Tag: اردو بلاگ

  • موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے ہے؟ اور اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

    ماہرین کے مطابق زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے۔ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیئس درجۂ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی درجۂ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اور اس کی وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ کہیں طوفانی بارشیں ہیں، تو کہیں مکمل خشک سالی۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024 کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں، جن میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔

    رواں اور گذشتہ سال کے چند بڑے واقعات کا ذکر کیا جائے تو رواں سال میں برازیل کے جنوبی علاقہ (ریو گراندے دو سل) مئی میں مسلسل دو ہفتے کی طوفانی بارشوں سے 170 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ تقریباً 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ چین کے صوبہ ہنان میں جولائی کے آغاز میں آنے والی صرف 5 دن کی بارش نے 12 اضلاع کو ڈبو دیا۔ نقصان کا اندازہ 2 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا، 200,000 افراد بے گھر ہوئے۔ 2024 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدید بارشیں ہوئیں، مارچ تا جون غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوئیں اور معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 180 ارب روپے (تقریباً 630 ملین ڈالر) لگایا گیا۔ جرمنی اور بیلجیم میں دریائے رائن کے کنارے شدید بارشوں سے صنعتی علاقے متاثر ہوئے۔ نقصان کا اندازہ 1.2 ارب یورو۔

    رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ این ڈی ایم اے اور مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 279 افراد جاں بحق اور 676 زخمی ہو چکے ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جب کہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ کر دیا یا ان کو نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے۔

    جولائی کے وسط تک ملک میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں، جب کہ پہاڑی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث گلیشیئر کے پگھلنے سے بھی فلش فلڈز اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (GLOFs) کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں میں مزید شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات موجود ہیں، جو آنے والے ہفتوں میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔

    ورلڈ میٹررو لوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا براہِ راست تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔ موجودہ صدی کے وسط تک ایسے واقعات کی شدت دو گنا ہونے کا امکان ہے۔ رواں سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق، 2025 میں صرف پاکستان اور بھارت میں زرعی پیداوار میں 11% کمی کا اندیشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیلاب اور بارشوں کے باعث 2024 میں تقریباً 33 ملین افراد نے اندرونِ ملک نقل مکانی کی۔

    یہ صورتِ حال شہری نظام پر مزید دباؤ بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر پہلے ہی ماحولیاتی دباؤ، بے ہنگم آبادی، ناقص منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ جب اچانک موسلا دھار بارش ہوتی ہے تو نکاسی آب کا نظام بیٹھ جاتا ہے، کرنٹ لگنے کے حادثات ہوتے ہیں، بجلی، مواصلات اور آمدورفت کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، کچی بستیوں میں مکانات گرنے اور اموات کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

    بدلتے موسموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے جو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن چکی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو جنگی بنیادوں پر حکمت عملی اپناتے ہوئے اقدامات کرنے ہوں گے جیسے شہری سیلابی نقشے (Urban Flood Maps) بنانا ہوں گے جو ہر بڑے شہر کے لیے خطرے کے زون کی نشاندہی کریں۔ اس کے علاوہ نالوں کی صفائی کے ساتھ ان پر قائم تجاوزات کا خاتمہ، بارش کے پانی کا ذخیرہ، اور مقامی وارننگ سسٹمز کی تنصیب، شجر کاری و سبز انفراسٹرکچر، شہروں میں پارکس، کھلی زمین اور قدرتی نالے کو محفوظ کرنا ہو گا تاکہ پانی جذب ہو سکے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ڈیزاسٹر مینجمنٹ بلز کو نافذ کیا جائے اور اور اس حوالے سے فنڈنگ یقینی بنائی جائے۔

    بارشوں کا تیز اور غیر متوقع انداز موسمیاتی تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ اگرچہ بارش ایک قدرتی عمل ہے، مگر اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ اس کی شدت، وقت، مقام اور اثرات میں جو تبدیلی آ رہی ہے وہ واضح طور پر انسانی سرگرمیوں سے جڑی ہے جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں وسائل کم اور خطرات زیادہ ہیں، وہاں مؤثر منصوبہ بندی، سائنسی حکمتِ عملی اور مقامی سطح پر عوام کی شرکت ہی ہمیں ان بارشوں کو ”رحمت” بنائے رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ورنہ یہ ”عذاب” بن کر ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔

  • شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    دنیا بھر میں مقبولیت کا نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کرنے والی یہ ویب سیریز شوگن ہمیں سترہویں صدی کے جاپان میں لے جاتی ہے جہاں حکمرانی اور اثر و رسوخ کے لیے طاقت کا استعمال دکھایا گیا ہے اور کرداروں کے ذریعے کہانی آگے بڑھتے ہوئے آپ کی توجہ اور دل چسپی سمیٹ لیتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت یہ ویب سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسی کہانی پر ایک مختصر ڈراما سیریز بنی تھی، جس کو پاکستان ٹیلی وژن پر بھی قسط وار دکھایا گیا تھا۔ سترہویں صدی کے جاپان پر مبنی امریکی ویب سیریز کا اردو میں یہ واحد مفصل تجزیہ اور باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    شوگن کیا ہے؟

    جاپانی تاریخ میں شوگن کی اصطلاح، فوجی سربراہ کے لیے بطور لقب استعمال ہوتی تھی اور یہی ملک کا حقیقی حکمران ہوا کرتا تھا۔ یہ لقب سب سے پہلے ہئین دور میں استعمال ہوا، جو کسی کامیاب جنگی مہم کے بعد متعلقہ جنرل کو دیا گیا۔ جب 1185ء میں میناموتویوری تومو نے جاپان پر فوجی کنٹرول حاصل کیا، تو اقتدار سنبھالنے کے سات سال بعد انہوں نے شوگن کا لقب اختیار کیا۔ جاپان کی قدیم تاریخ میں شوگن سے مراد ملک کا سربراہ اور دھرتی کا سب سے طاقتور فرد ہوا کرتا تھا۔ جاپان میں 1867ء کو سیاسی انقلاب برپا ہونے اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے تک، یہ لقب اور اس سے جڑے افراد، جاپانی تاریخ کے اصل حکمران اور فوجی طاقت کا محور ہوئے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی میں ایسی ہی چند طاقت ور شخصیات کی اس اہم ترین عہدے کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے لڑائیاں اور تصادم دکھایا گیا ہے۔

    پرانی ڈراما سیریز شوگن اور نئی ویب سیریز شوگن کا موازنہ

    یہ ذہن نشین رہے کہ پروڈکشن کے شعبے میں ڈراما سیریز کے لیے اب نئی اصطلاح، ویب سیریز ہے۔ اس میں فرق اتنا ہے کہ پہلے کسی بھی کہانی کو اقساط کی صورت میں ٹیلی وژن کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور اب اس کو کسی اسٹریمنگ پورٹل کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کی شوگن اور عہدِ حاضر میں بنائی گئی شوگن میں بڑا فرق کہانی کی طوالت کا ہے۔

    پرانی شوگن محدود اقساط پر مبنی ڈراما سیریز تھی، جب کہ موجودہ شوگن کے تین سیزن تیار کیے جائیں گے۔ ابھی پہلا سیزن بعنوان شوگن ہولو اسٹریمنگ پورٹل پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اس مساوی کہانی کے دو مختلف پروڈکشن میں 64 ایسے نکات ہیں، جن کو تبدیل کیا گیا ہے، اس فرق کو سمجھانے کے لیے ہم نیچے ایک لنک دے رہے ہیں جس پر کلک کر کے آپ یہ فرق آسانی سے سمجھ سکیں گے۔

