سکتی ہیں یا نہیں؟

    جن چیزوں کو ہم تفریح سمجھ بیٹھے ہیں، وہ تفریح کہلا سکتی ہیں یا نہیں؟

    ’’آج کل ضروری اور غیر ضروری مصروفیات کی ایسی یلغار ہے کہ ہمیں کچھ بہت بڑی ذمے داریاں ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ان میں سے ایک، تفریح ہے۔

    تفریح کو ذمے داری کہنا عجیب سا محسوس ہو سکتا ہے، لیکن میں نے یہ لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ کسی بھی مثبت افادیت کے حصول کی کوشش اور اہتمام آدمی کی ذمے داری ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم لوگ تفریح سے کنارہ کش ہو کر بے کیفی اور بیزاری کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جن چیزوں کو ہم تفریح سمجھ بیٹھے ہیں، وہ چیزیں تفریح کہلا سکتی ہیں یا نہیں۔ مثلاً کمپیوٹر پہ گھنٹوں کھیلنا، فلمیں دیکھنا تفریح ہے یا تعذیب! اسی طرح کبھی کبھی کسی خوب صورت اور پُرفضا مقام کی سیر کو جانا اور وہاں کے سارے مناظر کو آنکھوں سے کم اور کیمرے سے زیادہ دیکھنا، اس سارے سیر و سفر کو تفریح کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟

    میرا تو یہ خیال ہے کہ ہم رفتہ رفتہ تفریح اور تماش بینی کا فرق بھولتے جا رہے ہیں۔ کمپیوٹر اور کیمرے نے ہمیں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ہم شفاف اور خالص احساسات سے قریب قریب محروم ہو چلے ہیں۔ کوئی خوب صورت منظر بس کیمرے میں محفوظ ہو جاتا ہے، دل کا البم خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ خوب صورتی میں قلب و ذہن کو مشغول رکھنے والی جو گہرائی، کشش اور تہ داری ہوتی ہے ہم اس سے بالکل نا مانوس اور بے خبر ہیں۔ ہمارا جمالیاتی شعور اس حد تک معطل بلکہ مردہ ہو چکا ہے کہ ہم حسن کو اپنے اندر جذب کرنا بھول چکے ہیں۔ اس حسن کو جو جمالیاتی شعور کو بھی سیراب کرتا ہے اور اخلاقی شعور کو بھی مطمئن رکھتا ہے، جو آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے اور دل و دماغ میں صورت سے معنی بننے کا عمل پورا کرتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ آنکھوں کی رسائی میں آیا ہوا ہر اچھا منظر اپنے اندر ایک ان دیکھا پن بھی رکھتا ہے جسے عین لمحۂ دید میں دل محسوس کر لیتا ہے اور ذہن بھانپ لیتا ہے۔ کیمرے نے ہمارے جمالیاتی شعور کا متبادل بن کر دید و نادید کی اور حضور و غیاب کی فطری روایت کو غارت کر کے رکھ دیا ہے اور ستم یہ ہے کہ ہم یہ جاننے اور محسوس کرنے کے قابل ہی نہیں رہ گئے کہ سیل فون میں لگا ہوا یہ کیمرا، جسے ہم اپنی اصلی آنکھ بنا چکے ہیں، ہمیں کتنی تیزی سے آدمیت سے خالی کرتا جا رہا ہے بلکہ شاید کر چکا ہے۔

