Tag: اردو انشائیہ

  • چرواہے اور تسبیح کے دانے

    چرواہے اور تسبیح کے دانے

    اردو ادب کی بے مثال اور لاجواب تحریروں اور حکمت و دانائی، فلسفہ و فکر کے موتیوں سے بھرے ہوئے مضامین میں انشائیہ نگاری کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اردو ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا کو دانش ور اور باکمال انشائیہ نگار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ انہی کا ایک خوب صورت انشائیہ ہے۔

    چرواہے کی چھڑی دراصل ہوا کا ایک جھونکا ہے اور ہوا کے جھونکے کو مٹھی میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اسے تو دیکھنا بھی ممکن نہیں۔

    البتہ جب وہ آپ کے بدن کو مَس کرتے ہوئے گزرتا ہے تو آپ اس کے وجود سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ وجود ہی سے نہیں آپ اس کی صفات سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہر جھونکا ایک پیغام بر ہے۔ وہ ایک جگہ کی خوشبو کو دوسری جگہ پہنچاتا ہے۔ یہی کام چرواہے کا بھی ہے۔ تمام لوگ گیت چرواہوں کے ہونٹوں پر لرزتے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بہت قدیم زمانے میں قبائل نے جو نقل مکانی کی، اس کے بارے میں تاریخی کوائف ناپید ہیں، البتہ جن راستوں سے یہ قبیلے گزرے اور جن خطوں میں چند روز ٹھہرے وہاں انہوں نے اپنے نقوش پا چھوڑ دیے جنہیں آج بھی ’’پڑھا‘‘ جا سکتا ہے۔ یہ نقوشِ پا وہ منورّ الفاظ ہی ہیں جو ان کے ہونٹوں سے ٹپکے اور پھر راستوں اور خطّوں میں بولی جانے والی زبانوں کے دامن پر کہیں نہ کہیں موتیوں کی طرح اٹک کر رہ گئے اور صدیوں تک اپنے بولنے والوں کے سفر کی داستان سناتے رہے… مگر لوک گیتوں کا قصّہ دوسری نوعیت کا ہے۔

    لوک گیت قبیلوں کے نہیں بلکہ چرواہوں کے نقوشِ پا ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ کسی خطّے کا چرواہا کہاں کہاں پہنچا کیونکہ وہ جہاں کہیں گیا اپنے ساتھ گیت کی لَے اور خوشبو اور تمازت بھی لے گیا۔ پھر وہ خود تو وقت کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکا اور مآلِ کار زمین کا رزق بن گیا مگر اس کا گیت ایک لالۂ خود رو کی طرح عہد بہ عہد اس خطّے کی زمین سے برآمد ہوتا اور خوشبو پھیلاتا رہا۔ بس یہی چروا ہے کا وصفِ خاص ہے کہ وہ جگہ جگہ گیتوں کے بیج بکھیرتا پھرتا ہے… بیج جو اس کے نقوشِ پا ہیں، جنہیں وقت کا بڑے سے بڑا سیلاب بھی نابود نہیں کر سکتا۔

    ویسے عجیب بات ہے کہ چرواہے کے مسلک کو آج تک پوری طرح سمجھا ہی نہیں گیا، مثلاً اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گلّے کا رکھوالا بھی ہے اور پولیس مین بھی! یعنی وہ اپنی چھڑی کی مدد سے ہر اُس زمینی یا آسمانی بلا پر ٹوٹ پڑتا ہے جو اس کے گلّے کو نظر بد سے دیکھتی ہے اور اسی چھڑی سے وہ گلّے سے بھٹکی ہوئی ہر بھیڑ کو راہِ راست پر لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ مگر کیا چرواہے کا مقصدِ حیات صرف یہی ہے؟…غالباً نہیں! وجہ یہ کہ جب چرواہا گلّے کو لے کر روانہ ہوتا ہے تو اُسے مجبوراً اِسے سیدھی لکیر پر چلانا پڑتا ہے تا کہ ریوڑ بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔ واپسی پر بھی اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی تمام بھیڑوں کو سمیٹ کر یک مُشت کر دے تا کہ وہ بغیر کسی حادثے کے اپنے گھر پہنچ جائیں۔ مگر یہ تو سفر کے بالکل عارضی سے مراحل ہیں۔ اصل اور دیرپا مرحلہ وہ ہے جب چرواہا اپنے گلّے کو کسی سر سبز و شاداب میدان، جھاڑیوں سے اٹے ہوئے صحرایا کسی پہاڑ کی ڈھلان پر لا کر آزاد کر دیتا ہے۔ جس طرح تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو منکے فرشِ خاک پر گرتے ہی لڑھکنے اور بکھرنے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح جب گڈریا اپنے ریوڑ کو آزاد کر تا ہے تو وہ دانہ دانہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔ معاً ہر بھیڑ کی ایک اپنی منفرد شخصیت وجود میں آ جاتی ہے۔ گلّے کے شکنجے سے آزاد ہوتے ہی ہر بھیڑ محسوس کرتی ہے کہ بے کنار آسمان اور لامحدود زمین کے عین درمیان وہ اب یکہ و تنہا کھڑی مرکزِ دو عالم بن گئی ہے۔ مگر بات محض بھیڑوں ہی کی نہیں۔

    خود چرواہے کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بدن کے حصار سے باہر آکر چاروں طرف بکھرنے لگا ہے، جیسے اس کے ہاتھ یکایک اتنے لمبے ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے جنبش کیے بغیر ہی درخت کی پھُننگ، پہاڑ کی چوٹی اور ابر پارے کی جھالر کو چھو سکتا ہے بلکہ پتھّروں، پودوں اور پرندوں حتیٰ کہ رنگوں اور روشنیوں سے بھی ہم کلام ہو سکتا ہے۔ کسان بے چارے کو تو زمین نے جکڑ رکھا ہے اور بنیے کو زر نے، مگر چرواہا ایک مردِ آزاد ہے، وہ اپنے گلّے کا بھی مطیع نہیں۔ وہ میدان یا پہاڑ کی ڈھلوان پر پہنچتے ہی اپنی مٹھی کھول دیتا ہے اور سارا گلاّ اس کی انگلیوں کی جھریوں سے دانہ دانہ ہو کر ہر طرف بکھر جاتا ہے، اس کے بعد وہ خود بھی بکھرنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خاک و افلاک پر ایک ردا سی بن کر چھا جاتا ہے، مگر چرواہا آخر چرواہا ہے، اس کا کام محض بکھرنا ہی نہیں سمٹنا بھی ہے۔

    چنانچہ شام ہوتے ہی وہ پہلے اپنی چھڑی کو جسم عطا کرتا ہے، پھر خود کو تنکا تنکا جمع کرتا ہے۔ مجتمع ہونے، بکھرنے اور دوبارہ جڑ جانے کا یہ عمل جس سے چرواہا ہر روز گزرتا ہے، پوری کائنات کے طرزِ عمل سے مشابہ ہے، مگر یہ دوسرا قِصّہ ہے۔ چرواہے کئی طرح کے ہیں۔ ایسے چرواہے بھی ہیں جو محض مزدوری کرتے ہیں۔ سارا دن مویشیوں کو ہانکنے کے بعد رات کو تھکے ہارے واپس آتے ہیں اور کھاٹ پر گرتے ہی بے سُدھ ہو جاتے ہیں۔ ایسے چرواہوں کو چرواہا کہنا بھی زیادتی ہے۔ پھر ایسے چرواہے بھی ہیں جو چناب کنار بھینسوں یا گائیوں کو چراتے پھرتے ہیں مگر یہ لوگ بھی چرواہے کم اور پریمی زیادہ ہیں۔ گائیوں بھینسوں سے ان کا سارا لگاؤ محض ایک بہانہ ہے۔ وہ دراصل ان کی وساطت سے زیادہ نازک اور خوبصورت گائیوں بھینسوں تک رسائی پانے کے آرزو مند ہوتے ہیں، چنانچہ جب عشق کے انتہائی مراحل میں ان کے گرد جو اپنوں یا خوشیوں کا حلقہ تنگ ہو جاتا ہے تو انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ ان کی اصل گائیں بھینسیں نجانے کب سے ان کی راہ تک رہی ہیں… میں اس قسم کے چرواہوں کا ذکر کر کے آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، میں تو صرف ان چرواہوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مویشیوں کے ریوڑ چراتے چراتے ایک روز انسانوں کے ریوڑ چرانے لگتے ہیں۔ تب ان کی چھڑی عصا میں بدل جاتی ہے۔ ہونٹوں پر اسمِ اعظم تھرکنے لگتا ہے۔ وہ انسانی ریوڑوں کو پہاڑ کی چوٹی پر لا کر یا صحرا کے سینے میں اتار کر یا دریا کے کناروں پر بکھیر کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ریوڑ اپنی کہنگی اور یبوست کو گندی اُون کی طرح اپنے جسموں سے اتار پھینکیں۔ پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایسا ہو گیا ہے تو وہ انہیں واپس ان کے گھروں تک لے آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خود تسبیح کے دانوں کی طرح پوری کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔

    یہ جو بساطِ فلک پر ہر رات کروڑوں ستارے سے چمکتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب اُسی تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانے ہیں؟

    (ممتاز ادیب، نقّاد، شاعر اور مشہور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے’’ چرواہے‘‘ سے اقتباس)

  • "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    مصنّف: شائستہ زرّیں

    بچپن کی یادوں نے جب بھی ہمیں ستایا تو جہاں بچپن کے سنگی ساتھی یاد آئے وہاں اسکول کا زمانہ بھی بہت یاد آیا۔

    اسکول کا ذکر آئے اور ناغے کی بات نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ دورِ ضعیفی میں بھی جب ماضی اپنی گرفت میں لیتا ہے تو بچپن کی یادوں اور باتوں میں ناغے کے دن بہت ستاتے ہیں۔ ممکن ہے اوروں کامشاہدہ اور تجربہ ہمارے مشاہدے کے برعکس ہو۔ بات ہو رہی تھی ناغے کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں نیا کیلینڈر اسی لیے تو اچھا لگتا تھاکہ اس میں سال بھر کی تعطیلات کی فہرست بھی ہوتی تھی اور اگر کوئی چھٹّی اتوار کو پڑ جاتی تو ناغہ کا سارامزہ کرکرا ہو جاتا۔ یہ چھٹیاں بہت پُرلطف ہوتیں۔ پھر یوں ہوا کہ اسکول کا زمانہ بھی رخصت ہوا۔ اسکول کو خیرباد کہہ کر ہم نے کالج کی راہ پکڑی تو آئے دن کے ”ہڑتالی ناغوں“ نے ناغے کی ساری خوشی خاک میں ملا دی اور ناغہ ہماری آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے لگا۔ ہر بات کی آخر ایک حد اور خصوصی ناغوں کی لذت ہی الگ ہوتی ہے۔

    آج یادوں نے ذہن پر دستک دی تو جہاں زمانۂ طالبعلمی کے ناغوں نے اپنے حصار میں لیا وہاں انواع و اقسام کے ناغہ خوروں کا خیال بھی ہمیں ستانے لگا۔ ان میں سے بعض تفریحاً، چند مجبوراً، اکثر عادتاً اور کچھ تقلیداً ناغہ کرتے ہیں۔ آخری قسم کے ناغہ خور وہ ہیں جو اچھے بھلے جی رہے ہوتے ہیں، عادی ناغہ خوروں کو دیکھ کر اُنھیں بھی ناغہ کی ہڑک اُٹھتی ہے اور وہ ناغہ کا ذائقہ چکھنے کو بے چین ہوجاتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں اوراپنے تو اپنے غیر بھی اُن کے ہنر کی داد دیتے نظر آتے ہیں۔ ان روایتی و مثالی ناغہ خوروں کے درمیان کئی ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناغہ کے تصور ہی سے خائف ہو جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے ناغہ جن کے لیے پیغامِ حیات لاتا ہے۔ ناغہ خوروں کی وجہ سے اُن کی چاندی جو ہو جاتی ہے۔ ظہیر کو جمعہ کو بخار چڑھا، ہفتہ ناغہ ہوا، اتوار کو دوبارہ اُسے بخار نے آ لیا، پیر کو ایک مرتبہ پھر ناغہ۔ ظہیر تو بوکھلا گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنھیں اپنا فسانۂ درد سنا کر پوچھا ؎ اے مسیحا یہ ماجرا کیا ہے؟

    ڈاکٹر نے حسبِ پیشہ دو بول تسلی کے دیے، دو سو فیس کے لِیے اور دو ہزار کے ٹیسٹ ظہیر کی نذر کیے تو وہ تلملا گیا۔ اوائلِ بچپن ہی سے اُسے ٹیسٹ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اِدھر ڈاکٹر نے اُس کے ہاتھ میں ٹیسٹ کا پرچہ تھمایا، اُدھر یک بیک وہ اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب عین ٹیسٹ والے روز بالکل اچانک اُس کے کسی بھی حصہ جسم میں درد کا ایسا شدید حملہ ہوتا کہ وہ بے حال ہو جاتا۔ درد چونکہ نظر بھی نہیں آتا، اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔ سو، ظہیر مزے سے ناغہ کر لیتا اور ایسا ہر اُس دن ہوتا جب ماہانہ ٹیسٹ ہوتا۔ باقی دن وہ چین کی بانسری بجاتا اور ماہانہ ٹیسٹ ختم ہوتے ہی پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہو جاتا۔ گھر والے اِس صورت حال سے حیران و پریشان تھے، لیکن اللہ جانے ظہیر نے ڈاکٹر سے کیا ساز باز کر رکھی تھی کہ وہ بھی ظہیر کے ساتھ شریک ہوجاتے اور اب جو برسوں بعد ظہیرکو درحقیقت ناغہ کا بخارچڑھا تو وہ خود ڈاکٹر کی سازش کا شکار ہو گیا کہ ٹیسٹ کی نوعیت بے شک بدل گئی تھی لیکن اس کی یہ ہیَت خاصی ہیبت ناک تھی۔ یکایک ظہیر کو احساس ہوا کہ اسکول کے ٹیسٹ تو بہت بے ضرر اور تعلیمی سفر کا زادِ راہ ہوا کرتے تھے اور یہ ٹیسٹ جیب کٹنے کی علامت ہیں۔ اُس کی مہینہ بھر کی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ ناغہ کی اذیت کی نذرہو گیا تو زندگی میں پہلی بار ناغہ سخت برا لگا اور اُسے اپنا مصلحتاً کیا جانے والا ناغہ بلکہ بے دریغ ناغے یاد آگئے۔

    شوکت کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں تفریحاً ناغہ کی بہت سوجھتی ہے۔ مثلاً اگر کل میں دفتر سے ناغہ کر لوں تو مزہ ہی آجائے، کئی روز ہوئے گرلز کالج کا چکر نہیں لگایا، ایک دن کے ناغہ کے عوض دل لگی میں کیا برائی ہے؟ بہت ممکن ہے، ایک دن کی دل لگی شوکت کی شان و شوکت میں اضافے کا سبب بن کر دائمی خوشیوں کی نوید دے دے۔ شوکت نے اپنا سراپا آئینے میں دیکھ کرسوچا اور دفترسے ناغہ کر کے گرلز کالج کی راہ پکڑی۔ اب یہ شوکت کے نصیب کہ اُن کی شان تو کیا بڑھتی ہاں رہی سہی شوکت بھی خاک میں مل گئی۔اُس روز ناغہ کے طفیل شوکت کی وہ بھد اڑی کہ دفترسے مستقل ناغہ کی نوبت آگئی کہ جس لڑکی کو وہ شیشے میں اُتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں اُن کے باس کی بیٹی تھی۔

    ناغہ ہر ایک کو راس نہیں آتا۔ ہفتہ وار سرکاری تعطیل کے علاوہ بھی ہفتہ وار ناغہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ہمیں وہ ناغہ یاد آگیا جس کی اطلاع نے ایک پل میں ہمیں کئی کیفیتوں سے گزار دیا تھا۔ آج آپ بھی اس ناغہ کی روداد سے لطف اندوز ہوں۔

