Tag: اردو بلاگز

  • تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ مچھلی (Silver pomfret) کی پہچان، صحت بخش فوائد اور مکمل معلومات

    تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ مچھلی (Silver pomfret) کی پہچان، صحت بخش فوائد اور مکمل معلومات

    فرید الحق حقی

    مچھلیوں کی دنیا میں سفید پاپلیٹ سب سے مشہور اور مہنگی مچھلی ہے۔ اپنی خوب صورتی اور زبردست ذائقے کی وجہ سے سب ہی اسے جانتے ہیں۔ پاپلیٹ کھانے میں مکھن کی طرح نرم و ملائم ہے، لیکن اس کی لذت اور اصل ذائقہ تب ہی مل سکتا ہے جب یہ تازی کھائی جائے۔

    بدقسمتی سے عوام کی مچھلیوں سے عدم دل چسپی کے باعث مچھلیوں کی خریداری میں دھوکے بازیاں بہت عام ہیں اور لوگ باسی مچھلیاں تازی کے بھاؤ خرید کر، اور سستی مچھلیاں مہنگی مچھلیوں کے ناموں سے خرید کر لٹ جاتے ہیں اور انھیں پتا بھی نہیں چلتا۔ ایسی مچھلیاں کھا کر ایک تو مزا نہیں آتا، دوسرا صارفین کا دل اس طرف سے کھٹا ہو جاتا ہے اور کچھ صارفین مچھلیاں خریدنے سے اجتناب کرنے لگتے ہیں۔

    اس مضمون میں آپ سفید پاپلیٹ کی تازہ اور باسی کی پہچان، تازہ کہاں سے خریدی جائے؟ اس کے صحت بخش فوائد اور اس کے مکمل لائف سائیکل کے بارے میں جانیں گے۔

    تعارف

    سفید پاپلیٹ کو انگلش میں Silver pomfret کہتے ہیں، جب کہ انڈیا میں اسے ممبئ کے اطراف سفید پاپلیٹ کی بجائے صرف پاپلیٹ اور بنگال میں ’’روپ چندا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ عربوں میں بھی بہت زیادہ پسند کی جاتی ہے اور عربی اسے ’’زبیدی‘‘ کہتے ہیں۔ زبیدی عربی کے لفظ ’’زبدہ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی مکھن کے ہیں۔

    چاندی والا سفید پاپلیٹ

    مارکیٹ میں اس کی 2 قسمیں آتی ہیں۔

    1. Silver pomfret

    (Pampus argenteus)

    2. Chinese Silver Pomfret

    (Pampus chinensis)

    چائنیز پاپلیٹ کو پاکستان میں ’’گبر پاپلیٹ‘‘ جب کہ انڈیا میں ’’کاپری‘‘ کہتے ہیں۔ مارکیٹ میں پاپلیٹ کی تیسری قسم Black Pomfret (Parastromateus niger) بھی آتی ہے۔ اسے پاکستان میں ’’کالا پاپلیٹ‘‘ جب کہ انڈیا میں ’’حلوہ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن کالے پاپلیٹ کا تعلق Carangidae فیملی سے جب کہ سفید پاپلیٹ کا Stromateidae فیملی سے ہے۔

    عمر اور خوراک

    سفید پاپلیٹ 5 سے 7 سال تک جی سکتی ہے، جب کہ وزن میں 4 سے 6 کلو تک بڑھ سکتی ہے، لیکن بہت زیادہ شکار کے باعث اس کی 1 کلو کے اور 1 کلو سے کم ہی کے دانے نظر آتے ہیں۔ یہ گوشت خور ہوتی ہیں اور بنیادی طور پر چھوٹی مچھلیوں، کرسٹیشینز (کیکڑے، جھینگے، لابسٹر وغیرہ) زو پلانکٹن (چھوٹے جان دار) اور سکوئیڈ کھاتی ہیں۔

    گبر پاپلیٹ

    جنسی پختگی کی عمر اور انڈوں کی تعداد

    سفید پاپلیٹ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور ماحولیاتی حالات کے لحاظ سے مختلف لمبائیوں اور عمروں میں جنسی پختگی کو پہنچتے ہیں۔ تاہم، عام طور پر یہ 28 سینٹی میٹر تک کی لمبائی میں مکمل طور پر پہلی بار جنسی پختگی کو پہنچتے ہیں، جس کی رینج 18 سینٹی میٹر سے شروع ہوتی ہے۔