    مشینوں سے تفریح کشید کرنے کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ ذہن اور طبیعت کا انسانی پن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ خوش ہونا بھول گئے ہیں اور غمگین ہونا بھی۔ خوشی اور غم احساسات کی اصل ہیں اور خیالات کی تشکیل میں بھی ان کا بہت بنیادی کردار ہے، یہی اگر ہمارے اندر سے غائب ہونے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اب ہماری بناوٹ آدمیوں جیسی نہیں رہی۔ یہاں بڑی خوشی اور بڑے غم کی بات نہیں ہو رہی، معمولی باتیں اور عام سے نظارے اگر ہمارے اندر خوشی اور غم کے اسباب نہیں بنتے تو یہ بھی بڑی خرابی کی بات ہے۔ بچوں کی لڑائی کا منظر، پرندوں کی اڑان کا نظارہ، کسی جانور کو ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے دیکھنا…. یہ سب معمول کے واقعات ہیں، لیکن اگر انہیں دیکھ کر ہمارے اندر خوشی اور غم کے احساسات نہیں پیدا ہوتے تو ہم آدمی ہونے کی ذمے داری پوری کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ اسی طرح کسی جانے یا انجانے آدمی کو خوش یا غمگین دیکھ کر وہ خوشی اور غم اگر ہمیں اپنے اندر منتقل ہوتا ہوا محسوس نہیں ہوتا تو اس کا بھی یہی مطلب ہو گا کہ ہماری آدمیت میں کوئی خلا پیدا ہو گیا ہے۔

    اگر ہم اپنے بارے میں، یعنی انسان کے بارے میں روایتی اور کلاسیکی موقف رکھتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمیں یہ محسوس نہ ہو رہا ہو اور یہ دکھائی نہ دے رہا ہو کہ وہ زمانہ زیادہ دور نہیں رہ گیا جب ہمارا دماغ آدمیوں کا سا نہیں رہ جائے گا اور ہمارے احساسات بھی غیر انسانی ہو جائیں گے۔ یعنی ہمارا اپنے بارے میں تصور ایک مشین کا سا بن جائے گا۔ ہم اپنے بارے میں سوچیں گے بھی تو یہ اسی طرح ہو گا جیسے ایک ٹیپ ریکارڈر اپنے متعلق سوچ رہا ہو۔ بہت بڑا بحران آچکا ہے اور اس کے نتیجے میں آدمی کی زندگی کے تمام گوشے تاریک اور ٹھنڈے ہوتے جا رہے ہیں۔ خود اپنے آپ سے تعلق ختم ہوتا جا رہا ہے اور خود کو دیکھنے، خود سے خوش رہنے یا اپنے اوپر غمگین ہونے کی گنجائشیں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔

    ایک عجیب سا چلتا پھرتا خلا ہے جسے ہم اپنی شخصیت ماننے پر مجبور ہیں۔ میری عمر کے لوگ اگر کمپیوٹر وغیرہ کی فیلڈ سے متعلق نہیں ہیں تو وہ اس خطرے کا شکار ہونے سے قدرے محفوظ ہیں لیکن اس خطرے کے نتائج بھگتنے پر مجبور ہیں۔ یعنی گھر اور گھر کے باہر کی معاشرت میں لاتعلقی کا غلبہ سب سے زیادہ بوڑھے لوگوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ تنہائی اختیاری ہو تو آبِ حیات ہے مگر یہی تنہائی جبری ہو تو زہر کا پیالا ہے۔ لگتا ہے کہ آگے چل کر یہ زہر کا پیالا بوڑھے لوگوں اور ضعیف والدین کی کل متاع بن کر رہ جائے گا۔

    اور دوسری طرف ہماری اگلی نسلیں ہیں جو گویا زہریلے پانی میں تیراکی کر رہی ہیں۔ اور زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس زہراب میں غوطہ زنی کی عادت ڈال لینے کی وجہ سے ان کے اندر سے میٹھے پانی کا تصور ہی غائب ہوتا جا رہا ہے۔ وہ تمام چیزیں، جو آدمی ہونے کے لیے ضروری ہیں، اگلی نسلوں میں سے تیزی کے ساتھ رخصت ہوتی جارہی ہیں کمپیوٹر اور موبائل فون وغیرہ ایک آگ کی طرح تمام طبقات میں پھیل چکے ہیں۔ یہ آگ وقت کو، لوگوں کی شخصیت کو اورسوسائٹی کی روایتوں کو بھسم کرتی جا رہی ہے۔ اب اس آگ میں جلنے کے لیے کمپیوٹر کا فن آنا بھی ضروری نہیں رہ گیا۔ ایک اَن پڑھ آدمی بھی خود کو اس کا ایندھن بنانے پر اچھی طرح قادر ہے۔ لیکن ہماری سب خرابیوں کی ذمے داری موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر نہیں جاتی۔ ان سے تو بس یہ ہوا ہے کہ ان خرابیوں کے پھیلاؤ کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ان آلات کی آمد سے پہلے ہی ہمارے اندر آدمیت کی منہائی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ ہماری آدمیت، بندگی کے محور سے ہٹ چکی تھی۔ یوں سمجھیں کہ معاشرہ پہلے ہی سے دلدل بن چکا تھا۔ ان آلات کی آمد سے اس دلدل میں طغیانی پیدا ہو گئی جس کی لپیٹ میں بچوں سے لے کر بڑوں تک اب پورا معاشرہ آ چکا ہے۔

