Tag: اردو اقتباس

  • ایک ہاتھ سے محروم اور سزا یافتہ ابنِ سباط کا تذکرہ

    ایک ہاتھ سے محروم اور سزا یافتہ ابنِ سباط کا تذکرہ

    گرمیوں کا موسم ہے، آدھی رات گزر چکی ہے۔ مہینہ کی آخری راتیں ہیں۔ بغداد کے آسمان پر ستاروں کی مجلسِ شبینہ آراستہ ہے، مگر چاند برآمد ہونے میں ابھی دیر ہے۔

    دجلہ کے پار کرخ کی تمام آبادی نیند کی خاموشی اور رات کی تاریکی میں گم ہے۔ اچانک تاریکی میں ایک متحرک تاریکی نمایاں ہوئی۔ سیاہ لبادے میں ایک لپٹا ہوا آدمی خاموشی اور آہستگی کے ساتھ جا رہا ہے۔ وہ ایک گلی سے مڑ کر دوسری گلی میں پہنچا اور ایک مکان کے سائبان کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ اب اس نے سانس لی۔ گویا یہ مدّت کی بند سانس تھی، جسے اب آزادی سے ابھرنے کی مہلت ملی ہے۔ پھر اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی ”یقیناً تین پہر رات گزر چکی ہے۔” وہ اپنے- دل میں کہنے لگا۔

    ”مگر کیا بد نصیبی ہے کہ جس طرف رخ کیا ناکامی ہی ہوئی۔ کیا پوری رات اسی طرح ختم ہو جائے گی؟”

    یہ خوف ناک ابنِ سباط ہے جو دس برس کی طول طویل زندگی قید خانہ میں بسر کر کے اب کسی طرف نکل بھا گا ہے اور نکلنے کے ساتھ ہی اپنا قدیم پیشہ از سرِ نو شروع کر رہا ہے۔ یہ اس کی نئی مجرمانہ زندگی کی پہلی رات ہے۔ اس لیے وقت کے بے نتیجہ ضائع جانے پر اس کا بے صبر دل پیچ و تاب کھا رہا ہے۔

    اس نے ہر طرف کی آہٹ لی۔ زمین سے کان لگا کر دور دور تک کی صداؤں کا جائزہ لیا اور مطمئن ہو کر آگے بڑھا۔ کچھ دور چل کر اس نے دیکھا ایک احاطہ کی دیوار دور دور تک چلی گئی ہے اور وسط میں بہت بڑا پھاٹک ہے۔ کرخ کے اس علاقہ میں زیادہ تر امراء کے باغ تھے یا سوداگروں کے گودام تھے۔ اس نے خیال کیا یہ احاطہ یا تو کسی امیر کا باغ ہے یا سوداگروں کا گودام۔

    وہ پھاٹک کے پاس پہنچ کر رک گیا۔ اور سوچنے لگا اندر کیوں کر جائے؟ اس نے آہستگی سے دروازہ پر ہاتھ رکھا، لیکن اسے نہایت تعجب ہوا کہ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ صرف بھڑا ہوا تھا۔ ایک سیکنڈ کے اندر ابنِ سباط کے قدم احاطہ کے اندر پہنچ گئے۔

    اس نے دہلیز سے قدم آگے بڑھایا تو ایک وسیع احاطہ نظر آیا۔ اس کے مختلف گوشوں میں چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے اور وسط میں ایک نسبتاً بڑی عمارت تھی۔ یہ درمیانی عمارت کی طرف بڑھا۔ عجیب بات ہے کہ اس کا دروازہ بھی اندر سے بند نہ تھا۔چُھوتے ہی کھل گیا۔ گویا وہ کسی کی آمد کا منتظر تھا۔

    اندر جا کر دیکھا تو ایک وسیع ایوان تھا۔ لیکن سامانِ راحت و زینت میں سے کوئی چیز بھی نہ تھی۔ قیمتی اشیاء کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف ایک کھجور کے پتّوں کی پرانی چٹائی بچھی تھی اور ایک طرف چمڑے کا تکیہ پڑا تھا۔ البتّہ ایک گوشہ میں پشمینہ کے موٹے کپڑے کے بہت سے تھان اس طرح بے ترتیب پڑے تھے گویا کسی نے جلدی میں پھینک دیے ہیں اور ان کے قریب ہی بھیڑ کی کھال کی چند ٹوپیاں بھی پڑی تھیں۔ اس نے مکان کی موجودات کا یہ پورا جائزہ کچھ تو اپنی اندھیرے میں دیکھ لینے والی آنکھوں سے لے لیا تھا اور کچھ اپنے ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر۔ لیکن اس کا ہاتھ ایک ہی تھا۔ یہ بغداد والوں کی بول چال میں ”ایک ہاتھ کا شیطان تھا” جو اب پھر قید و بند کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہو گیا ہے۔

    دس برس کی قید کے بعد ابنِ سباط کو آج پہلی مرتبہ موقع ملا تھا کہ اپنے دل پسند کام کی جستجو میں آزادی کے ساتھ نکلے۔ جب اس نے دیکھا اس مکان میں کام یابی کے آثار نظر نہیں آتے اور یہ پہلا قدم بے کار ثابت ہو گا تو اس کے تیز اور بے لگام جذبات سخت مشتعل ہو گئے۔ وہ دل ہی دل میں اس مکان والوں کو گالیاں دینے لگا، جو اپنے مکان میں رکھنے کے لیے قیمتی اشیا فراہم نہ کر سکے۔ ایک مفلس کا افلاس خود اس کے لیے اس قدر درد انگیز نہیں ہوتا جس قدر اس چور کے لیے جو رات کے پچھلے پہر مال و دولت کی تلاش کرتا ہوا پہنچتا ہے۔