    پروڈکشن اور دیگر اہم تفصیلات

    امریکی پروڈکشن ادارے ایف ایکس نے پرانی کہانی پر ہی دوبارہ شوگن بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس ویب سیریز کی مکمل پروڈکشن چار بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کے نام بالترتیب ڈی این اے فلمز، ایف ایکس پروڈکشنز، گیٹ تھرٹی فور پروڈکشنز اور مچل ڈے لوسا ہیں۔ اس کے لیے دس سے زائد پروڈیوسروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن میں مذکورہ ویب سیریز میں مرکزی کردار نبھانے والے جاپانی فلمی ستارے ہیروکی سنادا بھی شامل ہیں۔ اس ویب سیریز کی پروڈکشن ٹیم کا بڑا حصہ امریکی اور جاپانی فلم سازوں کے بعد اسکاٹش اور آئرش فلم سازوں پر مشتمل ہے، جو دل چسپ بات ہے۔ اس ویب سیریز کو جاپان اور کینیڈا میں پونے دو سال کے عرصہ میں فلمایا گیا ہے۔ شوگن، امریکی پروڈکشن ہاؤس ایف ایکس کی تاریخ کی سب سے مہنگی پروڈکشن ہے، اور اسے امریکی ٹیلی وژن ایف ایکس کے ساتھ ساتھ اسٹریمنگ پورٹلز اسٹار پلس، ڈزنی پلس اور ہولو پر ریلیز کیا گیا ہے۔

    جاپان سمیت پوری دنیا میں اس ویب سیریز کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ اس ویب سیریز کے پروڈیوسرز میں سے ایک جاپانی پروڈیوسر اور عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیروکی سنادا کا کہنا ہے، "ہالی ووڈ میں بیس سال کے بعد، میں ایک پروڈیوسر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کسی بھی وقت۔ میرے پاس پہلی بار ایک ٹیم تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، مجھے خوشی تھی۔” انہوں نے شو کو جاپانی تاریخ کے تناظر میں مستند حالات و واقعات سے مربوط رکھنے پر توجہ دی۔ "اگر کہانی میں کچھ غلط ہے تو لوگ ڈرامے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ وہ اس قسم کا شو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمیں مستند کام کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ نجانے جاپانی ناظرین اسے کس طرح سے دیکھیں گے، لیکن ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ جاپانی ناظرین اسے اتنا پسند کریں گے۔ وہ جاپان میں اس مقبولیت پر بے حد مسرور ہیں۔ اس ویب سیریز کے بنیادی شعبوں میں آرٹسٹوں اور ہنرمندوں نے متاثرکن کام کیا ہے، خاص طورپر موسیقی، ملبوسات، صوتی و بصری تاثرات، تدوین اور چند دیگر شعبہ جات اس میں‌ شامل ہیں۔

    مقبولیت کے نئے پیمانے

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی درجہ بندی دس میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے۔ فلمی ناقدین کی ویب سائٹ روٹین ٹماٹوز پر اسے 100 میں سے 99 فیصد کے غیرمعمولی تناسب سے پسند کیا گیا ہے اور بہت کم فلموں کے لیے یہ شرح تناسب دیکھنے میں آتا ہے۔ فلم افینٹی جو امریکی و برطانوی فلمی ویب سائٹ ہے، اس نے درجہ بندی میں اس ویب سیریز کو 10 میں سے 7.6 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ گوگل کے صارفین کی بات کریں تو وہاں ویب سیریز کی شرحِ پسندیدگی کا تناسب سو میں سے پچانوے فیصد ہے اور ویب سیریز کی یہ ستائش اور پذیرائی بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور تادمِ تحریر یہ ویب سیریز مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں کی طرف ہی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبولیت کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ ویب سیریز کے ناظرین کی پسندیدگی تو ایک طرف، دنیا بھر کے فلمی ناقدین بھی اس ویب سیریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

    ڈائریکشن اور اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر امریکی فلم ساز ٹم وین پیٹن ہیں، جن کے کریڈٹ پر گیمز آف تھرونز اور سیکس اینڈ سٹی جیسے تخلیقی شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی وائر اور بلیک مرر جیسی ویب سیریز کے بھی ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ریچل کوندو اور جسٹن مارکس کے تخلیق کردہ اس شاہکار کو اپنی ہدایت کاری سے انہوں نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔

    ویب سیریز کی کہانی کا مرکزی خیال 1975ء میں شائع ہونے والے ناول شوگن سے لیا گیا، جس کے مصنف جیمز کلیویل ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں، برطانیہ کی طرف سے سنگاپور میں جاپانیوں سے لڑے اور وہاں جنگی قیدی بھی بنے۔ شاید یہی ان کی زندگی کا موقع تھا، جس کی وجہ سے انہیں جاپانی تاریخ سے دل چسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے جاپان کے تناظر میں چھ ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جن میں سے ایک ناول شوگن کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول پر ویب سیریز کا اسکرپٹ لکھنے والوں میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اسکرپٹ رائٹر رونن بینٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مرکزی خیال و کہانی

    اس ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سنہ 1600ء کے جاپان سے ہوتا ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ فلم ساز ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اس کے مزید دو سیزن بنیں گے، تو میرا یہ اندازہ ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی کو جاپان میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے تک فلمایا جائے گا۔

    پہلے سیزن میں اُس دور کی ابتدا کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت کے جاپان کے مرکزی رہنما کی رحلت کے بعد سیاسی طاقت پانچ ایسے نگرانوں‌ میں مساوی تقسیم ہو جاتی ہے، جن کو ریجنٹس کہا گیا ہے، کیونکہ وہ پانچوں اس مرکزی حکمران کے بچے کی حفاظت پر مامور ہیں، جو اوساکا کے شاہی قلعہ میں پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بالغ ہونے تک یہ طاقت ان پانچ نگرانوں کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

    اس منظر نامے میں ایک انگریز ملاح بھی اس وقت شامل ہو جاتا ہے، جب اس کا ولندیزی جہاز، ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں بھٹک کر جاپان کے ساحل کی طرف آ نکلتا ہے۔ یہ کردار انگریز جہاز راں ولیم ایڈمز سے منعکس ہے۔ دکھایا گیا ہے کہ اس برطانوی جہاز راں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وہ جاپان کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین شخصیت اور پانچ نگراں حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی بعض خوبیوں اور بالخصوص عسکری مہارتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس حکمران کی قربت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے یہ وہ نگران حکمران ہے جس کا تعلق ایدو (ٹوکیو کا قدیم نام) سے ہے، اور دوسرے نگراں حکمران اس کے بڑے سخت مخالف ہیں، اور یہ اُن سے نبرد آزما ہے۔ ایدو سے تعلق رکھنے والے اس حکمران کی سپاہ میں بھی جہاز راں کی عسکری مہارتوں کا چرچا ہوتا ہے اور وہ ان کی نظر میں بھی مقام حآصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ اسے ایک اعلٰی عسکری عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ان کے ساتھ مل کر جنگی مہمات کا حصہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک غیر جاپانی کو سمورائی کا درجہ مل جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایدو سے تعلق رکھنے والا یہ پہلا شوگن ہے، جس کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پہلے سیزن کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔


