Tag: اردو اقتباس

  • "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

    ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔ اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔

    چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجیے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔ ابھی آیا… کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے انہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔

    دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیز میں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔

    اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چُھپا رہا ہو، تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔ وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔

    (ممتاز مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کی کتاب "مزید حماقتیں” سے اقتباس)

  • "موت ان کے لیے رحمت تھی!”

    "موت ان کے لیے رحمت تھی!”

    وطن کی مٹی کی کشش کتنی زبردست ہوتی ہے۔ چاہے کوئی ساری عمر باہر گزار دے۔ آخر میں یہ مقناطیسی کشش اپنی جانب کھینچ ہی لیتی ہے اور اپنی مٹی وطن کی مٹی میں مل جاتی ہے۔

    میری اپنی زندگی ایک مستقل سفر بن گئی ہے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف مغرب سے مشرق اور مشرق سے مغرب کی طرف۔ نہ جانے کہاں کس دیارِ غیر میں موت آ لے گی اور کون سی مٹی نصیب ہوگی۔ بہرحال ساری زمینیں اللہ کی ہی ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے ساری دنیا ہی اپنا وطن ہے۔

    میرا وطن کون سا ہے؟ ہندو پور جہاں میرے بزرگ رہتے آئے ہیں اور جہاں میں پیدا ہوئی یا میسور جہاں میں پلی بڑھی، تعلیم حاصل کی شادی کی، بچپن اور نوجوانی کا زمانہ گزرا اور جہاں اب بھی میرے نانا جان، امی، بہنیں، بھائی سبھی رہتے ہیں یا پاکستان جس کی تقدیر سے میں نے اپنے آپ کو وابستہ کر لیا ہے اور جو میرا روحانی وطن ہے۔

    ہمارے آبائی وطن ہندو پور کی مٹّی نے ایک اور ہستی کو جو میرے قریب تھی یا قریب ہونی چاہیے تھی، اپنی آغوش میں لے لیا۔ یہ میرے ابّا جان تھے۔ ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا کہ پچھلی عیدالفطر کے دو ہفتے بعد 15 مارچ 1963ء کو میرے ابا جان رحلت فرما گئے۔

    موت ہمیشہ بے درد نہیں ہوتی۔ یہ قیدِ حیات و بندِ غم سے آزادی کا پیام لاتی ہے۔ آخری عمر میں ابّا جان کی زندگی کچھ ایسی حسرت ناک تھی کہ موت ان کے لیے رہائی کا باعث بنی۔ طویل بیماری نے دل، جگر، پھیپھڑے سب تباہ کر دیے تھے۔ تفکرات اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے وہ زندگی سے بیزار تھے۔ میں نے دل کڑا کر کے سوچا شاید موت ان کے لیے رحمت تھی۔

    ابّا جان کی موت کی صرف ایک اطلاع۔ ایک منحوس خبر مجھ تک پہنچی۔ میں اس وقت ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں تھی۔ سیکڑوں میل دور، نہ ان کا آخری دیدار کر سکی۔ نہ ان کی کوئی خدمت مجھ سے ہو سکی۔ یہ سعادت میری سب سے چھوٹی بہن نجمہ نسرین کو نصیب ہوئی جو ان کی سب سے چہیتی بیٹی تھی اور جس کے گھر میں ابّا جان نے اپنے آخری دن گزارے تھے۔ میری چھوٹی بہن نجمہ نسرین نے مجھے یہ اطلاع دی تھی اور اپنے سادہ جملوں میں ابّا جان کے آخری دنوں، آخری سفر، ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی تصویر کھینچی تھی۔

    میری بہن کے قلم میں اظہار کی قوت نہیں لیکن اس کے خط میں بے پناہ خلوص اور سچا درد و کرب تھا۔ ایک ایسا معصومانہ خلوص جو شاید اپنے اندر نہیں پاتی Sophistication نے مجھ پر تصنع کا ایک ہلکا سا ملمع چڑھا دیا ہے۔ میری بہن نے اپنے سادہ جملوں میں ابّا کے آخری دنوں، آخری سفر ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی ایسی تصویر کھینچی تھی کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا میں ڈاکٹر زواگو کا آغاز اور انجام پڑھ رہی ہوں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور اس حقیقی المیے کے مرکزی کردار میرے اپنے ابّا ہیں۔

    ابّا جان کی چونسٹھ سالہ زندگی کا بیشتر حصہ میسور اور بنگلور میں گزرا تھا۔ لیکن مرنے سے صرف دو دن پہلے وہ بضد ہو گئے تھے کہ ہندو پور جائیں گے۔ ہندو پور میں ان کا کوئی نہ تھا۔ ماں باپ، بہن بھائی سب انتقال کر چکے تھے اور میسور میں ان کی بیوی، بیٹے بیٹیاں (سوائے میرے) سبھی موجود تھے۔ لیکن ایک بے نام آواز تھی کہ انہیں بلا رہی تھی۔ وطنِ عزیز کی مٹی انہیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔

    ٹرین میں اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے کمپارٹمنٹ کی کھڑکی کھول لی اور لیٹے لیٹے ہی باہر نظریں جمائے رہے۔ انہیں ہر لمحہ یہ اندیشہ ستاتا رہا کہ کہیں غفلت میں آنکھ نہ لگ جائے اور ایسے میں ہندو پور کا اسٹیشن نہ نکل جائے۔ رات بھر وہ جاگتے رہے اور ٹکٹکی باندھے کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ ہندو پور کا اسٹیشن آگیا تو ان کے بے جان لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ان کی منزل آگئی تھی۔ آخری منزل!

    اپنے نرم اور حساس ظاہر کے پس پردہ شاید میں بہت سخت دل ہوں۔ میں نے باپ کی موت کا وہ سوگ نہیں منایا جو ایک بیٹی کو منانا چاہیے۔ میں نے باپ کی موت کو اس طرح محسوس نہیں کیا جس طرح دو سال پہلے اپنے نوزائیدہ بچے کی موت کو محسوس کیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ طویل جدائی ہو۔ پاکستان آنے کے بعد، پندرہ سال میں اپنے ماں باپ سے دور رہی ہوں اور اس دوران میں شاذ ہی چند ہفتے ابا جان کے ساتھ گزارے ہوں گے۔ اس پندرہ سال کے طویل عرصے میں ہم دو ہی مرتبہ ہندوستان گئے تھے اور وہ بھی قلیل مدت کے لیے۔

    لیکن کیا یہ طویل زمانی و مکانی فاصلہ بھی باپ بیٹی کے اتنے قریب اور گہرے رشتہ کے نشان دھندلا سکتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ موت ابّا جان کے لیے ایک تکلیف دہ زندگی سے نجات کا باعث تھی۔ اس میں خدا کی مصلحت تھی اور ہمیں صبر و شکر سے کام لینا چاہیے۔

    (معروف نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ادبی مجلّے نیا دور کی مدیر ممتاز شیریں کی خود نوشت ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے سے اقتباس)

  • ہم اردو کے لیے کیا کام کریں؟

    ہم اردو کے لیے کیا کام کریں؟

    کچھ دیر کے لیے آپ چہل قدمی کو کسی قدیم جنگل میں چلے جائیے، وہاں آپ کو تناور اور گرانڈیل درخت، چھوٹے بڑے پودے، طرح طرح کی بیلیں، پھولوں کے تختے، قسم قسم کی گھاسیں، جڑی بوٹیاں وغیرہ نظر آئیں گی۔ آپ درختوں میں پھل بھی لگے دیکھیں گے۔ بہت سے ایسے جنھیں ہم جانتے ہیں مثلاً کیلے، انجیر، آم وغیرہ اور بہت سے ایسے جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے ہیں۔

    اس کے بعد کسی اچھے باغ میں جائیے۔ یہاں بھی سایہ دار اور ثمر دار درخت اور خوش نما پھول اور پھل دیکھنے میں آئیں گے۔ یہ سب چیزیں باغوں اور چمنوں کی زینت ہیں، جنگل سے آئی ہیں، لیکن انسان نے اپنی عقل و تمیز سے ان میں حیرت انگیز شگوفہ کاریاں کی ہیں۔

    ایک آم ہی کو لیجیے۔ ایک جنگل کا آم ہے، دوسرا باغ کا آم، دونوں کے ذائقے میں زمین آسمان کا فرق ہے، انسان نے اپنی حکمت سے ان میں طرح طرح کی ایجاد کی ہیں۔ قلم باندھ باندھ کر بے شمار قسمیں بنائیں اور ان میں لطیف خوش بو، ذائقے اور لذتیں پیدا کیں۔ اوّل اوّل یہ سب کچھ ہمیں ذوق کی بدولت میسر آیا، پھر تجارت نے اسے ابھارا۔ شوق اور تجارت نے مقابلے پر اکسایا، مقابلے نے کش مکش پیدا کی، یہ کش مکش ہے جو بناتی، سنوارتی اور ابھارتی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی بقا اس کی کش مکش پر ہے۔ قریب قریب یہی حال ہماری اردو زبان کا ہے۔