    اس میں شک نہیں، پشمینہ کے بہت سے تھان یہاں موجود تھے اور وہ کتنے ہی موٹے اور ادنیٰ قسم کے کیوں نہ ہوں۔ مگر پھر بھی اپنی قیمت رکھتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ابنِ سباط تنہا تھا اور صرف تنہا ہی نہ تھا بلکہ دو ہاتھوں کی جگہ صرف ایک ہاتھ رکھتا تھا۔ وہ ہزار ہمّت کرتا، مگر اتنا بڑا بوجھ اس کے سنبھالے سنبھل نہ سکتا تھا۔

    ”ایک ہزار لعنت کرخ اور اس کے تمام باشندوں پر۔” وہ بڑبڑانے لگا۔

    ” نہیں معلوم کون احمق ہے جس نے یہ ملعون تھان جمع کر رکھے ہیں؟ غالباً کوئی تاجر ہے لیکن یہ عجیب طرح کا تاجر ہے جسے بغداد میں تجارت کرنے کے لیے کوئی اور چیز نہیں ملی۔ اتنا بڑا مکان بنا کر گدھوں خچروں کی جھول بنانے کا سامان جمع کر دیا۔ اس نے اپنے ایک ہی ہاتھ سے ایک تھان کی ٹٹول ٹٹول کر پیمائش کی۔ ”بھلا یہ ملعون بوجھ کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے؟” ایک تھان کے اٹھانے کے لیے گن کر دس گدھے ساتھ لانے چاہییں۔

    لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ کرنا ضروری تھا۔ رات جا رہی تھی۔ اس نے سوچا جلدی سے ایک دو تھان جو اٹھائے جا سکتے ہیں، اٹھا لے۔ مشکل یہ تھی کہ مال کم قیمت مگر بہت زیادہ وزنی تھا۔ کم لیتا ہے تو بیکار ہے، زیادہ لیتا ہے تو لے جا نہیں سکتا۔ عجب طرح کی کشمکش میں گرفتار تھا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح یہ مرحلہ طے ہوا۔ لیکن اب دوسری مشکل پیش آئی۔ صوف کا کپڑا بے حد موٹا تھا۔ اسے مروڑ دے کر گرہ لگا نا آسان نہ تھا۔دونوں ہاتھوں سے بھی یہ کام مشکل تھا۔ چہ جائے کہ ایک ہاتھ سے؟

    اس نے بہت سی تجویزیں سوچیں۔ طرح طرح کے تجربے کیے۔ دانتوں سے کام لیا۔ کٹی ہوئی کہنی سے سرا دبایا۔ لیکن کسی طرح بھی گٹھڑی میں گرہ نہ لگ سکی۔

    اچانک وہ چونک اٹھا۔ مگر قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کرسکے۔ دروازہ کھلا اور روشنی نمایاں ہوئی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک شخص کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک شمع دان ہے اور اسے اس طرح اونچا کر رکھا ہے کہ کمرے کے تمام حصّے روشن ہو گئے ہیں۔ اس شخص کی وضع و قطع سے اس کی شخصیت کا اندازہ کرنا مشکل تھا۔ لیکن یہ عجیب بات تھی کہ جسم کی اس غیر معمولی نحافت کا کوئی اثر اس کے چہرے پر نظر نہیں آتا تھا۔ اتنا کم زور جسم رکھنے پر بھی اس کا چہرہ کچھ عجیب طرح کی تاثیر و گیرائی رکھتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہڈیوں کے ایک ڈھانچے پر ایک شان دار اور دلآویز چہرہ جوڑ دیا گیا ہے۔

    ”میرے دوست! تم پر خدا کی سلامتی ہو۔ جو کام تم کرنا چاہتے ہو، یہ بغیر روشنی اور ایک رفیق کے انجام نہیں پا سکتا۔ دیکھو یہ شمع روشن ہے اور میں تمہاری رفاقت کے لیے موجود ہوں۔ روشنی میں ہم دونوں اطمینان اور سہولت کے ساتھ یہ کام انجام دے لیں گے۔”

    وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ جیسے کچھ سوچنے لگا ہے۔ پھر اس نے کہا، ”مگر میں دیکھتا ہوں تم بہت تھک گئے ہو۔ تمہاری پیشانی پسینہ سے تر ہو رہی ہے۔

    اس نے اپنی کمر سے رومال کھولا اور اس کی پیشانی کا پسینہ پونچھ ڈالا۔ جب وہ پسینہ پونچھ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں باپ کی سی شفقت اور ہاتھوں میں بھائی کی سی محبت کام کر رہی تھی۔

    صورتِ حال کے یہ تمام تغیرات اس تیزی سے ظہور میں آئے کہ ابنِ سباط کا دماغ مختل ہو کر رہ گیا۔ وہ کچھ سمجھ نہ سکا کہ معاملہ کیا ہے؟ ایک مدہوش اور بے رادہ آدمی کی طرح اس نے اجنبی کے اشارہ کی تعمیل کی اور چٹائی پر بیٹھ گیا۔ اب اس نے دیکھا کہ واقعی اجنبی نے کام شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے وہ گٹھڑی کھولی جو ابنِ سباط نے باندھنی چاہی تھی۔ مگر نہیں بندھ سکی تھی۔ پھر اچانک اسے کوئی خیال آیا۔ اس نے اپنا عبا اتار ڈالا اور اسے بھی گٹھڑی کے اندر رکھ دیا۔ اب وہ اٹھا اور ابنِ سباط کے قریب گیا۔