    اس طرح کہانی میں آگے چل کر یہ پانچوں نگراں و مساوی حکمراں، انگریز جہاز راں، پرتگالی تاجر، کیتھولک چرچ کے نمائندے، سیاسی اشرافیہ سے وابستہ دیگر ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر ایک جاپانی خاتون کا کردار جو لیڈی تودا مریکو کہلاتی ہے، بھی اس کہانی میں نمایاں ہے اور یہ کردار ناظرین کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتا ہے کہ دس اقساط کب تمام ہوئیں، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حکمرانوں کی کہانی میں جو روانی اور ربط ہے، اس پر اگر اس ویب سیریز کے لکھاری قابل ستائش ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ وہ ناول نگار قابلِ تعریف ہے، جس نے جاپان کی تاریخ میں اتر کر، کہانی کو اس کی بنیاد سے اٹھایا۔ کہنے کو تو یہ خیالی کہانی (فکشن) ہے، مگر اس کے بہت سارے کردار اور واقعات جاپانی تاریخ سے لیے گئے ہیں اور وہ مستند اور حقیقی ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں مرکزی کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تعداد میں درجن بھر ہیں۔ ان میں سے جن فن کاروں نے بے مثال کام کیا، ان میں ہیروکی سنادا (لارڈ یوشی توراناگاوا)، کوسمو جارویس (جان بلیک تھرون)، اننا ساوائی (لیڈی تودامریکو)، تادانوبو (کاشی گی یابوشیگے) تاکے ہیرو ہیرا (اشیدوکازوناری) اور دیگر شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں دو درجن کردار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی اداکاری سے اس تاریخی ویب سیریز میں انفرادیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔برطانوی اداکار کوسمو جارویس اور جاپانی اداکارہ اننا ساوائی کو اس کہانی کا ہیرو ہیروئن مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دل چسپی برقرار رہتی ہے جب کہ ہیروکی سنادا اور تادانوبو نے بھی ناظرین کو اپنی شان دار اداکاری کی بدولت جکڑے رکھا۔ دو مزید جاپانی اداکاراؤں موئیکا ہوشی اور یوکاکووری نے بھی متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کو داد نہ دینا بڑی ناانصافی کی بات ہو گی۔ مجموعی طور پر اس ویب سیریز میں سیکڑوں فن کاروں نے حصہ لیا، جن میں اکثریت جاپانی اداکاروں کی ہے۔ سب نے بلاشبہ اپنے کرداروں سے انصاف کیا، یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز نے ناظرین کے دل میں گھر کر لیا۔

    حرف آخر

    قارئین، اگر آپ عالمی سینما اور خاص طور پر کلاسیکی سینما کے پسند کرنے والے ہیں اور اس پر مستزاد آپ کو جاپان کی کلاسیکی ثقافت میں بھی دل چسپی ہے تو پھر یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے آپ جاپان کی قدیم معاشرت، سیاست، ثقافت اور تہذیب کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت جاپان کے ساتھ اس ویب سیریز میں آپ جاپانی عورتوں کا حسن و جمال اور خوب صورتی بھی دیکھیں گے۔ ویب سیریز کے اس تعارف اور تفصیلی تبصرے کو میری طرف سے اس عید پر ایک تحفہ سمجھیے۔ اسے ضرور دیکھیے، آپ کی عید کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔

  • تو پھر ایک سیلفی ہو جائے!

    تو پھر ایک سیلفی ہو جائے!

    ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت ایک طرف تو دنیا میں بڑی تبدیلی اور ترقی ممکن ہوئی ہے اور انسان کے کئی کام آسان ہوگئے ہیں، مگر اسی ڈیجیٹل میڈیا نے انسان کو ایک خبط میں بھی مبتلا کر دیا ہے اور اسے تنہائی اور اپنے ماحول سے بیزاری کا تحفہ بھی دیا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بات کریں تو یہ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور معاشروں کو قریب لاتے ہوئے انھیں اجتماعی اور انفرادی مسائل پر تبادلۂ خیال کا موقع دے رہی ہیں، لیکن سوشل میڈیا نے لوگوں میں حسد اور رقابت جیسے جذبات بھی پیدا کیے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خود نمائی بھی اسی ٹیکنالوجی کی دین ہے۔

    ہم کہیں سیر پر جانے کا منصوبہ بنا رہے ہوں یا کسی تقریب میں جانے کا ارادہ ہو وہاں اپنوں کے ساتھ، دوستوں اور دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے سے زیادہ سیلفی لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہماری گفتگو بھی بار بار سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کی طرف نکل جاتی ہے، یا سوشل میڈیا پر وائرل موضوع پر بحث ہونے لگتی ہے۔ سیلفی لینے کا رحجان تو خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈیلی ٹیلیگراف نے لکھا کہ 2015ء میں سیلفی کی وجہ سے اتنی اموات ہوئیں جتنی شاید شارک کے حملوں میں بھی نہ ہوتیں۔ امریکا اور بھارتی انسٹیٹیوٹ کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مارچ 2014ء سے 2016ء تک پوری دنیا میں سیلفی کی وجہ سے ہونے والی اموات ایک سو ستائیس تھیں جن میں صرف بھارت میں چھہتر اموات ہوئیں۔ گویا سیفلی لینے کے دوران اموات میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔

    پہلی سیلفی کس نے بنائی یہ کہنا تو بہت مشکل ہے لیکن 2013ء تک لفظ سیلفی اتنا عام ہو گیا تھا کہ آکسفورڈ ڈکشنری نے اس لفظ کو سال کا مشہور ترین لفظ قرار دے دیا۔ اب تو سیلفی فون بھی عام مل رہے ہیں جن میں ایک کیمرے کی جگہ دو دو، تین تین کیمرے موجود ہیں تاکہ آپ شان دار تصویریں بنا سکیں۔

    سلیفی کا شوق نوجوانوں سے لے کر ادھیڑ عمر کے لوگوں کو بھی ہے۔ بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے لوگوں، حتیٰ کہ جنازوں پر بھی لوگ سیلفی لینے سے باز نہیں آتے۔ سیلفی لیتے ہوئے یہ دھیان نہیں رکھا جاتا کہ ذرا سی غفلت، کوتاہی اور گرد و پیش سے پَل بھر کو بے خبر ہونا زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کبھی ریل کی پٹری، کبھی نہر کے کنارے، کبھی کسی پُل کے اوپر غرض کسی بھی جگہ سیلفی کے شوقین افراد اپنا کام کرجاتے ہیں۔ تفریحی اور عام مقامات تو ایک طرف لوگ مقدس مقامات پر بھی نہیں باز آتے اور دورانِ زیارت و عبادت سفیلیاں کھینچ کر دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

    موبائل کے کیمرے سے تصویر بنانا آسان تو ہے، لیکن سیلفی کا یہ جنون مشہور و معروف شخصیات کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔ لوگ کسی مشہور شخصیت کے ساتھ سیلفی بنوائے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔ اب چاہے یہ شخصیات اپنے اُن پرستاروں یا چاہنے والوں کو کتنا ہی ٹالنے کی کوشش کریں اور منع بھی کر لیں، مگر وہ ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ ایک طرف ہم بڑے بڑے شاپنگ مالز، مہنگے ریستوراں اور تفریحی مقامات پر اپنی سیلفیاں لینے کے خبط میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اکثر اس سے خود نمائی مقصود ہوتی ہے جب کہ دوسری طرف ہم لوگ مشہور شخصیات کے ساتھ تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور دوسروں‌ کو مرعوب کرنے کی کوشش کی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اپنی زندگی کے مختلف لمحات کو محفوظ کرنا اور یادگار بنانا برا نہیں اور یہ اب ایک عام بات ہے، مگر یہاں ہم بات اس رویے اور طرزِ‌فکر کی کررہے ہیں جس میں ایک طرف تو اکثر سلیفی کے شوقین اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ سب محض نمائش، دکھاوا اور اکثر دوسروں پر اپنا رعب جمانے یا اپنی برتری جتانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

    چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑے سے بڑے کارنامے کی سیلفی بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا لوگوں کا معمول بن گیا ہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ اس ٹیکنالوجی کے کتنے ہی فائدے ہیں اور یہ یقیناً ہمارے لیے بہت سے کاموں کو آسان اور سہل بنا رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے شعور اور آگاہی کا فقدان، کج فہمی اور ہماری ناسمجھی اس ٹیکنالوجی کو ہمارے لیے وبال بنارہی ہے بلکہ معاشرہ صبر، برداشت، قناعت سے محروم اور حسد و رقابت کے جذبات سے بھرتا جا رہا ہے۔ کئی مواقع ایسے بھی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے سیلفی یا ویڈیو بنانے کی وجہ سے ہماری پرائیویسی بھی متاثر ہورہی ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ خوبصورتی کیمرے کی آنکھ میں ہوتی تھی، فوٹو گرافر کے ایک کلک کی مہارت میں ہوتی تھی اور ہم اپنے بچپن میں کسی سیر گاہ میں جاتے ہوئے کیمرے میں ریل ڈلوانے کی جو خوشی محسوس کرتے تھے، اس کا مقابلہ یہ سیلفی نہیں کرسکتی۔ وہ خوشی ہی الگ ہوتی تھی کہ ہم خوب پوز بنائیں گے، پکنک انجوائے کریں گے۔ وہ خوشی اب ماضی بن گئی ہے اور اب سیلفی کی نمائش کے چکر میں ہم اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ نہ ہمیں اپنی جان کی فکر ہے اور نہ ہی امیج کی۔ حالانکہ یہی دونوں چیزیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں اور ان کی قدر کی جانی چاہیے۔

    کبھی موقع ملے تو اس مصنوعی دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل کر زندگی کا حقیقی معنوں میں ضرور لطف اٹھائیے گا۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات اور مشاہدے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    کابل شہر خصوصاً اور افغانستان مجموعی طور پر افراتفری، انتشار، عدم تحفّظ، اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار نظر آرہا ہے جس کی وجہ طالبان کا برق رفتاری کے ساتھ صوبائی دارالحکومتوں کے بعد دارالخلافہ پر قبضہ ہے جب کہ دوسری طرف افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی جو قوم کو یہ یقین دلاتے رہے کہ طالبان اقتدار پر قابض نہیں ہوں گے، وہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ دوسری طرف کسی بھی ملک کے استحکام کی ضمانت سمجھے جانے والی قوّت اس کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو مسلح طالبان کے سامنے نہیں‌ ٹھہر سکے اور گویا ڈھیر ہوگئے۔

    افغانستان میں فوج کی پسپائی اور وجوہات
    تقریباً دو ماہ قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بہت پر اعتماد انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں جن کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے، کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف تعداد میں لگ بھگ ستّر ہزار طالبان کی پیش قدمی کو روک کر ان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیں گے بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور حکومت کا دفاع بھی کریں گے۔ ان کا دعویٰ‌ تھا کہ امریکہ کے پندرہ ہزار کے قریب ٹرینروں نے انھیں تربیت دے کر جدید اسلحہ سے لیس کیا ہے جب کہ امریکہ کے ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کی رپورٹ کے مطابق افغان ارمی پر گزشتہ بیس سال میں 80 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے ہیں، لیکن صورتِ حال دنیا کے سامنے ہے۔ جونہی امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا مکمل ہوا افغانستان کی فوج اور دیگر اداروں کے اہلکار تتر بتر ہوگئے اور وہ اسلحہ جو ان کو طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے ملا تھا، اسی اسلحہ سمیت طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق افغان آرمی کی پسپائی کی بڑی وجہ لسانی، قومیت اور قبائل کی بنیاد پر تقسیم، بڑھتی ہوئی کرپشن، افسروں اور ماتحت میں عدم اعتماد اور بدترین بد انتظامی ہے اور اس کے علاوہ افغان فوج کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ امریکہ ان کو یوں چھوڑ کر ملک سے نکل جائے گا جس کا طالبان نے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں زیر کرلیا۔

    افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا فرار اور اس کے اثرات
    ڈاکٹر اشرف غنی جو افغانستان کے 2014 کے متنازع انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے اس سے قبل ورلڈ بنک سے منسلک رہے اور ایک کتاب انگریزی زبان میں بھی تحریر کرچکے ہیں جس کا عنوان تھا، ناکام ریاستوں کی تعمیرِ نو (ری کنسٹرکشن آف فیلڈ اسٹیٹ) لیکن جب ان کو خود ایک تباہ حال افغانستان دیا گیا تو سیاسی، قبائلی، لسانی اور قومیتی تقسیم کو بڑھاوا ملا اور یہی وجہ کہ امریکہ کو بار بار ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کے مابین تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑتی جب کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے قریبی حلقوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو بیرونِ ملک مقیم تھے اور ان کو ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر ان کی معاونت کے لیے آئے تھے جس کے باعث ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے اتحادی افغان قیادت عدم اعتماد کا شکار رہے جس کے اثرات اس وقت سامنے ائے جب امریکہ نے افغان حکومت کی بجائے طالبان سے مذاکرات کر کے دوحا معاہدہ قلمبند کیا اور پھر اپنی واپسی کے اعلان پر عملدرامد شروع کردیا۔

    تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ اشرف غنی کی اپنی حکومت پر رٹ کمزور تھی اس لیے طالبان نے جب امسال مئی میں پیش قدمی شروع کی تو ان کو سخت مزاحمت کا سامنا پیش نہیں ایا اور طالبان نے مختصر وقت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور اشرف غنی کو اپنے کابینہ کے ساتھیوں کو چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور یہی وہ لمحہ تھا جب افغان قوم صدمے میں چلی گئی اور وہ طالبان جن کے بارے میں ان کو یقین تھا کہ افغان ارمی ان کو شکست دے دی گی لیکن اب وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ طالبان کو ایک سیاسی طاقت پر قبول کریں بلکہ اگر ان کی حکومت پر بنتی ہے اس کو تسلیم کرنے کو بھی تیار ہیں۔

    طالبان کا کابل پر قبضہ اور زمینی حقائق
    پندرہ اگست سے قبل کابل میں حالات معمول پر تھے۔ افغان پولیس تھانوں میں موجود تھی، بازار دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ لڑکیاں اسکول جارہی تھیں اور خواتین اپنے روزمرہ کی سرگرمیوں میں مشغول تھیں لیکن جونہی طالبان کابل گیٹ پر قریب پہنچے تو ایک افراتفری پھیل گئی اور اس افراتفری کو روکنے کے لیے طالبان نے اعلان کیا وہ جنگ کی بجائے پرامن طریقے سے دارالحکومت میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پھر یہی ہوا کہ جونہی ڈاکٹر اشرف غنی ایوان صدر کو چھوڑ کر روانہ ہوئے تو طالبان نے صدارتی محل پر بغیر کسی مزاحمت کے کنٹرول سنبھالا تو افغان عوام میں جنگ کا خوف تو ختم ہوا لیکن اس دوران افغان پولیس اور افغان ارمی منظر نامے سے اچانک غائب ہوگئی اور شہر میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بے پناہ قیمتی گاڑیاں کو چھینا گیا جب کہ ڈکیتی کی وارداتیں بھی سامنے ائیں اور یہی وجہ تھی کہ کابل کے بازاروں اور دفاتر کو بند کردیا گیا جب کہ مقامی ابادی گھروں میں محصور ہوگئی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق طالبان نے سرکاری گاڑیاں قبضہ میں لے کر گشت شروع کردی ہے اور ان کو یقین ہے کہ طالبان حالات پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔

    کابل ایئر پورٹ پر دھاوا
    جب کابل پر طالبان نے قبضہ حاصل کرلیا تو افغانستان سے فرار ہونے والا پہلا شخص افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی تھا اور یہی وجہ تھی کہ ملک میں افراتفری کی فضا پیدا ہوگئی اور اس دوران مقامی افراد کے مطابق جب یہ افواہ پھیلا ئی گئی کہ امریکہ اور کینیڈا سے جہاز کابل پر اترے ہیں اور جو افغان پاسپورٹ رکھتا ہے اس کو بغیر ویزے کے لے جائیں گے تو کابل میں موجود افغان عوام نے ایئر پورٹ پر دھاوا بول دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ کے وہ فوجی جو افغانستان میں افغان عوام کے دفاع کے لیے ائے تھے اور جب وہ ان کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جانے لگے تو اپنے فوجی جہاز کو اڑانے پر افغانوں پر فائرنگ کرنی پڑی جس کے نتیجے پانچ افراد جاں بحق ہوگئے۔

