Tag: اردو ا دب

  • "اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے!”

    "اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے!”

    عام آدمی کے لیے شاید یہ امر تعجب خیز ہو کہ فن کار یا اہلِ قلم کی اکثریت اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور تخلیقی کام پر بہت کم معاوضہ یا محنتانہ پاتے رہے ہیں۔ آج اگرچہ صورتِ‌ حال پہلے جیسی نہیں، لیکن خالص ادب تخلیق کرنے والوں کو چھوڑ کر اب آرٹسٹ یا کانٹینٹ رائٹر کو باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے، ؒمگر یہ سلسلہ بھی بڑے اور مشہور ناموں تک محدود ہے۔

    ادیب و شعراء کو کل بھی اکثر ادارے، مدیر اور ناشر وغیرہ چھوٹے اور کم معروف ناموں کو طے کردہ معمولی رقم کی بروقت ادائیگی میں ‘ناکام’ ہوجاتے تھے اور آج بھی قلم کی مزدوری کرنے والا ‘مفت’ کام کیے جارہا ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب آج کی طرح سوشل میڈیا، ٹیلی ویژن چینل اور دوسرے ذرایع ابلاغ یا پلیٹ فارم نہیں‌ تھا جس پر کوئی فن کار یا ادیب و شاعر اپنے ساتھ ناانصافی کا شور مچاتا، جب کہ آج کوئی اوسط درجے کا فن کار بھی فیس بک پوسٹ یا ٹویٹ کر دے اور عوام میں بات پھیل جائے تو ادارہ یا کوئی فرد اپنی ساکھ بچانے کے لیے فوراً اس کا حق دے کر معاملہ ختم کرنا چاہے گا۔ یہاں ہم معروف ہندوستانی قلم کار دلیپ سنگھ کی ایک تحریر سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جس میں طنز و مزاح کے پیرائے اسی حقیقت کو عیاں کیا گیا ہے۔

    دلیپ سنگھ کی پیدائش 1932ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم کے بعد ہندوستان میں سکونت اختیار کی۔ دلیپ سنگھ بھارت میں‌ وزارتِ خارجہ سے منسلک رہے اور ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ وہ 8 اگست 1994 کو نئی دہلی میں وفات پاگئے تھے۔

    دلیپ سنگھ کی کتاب "سارے جہاں کا درد” کے دیباچہ سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    "1954 میں جب میرا پہلا طنزیہ مضمون اردو کے ایک مؤقر رسالہ میں شائع ہوا تو میں دس دن کے بعد معاوضہ لینے کے لیے رسالہ کے دفتر میں پہنچ گیا۔ دفتر میں اس وقت چھ سات آدمی موجود تھے۔ جوں ہی میں نے معاوضہ کا ذکر کیا، دفتر میں موجود لوگوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا، اتنا زوردار کہ مجھے احساس ہوا کہ قہقہہ چھ سات آدمیوں کا نہیں، ساٹھ ستّر آدمیوں کا ہے۔ ان لوگوں کی ہنسی رکی تو مدیر محترم نے مجھے بتایا کہ اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے۔”

    "مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ رواجوں کے اس دیس میں یہ رواج رائج ہونے سے کیسے رہ گیا؟ وضاحت کرتے ہوئے مدیر صاحب نے فرمایا کہ جب مدیر ہی کو تنخواہ نہیں ملتی تو مضمون نگاروں کو معاوضہ کس بات کا؟ جب میں نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ لوگ پھر لکھتے کیوں ہیں؟
    تو کہنے لگے کہ شہرت کی خاطر۔”

    "یوں تو مجھے شہرت حاصل کرنے سے کوئی عذر نہیں تھا لیکن اس سے زیادہ مجھے ان دنوں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت تھی۔ پھر بھی سوچا کہ چلو شہرت تو حاصل کرو، ہو سکتا ہے جب بہت مشہور ہو جاؤں تو لوگ روٹی بھی کھلانے لگیں۔”