    ”میرے دوست! تمہارے چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ تم صرف تھکے ہوئے نہیں ہو بلکہ بھوکے بھی ہو۔ بہتر ہو گا کہ چلنے سے پہلے دودھ کا ایک پیالہ پی لو۔ اگر تم چند لمحے انتظار کر سکو تو میں دودھ لے آؤں۔” اس نے کہا۔ قبل ازیں اس کے کہ ابنِ سباط جواب دے، وہ تیزی کے ساتھ لوٹا اور باہر نکل گیا۔

    اب ابنِ سباط تنہا تھا، لیکن تنہا ہونے پر بھی اس کے قدموں میں حرکت نہ ہوئی۔ اجنبی کے طرزِ عمل میں کوئی بات ایسی نہ تھی جس سے اس کے اندر خوف پیدا ہوتا۔ وہ صرف متحیّر و مبہوت تھا۔

    اجنبی کی شخصیت کی تاثیر سے اس کی دماغی شخصیت مغلوب ہو گئی تھی۔ لیکن اب وہ تنہا ہوا تو آہستہ آہستہ اس کا دماغ اپنی اصلی حالت پر واپس آنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام خصائل پوری طرح ابھر آئے اور وہ اسی روشنی میں معاملات کو دیکھنے لگا جس روشنی میں دیکھنے کا ہمیشہ سے عادی تھا۔

    اس نے اپنے دل میں کہا، ” یہ تو قطعی ہے کہ یہ شخص اس مکان کا مالک نہیں ہے مکان کے مالک کبھی چوروں کا اس طرح استقبال نہیں کیا کرتے مگر یہ شخص ہے کون؟

    اچانک ایک نیا خیال اس کے اندر پیدا ہوا۔ وہ ہنسا، یقیناً یہ بھی کوئی میرا ہی ہم پیشہ آدمی ہے اور اسی طرح نواح میں رہتا ہے۔ اتفاقات نے آج ہم دونوں چوروں کو ایک ہی مکان میں جمع کر دیا۔ چوں کہ یہ اسی نواح کا آدمی ہے اس لیے اس مکان کے تمام حالات سے واقف ہو گا۔ اسے معلوم ہو گا کہ آج مکان رہنے والوں سے خالی ہے اور یہ اطمینان سے کام کرنے کا موقع ہے۔ اس لیے وہ روشنی کا سامان ساتھ لے کر آیا۔ لیکن جب دیکھا کہ میں پہلے سے پہنچا ہوا ہوں تو آمادہ ہو گیا کہ میرا ساتھ دے کر ایک حصّہ کا حق دار بن جائے۔

    وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور اجنبی ایک لکڑی کا بڑا پیالہ ہاتھ میں لیے نمودار ہو گیا۔ یہ لو! میں تمہارے لیے دودھ لایا ہوں۔ اسے پی لو! یہ بھوک اور پیاس دونوں کے لیے مفید ہو گا۔” ابنِ سباط واقعی بھوکا پیاسا تھا۔ بلا تامل منہ کو لگا لیا اور ایک ہی مرتبہ میں ختم کر دیا۔ اب اسے معاملہ کی فکر ہوئی۔ اتنی دیر کے وقفہ نے اس کی طبیعت بحال کر دی تھی۔

    ”دیکھو! اگرچہ میں تم سے پہلے یہاں پہنچ چکا تھا اور ہاتھ لگا چکا تھا اور اس لیے ہم لوگوں کے قاعدہ کے بموجب تمہارا کوئی حق نہیں۔ لیکن تمہاری ہوشیاری اور مستعدی دیکھ لینے کے بعد مجھے کوئی تامل نہیں کہ تمہیں بھی اس مال میں شریک کر لوں۔ اگر تم پسند کرو گے تو میں ہمیشہ کے لیے تم سے معاملہ کر لوں گا۔ لیکن دیکھو! یہ کہے دیتا ہوں کہ آج جو کچھ بھی یہاں سے لے جائیں گے۔ اس میں تم برابر کا حصہ نہیں پا سکتے۔ کیونکہ دراصل آج کا کام میرا ہی کام تھا۔”

    اجنبی مسکرایا۔ اس نے ابنِ سباط پر ایک ایسی نظر ڈالی، جو اگر چہ شفقت و مہر سے خالی نہ تھی۔ لیکن ابنِ سباط سمجھ نہ سکا۔ وہ غصّہ سے مضطرب ہو کر کھڑا ہو گیا۔

    ”بیوقوف! چپ کیوں ہے؟ یہ نہ سمجھنا کہ دودھ کا ایک پیالہ پلا کر اور چکنی چپڑی باتیں کر کے تم مجھے احمق بنا لو گے۔

    ”میرے عزیز دوست! کیوں بلاوجہ اپنی طبیعت آزردہ کرتے ہو؟ باقی رہا میرا حصّہ جس کے خیال سے تمہیں آزردگی ہوئی ہے تو میں ابھی نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں، تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے معاملہ کر لو۔” اس نے بڑی گٹھڑی کے اٹھانے میں اجنبی کو مدد دیتے ہوئے کہا۔ اب ابن سباط نے اپنے گٹھڑی اٹھائی جو بہت ہی ہلکی تھی اور دونوں باہر نکلے۔

    اب یہ دونوں شہر کے کنارے ایک ایسے حصّہ میں پہنچ گئے۔ جو بہت ہی کم آباد تھا، یہاں ایک ناتمام عمارت کا پرانا اور شکستہ احاطہ تھا۔ ابنِ سباط اس احاطہ کے اندر گیا اور اجنبی نے باہر سے دونوں گٹھڑیاں اندر پھینک دیں۔ اس کے بعد اجنبی بھی کود کر اندر ہو گیا اور دونوں عمارت کے اندرونی حصّے میں پہنچ گئے۔

    دونوں گٹھڑیاں سامنے دھری تھیں۔ ایک گوشہ میں اجنبی کھڑا ہانپ رہا تھا۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ یکایک اجنبی بڑھا اور ابنِ سباط کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔

    ”میں نے اپنی خدمت پوری کر لی ہے۔ اب میں تم سے رخصت ہوتا ہوں۔ لیکن قبل اس کے کہ میں تم سے الگ ہوں، تمہیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو تم نے خیال کیا ہے، میں اسی مکان میں رہتا ہوں جہاں آج تم سے ملاقات ہوئی ہے اور تم نے میری رفاقت قبول کر لی تھی۔ میری عادت ہے کہ رات کو تھوڑی دیر کے لیے اس کمرے میں جایا کرتا ہوں۔ جہاں تم بیٹھے تھے۔ آج آیا تو دیکھا، تم اندھیرے میں بیٹھے ہو اور تکلیف اٹھا رہے ہو۔ تم میرے گھر میں میرے عزیز مہمان تھے۔ افسوس! میں آج اس سے زیادہ تمہاری تواضع اور خدمت نہ کر سکا۔

    اجنبی تو خود روانہ ہو گیا۔ لیکن ابنِ سباط کو ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیا، اب وہ مبہوت اور مد ہوش تھا۔

    دوپہر ڈھل چکی ہے۔ بغداد کی مسجدوں سے جو ق در جوق نمازی نکل رہے ہیں۔ دوپہر کی گرمی نے امیروں کو تہ خانوں میں اور غریبوں کو دیواروں کے سائے میں بٹھا دیا تھا۔ اب دونوں نکل رہے ہیں۔ ایک تفریح کے لیے دوسرا مزدوری کے لیے، لیکن ابنِ سباط اس وقت تک وہیں بیٹھا ہے۔ جہاں صبح بیٹھا تھا۔ رات والی دونوں گٹھڑیاں سامنے پڑی ہیں اور اس کی نظریں اس طرح ان میں گڑی ہوئی ہیں گویا ان کی شکنوں کے اندر اپنے رات والے رفیق کو ڈھونڈھ رہا ہے۔

    اس کی ساری زندگی گناہ اور سیاہ کاری میں بسر ہو ئی تھی۔ اس نے انسانوں کی نسبت جو کچھ دیکھا سنا تھا، وہ یہی تھا کہ خود غرضی کا پتلا اور نفس پرستی کی مخلوق ہے۔ وہ نفرت سے منہ پھیر لیتا ہے اور بے رحمی سے ٹھکرا دیتا ہے۔ سخت سے سخت سزائیں دیتا ہے، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ محبّت بھی کرتا ہے اور اس میں فیاضی بخشش اور قربانی کی بھی روح ہو سکتی ہے۔

    ”یہ چور نہیں تھا۔ مکان کا مالک تھا، لیکن اس نے چور کو پکڑنے اور سزا دلا دینے کی جگہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟” کا جواب اس کی روح کے لیے ناسور اور اس کے دل کے لیے ایک دہکتا ہوا انگارہ تھا۔

    سورج ڈوب رہا تھا۔ بغداد کی مسجدوں کے میناروں پر مغرب کی اذان کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ابن سباط کرخ کے اس حصہ میں پہنچا جہاں رات گیا تھا۔ رات والے مکان کے پہچاننے میں اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ مکان کے پاس ہی ایک لکڑ ہارے کا جھونپڑا تھا۔ یہ اس کے پاس گیا اور پوچھا۔ ”یہ سامنے بڑا سا احاطہ ہے، اس میں کون تاجر رہتا ہے؟ ”

    تاجر؟ بوڑھے لکڑہارے نے تعجب کے ساتھ کہا، ”معلوم ہوتا ہے تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو۔ یہاں تاجر کہاں سے آیا؟ یہاں تو شیخ جنید بغدادی رہتے ہیں۔” ابنِ سباط اس نام کی شہرت سے بے خبر نہ تھا۔ لیکن صورت آشنا نہ تھا۔

    ابن سباط مکان کی طرف چلا۔ رات کی طرح اس وقت بھی دروازہ کھلا تھا۔ یہ بے تامل اندر چلا گیا۔ سامنے وہی رات والا ایوان تھا۔ یہ آہستہ آہستہ بڑھا اور دروازہ کے اندر نگاہ ڈالی۔ وہی رات والی چٹائی بچھی تھی۔ رات والا تکیہ ایک جانب دھرا تھا۔ تکیہ سے سہارا لگائے ”اجنبی” بیٹھا تھا۔ تیس چالیس آدمی سامنے تھے۔ واقعی ”اجنبی” تاجر نہیں تھا۔ شیخ جنید بغدادی تھے۔

    اتنے میں عشا کی اذان ہوئی۔ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب سب لو گ جا چکے تو شیخ بھی اٹھے۔ جونہی انہوں نے دروازہ کے باہر قدم رکھا، ایک شخص بے تابانہ بڑھا اور قدموں پر گر گیا۔ یہ ابنِ سباط تھا۔ شیخ نے شفقت سے اس کا سَر اٹھایا۔ یہ کھڑا ہو گیا، مگر زبان نہ کھل سکی اور اب اس کی ضرورت بھی کیا تھی؟ جب نگاہوں کی زبان کھل جاتی ہے تو منہ کی زبان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

    اس واقعہ پر کچھ عرصہ گزر چکا ہے۔ شیخ احمد ابنِ سباط کا شمار سیّدُ الطائفہ کے حلقہ ارادت کے ان فقرا میں ہے، جو سب میں پیش پیش ہیں۔ شیخ کہا کرتے ہیں، ”ابنَ سباط نے وہ راہ لمحوں میں طے کر لی جو دوسرے برسوں میں بھی طے نہیں کر سکتے۔ ”