    ڈیپارٹمنٹ آف فش بائیو لوجی اینڈ بائیو ٹیکنالوجی فیکلٹی آف فشریز، چٹاکانگ بنگلا دیش، اور کوسٹل بائیو ڈائیورسٹی، مرین فشریز اینڈ وائلڈ لائف ریسرچ سینٹر بنگلا دیش کی تحقیق کے مطابق بنگلا دیش کے پانیوں میں سفید پاپلیٹ کی جنسی پختگی تک پہچنے کی لمبائی 18.82 سینٹی میٹر سے لے کر 35.73 سینٹی میٹر تک تھی اور وزن 89.26 گرام سے لے کر 617.60 گرام تھا۔ پختگی پر عمر تقریباً 1 سال تک کی ہوتی ہے، حالاں کہ ماحولیاتی عوامل اور مقامی سپوننگ سائیکل ان میٹرکس میں رد و بدل کر سکتے ہیں۔

    سفید پاپلیٹ بیچز میں انڈے دیتی ہے۔ عام طور پر 1 کلو کی مادہ ایک بیچ میں 1,76,300 تک انڈے دیتی ہے اور یہ انڈے دینے کے ایک پورے سیزن میں تقریباً 6 بیچز میں انڈے دیتی ہے، اس طرح 1 سیزن میں ایک 1 کلو کی مادہ کل 10,58000 تک انڈے دیتی ہے۔ بڑی مادائیں چھوٹی ماداؤں سے زیادہ انڈے دیتی ہیں۔ ماداؤں کے انڈے دینے کے بعد نر ان انڈوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انڈوں کے قریب اپنے پنکھ چلاتے ہوئے انھیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور تب تک انڈوں کی حفاظت کرتے ہیں جب تک ان انڈوں سے بچے نہ نکلیں۔

    کیا سفید پاپلیٹ کی نسل خطرے سے دوچار ہے؟

    حالاں کہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کی ریڈ لسٹ میں سفید پاپلیٹ کی نسل خطرے سے دوچار کی حثیت سے درج نہیں ہے، تاہم کچھ علاقائی رپورٹس میں کچھ علاقوں میں جیسے انڈیا، کویت اور چین میں ضرورت سے زیادہ تجارتی ماہی گیری کی وجہ سے اس کی نسل میں کمی ہو رہی ہے اور اب اس کے زیادہ سے زیادہ 1 کلو اور 1 کلو سے کم ہی کے دانے پکڑے جاتے ہیں، حالاں کہ یہ وزن میں 4 سے 6 کلو تک پہنچ سکتی ہیں۔

    سفید پاپلیٹ

    حد سے زیادہ تجارتی ماہی گیری اس مچھلی کی کم پختگی کی شرح اور کم ہوتی ہوئی ابادی کو صاف ظاہر کرتی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق سفید پاپلیٹ 28 سینٹی میٹر تک کی لمبائی میں جنسی پختگی تک پہنچتی ہیں اور وزن میں تقریباً 500 گرام تک ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ کم سے کم وزن وہ ہے جب ان کی جنسی پختگی شروع ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ وزن وہ ہ ہے جب یہ اپنی فل میچیورٹی یعنی کہ اپنی پہلی مکمل جنسی پختگی تک پہنچ جاتی ہیں۔

    کراچی فشری

    کراچی فشری میں لائی جانے والی زیادہ تر پاپلیٹ اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ 1 کلو میں 4 اور 6 دانے نکلتے ہیں، یعنی اس وزن میں جب یہ اپنے پہلی جنسی پختگی کو پہنچتی ہیں، یا پہنچنے والی ہوتی ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عمر میں ہی انھیں فوراً شکار کر لیا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کراچی فشری اور مارکیٹوں میں سفید پاپلیٹ کی ایسی بڑی بڑی ڈھیریاں بھی جا بہ جا نظر آتی ہیں، جن میں اس مچھلی کا وزن 100 گرام اور 150 گرام تک ہوتا ہے، یعنی کہ انھیں جنسی پختگی تک پہچنے سے پہلے ہی شکار کر لیا جاتا ہے۔

    سفید پاپلیٹ

    متعلقہ ڈپارٹمنٹس کو اس پر فوراً نوٹس لے کر گورنمنٹ پر دباؤ ڈال کر 500 گرام سے کم وزن والی سفید پاپلیٹ کے پکڑنے پر پابندی لگانی چاہیے، ورنہ اس شان دار مخلوق کی نسل جو کہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت زیادہ مفید ہے، دھیرے دھیرے ختم ہو جائے گی۔

