Tag: اردو بلاگ

  • کراچی کو کیا چاہیے؟

    کراچی کو کیا چاہیے؟

    تحریر: عمیر حبیب

    کراچی، ایک ایسا شہر جس کی آبادی میں ایک عام اور محتاط اندازے کے مطابق ہر سال تین سے چار فی صد اضافہ ہو رہا ہے۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں میونسپل کارپوریشن کے ذریعے شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کا نکالا جاتا رہا ہے اور بعد میں بھی ہر دور میں مقامی حکومتوں کے نظام کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھا گیا، مگر سن 2000 میں لوکل باڈی سسٹم کو بہتر بناتے ہوئے شہر کی ترقی اور تعمیر میں اس کی اہمیت اور افادیت کو گویا تسلیم کیا گیا۔

    اس دور میں مقامی نظامِ حکومت کے تحت شہر کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا اور 178 کے قریب یونین کونسلوں کو فعال کیا گیا جس سے نہ صرف علاقائی سطح پر مسائل کو حل کیا جانے لگا بلکہ شہر میں کئی نئے پروجیکٹس پر کام شروع ہوا۔ ان میں 20 منزلہ آئی ٹی ٹاور ہو یا فلائی اورز، شہر میں نوکری اور روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوئے اور بے روزگاروں‌ کی بڑی تعداد اس کے سہارے معاشی میدان میں خود کو مضبوط اور مستحکم کرنے لگی، لیکن سیاسی کھینچا تانی میں یہ نظام کہیں‌ پیچھے رہ گیا۔

    آج یہ شہر سیاسی مداخلت سے پاک، بااختیار، تمام ضروری وسائل اور ہر قسم کی مشینری سے لیس لوکل حکومت چاہتا ہے اور بس۔

    جس طرح علاقے کے اراکینِ اسمبلی کا کام قانون سازی اور دیگر شعبوں سے متعلق ہے اسی طرح شہری مسائل حل کروانا اور اس نظام کو جاری و ساری رکھنا عدلیہ کا نہیں بلکہ لوکل گورنمنٹ کا کام ہے۔

    کراچی میں بڑھتا ہوا ٹریفک اور آمد و رفت بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ٹرانسپورٹ کا نظام اس وقت پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں ہے جب کہ اس حوالے سے لوکل سطح پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح بے شمار مسائل اور کام ہیں جو علاقائی سطح پر اور لوکل نظام کے تحت ہی مستقل بنیادوں پر اور طویل مدت کے لیے حل ہوسکتے ہیں۔

    یورپ اور ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کی خوش حالی کا راز اس کے لوکل نظام میں ہی چھپا ہے، جہاں ہر شہری اور علاقائی مسئلے کے حل کے لیے وفاقی، صوبائی حکومت یا عدالت سے رجوع نہیں کرنا پڑتا بلکہ میونسپل کارپوریشن میں صرف ایک درخواست دینے سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کا نظام بھی حکومت کے پاس ہے جو کبھی اور کسی قسم کے احتجاج کی نذر نہیں ہوتا۔

    اگر ہمارے ملک میں عوامی امنگوں اور جذبات کو اہمیت دی جائے اور سیاسی میدان میں ہوا کا رخ دیکھ کر نیک نیتی سے بروقت فیصلہ کیا جائے تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ "بلی چاہے سفید ہو یا کالی دیکھنا یہ چاہیے کہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں۔”

    موجودہ حکومت کی کوشش ہے اور دعویٰ بھی کہ وہ ملک کا نظام درست کرنے کی کوشش کررہی ہے اور ہر قسم کی خرابی دور کی جائے گی تو کیا ہی اچھا ہو کہ لوکل گورنمنٹ کے نظام کو مضبوط بنانے اور اسے اختیارات دینے کی طرف بھی قدم بڑھایا جائے جس کے تحت شہریوں کے بنیادی مسائل علاقائی سطح پر حل ہوسکیں۔ اس حوالے سے تمام سیاسی قیادتوں اور صوبائی حکومتوں کو سوچنا چاہیے تاکہ عوام کو ان کی دہلیز پر مسائل کا حل مل سکے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • انسان سے نہیں، انسان کو جیتنا سیکھو!

    انسان سے نہیں، انسان کو جیتنا سیکھو!

    تحریر: سردار فہد

    "یہ ہوس کا زمانہ ہے بابا جی، محبت کا نہیں۔ ضرورتیں کچھ دیر کے لیے کدورتوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے محبت کے دو بول بولتی ہیں اور پھر کدورتوں کے پیچھے چھپ جاتی ہیں۔”

    میں نے گِلہ کیا تو بابا جی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ نے میری دلیل کو جھٹ سے رد کر دیا۔ وہ بولے۔

    "بیٹا ! نہ ملنے کا گِلہ تو وہی کرتے ہیں جو کچھ دینا نہیں جانتے یا دینا نہیں چاہتے۔

    یاد رکھو! محبت اور عزت دینے سے ملتی ہے۔ یہ تو دیوار پر پھینکی ہوئی گیند کی طرح ہوتی ہے۔ جتنی قوت سے پھینکو گے اتنی قوت سے واپس تمہارے ہاتھوں میں آئے گی۔ بیٹا! دینا سیکھو۔ اوپر والا دس گنا کر کے لوٹائے گا۔ چاہے وہ محبت ہو یا عزت۔”