    سچی بات ہے کہ ہم آگ کے شامیانے میں رہ رہے ہیں، آگ کی قناتوں نے ہمارا حصار کر رکھا ہے اور باہر نکلنے کا نہ کوئی راستہ ہے اور نہ ہی راستہ ڈھونڈنے اور نکالنے کی کوئی اجتماعی خواہش۔ اس صورت حال سے نجات پا سکنے کی امید بھی خوش فہمی سے زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

    (احمد جاوید کی کتاب ’ تربیتی مجالس‘ سے اقتباسات)

  • انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا….

    اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کُرتا۔

    آدمی کی پوری ذات محبت کے واسطے سے بروئے کار آتی ہے نہ کہ دوستی کے حوالے سے اور جن کی نفرت عمیق نہیں ہوتی ان کی محبت بھی عمیق نہیں ہوتی۔ رہا کھدر کے کُرتے کا معاملہ تو وہ جوگیا ہو یا نیلا، انتہا اس کی پاکستان میں بہرصورت موٹرکار ہے۔ وہ دورِ جاگیرداری گزر گیا جب سعادت حسن منٹو ململ کا سفید کرتا پہن کر تانگے میں مال پر نکلا کرتے تھے۔ اب لاہور کی مال پر تانگا ممنوع ہے اور نئی قدروں نے موٹر کار کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    ادب اور موٹر کار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب شعر اور افسانہ گھسیٹ دینے کا نام نہیں ہے۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔ ادب اور موٹر کار کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ موٹر تیز چلتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب سواری تیز چلتی ہے تو ادب کی گاڑی رک جاتی ہے۔ مثلاً جب سے پاکستان کے ادیبوں نے رائٹرز گلڈ کے توسط سے ہوائی جہاز میں سفر کرنا شروع کیا ہے، انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ابن انشاؔ نے جتنے عرصے میں پورے یورپ کا دورہ کیا، اتنے عرصے میں میں صرف ایک افسانہ لکھ سکا۔

    مولانا محمد حسین آزادؔ جب لاہور کے اکبری دروازے سے گورنمنٹ کالج کی طرف چلتے تھے تو ان کا گھوڑا بہت سست چلتا تھا مگر ان کی نثر سرپٹ دوڑتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ کی کار بہت تیز چلتی ہے۔ البتہ مصرع پوئیاں چلتا ہے۔

    میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں استعارے اور تصورات سکے ہوتے ہیں۔ اپنے وقت میں خوب چلتے ہیں۔ وقت کا سکہ بدلتا ہے توان کی بھی قیمت گر جاتی ہے۔ مگر وضع دار لکھنے والے اپنے لفظ، استعارے، ترکیبیں اور تصورات پتھر پہ بجا کے نہیں دیکھتے اور انہیں چالو سمجھ کر آخر دم تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔

    ملکہ کے وقت کے تین گھسے ہوئے سکے:

