Tag: اردو املا

  • مذکر اور مؤنث میں الجھتی ایک حُجّتی لڑکی کا قصّہ

    مذکر اور مؤنث میں الجھتی ایک حُجّتی لڑکی کا قصّہ

    میری چھوٹی بھتیجی تہمینہ نے ایک دن سوال کیا کہ چچا جان! درد لڑکی ہوتی ہے یا لڑکا؟

    میں نے کہا، لڑکا۔ وہ بولی، کیوں؟

    میں نے کہا درد اٹھتی نہیں اٹھتا ہے، اچھی ہوتی نہیں، اچھا ہوتا ہے۔ اس نے حجت کی کہ درد کو لڑکا کیوں کہتے ہیں؟

    وہ شاید درد کو کہیں مؤنث بولتے سن آئی تھی۔ میں نے کہا اس لیے کہ شریر ہوتا ہے، تنگ کرتا ہے، لڑکیاں تو تکلیف نہیں پہنچاتی، شرارت نہیں کرتی، وہ تو آرام پہنچاتی ہیں۔

    وہ بولی تو تکلیف لڑکی ہے اور آرام لڑکا؟ اس پر میں ذرا چکرایا بات بنانے کو کہا کہ بھئی بعض لڑکیاں بھی تو شریر ہوتی ہیں، تو بس تکلیف ایک ایسی ہی شریر لڑکی ہے، مگر دیکھو… خوشی لڑکی ہے اور رنج لڑکا… اکثر اچھی اچھی چیزوں کو لڑکی ہی بنایا گیا ہے۔“

    اس پر وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی اور بولی تو ان چیزوں کو لڑکا اور لڑکی کون بناتا ہے؟ میں نے کہا کہ بولنے والوں نے بنایا ہے جیسے اللہ میاں نے کسی کو لڑکا اور کسی کو لڑکی بنا کر بھیج دیا ہے۔

    کہنے لگی وہ تو اس لیے بناتے ہیں کہ بڑے ہوں گے، تو ان کا بیاہ ہو جائے گا، تو کیا درد اور تکلیف کا بھی بیاہ ہو سکتا ہے؟

    اس کی منطق میرے لیے خاصی ٹیرھی کھیر بن گئی تھی۔ پہلے تو میں فقط ہنس دیا، ذرا مہلت لینے کے لیے کہ کوئی نکتہ سوجھے تو اس کو کچھ بتاؤں۔ کچھ نہ کچھ تو مجھے کہنا تھا، میں نے کہا ہاں، ہو سکتا ہے، بلکہ ہوتا ہے۔ جسمانی درد کا دلی تکلیف کے ساتھ جوڑ لگتا ہی ہے، دونوں ایک ہی ذات کے ہیں!

    تہمینہ پوچھنے لگی کیا پھر ان کے بچے بھی ہوتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ضرور ہوتے ہیں، آہیں، آنسو، کراہیں، سبکی، سسکی… انہی کے بچے تو ہیں۔ آنسو کو شریر لڑکا ہی بتاتے رہیں. آنسو ٹھہرتا نہیں، گھر سے نکل پڑتا ہے۔

    وہ بولی ٹھہریے ٹھہریے… ایک آنسو کو چھوڑ کر یہ تو سب لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں۔ آہیں، کراہیں، توبہ، اف، سسکی…

    میں نے کہا کیا مضائقہ ہے، ان کے لیے کوئی جہیز وغیرہ کا تو انتظام کرنا نہیں پڑتا۔

    اب اس نے پوچھا کہ انہیں پہنچاتے کیسے ہیں کون لڑکی ہے اور کون لڑکا؟
    میں نے کہا ایسے ہی جیسے آدمیوں کو، یعنی نام سے اگر کسی کا نام شاہدہ ہے تو لڑکی ہے، اگر شاہد ہے تو وہ لڑکا۔ شاہد کی طرح زاہد، قاصد، مرشد، قائد… سب لڑکے شمار ہوں گے۔

    یہاں میں نے خود ہی اپنے آپ کو پھندے میں پھنسا لیا۔ وہ جھٹ بولی کہ مگر قاعدہ تو لڑکا ہے، جب شاہدہ لڑکی ہے، تو قاعدہ اور فائدہ لڑکے کیسے ہو سکتے ہیں؟ شاہدہ تو آتی ہے اور قاعدہ تو پڑھایا جاتا ہے اور فائدہ بھی ہوتی نہیں، ہوتا ہے۔