    "لیکن بابا! ایسے لوگ بھی تو ہیں جو اس قابل ہی نہیں کہ انہیں عزت دی جائے یا ان سے محبت کے بول بولے جائیں۔ بعض اوقات تو انسان کو خود پہ ترس آتا ہے کہ جس شخص کو اس نے اتنی محبت دی وہی شخص جب دغا کرنے پر آیا تو قرعہ بھی اسی کا نام نکلا جس نے اسے دل کے قریب تر رکھا تھا۔

    اور جس شخص کو عزت کی پگ پہنا کر وہ اس کا قد اونچا کرتا رہا اسی شخص نے اسے بونا سمجھنے میں دیر نہیں کی۔” غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکلا تو بابا جی کے چہرے کی مسکان غائب تھی۔

    "بیٹا ! رب کی بنائی ہوئی کوئی چیز بھی حقیر نہیں، بدصورت نہیں، کمتر نہیں ہے اور بے کار نہیں ہے۔ انسان تو ہے ہی اشرف المخلوقات اور انسان کو میرے اللہ نے بہت ہی خوب صورت بنایا ہے، اور ہر انسان کی مٹی میں محبت، اخلاق اور اخلاص کی خوش بُو ملائی ہے لیکن انسان ہی اپنے اندر کے شیطان کو اس قدر اختیار دے دیتا ہے کہ وہ اس کے اندر کی خوش بُو کو اپنی غلاظت بھری پوٹلی میں قید کرسکے، لیکن کبھی کسی باغ میں کانٹے کو دیکھا ہے؟”

    "کانٹے کو؟ باغ میں تو لوگ پھول دیکھتے ہیں بابا۔” مجھے حیرانی ہوئی۔

    "ہاں ! پھول ہی تو دیکھتے ہیں۔ ان کی خوش بو انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ان کی رنگت اور نازکی انہیں مسرور کرنے لگتی ہے۔ اور وہ اسے ہونٹوں سے لگا لیتے ہیں۔ کانٹے تو جب ان کی انگلیوں میں چبھنے لگیں تو تبھی انہیں کانٹوں کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔

    لیکن اگلی بار باغ میں جاؤ تو کانٹوں کے لیے جانا۔ انہیں محبت سے دیکھنا۔ ان کے اندر کی خوب صورتی کو محسوس کرنا۔ اور میری مانو تو انہیں ہونٹوں سے بھی لگا لینا۔ وہ اپنے اندر کی ساری نرمی تمہارے اس پیار کے صدقے تم پر نچھاور کر دیں گے۔ اور آزما لینا۔۔۔۔ ایسا سکون ملے گا جو پھولوں کی نازکی میں کہاں۔

    بیٹا! انسان بھی سخت ہو جاتے ہیں، کانٹوں کی طرح۔
    انہیں محبت نرم کرتی اور ایسا نرم کرتی ہے کہ پھر پھول جیسے نرم دل لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ بہت پیچھے۔”

    میں بابا جی کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے کی جھریوں میں نور چمکتا نظر آنے لگا۔ اور میری آنکھوں میں وہ نور اترنے لگا جو ہر سختی کو پگھلاتا ہوا کسی بھی چیز کو موم بنانے کی طاقت رکھتا ہو۔ جو انسان سے جیتنے کے بجائے انسان کو جیتنے کا ہنر جانتی ہوں۔ جو دلوں کی حکم رانی کا خواب دیکھنے لگی ہوں۔

     

    (مصنف کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے، شاعر ہیں، کہانیاں لکھتے ہیں اور مختلف سماجی موضوعات پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے بلاگ کا سہارا لیتے ہیں)

  • دو مہمان….

    دو مہمان….

    تحریر: کاشف شمیم صدیقی

    مہمان نوازی کیا ہوتی ہے، کوئی ہمارے ہردل عزیز دوست قوی (ذوالقرنین) سے پوچھے۔ جوں ہی پتا چلا کہ بڑے بھائی کی فیملی امریکا سے کراچی آرہی ہے، لگے گھر کو سجانے سنوارنے۔

    جن کمروں میں مہمانوں کو ٹھہرانا تھا اُن کے ساتھ ساتھ پورے گھر کو رنگ کروا دیا۔ فرنیچر بھی بدلوا دیا۔ کمروں کے ایئرکنڈیشنر اور گھر میں کھڑی گاڑی کی پرفارمنس کچھ مشکوک محسوس ہوئی تو مکینک کے حوالے کردیا۔ مہمانوں کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے کچن کے حوالے سے بھی خوب تیاری کر لی گئی تھی۔

    مہمان آئیں اور ’’رت جگے“ نہ ہوں، ایسا کیسے ممکن تھا! چناں چہ نہ صرف بہترین قسم کے خشک میوہ جات اور ماحول کو مزید پُرلطف بنانے کے لیے بڑوں اور بچوں کی تفریح اور پسند کا خیال رکھتے ہوئے غزلوں اور کارٹون فلموں کی سی ڈیز منگوا لی تھیں۔ غرض کہ اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی۔