    جس وقت یہ وجود میں آرہی تھی کسی کو اس کا علم تو کیا احساس بھی نہ تھا کہ کوئی نئی زبان بن رہی ہے۔ البتہ قدرت یعنی تقاضائے وقت اپنا کام کر رہا تھا۔ قدرت کے قانون بھی عجیب و غریب اور پر اسرار ہوتے ہیں، وہ اپنا کام چپکے چپکے کرتے ہیں، خواہ کسی کو خبر ہو یا نہ ہو، انسانی معاملات میں یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز سب سے قریب ہوتی ہے، اس پر سب کے بعد نظر پڑتی ہے۔ جب کہ ہم فارسی، عربی، سنسکرت پر فریفتہ تھے اور ان کی تصانیف اور کلام کے مزے لے رہے تھے، یہ غریب اور حقیر بولی چپکے چپکے ہمارے گھروں، بازاروں، خانقاہوں اور لشکروں میں گھر کر رہی تھی، میں نے اسے غریب اور حقیر اس لیے کہا کہ اس وقت یہ بازاری اور عامیانہ خیال کی جاتی تھی اور اہلِ ادب اور اہلِ ذوق اسے منھ نہیں لگاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی نام بھی نہ تھا۔ جب دارُ الحکومت دہلی کی آس پاس کی بولی پر فارسی کی قلم لگی تو یہ وجود میں آئی۔ کسی نے دانستہ قلم نہیں لگائی اور نہ کسی جماعت اور انجمن نے یہ مشورہ دیا۔ یہ قدرت کے کام تھے۔

    اس وقت اس کی ضرورت تھی۔ بولیاں اور موجود تھیں لیکن یہ سب مقامی اور محدود تھیں۔ حکومت کی وسعت کے ساتھ ایک عام اور وسیع زبان کی ضرورت تھی اور وہ صرف قلم لگانے ہی سے پیدا ہو سکتی تھی اور اس قلم لگانے میں فاتح اور مفتوح دونوں شریک تھے۔ جب اس قلمی زبان کی بو باس اور رسیلے پن سے لوگوں کے کام و دہن آشنا ہوئے تو اس کا چرچا پھیلا۔ فقیر اور صوفی، تاجر اور پیشہ ور، لشکری اور بازاری اسے دور دور تک لے گئے اور جہاں گئی مقبول ہو گئی۔ آخر کار جب یہ بے نام اور عوام کی بول چال سے نکل کر مسندِ ادب و انشا تک پہنچی تو پہلی بار اسے نام کا شرف بخشا گیا یعنی ریختہ کہلائی۔ اور بعد میں اردو سے موسوم ہوئی جو اب اس کا عام اور مقبول نام ہے۔

    اس وقت فارسی کا بول بالا تھا، اس سے اس کا مقابلہ ہوا۔ مقابلے میں فارسی کی ہار اور اردو کی جیت ہوئی۔ فارسی کو ہٹا کر دفتروں اور عدالتوں میں پہنچی، مدارس میں داخل ہوئی۔ ذریعۂ تعلیم بنی۔ اخبار اور رسالے جاری ہوئے۔ بہت سی انجمنیں اور ادارے اس کی حمایت اور اشاعت کے لیے قائم ہوئے۔ علم و ادب میں ترقی اور علوم وفنون میں کتابیں لکھی جانے لگیں۔ غرض ہراعتبار سے سارے ملک پر چھا گئی اور ہندوستان کی مشترکہ اور عام زبان مانی جانے لگی۔ اردو کی یہ جیت ذوقِ ضرورت اور کش مکش سے حاصل ہوئی اور اب بھی انہی کی بدولت ہوگی۔

    اردو یوں ہی ایسی شیریں، وسیع اور علمی و ادبی زبان نہیں بن گئی۔ اس نے بڑی بڑی مصیبتیں اور آفتیں جھیلیں ہیں، بڑے بڑے مقابلے کیے ہیں۔ اس نے دیسی بولیوں کو نیچا دکھایا، اس لیے کہ وہ مقامی اور محدود نہیں۔ اس نے فارسی کو نکالا اس لیے کہ وہ غیر تھی۔ اس نے دوسری بولیوں پر فوقیت اور فضیلت حاصل کی اس لیے کہ اس میں ہندو مسلم دونوں کی تہذیبوں اور دونوں کے اتحاد کی جھلک تھی اور اس لیے کہ اس کے حامیوں نے اس کے سنوارنے، بنانے اور ترقی دینے میں دل و جان سے جد و جہد کی اور اپنی کوششوں میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اردو کو جو حیثیت اور اہمیت حاصل ہو چکی ہے، اسے قائم رکھنا حامیانِ اردو کا فرض ہے۔

    اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اردو کے لیے کیا کام کریں؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا جو چیز سب سے قریب ہوتی ہے، اس پر نظر نہیں پڑتی۔ کام کے لیے بہت وسیع میدان ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں، ایک زبان کے علم و ادب میں اضافہ اور ترقی، دوسرا زبان کی اشاعت۔ جن لوگوں کو قدرت نے صلاحیت عطا کی ہے (بشرطے کہ ان کا صحیح اندازہ کیا گیا ہو) وہ علمی و ادبی تحقیقی کام کریں، جن میں یہ استعداد نہیں وہ اشاعت میں کوشش کریں۔ اردو کتابیں اور رسالے پڑھیں، دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔ گھروں میں خاص کر لڑکیوں اور عورتوں کو اردو پڑھائیں، اردو بولیں، لکھیں، خط پتر اردو میں لکھیں، نام کی تختیاں اردو میں ہوں، حساب کتاب اردو میں لکھا جائے۔ جہاں اردو کے حق میں ناانصافی ہوتی ہو اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اَن پڑھوں کو پڑھائیں، جہاں اردو کا رواج کم ہو وہاں اسے رواج دیں، جو ادارے اردو کی ترقی و اشاعت کا کام کر رہے ہیں، ان سے تعاون کریں، ان کی مدد کریں۔ غرض اس قسم کے سیکڑوں کام ہیں جو ہر شخص اپنی بساط اور حالات کے مطابق کر سکتا ہے۔

    زیادہ تقریریں کرنے سے قوّتِ عمل ضعیف ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کام ضعیف ہیں۔ جو شخص اور قومیں کام سے جی چراتی ہیں انہیں کبھی آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔ انسان کی نجات استقلال سے محنت اور کام کرنے میں ہے۔ کسی کو باتیں اور تقریریں کرنے کا حق نہیں۔ جس نے کچھ کر کے نہ دکھایا ہو۔ خالی باتیں طبل تہی کی آوازیں ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے گھروں، کالجوں اور چائے خانوں اور دفتروں میں جلی قلم سے جگہ جگہ یہ لکھ دیا جائے، ’’باتیں کم اور کام زیادہ۔’‘

  • انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا!

    "گذشتہ لکھنو” عبد الحلیم شرر(1860 تا 1926) کے انشائیوں اور مضامین پر مشتمل کتاب ہے جو برصغیر کے مشہور شہروں کی تہذیب و ثقافت اور تمدن کی سرگزشت ہے۔ اس کتاب سے یہ اقتباس حاضر ہے جس میں شرر نے لکھنؤ کی ثقافت اور اس زمانے میں فارسی زبان کی اہمیت کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    "لکھنؤ میں فارسی کا مذاق جس قدر بڑھا ہوا تھا، اُس کا اندازہ لکھنؤ کی اردو زبان سے ہوسکتا ہے۔ جہلا اور عورتوں تک کی زبان پر فارسی کی ترکیبیں، بندشیں اور اضافتیں موجود ہیں۔ اور لکھنؤ کی زبان پر حملہ کرنے والوں کو اگر کوئی اعتراض اتنے دنوں میں مل سکا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس میں فارسی اعتدال سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اُس دور کے معیارِ ترقی کے لحاظ سے یہی چیز لکھنؤ کی زبان کی خوبی اور اُس کی معاشرت کے زیادہ بلند ہو جانے کی دلیل تھی۔ خود دہلی میں زبانِ اردو کی ترقی کے جتنے دور قائم کیے جائیں اُن میں بھی اگلے پچھلے دور کا امتیاز صرف یہی ہو سکتا ہے کہ پہلے کی نسبت بعد والے میں فارسی کا اثر زیادہ ہے۔

    مسلمانوں کی طرح ہندو بھی فارسی میں نمود حاصل کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ امر دولتِ مغلیہ کے ابتدائی عہد سے ظاہر ہونے لگا تھا۔ اُس وقت بھی بعض نام ور و مستند فارسی دان اور فارسی گو موجود تھے مگر اودھ میں یہ مذاق انتہائی کمال کو پہونچ گیا۔ چنانچہ جیسے باکمال فارسی دان ہندو سوادِ لکھنؤ میں موجود تھے کہیں نہ تھے۔

    کایستھوں اور کشمیری پنڈتوں نے تعلیمِ فارسی کو اپنے لیے لازمی قرار دے لیا تھا۔ اور یہاں تک ترقی کی کہ کشمیری پنڈتوں کی تو مادری زبان ہی اردو ہو گئی۔ اور اُن کی اور مسلمانوں کی فارسی دانی میں بہت کم فرق تھا۔ کایستھ چونکہ یہیں کے متوطن تھے اس لیے اُن کی زبان بھاشا رہی۔ مگر تعلیم فارسی کی کایستھوں کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر گئی تھی کہ نہایت ہی بے اعتدالی اور بے ربطی کے ساتھ محاوراتِ فارسی کو استعمال کرنے لگے۔ جو بات کہیں کے ہندوؤں میں نہ تھی۔ اُن دنوں لوگ کایستھوں کی زبان کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے۔ مگر سچ یہ ہے کہ بجائے مضحکہ اڑانے کے اُن کی قدر کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اُن کی زبان اُن کی علمی ترقی کی دلیل تھی۔ جس طرح آج کل انگریزی لفظوں کے جا و بے جا استعمال کو انگریزی دان اپنی علمی ترقی کا ثبوت خیال کرتے اور نہایت بدتمیزی سے انگریزی الفاظ اپنی زبان میں بھرتے چلے جاتے ہیں۔