    ابنِ سباط کو 30 برس تک دنیا کی دہشت انگیز سزائیں نہ بدل سکیں۔ مگر محبت اور قربانی کے ایک لمحے نے چور سے اہلُ اللہ بنا دیا۔

    (درسِ وفا سے اقتباسات جس کے مصنّف نام ور انشا پرداز اور ادیب ابو الکلام آزاد ہیں)

  • اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    اردو کے رسائل اور مسائل (انشائیہ از جون ایلیا)

    افلاطون نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف "جمہوریہ” میں ایک نظامِ تعلیم و تربیت مرتّب کیا تھا جس کی رُو سے تین سال سے لے کر چھ سال تک کی عمر کے بچوں کو قصّوں اور حکایتوں کے ذریعہ تعلیم دی جانا چاہیے۔

    اردو کے مدیرانِ رسائل قابلِ داد ہیں جنہوں نے یہ نصاب اپنے قارئین کے لیے تجویز کیا ہے چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا ادب، ہمارا ادبی شعور ہماری ادبی صحافت سب نابالغ ہیں۔

    جدھر دیکھیے دیوانَ داغ اور فسانۂ عجائب کی نسل پروان چڑھتی نظر آ رہی ہے۔ میر تقی بیچارے ایسے کون سے بڑے شاعر تھے لیکن آج ان کے اعزاز میں ہر رسالہ غزلوں پر غزلیں چھاپ کر گویا غزل کا عرس برپا کر رہا ہے۔ ادبی جرائد کا پورا ادب غزل اور تنقید غزل میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کسی بھی سنجیدہ، بالغ النّظر اور اور ارتقا پذیر سماج کے لیے یہ بات باعث تشویش ہے۔

    آخر ہم کس عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اس عہد میں زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ کیا کوئی قوم صرف افسانوں غزلوں اور نام نہاد تنقیدی مقالوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے؟ کیا بیسویں صدی میں کوئی معاشرہ اپنی ادبی صحافت کی اس سطح پر قانع ہو سکتا ہے؟

    یہی نہیں کہ ہماری ادبی صحافت ادبی اور علمی اعتبار سے قطعاً بے مایہ اور مفلس ہے بلکہ علم دشمن بھی ہے۔ اگر کوئی رسالہ نفسیاتی، تاریخی، فلسفی اور سائنسی مباحث و مسائل اور ادبِ عالی کے موضوعات پر مضامین شائع کر دے تو اسے ادبی رسالہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ادبی رسالہ کی علامت صرف یہ ہے کہ اس کا نصف حصّہ غزلوں سے مخصوص ہو باقی نصف میں کچھ نظمیں ہوں، کچھ افسانے ہوں اور پانچ چھ صفحے کا ایک ادبی مضمون جسے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ "مقالہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیجیے اردو کا "ادبی، علمی اور تہذیبی مجلہ” مرتب ہو گیا۔

    مدیر کا یہ فرض ہرگز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے اداریہ بھی لکھے۔ اسی لیے اب "مدیر” کے بجائے احتياطاً "مرتب” کی اصطلاح اپنا لی گئی ہے۔ مرتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اردو کے عظیم فن کاروں کی طرف سے تو ادبی مناظرے بھی کر لیتا ہو لیکن خود اردو سے اسے کوئی دل چسپی نہ ہو، مرعوب اسی وقت ہوتا ہے جب مغربی نقادوں کے چند نام گنوائے جائیں۔

    بہرحال یہ ہے ہمارے اکثر رسائل اور ان کے ایڈیٹروں کا حال۔ یہ لوگ سائنسی حقائق اور سماجی مسائل کی اس سیل گاہ میں بالکل از کارِ رفتہ ہو چکے ہیں۔ نہ انہیں معاملات کا شعور ہے اور نہ اپنے فرائض کا احساس، ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ جن قدروں پر ان کا ادب آج تک زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اب ان کا حشر کیا ہوگا۔ چلیے یہ تو دور کی بات ہے آخر وہ یہ کیوں نہیں غور کرتے کہ اردو رسائل کس لیے نامقبول ہیں؟

    یہ صحیح ہے کہ قوم کی معاشی تقدیر انگریزی سے وابستہ ہے اور اسی صورت حال کا اثر اردو زبان سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ اور ہر شخص پر پڑتا ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اگرچہ بےحد اہم، بے حد اہم رخ سہی، لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ اسی غریب زبان اردو کے روزناموں نے انہی ناسازگار حالات میں انگریزی روزناموں کو بری طرح شکست دے دی ہے اور انقلاب کے بعد تو اردو روزناموں کی رفتارِ ترقی اور بھی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دو تین سال کے اندر ہمارے بعض روزنامے ایک لاکھ کی اشاعت تک پہونچ جائیں گے۔

    ماہ ناموں کو غور کرنا چاہیے کہ آخر یہ کیا بات ہے؟ بات یہ ہے کہ اردو کی ماہ نامہ صحافت نے ابھی تک نئے عہد کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ اب تک بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انگریزی کے دو تین نقّادوں اور فرانس کے نفسیاتی مریضوں کے نام رسالوں کو فروخت کرا دیں گے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب چند یونانی مفکروں اور مغربی ادیبوں اور ناقدوں کے نام لے کرمرعوب کر لیا جاتا تھا، یہ زمانہ فکر و نظر کی رصانت و ریاضت کا زمانہ ہے۔ آج کے قاری کو مسائل سے ناواقف و بے گانہ خیال کرنا حماقت ہے۔

    قارئین دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ لوگ جو صرف جنسی جاسوسی اور فلمی تحریروں سے بہل سکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو مذہبی، تاریخی، سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معلوماتی، ادبی اور علمی مضامین پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں مختلف سطح کے افراد شامل ہیں۔ ادبی اور علمی رسائل کا تعلق انہی لوگوں سے ہے۔

    عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم کے قارئین کی تعداد زیادہ ہے، لیکن یہ غلط ہے۔ اگر یہ صحیح ہوتا تو اردو کے فلمی رسالے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوا کرتے، درآں حالیکہ ان کا حال بہت ابتر ہے۔

    بات یہ ہے کہ عمر کے ایک خاص حصے ہی میں جنسی اور فلمی موضوعات میں دل چسپی لی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس قبیل کے مواد کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ یہاں ابھی ایک ڈیڑھ سال پہلے تک پوری قوم سیاسی بے یقینی، نفسیاتی پیچیدگی، سماجی بے ضمیری، ذہنی انتشار اور اخلاقی بدحالی میں مبتلا تھی۔ اس کا رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ سنجیدہ مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جائے۔ انقلاب کے بعد اس صورت حال میں نمایاں فرق ہوا ہے۔

    (اردو کے مقبول ترین شاعر اور نثر نگار جون ایلیا کے انشائیے سے چند پارے جو ماہنامہ "انشاء” کراچی(1959ء) میں شایع ہوا تھا)

  • جب قرۃُ العین حیدر عمرہ کرنے گئیں!

    جب قرۃُ العین حیدر عمرہ کرنے گئیں!

    قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ’’بنات‘‘ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ’’چاکلیٹ کا قلعہ‘‘ ’’بنات‘‘ میں شایع ہوئی تھی۔

    قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ’ماری پور‘ میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں، میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی، آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک ’بی‘ نارتھ ناظم آباد میں ہوئی۔ کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔

    میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے ضخیم ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اور ‘‘سفینۂ غم دل‘‘ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں، مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ’’عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں۔

    اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔‘‘ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ’’عصمت‘‘ اور ’’تہذیب نسواں‘‘ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔

    باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی، کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھاکر ’حجرِ اسود‘ کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔

    ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔

    پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں، ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے چالیس، پچاس ہزار پونڈ لندن کے ایک بینک کے جوائنٹ اکاؤنٹ میں جمع تھے، جو کسی عزیز کے ساتھ کھلوایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نور افشاں نے قبل از وقت ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

    ان کی شادی تحریکِ پاکستان کے لیڈر حسین امام صاحب کے بڑے بیٹے مظہر امام سے ہوئی، انہوں نے نارتھ ناظم آباد میں ’’امام کلینک‘‘ قائم کیا تھا، جو اب ایک بڑے اسپتال میں تبدیل ہو چکا ہے۔

    (جسٹس (ر) حاذقُ الخیری کی خود نوشت ’جاگتے لمحے‘ سے انتخاب)

  • مانگے تانگے کی چیزیں

    مانگے تانگے کی چیزیں

    پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

    اصل مضمون تو بیری پین کا ہے۔ اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔

    بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

    ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔

    میں نے عہدِ جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیاتِ مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنیٰ ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

    غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔

    مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہوکے رہ گیا۔

    یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت مؤثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔

    چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار چراغ حسن حسرت کے قلم سے شگفتہ پارہ)

  • وہ مشہور ڈکشنری جس کی اشاعت نے ایک نواب کو خفّت سے دوچار کردیا

    وہ مشہور ڈکشنری جس کی اشاعت نے ایک نواب کو خفّت سے دوچار کردیا

    1747ء میں انگریزی زبان کی ایک محققانہ ڈکشنری کی تالیف کا ارادہ کرکے جونسن صاحب نے ایک ممتاز ناشر رابرٹ ڈوڈسلے کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تھی۔

    ڈوڈسلے نے مشورہ دیا کہ اس ڈکشنری کا انتساب لارڈ چیسٹر فیلڈ کے نام مناسب اور فائدہ مند رہے گا۔ جونسن صاحب اس لارڈ کو سلام کرنے پہنچے۔ لاٹ صاحب نے مربیانہ وتیرے کے ساتھ دس پاؤنڈ کی بھیک دی۔ کچھ مدّت بعد جونسن صاحب پھر حضور کو سلام کرنے ان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے، لیکن افسوس، اب کے بار یابی نہ ہوئی۔ بد دل ہو کر انہوں نے لاٹ صاحب کے نام ڈکشنری معنون کرنے کا ارادہ فسخ کر دیا۔

    اس ڈکشنری کی تالیف پر آپ نے آٹھ برس (1747ء تا 1755ء) سے زیادہ صرف کیے۔ انگریزی کی یہ پہلی ڈکشنری نہ تھی، اس سے پہلے اس کی ایک ڈکشنری نتھینیل بیلی (Nathaniel Bailey) نے تالیف کر کے شائع کی تھی۔

    یورپ کی بیش تر زبانوں کے الفاظ بکثرت لاطینی اور یونانی زبانوں اور دیگر (مقامی) بولیوں سے مُستعار ہیں۔ بیلی اور جونسن دونوں نے اپنی ڈکشنریوں میں الفاظ کے معانی بتاتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ الفاظ کن زبانوں سے مستعار ہیں اور کن لفظوں سے مُشتق ہیں۔

    اکثر طالبانِ علم جب ڈکشنریوں سے اپنا کام نکالتے ہیں تو شاذ ہی خیال کرتے ہیں کہ ایک قابلِ اعتبار ڈکشنری کی تالیف کیسی صبر آزما جاں فشانی چاہتی ہے۔ انگریزی سے اُردو اور اُردو سے انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے مجھے عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو کی ڈکشنریوں کی ضرورت قدم قدم پر پڑتی رہی ہے، ان کے مؤلّفوں کی احسان مندی کا گہرا احساس میرے دل میں رہتا ہے۔ ان کی عرق ریزیوں کے بغیر تہذیب کی ترقّی ممکن نہ ہوتی۔