    پھر مہمان آئے، پورے تیس دن رہے اور پتا ہی نہیں چلا کہ کب وقتِ رخصت آیا، مہمان جب واپس امریکا جانے لگے تو بہت خوش اور مطمئن تھے۔ قوی اور اس کے گھر والوں نے واقعی کسی بھی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہیں ہونے دی تھی، ہر دم اُن کا بھرپور خیال رکھا تھا۔ یہ سب دیکھ کر دل سے یہی دعا نکلی کہ اے خدا ہمیں بھی ایسی مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما۔

    رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا تھا۔ عشا کی نماز کے بعد مبارک باد کا سلسلہ تھما تو سوچا قوی سے مل کر آجاؤں، کافی دنوں سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی۔ ماہِ رمضان کی مبارک باد بھی دے دی جاتی اور خیریت بھی دریافت کرلیتا، بس یہی سوچ کر قدم اُس کے گھر کی طرف بڑھا دیے۔ وہ بہت خوش ہوا اور سلام دعا کے بعد بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا!

    اور سناؤ قوی! رمضان میں تو آفس کے اوقات کارِ کم ہو گئے ہوں گے، اب تو واپسی جلد ہو جایا کرے گی۔

    ٹائمنگ کا تو کچھ خاص پتا نہیں کیوں کہ میں نے تو آفس سے ایک ماہ کی رخصت لے رکھی ہے۔ اس نے جواب دیا۔

    اچھا۔۔ وہ کیوں، سب خیریت تو ہے؟

    ہاں، سب خیریت ہی ہے۔ صدیقی سچ پو چھو تو مجھ سے روزے رکھ کر آفس نہیں جایا جاتا، نقاہت سی رہتی ہے سارا دن، کسی کام میں دل نہیں لگتا، (چالیس
    سال کی عمر میں اچانک رمضان کے موقع پر پیدا ہوجانے والی یہ کم زوری سمجھ سے بالا تر تھی۔)

    لیکن گھر میں رہ کر بھی تو تم بوریت ہی محسوس کرو گے۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    آں۔ نہیں شاید وقت گزرنے کا اتنا پتا نہ چلے۔

    وہ کیسے؟ میں نے پُر تجسس انداز میں دریافت کیا۔

    بھائی! دن بھر کوئی کام کاج تو ہو گا نہیں، تو سوچا ہے کہ فجر پڑھ کر سو جاؤں گا، اور پھر جب شام کو سو کر اُٹھوں گا تو عصر سے پہلے ظہر کی نماز بھی
    پڑھ لوں گا۔

    کیا مطلب۔ تم صبح سے شام تک سوتے ہی رہو گے۔ میں نے کافی حیرت سے پوچھا تھا۔

    تو جاگ کر کرنا بھی کیا ہے۔ جواب انتہائی معصومانہ تھا۔

    اور عصر کے بعد کا کیا پروگرام ہے۔ کیا پھر سو جاؤ گے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں طنز تھا۔

    ارے نہیں یار، عصر سے مغرب کا وقت تو صرف دیکھنے، دیکھنے کا ہوتا ہے، اور پھر بازار جا کر اپنے لیے افطار کا سامان بھی تو لانا ہوتا ہے۔

    کیوں۔۔ گھر میں کچھ نہیں بنتا؟

    اب مجھ اکیلے کے لیے بھلا کیا بنے گا!

    اکیلے کیوں۔ بھابھی اور بچے بھی تو ہیں۔

    تم تو جانتے ہی ہو بھابھی تمہاری شوگر کی مریض ہیں، اس لیے روزے نہیں رکھتیں، اور بچوں کا تو پوچھو ہی مت، ہر تین، چار گھنٹے بعد اگر کھانے کو کچھ نہ ملے تو بس آپے سے ہی باہر ہو جاتے ہیں۔

    تو سمجھاؤ اُنہیں، کچھ احساس دلاؤ۔

    ارے، بہت بگڑے ہوئے ہیں، لاکھ سمجھایا لیکن مجال ہے جو کسی کی سن لیں، اب تو میں نے کہنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ قوی نے نہایت صفائی سے اپنا دامن بچایا تھا۔

    قوی میں نے سوچا ہے کہ اس بار تراویح تمہاری طرف والی مسجد میں ادا کی جائے، اس طرح کچھ واک بھی ہو جائے گی اور واپسی پر ہم ساتھ پان بھی کھا لیا کریں گے۔

    یار صدیقی، پان تو میں تمہارے ساتھ ضرور کھاتا، لیکن اب کیا بتاؤں کہ افطار کے بعد ایسا پیٹ پھولتا ہے کہ کہیں آنے، جانے کی ہمت باقی نہیں رہتی، دل چاہتا ہے کہ بس لیٹا ہی رہوں۔

    تو پھر عشا کی نماز اور تراویح؟؟

    اب ایسی حالت میں تراویح پڑھنا تو ممکن نہیں ہوگا البتہ عشا کی نماز میں گھر پر ہی ادا کر لوں گا۔ قوی نے نظریں چُراتے ہوئے اپنی بات مکمل کی تھی۔