    طالبان کا قبضہ اور مسقبل کے حالات
    افغان طالبان نے اپنی بیس سالہ جدو جہد کا ثمر افغانستان پر قبضہ کرکے حاصل تو کر لیا ہے لیکن اب ان کی بڑی ازمائش افغان قوم کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کا بڑا مسئلہ بدامنی، خراب معیشت، کرپشن اور سیاسی کشیدگی ہے اور اگر طالبان نے ان مسائل پر دیگر افغان قیادت کے ساتھ مل کر ان کو حل کرلیا تو افغانستان استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں دہشت گرد تنظیموں کو بھی افغانستان کی زمین استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور خواتین کے حوالے سے تحفظات ختم ہوں گے لیکن اگر طالبان نے اقتدار کو اپنے تک محدود رکھا تو سیاسی و عسکری کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور وہ نقل مکانی جو اب کابل تک محدود ہے ہمسایہ ملکوں تک پھیل سکتی ہے۔

  • رنی کوٹ: پراسرار قلعے سے فسوں خیز تالاب تک ایک یادگار سفر

    رنی کوٹ: پراسرار قلعے سے فسوں خیز تالاب تک ایک یادگار سفر

    تحریر: شیر بانو معیز

    جولائی کے گرم دن اور مسلسل کام کرنے کی وجہ سے ہونے والی تھکاوٹ نے چڑچڑا اور گویا ہر شے سے بیزار کر دیا تھا۔ ایسے میں‌ واٹس ایپ پر ایک دوست کا پیغام ملا کہ اگر رنی کوٹ کی سیر کرنا چاہیں تو ساتھ چلیے، جمعے کی رات کو روانگی ہے۔ پیغام پڑھ کر کچھ سوچے سمجھے بغیر رضامندی ظاہر کردی اور یوں‌ نو لڑکوں کے اس گروپ میں جن میں‌ سے بیش تر ولاگرز تھے، ایک خاتون بھی شامل ہوگئی اور رنی کوٹ کی سیر کو نکل پڑی۔

    رات کے 12 بجے کراچی سے ہمارے سفر کا آغاز ہوا۔ قومی شاہراہ سے انڈس ہائی وے کی راہ لی۔ تاریکی میں دریا پر بنا پل ستاروں کے مانند جھلملاتا محسوس ہورہا تھا۔ ایک موڑ نے ہمارا رخ رنی کوٹ کی جانب پھیر دیا، جہاں سے دنیا کا سب سے بڑا قلعہ صرف تیس کلو میٹر کی مسافت پر تھا۔

    کراچی والوں کے لیے رنی کوٹ کا راستہ کچھ زیادہ ناہموار نہیں، لیکن سڑک کے دونوں جانب گھپ اندھیرے کی وجہ سے بہت خوف محسوس ہورہا تھا۔ اس عالم میں جب گروپ کے دیگر اراکین نے بھوت پریت کے قصے کہانیاں شروع کیں تو راستے میں‌ جگہ جگہ ان کرداروں کا عکس دکھائی دینے لگا، مگر ہم بخیریت اپنی منزل پر پہنچ گئے۔

    قلعے کے قریب پہنچنے سے پہلے موبائل کے سگنلز آپ کو الوداع کہہ دیتے ہیں۔ قلعے کے سن گیٹ کے دو بلند و بالا چوکیدار آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ سیکڑوں سال قبل بنے ان چوکیداروں کا رعب اور دبدبہ آج بھی ویسا ہی ہے، یہاں سے میری کوٹ تک کا سفر اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر طے ہوتا ہے۔

    صبح پانچ بج کر بیس منٹ پر ہم میری کوٹ کی فصیل پر تھے اور سورج نکلنے کا انتظار کررہے تھے۔ قلعے کی کھڑکیوں سے سورج کو کیمرے میں پکڑنے کی چاہت بھی خوب تھی۔ قلعے کے قریب ہی سندھ ٹور ازم ڈپارٹمنٹ کے خوب صورت ہٹس بنے ہوئے ہیں۔

    ناشتے کے بعد فوری طور ہم نے پرین جو تلاؤ (پریوں کا تالاب) کی تلاش شروع کی تاکہ سورج کے جلال سے بچا جائے۔ میری کوٹ سے یہ تالاب ساڑھے چار کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے، دو کلو میٹر تک تو آپ گاڑی ساتھ لے جاسکتے ہیں، لیکن اس کے بعد گاڑی آپ کو بد دعا دے گی تو ایسی غلطی مت کیجیے گا۔ دو ڈھائی کلو میٹر پیدل کا سفر ایڈونچر سے بھرپور ہے۔ آبشار کے پانی کو جمع کرتا پریوں کا تالاب گھاس پھونس کے جنگل میں چھپا ہوا ہے جسے تلاش کرنا پڑتا ہے۔

    ایک گھنٹے تک چلتے چلتے ہمیں ندی نظر آئی جس میں پریاں تھیں! یہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ہیں جو پانی میں پیر ڈالتے ہی اسے ڈیڈ اسکن سے صاف کرنے پہنچ جاتی ہیں۔ تھک ہار کر ہم اسی مقام پر ٹھہر گئے۔ دل میں ایک پل کے لیے خیال آیا کہ اتنی دور کیا یہ نالہ نما تالاب دیکھنے آئے تھے۔ اسی دوران دو ساتھی جو پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کہا کہ آبشار تو آگے ہے، آپ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں؟

    ہم بھاگے بھاگے پہاڑوں پر چڑھے اور گھاس پھونس میں گم ہو کر ایک تالاب پر پہنچے جہاں تین چھوٹی آبشاریں شور مچا رہی تھیں۔ سبز پانی کا تالاب ایک سمت سے کیرتھر کے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، ایک جانب گھاس نے پتھروں کو ڈھانپا ہوا ہے اور مشرق کی سمت پتھروں سے بہتا ہوا پانی ہے۔ یہ نظارہ واقعی کسی پرستان کا تھا۔ صبح کے دس بجے تھے اور پھر کب دوپہر ہوئی معلوم نہ ہوا۔

    تالاب کے فرحت بخش پانی نے دشوار گزار راستوں کی تھکاوٹ دور کردی تھی۔ تالاب کہیں گہرا تو کہیں کائی سے جمے پتھروں سے بھرا ہوا ہے، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ یہاں بھی مچھلیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں اور شروع شروع میں ان مچھلیوں کی خاطر مدارت تنگ کرتی ہے لیکن تھوڑی دیر میں آپ کو اس کی عادت ہوجاتی ہے۔ ایک بجے واپسی کی راہ لی اور ہٹ تک پہنچے جہاں‌ گرما گرم بریانی کھائی اور آرام کیا۔

    شام کی چائے کے بعد جب سورج کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو ساڑھے چار بجے موہن گیٹ اور سن گیٹ کی سیر کا ارادہ کیا۔ شیر گڑھ کی فصیل ان تمام نظاروں میں سب سے زیادہ پر کشش ہے۔ یہ بار بار آپ کو سیر کی دعوت دے گی، لیکن جولائی سے ستمبر تک کا موسم شیر گڑھ کی سیر کے لیے مناسب نہیں۔ ہمارے گائیڈ عبدالقادر نے قعلے کی تعمیر سے متعلق مختلف اور مشہور باتیں‌ بتائیں۔

    کئی کلو میٹر پر پھیلے اس قلعے کو دنیا کے چند بڑے قلعوں‌ میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ کیرتھر کے پہاڑ اس قلعے کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس قلعے سے کچھ فاصلے پر سن شہر واقع ہے۔ قلعے کے احاطے میں چالیس سے پینتالیس گھرانے مقیم ہیں جو مقامی گائیڈ عبدالقادر کے رشتے دار ہیں۔ یہاں سولر سسٹم سے بجلی کا بندوبست کیا گیا ہے، پانی کا انتظام ہے، پکے مکان ہیں، بس صرف موبائل کے سنگلنز نہیں آتے لیکن عبدالقادر کے مطابق وہ یہاں کی پرسکون فضا اور ماحول سے مطمئن ہیں۔

    جمعے کی رات کو شروع ہونے والا سفر ہفتے کی شام تمام ہوا اور ہم حسین یادیں، صدیوں‌ پرانی تاریخ کے ہزاروں رنگ اور بے شمار خوب صورت عکس اپنی آنکھوں میں‌ سمیٹ کر‌ کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔

  • وبا کے دنوں میں؛ جو میں‌ نے دیکھا، جو میں نے سیکھا!

