Tag: اردو تراجم

  • بد قسمت(غیرملکی ادب سے منتخب افسانہ)

    بد قسمت(غیرملکی ادب سے منتخب افسانہ)

    وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی بدقسمت بھی۔ کم از کم اپنی نظروں میں۔ اس کا شوہر اچھے عہدے پر فائز تھا۔ وہ ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کی ماں تھی۔ بظاہر کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ لیکن اسے ہمیشہ اپنی کم مائیگی کا احساس رہتا۔ یہی سوچتی کہ اگر تھوڑا سا پیسہ اور آ جائے تو زندگی بن جائے۔ اس کے سر پر بس یہی ایک دھن سوار ہتی۔ ”پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔“

    ”امی ہمارے پاس کار کیوں نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ انکل آسکر سے لفٹ کیوں مانگتے ہیں۔“ ایک دن پال، اس کے سات سال کے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔

    ”اس لئے بیٹا کہ ہمارے پاس جتنا ہونا چاہیے اتنا پیسہ نہیں ہے۔“

    ”وہ کیوں؟ “

    ”اس لئے کہ ہم بد قسمت ہیں۔“

    ”لیکن امی میں توخوش قسمت ہوں۔“

    ماں نے پیار اور تجسس بھری نظروں سے پال کو دیکھا اور پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہے کہ وہ خوش قسمت ہے۔

    ”اس لئے کہ مجھے خدا نے خود بتایا ہے“

    ”ضرور بتایا ہوگا بیٹا“

    ماں نے مصنوعی مسکراہٹ سے جوا ب دیا۔ اس مسکراہٹ میں ایک تلخی شامل تھی۔ بیٹے کو احساس ہو گیا تھا کہ ماں نے اس کا دل رکھنے کو اس کی بات سے اتفاق کیا ہے۔ جس پر اسے دکھ بھی ہوا اورغصہ بھی آیا۔ وہ مزید بات کیے نرسری میں چلا گیا جہاں اس کی چھوٹی جڑواں بہنیں گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔

    نرسری میں اس کا پسندیدہ کھلونا رکھا تھا۔ یہ کھلونا لکڑی کا ایک گھوڑا تھا اتنا بڑا کہ بچے اس پر سواری کر سکیں۔ سموں کے نیچے کمان دار لکڑی لگی ہوئی تھی جس سے تیز تیز جھولے آتے۔ پال غصے میں گھوڑے پر بیٹھ کر زور زور سے جھولے لینے لگا۔

    ماں کی باتیں سن سن کر پال اس فکر میں رہتا کہ وہ اپنی ماں کی قسمت کو کیسے بدل سکتا ہے۔ اکثر سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا جنوں جھلکنے لگتا۔ وہ کاٹھ کے گھوڑے سے پر اسرار آواز میں مخاطب ہو کر اس سے کہتا۔

    ”مجھے وہاں لے چل جہاں اچھی قسمت ملتی ہے۔ “

    ایک دن وہ اسی جنونی کیفیت میں گھوڑے کو دڑکی لگوا رہا تھا کہ اس کی ماں اور ماموں، انکل آسکر، کمرے میں داخل ہوئے۔

    ”پال اب تم اس کھیل کے گھوڑے کے لئے کچھ بڑے نہیں ہو گئے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔
    پال نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    ”تمہارے اس گھوڑے کا نام کیا ہے؟ “

    ”اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ کل اس کا نام گڈ لک تھا۔ اور اس سے پہلے ہفتے میں گولڈن ایرو۔“

    ”یہ تو اسکاٹ ریس کورس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام ہیں۔ تمھیں یہ نام کیسے معلوم ہوئے؟“

    ”مجھے مالی نے یہ نام بتائے ہیں۔“ پال نے جواب دیا

    مالی کو انکل آسکر نے پال کے والدین کے پاس ملازم رکھوایا تھا۔ مالی ریسز کا شیدائی تھا۔ اسے اکثر گھوڑوں کے شجرے زبانی یاد ہوتے تھے۔ پال کی ماں اور انکل آسکر کو فکر ہوئی کہ کہیں مالی بچے کو بگاڑ تو نہیں رہا۔ وہ مالی کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ پال سے کیا گفتگو کرتا ہے۔

    مالی نے بتایا کہ پال فارغ وقت میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھ کر گھوڑوں کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ کہیں پال اپنا جیب خرچ گھوڑوں پر تو نہیں لگاتا۔ لیکن مالی نے کہا کہ سرکار میں گستاخی نہیں کر سکتا مگر یہ بات اگر آپ ماسٹر پال سے خود ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔

    اگلے دن انکل آسکر نے پال کو اپنی نئی گاڑی میں بٹھایا اور لمبی ڈرائیو کے لئے لے گئے۔ انکل آسکر نے پوچھا کہ اس نے کبھی گھوڑوں پر شرط لگائی ہے؟ جب پال نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا تو انکل آسکر نے کہا کہ وہ خود ریسز کے شوقین ہیں اور دراصل پال سے پوچھنا چاہتے تھے کہ اگلے ہفتے اسکاٹ کی ریس میں کس گھوڑے کے جیتنے کی امید ہے۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پال نے بتایا کہ وہ اور مالی پارٹنر شپ میں شرطیں لگاتے ہیں اور اس کے خیال میں اگلی ریس میں ڈیفوڈل کی جیت یقینی ہے۔

    ”ہم کافی عرصے سے پارٹنرز ہیں۔ میں اپنا جیب خرچ مالی کو دے دیتا ہوں اور وہ میری طرف سے شرط لگاتا ہے۔“

    پال کبھی ریس کورس نہیں گیا تھا۔ انکل آسکر نے پال کو اگلی ریس میں ساتھ لے جانے کا وعدہ کیا جس میں ڈیفوڈل دوڑ رہا تھا۔ انکل آسکر نے پال کے اصرار پر پانچ پاؤنڈ ڈیفوڈل پر اور بیس دوسرے گھوڑوں پر لگائے۔ پال نے تین سو ڈیفوڈل پر لگا دیے۔ خلافِ توقع ڈیفوڈل جیت گیا۔

    ”تم ان تین ہزار پاوْنڈ کا کیا کرو گے؟ “ انکل آسکر نے پوچھا۔

    ”میں سب پیسے مالی کے پاس جمع کرا دیتا ہوں۔ یہ ملا کر اب اس کے پاس پانچ ہزار پاونڈ ہو جائیں گے۔ “

    اگلے ہفتے انکل آسکر نے پال اور مالی سے دوبارہ اس بات پر گفتگو کی اور پال سے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔

    پال کی بجائے مالی نے جواب دیا۔ ”سر یوں لگتا ہے جیسے ماسٹر پال کوکسی غیبی طاقت کی طرف سے اشارے ہوتے ہیں۔ “

    اب انکل آسکر نے بھی اس پارٹنر شپ میں شرکت کر لی تھی۔ اس کے بعد اگلی ریس میں پال نے ہزار، مالی نے پانچ سو اور انکل آسکر نے دو سو پاؤنڈ ایک اور گھوڑے پر لگائے جس کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن وہی گھوڑا اوّل آیا اور پال دس ہزار پاؤنڈ جیت گیا۔

    ریس کے بعد انکل آسکر نے ایک اندیشے کا اظہار کیا۔ ”دیکھو بیٹا سچی بات یہ ہے کہ مجھے اب کچھ گھبراہٹ شروع ہو گئی ہے۔ اس عمر میں تم اتنے پیسے کا آخر کیا کرو گے؟ “

    ” میں یہ سب صرف اپنی امی کے لئے کر رہا ہوں۔ اور شاید اسی بہانے وہ خوفناک آوازیں بھی بند ہو جائیں۔“

    ”کون سی خوفناک آوازیں؟ “

    ”مجھے یوں لگتا ہے جیسے گھر کی دیواروں سے آوازیں آ رہی ہوں۔ بد قسمت، بد قسمت، پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ یہ آوازیں مجھے پاگل بنا رہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ امی کو اتنا پیسہ مل جائے کہ وہ اپنے آ پ کو بد قسمت سمجھنا بند کر دیں۔ اور یہ آوازیں آنی بھی بند ہو جائیں۔“

    ” تو پھر تم اب کیا کرنا چاہتے ہو پال؟“

    ”میں امی کو یہ رقم دینا چاہتا ہوں لیکن بغیر بتائے۔

    پال نے دس ہزار پاؤنڈ انکل آسکر کو دے دیے جو اس نے فیملی اٹارنی کو اس ہدایت کے ساتھ دیے کہ وہ دینے والے کا نام نہ بتائے۔ صرف یہ کہے کہ ایک دور کے رشتے دار نے یہ رقم چھوڑی ہے اور وہ اگلے دس سال تک اپنے یوم پیدائش پر ایک ایک ہزار پاؤنڈ وصول کرتی رہے گی۔

    وکیل نے اہل خانہ کو اکٹھا کر کے یہ ہدایات دہرائیں۔ لیکن پال نے محسوس کیا کہ اس کی ماں کچھ خوش نہیں تھی۔ وہ مقروض تھی اور چاہتی تھی کہ اسے ساری رقم یک مشت مل جائے۔ کچھ دن کے بعد وکیل نے سب پیسے اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیے۔