    تازہ اور باسی سفید پاپلیٹ کی پہچان

    تازہ پاپلیٹ کو جب آپ اٹھا کر سر سے پکڑیں گے تو یہ مڑنے کی بجائے بالکل سیدھی رہے گی اور گوشت سخت ہوگا۔ اگر مچھلی لٹک جاتی ہے اور گوشت نرم ہے تو یہ باسی ہے۔

    سفید پاپلیٹ

    اس کے بدن پر چاندی ہوگی، اکثر برف لگنے سے چاندی اتر جاتی ہے، اس صورت میں گلپھڑوں کا پنکھ اٹھا کر دیکھیں چاندی ہوگی، اگر چاندی نہی ہے تو یہ باسی ہو چکی ہے۔ اس کے گلپھڑے دبانے پر اس میں سے سفید گاڑھا مواد نکلے گا، اگر مواد سفید کی بجائے لال یا کالا نکلتا ہے تو پھر یہ باسی مچھلی ہے۔

    مچھلی فروشوں کی دھوکے بازیاں

    نرم اور باسی پاپلیٹ کو مچھلی فروش سخت اور تازی بنانے کے لیے اسے کچھ گھنٹے یا 1 دن تک برف اور نمک کے پانی میں رکھتے ہیں۔ اس صورت میں پاپلیٹ کا بدن سخت اور کھال بالکل سفید ہو جاتی ہے، آپ سے اٹھا کر دیکھیں گے تو یہ بالکل سیدھی رہے گی اور سخت ہوگی۔ ایسی پاپلیٹ مچھلیوں کو فشری کی اصطلاح میں ’’چل واٹر مال‘‘ کہتے ہیں۔

    اس کی پہچان یہ ہے کہ ایسی پاپلیٹ دھلی ہوئی، بالکل صاف و شفاف اور سفید نظر آئے گی، اس پر چاندی بالکل بھی نہیں ہوگی اور اس کے گلپھڑے دبانے پر اس میں سے ہلکا سا لال رنگ کا پانی نکلے گا۔

    مچھلی فروش ’’گبر پاپلیٹ‘‘ کو بھی سفید پاپلیٹ کے نام سے فروخت کرتے ہیں۔ گبر سفید پاپلیٹ سے سستی ہوتی ہے، اس کے علاوہ مچھلی فروش ’’سوناب مچھلی‘‘ (Pompano fish) کی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں (سوناب کے 100 اور 200 گرام کے بچے، جو کہ سفید پاپلیٹ کی طرح نظر آتے ہیں) بھی سفید پاپلیٹ کہہ کر بیچتے ہیں۔

    کراچی میں تازہ کہاں ملے گی؟

    کراچی فشری میں 2 مارکیٹیں لگتی ہیں۔ رات کی مارکیٹ کو ’’گجہ مارکیٹ‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں زیادہ تر وہ مچھلیاں آتی ہیں، جو جال کے ذریعے شکار کی جاتی ہیں اور اس مارکیٹ میں ان لانچوں کی مچھلیاں آتی ہیں، جو لانچیں زیادہ تر مہینہ یا اس سے زیادہ تک سمندر میں شکار کرتی ہیں۔

    دوسری مارکیٹ کو ’’ھیلہ مارکیٹ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مارکیٹ دوپہر 3 بجے سے مغرب تک لگتی ہے اور اس میں 1 سے 2 دن والی شکار کی ہوئی مچھلیاں آتی ہیں۔ یہ ایکسپورٹ کوالٹی کی مچھلیاں ہوتی ہیں، اور جال کی بجائے کانٹے سے شکار کی ہوئی ہوتی ہیں، اس لیے بالکل تازہ ہوتی ہیں اور ان کی قیمت بھی صبح کی مارکیٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔

    لیکن کچھ مچھلیاں جس میں سفید پاپلیٹ بھی شامل ہے، شام کی مارکیٹ کی بجائے صبح کی مارکیٹ میں تازہ ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ریڑی گوٹھ اور ابراھیم حیدری سے بھی تازہ مل جاتی ہے۔