    رمضان میں قوی کے اس پروگرام پر حیرت کی جائے یا افسوس، بس یہی سوچتے ہوئے میں نے اُس سے اجازت چاہی اور گھر واپس آگیا۔

    دو مہمانوں کی مہمان نوای میں یہ واضح تفریق یقینا ایک سوالیہ نشان تھی۔ خالق کائنات کے بھیجے گئے خاص اور اہم مہمان کی بخوشی واپسی اتنی غیر اہم کیوں تھی؟ کیوں دوسرے مہمان کی حرمت، عزت اور حق ادائیگی کا خیال نہیں رکھا جا رہا تھا؟ یہ سب سوچتے ہوئے دل سے یہ دعا بھی نکلی کہ اے خدا ہمیں ایسا میزبان بنا دے کہ آنے والے ہر مہمان کی مہمان نوازی اس طرح کریں کہ سب اپنی واپسی پر ہم سے نہال ہوں۔

    (کاشف شمیم صدیقی شاعر اور کالم نگار ہیں، کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں، شعبہ صحافت سے وابستگی کو اپنی زندگی میں پیدا ہونے والی مثبت تبدیلیوں کا موجب گردانتے ہیں۔)

  • کرونا: جینے کا انداز اور سماجی اطوار "تبدیلی” چاہتے ہیں!

    کرونا: جینے کا انداز اور سماجی اطوار "تبدیلی” چاہتے ہیں!

    تحریر: شیر بانو معیز

    دنیا بھر میں حکومتیں لاک ڈاؤن کی مدت میں اضافہ کرنے پر مجبور ہیں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے اس حوالے سے بہت احتیاط کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

    کرونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں ٹیلیتھون کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس دوران وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ بہت اہم اور قابلِ غور ہیں۔
    ٕ
    وزیرِاعظم نے کرونا سے متعلق اور موجودہ صورتِ حال میں جو باتیں کی ہیں ان کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو کرونا کے ساتھ جینے کی عادت ڈال لینی چاہیے۔ یہ بات صرف وزیراعظم عمران خان نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے سائنس داں اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کرونا کے بعد بھی حالات کچھ اسی قسم کے رہیں گے۔ کورنٹائن میں زندگی گزارنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے اگلے دو سال بعد بھی جان نہیں چھوٹے گی۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق دنیا کرونا کی ایک اور لہر کا سامنا کرسکتی ہے، لہذا سماجی دوری کو اگلے دو سال تک برقرار رکھنا ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت بھی لاک ڈاؤن کو باقاعدہ حکمتِ عملی کے تحت ہی اٹھانے پر زور دے رہا ہے تاکہ شعبہ صحت پر بوجھ نہ پڑے اور زندگی بتدریج معمول پر آسکے۔ لیکن پاکستان کی بات کریں تو اس وقت لوگ ایک نئی کشمکش کا شکار ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ ڈاکٹر کی سنیں، حکومت کی یا علما کی۔ ڈاکٹروں اور علما کا مؤقف تو پھر بھی کچھ حد تک واضح ہے، لیکن وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مابین اتفاق کا فقدان ہے۔

    ماہِ رمضان میں حکومتی ہدایات اور بیس نکاتی ایس او پیز کے تحت مساجد کھولی گئیں ہیں، لیکن معلوم نہیں کہ ان ایس او پیز پر عمل کون اور کیسے کرائے گا۔ یہی سوال جب وزیراعظم سے کیا گیا تو کچھ کہے بغیر سب کچھ کہہ گئے۔ ان کا کہنا تھاکہ خواہش تو یہی ہے کہ لوگ گھروں میں نماز پڑھیں، لیکن یہ قوم ماننے والی نہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق اب تک پچاس ہزار لوگوں کو تو کرونا ہو ہی جانا چاہیے تھا، لیکن لاک ڈاؤن کے باعث بچت ہوگئی۔ لہذا اٹلی جیسی صورتِ حال پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ڈاکٹروں نے گویا حکومتِ سندھ کی پالیسی کی تائید کی، لیکن باقی صوبوں کا کیا، الغرض کس کی نہ سنیں، کس کی نہیں۔

    یہ جان لیں کہ اس وبا سے بچنے کا واحد راستہ ہے احتیاط۔ صرف حکومت، ڈاکٹر اور علما اس سے اُس وقت تک نہیں بچا سکتے جب تک انفرادی سطح پر احتیاط لازم نہ کر لی جائے۔ گھر سے زیادہ کوئی مقام محفوظ نہیں جہاں سماجی دوری ممکن ہو، چاہے وہ عبادت گاہ ہو یا اسپتال۔ بلا ضرورت کہیں بھی جانے سے گریز کریں۔ نزلہ زکام جسے پہلے ہم نظر انداز کر دیتے تھے، اب نہیں کرسکتے۔ نزلہ زکام اور سانس سے متعلق طبی مسئلے کی علامات ظاہر ہوں تو ڈاکٹر سے آن لائن ڈاکٹر رجوع کریں اور دوا لیں۔ اس حوالے سے مختلف ذرایع سے معلومات اور آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن صرف اس سے بات نہیں بنے گی بلکہ احتیاط اور ہدایات پر عمل کر کے ہی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

  • گھنٹی نہیں بجتی، کنڈی نہیں کھلتی، کوئی مانوس آواز سنائی نہیں دیتی….

