Tag: اردو انشائیے

  • تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامت…

    تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامت…

    انسان، انسان کے ساتھ مل کر رہے تو ملا رہتا ہے، خوش رہتا ہے، لیکن کبھی کبھار ایسی کیفیات بھی آجاتی ہیں کہ سب کے ساتھ رہتا سہتا، سب کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا پھر بھی تنہا رہ جاتا ہے۔

    بات کسی سے کرتا ہے، دھیان کسی طرف رہتا ہے۔ بیٹھا کہیں ہوتا ہے، دھیان کہیں رہتا ہے۔ سامنے کوئی ہوتا ہے اور ذہن کے پردے پر تصویر کسی اور کی ابھرتی ہے۔ یہ تنہائی کے دکھ کی ابتدائی علامت ہوتی ہے۔

    پھر جب انسان کسی ایسے سے بچھڑ رہا ہوں جس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے خواب سے زیادہ حسین، سپنوں سے زیادہ سہانے رہے ہیں اور جس کی بات بات پہ دل کے تاروں میں جلترنگ بجتا رہا ہو تو یہ بچھڑنا قیامت کا بچھڑنا ہوتا ہے۔ تب بیتے ہوئے سارے لمحے، گزری ہوئی ساری باتیں، کہے ہوئے سارے بول آپس میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں، نمی کا غبار بن کر آنکھوں میں اتر آتے ہیں۔ انسان بھری محفل میں تنہا رہ جاتا ہے۔ سب کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اکیلا رہ جاتا ہے۔

    اکیلے پن کا یہ دکھ بڑا اذیت ناک ہوتا ہے۔ انسان کو کچھ دیکھنے دیتا ہے نہ سوچنے دیتا ہے۔ بس اندر ہی اندر چاٹتا رہتا ہے۔ موسم کی آنکھ مچولیاں ہوں یا پھولوں اور کلیوں کی مسکراہٹیں، خزاؤں کے رنگ ہوں یا بہار کی شوخیاں، برسات کی پن پن ہو یا دمکتے سورج کی لش لش، اس کی آنکھوں میں اتری نمی کا غبار اسے رنگوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ بس وہ اپنے اندر قید ہو جاتا ہے اور اس کی ذات کے قفل کی چابی بچھڑنے والا اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

    (معروف مزاح نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف کرنل (ر) اشفاق حسین کی تحریر سے اقتباس)

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)