    قیمت

    پاپلیٹ کی قیمت اس کے وزن کے حساب سے ہوتی ہے، مستقل ایکسپورٹ کیے جانے کی وجہ سے اس کی قیمتیں سارا سال زیادہ ہی رہتی ہیں۔ 1 کلو والے دانے کی قیمت تقریباً 7 ہزار روپے، آدھا کلو والے دانے کی تقریباً 5 ہزار، 1 کلو میں 4 دانے والی کی تقریباً 4 ہزار، 1 کلو میں 6 اور 8 دانے والی کی تقریباً 3 ہزار، اور 1 کلو میں 10 دانے والی مچھلی کی تقریباً ڈھائی ہزار روپے تک قیمت ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ قیمتیں مارکیٹ میں سپلائی اور ڈیمانڈ کے حساب سے کم زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔

    صحت بخش فوائد

    لذیذ ذائقے اور خوب صورتی کے ساتھ ساتھ سفید پاپلیٹ صحت بخش فوائد سے بھی مالا مال ہے۔ کوئٹہ ویمن یونیورسٹی شعبہ زولوجی کے سردار بہادر خان، وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، فشریز ڈویلپمنٹ بورڈ کراچی پاکستان، انقرہ ترکی کی غازی یونیورسٹی، برونائی یونیورسٹی دارالسلام کی مشترکہ تحقیق جو کہ بلوچستان سے پکڑے گئے 40 سفید پاپلیٹ مچھلیوں کے نمونوں پر مشتمل تھی، کے مطابق پاپلیٹ کا گوشت انتہائی ہاضم ہوتا ہے جو کہ وٹامن اے، بی، بی 3، سی، ڈی، ای، اور وٹامن کے سے بھرپور ہوتا ہے۔

    اس کا گوشت پروٹین سے بھرپور اور کیلوریز میں کم ہوتا ہے، مذکورہ ٹیم نے یہ بھی پایا کہ اس کا گوشت صحت مند جلد کو فروغ دینے میں بہت ہی زیادہ کار آمد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے گوشت میں صحت بخش چربی جسے ’’پولی ان سیچوریٹڈ فیٹ‘‘ کہتے ہیں اور اومیگا تھری کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس میں آئرن، کیلشیئم اور سیلینیم کی بھی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ یہ وہ تمام ضروری وٹامنز ہیں جو کہ اگر مستقل بنیادوں پر لیے جائیں تو ایک فولادی و انتہائی صحت مند اور بیماریوں سے پاک وجود کو بہ خوبی و آسانی سے تشکیل دے سکتے ہیں۔

    مرکری کی سطح

    چین کے تین اداروں چائنا نیشنل آف شور آئل کارپوریشن (CNOOC) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لمیٹڈ بیجنگ، کالج آف میرین لائف سائنسز اوشین یونیورسٹی آف چائنا چنگ ڈاؤ، اور میرین کاربن سنک ریسرچ سینٹر شیڈونگ نے چین کے تین ساحلی علاقوں Beibu Gulf, Haizhou Bay, Laizhou Bay میں مرکری کی جانچ کے لیے مشترکہ تحقیق کی تھی، اس کے مطابق ٹیم نے پایا کہ تینوں علاقوں میں پاپلیٹ میں مرکری کی الگ الگ سطح ریکارڈ کی گئی۔

    سب سے کم سطح Haizhou Bay میں 0.012 ± 0.006 (mg/kg/dw) تھی جب کہ سب سے زیادہ مرکری Beibu Gulf میں 0.072 ± 0.026 (mg/kg/dw) ریکارڈ کی گئی۔ یہ مرکری اتنا کم ہے کہ سفید پاپلیٹ روز کھائی جا سکتی ہے۔

  • ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز ڈارک میٹر اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔

    کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔

    سائنس کی دنیا میں "ڈارک میٹر” کیا ہے ؟

    ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔

    کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول "ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔

    ڈارک میٹراب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔

    ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔

    ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔

    اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری

    اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔

    اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔

    حرفِ آخر

    یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:

    اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
    اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!