    "میں یہ سوچ کر اس رسالہ کے دفتر سے نیچے اترا کہ شاید مجھے دیکھتے ہی قارئین کرام آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔ رسالہ جس میں میرا مضمون چھپا تھا، میری بغل میں تھا۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا تو آنکھوں پر بٹھانا تو درکنار مجھے کوئی اپنی رکشا میں مفت بٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا بھی کہ میں ادیب ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ سیکڑوں ادیب اس بازار میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ میں جوتیاں چٹخاتا گھر کی طرف چل دیا۔”

    "بعد میں، میں نے غور و خوض کی تو پتا چلا کہ اردو کے رسائل کے پڑھے جانے کا عالم یہ ہے کہ اکثر انہیں وہی حضرات پڑھتے ہیں جو ان میں لکھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنا مضمون پڑھنے کے بعد رسالہ سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ ورق گردانی کرنے سے رسالے کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ایسی حالت میں یہ بوقتِ ضرورت کام نہیں آ سکے گا اور سند نہیں بن سکے گا۔”

  • جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    جب دلّی کے ایک غلیل باز حج کو گئے!

    کھیل کا میدان ہو یا اکھاڑا پُھرتی اور جسمانی طاقت کا مظاہرہ یا زور آزمائی آج بھی مختلف شکلوں‌ میں‌ دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ سب فن جیسا درجہ رکھتا تھا اور اس کے ماہر داد و تحسین بٹورتے تھے۔ ایک ڈیڑھ صدی پہلے کے ہندوستان کی بات کریں‌ تو مختلف گھریلو ساختہ اور سادہ ہتھیار شغل اور تفریح‌ کے لیے ہی نہیں‌، جان و مال کی حفاظت اور کسی موقع پر اپنا دفاع کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔

    اردو کے ممتاز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کے مضمون سے یہ اقتباسات اُسی زمانے کے ماہر بنّوٹیوں اور غلیل بازوں‌ سے متعلق ہیں، یہ باتیں اور واقعات دل چسپ بھی ہیں‌ اور ہمارے لیے کسی حد تک حیران کُن بھی۔

    ہندوستان کے ماہر بِنَّوٹ باز سے متعلق دل چسپ قصّہ یہاں‌ پڑھیے

    لکڑی یا بِنَّوٹ کا فن بھی ایک ایسا ہی فن ہے جس کا جاننے والا قوی سے قوی حریف کو نیچا دکھا سکتا ہے۔ یہ دراصل ’’بن اوٹ‘‘ ہے۔ یعنی اس کی کوئی روک نہیں ہے۔ استاد گھنٹوں اس کے پینتروں کی مشق کراتے ہیں۔ بِنَّوٹیوں میں مچھلی کی سڑپ ہونی چاہیے۔ اگر چستی پھرتی نہیں ہو گی، مار کھا جائے گا۔ لدھڑ آدمی کا کام نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا فن ہے کہ اس پر پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر یہ فن سَر تا پا عمل ہے، اس لیے کسی استاد سے سیکھے بغیر نہیں آتا۔

    دلّی کے 1947ء کے فسادات میں یہ تماشہ بھی دیکھا کہ جب ہندو لٹھ بندوں نے کسی محلّے پر حملہ کیا تو چند مسلمان لونڈے لکڑیاں لے کر باہر نکلے اور کائی سی پھٹتی چلی گئی، لٹھ دھرے کے دھرے رہ گئے اور ہجوم دیکھتے ہی دیکھتے بھری ہو گیا۔ اپنی آنکھوں تو نہیں دیکھا، ہاں کان گنہگار ہیں کہ ایسے ایسے بھی بنوٹیے ہو گزرے ہیں جو تلواریے سے تلوار چھین لیتے تھے اور اس کی گٹھری بنا کر ڈال دیتے تھے۔ البتہ یہ کمال ہم نے ضرور دیکھا ہے کہ چارپائی کے نیچے کبوتر چھوڑ دیجیے، کیا مجال جو بنّوٹیا اسے نکل جانے دے۔ یہی کیفیت بانک، پٹہ، گتکہ، چھری اور علمی مد کے ہنر مندوں کی تھی۔ بجلی سی چمکی اور حریف ختم۔