    (1) جوشؔ ملیح آبادی کی عقلی شاعری۔

    (2) نیازؔ فتح پوری اور نئی پود کی دہریت۔

    (3) انسان دوستی۔

    چند استعارے جنہیں پھپھوندی لگ چکی ہے: سحر، اندھیرا، رہزن، رہبر۔

    کلاسیکی شاعری کے وہ استعارے جو نئے ترقی پسند شاعروں کے ہاتھوں معنی کھو بیٹھے، دار و رسن، زنداں، قفس، منصور۔ غدر سے پہلے کے لفظ، لہجے اور ترکیبیں جن کے کنارے گھس چکے ہیں، معاذ اللہ، ارے توبہ، لہو کے چراغ، پرچم، گہرا سناٹا، خلا، سسکیاں، آکاش، سماج، دھندلکا، حریری ملبوس، غم جاناں، غم دوراں، عظیم ادب، آفاقیت، ابدی اقدار، انفرادیت، رچاؤ، سوز و گداز۔

    اردو تنقید کی زنگ آلود ضرب الامثال:

    (1) ادب نام ہے تنقید حیات کا۔

    (2) ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

    (3) ادب شخصیت کا اظہار ہے۔

    (4) ادب پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔

    (5) ہر ادب اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے۔

    (6) ادب روایت کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

    گھسی ہوئی دونیاں چونیاں، رمبو، بایلئر، ٹی ایس ایلیٹ، غالب، گورکی، موپساں۔

    (انتظار حسین کے مضمون ادب کی الف، ب، ت سے اقتباسات)

  • اودے پور کا فرضی طلسم

    اودے پور کا فرضی طلسم

    نواب رضا علی خان کے مسند نشین ہونے کے موقع پر جب خواجہ حسن نظامی رام پور تشریف لے گئے تو 2 ربیعُ الاوّل 1349 ہجری، 29 جولائی 1930 بروز سہ شنبہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں سے بھی ملنے گئے۔ اس روداد کو خواجہ صاحب ہی کی زبان قلم سے سنیے۔

    اس (ناشتہ) کے بعد مولانا نجم الغنی صاحب مؤرخ سے ملنے گیا جو موجودہ زمانے کے سب سے عمدہ اور بہت زیادہ اور نہایت محققانہ اور آزادانہ اور بے باکانہ لکھنے والے مؤرخ ہیں۔

    شمس العلماء مولانا ذکا اللہ صاحب مرحوم دہلوی نے آخر زمانے میں تاریخ کی بہت بڑی بڑی جلدیں لکھی ہیں۔ مگر حکیم نجم الغنی خاں صاحب کی کتابیں تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور ضخامت میں بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے علاوہ طب وغیرہ علوم و فنون کی بھی انہوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ شہرۂ آفاق فلاسفروں اور مصنفوں کی طرح ایک نہایت مختصر اور سادہ مکان میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف کتابوں اور نئے مسودات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ساٹھ ستر کے قریب عمر ہے۔ بال سب سفید ہوگئے ہیں مگر کام کرنے کی انرجی اور مستعدی نوجوانوں سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت عمدہ پھل کھلائے، پان کھلائے اور اپنی تازہ تصانیف بھی دکھائیں۔ ایک کتاب اودے پور کی نسبت لکھی ہے۔ مولانا شبلی مرحوم نے اورنگ زیب پر ایک نظر کے نام سے بہت اچھی کتاب شائع کی تھی مگر وہ راجپوتانے کے واقعات سے بے خبر تھے۔