  • شرم الشیخ کی سیر

    شرم الشیخ کی سیر

    مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں پاکستانیوں کے لئے ” آن ارائیول ویزا” ۔۔ یعنی آمد پر ویزا کی سہولت موجود ہے ۔

    یہ ایک پرسکون مقام ہے جو کہ اس کی وجہ شہرت بھی ہے ۔ شرم الشیخ کے لفظی معنی شیخ کی خلیج کے ہیں ۔۔ اس شہر کو دنیا کا پرامن شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ اسی لیے یہاں متعدد پیس کانفرنسز منعقد کی جا چکی ہیں ، جبکہ دو ہزار بائیس میں شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا ۔ شرم الشیخ بحیرہ احمر، ریڈ سی کے ساحل پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہاں کی آبادی صرف پچھتر ہزار ہے ، قاہرہ سے شرم الشیخ کا براستہ سڑک سفر آٹھ سے دس گھنٹے کا ہے ۔ تمام راستہ ویران اور سنسان ہے ، مٹی کے ٹیلے ، خاموش پہاڑی سلسلے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ قاہرہ سے شہر میں داخل ہوتے ہوئے کئی چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ویران سڑکوں پر بسوں کو خالی کرایا جاتا ہے ، مسافروں اور سامان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے ۔ سفر کی تھکن اور سخت چیکنگ میں مسافر خود کو دہشتگرد تصور کرنے لگتے ہیں ، بدگمان سیکیورٹی اہلکاروں کی تلاشی کی رہی سہی کسر سراغ رساں کتے سامان سونگھ کر پوری کرتے ہیں ۔ شرم الشیخ اپنے محل وقوع کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ سخت سیکیورٹی کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ مصراسرائیل چھ روزہ جنگ کے دوران تل ابیب نے شرم الشیخ پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جسے بعد میں امن معاہدے کے تحت واپس مصر کو سونپا گیا

    شرم الشیخ میں دو ہزار سے زیادہ ریزورٹس ہیں ۔ بیشتر ساحل کے قریب ہیں ، جہاں پہنچ کر سفر کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔ واٹر اسپورٹس اس شہر کا خاصہ ہے ۔ دو روز کے لئے ہمارا قیام پیرامیسا نامی ریزورٹ میں ہوا ۔۔ یہ شارکس بے کے قریب ہے ۔ اس ریزوٹ کا ایک بڑا حصہ زیرتعمیر تھا ۔۔ لیکن جتنا رقبہ آپریشنل ہے اسکی سیر کے لئے بھی کم از کم ہفتہ درکار تھا ۔ یہاں کشادہ ڈائننگ ایریا ۔۔ کئی ریستوران ۔۔ اسنیک بار ۔ متعدد سوئمنگ پولز ۔۔ کڈز پلے ایریا ۔ بال روم ۔ جمنازیم ، اسپا ، جیکوزی اور اسپورٹ ایرینا سمیت کئی سیر و تفریح کے مقامات ہیں ۔ ہمیں چھ ہزار والے بلاک میں روم دستیاب تھا ، جہاں سے سمندر کا راستہ نزدیک اور دلکش ہے ۔ ساحل کے قریب ٹیلوں پر چھتریوں کا سایہ ہے ۔ ٹھنڈے ٹھار مشروبات کے ساتھ لہروں کے دیدار کے لئے بہترین آرم گاہ بنائی گئی ہے ۔ سن باتھ کے لئے یورپی بلخصوص روسی مہمانوں کا تانتا تھا ۔ پاکستانیوں کے لئے سورج کی سکائی زیادہ پرکشش نہیں ۔ اسکی بڑی وجہ ہماری رنگت بھی ہے جو جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے ۔

    شرم الشیخ میں دو روزہ قیام کسی رولر کوسٹر رائیڈ سے کم نہ تھا ۔ دو روز میں ریزورٹ اور بحیراحمر کی سیر ناممکن ٹاسک تھا ، جسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اس دوران پیراسیلنگ ، اسپیڈ بوٹنگ ، اسنارکلنگ ، اور سی ٹوور سے لطف اندوز ہوئے ۔ میری چیک لسٹ میں سمندر کنارے سورج طلوع ہونے کا نظارہ دیکھنا ، خاموش ساحل پر چند لمحوں کے لئے خواب خرگوش کے مزے لینا بھی شامل تھا ، جسے میں انجام دینے میں کامیاب رہی ۔ بحیرہ احمر میں لہریں کم اور پانی بے حد شفاف ہے ۔ مچھلیاں تیرتی دکھائی دیتی ہیں ، لیکن سمندر اس قدر نمکین ہے کہ پانی میں ڈبکی لگانے والے بلبلا اٹھتے ہیں ۔ یہ سمندر کئی رنگ بدلتا ہے ، کسی مقام پر یہ ہلکا تو کہیں گہرا نیلا ہے ۔ بلیو لگونا پر ریف دیکھنے کے لئے لے جایا جاتا ہے ، جہاں سمندر آسمانی رنگ کا ہے اور پانی قدرے کم نمکین ہے ۔ بلیو لگونا کے سامنے آپ کو ایک جزیرہ دکھائی دے گا ، جسے Tiran island کہتے ہیں ۔ یہ جزیرہ اب سعودی عرب کی ملکیت ہے ۔۔