    تیر اندازی کے تو ہم نے قصے ہی سنے ہیں البتہ بعض بڈھوں کی غلیل بازی دیکھی ہے۔ وہ غلیل، یہ آج کل کی دو شاخہ وائی کی شکل کی غلیل نہیں ہوتی تھی۔ یہ کوئی دو ہاتھ لمبے لچک دار بانس کو چھیل کر بنائی جاتی تھی۔ اس کے دونوں سروں کے درمیان دہرا تانت کھینچ کر باندھا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل کمان جیسی ہو جاتی تھی۔ دہرے تانت کے بیچوں بیچ دو انگل چوڑا کپڑا غُلّہ رکھنے کے لیے ہوتا تھا۔ جب غلیل استعمال میں نہ ہوتی تو اس کا چلہ اتار دیا جاتا تھا تاکہ بانس کے جھکاؤ کا زور قائم رہے۔ غُلّے خاص طور سے چکنی مٹی کے بنائے جاتے تھے۔ اگر زیادہ مضبوط درکار ہوتے تو چکنی مٹی میں روئی ملالی جاتی تھی اور گیلے غلوں کو دھوپ میں سکھا لیا جاتا تھا۔ دلّی میں غلیل کا سچا نشانہ لگانے والے آخر وقت تک باقی تھے۔ چور کے پاؤں کی ہڈی غُلّے سے توڑ دیتے تھے۔

    جس زمانے میں مکّہ سے مدینہ اونٹوں پر جایا کرتے تھے، تو دلّی کے ایک غلیل باز بھی حج کو گئے تھے۔ انہوں نے سن رکھا تھا کہ بعض دفعہ بدو لوگ قافلے کو لوٹ لیتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے ساتھ غلیل بھی لیتے گئے تھے۔ سوئے اتفاق سے ان کے قافلہ پر بدوؤں نے حملہ کر دیا۔ بڑے میاں نے اپنی غلیل کچھ فاصلے پر پھینک دی اور سب کے ساتھ کجاوے میں اتر آئے۔ جب بدو قافلے کو لوٹ کر گٹھریاں باندھنے میں مصروف ہوئے، تو بڑے میاں نے لٹیروں کے سردار کی پیشانی پر ایسا تاک کر غُلّہ (مٹّی کی خاص گولیاں جسے غلیل میں رکھ کر چلاتے ہیں) مارا کہ وہ چِلّا کر گر پڑا۔ اب جو بھی چونک کر دیکھتا کہ یہ کیا معاملہ ہے اس کی کن پٹی پر غلہ لگتا اور وہ ڈھیر ہو جاتا۔

    جب کئی جوان لوٹ گئے تو بڑے میاں نے للکار کر کہا، ’’خیریت چاہتے ہو تو مال چھوڑ دو اور اپنے آدمیوں کو اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ تم میں سے ایک بھی بچ کر نہیں جا سکے گا۔‘‘ بدؤں نے کچھ توقف کیا تو انہوں نے اتنی دیر میں دو ایک کو اور لٹا دیا۔ لہٰذا لٹیروں نے جلدی جلدی اپنے زخمیوں کو اٹھایا اور وہاں سے چمپت ہو گئے۔

    دلّی میں ایسے بھی غلیل کے نشانہ باز کبھی تھے جو ایک غُلّہ ہوا میں اوپر مارتے اور جب وہ غُلّہ واپس آنے لگتا تو دوسرا غلہ اس پر مارتے اور دونوں غُلّے ٹوٹ کر ہوا میں بکھر جاتے۔

  • سچی دوستی!

    سچی دوستی!