    استاد کی زبان سے ادا ہونے والا ایک تاکیدی جملہ بھی شاگردوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے، سو پروفیسر صاحب کا ہدایت نامہ ہم نے بھی بصد عجز و نیاز سُنا کہ ”منگل کے علاوہ کسی روز بھی آجانا کہ منگل کو میرا اور گوشت کا ناغہ ہوتا ہے۔“ منگل کے گوشت کا ناغہ تو بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن پروفیسر صاحب کے منگل کے ناغہ کا ذکر سُن کر ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمیں زمانۂ طالبعلمی یاد آگیا جب بغیر اطلاع ناغہ کرنے پر طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی تھی اور اطلاعی ناغہ کرنے والوں سے بھی باز پُرس ضرور کی جاتی تھی۔ دستاویزی ثبوت کافی نہ سمجھا جاتا تھا۔ اب جو پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تو خیال آیا کہ پروفیسر صاحب بلاجواز اتنے دھڑلّے سے ہفتہ وار ناغہ کی تہمت نہیں اٹھا سکتے۔ یقیناً منگل کو تنقید، تحقیق و تخلیق کے نت نئے در وا ہوتے ہوں گے کہ تینوں امور پروفیسر صاحب کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ منگل شادمانی کو کہتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منگل کو ناغہ کر کے پروفیسر صاحب فال نکالتے ہوں کہ امتحان کے لیے کون سی شبھ گھڑی ہو گی جب طالبعلم خلافِ توقع پرچہ دیکھ کر بھی اپنی تمام تر توجہ پرچے پر ہی مرکوز رکھیں گے اور کسی بھی اشتعال یا انتقام کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوں گے۔

    پروفیسر صاحب کے ناغہ کی گتھی تھی کہ سلجھ کر ہی نہیں دے رہی تھی، یکایک ہمیں اُن ناغہ خوروں کا خیال آگیا جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دانا کا تجربہ بھی یاد آگیا کہ ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا“ تب ہمیں ایک اور پروفیسر صاحب یاد آگئے جو پڑھاتے بیشک بہت اچھا تھے لیکن قدر کھو دینے کے خدشے کے تحت تین دن ہونے والی کلاس میں سے بھی ایک دن ناغہ ضرورکرتے اور شاگرد ایسے ناخلف اور ناقدرے کہ اُستاد کی دانائی کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُن سے ایسے بدظن ہوئے کہ اُن کی قدر و منزلت تک دل سے نکال بیٹھے، لیکن جن پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تھا وہ تو تدریسی ذمہ داریاں نباہنے میں بے مثال ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کے ساتھ گوشت کے ناغہ کا ذکر کیوں کیا؟ ہماری سُوئی تو یہیں آکر اٹک گئی تھی۔ ”بذلہ سنج ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں“ ہمارے دماغ نے ہمیں راہ دکھائی۔

    پروفیسر صاحب کی حکمت کا راز جانتے جانتے ہم نے خود حکمت کے موتی چننے شروع کردیے مگر عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا کہ آخر منگل کو ہی ناغہ کیوں؟ جب کچھ لوگ اگر گوشت کے ناغہ کا غم منا رہے ہوتے ہیں تو بعض لوگ ناغہ کی مدت جلد ختم ہونے کی مسرت سے دوچار ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا ناغہ گورکھ دھندا بن گیا، ایسا پیچیدہ معاملہ جس میں الجھ کر خیال کے نت نئے پھول تو کھل گئے مگر ناغہ کا سراغ پھر بھی نہ مل سکا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو سراغ لگا لیجیے! شاید یہ کام یابی آپ کے حصے میں آجائے اور ہم پر بھی پروفیسر صاحب کا منگل کا ناغہ اور وہ بھی گوشت کے ناغہ کے ساتھ مذکور ناغہ کا راز منکشف ہوجائے۔

    ہاں ایک عہدے دارایسا بھی ہے جس کے ذمے ناغہ کرنے اور نہ کرنے والوں کی فہرست درج کرنا لکھا ہوتا ہے جسے اپنے ناغے سے زیادہ اوروں کے ناغے کا خیال ہی نہیں رہتا بلکہ وہ اُن کے ناغوں کا حساب اور ریکارڈ تک اپنے پاس رکھتا ہے۔ تمام ناغہ خوروں کے مزاج اور مسائل بھی سمجھتا ہے تو کیوں نہ ناغہ نویس سے ملا جائے جو عمرکے ہر حصے میں ناغہ کے مزے لوٹنے والوں کے تمام حربوں، حیلوں اور جواز سے واقف ہوگا۔ شاید ناغہ نویس کے توسط سے ہم مزید ناغہ خوروں سے ملاقات کر لیں۔ اُن ناغہ خوروں سے جو سرِدست ہماری دسترس سے دُور ہیں اور شاید اس طرح ہمارے علمِ ناغہ خوری میں قابلِ قدر اضافہ ہو جائے۔ لیکن یہ اضافہ طالبعلم بھی تو کر سکتے ہیں کہ ناغہ کی اصل عادت تو اسکول کے زمانے ہی سے پڑتی ہے نا؟ کیا خیال ہے؟

  • امید کی خوشی (انشائیہ)

    امید کی خوشی (انشائیہ)

    اے آسمان پر بھورے بادلوں میں بجلی کی طرح چمکنے والی دھنک، اے آسمان کے تارو، تمھاری خوش نما چمک، اے بلند پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرنے والی دھندلی چوٹیو! اے پہاڑ کے عالی شان درختو! اے اونچے اونچے ٹیلوں کے دل کش بیل بوٹو! تم بہ نسبت ہمارے پاس کے درختوں اور سر سبز کھیتوں اور لہراتی ہوئی نہروں کے کیوں زیادہ خوش نما معلوم ہوتے ہو؟ اس لیے کہ ہم سے بہت دور ہو۔

    اس دوری ہی نے تم کو یہ خوب صورتی بخشی ہے۔ اس دوری ہی سے تمھارا نیلا رنگ ہماری آنکھوں کو بھایا ہے، تو ہماری زندگی میں بھی جو چیز بہت دور ہے وہی ہم کو زیادہ خوش کرنے والی ہے۔

    وہ چیز کیا ہے؟ کیا عقل ہے؟ جس کو سب لوگ سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ کیا وہ ہم کو آئندہ کی خوشی کا یقین دلا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! اس کا میدان تو نہایت تنگ ہے۔ بڑی دوڑ دھوپ کرے تو نیچر تک اس کی رسائی ہے جو سب کے سامنے ہے۔ او نورانی چہرے والے یقین کی اکلوتی خوب صورت بیٹی، امید! یہ خدائی روشنی تیرے ہی ساتھ ہے۔ تو ہی ہماری مصیبت کے وقتوں میں ہم کو تسلی دیتی ہے۔ تو ہی ہمارے آڑے وقتوں میں ہماری مدد کرتی ہے۔ تیری ہی بدولت نہایت دور دراز خوشیاں ہم کو نہایت ہی پاس نظر آتی ہیں۔ تیرے ہی سہارے سے زندگی کی مشکل مشکل گھاٹیاں ہم طے کرتے ہیں۔ تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی، خوشی کے لیے نام آوری، نام آوری کے لیے بہادری، بہادری کے لیے فیاضی، فیاضی کے لیے محبت، محبت کے لیے نیکی، نیکی کے لیے صلہ تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔

    وہ پہلا گنہگار انسان جب شیطان کے چنگل میں پھنسا اور تمام نیکیوں نے اس کو چھوڑا اور تمام بدیوں نے اس کو گھیرا تو صرف تو ہی اس کے ساتھ رہی۔ تو ہی نے اس نا امید کو نا امید ہونے نہیں دیا، تو ہی نے اس موت میں پھنسے دل کو مرنے نہیں دیا۔ تو ہی نے اس کو ذلت سے نکالا اور پھر اس کو اس اعلیٰ درجہ پر پہونچایا جہاں کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا تھا۔

    اس نیک نبی کو جس نے سینکڑوں برس اپنی قوم کے ہاتھ سے مصیبت اٹھائی اور مار پیٹ سہی، تیرا ہی خوبصورت چہرہ تسلی دینے والا تھا۔ وہ پہلا ناخدا جب کہ طوفان کی موجوں میں بہا جاتا تھا اور بجز مایوسی کے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا تو تو ہی اس طوفان میں اس کی کشتی کھینچنے والی اور اس کا بیڑا پار لگانے والی تھی۔ تیرے ہی نام سے جودی پہاڑ کی مبارک چوٹی کو عزت ہے۔ زیتون کی ہری ٹہنی کو جو وفادار کبوتر کی چونچ میں وصل کے پیغام کی طرح پہنچی، جو کچھ برکت ہے تیری ہی بدولت ہے۔