    گھنٹی نہیں بجتی، کنڈی نہیں کھلتی، کوئی مانوس آواز سنائی نہیں دیتی….

    شہناز احد

    میں آخری بار کئی دن پہلے گھر سے باہر گئی تھی۔ میں سوچ رہی ہوں، کیا باہر سب کچھ ویسا ہی ہے؟

    روز سویرے سورج بھی نکلا ہوتا ہے، ہوا اور درخت بھی ہوا کے سنگ جھوم رہے ہوتے ہیں۔ چڑیاں بھی چہچہا رہی ہوتی ہیں۔ رزق کی تلاش میں کائیں کائیں کرتے کرتے کوے، دور آسمان پر دائروں کی شکل میں چیلیں بھی گھوم رہی ہوتی ہیں۔ کوئی جھونکا بہار کے تازہ کھلے پھولوں کی باس سے بھرا بھی ہوتا ہے۔

    ہر سال کی طرح بیا اور بلبل کا جوڑا گیلری میں رکھے گملوں اور بیلوں میں اپنے آشیانے کا پلاٹ بھی تلاش کررہا ہوتا ہے۔ پارکنگ لاٹ میں کھڑی گاڑیوں کے نیچے بلیاں اور ان کے بچے بھی آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے ہیں۔

    وقفے وقفے سے ادھیڑ عمر، عمر رسیدہ افراد اب گروپوں سے الگ تنہا واک کررہے ہوتے ہیں۔ غلطی سے کسی سے آنکھ چار ہو جائے تو وہ آداب کا پتھر مارتا ہوا آگے کو لپک جاتا ہے۔ جیسے اسے کسی بات کا خوف ہو۔

    ایسا ہی ایک بے نام سا خوف میرے اندر بھی ہے کہ….. دن بیت جاتا ہے، سورج ڈھل کر ایک جانب سے دوسری جانب چلا جاتا ہے، دروازے کی کنڈی نہیں کھلتی، بیل نہیں بجتی، کوئی مانوس انسانی آواز نہیں آتی۔

    آواز کی خواہش میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹی وی کھولتی ہوں اور گھبرا کر بند کر دیتی ہوں۔ میرے کان ترس گئے ہیں۔

    کسی خوش بُو لہجے، رس گھولتی آواز، امید دلاتی بات کے لیے۔ آج مہینے سے اوپر ہو چلا ہے کہ ساری گاڑیاں جیسے پتھر کی ہوگئی ہیں۔ کسی گاڑی کا ہارن نہیں بج رہا۔ کوئی ڈرائیور زور زور سے بولتے ہوئے گاڑی صاف نہیں کرتا۔ کوئی بچوں کے بیگ تھامے بھاگتا نظر نہیں آتا۔ کسی مچھلی اور سبزی والے کی آواز نہیں آتی۔ بلند آواز میں بولتی جوتیاں گھس گھس کر چلتی ماسیاں نظر نہیں آتیں۔ گاڑیوں کی جانب لپکتے، ٹائیوں کی گرہ درست کرتے انسان نظر نہیں آتے۔ سڑک پر کھیلنے والے تمام بچے جانے کن کمروں میں بند ہیں۔

    میں گھبرا کر سوچتی ہوں، یہ سب کچھ کب پہلے جیسا ہوگا۔ میرے اندر کچھ ٹوٹتا ہے، کوئی جواب نہیں‌ آتا، ایسا لگتا ہے میں چلتے ہوئے مُردوں کے قبرستان میں کھڑی ہوں۔ مجھے رات میں نیند نہیں آتی۔ میرے کان شور مچاتے، ان سائرنوں کی آواز کو ترس گئے ہیں جو زندگی کو اپنی گود میں سمیٹے ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے تھے۔

    نجانے وہ پٹاخے، دھماکے کہاں سو گئے جو رات کے کسی بھی پہر مسرت کا اظہار کرنے لگتے تھے۔ رات کو جب کسی کی بارات آتی تھی اس وقت۔

    رات کے سناٹے میں کراچی کی شاہراہِ فیصل پر رواں دواں ٹریفک کی ساں ساں کرتی آواز بھی جانے کہاں گم ہوگئی ہے۔ رات گئے مختلف گھروں سے باتوں، قہقہوں اور ٹی وی پروگراموں کی آوازیں بھی خاموش ہیں۔

    یہ آوازیں اب کب سنائی دیں گی؟ میں سوچتی ہوں۔ مگر مجھے جواب نہیں ملتا۔

    میں نے کئی دنوں سے سڑک کی شکل نہیں دیکھی، تصور کی آنکھ کھول کر بار بار آنکھوں کو پٹپٹاتی ہوں اور ان مناظر کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں جنھیں دیکھ دیکھ کر میری جاگتی آنکھیں تھک چکی تھیں۔