    شرم الشیخ کے ڈاؤن ٹاؤن میں قائم شاپنگ سینٹرز بھی پرکشش مقام ہے ۔۔ جگہ جگہ سینڈ آرٹسٹ دکھائی دیں گے ، بڑے برانڈز کے ساتھ مقامی اشیا کے اسٹورز کی بھی بھرمار ہے۔ شاپنگ کے شوقین افراد اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ مصر میں وہی خریدار کامیاب ہے جو سودے بازی جانتا ہے ، پانچ ہزار مصری پونڈز سے شروع ہونے والی چیز سو مصری پونڈز میں بھی مل جاتی ہے ۔۔

    سودے بازی کا فارمولا سروسز پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔۔ شوہر نامدار نے واٹر رائڈز میں اس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا ۔۔ ریزورٹ میں ہماری ملاقات انتظامیہ کی ایک خاتون سے ہوئی ۔ جس کا نام وکٹوریہ تھا ۔ خاتون نے چیک آوٹ کے بعد وین کے انتظار میں ہمارے لئے نماز کی جگہ کا انتظام کیا تھا ۔ یوکرائن سے تعلق رکھنے والی خاتون نے بتایا کہ وہ اسلام سے متعلق تعلیم لے رہی ہے ۔ وہ اسلام قبول کرنے جارہی ہے ۔ اور چاہتی ہے اسکے خاندان والے بھی اسکی پیروی کریں ۔

    شرم الشیخ کی مقامی زبان عربی ہے ۔ لیکن یہاں روسی ، جرمن اور فرانسیسی زبانیں بھی مقبول ہیں ۔ پرسکون مقام کے متلاشی کے لئے یہ ایک بہترین شہر ہے جو کہ زیادہ جیب پر بھاری نہیں پڑتا ۔ یہاں زیادہ سے زیادہ تو من بھاتا قیام کیا جاسکتا ہے لیکن بھرپور لطف اٹھانے کے لئے کم از کم بھی ہفتہ درکار ہے ، ورنہ ہماری طرح دو روز کی زیارت کر کے شرم الشیخ سے واپسی پر بڑی شرم آئے گی ۔۔

  • تین افسوس ناک واقعات اور سوشل میڈیا

    تین افسوس ناک واقعات اور سوشل میڈیا

    یہ چند تازہ اور حقیقی واقعات ہیں جواب قصّہ بن کر ہر زبان پر جاری ہیں۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پہلے یہ واقعات ’’خبر‘‘ بنے اور پھر متعلقہ اداروں نے اس پر ’’ایکشن‘‘ بھی لیا۔

    ایک واقعہ بہاول نگر کے پولیس اسٹیشن کا ہے، دوسرا بہاولپور کے ایک علاقے کا، تیسرا کراچی ایئر پورٹ پر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوا۔

    بہاول نگر والے واقعے پر خاموشی ہی بھلی! یوں‌ بھی وائرل ویڈیو کے تعاقب میں جو انکشافات ہوئے ہیں، اس نے ایک فریق کی مظلومیت کا تأثر زائل کردیا ہے۔ اس پر اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ سوشل میڈیا پر رائے عامّہ سے فریقین کو سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔ عسکری ادارے کے جوانوں کی جانب سے وردی پوش پولیس اہل کاروں پر تشدد عوام کی نظروں میں یقیناً‌ ان کا وقار اور احترام مجروح کرتا ہے۔ اداروں کو اپنی حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

    ہم چلتے ہیں اُن تین دیگر واقعات کی طرف جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ عمومی طور پر ہماری نگراں ہے۔ یہ سب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مرہونِ منت ہے جس میں سیکیوریٹی کیمروں کے علاوہ موبائل فونز بھی شامل ہیں۔ اب کوئی بھی مشکوک یا غلط حرکت، جرم یا سرِ راہ ہماری کوئی نیکی بھی ریکارڈ ہوجاتی ہے اور سوشل میڈیا کی زینت بھی بن سکتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم ’’سزا یا جزا‘‘ پا سکتے ہیں۔ گویا موبائل فونز اور سوشل میڈیا کے دور میں کسی جرم کو چھپانا کچھ مشکل ضرور ہو گیا ہے۔