    اے آسمانوں کی روشنی اور اے ناامیدوں کی تسلی، امید! تیرے ہی شاداب اور سر سبز باغ سے ہر ایک محنت کا پھل ملتا ہے۔ تیرے ہی پاس ہر درد کی دوا ہے۔ تجھی سے ہر ایک رنج میں آسودگی ہے۔ عقل کے ویران جنگلوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھکا ہوا مسافر تیرے ہی گھنے باغ کے سر سبز درختوں کے سایہ کو ڈھونڈتا ہے۔ وہاں کی ٹھنڈی ہوا، خوش الحان جانوروں کے راگ، بہتی نہروں کی لہریں اس کے دل کو راحت دیتی ہیں۔ اس کے مرے ہوئے خیالات کو پھر زندہ کرتی ہیں۔ تمام فکریں دل سے دور ہوتی ہیں اور دور دراز زمانہ کی خیالی خوشیاں سب آ موجود ہوتی ہیں۔

    دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے۔ اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے۔ ہاتھ کام میں اور دل بچے میں ہے اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سو رہ، اے میرے دل کی کونپل سو رہ، بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آنے پاوے، تیری ٹہنی میں کوئی خار کبھی نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آوے، کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی تو نہ دیکھے، سو رہ میرے بچے سو رہ، میری آنکھوں کے نور اور میرے دل کے سرور میرے بچے سو رہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہوگا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہوگی، تیری شہرت، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو ہم سے کرےگا آخر کار ہمارے دل کو تسلی دے گی۔ تیری ہنسی ہمارے اندھیرے گھر کا اجالا ہوگی۔ تیری پیاری پیاری باتیں ہمارے غم کو دور کریں گی۔ تیری آواز ہمارے لیے خوش آیند راگنیاں ہوں گی، سو رہ میرے بچے سو رہ۔ اے ہماری امیدوں کے پودے سو رہ۔

    بولو جب اس دنیا میں ہم تم سے جدا ہو جاویں گے تو تم کیا کرو گے۔ تم ہماری بے جان لاش کے پاس کھڑے ہو گے۔ تم پوچھو گے اور ہم کچھ نہ بولیں گے۔ تم روؤ گے اور ہم کچھ نہ رحم کریں گے۔ اے میرے پیارے رونے والے! تم ہمارے ڈھیر پر آکر ہماری روح کو خوش کرو گے۔ آہ ہم نہ ہوں گے اور تم ہماری یادگاری میں آنسو بہاؤ گے۔ اپنی ماں کا محبت بھرا چہرہ، اپنے باپ کی نورانی صورت یاد کرو گے۔ آہ ہم کو یہی رنج ہے کہ اس وقت ہماری محبت یاد کر کر تم رنجیدہ ہو گے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ۔ سو رہ میرے بالے سو رہ۔

    یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور معصوم ہنسی سے اپنی ماں کے دل کو شاد کرنے لگا اور امّاں امّاں کہنا سیکھا۔ اس کی پیاری آواز، ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہونچنے لگی۔ آنسوؤں سے اپنی ماں کی آتش محبت کو بھڑکانے کے قابل ہوا۔ پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا۔ رات کو اپنی ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا سبق غم زدہ دل سے سنانے لگا اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا اور اپنے بے گناہ دل، بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہو گئیں۔ اس کے ماں باپ اس معصوم سینہ سے سچی ہمدردی دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اور ہماری پیاری امید تو ہی ہے جو مہد سے لحد تک ہمارے ساتھ رہتی ہے۔

    دیکھو وہ بڈھا آنکھوں سے اندھا اپنے گھر میں بیٹھا روتا ہے۔ اس کا پیارا بیٹا بھیڑوں کے ریوڑ میں سے غائب ہو گیا ہے۔ وہ اس کو ڈھونڈتا ہے پر وہ نہیں ملتا۔ مایوس ہے پر امید نہیں ٹوٹی۔ لہو بھرا دانتوں پھٹا کرتا دیکھتا ہے، پر ملنے سے نا امید نہیں۔ فاقوں سے خشک ہے۔ غم سے زار نزار ہے۔ روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئی ہیں۔ کوئی خوشی اس کے ساتھ نہیں ہے مگر صرف ایک امید ہے جس نے اس کو وصل کی امید میں زندہ اور اس خیال میں خوش رکھا ہے۔

    دیکھ وہ بے گناہ قیدی، اندھیرے کنوئیں میں سات تہ خانوں میں بند ہے۔ اس کا سورج کا سا چمکنے والا چہرہ زرد ہے۔ بے یار و دیار غیر قوم، غیر مذہب کے لوگوں کے ہاتھ میں قید ہے۔ بڈھے باپ کا غم اس کی روح کو صدمہ پہنچاتا ہے۔ عزیز بھائی کی جدائی اس کے دل کو غمگین رکھتی ہے۔ قید خانے کی مصیبت، اس کی تنہائی، اس گھر کا اندھیرا اور اس پر اپنی بے گناہی کا خیال اس کو نہایت رنجیدہ رکھتا ہے۔ اس وقت کوئی اس کا ساتھی نہیں ہے۔ مگر اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید! تجھ ہی میں اس کی خوشی ہے۔

    وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پر کوچ کرتے کرتے تھک گیا ہے، ہزاروں خطرے درپیش ہیں مگر سب میں تقویت تجھ ہی سے ہے۔ لڑائی کے میدان میں جب کہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کا عالم ہوتا ہے، دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرأت ہوتی ہے۔ اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور لڑائی کے بگل کی آواز بہادر سپاہی کے کان میں پہنچتی ہے۔ اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہو کر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے۔ اور جبکہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگینیں اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے۔ اور جب کہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھتا ہے تو اے بہادروں کی قوتِ بازو۔ اور اے بہادری کی ماں۔ تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال ان کے دلوں کو تقویت دیتا ہے۔ ان کا کان نقارہ میں سے تیرے ہی نغمے کی آواز سنتا ہے۔

    وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکر کرتا ہے۔ دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے، ہر وقت بھلائی کی تدبیریں ڈھونڈتا ہے۔ ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے، یگانوں بے گانوں سے ملتا ہے۔ ہر ایک کی بول چال میں اپنا مطلب ڈھونڈتا ہے۔ مشکل کے وقت ایک بڑی مایوسی سے مدد مانگتا ہے۔ جن کی بھلائی چاہتا ہے انہیں کو دشمن پاتا ہے۔ شہری وحشی بتاتے ہیں۔ دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں۔ عالم فاضل کفر کے فتووں کا ڈر دکھاتے ہیں۔ بھائی بند عزیز اقارب سب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہو رہتے ہیں،

    وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں
    بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں​

    ساتھی ساتھ دیتے ہیں مگر ہاں ہاں کر کر محنت اور دل سوزی سے دور رہ کر۔ بہت سی ہمدردی کرتے ہیں، پر کوٹھی کٹھلے سے الگ کر کر۔ دل ہر وقت بے قرار ہے۔ کسی کو اپنا سا نہیں پاتا۔ کسی پر دل نہیں ٹھہرتا۔ مگر اے بے قرار دلوں کی راحت اور اے شکستہ خاطروں کی تقویت۔ تو ہی ہر دم ہمارے ساتھ ہے، تو ہی ہمارے دل کی تسلی ہے، تو ہی ہماری کٹھن منزلوں کی ساتھی ہے۔ تیری ہی تقویت سے ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔ تیرے ہی سبب گوہر مراد کو پاویں گے اور ہمارے دل کی عزیز اور ہمارے مہدی کی پیاری ’’امید‘‘ تو ہمیشہ ہمارے دل کی تسلی رہ۔

    اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید۔ جب کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیاوی حیات کا آفتاب لبِ بام ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں میں گرمی نہیں رہتی۔ رنگ فق ہو جاتا ہے۔ منہ پر مردنی چھاتی ہے۔ ہوا ہوا میں، پانی پانی میں، مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہوتی ہے۔ اس وقت اس زرد چہرے اور آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے ہونٹوں اور بے خیال بند ہوتی ہوئی آنکھوں اور غفلت کے دریا میں ڈوبتے ہوئے دل کو تیری یادگاری ہوتی ہے۔ تیرا نورانی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ تیری صدا کان میں آتی ہے اور ایک نئی روح اور تازہ خوشی حاصل ہوتی ہے اور ایک نئی لازوال زندگی کی جس میں ایک ہمیشہ رہنے والی خوشی ہوگی، امید ہوتی ہے۔

    یہ تکلیف کا وقت تیرے سبب سے ہمارے لیے موسمِ بہار کی آمد آمد کا زمانہ ہو جاتا ہے۔ اس لازوال خوشی کی امید تمام دنیاوی رنجوں اور جسمانی تکلیفوں کو بھلا دیتی ہے اور غم کی شام کو خوشی کی صبح سے بدل دیتی ہے۔ گو کہ موت ہر دم جتاتی ہے کہ مرنا بہت خوف ناک چیز ہے۔ او ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی دوسری دنیا جس میں ہم کو ہمیشہ رہنا ہے جہاں سورج کی کرن اور زمانے کی لہر بھی نہیں پہنچتی۔ تیری راہ تین چیزوں سے طے ہوتی ہے، (۱) ایمان کے توشے۔ (۲) امید کے ہادی اور (۳) موت کی سواری سے۔ مگر ان سب میں جس کو سب سے زیادہ قوت ہے وہ ایمان کی خوبصورت بیٹی ہے جس کا پیارا نام ’’امید‘‘ ہے۔

    لوگ کہتے ہیں کہ بے یقینوں کو موت کی کٹھن گھڑی میں کچھ امید نہیں ہوتی مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیری بادشاہت وہاں بھی ہے۔ قیامت پر یقین نہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ تمام زندگی کی تکلیفوں کا اب خاتمہ ہے اور پھر کسی تکلیف کے ہونے کی توقع نہیں ہے۔ وہ اپنے اس بے تکلیف آنے والے زمانے کی امید میں نہایت بردباری سے اور رنجوں کے زمانے کے اخیر ہونے کی خوشی میں نہایت بشاشت سے یہ شعر پڑھتا ہوا جان دیتا ہے،

    بقدر ہر سکوں راحت بود بنگر تفاوت را
    دویدن، رفتن، استادن، نشتن، خفتن و مردن

    (از مقالاتِ سر سید، جلد چہارم)​

  • ڈاکٹر وزیر آغا: ایک نظریہ ساز تخلیق کار

    ڈاکٹر وزیر آغا: ایک نظریہ ساز تخلیق کار

    ڈاکٹر وزیر آغا کا اردو ادب میں تنقید کے میدان میں نفسیاتی مباحث اور انشائیہ نگاری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ اصنافِ ادب کو نیا آہنگ دیا۔ 7 ستمبر 2010ء کو ڈاکٹر وزیر آغا وفات پا گئے تھے۔

    سینئر صحافی، براڈ کاسٹر اور محقق عارف وقار وزیر آغا کی وفات پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں، اُردو کے بزرگ قلم کار مولانا صلاح الدین احمد جو اپنے ادبی پرچے کے ذریعے ہندوستان بھر کے نوجوان ادیبوں کی تربیت کر رہے تھے اور کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، کنہیا لال کپور جیسے نثر نگاروں کے ساتھ ساتھ ن م راشد، فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے شعرا کو بھی منظرِ عام پر لا چکے تھے، اُن کی نگاہِ جوہر شناس جب وزیر آغا پر پڑی تو فوراً انھیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ اقتصادیات، نفسیات اور فلسفے کے جو مضامین کبھی اُردو میں زیرِ بحث نہیں آئے تھے، ان کے لیے اپنے پرچے کے صفحات کھول دیے۔

    وزیر آغا نے مسرت کی نوعیت، مسرت کی اقسام اور حصولِ مسرت کے ذرائع پر جو کچھ لکھا مولانا نے اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ اسے ایک کتابی شکل میں شائع بھی کرایا اور یوں نوجوان وزیر آغا کی کتاب "مسرت کی تلاش” منظرِ عام پر آئی۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ تو نوجوان قلم کار کی جولانیِ طبع کا صرف ایک پہلو تھا۔ اُن کا اصل جوہر اُردو شاعری کے اُن تجزیاتی مضامین میں کھلا جو "ایک مثال” کے عنوان سے ماہنامہ ادبی دنیا میں سلسلہ وار شائع ہوئے۔ 1960 میں مولانا صلاح الدین احمد نے انھیں اپنے جریدے کی مجلسِ ادارت میں شامل کر لیا اور وہ تین برس تک ساتھی مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔

    عارف وقار اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں: سن پچاس کے عشرے میں انھوں نے مسرت کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے دنیا بھر کے مزاحیہ ادب کا مطالعہ بھی کیا اور انھی دنوں اُن کا تحقیقی کارنامہ اردو ادب میں طنز و مزاح سامنے آیا جسے 1956 میں پنجاب یونیورسٹی نے ایک اوریجنل تحقیقی کام قرار دیتے ہوئے وزیر آغا کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری پیش کی۔

    اُردو ادب کی تاریخ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا نام دو حیثیتوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ایک تو انھوں نے اردو ادب میں انشائیے کی صنف کو فروغ دینے کے لیے ایک تحریک کی سطح پر کام کیا اور دوسرے انھوں نے اُردو تنقید کو جدید نفسیاتی مباحث سے روشناس کرایا۔

    اوراق ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک ادبی رسالہ تھا جسے اردو دنیا میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے متعلق عارف وقار لکھتے ہیں: انشائیے کی ترویج میں اُن کے ادبی رسالے اوراق نے انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں۔ وزیر آغا نہ صرف خود انشائیہ لکھتے تھے بلکہ نوجوان ادیبوں کو اس کی ترغیب بھی دیتے تھے اور اُن کے معیاری انشائیے اپنے رسالے میں باقاعدگی سے شائع کرتے تھے۔ بہت سے ادیبوں کو یہ شکوہ رہا کہ وزیر آغا نے ان کی تحریر کو بطور انشائیہ قبول نہیں کیا بلکہ مزاحیہ مضمون کا عنوان دے کر شائع کیا۔

    اس سلسلے میں وزیر آغا کا موقف انتہائی واضح تھا۔ وہ ہر ہلکی پھلکی یا مزاحیہ تحریر کو انشائیہ قرار دینے پر تیار نہ تھے کیوں کہ اُن کے بقول انشائیے میں ایک خاص طرح کی” ذہانت کی چمک” ہونا ضروری تھا۔

    وزیر آغا کا تعلق سرگودھا کے علمی اور ادبی گھرانے سے تھا جہاں وہ 18 مئی 1922ء کو پیدا ہوئے۔ فارسی کی تعلیم والد سے اور پنجابی زبان اپنی والدہ سے سیکھی۔ وزیر آغا نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ 1956ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ادبی صحافت کے ساتھ تحقیقی اور تخلیقی کاموں‌ میں مشغول رہے۔

    تین برس تک مشہور جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر کے طور پر کام کیا اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کی بنیاد رکھی۔

    اردو ادب میں انشائیہ نگاری کو خاص اہمیت اور مقام دیا جاتا ہے اور یہ صنف بلندیٔ خیال، نکتہ آفرینی، اسلوب اور معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس صنف کو خوب سنوارا اور لاجواب انشائیے تحریر کیے۔ انھوں نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کی۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ اردو میں مغربی انشائیوں کے خطوط پر انشائیہ کو استوار کرنے کی کوششیں اس وقت پر منظرِ عام پر آئیں جب ڈاکٹر وزیر آغا نے ماہنامہ اوراق کے ذریعے انشائیوں کے فروغ کا خصوصی اہتمام کیا نیز مضامین اور انشائیہ لکھ کر اسے طنزیہ اور مزاحیہ مضمون سے الگ ایک صنف کے طور پر متعارف کروایا۔ 1950 سے 1960 کے درمیان وزیر آغا نے مغربی انشائیہ نگاروں کی تحریروں کو پیشِ نظر رکھ کر نہ صرف انشائیے تحریر کیے بلکہ اسے ایک ادبی تحریک کی شکل دی۔