    وبا کے دنوں میں؛ جو میں‌ نے دیکھا، جو میں نے سیکھا!

    تحریر: شیر بانو معیز

    کرونا کی وبا نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ کئی تاثر غلط ثابت ہوئے جیسے شدید گرمی اس وبا کو ختم کردے گی، فلاں دوا اس کا توڑ ہے، جڑی بوٹی، فلاں درخت کی چھال یا پتے اس وائرس سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ کرفیو اور لاک ڈاؤن کو ہی اس وبا سے بچنے کا حل بتایا جاتا رہا جب کہ ویکسین کی تیاری اور اس وبا کے خاتمے کی بات بھی حتمی نہیں اور اگر ویکسین تیار ہو بھی جائے تو ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کا پہلے جیسی حالت میں واپس آنا ممکن نہیں رہا۔

    اب میل جول کے انداز اور دوسرے کئی رویوں میں تبدیلی لانے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ چاہے اسے آپ پسند کریں یا ناپسند۔

    پچھلے تین ماہ کے دوران بہ حیثیت صحافی میری پیشہ ورانہ زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ لاک ڈاؤن، قرنطینہ جیسے الفاظ سنے، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا کیوں کہ ڈاکٹروں اور سپاہیوں کی طرح میڈیا ورکر بھی فیلڈ ہی میں رہے، لیکن ان تمام اصطلاحات کی حرارت ضرور محسوس کی یا یوں کہہ لیں کہ ذہن پر اس حوالے سے ایک قسم کا دباؤ ضرور رہا۔

    جب کیسز میں اضافہ ہوا تو کئی ساتھی بھی اس وائرس سے متاثر ہوئے، معلوم ہوا کہ جس کے ساتھ کل تک کام کیا ہے وہ آج آئسولیشن میں ہے۔ وائرس سے زیادہ خوف اس بات کا تھا کہ کہیں آپ انجانے میں اپنے گھروالوں کو اس کا شکار نہ کر دیں۔ علاج کی اذیت اور اسپتالوں کی صورتِ حال کورونا سے زیادہ تشویش ناک محسوس ہوئی۔ دفتری ذمہ داریاں انجام دینا ضروری ٹھہرا تو گھر والوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور تقریبا ڈیڑھ ماہ سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔

    دفتر سے گھر آنے کے بعد خود کو ایک کمرے تک محدود رکھا۔ تین ماہ سے گھر کا پکا ہوا کھانا کھایا ، باقاعدگی سے ماسک کا استعمال کیا، ہاتھ دھونے کی روایت، کم سے کم چیزوں کے ساتھ گھر سے باہر جانا اور آتے ہی چیزوں کو اسٹیرالائز کرنا، کپڑوں کو ڈٹرجنٹ میں ڈال کر فوری دھونا۔ یہ سب معمولی باتیں ہیں لیکن ایسا محسوس ہوا کہ شاید اس نے بہت حد تک محفوظ رکھا ورنہ ایک کمرے سے پانچ کیسز کی صورت میں آپ کا محفوظ رہنا معجزہ ہی ہوسکتا ہے۔

    کیا عجب کہ وائرس آج نہیں کل آپ کو متاثر کر دے، لیکن اس وقت یہ افسوس نہ ہوگا کہ احتیاط نہیں کی تھی۔ ایک جملہ جو میں نے اس وبا کے دوران سمجھانے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا وہ یہی تھا کہ موت تو برحق ہے، لیکن احتیاط نہ کرکے مرنا خود کشی ہے۔ الغرض احیتاط ہر صورت ضروری ہے۔

    یہ وبا جہاں کئی ظاہری تبدیلیوں کا سبب بنی ہے، وہیں باطنی تبدیلیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب ہم ضروری اور غیرضروری سے زیادہ بے حد ضروری پر آگئے ہیں۔ سادگی سے شادیاں، دکھاوے کی دعوتوں، بات بات پر پارٹیوں کا اہتمام نہیں کیا جارہا، گھروں میں عبادات پر زور دیا جارہا ہے، شاپنگ سینٹروں کی بندش سے لوگ مجبورا ہی سہی محدود ہوئے، گویا ان تمام چیزوں کے بغیر بھی زندہ رہا جاسکتا ہے۔

    ایک اور اہم بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ مجموعی طور پر مایوسی طاری ہے اور سرنگ کہاں ختم ہوگی کسی کو علم نہیں، لیکن سفر سب کا جاری ہے۔

    گویا رات کے بعد دن پر ایک کامل یقین ہو اور اس یقین کی راہ کے ہم سب راہی ہیں۔ انفرادی طور پر ہم سب ایسی کیفیت سے گزرے ہوں گے، لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ ہم سب ایک سی کیفیت اور صورتِ حال کا سامنا کررہے ہیں۔ اپنے ساتھ دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اس یقین کے سفر کو جاری رکھنے کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ یہ سفر جلد تمام ہو۔

  • کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    تحریر: عمیر حبیب

    سیر و سیاحت اور تفریحی سرگرمیاں انسان کو نئی توانائی، ہمت، حوصلہ اور بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔ سیاحت، سیر اور تفریح کے مقابلے میں باقاعدہ صنعت ہے جس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔

    کرونا کی وبا نے جہاں عام زندگی اور کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں سیاحت اور اس پر انحصار کرنے والے ممالک کی معشیت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔

    سیاحت سے متعلق اقوامِ متحدہ کی عالمی تنظیم کے محتاط اندازے کے مطابق سیاحت میں جہاں رواں سال 80 فی صد تک کمی سے کم از کم 100 ملین ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہے، وہیں اگلے چند سال میں سیاحت ایک مختلف شکل میں ڈھل سکتی ہے۔

    دنیا کے کئی ممالک اب بھی اس وبا کی زد میں ہیں جب کہ بہت سے ممالک نے اس وبا پر قابو پانے کا دعویٰ کیا ہے، ان ممالک میں یونان بھی شامل ہے جس کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کرونا پر قابو پا چکے ہیں اور ملک کو یکم جولائی سے سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یورپ کے ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا نے تینوں ملکوں میں‌ شہریوں کی آمدورفت کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا ہے۔

    پرتگال میں ایمرجنسی ختم کردی گئی ہے، مگر کچھ شرائط کے ساتھ اندرون ملک سفری کی اجازت دی گئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی حالات پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں اور ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپ موجودہ حالات پر قابو پا لے گا۔

    پیسیفک ایشیا ٹریول ایسوسی ایشن (پاٹا) کے چیف ایگزیکٹو ماریو ہارڈی کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران ویتنام اور تھائی لینڈ ایک ٹریول کوریڈور بنانے پر غور کر سکتے ہیں۔ سیاحت کے شعبے کے ماہر اور تجزیہ نگار برینڈن سوبی کو توقع ہے کہ یورپ اور امریکا میں بھی اسی طرح کے انتظامات دیکھنے کو ملیں گے، مگر سیاحت کے لیے ماحول سازگار بنانے میں اگلے چند سال تک خاموشی رہے گی۔