    لکھنؤ میں اُن دنوں فارسی کے صدہا نثار اور شاعر موجود تھے۔ اور اردو کی طرح برابر فارسی مشاعروں کا بھی سلسلہ جاری تھا۔ فارسی شرفا ہی نہیں عوام النّاس تک کا شعار و وثار بن گئی تھی۔ اور اب باوجودیکہ فارسی درباری زبان نہیں باقی رہی اور حکومت کی مسند پر اردو زبان قابض و متصرف ہو گئی ہے، مگر مہذب سوسائٹی پر آج تک فارسی کا سکہ جما ہوا ہے۔ اور عام خیال یہی ہے کہ فارسی مدارس و مکاتب سے نکل گئی اور تحصیلِ معاش کے لیے اس کی ضرورت نہیں باقی رہی مگر انسان بغیر فارسی پڑھے مہذب سوسائٹی میں بیٹھنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ اور نہ صحیح معنوں میں انسانِ کامل بن سکتا ہے۔

    انگلستان میں فرانس کی زبان کبھی درباری زبان تھی۔ اب اگرچہ مدت ہوئی کہ وہ دربار سے نکال دی گئی مگر معاشرت اور اخلاقی ترقی آج بھی وہاں بغیر فرانسیسی زبان کے سیکھے نہیں حاصل ہو سکتی۔ کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، پہننے اوڑھنے، اور ہنسنے بولنے، غرض زندگی کے تمام اسلوبوں پر فرانسیسی کی حکومت اب تک ویسی ہی موجود ہے۔ اور لڑکیاں بغیر فرنچ زبان حاصل کیے شائستہ بیبیاں نہیں بن سکتیں۔ یہی حال لکھنؤ کا ہے کہ فارسی دربار سے گئی، خط و کتابت سے گئی، مگر معاشرت کے تمام شعبوں پر اب تک حکومت کر رہی ہے۔ اور بغیر فارسی کی تعلیم پائے نہ ہمارا مذاق درست ہو سکتا ہے اور نہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ آ سکتا ہے۔

    مٹیا برج (کلکتہ) میں آخری محروم القسمت تاجدارِ اودھ کے ساتھ جو چند لوگ وہاں کے سکونت پذیر ہو گئے تھے اُن میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا جو فارسی نہ جانتا ہو۔ دفتر کی زبان فارسی تھی، اور ہندو مسلمانوں میں صدہا فارسی گو شاعر تھے۔ عورتیں تک فارسی میں شعر کہتی تھیں۔ اور بچّہ بچّہ فارسی زبان میں اپنا مطلب ادا کر لیتا تھا۔

    موجودہ لکھنؤ میں اگرچہ فارسی کی تعلیم بہت کم ہو گئی ہے اور ہندوؤں نے تو اُسے اس قدر چھوڑ دیا کہ وہ کایستھوں کی زبان ہی خواب و خیال ہو گئی جس کا زبان دانی کی صحبتوں میں مضحکہ اڑایا جاتا تھا۔ اور بھانڈ تک اُسی فارسی آمیز زبان کی نقلیں کرتے تھے۔ مگر پھر بھی پرانے بزرگوں اور خصوصاً مسلمانوں میں بہت کچھ فارسی کا مذاق موجود ہے۔ ”

  • علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    ایک روز میں کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک جگہ خواجہ عبدالرّحیم صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ علّامہ اقبال کے دیرینہ اور وفادار ملازم علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں لائل پور میں ایک مربع زمین عطا کی ہے۔

    وہ بچارا کئی چکر لگا چکا ہے، لیکن اسے قبضہ نہیں ملتا، کیوں کہ کچھ شریر لوگ اس پر ناجائز طور پر قابض ہیں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔” جھنگ لائل پور کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم علی بخش کی کچھ مدد نہیں کرسکتے؟”

    میں نے فوراََ جواب دیا، "میں آج ہی اسے اپنی موٹر کار میں جھنگ لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔”

    خواجہ صاحب مجھے "جاوید منزل” لے گئے اور علی بخش سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ "یہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ تم فوراََ تیار ہو کر ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ یہ بہت جلد تمہاری زمین کا قبضہ دلوا دیں گے۔”

    علی بخش کسی قدر ہچکچایا، اور بولا، ” سوچیے تو سہی میں زمین کا قبضہ لینے کے لیے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ قبضہ نہیں متا تو کھائے کڑھی۔ لاہور سے جاتا ہوں تو جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔ جاوید بھی کیا کہے گا کہ بابا کن جھگڑوں میں پڑ گیا”؟

    لیکن خواجہ صاحب کے اصرار پر وہ میرے ساتھ ایک آدھ روز کے لیے جھنگ چلنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جب وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ جاتا ہے تو غالباََ اس کے دل میں سب سے بڑا وہم یہ ہے کہ شاید اب میں بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح علّامہ اقبال کی باتیں پوچھ پوچھ کر اس کا سر کھاؤں گا۔ لیکن میں نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ میں خود علی بخش سے حضرت علّامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں، تو یہ جوہر خودبخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا۔

    میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشانی کُن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک سنیما کے سامنے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر وہ بڑبڑانے لگا۔ "مسجدوں کے سامنے تو کبھی ایسا رش نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے۔”

    ایک جگہ میں پان خریدنے کے لیے رکتا ہوں، تو علی بخش بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو پان پسند نہیں تھے۔”

    پھر شاید میری دلجوئی کے لیے وہ مسکرا کر کہتا ہے۔” ہاں حقّہ خوب پیتے تھے۔ اپنا اپنا شوق ہے پان کا ہو یا حقّہ کا۔”

    شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے ہیں۔ یہاں پر ایک مسلمان تحصیل دار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکّے مرید تھے۔ انہوں نے دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو پلاؤ اور سیخ کباب بہت پسند تھے۔ آموں کا بھی بڑا شوق تھا۔ وفات سے کوئی چھے برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا تو کھانا پینا بہت کم ہو گیا۔”

    اب علی بخش کا ذہن بڑی تیزی سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا آتا ہے۔ ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے۔ جب تک علی بخش کا یہ نشہ پورا نہیں ہوتا، غالباََ اسے ذہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی۔

    "صاحب، جب ڈاکٹر صاحب نے دَم دیا ہے، میں ان کے بالکل قریب تھا، صبح سویرے میں نے انہیں فروٹ سالٹ پلایا اور کہا کہ اب آپ کی طبیعت بحال ہوجائے گی، لیکن عین پانچ بج کر دس منٹ پر ان کی آنکھوں میں ایک تیز تیز نیلی نیلی سی چمک آئی، اور زبان سے اللہ ہی اللہ نکلا۔ میں نے جلدی سے ان کا سَر اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور انہیں جھنجھوڑنے لگا، لیکن وہ رخصت ہوگئے تھے۔”

    کچھ عرصہ خاموشی طاری رہتی ہے۔ پھر علی بخش کا موڈ بدلنے کے لیے میں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں۔

    "حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں”؟

    علی بخش ہنس کر ٹالتا ہے۔ "میں تو ان پڑھ جاہل ہوں۔ مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل۔”

    "میں نہیں مانتا۔ ” میں نے اصرار کیا، "آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگا۔”

    ” کبھی اے حکیکتِ منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت گنگنایا کرتے تھے۔”

    ” ڈاکٹر صاحب عام طور پر مجھے اپنے کمرے کے بالکل نزدیک سُلایا کرتے تھے۔ رات کو دو ڈھائی بجے دبے پاؤں اٹھتے تھے اور وضو کر کے جائے نماز پر جا بیٹھتے تھے۔ نماز پڑھ کر وہ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ فارغ ہو کر بستر پر آ لیٹتے تھے۔ میں حقّہ تازہ کر کے لا رکھتا تھا۔ کبھی ایک کبھی دو کش لگاتے تھے۔ کبھی آنکھ لگ جاتی تھی۔ بس صبح تک اسی طرح کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔”

    میرا ڈرائیور احتراماََ علی بخش کو سگریٹ پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ غالباََ حجاب میں آکر اسے قبول نہیں کرتا۔

    "ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی۔ کبھی کبھی رات کو سوتے سوتے انہیں ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور وہ مجھے آواز دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ ایسے موقع پر میں فوراََ ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کہتے تھے بس۔ اور میں دبانا چھوڑ دیتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ مجھے اپنے نزدیک سلایا کرتے تھے۔”

    ہر چند میرا دل چاہتا ہے کہ میں علی بخش سے اس واردات کے متعلق کچھ مزید استفسار کروں لیکن میں اس کے ذہنی ربط کو توڑنے سے ڈرتا ہوں۔