    انشائیہ کی تعریف وزیر آغا اس طرح بیان کرتے ہیں: ’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کر تے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘

    مشتاق احمد یوسفی نے ڈاکٹر وزیر آغا کے فنِ انشائیہ نگاری پر لکھا ہے: ” وزیر آغا کا انشائیہ ان کی رنگا رنگ شخصیت کا عکسِ جمیل ہے۔ ان کی طبیعت میں جو دل آویزی، نرمی، رچاؤ اور شائستگی ہے۔ زمین کے رشتوں کو انہوں نے جس طرح چاہا اور نبھایا ہے وہ ایک ایک سطر سے جھلکتا ہے۔“

    ڈاکٹر وزیر آغا نے تنقید اور تحقیقی مضامین کی صورت میں اردو ادب کو کئی قابلِ ذکر اور یادگار کتب دیں جن میں تنقیدی مضامین نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے شامل ہیں۔ دیگر کتابوں میں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستانِ محبّت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا نے شاعری بھی کی اور ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے۔ شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نرد بان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی ان کے چند شعری مجموعوں کے نام ہیں۔

    اردو کے ممتاز نقّاد، انشائیہ نگار، شاعر اور محقّق ڈاکٹر وزیر آغا کو ضلع سرگودھا میں ان کے آبائی گاؤں وزیر کوٹ کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کی ایک خودنوشت بھی شایع ہوچکی ہے۔

  • جنگیں حصولِ مقصد کا نتیجہ خیز ذریعہ نہیں!

    جنگیں حصولِ مقصد کا نتیجہ خیز ذریعہ نہیں!

    انسان کی تاریخ بہ ظاہر جنگوں کی تاریخ نظر آتی ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے یہ جنگ ایک زمانی ضرورت ہوسکتی تھی، مگر بیسویں صدی کے بعد انسانی زندگی میں جو انقلاب آیا ہے، اس کے بعد جنگ ایک غیر ضروری چیز بن چکی ہے۔

    اب جنگ ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) کام ہے۔ وہ سب کچھ، جس کو حاصل کرنے کے نام پر جنگ کی جاتی تھی، وہ اب جنگ کے بغیر زیادہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قدیم پُرتشدد ذرائع کے مقابلے میں جدید پُرامن ذرائع کہیں زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز حیثیت رکھتے ہیں۔

    قدیم زمانے میں اتنی زیادہ جنگ کیوں ہوتی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حوصلہ مند لوگوں کو اپنے حوصلے کے تسکین کے لیے اس کے سوا کوئی دیگر راستہ نظر نہیں آتا تھا کہ وہ لڑ کر اپنا مقصد حاصل کریں۔ وہ جنگ اس لیے کرتے تھے کہ ان کے سامنے بہ ظاہر جنگ کا کوئی متبادل (alternative) موجود نہ تھا۔

    اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں دو ایسی چیزیں موجود تھیں جو لوگوں کے لیے جنگ کو گویا ناگزیر بنائے ہوئے تھیں: ایک، خاندانی بادشاہت، اور دوسری، زرعی اقتصادیات۔

    قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے خاندان پر مبنی بادشاہت کا طریق چلا آ رہا تھا۔ اس نظام کے بنا پر ایسا تھا کہ کسی سیاسی حوصلہ مند کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کی تسکین کی صرف ایک ہی صورت تھی؛ یہ کہ وہ موجود خاندانی حکم ران کو قتل یا معزول کر کے اس کے تخت پر قبضہ کر لے۔ اس طرح ایک خاندان کے بعد دوسرے خاندان کی حکومت کی حکومت کا نظام ہزاروں سال تک دنیا میں چلتا رہا۔

    موجودہ زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تاریخ میں ایسے انقلابات پیش آئے جن کے نتیجے میں خاندانی بادشاہت کا نظام ختم ہو گیا اور دنیا میں جمہوری حکم رانی کا نظام قائم ہوا۔

    اب سیاسی حکم ران دَوری انتخابات (periodical election) کے ذریعے چُنے جانے لگے۔ اس طرح ہر آدمی کے لیے اپنے سیاسی حوصلے کے نکاس (outlet) کا موقع مل گیا، ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ پُرامن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کوشش کرے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح مقرّر میعاد (term) کے لیے سیاسی اقتدار تک پہنچ جائے۔

    دوسرا بنیادی فرق وہ ہے جو اقتصادیات کے میدان میں ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے ایسا تھا کہ اقتصادیات کا سارا انحصار زمین پر مبنی ہوتا تھا۔ جس کے پاس زمین ہے وہ صاحبِ مال ہے، اور جس کے پاس زمین نہیں وہ صاحبِ مال بھی نہیں۔ مزید یہ کہ قدیم سیاسی نظام کے تحت، زمین کا اصل مالک بادشاہ ہوتا تھا، یا وہ جس کو بادشاہ جاگیر یا عطیہ کے زمین دے دے۔

    ایسی حالت میں کسی اقتصادی حوصلہ مند کو اپنے حوصلے کی تکمیل کی ایک ہی صورت نظر آتی تھی؛ یہ کہ وہ مالکِ زمین سے لڑ کر اس سے زمین چھیننے اور اس پر قابض ہو کر اپنے اقتصادی حوصلے کی تسکین حاصل کرے۔ قدیم زمانے میں اس اعتبار سے کسی آدمی کے لیے بہ ظاہر صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا: یا تو مستقل اپنی غربت پر قانع رہے، یا جنگ کر کے زمین پر قبضہ حاصل کرے۔

    موجودہ زمانے میں اس پہلو سے ایک نیا واقعہ ظہور میں آیا ہے جس کو صنعتی انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس جدید انقلاب نے صورتِ حال کو یک سَر بدل دیا۔ اب ہزاروں بلکہ اَن گنت ایسے نئے اقتصادی ذرائع وجود میں آ گئے ہیں جن کو استعمال کر کے ہر آدمی بڑی سے بڑی کمائی کر سکتا ہے۔ زمین کا مالک بنے بغیر وہ دولت کا مالک بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی زیادہ بڑی ہے کہ اس کو بہ جا طور پر معاشی انفجار (economic explosion) کہنا درست ہو گا۔

    یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے سیاسی اور معاشی نظام کو آخری حد تک بدل ڈالا ہے۔ جو کچھ پہلے بہ ظاہر نا ممکن تھا، وہ اب پوری طرح ممکن ہو چکا ہے۔ پہلے جو چیز خیالی نظر آتی تھی، وہ اب واقعہ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی اجارہ داری کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

    اس انقلابی تبدیلی کے بعد اب کسی کے لیے جنگ کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ کوئی شخص جس اقتصادی یا سیاسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو وہ جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے، پُرامن طور پر حاصل کر سکتا ہے۔

    ایسی حالت میں جنگ کرنے کی کیا ضرورت۔ اب جنگ اور تشدّد کا طریقہ کسی آدمی کے لیے اپنی بے شعوری کا اعلان تو ہو سکتا ہے۔ مگر وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی نتیجہ خیز ذریعہ نہیں۔

    (از قلم: مولانا وحیدُ الدّین خان)

  • افسوس! ہم نہ ہوں گے!