    ماہرین کے مطابق کرونا کے بعد سفر اور سیاحت کے لیے ماحول بننے میں کچھ وقت لگے گا جب کہ بعض ماہرین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاید دوبارہ کبھی اسی طرح سفر نہیں کرسکیں گے۔

    سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جو اس وبا کے بعد مکمل تبدیل ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر اس میں بہتری آنے کا امکان ہے، کیو‌ں کہ مستقبل میں صحتِ عامہ کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ سیاحت صرف مسافر کو ہی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ مقامی معیشتوں اور معاشروں پر بھی یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔

    اس وقت معاش اور معیشت دونوں داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ سبھی ممالک سیاحت کو رواں دواں رکھنے کے طریقے سوچ رہے ہیں۔ سیاحت کے شعبے سے متعلق ادارے اور ماہرین اس بات کی کھوج میں لگے ہیں کہ اس صنعت کو کس طرح جدید اور محفوظ بنایا جائے اور ایسے کون سے اقدامات کیے جائیں جن سے چند سال کے اندر نقصانات کو پورا کیا جا سکے۔

    ہمارے ملک میں بھی سیاحتی مقامات جن میں قدیم تہذیبوں کے آثار، تاریخی مقامات اور تفریح گاہیں شامل ہیں، کی کمی نہیں۔ کورونا کی قید میں سیاحت کے لیے گھر سے نکلنے کے بجائے شوقین اسے پڑھ رہے ہیں، یعنی کتابوں اور مختلف ذرایع سے دنیا بھر کے سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کررہے ہیں۔

    ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحتی مقامات سے متعلق معلومات اور سفر و قیام کی سہولیات سے دنیا کو آگاہی دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں آزاد کشمیر کی وادیوں، پہاڑی سلسلوں، جھیلوں، صدیوں پرانی تہذیبوں اور قدیم عمارتوں کی تصویری جھلکیاں دکھائی جاسکتی ہیں اور ان مقامات کی ویڈیوز تیار کی جاسکتی ہیں جو سیاحوں کو آنے والے دنوں میں پاکستان کا رخ کرنے پر آمادہ کریں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ملک کا امیج بہتر ہوگا بلکہ سیاحت کو فروغ ملے گا جس سے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • خواب دیکھنا چھوڑ دیں!

    خواب دیکھنا چھوڑ دیں!

    تحریر: شہناز احد

    محترم مراد علی شاہ صاحب! خوش قسمتی یا بدقسمتی سے آپ ایک ایسے صوبے کے چیف منسٹر ہیں جس کے اسکول ٹیچرز کو انگریزی میں دنوں کے نام لکھنا نہیں آتے، جہاں سائنس کے استاد کو پانی کا فارمولا معلوم نہیں۔

    ایک ایسا صوبہ جس میں سکھر میونسپل کار پوریشن کی تقریب میں آنے والے کلمے نہیں آتے، نمازوں کی رکعتوں کا علم نہیں۔ جس صوبے کے ممبرانِ اسمبلی کو 23 مارچ کی چھٹی کا مقصد اور پاکستان کب بنا اور اسی قسم کے سوالات کے جوابات نہ آتے ہوں۔

    چیف منسٹر صاحب یہ میں نہیں کہہ رہی، یہ مختلف چینلوں کی نشریات کے ویڈیو کلپس ہیں جو سوشل میڈیا پر آج بھی گردش میں ہیں۔

    آج آپ اور آپ کے نام زد کردہ مشیر، وزیر یومیہ بنیاد پر لوگوں سے ایس او پی کی پابندی کرنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ کبھی آپ ہاتھ جوڑتے ہیں، کبھی وہ گڑگڑاتے ہیں، آپ یا آپ کے کسی وزیر مشیر نے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایس او پی کا مطلب کیا ہے؟ شاہ صاحب شاید ارکانِ اسمبلی بھی اس کی وضاحت نہ دے سکیں۔

    آپ توقع کر رہے ہیں کہ صدر بوہری بازار، لی مارکیٹ، جونا مارکیٹ، زینب مارکیٹ، لیاقت مارکیٹ، حیدری، لالو کھیت، طارق روڈ، بہادر آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی اور شہر کے مختلف علاقوں کے دکان دار اور پتھارے دار ان ایس او پیز کو فالو کریں جن کو بنیاد بنا کر آپ نے چھوٹے کاروباریوں کے کشکولوں میں رحم کی بھیک ڈالی ہے۔ بصورتِ دیگر آپ ان کی دکانیں اور مارکیٹ سیل کر دیں گے۔

    شاہ صاحب! کیا آپ کو مذکورہ تمام مارکیٹوں اور بازاروں میں موجود دکانوں کا رقبہ معلوم ہے؟ کیا آپ کے علم میں ہے کہ ان بازاروں کی گلیاں کتنی چوڑی ہیں اور پارکنگ کے انتظامات کیسے ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ان بازاروں اور مارکیٹوں میں کتنے بیت الخلا ہیں؟

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان بازاروں اور مارکیٹوں میں کارپوریشن کا عملہ کب کب صفائی ستھرائی کا کام کرتا ہے اور وہاں جراثیم کش اسپرے کیا جاتا ہے یا نہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں ان بازاروں اور مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی اشیا کی قیمتیں کیا ہیں اور انھیں شہر کا کون سا طبقہ کس طرح خرید پاتا ہے؟

    اپنے صوبے سے متعلق اور بہت سے زمینی حقائق کی طرح آپ یقینا یہ سب بھی نہیں جانتے اور شاید جاننا بھی نہیں چاہیے کیوں کہ آپ ان مسائل کی اصل وجہ اور ان کی حقیقت جاننے کے لیے چیف منسٹر نہیں بنے ہیں۔

    آپ سے ایک اور مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر یہ باتیں آپ کے دل کو چُھو جائیں تو براہِ کرم کسی سرکاری افسر کو اس کی تحقیق کرنے اور تفصیلات جاننے پر مامور نہ کیجیے گا کہ جہاں رشوت خوری کا ایک اور در کھلے گا، وہیں آپ کی میز پر سب اچھا ہے کی ایک اور فائل کا اضافہ ہو جائے گا۔

    چیف منسٹر صاحب!
    شاید آپ نہیں‌ جانتے کہ حکومت کے مختلف محکمہ جات رمضان سے قبل ہی ان بازاروں اور مارکیٹوں کو بجلی، پانی کے خود ساختہ گرداب میں پھنسا دیتے ہیں تاکہ اپنی جیبیں بھاری کرسکیں۔

    آپ ایک مختصر رقبے کی اور تنگ سی دکانوں کے مالکان سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ نہ صرف سو روپے کا ماسک خود لگائے بلکہ یومیہ سو روپے کمانے والا ملازم بھی یہ ماسک خریدے اور دکان میں داخل ہونے والے گاہکوں کے ہاتھ سیناٹیزر سے صاف کروائے، اس کے ساتھ اپنی نہایت تنگ دکان میں داخل ہونے والے گاہکوں کے درمیان سماجی فاصلے کا خیال بھی رکھے؟

    جناب خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ زمینی حقائق کو قبول کرلیں۔

    آج بھی اس ملک اور صوبے میں گھروں سے باہر پھرنے والوں کو عوامی بیتُ الخلا کی سہولت میسر نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سڑکیں، گلیاں، راہداریاں ان کے تھوکنے، پان اور گٹکے کی پچکاریاں مارنے اور ہر قسم کی غلاظت پھینکنے کے لیے بنی ہیں اور گویا یہ ان کا پیدائشی حق ہے۔