    وہ امراضِ قلب کے اسپتال سے نکلتی ایمبولینس، ان میں آنسو پونچھتے مرد و زن، اسی دروازے سے سائرن بجاتی داخل ہونے والی دوسری ایمبولینس، اور اس میں سوار فق چہرے، دروازے سے اندر، باہر آتا جاتا لوگوں کا ہجوم۔
    کیا وہاں آج بھی یہ منظر ہے، اگر نہیں تو وہ سارے لوگ کہاں گئے، ان کے دلوں نے دھڑکنا بند کردیا کیا؟

    اس کے سامنے وہ بچوں کا اسپتال۔ اس کے آگے عورتوں کا جمِ غفیر، جس کے گیٹ پر ہر لمحے میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ اسی میلے میں اکثر و بیش تر کوئی باپ اپنے نومولود کی لاش ہاتوں پر لیے بھی کھڑا ہوتا ہے۔ کیا وہاں آج بھی یہ منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر نہیں تو وہ سب کہاں گئے؟

    لوگوں کے اسی ہجوم میں سستے میک اپ سے لیپا پوتی کیے چہروں اور جھلمل کرتے لباسوں میں ملبوس نوعمر لڑکیوں کے گروہ۔ وہ سفید کوٹ والے مستقبل کے مسیحا۔ میں خود سے پوچھتی ہوں، کیا باہر آج بھی یہ منظر ہوگا؟

    اوہ… میں تو بھول ہی گئی تھی، قانون کے ان رکھوالوں کو جو ہر شام سڑک کے کونے پر ناکہ لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔

    یہی سب سوچتے سوچتے میں اپنے کمرے میں آ گئی ہوں۔ دیوار کے ساتھ لگی کتابوں سے بھری الماری مجھے مسکراتی لگی جیسے پوچھ رہی ہو یہ کتب جو تم نے فرصت کے دنوں کے لیے جمع کی ہیں، لگتا ہے اب کبھی نہ پڑھ پاؤ گی۔ اسی کے نچلے حصے میں میری ذاتی اور کچھ دفتری فائلیں منہ کھولے مجھے تک رہی ہیں، ڈریسنگ پر میرے پسندیدہ پرفیوم پوچھ رہے ہیں، کیا تم ہمیں استعمال کرو گی؟……کب؟

    میں پورے ہوش و حواس کے ساتھ کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھتی ہوں اور خود سے سوال کرتی ہوں…. کیا اب کبھی ایسا نہ ہوگا کہ میں آرٹس کونسل جاکر ایک اچھا تھیٹر دیکھو سکوں، وہ شہر کے مختلف مقامات پر سجنے والے اردو زبان اور کتابوں کے میلے، کیا میں اب کبھی ان سے محظوظ نہ ہو سکوں گی؟

    سوچوں کی گلیوں میں چلتے چلتے میں بہت آگے نکل گئی تو لگا نمکو کارنر کے سموسے مجھے تَک رہے ہیں، لیکن میں ان تک نہیں پہنچ پارہی، چٹخارے ہاؤس کی چاٹ مجھے پکار رہی ہے۔ مگر کیسے جاؤں، کیا کروں؟

    کرنا تو بہت کچھ ہے، بہت سے کام ہیں جو ادھورے پڑے ہیں…اور وہ سب کے سب ضروری کام ہیں۔

    اوہ خدایا یہ سوچیں…. ماں کی قبر کے اطراف کو پکا کروانا ہے۔ میں سوچتی ہوں اور سوچے جارہی ہوں۔ میرے اندر کچھ ٹوٹ رہا ہے، مگر کوئی جواب نہیں مل رہا۔

    مجھے لگتا ہے میں ایک گنبد میں بند ہوں، ایسا گنبد جس کی نہ کوئی راہ داری ہے، نہ کھڑکی، نہ روشن دان۔
    اور ایک میں ہی نہیں ساری دنیا گنبد میں بند ہے۔ جس میں ہماری آوازیں گونج رہی ہیں اور ہماری ہی طرف واپس آرہی ہیں۔

    دروازے کی بیل مجھے زندہ ہونے کی نوید دیتی ہے….. شاید زندگی ہے۔ دروازہ کھولتی ہوں….. کوڑے والا ہے!
    دروازے سے لے کر بالٹی تک سب پر جراثیم کُش اسپرے کرتی ہوں۔

    واپس کمرے میں آتی ہوں، بیس سکینڈ تک ہاتھ دھونے کے بعد پھر سوچتی ہوں کہ میں اتنا کیوں سوچ رہی ہوں؟
    پھر کوئی جواب نہیں آتا۔

    کوئی ہے جو بتائے زندگی دوبارہ کب جیے گی؟ اس سکرات کا دورانیہ کتنا ہے؟

    کیا کوئی وینٹ ہے جو سانسوں اور سوچوں کی آمدو رفت کو آسان بنا دے۔ میرے اندر پھر کچھ ٹوٹ رہا ہے، کچھ لرزاں ہے، جواب نہیں آتا۔

    (شہناز احد صحافتی و سماجی تنظیموں سے وابستہ اور کڈنی فاؤنڈیشن آف پاکستان کی عہدے دار ہیں، آپ سماجی مسائل اور خاص طور پر صحتِ عامہ سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں)

  • جب کراچی کے ایک شہری کی گاڑی پُرتگال میں خراب ہوئی….