    اب اچانک گھر کے حالات میں ایک خوش گوار تبدیلی آئی۔ مخملیں پردے، نئے صوفے، ڈائننگ سیٹ، حتیٰ کہ ایک نئی کار تک آ گئی۔ گھر سے ”بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے“ کی آوازیں بھی ختم ہو گئیں۔

    لیکن پل جھپکنے میں ماں کی فضول خرچیوں میں سب پیسہ ختم ہو گیا اور پھر سے قرض پر نوبت آ گئی۔ وہی آوازیں دو بارہ آنی شروع ہو گئیں۔ لیکن اب وہ اور بھی زیادہ بھیانک ہو گئی تھیں۔

    اب پال کی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے وحشت ٹپکنے لگی تھی۔ آوازوں سے بچنے کے لئے پال اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا لیکن آوازیں ایسے گونجتیں کہ لگتا تھا اس کا سر پھٹ جائے گا۔

    ڈربی کی ریس چند ہفتوں میں ہونے والی تھی۔ یہ انگلینڈ کی بہت بڑی ریس سمجھی جاتی تھی۔ پال کے سر پر اس ریس کی دھن سوار تھی۔ ماں حیران تھی کہ ڈربی کی ریس میں ایسی کیا خاص بات ہے جس کا پال اتنی شدت سے انتظار کر رہا ہے۔

    پال کے ریس جیتنے کے راز میں ایک اور راز پوشیدہ تھا جو اس نے نہ تو مالی کو بتایا تھا نہ انکل آسکر کو۔

    جب پال ذرا بڑا ہوا تو نرسری سے اس کا بستر ایٹک میں پہنچا دیا گیا تھا۔ پال نے اصرار کیا کہ وہ لکڑی کے گھوڑے کو بھی اپنے نئے کمرے میں لے جائے گا۔ انکل آسکر اور مالی سمجھتے تھے کہ پال کو کوئی غیبی اشارہ ہوتا ہے جس سے اسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔ لیکن ہوتا یہ تھا کہ پال جب گھوڑے پر بیٹھتا تو اس پر جیسے کسی آسیبی قوت کا غلبہ ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں میں ایک وحشت چھا جاتی۔ چہرہ اور بال پسینے سے تر ہو جاتے۔ وہ اس فرضی سواری پر پورا زور لگا کر نڈھال ہو جاتا۔ گھوڑے کو چابک مارتا اور اسے تیز دوڑنے کی شہ دیتا اور ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نام دہراتا رہتا۔ ایک ایک کر کے باقی نام غائب ہو جاتے صرف ایک نام رہ جاتا۔ وہی گھوڑا ریس جیت جاتا تھا۔

    ماں کے ساری رقم لٹانے کے بعد سے پال بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ وہ کسی بات کا جواب نہ دیتا۔ اس کی نظریں دور افق کے پار دیکھتی رہتیں۔ اس کی ماں کا فکر سے برا حال تھا۔ وہ پال کی وجہ سے اب ہر وقت ذہنی اذیت میں مبتلا رہنے لگی تھی۔

    ڈربی سے ایک رات پہلے وہ ایک ڈانس پارٹی میں گئی ہوئی تھی۔ آدھی رات کو جب پارٹی عروج پر تھی اس پر اچانک جیسے اضطراب کا دورہ پڑا۔ گھبرا کر اس نے گھر فون کیا جہاں آیا بچوں کی نگہبانی کر رہی تھی۔ آیا نے بتایا کہ وہ دونوں چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ہے جو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ پال کافی پہلے سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔

    پارٹی ختم ہونے میں ابھی دیر تھی لیکن ماں نے شوہر سے کہا کہ وہ ابھی گھر جانا چاہتی ہے۔ گھر پہنچتے ہی اس نے دبے پاؤں پال کے کمرے کا رخ کیا۔ جب وہ ایٹک جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اسے کچھ عجیب سی آوازیں پال کے کمرے سے آتی سنائی دیں۔ اس نے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو لگا جیسے کوئی بھاری بھاری سانس لے رہا ہے اور ایک ہی لفظ دہرائے جا رہا ہے۔ اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ کھڑکی کی روشنی میں اسے ایک سایہ سا نظر آیا۔

    یہ سایہ لکڑی کے گھوڑے کا تھا جس پر پال سوار تھا۔ ماں کا دل خوف اور تجسس سے ایسے دھڑک رہا جیسے پھٹ جائے گا۔ اب اس نے دروازہ پورا کھول دیا لیکن پال کو کچھ احساس نہیں ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ ماں نے بجلی کا سوئچ آن کیا اور روشنی میں دیکھا کہ پال پسینے میں شرابور گھوڑے پر بیٹھا جیسے اسے سر پٹ دوڑا رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے میں چابک جس کو وہ پوری قوت سے گھوڑے کی گردن پر مار رہا تھا۔

    اس کی زبان پر صرف ایک لفظ کی تکرار تھی ”مالا بار، مالا بار، مالا بار۔“ ماں لپک کر پال کی طرف بڑھی۔ جیسے ہی اسے ہاتھ لگایا، پال ایک پتھر کی طرح فرش پر گر پڑا۔ ماں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکی۔ ہولناک چیخ سن کر شوہر کمرے میں آیا اور پال کو اٹھا کر بستر پر لٹا دیا۔

    ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ پال بخار میں تپتا رہا۔ ماں باپ گیلی پٹیاں اس کے ماتھے پر رکھتے رہے۔ انکل آسکر کو فون کیا۔ ڈاکٹر کو بلایا لیکن بخار کی تپش ویسی ہی رہی۔ دوپہر کے وقت پال نے پھر مالا بار، مالا بار، مالا بار کی رٹ شروع کر دی۔ اتنے میں مالی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سرگوشیوں میں انکل آسکر کو بتایا کہ مالا بار جیت گیا ہے اور ایک کی بازی پر بیس کے حساب سے پال کو شرط پر بیس ہزار پاؤنڈ ملے ہیں۔

    پال کی آنکھیں بند تھیں لیکن وہ ماں سے مخاطب تھا۔ ”امی، مالا بار ڈربی جیتے گا۔ وہ پہلے نمبر پر آئے گا۔ سب سمجھ رہے ہیں اس کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس پر بہت کم لوگ پیسے لگائیں گے۔ اس لئے مالا بار کی جیت کا انعام بہت بڑا ہو گا۔ میں نے اس پر ایک ہزار پاؤنڈ لگائے ہیں۔ امی اب آپ کو پیسے کی کوئی فکر نہیں رہے گی۔ اب بد قسمت۔ بد قسمت۔ پیسہ کہاں سے آئے۔ پیسہ کہاں سے آئے کی خوفناک آوازیں آنی بند ہو جائیں گی۔ اب مکان خاموش ہو جائے گا۔ آپ خوش قسمت ہو جائیں گی امی۔ آپ کی قسمت جاگ جائے گی۔ اب آپ کو پیسے کی کمی نہیں رہے گی۔“

    یہ کہ کر نئی نئی دولت مند لیکن بد قسمت ماں کے بیٹے نے آخری سانس لی اور ماں کے بازؤں میں دم توڑ دیا۔

    (ڈی ایچ لارنس کی کہانی کا ترجمہ از شاہد اختر)

  • آخری جماعت (فرانسیسی ادب سے انتخاب)

    آخری جماعت (فرانسیسی ادب سے انتخاب)

    الفونزے ڈاؤڈٹ (Alphonse Daudet) نے افسانے اور ناول بھی لکھے، شاعری بھی کی۔ فرانس کا یہ ادیب اور شاعر 1897ء میں‌ چل بسا تھا۔

    ڈاؤڈٹ کی ایک کہانی کا اردو ترجمہ ہم یہاں بعنوان آخری جماعت نقل کررہے ہیں۔ اسے منور آکاش نے اس قالب میں ڈھالا ہے۔ کہانی پڑھیے۔

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختۂ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

  • سرائے والے کا لڑکا (ایک دل چسپ کہانی)

    سرائے والے کا لڑکا (ایک دل چسپ کہانی)

    بہت برسوں پہلے ایک سرائے دار ہوا کرتا تھا جس کی چھوٹی سی سرائے تھی۔ مسافر آتے اور اس کی سرائے میں رات گزارتے، چلے جاتے۔ یوں اس کو کچھ آمدنی ہو جاتی۔