    میں کھسیانی ہنسی ہنسا اور بولا دیکھو یہ ذرا زیادتی ہو گئی، مگر سنو قاعدہ کی جمع قواعد کو مؤنث بنا دیا ہے۔ وہ فوراً بولی قواعد بن جاتے ہیں یا بن جاتی ہیں؟

    ابھی تو آپ نے کہا قواعد کو قاعدہ کے بدلے میں لڑکی بنایا گیا ہے۔ میں نے سنجیدگی قائم رکھنے کے لیے کہا مطلب یہ ہے کہ سن کر یا پڑھ کر اس کی آواز سے محسوس ہو جاتا ہے لفظ مذکر ہے یا مؤنث۔

    اس نے اپنی چلائی، کہنے لگی مجھے تو درد لڑکی لگتی ہے۔ میں نے پیچھا چھڑانے کو کہا، ہاں ہاں، تم یوں ہی بولا کرو اور لوگ بھی بولتے ہیں تم اکیلی نہیں ہو، مگر یاد رکھو کہ مذکر مؤنث کی کچھ واضح علامتیں بھی ہیں۔

    مثلاً ’ی‘ پر ختم ہونے والے لفظ مونث ہوں گے اور الف پر ختم ہونے والے لفظ مذکر، جیسے امی ابا، نانا نانی، مرغی مرغا، کنگھا کنگھی، بکرا بکری، تمہاری چچی اور میں تمہارا چچا۔

    تہمینہ پھر سوچ میں پڑ گئی کہ بے حد حجتی واقع ہوئی ہے، پھر بولی کہ بھائی کو بھائی کہنا تو غلط ہو گا، ’بھا‘ کہا کروں؟ اور آپا کو آپی… بھئی یہ بڑی گڑ بڑ کی بات ہے، دھوبن کو دھوبی کہوں اور دھوبی کو دھوبا؟

    میں نے بات کا رخ بدلنے کے لیے کہا کہ دیکھو، بعض لفظوں میں جوآخر میں ’ی‘ آتی ہے، وہ ان کے پیشے کو ظاہر کرتی ہے، جیسے دھوبی، درزی، نائی، قسائی وغیرہ

    تو بولی یہ سب آپ کیا کہتے ہیں مونث ہیں؟ اور ماما، آیا کیا کہتے ہیں مذکر؟ آیا، آئی یا ’آیا آیا؟‘

    وہ پھندے پر پھندا ڈالتی جا رہی تھی اور مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا کہ ابھی تمہیں باتیں سمجھانا بہت مشکل ہے۔

    (ماہر لسانیات، شاعر، محقق اور نقاد شان الحق حقی کی ایک دل چسپ تحریر سے اقتباسات)

  • اردو زبان کے عظیم محسن رشید حسن خاں کا تذکرہ

    اردو زبان کے عظیم محسن رشید حسن خاں کا تذکرہ

    رشید حسن خاں اُردو ادب کی ایسی ہی قد آور شخصیت کا نام ہے جس کا ذکر کیے بغیر اُردو تحقیق و تدوین، املا، زبان و قواعد اور تبصراتی ادب کا باب ہمیشہ نامکمل رہے گا۔ ان کے ادبی کارناموں کا پتّھر اتنا بھاری ہے کہ اسے اُٹھانے کے لیے ہمیں دوسرا رشید حسن خاں بننا پڑے گا۔

    1939ء میں جب رشید حسن خاں شاہ جہاں پور(بھارت) میں فیکٹری میں کام کرتے تھے تو اِسی زمانے میں ان کے اندر علمی و ادبی ذوق و شوق پیدا ہوا۔ انھوں نے تین تین شفٹوں میں کام کرتے ہوئے طلسم ہوش رُبا کی تمام جلدیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے شوقین بک ڈپو، شاہ جہاں پور سے کرائے پر کتابیں لے کر ان کا مطالعہ کیا۔ ان کے مطالعے کے شوق نے ان کے اندر اردو ادب کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا۔ کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے صرف پچیس برس کی عمر میں انھوں نے اپنا پہلا مضمون ’’شبلی کی فارسی شاعری‘‘ کے عنوان سے رسالہ ’نگار‘ مئی 1950ء میں شایع کروایا۔ انہی دنوں احمد ندیم قاسمی کے قطعات کے مجموعے’’رم جھم‘‘ پر بھی تبصرہ نما ’ندیم کے قطعات‘ لکھا جو رسالہ ’شاعر‘ میں جولائی 1950ء کے شمارے میں شایع ہوا۔