    شہر سے دور گھنے جنگل میں ایک پیڑ پر ایک بندریا اپنے بچّوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس پیڑ کی چھاؤں تلے ایک ہرنی کا اپنے بچوں سمیت بسیرا تھا۔ ہرن اور بندریا دونوں پکی سہلیاں تھیں۔

    دونوں جنگل میں گھوم کر اپنے بچّوں کے لیے پھل پھول اکٹھا کرتیں۔ اچھے پکے پھل ملتے تو دونوں اپنے بچّوں کو بانٹ کر کھلاتیں۔ پیڑ کے قریب سے ایک ندی گزرتی تھی جس کا پانی میٹھا اور صاف تھا۔ بہت سارے چرند و پرند، جنگلی جانور اپنی پیاس بجھانے ندی کے کنارے آتے۔

    ہر روز شام ڈھلے شیروں کے قافلے کی آہٹ پاتے ہی پھڑپھڑا کر سارے پرندے اڑ جاتے۔ بندریا ہرنی کواپنے مخصوص کھیں کھیں کی آواز نکال کر چوکنا کر دیتی۔ پھر ہرنی اپنے بچّوں کو خاموش رہنے کے اشارے کرتی۔

    دن یونہی گزر رہے تھے۔ دونوں کے بچّے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ لیکن بچّے بڑے شریر تھے۔ ہرنی کا ایک بچّہ جس کا نام سونو تھا وہ خوب دھما چوکڑی مچاتا۔ اسے اپنی خوبصورت کھال اور نازک خدوخال پر بڑا گمان تھا اور وہ بہت مغرور بھی تھا۔ بندریا کے شرارتی بچّے مونو سے سونو کی کبھی نہیں بنتی تھی۔ اکثر دونوں میں تیر بھاگنے کا مقابلہ ہوتا۔ مونو ڈالیوں میں جھولتا، ہوا میں ایک ڈال سے دوسری ڈال پر چھلانگ لگا کر دُم لہراتے بہت آگے نکل جاتا۔ پھر ٹھہر کر سونو کا انتظار کرتا۔ سونو کو مونو کی یہ عادت بالکل پسند نہیں آتی۔ وہ ناراض ہوجاتا اور دونوں لڑتے جھگڑتے اپنی اپنی ماں کے پاس واپس آجاتے۔

    اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہرنی کا بچّہ سونو، بندریا کے بچّے مونو کی دُم پیر سے دبا دیتا، پھل چھین کر کھا لیتا، دونوں کی شرارتیں اتنی کہ مونو ڈالیوں پر جھولتے ہوئے سونو کو دھڑام سے دھکیل کر یہ جا وہ جا ہو جاتا۔ اس کی سنہری کھال جس پر سونو کو بڑا غرور تھا، مسل دیتا۔ یہ سب روز کے معمول تھے۔ دونوں کی ماں بچّے کے جھگڑے سلجھاتیں۔ مگر ہرنی اور بندریا کی دوستی میں کبھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ ہرنی جنگل کی طرف کیا نکلی، کبھی لوٹ کر نہیں آئی۔ بندریا کئی دنوں تک اسے ڈھونڈتی رہی۔ پھر تھک ہار کر واپس آگئی۔ خوب روئی۔ اب اس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی تھیں۔ اپنی ہرنی سہیلی کے بچّوں کا پہلے سے زیادہ وہ خیال رکھتی۔ انہیں بھوکا نہیں چھوڑتی۔ خوب دلار پیار کرتی بالکل اپنے بچّوں کے برابر مگر سونو ہمیشہ مونو سے جھگڑے پر اتاولا رہتا۔ جنگل کے دیگر سبھی جانور دونوں کی شرارتوں سے واقف تھے۔

    جنگل میں ایک دن راج ہنس نے سبھی چرند و پرند کو اکٹھا کر کے کہا کہ بہت دن ہوگئے، کوئی جشن یا کھیل کا مقابلہ نہیں ہوا۔ بہار کے اس موسم میں کچھ تفریحی پروگرام ہونا چاہیے۔ سبھی نے راج ہنس کی بات کی تائید کی۔ راج ہنس ہمیشہ ایسے تفریحی پروگرام منعقد کرتا جس میں کھانے پینے کا بھی خوب انتظام رہتا۔