    اس سرائے دار کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام تھا سائمن تھا۔ یہ لڑکا بڑا ہوا تو بالکل بیکار اور نکھٹّو نکلا۔ بس ہر وقت کوئی نہ کوئی مصیبت کھٹری کیے رکھتا۔ اس کا باپ اس کے ہاتھوں بہت تنگ تھا۔ سائمن اپنے گاؤں سے باہر کبھی نہیں گیا تھا لیکن وہ پہاڑوں کی طرف دیکھتا تو کہتا کہ میں ایک دن اِن پہاڑوں سے پرے جاؤں گا اور دنیا بھر کی سیر کروں گا۔ ندی کو دیکھتا تو کہتا کہ میں ایسی کئی ندیاں پار کر جاؤں گا۔ پھر سمندر پار جا کر ایسے ایسے کام کروں گا کہ کسی امیر آدمی کی لڑکی یا شہزادی میری بیوی بن کر فخر کرے گی اور یوں میری زندگی بہت اچھی گزرے گی۔ لیکن یہ سب اس کے خیالی پلاؤ تھے۔ وہ نہ صرف کوئی کام نہ کرتا تھا، بلکہ اپنے باپ کی دی ہوئی رقم بھی ضائع کر دیتا تھا۔ سرائے میں جو مسافر بھی آتا، سائمن کا باپ اس سے کہتا کہ وہ سائمن کو سمجھائے کہ کچھ کام دھندا کیا کرے۔ لیکن سائمن کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔

    آخر لوگوں نے سرائے دار کو مشورہ دیا کہ اس لڑکے کے لیے ایک ہی کام مناسب ہے۔ اسے فوج میں بھرتی کرا دو۔ فوج والے اسے خود ہی ٹھیک کر لیں گے۔ سائمن کے باپ کو یہ مشورہ پسند آیا اور اس نے بیٹے کو فوج میں بھرتی کرا دیا۔ لیکن فوج میں کافی عرصہ ملازمت کے بعد بھی اس نے کوئی ترقی نہ کی۔ سائمن کو یک دم خیال آیا کہ کیوں نہ فوجی بینڈ میں شامل ہو جاؤں۔ اس نے افسروں کی منت سماجت کی اور فوجی بینڈ میں ڈھول بجانے پر لگ گیا۔

    سائمن کے دوستوں میں ایک چالاک فوجی بھی تھا۔ وہ اس کی ڈینگوں سے تنگ آ چکا تھا۔ ایک دن جب سائمن نے اس سے کہا کہ میرا باپ تو بہت امیر آدمی ہے۔ گھر پر مجھے اتنی عمدہ خوراک ملتی تھی، یہاں تو میں اکثر بھوکا رہ جاتا ہوں، تو اس کے دوست نے اس سے کہا کہ تم ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہو کہ تمہارا باپ امیر ہے، یہ ہے، وہ ہے۔ اگر وہ اتنا ہی امیر ہے تو اسے لکھو کہ مجھے ترقی دے کر داروغہ بنا دیا گیا ہے۔ اس خوشی میں مَیں اپنے افسروں کو پارٹی دوں گا۔ مہربانی کر کے کی رقم بھیج دے۔ سائمن کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور اس نے اسی وقت باپ کو خط لکھ دیا۔

    سائمن کے والد کو یہ خط ملا تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ اس نے اپنی بیوی کو خط پڑھ کر سنایا اور کہا: ”دیکھ لو، باپ بیٹے کی قسمت آخر جاگ ٹھی۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور روپوں کی ایک تھیلی سائمن کو بھجوا دی۔ اِدھر سائمن کی وہی حالت تھی۔ خوب کھانا پینا اور عیش کرنا۔ دو تین مہینوں میں باپ کی طرف سے آئے ہوئے روپے فضول خرچی میں اڑا دیے اور پھر ایک اور خط باپ کو لکھ دیا کہ مجھے ترقی مل گئی ہے۔ میرے ساتھی افسر امیر گھرانوں کے ہیں اور بڑے ٹھاٹھ سے رہتے ہیں۔ میری تنخواہ بہت تھوڑی ہے اور میں ان جیسے ٹھاٹھ باٹ نہیں بنا سکتا۔ مہربانی کر کے کچھ اور روپے بھیجیے۔

    باپ کو سائمن کا دوسرا خط ملا تو وہ اور بھی خوش ہوا کہ چلو لڑ کا کسی قابل تو ہوا۔ اس نے پھر کُچھ رقم اس کو بھجوا دی۔ اب تو سائمن کی موج ہو گئی۔ وہ ہر دوسرے تیسرے مہینے باپ کو ترقّی کی خبر سنا کر اس سے کچھ نہ کچھ رقم اینٹھ لیتا۔ پھر چند ماہ بعد اس نے باپ کو لکھا کہ اب وہ ترقّی کرتے کرتے جرنیل بن گیا ہے۔ اس کا باپ یہ سن کر خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ وہ ہر آنے والے کو بڑے فخر سے بیٹے کی ترقّی کا حال سناتا۔

    ایک دِن اس نے سوچا کہ اس کا بیٹا اتنا بڑا افسر ہو گیا ہے ، کیوں نہ جا کر اس سے ملاقات کی جائے۔ اس میں اس کی اپنی بھی عزّت تھی اور سائمن بھی خوش ہو جاتا۔
    سائمن کے باپ نے اس خیال سے کہ بیٹا بہت بڑا آدمی ہے، ایک خوب صورت بگھّی کرائے پر لی۔ اس میں چار گھوڑے جتے تھے۔ یوں دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے بڑی شان سے شہر کی طرف روانہ ہوئے۔

    شہر میں ہر طرف بڑی رونق اور گہما گہمی تھی۔ فوج کی پریڈ ہو رہی تھی اور پیدل اور گھڑ سوار دستے بینڈ کی دھن پر پریڈ کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔ سارا شہر پریڈ دیکھنے کے لیے آیا تھا۔ فوجی دستوں کے آگے کھلی گاڑیاں تھیں جن میں کرنیل اور جرنیل بڑے رعب داب سے بیٹھے تھے۔

    بوڑھے سرائے دار نے غور سے ایک ایک افسر کو دیکھا۔ اس کی بیوی نے بھی بہت کوشش کی لیکن کسی بھی گاڑی میں انھیں اپنا لائق بیٹا نظر نہ آیا۔ وہ سمجھے کہ شاید ان کی نظر کو دھوکا ہوا ہے۔ چناں چہ انہوں نے چند لوگوں سے پوچھا کہ کیا ان افسروں میں سائمن نام کا کوئی جرنیل بھی ہے؟ لوگ بوڑھے کی بات سن کر بڑے حیران ہوئے، انہوں نے اسے بتایا کہ اس نام کا تو یہاں کوئی جرنیل نہیں۔ البتہ بینڈ والوں میں ایک ڈھول بجانے والا داروغہ ہے جس کا نام سائمن ہے۔

    بوڑھے کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا کہ اس کا بیٹا ابھی تک داروغہ ہے اور خطوں میں جھوٹ موٹ اپنے کو جرنیل بتاتا ہے۔ وہ سیدھا فوج کے ایک افسر کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتا کر کہا کہ اس کا لڑکا اس کے حوالے کیا جائے تا کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے سزا دے سکے۔

    سائمن کی ماں جو بڑے غصّے میں تھی، لیکن اب اپنے شوہر کو یہ کہتے سنا کہ وہ سائمن کو سزا دے گا تو اس نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس کو معاف کر دے، لیکن بوڑھے نے اس کی ایک نہ سنی۔ اس نے سائمن کو رسیوں میں جکڑا اور بگھّی کے پیچھے ڈال کر چل دیا۔

    سائمن کے جس دوست نے اسے باپ سے روپے منگوانے کا مشورہ دیا تھا، وہ بھی یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اسے سائمن کی حالت پر بڑا رحم آیا اور وہ بگھّی کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

    اِس علاقے کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور کچّی تھیں، اس لیے بگھّی کی رفتار بہت سُست تھی۔ وہ تیز تیز بگھّی کے پیچھے پیچھے چلتا رہا اور جب ایک جگہ چڑھائی پر بگھّی بہت آہستہ ہو گئی تو اس نے سائمن کو بگھّی سے اتار کر اس کی رسّیاں کاٹ دیں اور اس سے کہا کہ اب تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ یہاں سے فوراً چلے جاؤ اور کہیں اور جا کر قسمت آزماؤ۔ تمہارے باپ کو تم پر اتنا غصّہ ہے کہ وہ تمہیں گولی مار دے گا۔ یہ کہہ کر اس کا دوست چلا گیا اور سائمن جنگل میں اکیلا رہ گیا۔

    صبح کا وقت تھا سورج نکل رہا تھا۔ سائمن نے دور افق کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ مشرق کی طرف جائے گا۔ وہ چلتا گیا۔ کئی شہر، کئی گاؤں راستے میں آئے۔ تھک جاتا تو آرام کر لیتا۔ لوگ سے مسافر سمجھ کر کچھ دے دیتے۔ اس کے ہاتھ میں ایک بنسری تھی۔ وہ بنسری بڑی اچھی بجاتا تھا۔ جب دل گھبراتا تو بنسری بجانے لگتا۔

    چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دو قلعے نظر آئے۔ ایک قلعہ پہاڑی کے دامن میں تھا اور دوسرا پہاڑی کے اوپر۔ اوپر والا قلعہ بے آباد اور ویران سا تھا۔ سائمن نے لوگوں سے ان قلعوں کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پہاڑی کے دامن میں جو قلعہ ہے اس میں ایک شہزادہ اور اس کی پیاری سی بیٹی رہتی ہے۔ یہ شہزادی بہت ہی خوب صورت ہے، لیکن بہت اداس رہتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے ہر وقت آنسو بہتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہاڑی کی چوٹی والے قلعے میں ایک رُوح کا بسیرا ہے۔ یہ روح اس لڑکی کے دادا کی ہے جو چند سال پہلے فوت ہوا تھا۔

    شہزادی کا دادا زندگی بھر لوگوں پر ظلم کرتا رہا تھا۔ اس کے پاس بے شمار دولت تھی، لیکن اس نے ساری دولت فضول خرچیوں میں برباد کر دی۔ اس نے دنیا میں اتنے برے کام کیے تھے کہ مرنے کے بعد اس کی رُوح پر آسمان کے تمام راستے بند کر دیے گئے اور اسے اسی قلعے میں واپس آنا پڑا، جہاں وہ زندگی میں رہا کرتا تھا۔ جب شہزادی جوان ہوئی تو اس کی شادی کے لیے یہ شرط رکھی گئی کہ اس کے ساتھ وہی شخص شادی کر سکے گا جو اس قلعے میں سے اس روح کو نکالے گا۔
    شہزادی اتنی خوب صورت تھی کہ اسے حاصل کرنے کے لیے بہت سے شہزادے اور امیر زادے اس قلعے میں گئے تا کہ وہاں سے بوڑھے کی روح کو نکال سکیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آیا۔ شہزادی کے داس اور غمگین رہنے کی یہی وجہ تھی۔

    جب یہ بات سائمن نے سنی تو اس نے سوچا کہ میری زندگی تو ویسے بھی بیکار ہی ہے، کیوں نہ قلعے میں جا کر قسمت آزمائی کی جائے۔ مر گیا تو اس دکھ بھری زندگی سے نجات مل جائے گی۔ کامیاب ہوا تو عیش و آرام میں زندگی گزر جائے گی۔ شہزادی بھی ملے گی اور اس کی دولت بھی ہاتھ آئے گی۔

    اگلے دِن صبح کو وہ پہاڑ کے دامن والے قلعے کے دروازے کے پاس بیٹھ کر بانسری بجانے لگا۔ بانسری کی دھن اتنی پیاری تھی کہ شہزادی اور اس کا باپ کھڑکی میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ شہزادی نے باپ سے ضد کی کہ اس نوجوان کو قلعے ہی میں رکھ لیا جائے تاکہ جب وه اداس ہو تو اس آدمی سے دھنیں سن کر اپنا دل بہلا لیا کرے۔

    باپ اپنی بیٹی کی ہر بات مانتا تھا۔ اس نے اجازت دے دی۔ شہزادی سائمن کے پاس گئی اور اسے یہ خوش خبری سنائی کہ آیندہ وہ قلعے میں رہا کرے گا۔ شہزادی اور اس کے والد نے سائمن کی آؤ بھگت کی اور نوکروں کو ہدایت کی کہ وہ اِس بات کا خیال رکھیں کہ شاہی مہمان کو اچھے سے اچھا کھانے کو ملے اور وہ ہر وقت خوش رہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے پہاڑی قلعے کے متعلق سائمن کو بتایا تو اس نے فوراً سینہ ٹھونک کر کہا کہ میں اس بوڑھے کی روح سے قلعے کو نجات دلاؤں گا۔ شہزادی کو سائمن کی اس بات پر خوشی بھی ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ خوشی اس بات کی کہ اگر وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہو گیا تو دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاریں گے۔ دکھ اس بات کا کہ شہزادی نہیں چاہتی تھی کہ سائمن روح کے ہاتھوں مارا جائے۔

    شہزادی کے والد نے جب دیکھا کہ سائمن کا ارادہ پکا ہے تو اس نے حکم دیا کہ چار گھوڑوں والی بگھی منگوائی جائے اور سائمن کو رات ہونے سے پہلے پہلے پہاڑی قلعے میں پہنچا دیا جائے۔ قلعے کے سامنے پہنچتے ہی سائمن کود کر بگھی سے باہر نکلا۔ پھر قلعے کے دروازے میں سے ہوتا ہوا ایک بہت بڑے کمرے میں پہنچ گیا۔ اندھیرا ہونے والا تھا۔ اس نے میز پر پڑی ہوئی موم بتّی روشن کی اور کمرے کو غور سے دیکھنے لگا۔

    کمرے کی چھت پر بیل بُوٹے بنے ہوئے تھے اور ستونوں پر بھی عمده نقش و نگار کھدے تھے۔ مدّت سے بند رہنے کی وجہ سے کمرے میں لگی ہوئی تصویوں اور ریشمی پردوں پر مٹّی کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔

    اس نے ایک کھڑکی کھولی تو باہر سے ایک باغ نظر آیا۔ لیکن وہ اجڑ چکا تھا۔ گھاس خشک ہو گئی تھی اور بیلیں سُوکھ گئی تھیں۔ ہر طرف بھیانک خاموشی طاری تھی۔
    سائمن نے ایک الماری کھولی تو اس میں سے ایک گھڑی ملی۔ اس نے گھڑی میں چابی دی اور اندازے سے وقت ٹھیک کیا تا کہ وقت کا پتا چل سکے۔

    پھر اس نے الماری سے ایک پرانا ناول نکالا اور کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ اس کے دِل میں کسی قسم کا ڈر یا خوف نہ تھا۔ پڑھتے پڑھتے گیارہ بج گئے۔ پھر وہ اکتا گیا تو سوچنے لگا کہ آدھی رات ہونے کو آئی، خدا جانے روح کب آئے گی۔ اس خیال کا آنا تھا کہ اچانک کسی گاڑی کی آواز آئی۔ یہ آواز بہت دور سے آ رہی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ نزدیک ہوتی گئی۔ سائمن کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ لیکن وہ اسی طرح پڑھنے میں مصروف رہا۔

    کچھ دیر بعد دروازہ آہستہ سے کھلا اور ایک بوڑھا آدمی چابیوں کا گچھا ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوا۔ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا اور اس کا رنگ ايسا سیاہ تھا جسے توا۔ آنکھیں ایسے نظر آ رہی تھیں جیسے ان میں کوئلے دہک رہے ہوں۔ سائمن بالکل نہ ڈرا، نہ اس نے کوئی حرکت کی۔ اسی طرح کتاب پڑھتا رہا۔ بوڑھا گھورتا ہوا اس کے پاس آیا اور رعب دار آواز میں بولا: ”اے! تم یہاں کس کی اجازت سے آئے ہو؟“

    سائمن بولا ”مسافر ہوں۔ راستے میں شام ہو گئی۔ قلعہ دیکھا تو اندر چلا آیا۔“

    بوڑھا گرج کر بولا ”تمہیں ڈر نہیں لگا؟ کسی نے نہیں بتایا تمہیں کہ یہاں کئی بہادر نوجوان اپنی جان کھو چکے ہیں؟ میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑتا۔ سمجھے؟“

    سائمن اطمینان سے بولا ”میں ایک غریب مزدور کا بیٹا ہوں۔ موت کی کم ہی پروا کرتا ہوں۔“

    بوڑھا بولا ”بڑے شیخی خورے معلوم ہوتے ہو۔ دیکھوں گا کب تک شیخی بگھارو گے۔ یہ لو چابیاں اور ایک ایک کر کے قلعے کے دروازے کھولتے جاؤ۔“

    سائمن وہیں بیٹھا بیٹھا بولا ”میں کوئی تمہارا ملازم ہوں؟ تم خود ہی کھولو نا۔ البتّہ میں تمہارے پیچھے پیچھے آ سکتا ہوں۔“

    بوڑھے کی روح نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ چابیاں لے کر چل پڑا۔ سائمن اس کے پیچھے چل دیا۔ بوڑھا ایک دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سائمن نے دیکھا کہ بوڑھے کے سر کے بال ایک دم سفید ہو گئے ہیں۔ بوڑھے نے دوسرا دروازہ کھولا اور پھر تیسرے دروازے پر رک کر ایک بار پھر سائمن سے کہا کہ چابیاں لے کر دروازه کھولو۔ سائمن نے انکار کیا تو اس نے خود ہی تیسرا دروازہ بھی کھول دیا۔ سائمن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سر کے بالوں کے علاوہ پورے کا آدھا جسم بھی سفید ہو گیا ہے۔ وہ یہ سب کچھ دیکھتا رہا، لیکن خاموش رہا۔ جوں جوں بوڑھا دروازے کھولتا گیا، اس کا جسم سفید ہوتا گیا۔ ساتواں دروازہ کھولنے پر وہ گھٹنوں تک سفید ہوا اور جب باره کے بارہ دروازے کھل گئے تو وہ پورے کا پورا سفید ہوگیا۔