    "ڈاکٹر صاحب بڑے دریش آدمی تھے۔ گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا۔ میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا۔ ان کا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہوجاتے تھے۔ کہا کرتے تھے، علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہیے۔ خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے نہ رہا کرو۔ اب اسی مربع کے ٹنٹنے کو دیکھ لیجیے، لائل پور کے ڈپٹی کمشنر صاحب، مال افسر صاحب اور سارا عملہ میری بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بڑے اخلاق سے مجھے اپنے برابر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔

    ایک روز بازار میں ایک پولیس انسپکٹر نے مجھے پہچان لیا اور مجھے گلے لگا کر دیر تک روتا رہا۔ یہ ساری عزّت ڈاکٹر صاحب کی برکت سے ہے۔ مربع کی بھاگ دوڑ میں میرے پر کچھ قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔ لیکن میں اس کام کے لیے بار بار لاہور کیسے چھوڑوں۔ جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔”

    "سنا ہے اپریل میں جاوید چند مہینوں کے لیے ولایت سے لاہور آئے گا۔ جب وہ چھوٹا سا تھا، ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اللہ کے کرم سے اب بڑا ہوشیار ہو گیا ہے۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اور منیرہ بی بی بہت کم عمر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نرس کے لیے اشتہار دیا۔ بے شمار جواب آئے۔ ایک بی بی نے تو یہ لکھ دیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی قدر پرشان ہوئے اور کہنے لگے علی بخش دیکھو تو سہی اس خاتوں نے کیا لکھا ہے۔ میں بڈھا آدمی ہوں۔ اب شادی کیا کروں گا۔ لیکن پھر علی گڑھ سے ایک جرمن لیڈی آگئی۔”

    علی بخش کا تخیّل بڑی تیز رفتاری سے ماضی کے دھندلکوں میں پرواز کر رہا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے اپنے ڈاکٹر صاحب یا جاوید یا منیرہ بی بی کی کوئی نہ کوئی خوش گوار یاد آتی رہتی ہے۔ جھنگ پہنچ کر میں اسے ایک رات اپنے ہاں رکھتا ہوں۔ دوسری صبح اپنے ایک نہات قابل اور فرض شناس مجسٹریٹ کپتان مہابت خان کے سپرد کرتا ہوں۔

    کپتان مہابت خان، علی بخش کو ایک نہایت مقدس تابوت کی طرح عقیدت سے چھو کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ علی بخش کو آج ہی اپنے ساتھ لائل پور لے جائے گا اور اس کی زمین کا قبضہ دلا کر ہی واپس لوٹے گا۔” حد ہوگئی۔ اگر ہم یہ معمولی سا کام بھی نہیں کرسکتے تو ہم پر لعنت ہے۔”

    (قدرت اللہ شہاب کی مشہور تصنیف شہاب نامہ سے ایک پارہ)

  • ایک معمولی سا آدمی!

    ایک معمولی سا آدمی!

    بچپن میں مجھ کو کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ جب تک کوئی کہانی نہ کہتا مجھے نیند نہ آتی۔ ایک دن مجھے بخار ہوگیا۔ دوپہر سے جو چڑھا رات ہوگئی۔

    امّاں میرے سرہانے بیٹھی سَر دبا رہی تھیں۔ نانی مغلانی جن کا گھر ہماری دیوار سے لگا ہوا تھا، اتنے میں میری خبر سن کر آگئیں اور میرے تلوےسہلانے لگیں۔ نانی مغلانی کی عمر اس وقت اسّی کے قریب ہوگی۔ بڑی ملنسار اور محبت کرنے والی۔ مجھ پر تو ان کی جان جاتی تھی۔ آج تک مجھے، ان کی صورت، ان کی محبت اور ان کی باتیں یاد ہیں۔ صورت ایسی تھی جیسے جنّت کی حوروں کی سنتے ہیں اور باتوں کی لذّت، اللہ بخشے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شہد کے گھونٹ کانوں سے ہوکر دل میں اتر رہے ہیں۔ میں بخار میں کراہ رہا تھا اور وہ دونوں اس کوشش میں تھیں کہ کس طرح مجھے نیند آجائے۔

    سَر دبانے اور تلوے سہلانے سے جب میری آنکھ نہ لگی تو امّاں جان نے کہا، ’’میاں سوتے کیوں نہیں آنکھیں بند کرکے نیند کو بلاؤ تو۔ کہو تو نانی مغلانی تمہیں کوئی کہانی سنائیں؟‘‘ میں جلدی سے بولا ’’ہاں نانی سناؤ۔‘‘

    نانی مغلانی سنبھل کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں۔ ’’بھئی پرستان کا قصہ نہیں اسی دلّی کا واقعہ ہے جب قلعہ آباد تھا اور بہادر شاہ تخت پر، اگلی باتیں تو کہاں رہی تھیں کہ شہزادوں، سلاطین زادوں کو تیر اندازی، تلواریں چلانی سکھائی جاتیں، ان کے کھیل تو یہ رہ گئے تھے کہ گھر میں اٹکن بٹکن کھیل رہے ہیں، پچیسی ہورہی ہے یا باہر نکلے
    تو مرغ بازی، پتنگ بازی ہونے لگی۔ بعض لاڈلے اور محل کے میت تو ایسے تھے کہ سترہ سترہ اٹھارہ اٹھارہ برس کی عمر ہوجاتی تھی مگر انّا منھ دھلاتی۔ کھلائی نوالے بنا بنا کر منھ میں دیتی۔

    ان ہی سلاطین زادوں میں ایک مرزا شبو بھی تھے۔ نام تو میں نہیں بتاؤں گی، خدا ان کی روح کو نہ شرمائے، بس مرزا شبو ہی سمجھ لو بڑے دیدارو، مگر ایسے بھولے کہ انّیس برس کی عمر میں شرم کا یہ حال تھا کہ محل کی ساری لڑکیاں ان سے مذاق کرتیں اور وہ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔ اس شرم اور بھولے پن پر اللہ رکھے عاشق مزاج ایسے کہ آج کسی کی ہنسی پر فریفتہ ہوگئے تو کل کسی کے رونے پر لوٹ پوٹ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ شہر میں ایک بڑی دھوم کی شادی ہوئی۔ قلعے کی ساری شہزادیاں اور شہر کے امیروں کی بیویاں، بہو، بیٹیاں اس میں شریک ہونے کو آئیں۔ دولھا، مرزا شبو کا لنگوٹیا یار تھا، لہٰذا وہ دولھا کے ساتھ ہاتھی پر سے اترے تو مرزا شبو بھی نیچے آئے۔ اتنے میں ایک پالکی کے کہاروں کا پاؤں رپٹا، پالکی کندھوں سے اتر گئی اور پالکی کا پردہ کھل کر، سواری کے کار چوبی دوپٹے کا پّلا نیچے لٹک گیا اور ساتھ ہی ایک مہندی لگا گورا گورا پاؤں نظر آیا۔ مرزا شبو نے ایک کہی نہ دو، خنجر کمر سے کھینچ لٹکتا ہوا پّلا کاٹ لیا کہ غیروں کی نظر نہ پڑے۔ انھیں پردے کا بڑا خیال تھا، پّلا تو کاٹنے کو انھوں نے کاٹ لیا مگر پلّے والی کے پاؤں پر عاشق ہوگئے اور یہ کیفیت ہوئی جیسے تیر لگا ہوا کبوتر تڑپنے لگے۔ ساتھ والے بہ مشکل گھر لائے۔ گھر آتے ہی منھ لپیٹ کر پڑ گئے۔

    زنانے سے مردانے تک عورتوں مردوں کا تانتا لگ گیا۔ جھاڑا پھونکیاں ہورہی ہیں، ملاّ سیانے بلائے جارہے ہیں، پوچھا جارہا ہے صاحبِ عالم منھ سے تو بولیں، بتاؤ تو کیا ہوا۔ تم تلوار باندھ کر گئے تھے، پھر بری نظر کا وار کس طرح ہوگیا۔ لیکن صاحبِ عالم جو پڑے ہیں تو منھ سے بولنا، سَر سے کھیلنا کیا، کروٹ تک نہیں لیتے۔

    قلعے کی سرکاروں میں ایسے ویسے چپڑ قناتیوں کا گزر تو تھا نہیں، کیسی ہی چھوٹی ڈیوڑھی سہی، جب کسی کو نوکر رکھتے تو اس کی سات پیڑھیوں کی تحقیقات کر لیتے، پھر شہزادوں اور سلاطین زادوں کے ساتھ رہنے والوں اور مصاحبوں کے لیے تو ایسی چھان بین ہوتی جیسے بیٹا یا بیٹی کا رشتہ طے ہو رہا ہے۔ اصلیوں، نجیبوں کے لڑکے تلاش کیے جاتے جو صورت شکل کے بھی اچھے ہوتے، کوئی خامی بھی ان کے اندر نہ ہوتی اور وقت پڑنے پر اپنے آقا کے پسینے کی جگہ خون بہانا اپنی اصالت اور شرافت سمجھتے۔

    اچھا، تو یہ صاحبِ عالم جن کا قصہ ہے، ان کی صحبت میں بھی کئی نوجوان تھے۔ یوں تو ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے تعلق سے آقا کی اس حالت کا افسوس تھا کہ ان کے ہنسی مذاق اور چرندم خورندم پر اوس پڑ گئی تھی لیکن حقیقی صدمہ ایک بانکے مرزا کو تھا، یہ جلے پاؤں کی بلّی کی طرح تڑپتے پھرتے، پہروں صاحب عالم کے سرہانے بیٹھے رویا کرتے۔ چوتھا دن تھا کہ دوپہر کے وقت صاحبِ عالم نے ہائے اللہ کر کے دو شالہ منھ پر سے ہٹایا اور آنکھ کھول کر بانکے مرزا کی طرف دیکھا۔ اس وقت اتفاق سے یہی دونوں تھے۔