    مولانا نجم الغنی خاں صاحب نے راجپوتانہ کی مستند تاریخوں سے اورنگ زیب کی تاریخی حمایت کا حق ادا کیا ہے اور اودے پور کے مہا رانا کے اس غرور اور گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا ہے جس میں وہ آج تک مبتلا ہے۔ موجود مہارانا کے والد 1911 کے شاہی دربار میں دہلی آئے تو شہر کے باہر ٹھہرے کیونکہ ان کے ہاں‌ یہ عہد ہے کہ دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ انگریزوں نے بھی اودے پور کے خیالی پلاؤ کی مخالفت نہیں کی اور مہارانا کو دہلی کے اندر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا تاکہ ان کی آن بان باقی رہے مگر مولانا نجم الغنی صاحب کی اس تاریخ کو پڑھ کر اودے پور کے سب نشے ہرن ہو جائیں گے اور وہ طلسم ٹوٹ جائے گا جو اودے پور کی فرضی روایتوں نے ہندو قوم کے دل و دماغ میں بنا رکھا ہے کہ اودے پور کا مہارانا کبھی مسلمان سلطنت کے سامنے نہیں جھکا اور کبھی مسلمانوں سے مغلوب نہیں ہوا۔

    میں نے مولانا سے یہ کتاب لے لی ہے اور میں اس کو اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ سے شائع کروں گا۔ مولانا نے اس کا نام تاریخِ اودے پور رکھا ہے مگر میں نے اس کے نئے نام تجویز کیے ہیں جن میں سے ایک غرور شکن ہے اور دوسرا اودے پور کا فرضی طلسم ہے۔ یہ کتاب خدا نے چاہا بہت جلدی شائع ہو جائے گی۔

    مولانا نجم الغنی‌ صاحب بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے بہت غیرت آئی کہ مجھے اپنے زیادہ کام کا فخر رہتا ہے حالانکہ مولانا نجم الغنی صاحب مجھ سے زیادہ بوڑھے ہیں مگر کئی حصے زیادہ کام کرتے ہیں۔

    رخصت ہوا تو مولانا سواری تک پہنچانے آئے۔ قدیمی بزرگوں کی تہذیب و شایستگی کا وہ ایک مکمل نمونہ ہیں۔

    مولانا نجم الغنی خاں رام پوری شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، نجمی تخلص تھا۔ وہ اپنی ضخیم اور وقیع تصنیفات کی بدولت زندہ و جاوید ہیں۔

  • کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بین فرق ہماری سمجھ میں آیا، یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔

    ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ “پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے، ’‘فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعۂ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘ اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگّا کھاتا ہے۔

    ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اور معاملاتِ محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی نا واقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857ء کی رست خیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔

    اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لیے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔

    غالبؔ نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچّہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ کرکٹ کے رسیا ہم جیسے ناآشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لیے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘ عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتی بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹیفک کھیل ہے۔ بَکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔

    بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔

    فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبعِ نازک کے لیے نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کے لیے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘ محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لیے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔

    اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زرّیں اصول سے سراسر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنیٰ نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہے اور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہٰذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجیے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔

    ہم بذاتِ خود سو فی صد تفریح کے حق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہِ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریقِ تعلیم سے جدید طرزِ تفریح ہزار درجے بہتر ہے؛ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘چراغ تلے’ سے ایک شگفتہ پارہ)

  • نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔

    خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سند تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے۔ میونسپلٹی کے ممبر ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے۔

    کہنے لگے، "للہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیے۔ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیے۔ پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے۔ جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہر آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے، جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔” وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔

    لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، با وقار، غیور اور پُر اعتماد ہے۔ نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعیں تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • ایک وصیت کی تعمیل!

    ایک وصیت کی تعمیل!

    خدا بخشے مولوی وحید الدّین ‘سلیم’ بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں ناتراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا۔ پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔

    شہرت بھی ‘غالب’ کے قصیدے کی طرح آج کل کسی کو راس نہیں آتی۔ ادھر نام بڑھا اور ادھر مرا۔ صف سے آگے نکلا اور تیر قضا کا نشانہ ہوا، چلچلاؤ کا زور ہے۔ آج یہ گیا، کل وہ گیا، مولوی نذیر احمد گئے۔ شبلی گئے، حالی گئے، وحید الدّین گئے۔ اب بڑوں میں مولوی عبدالحق رہ گئے۔ ان کو بھی شہرت کی ریا لگ گئی ہے۔ سوکھے چلے جا رہے ہیں۔ کسی دن یہ بھی خشک ہو کر رہ جائیں گے۔