    بارھویں کمرے میں انسانی ہڈیوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ یہ ان بہادر لوگوں کی ہڈّیاں تھیں جنہیں اس روح نے مار ڈالا تھا۔ بوڑھے نے آہستہ سے کہا ”دیکھو، یہاں کتنے نوجوان اپنی جان کھو چکے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہ تھا کہ یہاں کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے۔ میں بہت عرصے سے ایک مزدور ہی کے بیٹے کا انتظار کر رہا تھا۔ تم نے اپنے آپ کو بھی بچا ليا، مجھے بھی اس قید سے آزاد کر دیا اور قلعے کو بھی تباہی سے بچا لیا۔ اب یوں کرو کہ یہ کلہاڑی اٹھا کر میرا سَر کاٹ دو۔“ سائمن بہت بہادر تھا، لیکن یہ بات سن کر گھبرا گیا اور ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

    بوڑھا پھر بولا، ”دیکھو اگر تم نے میرا سر نہ کاٹا تو تمہاری ساری محنت بیکار جائے گی۔ میری روح یہیں اسی قلعے میں رہے گی اور تمہیں اپنے سَر کی قربانی دینی پڑے گی۔“ اب سائمن مجبور ہو گیا۔ اس نے کلہاڑی اٹھائی اور گھما کر بوڑھے کی گردن پر دے ماری۔ گردن ایک جھٹکے کے ساتھ جسم سے الگ ہو کر سائمن کے پیروں میں گِری۔ اگلے ہی لمحے وہاں گردن کے بجائے مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔ اس ڈھیر میں سے ایک سفید کبوتر نکل کر کھڑکی سے باہر نکلتا چلا گیا۔ یہی شہزادی کے دادا کی روح تھی۔

    سائمن بہت تھک چکا تھا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ لیٹ گیا اور گہری نیند سو گیا۔
    صبح اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب شہزادی اور اس کے والد کی بگھّی کی آواز آئی۔ وہ بھاگ کر باہر نکلا تو شہزادی اور اس کا والد بڑے غور سے اسے دیکھنے لگے۔ آج تک اس قلعے سے کوئی زنده واپس نہ نکلا تھا۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا تھا۔

    جب سائمن نے انہیں بتایا کہ بوڑھے کی روح قلعے سے جا چکی ہے تو وہ کود کر بگھّی سے اترے۔ سائمن انہیں لے کر قلعے میں داخل ہوا اور تمام کمرے دکھائے۔ اَب انہیں یقین آیا۔

    شہزادی سائمن کی کام یابی پر بہت خوش تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی۔ جہاں بے شمار شہزادے اور بہادر نوجوان ناکام ہو چکے تھے، وہاں سائمن نے یہ مہم سر کر لی تھی۔

    سب سے پہلے شہزادی کے والد نے حکم دیا کہ ان تمام نوجوانوں کی ہڈیوں کو، جو روح کے ہاتھوں مارے گئے تھے، عزّت کے ساتھ دفن کیا جائے۔ پھر اس نے قلعے کی صفائی کرا کے رنگ و روغن کروایا۔ اس کے بعد سائمن اور شہزادی کی شادی کا جشن منانے کا حکم دیا لیکن سائمن نے کہا: ”بہت عرصہ ہو گیا میں اپنے والدین سے نہیں ملا۔ میں نے ان کو بہت تکلیفیں دی ہیں۔ میں اِس خوشی میں ان کو ضرور شامل کرنا چاہتا ہوں۔“

    شہزادی کا والد راضی ہو گیا۔ اس نے بجائے شادی کے سائمن اور شہزادی کی منگنی دھوم دھام سے کر دی۔ پھر سائمن کے سفر کی تیاری کی گئی۔ سائمن کے جانے پر شہزادی بہت اداس ہوئی۔ اس نے سائمن سے وعدہ لیا کہ وہ اپنے والدین سے مل کر جلد واپس آئے گا۔ شہزادی نے سائمن سے اس کے گھر کا پتا بھی لیا تا کہ اگر وہ واپس نہ آئے تو وہ خود اس کے گھر پہنچ سکے۔ سائمن بہت سے نوکروں اور درباریوں کو ساتھ لے کر روانہ ہو گیا۔ وہ خوش تھا کہ اب بڑا آدمی بن کر اپنے ماں باپ کے پاس جا رہا ہے۔ موسم خوش گوار تھا۔ قا فلہ نو دن تو خیر و خوبی چلتا رہا لیکن دسویں روز سے ایک گھنے جنگل میں سے گزرنا پڑا۔ جب وہ جنگل میں داخل ہوئے تو چاند نِکلا ہوا تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل چھا گئے۔ اندھیرا ہو گیا اور بارش شروع ہو گئی۔ جنگل میں دور دور تک کوئی ایسی محفوظ جگہ نہ تھی جہاں یہ لوگ پناہ لیتے۔ ایک تو اندھیرا، دوسرے سخت بارش۔ راستہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بھوکے پیاسے، تھکے ہارے آہستہ آہستہ چلتے گئے۔ لیکن جنگل ختم ہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔ اچانک درباریوں میں سے کسی کو دور ایک ٹمٹاتی ہوئی روشنی نظر آئی جو درختوں میں سے چھن چھن کر آ رہی تھی۔ وہ اسی طرف چل دیے۔

    یہ روشنی ایک سرائے میں سے آ رہی تھی۔ یہ لوگ اندر داخل ہوئے تو ایک بوڑھی عورت کو چولھے پر کھانا پکاتے ہوئے پایا۔ اتنے میں سرائے والا بھی آ گیا اور ان کو خوش آمدید کہا۔ وہ لوگ اندر تو چلے گئے تھے لیکن انہیں سرائے دار کی آنکھوں سے شرارت ٹپکتی نظر آ رہی تھی۔ وہ سب اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ لیٹتے ہی گہری نیند سوگئے۔ سرائے دار اسی موقعے کے انتظار میں تھا۔ دراصل یہ سرائے مسافروں کو لوٹنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہاں مسافروں کو لوٹ کر انہیں موت کی نیند سلا دیا جاتا تھا۔

    جب یہ لوگ سو گئے تو سرائے والا آہستہ سے نکل کر جنگل میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا۔ یہ لوگ تعداد میں بارہ اور نہایت ظالم قسم کے ڈاکو تھے۔ سرائے والا ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا: ”کیا خبر لائے ہو؟“

    سرائے والا بولا ” بہت بڑی خوش خبری ہے۔ ایک بہت بڑا نواب اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرائے میں آ کر ٹھہرا ہے۔ ان کے پاس گھوڑے، ہیرے، جواہرات ریشمی کپڑا اور بہت سا قیمتی سامان ہے۔“

    ڈاکوؤں نے کہا ”ان کی تعداد کتنی ہے ؟“

    ”تعداد تو بہت ہے، لیکن وہ لوگ اس قدر تھکے ہوئے ہیں کہ انہیں سر پیر کا ہوش نہیں۔ یہی موقع ہے ان کے گلے کاٹنے کا۔“

    ڈاکو دبے پاؤں سرائے میں داخل ہوئے اور سائمن کے ساتھیوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ جب سائمن کو اپنے ساتھیوں کی چیخیں سنائی دیں تو وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور ساتھیوں سے پستول مانگا۔ لیکن ڈاکو زیادہ تیز تھے۔ ان کے سردار نے سائمن پر پستول کی گولی داغ دی اور وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑا۔ ڈاکوؤں نے سائمن کو مردہ سمجھ کر پہلے اس کے گلے کا ہار اور انگوٹھی اتاری پھر سارا سامان اٹھایا اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل دیے۔

    سائمن زخمی ہوگیا تھا لیکن مرا نہیں تھا۔ اس کے ساتھیوں میں کوئی بھی زندہ نہ بچا تھا۔ ڈاکو چلے گئے تو اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور چپکے سے سرائے میں سے نکل کر جنگل کا راستہ لیا۔ وہ چلتا گیا، چلتا گیا۔ یہاں تک کہ سورج ڈوبنے سے پہلے جنگل میں سے نکل گیا۔ اب وہ اپنے باپ کی سرائے سے صرف ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اس کے پاؤں ننگے اور کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ اور ڈاکوؤں کے حملے سے اس کا حلیہ بگڑ گیا تھا۔ وہ ایسی حالت میں اپنے باپ کے سامنے جانا نہ چاہتا تھا۔ وہیں بیٹھ کر رات کا انتظار کرنے لگا۔ یہاں چند گڈریوں نے سے پہچان لیا اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولے: ”ارے سائمن! تم تو فوج میں جرنیل ہو گئے تھے۔ جرنیل صاحب ننگے پاؤں کہاں سے بھاگ کر آ رہے ہو؟“

    سائمن بولا ”میرا مذاق مت اڑاؤ۔ میں اب وہ بھوکا ننگا سائمن نہیں ہوں۔ اب میں بہت امیر اور ایک بادشاہ کا داماد ہوں۔ البتہ مجھ پر ایک مصیبت آن پڑی ہے۔ میرے تمام ساتھیوں کو ڈاکوؤں نے قتل کر دیا اور سارا سامان چھین کر لے گئے۔ دیکھ لو، میرے کپڑے کتنے قیمتی ہیں لیکن پھٹے ہوئے ہیں۔“