    انگلستان کی ادبی اور علمی زندگی میں جونسن صاحب کی ڈکشنری کی اشاعت ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ 1755ء میں یہ طبع ہو کر بازار میں آئی تو اس کی دھوم مچ گئی۔ جونسن صاحب کا بول بالا ہوا تو لارڈ چیسٹر فیلڈ کو خفّت ہوئی، حضور نے پاشا پن کے ساتھ اس ڈکشنری کے مؤلف سے حقارت اور بے التفاتی کا سلوک کیا تھا اور مُربّی کہلانے کا موقع کھو دیا تھا۔

    اب خفّت دور کرنے کے لیے انہوں نے ایک اخبار میں ڈکشنری کی تقریظ مربّیانہ زعم کے ساتھ شائع کرائی۔ اسے پڑھ کر جونسن صاحب کو طیش آیا اور انہوں نے لاٹ صاحب کو ایک طنز آمیز خط لکھا جو بَوزویل نے جونسن صاحب کی سوانح عمری میں نقل کر کے محفوظ کر دیا ہے، یہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

    بخدمت عزّت مآب جناب لارڈ چیسٹر فیلڈ
    حضورِ والا!
    حال ہی میں رسالہ ورلڈ (World) کے مالک نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دو کالم جن میں پبلک کی توجہ تعریف کے ساتھ میری ڈکشنری کی طرف دلائی گئی ہے حضور کے قلم سے ہیں۔ اکابر کی کرم فرمائیوں کا تجربہ مجھے کبھی میسّر نہیں ہوا، چنانچہ مجھے ٹھیک معلوم نہیں کہ یہ اعزاز جو مجھے بخشا گیا ہے اسے کن آداب کے ساتھ وصول کروں اور کن الفاظ میں اس کی رسید دوں۔

    آغاز میں جب ذرا سی حوصلہ افزائی کے آثار دیکھ کر میں حضور کے دولت کدے پر حاضر ہوا حضور سے ہم کلامی کی مسحور کن تاثیر کا خیال میرے جی میں اُسی طرح تھا جیسے ساری خلقِ خدا کے دلوں میں تھا۔ اور یہ تمنّا میرے دل سے دور نہ ہوتی تھی کہ میں ”فاتحِ کرّۂ ارض کا دل جیتنے والا“ کہلاؤں۔ لیکن میری پذیرائی ایسی حوصلہ شکن تھی کہ جبہ سائی جاری رکھنے کی اجازت مجھے نہ اپنی خود داری سے ملی نہ اپنی خاک ساری سے۔

    ایک بار جب پبلک کی موجودگی میں، مَیں حضور سے مخاطب ہوا تو میں خوشامد کے وہ سارے کرتب کام میں لایا جو ایک گوشہ گیر دربار ناآشنا اسکالر کے بس میں تھے، حضور کی عنایت کے حصول کے لیے جو کچھ مجھ سے بن آیا میں نے کیا، ایسی پوری کوشش سے خواہ وہ حقیر ہی کیوں نہ ہو بے اعتنائی کی برداشت کسی انسان کو نہ ہو گی۔

    جنابِ والا، آج سے سات برس پہلے میں حضور کی حویلی کے آستانے پر باریابی کا منتظر رہا اور دھتکارا گیا۔ سات برسوں کی اس مدّت میں بندہ اپنی ساری توانائی صرف کرکے جن دشواریوں کا مقابلہ کر کے اپنے کام میں لگا رہا، ان کی شکایت اب بے سود ہے، بغیر کسی مربیانہ امداد اور حوصلہ افزائی کے اور بغیر کسی متبسّم تشویق کے میں نے یہ کام کر ڈالا اور اسے اشاعت کی منزلِ مقصود تک پہنچایا، کہ سابق میں کسی مُربیّ سے تعلق کا مجھے تجربہ نہ ہوا تھا۔

    وَرجِل (زرعی گیت) میں گڈریا بالآخر محبّت آشنا ہوا، لیکن اس کا محبوب چٹانوں کا زائیدہ نکلا۔

    حضور والا! کیا مُربیّ اُسی شخص کو کہتے ہیں جو کسی مصیبت زدہ کو ڈوبنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ کر لاپرواہی سے کنارے پر کھڑا رہے اور جب وہ بچارہ مصیبت کا مارا اپنی ہمّت سے خشکی پر آن پہنچے تو مدد کے دکھاوے کے لیے اس کی طرف تیزی سے بڑھ کر اُس کے آرام کے سانس میں مُخل ہو؟ میری محنتوں کو آپ نے جس التفات سے اب نوازا ہے یہ التفات اگر آپ نے سابق میں فرمایا ہوتا تو میں اسے مہربانی سمجھتا، لیکن اس میں اتنی تاخیر ہوئی ہے کہ اب میری طبیعت کی ویرانی کو اور میری گم نامی کو دور کرنے میں اس کی کوئی کارفرمائی نہیں۔

    اب جب کہ مجھے نام وری حاصل ہو گئی ہے تو میں اس نوٹس کا محتاج نہیں، اگر ایک شخص جس پر کوئی کرم نہیں کیا گیا ممنونیت کا اظہار نہ کرے تو اسے بد خُلقی کوئی نہ کہے گا، مشیتِ ایزدی نے مجھے اپنے استقلال اور اپنی محنت سے ایک ہمّت آزما کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی، کسی مُربیّ کے احسان کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

    کسی مُربیّ کی مہربانی کے بغیر میں اپنے کام میں لگا رہا۔ اگر بے اعتنائی مزید ہوتی رہی تو یوں ہی سہی، ایک وہ زمانہ تھا، جب میں فخر و مباہات کے ساتھ مربّیوں کے کرم کا خواب دیکھا کرتا تھا، پھر تجربے نے میری آنکھیں کھول دیں۔