    کئی دنوں کی تیاری کے بعد جشن کا آغاز جنگل کے اندر ایک ہرے بھرے میدان میں ہوا۔ سب اکٹھا ہوئے خوب کھیل تماشہ اور مقابلہ ہوا۔ ہر جیتنے والے کو پکے پھل ملتے، خوب تالیاں بجتیں۔ سونو اور مونو کے درمیان حسن اور قابلیت کا مقابلہ ہوا۔ جج راج ہنس کے مطابق سونو حسین اور مونو ذہین قرار دیا گیا۔ شام ہوئی مقابلہ ختم ہوا سب خوشی خوشی اپنے بسیروں کی جانب چل پڑے۔ سونو اس فیصلے سے بالکل متفق نہ تھا وہ تلملایا ہوا تھا۔ اسے حسین اور ذہین دونوں کا خطاب اپنے نام چاہیے تھا وہ ہرگز مونو کو کسی خطاب کا حق دار نہیں سمجھتا تھا۔ اپنے بسیرے کے قریب پہنچتے ہی مونو نے سونو کو کھیں کھیں کر کے چڑھا دیا۔ اب وہ پیڑ پر جست لگانا ہی چاہتا تھا کہ سونو نے مونو کی لمبی لہراتی دم کو دانت سے پکڑ کر چبا دیا۔ چیخ پکار مچاتا مونو پیڑ پر چڑھ گیا۔ پھر بندریا نے جنگل سے ایک بوٹی لاکر اس کی دُم پر لگائی۔ مگر کوئی افاقہ نہ ہوا وہ رات بھر درد سے تڑپتا اور یہی سوچتا رہا کہ موقع ملتے ہی وہ سونو سے بدلہ ضرور لے گا۔

    ایک دن کی بات ہے کہ بندریا جنگل میں کہیں گئی ہوئی تھی۔ بندریا کا زخمی بچّہ مونو پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظر ایک شکاری کے جال پر پڑی۔ وہ دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ کیونکہ سونو بڑی اداؤں کے ساتھ بے فکری سے قریب ہی ٹہل رہا تھا۔ وہ شکاری کے جال کی طرف جا نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے جال میں پھنس گیا۔ شکاری جھٹ پھٹ اسے لے کر نکلنے ہی والا تھا کہ مونو کے دل میں سونو کے لیے ہمدردی کا ایک ایسا جذبہ بیدار ہوا جس میں احسان مندی بھی تھی اور پڑوسی کے حق کی ادائیگی بھی۔ مونو کو یاد آیا کہ وہ ایک دن کیچڑ میں گر گیا تھا تو سونو نے اپنی زبان سے اس کا جسم صاف کیا اور اس کی ماں کے پاس لے کر آیا تھا۔

    دفعتاً بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہ ڈالیوں میں جھولتا، ہواؤں میں جست لگاتا شکاری پر حملہ آور ہوا اور غصے میں جال کو جگہ جگہ سے پھاڑ کر رکھ ڈالا اور اپنے پڑوسی کی جان بچا کر واپس اپنے بسیرے پر لے آیا۔

    مصنّف: شمع اختر کاظمی (بھارت)

  • ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ، خوب دیتے رہے ہمیں امداد(شاعری)

    ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ، خوب دیتے رہے ہمیں امداد(شاعری)

    گلگت بلتستان کے باسی شہزاد مہدی اردو زبان اور ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ اپنے ادبی رجحان کے سبب تخیل سے تخلیق کا مرحلہ طے کرنے والے اس نوجوان نے جذبات اور احساسات کے اظہار کے لیے شاعری کو پسند کیا۔

    شہزاد مہدی نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ باذوق قارئین کے لیے ان کی ایک غزل پیش ہے۔

    غزل
    دل میں قیدی بنی کسی کی یاد
    اشک آنکھوں سے ہو گئے آزاد

    دل کے گوشے نہیں سنبھلتے ہیں
    خاک بستی کوئی کریں آباد

    تیری پستی کا ذکر چھیڑا تو
    خُلد میں رو پڑے ترے اجداد

    ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ
    خوب دیتے رہے ہمیں امداد

    موت پر کیسی تعزیت بھائی
    عید پر کون سی مبارک باد!

    تری آنکھوں کو دیکھ لینے سے
    ہلنے لگتی ہے روح کی بنیاد

    تھوڑا مغرور ہے مگر اک دن
    دوست بن جائے گا مرا، شدّاد

    جاؤ اب کوئی بھی نہیں ہے یہاں
    جاؤ اب مر گیا ترا شہزاد

    شاعر: شہزاد مہدی