    گڈریوں نے سائمن کو اپنے کپڑے دیے اور اپنے ساتھ گاؤں لے گئے۔ سائمن کا باپ گھر پر نہیں تھا۔ اس کی ماں اسے دیکھ کر بھاگی ہوئی آئی اور اسے چمٹا کر رونے لگی۔ بُرے حال میں سہی، لیکن اس کا بیٹا زندہ تو تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی لیکن شوہر کے غصّے کے ڈر سے اس نے سائمن کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ سائمن کا باپ واپس آیا تو اس نے محسوس کیا کہ ضرور کوئی خاص بات ہوئی ہے۔ بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے پوچها ”کیا بات ہے، روتی کیوں ہو؟“

    ”یہ تو خوشی کے آنسو ہیں“ بڑھیا بولی ”ہمارا سائمن زندہ ہے۔“

    ”کس بے وقوف کا نام لے رہی ہو۔“ بوڑھا بولا ”اگر مجھے پتا چل جائے کہ وہ کہاں ہے تو میں اسے گولی مار دوں گا۔“

    لیکن جب اس نے دیکھا کہ بڑھیا کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ہیں تو وہ نرم پڑ گیا اور بیوی سے پوچھا: ”کہاں چھپایا ہے تم نے سائمن کو؟“ بڑھیا نے اسے قسم دی کہ وہ سائمن کو کچھ نہیں کہے گا اور پھر سائمن کو آواز دی۔ وہ سامنے آگیا۔

    بوڑھے نے سائمن کو پرانے کپڑے پہننے کو دیے اور اپنی اور گاؤں والوں کی بکریاں چرانے پر لگا دیا۔ سائمن بنسری ساتھ لے جاتا۔ بکریاں چرتی رہیں اور وہ بنسری بجاتا رہتا۔ اسے یقین تھا کہ شہزادی ضرور اسے تلاش کرتی ہوئی آئے گی۔
    جب سائمن کو گھر گئے تین ہفتے ہو گئے اور وہ واپس نہ آیا تو شہزادی کو بہت فکر ہوئی اور وہ باپ سے اجازت لے کر اسے ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئی۔ باپ نے اس کے ساتھ بہت سے سپاہی کر دیے تھے۔

    شہزادی بھی اسی راستے سے ہوتی ہوئی اسی سرائے میں پہنچ گئی جہاں سائمن ٹھہرا تھا۔ اتفاق سے سرائے والا اس وقت موجود نہ تھا۔ وہی بڑھیا جو سائمن کو کھانا پکاتی ہوئی نظر آئی تھی، شہزادی کے پاس آ کر بولی: ”بیٹی تم یہاں نہ ٹھہرو۔ یہ ڈاکوؤں کا ڈیرا ہے۔ وہ ظالم مسافروں کو لوٹ کر ان کا گلا کاٹ دیتے تھے۔ ابھی تین ہفتوں کی بات ہے، ایک امیر آدمی یہاں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ ڈاکوؤں نے ان کا سامان چھین کر ان سب کو مار ڈالا۔“

    شہزادی کو یہ سن کر بہت صدمہ ہوا۔ لیکن جب بڑھیا نے اسے بتایا کہ اور سب لوگ تو مارے گئے تھے لیکن ان کا سردار زخمی ہونے کے باوجود بچ نکلا تھا تو اس کی جان میں جان آئی۔

    شہزادی بہت بہادر تھی۔ وہ ان ڈاکوؤں سے بالکل نہ گھبرائی بلکہ سائمن کی تکلیف کا سن کر تو اس کا اور بھی دل چاہا کہ ان کو خوب مزہ چکھائے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہتھیار تیار رکھیں اور آنکھیں بند کرلیں لیکن سوئیں نہیں۔

    سرائے والا واپس آیا تو شہزادی کا سامان دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ بھاگا بھاگا ڈاکوؤں کے پاس گیا اور انہیں بلا لایا۔ شہزادی اور اس کے ساتھیوں کو گہری نیند سوتا دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ لیکن اس بار سب الٹا ہو گیا۔ شہزادی کے ساتھیوں نے ڈاکوؤں کو ایک ایک کر کے مارنا شروع کر دیا۔ جب بارہ کے بارہ ڈاکو اور سرائے کا دھوکے باز مالک مارے گئے تو شہزادی نے بڑھیا کو ساتھ لیا اور سائمن کی تلاش میں چل نکلی۔

    آخر کار وہ اِس علاقے میں جا پہنچی جہاں سائمن بکریاں چرا رہا تھا۔ شہزادی کو بانسری کی آواز آئی تو اس نے فوراً پہچان لیا کہ یہ سائمن ہے۔ اس نے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود گھوڑے سے اتر کر چھپتی چھپاتی سائمن کے قریب پہنچ گئی۔ یہ سچ مچ سائمن ہی تھا۔ شہزادی کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا لیکن اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور فوراً ہی واپس آ گئی۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر سائمن کے باپ کی سرائے کی طرف چل دی۔

    بوڑھا سرائے دار شہزادی اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر بہت حیران ہوا اور جب شہزادی نے اس کی سرائے میں ٹھہرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ گھبرا گیا اور بولا کہ وہ غریب آدمی ہے۔ اس کی سرائے شہزادی کے لائق نہیں ہے۔ لیکن شہزادی نے نہ صرف وہاں ٹھہرنے پر ضد کی، بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ کسی اور ملازم کے بجائے وہ اپنے لڑکے کو اس کی خدمت پر لگائے۔ بوڑھے نے شہزادی سے کہا کہ اس کا لڑکا بہت نالائق، بے وقوف اور بدتمیز ہے۔ آپ کی خدمت کرنے کے قابل نہیں لیکن شہزادی نے اس کی ایک نہ سنی۔ ناچار بوڑھے نے سائمن کو شہزادی کے دروازے کے باہر بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد شہزادی نے پانی مانگا۔ سائمن نے پانی کا گلاس لیا اور نظریں نیچی کر کے اندر چلا گیا۔ شہزادی نے پانی پیا اور جب دیکھا کہ سائمن نظریں اوپر نہیں اٹھاتا تو گلاس زمین پر پھینک دیا۔ سائمن فرش پر سے گلاس کے ٹکڑے اکٹھے کرنے لگا۔ شہزادی بھاگ کر اس کے پاس آ بیٹھی۔ سائمن نے شہزادی کو دیکھا تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔

    شہزادی سائمن کے لیے بہت عمدہ کپڑے لے کر گئی تھی۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دونوں زرق برق لباس میں سائمن کے والدین سے ملنے گئے۔ بوڑھا سائمن کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ شہزادی بولی ”ابّا جان، آپ اپنے بیٹے کو نہیں پہچانتے۔“

    بوڑھا ہکا بکا ہو کر بولا: ”یہ شہزادہ ہے تو میرے لڑکے جیسا ہی، لیکن میرا لڑکا تو شہزادہ نہیں ہے۔“

    بوڑھا کبھی شہزادی کو دیکھتا کبھی سائمن کو۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا۔ آخر کار سائمن جھکا اور اپنے باپ کے پیروں کو چھوتے ہوئے بولا ” ابا جان! میں آپ سے اپنی غلطیوں کی معافی چاہتا ہوں۔“ اور پھر جب اس نے اور شہزادی نے قلعے والی بات، منگنی کی بات اور ڈاکوؤں والا واقعہ سنایا تو بوڑھا اور بڑھیا بہت ہی خوش ہوئے۔ یہ سب باتیں ہو چکیں تو شہزادی سائمن اور اس کے ماں باپ کو لے کر واپس چلی گئی۔ سائمن اور شہزادی کی شادی دھوم دھام سے ہوئی اور وہ دونوں پہاڑی والے قلعے میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    شادی کے بعد سائمن کے بوڑھے والدین اپنی سرائے میں واپس آ گئے ، کیوں کہ وہ سرائے کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ لیکن اب انہیں کوئی دکھ، تکلیف یا پریشانی نہ تھی۔

    (پولینڈ کی کہانیوں سے انتخاب، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • کالی بھیڑ (اطالوی ادب سے انتخاب)

    کالی بھیڑ (اطالوی ادب سے انتخاب)

    ایک ملک ایسا تھا، جس کا ہر باسی چور تھا۔ اس کا ہر باسی، رات میں تالا شکن اوزار اور اندھے شیشے والی لالٹین لیے گھر سے نکلتا اور اپنے کسی ہمسائے کے گھر میں نقب لگاتا۔ وہ جب پَو پھٹتے سمے، لُوٹا ہوا مال لیے اپنے گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلتا کہ اس کا اپنا گھر لُٹ چکا ہے۔

    یوں سب ایک دوسرے سے جھگڑے بغیر سکون سے رہ رہے تھے۔ کسی کو بھی برا نہ لگتا کہ اس نے ایک بار دوسرے کو لوٹ لیا ہے۔ ایک سے دوسرا لُٹتا، دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا….لُوٹ کا یہ سلسلہ چلتا رہتا، یہاں تک کہ آخری بندہ پھر سے پہلے بندے کو لوٹنا شروع کر دیتا۔