    جب بھی کسی قسم کی ناانصافی، زیادتی پر مبنی واقعے یا صریح جرم کی ویڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو جہاں فوری طور پر عوام کا شدید ردّعمل سامنے آیا، وہیں وہ واقعہ ملکی ذرایع ابلاغ کا حصّہ بنا اور قانون کی نظروں میں بھی آگیا۔

    اس کی تازہ مثال کراچی سے فیصل آباد جانے والی ملّت ایکسپریس کی مسافر مریم بی بی پر پولیس اہل کار کے تشدد کی ویڈیو اور موت کا معاملہ ہے۔ اس تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس اہل کار کو گرفتار کر لیا گیا، لیکن خاتون اب اس دنیا میں نہیں رہی اور اس کی موت معمّہ بنی ہوئی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عورت کے جسم پر کئی گہرے زخموں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی موت خود کشی ہے، حادثہ یا قتل۔ یہ وردی کی طاقت کا نشّہ تھا یا ’’برے ارادے‘‘ کی تکمیل میں ناکامی کا غصّہ اور اشتعال جس نے اسے پہلے ایک ناتواں پر ہاتھ اٹھانے پر مجبور کیا اور بعد میں اس عورت کی لاش ملی۔ مریم بی بی کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ اسے سات اپریل کو چلتی ریل گاڑی سے دھکا دیا گیاتھا اور یہ معاملہ قتل کا ہے۔ ان کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ ریل گاڑی کا پولیس کانسٹیبل مریم سے راستے میں ’’چھیڑ خانی‘‘ کر رہا تھا۔

    ایک اور ویڈیو کراچی ایئرپورٹ کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہوائی اڈے کے بین الاقوامی پرواز سے آنے والوں کے لیے مخصوص دروازے پر ایک کم سن بچّی بیرونِ ملک سے آنے والے والد کو دیکھتے ہی اس کی جانب لپکتی ہے۔ لیکن وہاں موجود اے ایس ایف کا گیٹ انچارج اسے بالوں سے پکڑ کر پیچھے دھکیل دیتا ہے اور معصوم بچّی فرش پر گر جاتی ہے۔ یہ واقعہ 10 مارچ کا ہے جس کا ذمہ دار شاید وردی کے گھمنڈ میں مبتلا تھا۔ جذبات سے عاری یہ اہل کار معصوم بچّی سے یہ سلوک کرتے ہوئے بالکل ایک مشین یا روبوٹ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ واقعہ کی ویڈیو آنے کے بعد عوامی ردّعمل سامنے آیا اور تب سبحان نامی اہل کار کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی۔

    چند ماہ قبل لاہور کے شہر اچھرہ میں ایک خاتون پولیس افسر کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جو مشتعل ہجوم سے اُس عورت کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں جس پر اس کے لباس کی وجہ سے توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس واقعے میں بھی ہم ایک باوردی پولیس افسر کو دیکھتے ہیں لیکن یہ اُن دو واقعات کے ذمہ دار پولیس اہل کاروں سے یکسر مختلف ہیں۔ ریل گاڑی اور ایئرپورٹ پر وردی پوش سفاکیت، ظلم اور بدسلوکی کی مثال بنے جب کہ خاتون پولیس افسر نے ذہانت اور فرض شناسی کی مثال قائم کی۔

    پاکستان میں اکثریت موبائل فون اور انٹرنیٹ سے استفادہ کر رہی ہے۔ ان میں‌ نیم خواندہ بلکہ ناخواندہ افراد بھی شامل ہیں جو سوشل میڈیا کے اس برق رفتار اور مثبت کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس کی مثال یہ واقعات ہیں جن کا ذکر ہم نے کیا ہے۔ بلاشبہ رائے عامّہ کی تشکیل میں سوشل میڈیا کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کوئی بھی فرد معاشرتی اور حکومتی سطح پر کمال و نقص کی نشان دہی کرتے ہوئے کسی پلیٹ فارم پر مثبت اور تعمیری بحث کا آغاز کرتا ہے۔ لیکن اسی طاقت کو منفی سوچ کے حامل لوگ اور مفاد پرست بھی استعمال کررہے ہیں جن کا راستہ قانون اور متعلقہ ادارے روک سکتے ہیں۔