    دنیا کی سب محفلیں تغیراتِ زمانہ سے درہم و برہم ہو جاتی ہیں مگر خدا کی مرتب کی ہوئی محفل جس میں انقلاباتِ عالم سے ہر روز ایک نیا لطیف پیدا ہوتا رہتا ہے ہمیشہ آباد رہی اور یونہی قیامت تک جمی رہے گی۔

    یہ وہ محفل ہے جس کی رونق کسی کے مٹانے سے نہیں مٹ سکتی۔ وہ پُرغم واقعات اور وہ حسرت بھرے سانحے جن سے ہماری محفلیں درہم و برہم ہو جایا کرتی ہیں۔ ان سے بزمِ قدرت کی رونق اور دو بالا ہو جاتی ہے۔ ہماری صحبت کا کوئی آشنا حرماں نصیبی میں ہم سے بچھڑ کے مبتلائے دشتِ غربت ہو جاتا ہے۔ تو برسوں ہماری انجمنیں سونی پڑی رہتی ہیں۔ ہمارے عشرت کدوں کا کوئی زندہ دل نذرِ اجل ہو جاتا ہے تو سال ہا سال کے لیے ماتم کدے ہو جاتے ہیں۔ مگر جب ذرا نظر کو وسیع کرو اور خاص صدمات کو خیال چھوڑ کے عالم کو عام نظر سے دیکھو تو اس کی چہل پہل ویسی ہی رہتی ہے بلکہ نئی نسل کے دو چار پر جوش زندہ دل ایسے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ دنیا کی دل چسپیاں ایک درجہ اور ترقی کر جاتی ہیں۔ ایک شاعر کا قول ہے۔

    دنیا کے جو مزے ہیں ہرگز یہ کم نہ ہوں گے
    چرچے یہی رہیں گے افسوس! ہم نہ ہوں گے

    جس نے کہا ہے بہت خوب کہا ہے۔ بزمِ قدرت ہمیشہ یونہی دل چسپیوں سے آباد رہے گی۔ ہاں ہم نہ ہوں گے اور ہماری جگہ زمانہ ایسے اچھے نعم البدل لا کے بٹھا دے گا کہ ہماری باتیں محفل والوں کو پھیکی اور بے مزہ معلوم ہونے لگیں گی۔
    الغرض یہ محفل کبھی خالی نہیں رہی۔ کوئی نہ کوئی ضرور رہا۔ جو اس بزم کی رونق کو ترقی دیتا رہا۔ اسی مقام سے یہ نازک مسئلہ ثابت کیا جاتا ہے کہ زمانہ کی عام رفتار ترقی ہے۔ ایک قوم آگے بڑھتی اور دوسری پیچھے ہٹتی ہے۔ تنزل پذیر قوم کے لوگ اپنے مقام پر جب اطمینان سے بیٹھتے ہیں۔ زمانہ اور ملک کی شکایتوں کا دفتر کھول دیتے ہیں اور ان کو دعویٰ ہوتا ہے کہ زمانہ تنزل پر ہے۔ مگر اصل پوچھیے تو تنزل صرف ان کی غفلتوں اور راحت طلبیوں کا نتیجہ ہے۔ دنیا اپنی عام رفتار میں ترقی ہی کی طرف جا رہی ہے۔

    اے وہ لوگو! جو شکایتِ زمانہ میں زندگی کی قیمتی گھڑیاں فضول گزار رہے ہو۔ ذرا بزمِ قدرت کو دیکھو تو کس قدر دل کش اور نظر فریب واقع ہوئی ہے۔ تمہارے دل میں وہ مذاق ہی نہیں پیدا کہ ان چیزوں کی قدر کر سکو۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ انسانی جوش کو بڑھاتی ہیں اور طبیعت میں وہ مفید حوصلے پیدا کرتی ہیں جن سے ہمیشہ نتیجے پیدا ہوئے اور پیدا ہوں گے۔ اندھیری رات میں آسمان نے اپنے شب زندہ دار دوستوں کی محفل آراستہ کی ہے۔ تارے کھلے ہوئے ہیں۔ اور اپنی بے ترتیبی اور بے نظمی پر بھی عجب بہار دکھا رہے ہیں۔ دیکھو ان پیارے خوش نما تاروں کی صورت پر کیسی زندہ دلی اور کیسی تری و تازگی پائی جاتی ہے؟

    پھر یکایک مہتاب کا ایسا حسین اور نورانی مہمان مشرق کی طرف سے نمودار ہوا اور یہ گورے گورے تارے اپنی بے فروغی پر افسوس کر کے غائب ہونے لگے۔ ماہتاب آسمان کے نیلگوں اطلسی دامن میں کھیلتا ہوا آگے بڑھا۔ وہ اگرچہ ہماری طرح دلِ داغ دار لے کے آیا تھا لیکن خوش خوش آیا۔ اور ہمارے غربت کدوں کو روشن کر کے بزم قدرت میں نہایت لطیف اور خوش گوار دل چسپیاں پیدا کر کے خوشی خوشی صحنِ فلک کی سیر کرتا ہوا مغرب کی طرف گیا اور غائب ہو گیا۔
    ابھی آسمان کو اس مہمان کا انتظار تھا۔ جس سے نظام عالم کا سارا کاروبار چل رہا ہے۔ اور جس کی روشنی ہماری زندگیوں کی جان اور ہماری ترقیوں کا ذریعہ ہے۔ آفتاب بڑی آب و تاب سے ظاہر ہوا۔ رات کا خوب صورت اور ہم صحبت چاند اپنے اترے ہوئے چہرہ کو چھپا کے غائب ہو گیا۔ اور آسمان کا اسٹیج بزمِ قدرت کے دل فریب ایکٹروں سے خالی ہو گیا۔

    خوابِ شب کا مزہ اٹھانے والوں کی آنکھیں کھل کھل کے افق مشرق کی طرف متوجہ ہوئی ہیں۔ آفتاب کی شعاعیں آسمان کے دور پر چڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کے ساتھ مرغانِ سحر کے نغمہ کی آواز کانوں میں آئی ہے۔ اور آنکھیں مل کے دیکھا ہے تو ہماری نظر کی خیرگی نہ تھی۔ شمع حقیقت میں جھلملا رہی ہے۔ یک بیک وفور طرف نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ گھنٹے بجے ہیں۔ چڑیاں چہچہائیں۔ موذنوں نے اذانیں دیں۔ اور تمام جانوروں کی مختلف آوازوں نے مل کر ایک ایسا ہمہما پیدا کر دیا ہے کہ نیچر کی رفتار میں بھی تیزی پیدا ہو گئی۔ باغ نیچر کے چابک دست کاری گر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے۔ نسیم سحر اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آئی اور ضابط و متین غنچوں کے پہلو گدگدانے لگی۔ الغرض قدرت نے اپنی پوری بہار کا نمونہ آشکارا کر دیا۔

    (انشائیہ از قلم مولوی عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی)

  • کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟

    کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟

    راستی، راستائی اور راستینی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ ایک پُر آشوب زمانہ ہے۔ دلوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ دلیلوں پر درہمی کی اُفتاد پڑی ہے اور دانش پر دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں۔

    نیکی اور بدی اس طرح کبھی خلط ملط نہ ہوئی تھیں۔ اِدھر یا اُدھر، جدھر بھی دیکھو، ایک ہی سا حال ہے۔ تیرہ درونی نے اپنی دستاویز درست کی ہے اور کجی، کج رائی اور کج روی کا دستور جاری کیا گیا ہے۔ جو سمجھانے والے تھے، وہ اپنے افادات کی مجلسوں میں بُرائی سمجھا رہے ہیں۔ بُرائی سوچی جا رہی ہے اور بُرا چاہا جا رہا ہے۔ خیال اور مقال کی فضا اس قدر زہر ناک کبھی نہ ہوئی تھی۔ انسانی رشتے اتنے کم زور کبھی نہ پڑے تھے۔

    ایک اور فتنہ برپا ہوا ہے، وہ ادھوری سچائیوں کا فتنہ ہے۔ اس نے انسانیت کی صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک آنکھ، ایک کان، اور ایک ٹانگ کی انسانیت زندگی کے حُسنِ تناسب کا نادر نمونہ ٹھہری ہے۔ یہی وہ انسانیت ہے جس کے باعث اس دور میں ہماری تاریخ کے سب سے بدترین واقعات ظہور میں آئے ہیں۔

    گمان گزرتا ہے کہ یہ انسانوں کی نہیں، نسناسوں کی دنیا ہے اور ہم سب نسناس ہیں، جسے دیکھو وہ غیر انسانی لہجے میں بولتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔

    سماعتوں پر شیطانی شطحیات نے قبضہ جما لیا ہے۔ یہاں جو بھی کان دھر کر سُن رہا ہے، وہ کانوں کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سو، چاہیے کہ ایسے میں نیک سماعتیں اعتزال اختیار کریں۔ اپنی نیتوں کی نیکی پر سختی سے قائم رہو اور اس کی ہر حال میں حفاظت کرو کہ تمہارے پاس یہی ایک متاع باقی رہ گئی ہے اور یہی تمہاری سب سے قیمتی متاع بھی ہے۔

    نفرتوں کی گرم بازاری اور محبتوں کی قحط سالی میں دکھی انسانیت کے دکھ اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس بیمار کے تیمار داروں اور غم گساروں کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اچھائی اور برائی میں ایک عجیب معاملت ہوئی ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ناموں کا آپس میں تبادلہ کر لیا ہے۔ اب ہر چیز اپنی ضد نظر آتی ہے۔ علم، جہل پر ریجھ گیا تھا اور جہل، علم کے خطاب پر بُری طرح لوٹ پوٹ تھا۔ سو، دونوں ہی نے ایثار سے کام لیا۔

    انسان کو اس دور میں وہ وہ منفعتیں حاصل ہوئی ہیں جن پر ہر دور کا انسان رشک کرے۔ پر اس دور کا خسارہ بھی اس قدر ہی شدید ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کے اس انبوہ میں خود انسان ناپید ہوگیا ہے۔ جس مزاج اور جس قماش کی دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس کا حال تو یہی ہے اور یہی ہونا بھی تھا۔

    کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟ اندرائن کے پیڑ سے کیا کبھی انگور کے خوشے بھی توڑے گئے ہیں؟

    (انشائیہ، از جون ایلیا)

  • "آپ کے اندر ایک خلا ہے!”