    ہندوستان کی آزادی کے بعد وہ ہندوستانی اور پاکستانی رسائل کا پابندی کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ رسالہ’ الحمرا‘، ’المنصور‘، ’نگار‘ اور’ نقوش‘، ’اُردو ادب‘، ’شاعر‘کے علاوہ’ سیارہ‘ میں شائع ہونے والے مضامین پر ان کی گہری نگاہ رہتی تھی۔ رشید حسن خاں اپنے ابتدائی زمانے سے ہی رسائل میں شایع ہونے والے مضامین کی زبان و بیان کے مسائل کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بعد ان پر گرفت کرتے تھے۔ اردو زبان میں در آئے غلط الفاظ کے استعمال کے تعلق سے انھوں نے رسالہ الحمرا، لاہور میں نومبر 1952ء سے لے کر جون 1953ء تک ایک قسط وار مضمون ’’اُردو ہماری زبان، ترتیبِ نو‘‘ تحریر کیا۔ اس پر ہم عصر ادیب ان سے خفا ہو گئے۔ اس مضمون کے اختتام پذیر ہوتے ہی مدیرِ رسالہ حامد علی خاں نے ’’اُردو کی ترتیبِ نو‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک بحث کا آغاز کیا۔

    رشید حسن خاں نے اپنے بے لاگ تبصروں سے بھی اُردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ 1954ء کے بعد فیضؔ، مجروح، فراق، اثرؔ، جوشؔ غیرہ کے علاوہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شاعروں اور افسانہ نگاروں کی زبان و بیان پر رشید حسن خاں نے طویل تبصرے رقم کیے۔ ان تبصروں میں شعرا و ادبا کے کلام و کام کو زبان و بیان اور اسلوب کی کسوٹی پر پرکھا گیا تھا۔ رشید حسن خاں نے اردو زبان و ادب کی تعمیر و ترقی کے لیے ’’اُردو املا‘‘ اور ’’زبان اور قواعد‘‘جیسی کتابیں تصنیف کیں۔ اردو املا کتاب کو رشید حسن خاں نے مسلسل 12 سال کی محنت کے بعد لکھا تھا۔

    موصوف نے بچّوں کے لیے بھی ’’اردو کیسے لکھیں ‘‘،،’’عبارت کیسے لکھیں ‘‘،’’انشا اور تلفظ‘‘وغیرہ کتابیں تحریر کیں۔

    رشید حسن خاں نے اپنے کئی انٹرویوز میں کہا کہ جب تک ہم اپنے بچّوں کو اُردو زبان و ادب سے روشناس نہیں کرائیں گے تب تک اردو زبان و ادب کی ترقی ممکن نہیں۔ نئی نسل کو اردو زبان کی طرف راغب کرنے کے سوال پر ایک مرتبہ انھوں نے کہا:

    ’’بیش تر اردو والے اپنے بچّوں کو اردو پڑھانا ضروری نہیں سمجھتے۔ اس سلسلے میں سب سے اندوہ ناک صورتِ حال یہ ہے کہ اردو کے جو بڑے اور مشہور لکھنے والے ہیں، ادیب ہیں، شاعر ہیں اور استاد ہیں، ان میں سے بیش تر کے بچّے اردو سے ناواقف ہیں۔ اسی طرح ہم اردو والے ہی اردو زبان کا دائرہ چھوٹا کرتے جا رہے ہیں۔ نئی نسل، اردو زبان کی طرف راغب ہو سکتی ہے بہ شرط یہ کہ نئی نسل کے والدین اور اساتذہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔‘‘

    رشید حسن خاں کے خطوط کی ورق گردانی کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اُردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کتنے فکر مند تھے۔ اپنے ادب نواز دوستوں کو ہمیشہ صحیح اُردو لکھنے اور بولنے پر آمادہ کرتے تھے۔ رشید حسن خاں کے خطوط میں سب سے زیادہ باتیں اُردو املا اور زبان کے مسائل پر ہی ہیں۔

    رشید حسن خاں نے تدوین کے ذریعے بھی اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمت کی ہے۔ باغ و بہار، فسانۂ عجائب، مثنوی سحر البیان، مثنوی گلزارِ نسیم، مثنویاتِ شوق، کلیاتِ جعفر زٹلی، دہلی کی آخری شمع، نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، گزشتہ لکھنؤ، مقدمۂ شعر و شاعری، دیوانِ حالی، مصطلحاتِ ٹھگی، انتخابِ ناسخ، انتخابِ مضامین شبلی وغیرہ کلاسکی متون کی تدوین نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

    ہندوستان اور پاکستان کے مختلف اداروں نے رشید حسن خاں کی ادبی خدمات کے صلے میں انھیں انعامات و اعزازات سے نوازا۔

    (ابراہیم افسر کے مضمون سے ماخوذ)