    جب کراچی کے ایک شہری کی گاڑی پُرتگال میں خراب ہوئی….

    تحریر: عمیر حبیب

    دیارِ غیر میں بسنے والے کسی بھی پاکستانی کی طرح ہم نے بھی صرف اپنا وطن ہی نہیں چھوڑا تھا، کئی راحتوں، آسائشوں، سہولیات کو اور سب سے بڑھ کر اپنوں کو چھوڑا اور ان سے بہت دور یہاں پُرتگال آ بسے۔ اس سفر اور نئی دنیا بسانے کے شوق میں ہم نے یقینا بہت کچھ کھویا، مگر حوصلہ نہیں۔ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا، ہمت کی اور آج اپنی لگن اور محنت سے یہاں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔

    پاکستان ہو یا پرتگال اور اسی طرح دیگر ممالک ہر جگہ مختلف نوعیت کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرتگال اور پرتگالیوں کے بھی اپنے مسائل اور مشکلات ہیں، لیکن یہاں خاص طور پر کرونا جیسی وبا کے دنوں میں ایک خوش گوار تجربہ ہوا۔

    پرتگال کا سوشلسٹ طرز حکومت ہمارے نظامِ حکومت سے بالکل الگ ہے۔ ہمارے وطن پاکستان کا سیاسی نظام اور سماجی ڈھانچا دنیا سے کچھ الگ ہی ہے۔ کراچی کی بات کریں تو اگر کبھی رات گئے سنسنان سڑک پر ہماری گاڑی خراب ہو جائے تو یقین جانیے کسی جن بھوت کا سوچ کر نہیں، ڈاکو اور لٹیرے کے روپ میں ظاہر ہونے والے اپنے ہی جیسے کسی انسان کے ڈر سے ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں، خوف کے مارے پسینے چھوٹ سکتے ہیں۔ اس وقت گھر پر فون لگانے کی کوشش کی جاتی ہے، بھائی یا کسی دوست کا نمبر ملا کر اس سے مدد کی درخواست کرنا پڑتی ہے، اور ان میں سے کسی کے آنے پر گاڑی کو دھکا لگا کر یا کھینچ کر (Tow) گھر پہنچاتے ہیں، اور پھر اگلے روز گاڑی میکنک کے پاس لے جاؤ۔

    کراچی میں رات کے وقت گاڑی سڑک پر خراب ہو جائے تو آپ کو یا تو جان جانے کا ڈر ہوتا ہے یا مال جانے کا، مگر یہاں پرتگال میں گاڑی خراب ہوجائے تو کچھ الگ ہی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    گزشتہ دنوں لزبن میں جب ہم متعدد کوششوں کے باوجود اپنی گاڑی اسٹارٹ کرنے میں ناکام رہے تو مکینک سے رابطہ کیا۔ اس نے ہماری راہ نمائی کرتے ہوئے بتایا کہ جب بھی آپ کی گاڑی خراب ہو جائے تو آپ گاڑی میں بیٹھ کر سب سے پہلے متعلقہ انشورنس کمپنی کو فون کریں، اپنی لوکیشن بتائیں، گاڑی کے خراب ہونے کی وجہ، اور چند ضروری سوالات کے جواب دیں۔ وہ آپ کا نام، مکمل پتا، گاڑی کا نمبر وغیرہ پوچھیں گے، ساتھ ہی قریبی کسی مکینک کا پتا بھی، اس کے بعد گاڑی سے باہر نکل کر پیلی جیکٹ پہن لیں، اور وہ وارنگ سائن بورڈ جو ہر گاڑی میں لازمی ہوتا ہے، گاڑی کے پیچھے کچھ فاصلہ پر رکھ دیں۔ منٹوں میں مددگار آپ تک پہنچ جائیں گے اور بس باقی کام ان کا۔ اب آپ گاڑی کی طرف سے بے فکر ہوجائیں۔

    چند روز بعد چابی آپ کے ہاتھ میں ہو گی اور آپ گاڑی میں بیٹھے سفر کر رہے ہوں گے۔

    یہ شہریوں کو سہولت دینے اور ان کے بعض عام مسائل حل کرنے سے متعلق صرف ایک مثال ہے، باقی بہت سی چیزیں ہیں جو یہاں آپ کی زندگی کو پُرسکون بناتی ہیں۔ اگر ایسا کوئی نظام اور سہولت ہمارے ملک کے شہروں میں بھی عام ہوجائے تو کیا بات ہے۔

    (بلاگر بسلسلہَ روزگار پرتگال کے شہر لزبن میں مقیم ہیں)

  • بجلی اور انٹرنیٹ سے محروم دیہات اور کرونا وائرس!

    بجلی اور انٹرنیٹ سے محروم دیہات اور کرونا وائرس!