    صاحبِ عالم: کون…بانکے مرزا؟

    بانکے مرزا: جی ہاں غلام ہے۔

    صاحبِ عالم: ارے بھئی جاؤ اپنے گھر۔ میرے ساتھ کیوں مر رہے ہو۔

    بانکے مرزا: صاحب عالم یہاں سے تو میری لاش جائے گی اور آپ دیکھ لیں گے۔

    صاحب عالم: کیوں بھئی؟

    بانکے مرزا: صاحب عالم ایسی زندگی پر تف ہے کہ جس کی ہم خدمت کریں، وہ ہمیں اپنا دکھ درد کہنے کے قابل بھی نہ سمجھے۔

    صاحب عالم: اور جو بات بتانے کی نہ ہو۔

    بانکے مرزا: اسی لیے تو عرض کرتا ہوں آپ نے مجھے ذلیل سمجھا، بہت اچھا نہ بتائیں۔ یہ کہہ کر بانکے مرزا نے خنجر کمر سے کھینچ اپنی چھاتی پر رکھا اور چاہتے ہی تھے کہ اپنے دل کو چھید ڈالیں صاحبِ عالم نے چھپٹ کر ہاتھ پکڑ لیا۔ بڑی ضد بحث کے بعد صاحبِ عالم نے مرزا بانکے کے ہاتھ سے خنجر لیا اور اپنے پاس بٹھا کر ساری داستان سنائی کہ اس طرح میں فلاں کی شادی میں گیا تھا وہاں ایک پالکی اتر رہی تھی، یوں پالکی کے کہار رپٹے، یوں پالکی کا پردہ کھل گیا اور اس طرح پالکی میں بیٹھنے والی کے دوپٹے کا پلّا لٹک پڑا، یہ خیال کر کے میں نے وہ پّلا کاٹ لیا کہ پردہ فاش نہ ہو۔ اس میں سواری کے پاؤں کا تلوا نظر آیا جسے دیکھتے ہی میری بری حالت ہوگئی۔ نہ بھوک ہے نہ پیاس، زندگی اجیرن معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ اور دو چار دن میرے پہلو میں نہ آگئی تو ارادہ ہے کہ کچھ کھا کر سو رہوں یا اپنا گلا کاٹ لوں۔

    بانکے مرزا: اچھا تو آپ اب کھڑے ہو جائیے، کھائیے پیجیے، ہسنیے، بولیے ذرا فکر نہ کیجیے۔ اس پالکی والی کا پتہ لگانا اور اسے آپ کے پہلو میں لا بٹھانا بانکے مرزا کا کام ہے۔

    صاحب عالم: (خوش ہو کر) تم اس کا پتہ لگا لو گے۔

    بانکے مرزا: پتہ نہیں لگاؤں گا تو منھ نہیں دکھاؤں گا۔ دوپٹے کا وہ پّلا جو آپ نے کاٹا ہے، مجھے عنایت کر دیجیے۔

    صاحب عالم: پلّو اپنے سرہانے سے نکال کر دیتے ہیں ( کب تک؟)

    بانکے مرزا: کم سے کم پندرہ دن اور زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ۔ میری شرافت پر بھروسہ کیجیے۔ لیجیے، اب میں رخصت ہوتا ہوں۔

    بانکے مرزا نے رفاقت کے جوش اور شرافت کے تقاضے سے وعدہ تو کرلیا مگر جب قلعہ سے باہر نکلے تو سوچ میں پڑ گئے کہ یہ کیا حماقت کی شادی تھی، ہزاروں عورتیں آئی ہوں گی، پھر فقط دوپٹے کے ایک پلّو سے کس طرح پتہ لگ سکتا ہے کہ کون تھا۔ لیکن اب تو وعدہ کر آئے تھے، قولِ مرداں جان دارد!

    بڑا فکر ہوا، چاروں طرف خیال دوڑایا۔ شادی والے دن اتفاق کی بات یہ آگرے گئے ہوئے تھے، سواریاں بھی آتے جاتے نہیں دیکھی تھیں۔ سوچتے سوچتے شہر کی کٹنیاں یاد آگئیں جو سب سے زیادہ چالاک تھیں۔ انھیں مگھّم میں قصہ سنایا اور کھوج لگانے کے لیے مقرّر کیا۔ کٹنیوں نے بھی انعام کے لالچ میں ایک ایک کوچہ چھان مارا مگر کوئی کھوج نہ لگا، بھلا شریف زادیوں میں کون اپنا گھٹنا کھولتی اور لاجوں مرتی۔

    آخر وعدے کے دن پورے ہونے کو آئے اور کوئی صورت نہ نکلی۔ بانکے مرزا نے دل میں ٹھان لی کہ اب اس سے پہلے کہ صاحبِ عالم کو منھ دکھاؤں مر جانا بہتر ہے۔ دل میں یہ ٹھان کر سنکھیا لائے اور اس کی پڑیا اپنے سرہانے رکھ لی کہ رات کو کھا کر سو جاؤں گا۔ تھے ایسے مرد کہ اپنی بیوی سے بھی کچھ نہیں کہا۔ مہینہ بھر میں کسی نے نہیں جانا کہ بانکے مرزا کس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اب یہ تماشا سنو جس دن بانکے مرزا نے سنکھیا لا کر رکھی ہے اسی روز اتفاق سے ان کی بیوی نے دھوپ دینے کو اپنے کپڑے نکالے۔ اچانک ایک دوپٹے پر مرزا کی نظر پڑی۔ غور سے دیکھا تو اس کا پّلا کٹا ہوا دکھائی دیا۔ اچھل پڑے، جلدی سے صاحبِ عالم کا دیا ہوا پلّو کا ٹکڑا نکالا۔ دوپٹے سے جا کر ملایا تو ٹھیک تھا۔

    بیوی: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟

    مرزا: ذرا کوٹھڑی کے اندر چلو تو بتاؤں۔ بیوی میاں کے تیور دیکھ کر ڈر گئی۔ مرزا نے ایک ہاتھ میں ننگی تلوار لی اور دوسرے ہاتھ سے بیوی کا بازو پکڑا اور اندر لے گئے۔بانکے مرزا: یہ کس کا دوپٹہ ہے۔

    بیوی: (سہمی ہوئی آواز سے) میرا۔ آپ ہی نے بنوا کر دیا تھا۔ یاد کر لیجیے۔

    بانکے مرزا: یاد ہے مگر اس کا پّلو کٹا کس طرح سچ مچ بتا دو، ورنہ خیر نہیں۔ پارسا بیوی پہلے تو بہت گھبرائی لیکن چوںکہ خطا کار نہ تھی اس لیے اس نے حرف بہ حرف سارا واقعہ سنا دیا اور مرزا کے قدموں پر سَر جھکا کر بولی۔ ’’لونڈی کا اتنا قصور ضرور ہے کہ آپ سے کہا نہیں۔ اب آپ کو اختیار ہے۔‘‘

    اتنا سن کر بانکے مرزا پر ایک سکتے کا سا عالم طاری ہوگیا۔ تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی اور کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بڑی دیر تک مرزا کچھ سوچتے رہے، پھر ایک دفعہ ہی جیسے سوتے سے آدمی جاگتا ہے، پیچھے ہٹ کر بولے۔ ’’بیگم میں زبان دے آیا ہوں۔‘‘

    بیوی: (سَر اٹھا کر حیران ہوتے ہوئے) کیا زبان دے آئے اور کسے؟

    مرزا: یہ نہ پوچھو اور جو میں کہوں کرو۔

    بیوی: مجھے آپ کے حکم سے کب انکار ہے۔

    مرزا: تو یہی جوڑا جس کے دوپٹہ کا پّلا کٹا ہوا ہے پہن لو۔ بناؤ سنگھار بھی اس دن جیسا کرلو۔ میں ابھی پینس لاتا ہوں اس میں بیٹھ کر جہاں میں لے جاؤں چلو۔ بیوی میاں کا منھ دیکھنے لگی، کچھ بولنے کی جرأت نہ تھی، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔

    یہ دیکھ کر مرزا نے بڑی ہمتّ سے کہا، دیکھو! بیگم آج تک تم میری بیوی تھیں اور میں تمہارا میاں لیکن آج میں یہ رشتہ توڑتا ہوں۔ بیوی اتنا سنتے ہی سفید پڑ گئی اور بدن تھرتھرانے لگا، بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھال کر گلوگیر آواز میں کہنے لگی، اچھا اتنا تو بتا دو کہ تم مجھ سے خفا تو نہیں۔

    مرزا بولے، بیگم اس وقت ایسی باتیں نہ کرو، میرے ارادے میں ذرا سا فرق آیا تو سارے خاندان کی ناک کٹ جائے گی۔ میرا لاشہ تمہیں تڑپتا ہوا نظر آئے گا۔ یہ کہتے ہوئے مرزا باہر چلے گئے، پالکی لاکر دروازے پر لگا دی۔ بیوی ہانپتی کانپتی پالکی میں سوار ہوئی آگے آگے مرزا تھے اور پیچھے پیچھے پالکی۔ قلعہ میں داخل ہوئے اور صاحبِ عالم کے دیوان خانے پر جا پہنچے۔ دروازے میں پالکی رکھوائی، آپ اندر گئے۔ صاحبِ عالم مسہری پر لیٹے ہوئے تھے، مرزا کو دیکھتے اٹھ بیٹھے اور بولے،