    یہ تو جو کچھ تھا، سو تھا، ایک نئی بات یہ ہے کہ آج کل کا مرنا بھی کچھ عجب مرنا ہو گیا ہے۔ پہلے زندگی کو چراغ سے تشبیہ دیتے تھے، بتی جلتی، تیل خرچ ہوتا، تیل ختم ہونے کے بعد چراغ جھلملاتا، تمٹماٹا، لو بیٹھنی شروع ہوتی اور آخر رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو جاتا۔ اب چراغ کی جگہ زندگی، بجلی کا لیمپ ہو گئی ہے۔ ادھر بٹن دبایا، ادھر اندھیرا گھپ۔ عظمت اللہ خان، اسی طرح مرے، مولوی وحید الدّین اسی طرح رخصت ہوئے، اب دیکھیں کس کی باری ہے۔ اردو کی مجلس میں دو چار لیمپ جل رہے ہیں۔ وہ بھی کسی وقت کھٹ سے گُل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد بس اللہ ہی اللہ ہے۔

    میں مدت سے حیدرآباد میں ہوں۔ مولوی وحید الدّین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انہیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔

    گزشتہ سال کالج کے جلسہ میں مولوی عبدالحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ طالبِ علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بےضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل انہی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔ ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پرکھڑے گپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ کو چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔ متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفید پائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔

    حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا امیر حبیب اللہ خان اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا:

    "میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے ۔ کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آکر ملوں۔ مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔”

    میں پریشان تھا کہ یااللہ یہ ہیں کون اور کیا کہہ رہے ہیں؟ مگر میری زبان کب رکتی ہے، میں نے کہا:

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، مر جائیے، مضمون میں لکھ دوں گا۔”

    کیا خبر تھی کہ سال بھر کے اندر ہی اندر مولوی صاحب مر جائیں گے۔ اور مجھے ان کی وصیت کو پورا کرنا پڑے گا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ مولوی وحید الدّین سلیم ہیں تو واقعی مجھے بہت پشیمانی ہوئی۔ میں نے معذرت کی، وہ خود شگفتہ طبیعت لے کر آئے تھے، رنج تو کجا بڑی دیر تک ہنستے اور اس جملے کے مزے لیتے رہے۔ سر ہو گئے کہ جس گاڑی میں تُو ہے میں بھی اسی میں بیٹھوں گا۔

    شاگردوں کی طرف دیکھا، انہوں نے ان کا سامان لا، میرے درجے میں رکھ دیا۔ ادھر ریل چلی، اور ادھر ان کی زبان چلی۔ رات کے بارہ بجے، ایک بجا، دو بج گئے، مولوی صاحب نہ خود سوتے ہیں اور نہ سونے دیتے ہیں۔ درجۂ اوّل میں ہم تین آدمی تھے۔ مولوی صاحب اور رفیق بیگ۔ رفیق بیگ تو سو گئے، ہم دونوں نے باتوں میں صبح کر دی۔ اپنی زندگی کے حالات بیان کیے اپنے علمی کارناموں کا ذکر چھیڑا، اصطلاحاتِ زبانِ اردو پر بحث ہوتی رہی، شعر و شاعری ہوئی، دوسروں کی خوب خوب برائیاں ہوئیں، اپنی تعریفیں ہوئیں۔ مولوی عبدالحق کو برا بھلا کہا کہ اس بیماری میں مجھے زبردستی کھینچ بلایا۔ غرض چند گھنٹے بڑے مزے سے گزر گئے۔

    صبح ہوتے ہوتے کہیں جاکر آنکھ لگی۔ شاید ہی گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے کہ ان کے شاگردوں اور ساتھیوں نے گاڑی پر یورش کر دی۔ پھر اٹھ بیٹھے اور پھر وہی علمی مباحث شروع ہوئے، پھبتیاں اڑیں، اس کو بے وقوف بنایا، اس کی تعریف کی، ہنسی اور قہقہوں کا وہ زور تھا کہ درجہ کی چھت اڑی جاتی تھی۔