    چیف منسٹر صاحب!
    آپ کے اعداد و شمار کے مطابق "کرونا” سے متاثرہ افراد کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے اور بڑھے گی۔ دنیا بھر میں کرونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اموات بھی واقع ہورہی ہیں۔ ادھر چند روز پہلے تک ہم سب آنے والے وقت سے بے خبر اس عید کے لیے بے قرار تھے جس کے لفظی معنی "خوشی” کے ہیں۔ وہ خوشی جو دل سے گزرتی ہوئی روح تک اتر جائے۔

    عید صرف نئے کپڑوں، جوتوں اور بغل گیر ہونے کا نام تو نہیں۔

    شا صاحب! آپ کو واقعی لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ انسان ایک وقت کھا کر زندہ رہ سکتا ہے، لیکن اگر کھانا لانے والا نہ رہے تو کرونا سے زندگی بھر لڑائی جاری رہ سکتی ہے۔

     


    (بلاگر صحافتی، سماجی تنظیموں کی رکن، کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں۔ مختلف معاشرتی مسائل اور صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں)

  • کیا یہ آکاس بیل ہے؟

    کیا یہ آکاس بیل ہے؟

    تحریر: شہناز احد

    یہ کون ہے جو بحر سے برِّاعظم اور برِّاعظم سے بحر، شمال سے جنوب، جنوب سے شمال، مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق، اوپر سے نیچے، نیچے سے اوپر کسی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ویزے کے بغیر دندناتا ہوا پھر رہا ہے؟

    ساری سرحدیں اور بندشیں پھلانگتا ہوا، ابھی اِدھر، کبھی اُدھر۔ نہ ہاتھ آئے، نہ دکھائی دے۔

    اسے ہوائی جہاز، ریل گاڑی، بحری جہاز، موٹر کار، سائیکل، موٹر سائیکل کسی ذریعہ سفر کی حاجت نہیں۔ پورا گلوبل ولیج لرزہ بر اندام ہے۔ ہمارا وہ گاؤں جس پر ہمیں بڑا ناز تھا۔ جس میں رہنے اور جینے کے ہم نے نت نئے ڈھنگ، نرالے ڈھب نکالے اور ناز و انداز اپنائے۔

    چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے جانور سے بدتر سلوک کرتے تھے۔ اس نے تمام اقوامِ عالم سے وہی سلوک کیا۔

    انسانی ہاتھوں، چہروں پر سوار، اپنی نمو کے لیے انسانوں کا خون پیتا، ان کی سانسوں سے الجھتا یہ کون ہے؟

    یہ گورے، کالے پیلے، سانولے، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھسٹ، فاشسٹ، سوشلسٹ، کمیونسٹ کسی شناخت، کسی علامت میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔

    اسے تو جیسے اپنی بقا، اپنی نشوونما، اپنے پھلنے پھولنے کی فکر ہے۔ اسے تو ہمارا وجود جکڑ کر، ہمارا اندر تہس نہس کر کے، ہمیں موت کے منہ میں دھکیل کر بس اپنے جینے کا سامان کرنا ہے۔

    کیا یہ کوئی آکاس بیل ہے؟

     


    (بلاگر صحافتی، سماجی تنظیموں کی رکن، کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں۔ مختلف معاشرتی مسائل اور صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں)

  • کرونا کا مقابلہ سیاست، کاروبار اور کرپشن سے!

    کرونا کا مقابلہ سیاست، کاروبار اور کرپشن سے!

    تحریر: عمیر حبیب

    اسپتالوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کرونا سے لڑتے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کررہے ہیں اور گویا حالتِ جنگ میں ہیں۔

    ڈاکٹروں نے حکومت سے حفاظتی لباس اور ضروری اسباب و وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کی درخواست اور عوام سے اپیل کی ہے کہ لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات پر سختی سے عمل کریں، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں گنجائش گھٹ رہی ہے اور کیسز بڑھ گئے تو متاثرہ افراد کو طبی سہولیات فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا اور انھیں مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑے گا۔

    موجودہ حالات میں اگر پاکستان کا دیگر ممالک سے تقابل کیا جائے تو حکومتیں لاک ڈاؤن کے علاوہ میڈیکل سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر وینٹیلیٹروں کی تیاری اور خریداری سمیت بڑی تعداد میں ماسک اور دستانے وغیرہ اسپتالوں میں پہنچائے جارہے ہیں۔پرتگال کی حکومت نے چین سے 500 وینٹیلیٹروں کا معاہدہ کیا ہے، لندن نے یورپ اور چین سے میڈیکل آلات کا معاہدہ کیا ہے۔ غرض کہ دنیا اس وبا کے ممکنہ پھیلاؤ اور انسانی جانوں کے ضیاع کے خدشات کے پیشِ نظر ایسے معاہدوں اور خریداری کا سلسلہ تیز کررہی ہے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ سنگین معاملہ بھی سیاست کی نذر ہورہا ہے۔

    صوبوں کے پاس صحت اور علاج معالجے کے لیے بجٹ موجود ہے، مگر اس کا استعمال نجانے کہاں اور کیسے ہورہا ہے۔ صوبہ سندھ کی بات کریں تو حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصر نظر آتی ہے، کبھی خبر ملتی ہے لاکھوں ٹن گندم راستے سے غائب ہوگئی ہے تو کبھی معلوم ہوتا ہے کہ راشن کی تقسیم میں خورد برد کی گئی ہے۔ لوگوں‌ نے سنا کہ ناقص اور زائد المیعاد اشیائے خورد و نوش غریب اور راشن سے محروم افراد تک پہنچا کر "نیکیاں” کمانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان حالات میں‌ بھی اگر ہم ایسی لوٹ مار اور اپنے اکاؤنٹ بھرنے سے باز نہیں‌ آئے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔

    دوسری طرف آسٹریلیا کے تحقیقاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ دنیا بھر میں کرونا سے صحت یاب مریضوں کا خون ڈارک ویب پر منہگے داموں فروخت ہورہا ہے کیوں کہ ایسے افراد کا خون (پلازما) متاثرہ مریض کی قوتِ مدافعت بڑھا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت پلازما تھراپی کی جارہی ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ فوری اور مؤثر طریقہ علاج نہیں ہے۔ البتہ ڈارک ویب پر صحت یاب مریضوں کے خون کی فی بوتل قیمت 2500 ڈالر وصول کی جارہی ہے۔ یہ خرید و فروخت قانونی طور پر جرم اور طبی نقطہ نگاہ سے خطرناک بھی ہے۔

    غرض کہ جہاں اس وبا پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہیں اس پر دھندا بھی عروج پر ہے اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں بھی اس سے کچھ مختلف ہی سہی مگر ایسے جرائم ہورہے ہوں گے جن پر بَروقت گرفت، تحقیق اور ثبوت ملنے کی صورت میں تفتیش ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک عام جرم غیر رجسٹرڈ لیبارٹریوں کا کرونا ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

    پچھلے دنوں قرنطینہ مراکز میں صفائی ستھرائی کے فقدان اور متاثرہ مریضوں کو سہولیات کی عدم فراہمی کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس کے بعد لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب خصوصی طور پر بنائے گئے ان مراکز کا یہ حال ہے تو سرکاری اسپتالوں میں انتظامات کیسے ہوں گے اور کیا اس طرح صوبائی حکومتیں کرونا پر قابو پاسکتی ہیں؟

    وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے، صحت کے شعبے کے لیے مختص بجٹ کا شفاف طریقے سے ضروری استعمال کریں اور ڈاکٹروں سمیت پیرا میڈیکل اسٹاف کی درخواستوں اور ان کی اپیلوں پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ساتھ ہی لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے لیے ایسی تجاویز زیرِ بحث لائی جائیں جن سے عوام کو فوری ریلیف مل سکے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)