    ’’کہو مرزا ہمارا کام بنا، تمہارے وعدے میں صرف آج اور کل کا دن باقی ہے۔‘‘

    مرزا: آپ نے مرزا کو سمجھا کیا ہے صاحبِ عالم۔ ابھی ہماے خون میں اصالت کے جوہر موجود ہیں۔ آپ کی مراد لے کر آیا ہوں۔

    صاحبِ عالم: (بیتاب ہوکر) کہاں کہاں؟

    مرزا: ڈیوڑھی میں پینس رکھی ہے۔ صاحبِ عالم تھے تو نرے صاحبِ عالم اور عاشق مزاج بھی، لیکن ابھی تک اپنے بڑوں کی عزّت کا پاس تھا۔ رعایا کی بہو بیٹیوں پر بری نظر ڈالنے کی عادت نہ تھی، کچھ سہم سے گئے اور متوحش آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

    مرزا: آپ گھبرا کیوں گئے؟

    صاحبِ عالم: بڑے حضرت کا ڈر ہے۔

    مرزا: اس کا میں نے بندوبست کرلیا ہے۔

    صاحبِ عالم: تو پھر اندر لے آؤ۔

    مرزا: لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ میں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ کام کیا ہے۔ چار گھنٹے کے وعدے پر لایا ہوں، شوہر والی ہیں، کوئی رانڈ، بیوہ یا بازاری عورت نہیں۔

    صاحبِ عالم: اچھا، انہیں اندر بھیج دو لیکن تم کہیں چلے نہ جانا۔ مرزا بہت خوب کہہ کر ڈیوڑھی میں پالکی کے پاس آئے اور بیوی کو آواز دی۔

    بیوی پریشان میاں کی اس حرکت سے سہمی ہوئی اپنے خیالات میں محو ایک طرف خاموش بیٹھی تھی۔ میاں کی آواز جو سنی تو چونک پڑی اور بھرّائی ہوئی آواز میں بولی فرمائیے۔ مرزا نے کہا یہ میرے ولی نعمت کا مردانہ مکان ہے، اندر صاحبِ عالم تشریف رکھتے ہیں، اتر کر ان کی خدمت میں جاؤ، ان کا دل بہلاؤ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں…یہ کہتے کہتے مرزا کی آواز بھرّا گئی، مگر وہ بات کے دھنی تھے۔ بولے میں منھ پھیرے لیتا ہوں، اترو اور اندر جاؤ، سامنے والے کمرے میں صاحبِ عالم تشریف فرما ہیں۔ بیوی کانپتی ڈرتی پالکی سے اتری اور لڑکھڑاتی ہوئی اندر گئی۔ منھ دوپٹے سے چھپا ہوا تھا اور آنکھوں سے لڑیاں جاری تھیں۔ کمرے میں پہنچ کر صاحبِ عالم کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

    صاحبِ عالم نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور نظر نیچی کر لی، جوانی تھی، شہزادے تھے، اس پر عشق، لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ہاتھ بڑھائیں، آنے والی کی سسکیوں کے ساتھ رونے کی آواز برابر کانوں میں چلی آرہی تھی۔

    صاحبِ عالم: (نیچے آنکھیں کیے کیے) نیک بخت تم تو رو رہی ہو۔ میں تم سے کچھ کہتا تو نہیں صرف اتنا بتا دو کہ تمہارے میاں کون ہیں۔

    عورت: (بڑی مشکل سے) بانکے…مرزا…

    (صاحبِ عالم حیرت سے) تم بانکے مرزا کی بیوی ہو، تمہارا ہی دو پٹّہ زمین پر لٹک گیا تھا؟

    عورت: (روتے ہوئے) جی ہاں یہ دیکھیے۔

    صاحبِ عالم: (گھبرا کر) غضب، غضب لاحو ل ولا قوۃ۔ اور وہ ننگے پاؤں ننگے سر ڈیوڑھی کی طرف چلے۔ عورت سہم کر اوندھے منہ سجدے میں گر پڑی۔ بانکے مرزا ڈیوڑھی میں آنکھیں بند کیے، مونڈھے پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔ صاحبِ عالم نے آتے ہی کہا اماں مرزا تم یہ کس کو لے آئے، ان پر تو کوئی جن عاشق معلوم ہوتا ہے جوں ہی میں نے انھیں ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھانا چاہا تاب دان میں سے ایک نہایت بدہیبت ہاتھ نکلا اور آواز آئی کہ خبر دار یہ ہماری منکوحہ ہے ہاتھ لگایا تو ابھی گلا گھونٹ دوں گا۔ اس لیے انھیں تو یہاں سے لے ہی جاؤ۔

    مرزا نے کہا، صاحبِ عالم، یہ تو آپ نے میری ساری محنت ہی اکارت کر دی۔ حضرت وہم نہ کیجیے، جائیے اب کے اگر ہاتھ دکھائی دے تو مجھے بلا لیجیے گا میرے سامنے اگر ہاتھ نکالا تو جن کو بھی ٹنڈا سمجھ لیجیے۔ مرزا کی رفاقت اور محنت کا نقش صاحبِ عالم کے دل میں اور بھی گہرا بیٹھتا جاتا تھا۔ آخر تیموری خون میں جوش آگیا، غیرت آئی سوچا کہ مرزا نے میرے نمک کا پاس کرکے اپنی بیوی کو مجھ تک پہنچا دیا۔ اب مجھے بھی اپنی شرافت دکھانی چاہیے۔ مرزا کو اپنے آگے لے کر کہا، اچھا مرزا دیکھوں تم کتنے بہادر ہو جاؤ اور انھیں ہاتھ لگاؤ، اس جن سے مقابلے کرو، اتنے میں ذرا محل ہو آؤں، یہ کہتے ہوئے صاحبِ عالم تو زنانی ڈیوڑھی کی طرف چلے اور مرزا ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر کمرے کے اندر پہنچے۔ بیوی کو دیکھا تو سَر بہ سجدہ ہے۔ آواز دی، کچھ جواب نہ ملا۔ آنکھیں تاب دان کی طرف لگی ہوئی تھیں، چھپر کھٹ کے قریب جاکر کھڑے ہوئے تھے کہ یکایک تاب دان کے اندر سے ایک سیاہ بھجنگ کالا ہاتھ نکلا اور آواز آئی خبردار جو اس عورت کو کسی نے ہاتھ لگایا، اسے فوراً اپنے گھر پہنچا دو۔ مرزا پہلے تو جھجکے پھر سنبھل کر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے اور اللہ کا نام لے کر نکلے ہوئے ہاتھ پر تلوار مار دی اور آنکھیں بند کرلیں۔ ادھر تو ہاتھ چھپر کھٹ کے اوپر گرا اور ادھر تاب دان کی پشت پر کسی کے گرنے کا دھماکہ ہوا۔

    نوکر چاکر آواز سن کر دوڑے دیکھا تو صاحبِ عالم خون میں لت پت بے ہوش پڑے ہیں۔ شور مچ گیا۔ مرزا کے کانوں میں جو یہ آوازیں پہنچیں تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کو دیکھتے دیکھتے باہر پہنچے اور ہائے صاحبِ عالم، میرے آقا کہہ کر صاحبِ عالم کے پاس گر پڑے اور پھر سنبھل کر اٹھے۔ بیوی کو تو سوار کرا کے گھر روانہ کیا اور صاحبِ عالم کو اٹھوا کر کمرے میں لائے، جرّاحوں کو چپ چپاتے بلوایا مرہم پٹی کرائی، ہوش میں لانے کی تدبیریں کیں۔ خدا خدا کرکے کوئی مہینہ بھر کے بعد زخم مندمل ہونا شروع ہوا اور صاحب عالم اپنے سہارے اٹھے بیٹھنے اور بات چیت کرنے لگے۔

    اب ایک دن رات کے بارہ بجے موقع پا کر مرزا نے ذرا کڑے تیوروں سے صاحبِ عالم سے کہا، قبلہ یہ آپ کو کیا سوجھی تھی، میرے ہی نامۂ اعمال کو سیاہ کرنا تھا۔ صاحبِ عالم نے جواب دیا، ’’سنو مرزا، جب تم سَر ہوئے تو میں نے اپنا حالِ زار تم کو سنا دیا اور تم اس کا کھوج لگا کر میرے پاس لے بھی آئے لیکن جب اس نے بڑی مشکل سے بتایا کہ میں بانکے مرزا کی بیوی ہوں تو تمہارا نام سنتے ہی مجھے اتنی غیرت آئی کہ اگر خود کشی گناہ نہ ہوتی تو اسی وقت اپنا خاتمہ کر لیتا۔

    مرزا ایک معمولی سا آدمی تو نمک کی اتنی پاس داری کرے اور میں بادشاہوں کی اولاد کہلا کر اپنی رعایا کے حق میں بھیڑیا نکلوں۔ اس وقت مجھے یہی سوجھا کہ جس ہاتھ سے اس پاک دامن کے پّلو کو چھوا تھا وہ ہاتھ اسی شخص کی تلوار کاٹے جس کا میں گنہ گار ہوں۔ چنانچہ یہ ڈھونگ بنایا اور ترکیب کارگر نکلی۔