    (ایک وصیت کی تعمیل از مرزا فرحت اللہ بیگ)

  • سوا ارب روپے کا مقروض پنجاب اور سالانہ 14 کروڑ روپے سُود

    سوا ارب روپے کا مقروض پنجاب اور سالانہ 14 کروڑ روپے سُود

    مفکرِ پاکستان علّامہ محمد اقبالؒ نے 9 فروری 1932ء کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں اجتماعِ عید الفطر کے موقع پر خطاب میں ماہِ صّیام کی فضیلت اور روزے کی اہمیت و افادیت کو نہایت خوب صورت انداز سے اجاگر کیا تھا، جس سے آج بھی ہم دین اور معاشرت کو سمجھنے میں‌ مدد لے سکتے ہیں۔ یہ خطاب عبد الواحد معینی اور عبد اللہ قریشی نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’’مقالاتِ اقبالؒ‘‘ میں‌ شامل کیا ہے جس سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔

    "اسلام کا ہر رکن انسانی زندگی کی صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزار ہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی ایک رُکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنی ہیں جسے ’’صوم‘‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کی توفیق کے شکرانے میں آج آپ عید منا رہے ہیں۔ روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے گو اُن کی تعداد وہ نہ ہو جو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لیے قرار دیے گئے کہ انسان پرہیزگاری کی راہ اختیار کرے۔

    خدا نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔‘‘

    گویا روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ پر چلاتا ہے، اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے، صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبطِ نفس، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔ وہ فائدے جو ایک "فرد” کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہو سکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے، یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اُس کی روحانی نشوونما پیشِ نظر ہوتی تو بیشک یہ ٹھیک تھا، لیکن فرد کے علاوہ تمام "ملّت” کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارعِ برحق ﷺ کے سامنے تھی۔

    مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آیندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کو بانٹ کر نہیں دے سکتے تو کم سے کم "حکام” کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جاؤ جس میں اُن کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مقصود ہو۔ آج کے دن سے تمہارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اُس کو تم ہمیشہ مدّنظر رکھو گے۔

    مسلمانانِ پنجاب اس وقت تقریباً سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر ہر سال تقریباً چودہ کروڑ روپیہ سود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئی سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرو، اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کراؤ؟ تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال اور جائیداد کے جھوٹے اور بلاضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمہارے قرض کا کثیر حصہ از خود کم ہو جائے گا اور تم تھوڑی مدّت کے اندر قرض کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کر لو گے۔ نہ صرف یہ کہ مالی مقدمات کا ترک تمہیں اِس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو اسی سے اپنی تجارت اور اپنی صنعت کو فروغ دے سکو گے۔

    کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہو گی اور تم عہد نہ کر لو گے کہ تمام دنیاوی امور میں شرعِ قرآنی کے پابند ہو جاؤ گے؟ کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاک ﷺ نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ: "دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔”

  • کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا؟

    کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا؟

    معلوم ہوا کہ ہدایت جہاں سے ملنی ہوتی ہے، وہیں سے ملتی ہے۔ جہاں کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی نگاہ کام نہیں کرتی، وہاں کسی انتہائی گناہ گار، بد کار اور برے انسان کی بات، بول کام کر جاتے ہیں۔

    ماں باپ کہتے کہتے تھک ہار، عاجز آ جاتے ہیں مگر وہی بات کوئی سجن بیلی کہہ دیتا ہے تو فوراً مان لی جاتی ہے۔

    بڑے بڑے قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں، معالجوں سے افاقہ نہیں ملتا اور فٹ پاتھ پہ بیٹھنے والے اتائی حکیم سے شفا نصیب ہو جاتی ہے۔