    حضور کا نہایت ناچیز اور نہایت تابع دار خادم
    سَیم جَونسن
    فروری 1755ء

    (علمی و ادبی شخصیت اور معروف اسکالر داؤد رہبر کے مضمون سے انتخاب)

  • صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    گزشتہ بدھ کی شام ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوراں میں جانا ہوا۔

    بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘

    بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘

    ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں۔ خیریت دریافت نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی ظاہر ہے۔‘‘

    کہنے لگا، ’’حلیم کھائیے۔ بڑی عمدہ پکی ہے۔ ابھی ابھی میں نے باورچی خانے سے لاتے میں ایک صاحب کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن آج تو گوشت کا ناغہ ہے۔‘‘

    بولا، ’’ہوا کرے۔ یہ مرغ کی حلیم ہے۔ آپ کھا کے تو دیکھیے۔ فوراً بانگ دینے کو جی چاہے گا۔‘‘

    ’’نہاری ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں ہے، مرغ کی نہاری بھی ہے، بٹیر کی نہاری بھی ہے۔‘‘

    ’’بٹیر کی نہاری؟‘‘ بولا، ’’جی ہاں اور اس کے علاوہ پدی کا شوربا بھی ہے۔ تیتر کے سری پائے ہیں۔ مسور کی دال کے تکے کباب ہیں۔ آپ کل آئیں تو بھینسے کے گوشت کا مرغ پلاؤ بھی مل سکتا ہے۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’بٹیر کی نہاری لاؤ فی الحال۔‘‘ ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست تھے۔ دلّی کے جیوڑے، نہاری آئی تو بولے، ’’میاں نلیاں تو اس نہاری میں ہیں نہیں۔ ہم لوگ جب تک نلیوں کو پیالی کے سرے پر بجا بجا کر نہ چوسیں مزا نہیں آتا۔‘‘ بیرا جانے کیا سمجھا۔

    ایک طشتری میں خلال اٹھا لایا۔ ہم نے کہا، ’’میاں خلال تو کھانے کے بعد درکار ہوتے ہیں۔ کچھ تمیز ہے کہ نہیں۔‘‘

    بولا، ’’حضور یہ خلال نہیں۔ نلیاں ہیں۔ بٹیر کی نلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے ہم آئندہ نلیوں کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی نلیاں بنوارہے ہیں۔ ناغے کے دن نہاری اور شوربے کے ساتھ پیش کی جایا کریں گی۔ گودا ان کے اندر آلوؤں کا ہوا کرے گا۔‘‘

    ہمیں معلوم نہیں کہ ہر چیز کا نعم البدل نکالنے والوں نے پلاسٹک کے بکرے بھی ایجاد کیے ہیں یا نہیں۔ ان کی ضرورت کا احساس ہمیں عید سے دو روز پہلے ہوا۔ وہ یوں کہ ہم دفتر جاتے برنس روڈ سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ہجوم ہے۔ راستہ بند ہے۔ آدمی ہی آدمی۔ دنبے ہی دنبے۔ بکرے ہی بکرے!

    ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا، ’’یہ کیا میلہ مویشیاں ہو رہا ہے۔ ہم نے اشتہار نہیں پڑھا اس کا۔ میلہ مویشیاں ہے تو ساتھ مشاعرہ بھی ضرور ہوگا۔ ایک غزل ہمارے پاس بھی ہے۔‘‘

    بولا، ’’جی نہیں۔ یہ بزنس روڈ کی بکرا پیڑی ہے۔ لیجیے یہ دنبہ لے جائیے۔ آپ کے خاندان بھر کو پل صراط سے پار لے جائے گا۔‘‘

    ہم نے پوچھا، ’’ہدیہ کیا ہے اس بزرگ کا؟‘‘ بولے، ’’پانچ سو لے لوں گا۔ وہ بھی آپ کی مسکین صورت پر ترس کھا کر۔ ورنہ چھ سو روپے سے کم نہ لیتا۔‘‘ ادھر سے نظر ہٹا کر ہم نے ایک اللہ لوگ قسم کے بکرے کی طرف دیکھا جو مارے ضعف اور ناتوانی کے زمین پر بیٹھا تھا۔

    ہم نے کہا، ’’اس ذات شریف کے کیا دام ہوں گے؟‘‘ اس کا مالک دوسرا تھا۔ وہ بھاگا آیا۔ بولا، ’’جناب آپ کی نظر کی داد دیتا ہوں۔ بڑی خوبیوں کا بکرا ہے۔ اس کی داڑھی پر نہ جائیے۔ ایک میمن گھرانے میں پلا ہے ورنہ عمر اس کی زیادہ نہیں۔ آپ سے دو چار سال چھوٹا ہی ہوگا۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’یہ چپ چاپ کیوں بیٹھا ہے۔ جگالی تک نہیں کرتا۔‘‘ بولے، ’’دانتوں میں کچھ تکلیف تھی۔ پوری بتیسی نکلوادی ہے۔ خیال تھا مصنوعی جبڑا لگوانے کا۔ لیکن اتنے میں عید آ گئی۔‘‘

    ’’کتنے کا ہو گا؟‘‘

    ’’دو سو دے دیجیے۔ اتنے میں مفت ہے۔‘‘

    ہم نے اپنی جیب کو ٹٹولا اور کہا، ’’سو روپے سے کم کی چیز چاہیے۔‘‘ بولے، ’’پھر آپ مرغ کی قربانی دیجیے۔ چوپایا نہ ڈھونڈیے۔‘‘

    (شاعر و ادیب اور معروف مزاح‌ نگار ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)