    مرزا نے جماہی لیتے ہوئے کہا، بہ ہر حال آپ نے اچھا نہیں کیا، میری آنکھیں آپ کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتیں۔ خیر اب آپ آرام فرمائیے، باقی باتیں صبح ہوں گی۔ صبح کو نوکر چاکر اٹھ کر صاحبِ عالم کے کمرے کی طرف آنے لگے تو مرزا کے بچھونے پر خون کے چکتے دیکھتے، چادر جو ہٹائی تو چھاتی میں خنجر گھسا ہوا تھا اور مرزا مردہ۔یہاں تک کہانی کہنے کے بعد مغلانی نانی چپ ہوگئیں۔

    والدہ: اور اس بے چاری بیوی پر کیا گزری؟

    مغلانی: خدا نے جیسی ڈالی صبر شکر کیا۔ اس زمانے کی عورتیں ایسی تو تھیں نہیں کہ ہائے واویلا مچا کر محلّے کو سَر پر اٹھا لیں۔ دوسرے بانکے مرزا اتنا چھوڑ گئے تھے کہ بیوی کی ساری زندگی کو بہت تھا۔ کونے میں بیٹھ کر آبرو کے ساتھ گزار دی۔

    والدہ: کاش میں انھیں دیکھتی۔ مغلانی نانی نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور بولیں، لو بُوا دیکھ لو، وہ جنم جلی بانکے مرزا کی بیوہ یہی ہے۔

    والدہ حیرت سے ان کا منھ تکنے لگیں۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور گھر میں سناٹا چھا گیا۔

    (از: اشرف صبوحیؔ دہلوی)

  • نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    آگرے کی گائیکی پر خاکسار نے خاص ریاض کیا۔

    اُن دنوں خیال آیا کہ والد صاحب کی الماری پر جو مرمّت طلب طنبورہ پڑا ہے، اس کی مرمّت کرانی چاہیے۔ اس کے تونبے میں ایک دراڑ تھی، زنہار ہمّت نہ ہوئی کہ والد صاحب سے اس خواہش کا ذکر کروں، وہ ہر گز اجازت نہ دیتے۔

    ماڈل ٹاؤن میں مکانات کی تعمیر کا ایک ٹھیکے دار نصیر خاں تھا، جس کی تعلیم چوتھی جماعت تک ہوئی تھی۔ یہ داغ کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض شعر واقعی اچھے نکال لیتا تھا لیکن وزن اس کے بعض مصرعوں کا ٹھیک نہ ہوتا تھا۔ اس کی عمر چالیس کے قریب تھی اور راقم کی پندرہ۔

    اس نے شاعری میں راقم کو استاد کیا۔ وقتاً فوقتاً ایک اٹھنی بطور اجرتِ اصلاح یا نذرانۂ شاگردی دیا کرتا تھا۔ راقم نے سوچا کہ طنبورہ مرمّت کرانے کا کام نصیر خاں کی مدد سے نکالا جائے۔

    ایک صبح والد صاحب جب کالج کو روانہ ہوئے۔ نصیر خاں تانگے پر طنبورہ رکھ کر اس کو دھنی رام اسٹریٹ میں پرتاب سنگھ کی دکان پر لے گیا۔ وہاں مرمّت میں کئی روز لگے۔ راقم بے تاب سنگھ بن کر یاد دہانی کو وہاں جاتا رہا، ٹوٹا ہوا تونبا مرمت یوں کرتے ہیں کہ اس کو کھول کر اس کے جوڑ بٹھا کر اندر مہین بوریا گوند سے جما دیتے ہیں۔ جب ٹھیک سے پیوستہ ہو جاتا ہے تو اس کو پھر اپنی جگہ جما کر باہر رنگ و روغن کر دیتے ہیں۔ کئی روز بعد نصیر خاں تانگے پر طنبورہ لے کر آیا۔ چوری چوری میں نے اس کو اپنے کمرے میں رکھا۔

    دو ایک روز میں والد صاحب کو خبر ہوئی تو اس جسارت پر حیران رہ گئے۔ خفا ہوئے تو راقم نے مزید جرأت کی اور کہا کہ مجھ کو پونا کے میوزک کالج میں داخل کرا دیجیے، اس کے جواب میں ناصحِ مشفق نے سمجھایا کہ اہلِ فن جس محلے میں رہتے ہیں وہاں کی آمد و رفت میں ایک خاص خطرہ ہے۔ لیجیے ہمارا خواب پریشاں ہو کر رہ گیا، لیکن اب مانتا ہوں کہ اچھا ہی ہوا۔ خطرۂ خاص سے قطع نظر گانے بجانے کے پیشے میں آج کل بھارت اور پاکستان دونوں میں جو سیاست ہے، اس سے اللہ بچائے۔

    ایک تفریحی شغل کے طور پر سنگیت کا جو مزہ ہم نے لیا، اس میں یک گونہ آزادی رہی۔ پھر یہ کہ زندگی کے مشاغل میں بھی تنوع رہا۔ راگ سے روٹی کمانی نہ پڑی۔ راگ وسیلۂ فرحت ہی رہا۔

    (ممتاز ماہرِ موسیقی، ادیب اور محقق داؤد رہبر کی یادوں سے ایک ورق)

  • کشمیر اور مغل شہنشاہ جہانگیر کا فرمان

    کشمیر اور مغل شہنشاہ جہانگیر کا فرمان

    مغل شہنشاہ جہانگیر اکثر کہا کرتا تھا کہ کشمیر میری قلمرو میں بہشتِ روئے زمیں ہے اور اسی لیے ہر سال کشمیر کی سیر کو جاتا تھا۔ اس نے کشمیر کی بہت تعریف کی ہے۔

    وہ لکھتا ہے: کشمیر ایک باغ ہے سدا بہار، قلعہ ہے آہنی حصار۔ بادشاہوں کے لیے ایک گلشنِ عشرت افزا ہے، درویشوں کے لیے ایک خلو ت کدۂ دلکشا ہے۔ چمن خوش، آبشارِ دل کش۔ آب ہائے رواں شرح و بیان سے زیادہ اور چشمہ سار حساب و شمار سے باہر ہیں۔ بہار میں کوہ و دشت اقسامِ شگوفہ سے مالا مال۔ در و دیوار اور صحن و بام گھروں کے مشعلِ لالہ سے بزم افروز ہیں۔

    جہانگیر میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ جن مشہور اضلاع و مقامات میں سے گزرتا تھا، ان کے تاریخی حالات کی خوب تحقیقات کرتا اور وہاں کے باشندوں کی حالتیں، رسم و رواج، طرزِ معاشرت، آب و ہوا، غرض ہر چیز کا بیان لکھتا۔

    چنانچہ واپسی کے وقت جب وہ تھنہ میں پہنچا، جو پیر پنجال کے نشیب میں واقع ہے اور وہاں سے راجوری کو روانہ ہوا، تو اس منزل کی کیفیت میں لکھتا ہے کہ یہاں کے آدمی فارسی اور ہندی دونوں زبانیں بولتے ہیں۔ اصل زبان ان کی ہندی ہے۔ قرب و جوار کے سبب سے کشمیری بھی عام طور پر بولی جاتی ہے۔

    یہاں کی عورتیں پشمینہ کا لباس نہیں پہنتیں۔ ہندوستان کی عورتوں کی طرح ناک میں نتھ کا استعمال کرتی ہیں۔ راجور کے باشندے پہلے زمانے میں ہندو تھے۔ یہاں کے رئیس کو راجا کہتے ہیں۔ ہر چند یہاں مسلمان کثرت سے ہیں، لیکن ہندو پنے کی رسمیں اُن میں جاری تھیں۔ یہاں تک ہوتا تھا کہ ہندو عورتوں کی طرح مسلمان عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ زندہ دفن ہو جاتی تھیں۔ اکثر بے بضاعت اور جاہل آدمی اپنی لڑکیوں کو ہلاک کر ڈالتے تھے۔

    ہندوؤں سے رشتہ داری بھی جاری تھی۔ لڑکی دیتے بھی تھے اور لیتے بھی تھے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ یہ حالات جب میرے گوش گزار ہوئے تو میں نے سختی سے ایک فرمان جاری کیا کہ پھر یہ باتیں نہ ہونے پائیں اور جو کوئی ان کاموں کا مرتکب ہو اس کو خوب سزا دی جائے۔ کسی مسلمان کا کسی ہندو کو لڑکی دے دینا سخت جرم قرار دیا گیا۔

    (نام وَر مؤرخ محمد الدین فوق کی شاہی سیرِ کشمیر نامی کتاب کا ایک ورق)

  • چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت

    چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت

    رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست نہیں کرتا۔

    میں چاہتا ہوں کہ میری پسند کے رزق کا انتظام ہونا چاہیے۔ ہم اللہ کے لاڈلے تو ہیں لیکن اتنے بھی نہیں جتنے خود کو سمجھتے ہیں۔

    ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی آدمی آپ سے سردیوں میں رضائی مانگے تو اس کے لیے رضائی کا بندوبست ضرور کریں، کیونکہ اسے ضرورت ہو گی۔ لیکن اگر وہ یہ شرط عائد کرے کہ مجھے فلاں قسم کی رضائی دو تو پھر اس کو باہر نکال دو، کیونکہ اس طرح اس کی ضرورت مختلف طرح کی ہو جائے گی۔

    وقت کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ برداشت کے ساتھ حالات ضرور بدل جائیں گے، بس ذرا سا اندر ہی اندر مسکرانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک راز ہے جو اسکولوں، یونیورسٹیو ں اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا۔ ایسی باتیں تو بس بابوں کے ڈیروں سے ملتی ہیں۔

    مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب کوئی بابا بتائیں۔ میں نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ کیا کریں گے؟ کہنے لگے، ان سے کوئی کام لیں گے۔ نمبر پوچھیں گے انعامی بانڈز کا۔ میں نے کہا انعامی بانڈز کا نمبر میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ بتاؤ کس کا چاہیے؟ کہنے لگے، چالیس ہزار کے بانڈ کا۔ میں نے کہا کہ 931416، کیونکہ تم کبھی کہیں سے اسے خرید نہیں سکو گے۔ کہاں سے اسے تلاش کرو گے؟ آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر آپ کی مرضی کا تو نہیں ملے گا ناں!