    "آپ کے اندر ایک خلا ہے!”

    آپ کا جسم ایک مجموعہ ہے۔ آپ کا کچھ حصہ آپ کی ماں کی طرف سے آیا ہے، کچھ حصہ باپ کی طرف سے اور باقی سب کچھ کھانے پینے سے۔ یہ آپ کا کُل جسم ہے۔

    تلاش کریں کہ دماغ میں تو کوئی ذات نہیں ہے؟ اگر آپ بہت گہرائی میں چلے جائیں تو دیکھیں گے کہ آپ کی پہچان ایک پیاز کی طرح ہے۔ آپ ایک چھلکا اتاریے تو دوسرا آجائے گا۔ دوسرا اتاریے، تیسرا آجائے گا۔ اور آخر کار کچھ بھی نہیں بچے گا۔

    تمام چھلکے اتار دیجیے، اندر سے کچھ بر آمد نہیں ہوگا۔ جسم اور دماغ پیاز کے مانند ہیں۔ آپ دونوں کو چھیلتے جائیے تو اندر سے کچھ نہیں نکلے گا۔ سوائے ایک مہیب اور لا محدود خلا کے۔ جس کو بدھا نے ”شنیہ“ یعنی صفر کہا ہے۔

    اس صفر کو، اس مہیب خلا کو فتح کرنا خوف کو جنم دیتا ہے۔ خوف اصل میں یہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم استغراقی سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں باتیں ضرورت کرتے ہیں، لیکن اس سمت میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے۔

    آپ کو پکا یقین ہے کہ وہاں ایک لا محدود خلیج ہے، مگر اس خوف سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ آپ جو چاہیں کرلیں، خوف باقی رہے گا، جب تک آپ اس پر قابو نہیں پالیتے۔ بس ایک یہی طریقہ ہے۔

    اگر ایک بار آپ اپنے عدم کو فتح کرلیں۔ جب ایک بار آپ کو علم ہوجائے کہ آپ کے اندر ایک خلا ہے، ایک صفر ہے۔ تب آپ کو کوئی خوف نہیں رہے گا۔

    اس کے بعد خوف باقی نہیں رہ سکتا۔ کیوں کہ یہ صفر، یہ خلا تباہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خلیج پاٹی نہیں جاسکتی۔ وہ جس کو موت آسکتی تھی اب باقی نہیں، اس کی حیثیت پیاز کے چھلکے جیسی تھی۔

    (گرو رجنیشں، ”مخزنِ راز“ سے انتخاب)

  • یہ کیسے سر پھرے لوگ ہیں؟

    یہ کیسے سر پھرے لوگ ہیں؟

    دنیا بڑی باوری پتّھر پُوجن جائے
    گھر کی چاکی کوئی نہ پُوجے، جس کا پِیسا کھائے

    عجیب ہے یہ دنیا اور عجیب تر ہیں اس کے باسی۔ لیکن اسی انبوہ کثیر میں کچھ سرپھرے نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسے نمایاں کہ پھر جدھر دیکھیے وہی نظر آتے ہیں، ایسے سرپھرے کہ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔ کہلاتے وہ گم راہ ہیں، اور اسی لیے قدامت پسندوں کی نظر میں راندہ درگاہ ہوتے ہیں، لیکن راست باز تو وہی ہوتے ہیں۔

    عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے لوگ، زمین کا نمک۔ ایسے جو انسانیت کو اپنا کنبہ کہتے ہیں، ان کا مذہب تکریم انسانیت ہوتا ہے اور وہ ان کے حقوق کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ وہ کوئی جوہڑ نہیں ہوتے، نہ ہی کوئی جھیل اور دریا، وہ تو سمندر ہوتے ہیں، محبتوں کا سمندر، ان کی لغت میں قوم، مذہب، قبیلہ، خطہ نہیں ہوتا۔ عالم گیر فکر انسانیت کے علم بردار۔ یہ جو خود فراموشی ہے، یہ ویسے ہی نہیں مل جاتی، بہت کچھ اور کبھی کبھی تو اپنا سب کچھ قربان کردینے کے صلے میں ملتی ہے، ہر کس و ناکس کو نہیں کہ یہی تو جوہرِِ انسانیت ہے کہ جب تک خود کو فراموش نہ کیا جائے، کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔

    صوفیا اس منزل کو ”نفی ذات“ کہتے ہیں اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔ خیر، ہم کوئی اور بات کر رہے تھے، تو وہ جو کہا گیا ہے ناں کہ لوگوں نے آوازے کسے، طعنے دیے، فتوے جڑے، ایسے سخت جان کہ وہ سخت جاں ہنستا رہا، ہنستا رہا اور بس اپنی طے کردہ منزل کے راستے پر، خارزار راستے پر چلتا رہا، چلتا رہا۔ آبلہ پائی جیسا لفظ تو ان کی کفالت ہی نہیں کرتا، وہ تو مجسم مصلوب ہوتے ہیں، سنگ زنی میں بھی رقصاں، اور سنگ کا کیا صاحب، وہ تو پتھر ہیں سو اچھالا گیا پتھر کہیں سے بھی مضروب کرسکتا ہے، اپنی سولی آپ اٹھائے ہوئے مصلوب، ”سرِ بازار می رقصم“ کا گیت گاتے بس اپنے راستے پر رقص بسمل کرتے ہوئے رواں اور دواں۔

    عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے سرپھرے لوگ، زمین کا نمک…..ایسے جو انسانوں کو دو طرح سے دیکھتے ہیں۔ یہ طارق عزیز کس وقت یاد آئے:

    منڈھ قدیم توں دنیا اندر، دو قبیلے آئے نیں
    ہک جنہاں نے زہر نے پیتے، ہک جنہاں نے پیائے نیں

    ہاں ایسا ہی ہے، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ ظالم اور اس کے سامنے مظلوم کے حق میں نغمہ سرا، اور آپ تو جانتے ہی ہیں ناں جب کوئی مظلوم کے حق میں نغمہ سرا ہو، تو حُسین بنتا ہے، کربلا کا حسین اور پھر اس کے قبیلے کے لوگ نوک سناں پر بھی مظلوم کا ساتھ دیتے ہوتے نغمہ سرا ہوتے ہیں، عجیب قبیلہ ہے یہ، اچھا تو آپ جانتے ہیں یہ سب کچھ……!

    تو پھر یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ جب بھی اور جہاں بھی اور کوئی بھی مظلوم کا ساتھ دے گا، انہیں گلے لگائے گا، انہیں زمین سے اٹھائے گا اور اپنا حق مانگنے نہیں، چھیننے پر اکسائے گا تو وہ زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار تو ہوگا ہی، یہ دوسری بات کہ ان دیوتاؤں کے نام الگ الگ ہوں گے، ہر دور میں بدلتے ہوئے نام، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے، کوئی مذہبی، کوئی ریاستی اور کوئی………
    پھر انجام کیا ہوتا ہے، اس کے سوا کیا کہ:

    ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
    میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

    عبداللطیف ابُوشامل کے مضمون سے چند سطور