    تحریر: سائرہ فاروق

    عالمی وبا سے متعلق معلومات کا حصول شہروں میں رہنے والوں کے لیے آسان ہے اور اسی طرح دور دراز علاقوں میں بسنے والوں کی نسبت علاج یا اسپتال تک رسائی بھی۔

    ٹیلی ویژن اور اخبار کی صورت میں نشر و اشاعت کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی دی جارہی ہے مگر دور دراز کے قصبوں اور دیہات کے باسیوں کے لیے بَروقت اور مستند معلومات کا حصول مشکل ہی نہیں کافی حد تک ناممکن بھی ہے، کیوں کہ بہت سے دیہات ایسے بھی ہیں جہاں رہنے والوں کو انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میسر ہے اور نہ وہاں بجلی کی سہولت ہے۔ اسی لیے ٹی وی جیسی عام مشین سے استفادہ کرنا بھی آسان نہیں۔

    ایسے میں کسی پڑھے لکھے اور ذمہ دار شہری کا گاؤں دیہات میں جا کر معلومات اور آگاہی دینا بے حد ضروری ہے، لیکن مصیبت یہ ہے کہ سوشل ڈسٹینسنگ یا سیلف آئسولیشن جیسی اصطلاحات کو دیہاتیوں کے سامنے رکھنا بھی ایک اور الجھن ہے کہ وہ ان احتیاطی تدابیر کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ ہاتھ نہ ملانا، گلے نہ ملنا، گھر میں خود کو محدود کرنا وہ احتیاطی تدابیر ہیں جو ان کے لیے نہ صرف عجیب و غریب ہیں بلکہ من گھڑت اور اکثر دیہاتیوں کے لیے اغیار کی سازش ہیں۔

    ایسے موقع پر لوگوں میں مذہب نہیں بلکہ شدت پسندی زیادہ سَر اٹھاتی ہے، اس لیے ایسی بیماریوں کا علاج جھاڑ پھونک سے کرنا چاہتے ہیں۔

    اس کے علاوہ مذہبی احکامات اور تعلیمات سے ناواقفیت اور محدود علم کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ مصافحہ نہ کرنے کو برا تصور کررہے ہیں۔ اسی طرح ان کا سوال ہے کہ گلے کیوں نہ ملیں؟ حسنِ معاشرت کا مظاہرہ کیوں نہ کریں؟

    انہیں یہ سمجھانا مشکل ہے کہ اسی دین نے بتایا ہے کہ مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے، لہٰذا پہلے اپنی جان کی حفاظت ضروری ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر کے نہایت قابلِ احترام اور جید علما اور مفتیانِ کرام کے وعظ اور ان کی تلقین بھی ہم تک پہنچ چکی ہے۔

    دوسرا شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کی آمد پر پابندی کا سوچا جا رہا ہے، اور یہ سلسلہ ویسے ہی کم ہوچکا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں لوگوں کے سبزی فروٹ اور دوسرے کاروبار ہیں اور جب یہ دکان دار خریداری کے لیے شہر آتے ہیں تو کیا واپسی پر اس بات کا امکان نہیں کہ وہ وائرس کا شکار ہوکر اپنے علاقوں میں لوٹیں اور جب اپنے گھروں، دکانوں کا رخ کریں تو کئی لوگوں اس وائرس سے متاثر کریں۔ سو، صرف سیاحوں پر پابندی سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

    اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ گاؤں میں سرکاری دفاتر، کارخانے وغیرہ نہیں کہ وہاں کے اکثر لوگ ملازمت پیشہ ہوں اور ماہ وار تنخواہ پاتے ہوں، یہاں زیادہ تر لوگ دیہاڑی دار اور مزدور ہیں جن کی آمدنی اور وسائل بہت کم ہیں۔ ان کے پاس رقم کا جمع جوڑ بھی نہیں کہ ماہ دو ماہ کام چلا لیں۔

    ایسی صورت میں اگر یہ وائرس ان علاقوں میں پھیلتا ہے تو اس کا ٹیسٹ کروانا بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہے اور وہ خود کو گھروں تک بھی محدود نہیں رکھ سکتے۔ یہاں غربت اتنی زیادہ ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیں یا شہر جاکر علاج معالجہ کروائیں، لہذا وہ ایسی خبروں پر یقین نہیں کرتے اور احتیاطی تدابیر کو اہمیت نہیں‌ دے رہے۔

    ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آگاہی دینے کا سب سے بڑا پلیٹ فارم مسجد ہے جہاں کے امام کو بہت عزت اور احترام حاصل ہوتا ہے اور لوگ ان کی بات کو اہمیت دیں گے۔

    حکومت اور انتظامیہ ان سے رابطہ کرے اور امام اور مقامی علما خاص طور پر لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کریں تو فائدہ ہوسکتا ہے۔

    دوسرا ذریعہ ریڈیو ہے جو گاؤں میں ہر خاص و عام کے پاس ہوتا ہے اور ریڈیو نشریات بہت شوق سے سنی جاتی ہیں۔ ریڈیو چینلوں پر کورونا وائرس سے متعلق معلومات اور آگاہی دیتے ہوئے اس سے بچاؤ کے لیے ہدایات دی جاسکتی ہیں۔

    اس طرح شہروں اور دور دراز کے سیاحتی علاقوں اور دیہات میں بھی زندگیوں کو محفوظ بناتے ہوئے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکا جاسکتا ہے۔