    آپ بابوں کو بھی بس ایسے ہی سمجھتے ہیں، جیسے میری بہو کو آج کل ایک خانساماں کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی ہر ایک سہیلی سے پوچھتی ہے کہ کسی اچھے سے بابے کا تمہیں پتا ہو تو مجھے بتاؤ۔ اسی طرح میرے سارے چاہنے والے مجھ سے کسی اچھے سے بابے کی بابت پوچھتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی خانساماں ہو۔

    ان بابوں کے پاس کچھ اور طرح کی دولت اور سامان ہوتا ہے، جو میں نے متجسّس ہو کر دیکھا، حالانکہ میں تو ولایت میں تھا اور پروفیسری کرتا تھا۔ میں نے یہاں آکر دیکھا کہ یہ بھی تو ایک علم ہے۔ یااللہ! یہ کیسا علم ہے، اسے کس طرح سے آگے چلایا جاتا ہے کہ یہ مشکل بہت ہے۔ مثال کے طور پر ان کا (بابوں) حکم ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام کرو، بڑے کام نہ کرو۔ چھوٹے کاموں کو مت بھولیں، ان کو ساتھ لے کر چلیں۔ چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن ہم ان باتوں کو مانتے ہی نہیں کہ بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چھوٹا کام بھی اہمیت کا حامل ہو۔

    (چھوٹا کام از اشفاق احمد)

  • انسانی شخصیت اور غیر محسوس دیوتا!

    انسانی شخصیت اور غیر محسوس دیوتا!

    اب تک کی انسانی تاریخ میں اتھارٹی ہمیشہ واضح اور ٹھوس صورت میں موجود رہی ہے۔ انسان کو معلوم رہا ہے کہ اسے کس کے احکامات کی تکمیل کرنی ہے۔ مثلاً باپ، بادشاہ، استاد، آقا، خدا اور مذہبی راہ نما وغیرہ۔

    بلاشبہ ادوارِ گزشتہ میں بھی ہر قسم کی اتھارٹی کو چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ مگر خود اتھارٹی کا وجود مشتبہ نہیں رہا۔ تاہم صدی رواں کے وسط میں اتھارٹی کی ماہیت بنیادی تغیر سے گزری ہے۔ اب وہ پہلے کی طرح واضح اور ٹھوس نہیں رہی بلکہ تجریدی اور برگشتہ اتھارٹی بن گئی ہے۔ اس اتھارٹی کو چھوا جا سکتا ہے اور نہ ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اب تار بنانے والا نظر نہیں آتا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے۔ یہ تار ہلانے والا کون ہے، یہ منافع ہے۔ معاشی ضروریات ہیں۔ منڈی ہے۔ فہمِ عامہ ہے۔ رائے عامہ ہے۔ یہ ہیں نئے انسان کے نئے آقا، یہ کھل کر سامنے آتے ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف بغاوت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

    انسانی شخصیت ان غیر محسوس دیوتاؤں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اپنے تخلیقی امکانات کی تکمیل کے محرکات سے محروم ہو گئی ہے۔ نئے آقا انسان کو ہجوم میں گم ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ انفرادیت جیسی کوئی شے باقی نہیں رہی۔ حالانکہ گزشتہ صدی کے بورژوا اس کا چرچا کرتے نہ تھکتے تھے۔ انفرادیت کا خاتمہ تو ناگزیر تھا کہ برگشتہ انسان کسی طور اپنا سامنا نہیں کر سکتا کہ اس قسم کی دہشت برداشت کرنا اس کے بس کا روگ نہیں۔

    تجریدی اتھارٹی اور اس کی خود کارانہ اطاعت اصل میں بڑی حد تک سُپر کیپٹیلزم کے اندازِ پیداوار سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ پیداوار کا جدید انداز مشین سے فوری مطابقت، منظم اجتماعی رویہ، اجتماعی اور بلا تشدد اطاعت کا طلب گار ہے۔ ایرک فرام نے اس معاشی نظام کے ایک ناگزیر نتیجہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس کا تعلق اشیا کے وسیع پیمانے پر استعمال سے ہے۔ جدید معاشی نظام کی اس ضرورت نے نئے انسان کی شخصیت کو اس طرح ڈھال دیا ہے کہ اب وہ اپنی کسی خواہش کی عدم تکمیل کو گناہِ کبیرہ خیال کرنے لگا ہے۔ اس کا راہ نما اصول یہ ہے کہ کوئی خواہش نہیں دبانی چاہیے۔ ہر خواہش کی فوری تکمیل ہونی چاہیے۔

    ہر خواہش کی فوری تسکین کے اصول نے سپرکیپٹیلزم میں انسان کے جنسی رویّوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ عموماً اس کا جواز فرائڈ کے فکری نظام کی عامیانہ توضیحات سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ اگر کوئی جنسی خواہش دبائی گئی تو بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ ان سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی جنسی خواہش کو تشنۂ تکمیل نہ رہنے دیا جائے۔ ایرک فرام کے نزدیک اس رویے سے وہی نتیجہ پیدا ہوتا ہے جو تجریدی اتھارٹی کی اطاعت سے پیدا ہوا ہے، یعنی انسان کی ذات اپاہج ہو کر بالآخر فنا ہو گئی ہے۔

    انسانی شخصیت کو نکھارنے کے لیے بہت سی خواہشات پر غالب آنا ضروری ہوتا ہے۔ خصوصاً بیمار معاشرے میں ایسی خواہشات کی تعداد خوف ناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان مصنوعی خواہشات کی تسکین کے چکر میں گرفتار ہو کر انسان غیر حقیقی مسرت اور ہوس کا پجاری بن جاتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی فوری تسکین کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کرتا ہے۔ فی الواقعہ یہ خواہشات معاشی نظام کی ہی پیداوار ہوتی ہیں۔ یوں روح اور جسم دونوں اعتبار سے انسان معاشی نظام کے جبر کا شکار ہو جاتا ہے۔

    اس انسان دشمن نظام نے انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ نئے انسان نے فہم و دانش اور ضمیر کے میدان میں پیش قدمی کی ہے۔ مگر یہ محض خوش فہمی ہے۔ بجا طور پر ایرک فرام ہماری توجہ اس امر کی طرف دلاتا ہے کہ جدید انسان ذہانت کے اعتبار سے آگے بڑھا ہے۔ البتہ جہاں تک فہم و دانش کا معاملہ ہے، وہ روز بروز پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔

    ایرک فرام کے نزدیک ذہانت سے مراد کسی عملی مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر اشیا اور تصورات کو چالاکی سے استعمال کرنے کی اہلیت ہے۔ اس لحاظ سے وہ بندر بھی ذہین ہے جو دو جھڑیوں کو ملا کر درخت سے پھل اتار لیتا ہے۔ اس کے برعکس دانش اشیا کو کسی مقصد کی خاطر استعمال کرنے سے زیادہ انہیں سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ صداقت کی جستجو پر مبنی ہے۔ تاہم نئے انسان کو اشیا کی ماہیت اور حقیقت سے دل چسپی نہیں۔ وہ انہیں محض استعمال کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔

    دانش بھرپور انسانی شخصیت کا خاصہ ہے۔ اس لیے نئے انسان کو اس سے چڑ ہے۔ وہ اکثر اوقات اس کا تمسخر اُڑاتا ہے۔ فلسفہ، ادب، ادب عالیہ اور فنونِ لطیفہ اس کے نزدیک بے کاروں کے مشاغل ہیں۔ اگر اس نے مارکسیوں کے چند سیاسی نعرے سن رکھے ہیں تو وہ فوراً انہیں جاگیردارانہ عہد کے امرا اور ان کے مفت خور حاشیہ نشینوں کے چونچلے قرار دے دے گا۔

    انسان لائقِ فروخت بن جائے تو کسی معجزے کے ذریعے بھی ضمیر باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام میں انسان ضمیر کی کوئی خلش محسوس نہیں کرتا۔ بس چین کی بانسری بجاتا ہے۔ ضمیر کے ساتھ اخلاقیات بھی رخصت ہوتی ہے۔ دونوں کا چرچا باقی رہ جاتا ہے۔

    (قاضی جاوید کی پُرفکر تحریر بعنوان ” ایرک فرام اور انسانی ذات کا ارتقا“ سے اقتباس)