    میں نے پڑھا ہے اور بار بار میرے تجربے مشاہدے میں آیا ہے کہ اچھوں، نیکوں اور حاجیوں، نمازیوں سے کہیں زیادہ گناہ گاروں، خطا کاروں اور بروں کی بات میں اثر ہوتا ہے۔ وہ زیادہ دل پذیر اور دل نشین ہوتی ہیں۔

    بظاہر بُرے، بدمعاش، اجڑے ہوئے اور شرابی کبابی لوگ اچھوں، نیکوں سے کہیں بڑھ کر وفادار اور وقت پہ کام آنے والے ہوتے ہیں۔ اکثر اچھوں اور نیکوں کے ہاں اپنی پاک طینتی اور دین داری کا زعم و مان ہوتا ہے اور بروں ، بد کاروں، گناہ گاروں کے ہاں عجز ہی عجز، شرمندگی ہی شرمندگی اور ہر وقت خود پہ لعن طعن اور توبہ استغفار ہوتی ہے۔

    بس یہی شرم اور خود کو مٹ مٹی سمجھنا ہی میرے اللہ کو پسند ہے۔ کہتے ہیں کہ اتنے خالی پیٹ والے بیمار نہیں ہوتے جتنے کہ خوب بھرے ہوئے پیٹ والے بیمار ہوتے یا مرتے ہیں۔ اس طرح کبھی کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھو۔ خود کو نیک، اچھا، عبادت گزار، ولی اللہ اور دوسروں کو برا نہ کہو کہ کون جانے، کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا؟ بقول شخصے ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔

    (محمد یحیٰی خان کی کتاب "پیا رنگ کالا” سے اقتباس)

  • سیاست دانوں کے عوام سے وعدے اور وعدے پورا کرنے کا وعدہ!

    سیاست دانوں کے عوام سے وعدے اور وعدے پورا کرنے کا وعدہ!

    واصف علی واصفؔ ایک بیدار مغز اور اپنے عہد سے جڑے ہوئے انسان تھے جنھیں ایک درویش اور صوفی ہی فلسفی اور دانش ور بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے دروس اور اقوال سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ انسانوں کے لیے نافع و مددگار بننا، ایثار اور ہمدردی کے ساتھ بے غرضی ہی حقیقی معنوں میں ہماری فلاح و نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

    واصف علی واصف نے سیاست دانوں کے وعدوں کے بارے میں کیا خوب لکھا تھا کہ ’’ایک سیاست دان سے کسی نے پوچھا، آپ نے اتنے وعدے کیے، پورا کوئی نہیں کیا۔ اُس نے کہا، وعدے پورا کرنے کا وعدہ تو کیا ہی نہیں۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’تخلیقِ پاکستان ایک وعدہ تھا، خدا کے ساتھ، مسلمانانِ پاکستان کے ساتھ، مسلمانانِ ہند کے ساتھ بلکہ مسلمانانِ عالم کے ساتھ۔ یہی وعدہ ہمارا آئین ہے بلکہ ہمارا دین ہے۔ غریب کو مایوس نہ ہونے دیا جائے اور امیر کو مغرور نہ ہونے دیا جائے۔ یہ وعدہ اُس وقت پورا ہو گا جب نہ کوئی مظلوم ہو گا نہ کوئی محروم۔‘‘

    وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’آج کی زندگی میں ایک گھٹن ہے، ایک حبس ہے۔ آج کی زندگی خود غرضی کی زندگی ہے، کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں۔ ہر طرف انسانوں کی بھیڑ ہے اور اِس بے پناہ ہجوم میں کوئی انسان نظر نہیں آتا۔ بد اعتمادی کے اس عہد میں ہر شخص مضطرب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف وبا پھیلی ہوئی ہے۔ بے چینی کی وبا، بے حسی کی وبا، بے کَسی کی وبا، بے نصیبی کی وبا، بے مروتی کی وبا، بے حیائی اور بے وفائی کی وبا۔ ہر حسّاس آدمی کو معاشرتی انحطاط مضطرب کر رہا ہے۔‘‘