    اِس ملک کا سارا کاروبار فریب پر مبنی تھا، چاہے بندہ خریدنے والا تھا یا پھر بیچنے والا۔ اس ملک کی حکومت بھی مجرموں کا ایسا دَل تھا، جو بنا ہی اس لیے تھا کہ لوگوں کا مال ہتھیا سکے، جبکہ لوگ تھے کہ سارا وقت کوشاں رہتے کہ حکومتی دَل کو دغا دے سکیں۔ اس ملک میں سب کی زندگی کسی مشکل کا سامنا کیے بغیر گزر رہی تھی اور اس کے باسی نہ امیر تھے اور نہ ہی غریب۔

    پھر ایک دن، نجانے کیسے کیوں اور کہاں سے، ایک ایماندار شخص اس دیس میں آیا۔ وہ، بجائے اس کے، کہ بوری اور لالٹین لیے نقب زنی کے لیے نکلتا، گھر میں ہی رہتا، سگریٹ پھونکتا اور قصے کہانیاں پڑھتا رہتا۔ جب چور آتے، اس کے گھر میں روشنی دیکھتے تو لوٹ جاتے۔ یہ معاملہ دیر تک نہ چل سکا۔

    ایماندار آدمی کو یہ بتا دیا گیا: ”یہ تو ٹھیک ہے، تم بیشک تن آسانی سے رہو لیکن تمہیں دوسروں کے کام میں حارج ہونے کا کوئی حق نہیں۔ تمہاری گھر میں گزاری ہر رات کا مطلب ہے کہ ایک گھر میں فاقہ رہے۔“

    ایماندار اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا۔۔۔ اور اس نے بھی صبح تک اپنی راتیں، گھر سے باہر گزارنی شروع کر دیں۔ وہ، لیکن، خود کو چوری کرنے پر راضی نہ کر سکا۔ بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک ایماندار شخص تھا۔ وہ پُل پر جا کھڑا ہوتا اور نیچے بہتے پانی کو تَکتا رہتا۔ دن چڑھنے پر جب وہ گھر لوٹتا تو اسے پتا چلتا کہ اس کا گھر لُٹ چکا ہے۔

    ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایماندار شخص کنگال ہو گیا، اس کے گھر سے سارا سامان جاتا رہا اور اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا۔ وہ کسی دوسرے کو قصوروار بھی نہ ٹھہرا سکا کیونکہ قصور تو خود اس کا اپنا تھا۔ اس کی ایمانداری ہی اصل وجہ تھی، جس نے اس ملک کے سارے نظام کی ترتیب توڑ اور توازن بگاڑ دیا تھا۔ وہ لُٹتا رہا لیکن اس نے خود کسی دوسرے کو نہ لُوٹا۔ یہ سبب تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا کہ جب وہ اپنے گھر لوٹتا تو اس کا مال و متاع محفوظ ہوتا جبکہ اس کے گھر ایماندار بندے نے رات میں صفائی کرنی ہوتی تھی۔ جلد ہی اُن لوگوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں امیر پایا، جن کے گھر لٹنے سے بچ گئے تھے۔ نتیجتاً اُن کا من نہ کیا کہ وہ چوری کریں اور وہ جو ایماندار شخص کے گھر چوری کرنے جاتے، وہ خالی ہاتھ لوٹتے اور غریب ہوتے گئے کہ اس کے گھر کچھ بھی نہ بچا تھا۔

    اس دوران یہ ہوا کہ جو امیر ہو گئے تھے، انہوں نے بھی ایماندار شخص کی طرح پُل پر جانا اور نیچے بہتے پانی کو تکنا شروع کر دیا اور اِسے اپنی عادت بنا لیا۔ ان کی اس حرکت نے صورت حال میں مزید الجھاؤ پیدا کر دیا کیونکہ مزید لوگ امیر ہو رہے تھے اور بہت سے دوسرے غریب سے غریب تر۔ امیروں کو لگا کہ اگر وہ یونہی پُل پر کھڑے راتیں بِتاتے رہے تو انہوں نے بھی غریب ہو جانا تھا۔ انہوں نے سوچا: ’کیوں نہ ہم کچھ غریبوں کو پیسے دیں کہ وہ ہمارے لیے چوری کرنے جائیں؟‘

    مُک مکا کیے گئے، معاوضے اور حصے طے کیے گئے۔ اس میں بھی ایک دوسرے کو داؤ لگائے گئے کیونکہ لوگ تو ابھی بھی چور تھے۔ نتیجہ بہرحال یہی نکلا کہ امیر مزید امیر ہوتے گئے اور غریب مزید غریب۔

    امیروں میں سے کئی اتنے امیر ہو گئے کہ نہ تو انہیں چوری کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی چوری کرانے کے لیے دوسروں کو معاوضہ دینے کی، لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ اگر وہ چوری سے تائب ہو جائیں تو غربت ان کا مقدر ہوتی، غریبوں کو بھی اس بات کا پتہ تھا۔ انہوں نے، چنانچہ، غریب ترین لوگوں کو، دیگر غریبوں سے اپنے مال و متاع کی حفاظت کے واسطے، رکھوالی کے لیے رکھ لیا۔ پولیس کے جتھے کھڑے ہوئے اور بندی خانے بننے لگے۔

    یہ سب ہوا اور پھر ایماندار شخص کی آمد کے چند سال بعد ہی کوئی بھی چوری کرنے یا لُٹ جانے پر بات نہ کرتا، بات ہوتی تو بس اتنی کہ وہ کتنے امیر یا غریب تھے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی چور ہی تھے۔

    وہاں بس ایک ہی ایماندار آدمی تھا، جو جلد ہی فاقہ کشی سے مر گیا تھا۔

    (اطالوی ادیب ایتالو کیلوینو کا افسانہ جس کے مترجم قیصر نذیر خاورؔ ہیں)

  • چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    ایک چمکیلی دوپہر کو ایک چیونٹی خوراک کی تلاش میں تیزی سے بھاگی جا رہی تھی کہ اس کا ٹاکرا ایک پیوپا سے ہوا جو اپنی جون بدلنے کی حالات میں تھا۔

    پیوپا نے اپنی دُم ہلائی تو چیونٹی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی جاندار ہے۔ وہ حقارت سے بولی: ” بیچارے جانور، تمہیں دیکھ کر تو ترس آتا ہے، تمہاری قسمت کتنی خراب ہے کہ تم حرکت بھی نہیں کر سکتے، اور اپنے خول میں قید صرف دم ہلا سکتے ہو، جب کہ میں اپنی مرضی اور خوشی سے ادھر، ادھر تیزی سے دوڑ سکتی ہوں۔ اور اگر میں چاہوں تو سب سے اونچے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ تک بھی پہنچ سکتی ہوں۔” پیوپا نے یہ سب سنا لیکن چیونٹی کو جواب دینے سے گریز کیا۔

    کچھ دنوں بعد کے جب چیونٹی کا گزر ایک بار پھر وہاں سے ہوا۔ وہاں پیوپا کا بس خول پڑا تھا۔ وہ حیران ہوئی کہ اس خول میں موجود پیوپا کہاں گیا۔ ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے اوپر سائے کا احساس ہوا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو اسے بڑے بڑے پروں والی ایک رنگ برنگی خوب صورت تتلی ہوا میں اڑتی نظر آئی۔

    تتلی نے چیونٹی سے کہا: "میں وہی پیوپا ہوں جسے تم نے چند روز قبل دیکھ کر اس پر ترس کھایا تھا اور اپنی برتری جتلائی تھی، اب مجھے تم پر ترس آتا ہے۔”

    یہ کہہ کر تتلی فضا میں بلند ہوئی اور موسمِ گرما کی ہوا کے دوش پر، فضا میں تیرتی، چیونٹی کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔

    سبق: کسی کا ظاہر دیکھ کر عجلت میں کوئی قیاس کرنا اور اس پر اپنی رائے دینا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔

    (مشہور یونانی داستان گو ایسوپ کی ایک حکایت جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

  • ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
    ڈریٹن میں ہمت نہیں تھی کہ اندھیرا پھیلنے تک اس جگہ سے حرکت بھی کرے جہاں وہ چھپا ہوا تھا۔ اس پر بدحواسی چھائی ہوئی تھی اور وہ دبک کر بیٹھا تلی ہوئی مچھلیوں اور پھلیوں کی خوش بو سونگھ رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں سخت بھوک سے چوہوں نے طبل جنگ بجا دیا تھا۔ آخر کار اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی جادوئی طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے شہد کی مکھیوں کو حکم دیا کہ وہ چھتے چھوڑ کر کیمپنگ ایریا پر حملہ کریں اور اس ٹرپ کو برباد کر دیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔
    اس وقت جولیان باقی سب کو اپنے تسمانیہ کے سفر کی روداد سنا رہا تھا، جب درختوں پر موجود چھتوں سے شہد کی مکھیوں کے غول کے غول کیمپ کی طرف بڑھے۔ ابتدا میں چند مکھیاں ان تک پہنچیں تو انھوں نے توجہ نہیں دی لیکن کچھ ہی دیر میں وہ چونک اٹھے۔ فیونا نے اپنے چہرے کے پاس اڑنے والی مکھی کو ہاتھ لہرا کر بھگایا اور حیرت سے کہا: ’’یہ مکھیوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
    اینگس نے کہا اف خدا بہت ساری شہد کی مکھیاں چلی آ رہی ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کے منھ سے تکلیف دہ آوازیں نکلنے لگیں، وہ سب شہد کی مکھیوں کو مار رہے تھے لیکن وہ بھی ڈنک مارنے میں کامیاب ہو رہی تھیں کیوں کہ بہت زیادہ تھیں۔ مجبور ہو کر وہ اٹھے اور ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ہر ڈنک کے ساتھ ان کے منھ سے تکلیف دہ چیخ نکلتی تھی۔ ایسے میں جونی کے دماغ نے کام کیا اور وہ چلا کر بولا: ’’یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔‘‘
    انکل اینگس نے یہ سن کر اپنا جبڑا رگڑتے ہوئے کہا فیونا سے کہا کہ وہ بھی جانوروں سے بات کر سکتی ہے تو ان سے بات کر کے جان چھڑاؤ۔ فیونا کو خود شہد کی مکھیوں سے بہت ڈر لگ رہا تھا، اس نے ڈرتے ڈرتے مکھیوں کو پیغام بھیجا: ’’میرے دوستوں کو ڈنک مارنا بند کر دو۔ میری ممی گھر میں شہد کی مکھیاں خود پالتی ہیں اور دیکھ بھال کرتی ہیں، تم ہمارے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو؟‘‘
    کئی شہد کی مکھیاں فیونا کے پاس اڑ کر گئیں اور کہا کہ انھیں ڈریٹن نے حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، اور جب حکم دیا جائے تو انھیں ماننا پڑتا ہے۔ فیونا نے کہا تو میں تمھیں رکنے کا حکم دیتی ہوں، ڈریٹن بہت بری آدمی ہے، اسے تمھاری حفاظت کی بھی کوئی پروا نہیں ہے، دیکھو تم میں سے کتنی مکھیاں زمین پر مری پڑی ہیں، جاؤ اور ڈریٹن کو تلاش کر کے اسے ڈنک مارو، وہ ایک شریر آدمی ہے۔‘‘
    مکھیوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ برائی سے زیادہ اچھائی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ فیونا سے بات کرنے والی مکھی اڑ کر دوسری طرف گئی اور گانے کی آوازیں نکالنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے شہد کی تمام مکھیاں رک گئیں اور پھر اکھٹی ہو کر اس طرف اڑنے لگیں جہاں ڈریٹن چھپا ہوا تھا۔

    جب انھیں اطمینان ہو گیا تو جمی نے کراہتے ہوئے کہا ’’میرے تو صرف ایک بازو پر ایک درجن ڈنک پڑے ہیں۔‘‘ جیفرے نے کہا ’’اور میرے چہرے پر کم از کم بیس ڈنک ہیں۔‘‘ اینگس گاڑی میں بیٹھ کر دریا کی طرف گئے اور بالٹی میں پانی بھر کر لے آئے۔ سبھی بالٹی کے پاس جمع ہو کر کپڑے بھگو بھگو کر زخموں پر لگانے لگے۔
    ۔۔۔۔۔۔

    سورج غروب ہو چکا تھا اور مکمل اندھیرا تھا۔ پہاڑی علاقے میں سخت سردی تھی، ڈریٹن کانپنے لگا تھا اور اس نے اپنے بازو اپنے گرد لپیٹ دیے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ آج رات وہ سو نہیں پائے گا، اس لیے وہ اپنی کار کی طرف بڑھا۔ یہی لمحہ تھا جب شہد کی پہلی مکھی نے اسے ڈنک مارا۔ اس کے منھ سے سسکاری نکلی، اور پھر ایک اور مکھی نے اپنا ڈنک اس کے ماتھے کی جلد میں پیوست کر دیا۔ اور پھر کئی مکھیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس کے منھ سے شدید غصے میں غراہٹ جیسی آواز نکلی: ’’بے وقت مکھیوں، تمھیں فیونا پر حملہ کرنا تھا مجھ پر نہیں۔‘‘ لیکن شہد کی مکھیوں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف گیا، اور ایک اخبار نکال کر مکھیوں کو بھگانے لگا۔

    شہد کی مکھیوں سے جان چھڑانے کے بعد اس نے سوچا کہ فیونا اس کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے تو چلو مزید کھیل کر دیکھتا ہوں۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور بارش، بجلی اور اولوں کے بارے میں سوچا۔ پھر جب اس نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھولا تو اسے بارش کے پہلے قطرے گرتے محسوس ہوئے، پھر ایک منٹ کے اندر اندر موسلا دھار بارش ہوئی۔ ’’اب مزا آئے گا ان کو۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    (جاری ہے ۔۔۔۔)
  • ایک سو انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’تم لوگوں کو یہاں سے نکل کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ کرسٹل بولنے لگی: ’’تم نے زمرد نکالا ہے، یہ ہر صورت یہیں رہے گا۔ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں اسے یہاں سے ادھر ادھر نہ ہونے دوں، اس لیے تم لوگ یہاں سے اب نہیں جا سکتے۔‘‘

    ’’ہم یہاں رہے تو مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ہم انسان ہیں، پریاں نہیں۔ ہم کھاتے پیتے ہیں اور سانس لیتے ہیں۔ تم تو پری ہو، تمھیں کھانے پینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تم اولے کی طرح سفید اور برف کی طرح سرد ہو، تم خود کو دیکھو ذرا۔‘‘
    اچانک جبران بولا: ’’ہم تمھارے دوستوں تک تمھیں پہنچانے کے لیے مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ لیکن کرسٹل کی سرد اور جذبات سے خالی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’میرے دوستوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں یہیں رہوں۔ تم لوگ بے کار بحث کر رہے ہو، میں اپنا وعدہ نہیں توڑوں گی چاہے مر ہی کیوں نہ جاؤں۔‘‘
    فیونا نے التجا کی: ’’کرسٹل، تم ایک ہزار سال قدیم ہو، تم غالباً نہیں مروگی لیکن ہم تو بچے ہیں، تمھاری طرح لمبا عرصہ نہیں جئیں گے، پلیز ہمیں جانے دو۔‘‘ جبران نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر ذرا دور لے جا کر سرگوشی کی: ’’فیونا، تم آگ والا شعبدہ دکھاؤ، اس غار میں آگ بھڑکا کر اسے پگھلا کر رکھ دو۔ ہم گلیشیئر کے آخری سرے سے زیادہ دور نہیں ہیں۔‘‘
    ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھے اب ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ تم ایسا کرو کہ اس ننھی پری کو باتوں میں لگاؤ، اسے پتا نہ چلے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔‘‘
    جبران کرسٹل کی طرف دوڑ کر گیا اور اچانک قہقہے لگا کر اس کے اردگرد اچھل کود کرنے لگا، پھر بولا: ’’کرسٹل، میں نے اپنا خیال بدل لیا ہے، اب میں تمھارے ساتھ یہاں رہوں گا، کیا تم مجھے برف کی مزید رنگین قلمیں دکھانا پسند کرو گی؟ اور مجھے بتاؤ کہ تم انھیں رنگین کس طرح بناتی ہو؟‘‘
    کرسٹل نے ہاں میں سر ہلایا اور غار کے مزید اندر کی طرف اڑ کر جانے لگی۔ دوسری طرف فیونا دانیال کی طرف دوڑ کر گئی اور اس سے بولی کہ برف کی دیوار سے پیچھے ہٹ جائے کیوں کہ وہ اسے آگ سے پگھلانے والی تھی۔ ’’دانی، تم کوئی چیز مضبوطی سے پکڑ لو، کیوں کہ برف پگھلے گی تو پانی ریلا بہہ کر آئے گا۔‘‘
    دانیال نے قریب ہی ایک لٹکتی مضبوط قلم کے گرد بازو پھیلا کر اسے جکڑ لیا۔ فیونا نے آگ کا تصور کیا اور برف کی دیواروں پر ننھے ننھے شعلے بھڑک اٹھے۔
    ’’دیکھو دانی، یہ شعلے برف پر کتنی پیاری چمک پیدا کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے ننھے شعلے دیکھے تو خوش ہو کر کہا لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا: ’’بھاڑ میں گئے یہ پیارے شعلے، زیادہ آگ بھڑکاؤ تاکہ ہم یہاں سے آزاد ہو سکیں۔‘‘
    فیونا نے پھر آگ پر توجہ مرکوز کر دی۔ اب ننھے شعلے یکایک دگنے تگنے ہو کر پھیل گئے، اور لمحوں میں برف پگھلنا شروع ہو گئی۔ اس نے پھر توجہ بڑھائی اور شعلے مزید بڑے ہو گئے۔ برف کی قلمیں یکے بعد دیگرے گرنے لگے ار پانی کا ریلا بہنا شروع ہوا۔ اس نے چیخ کر دانیال کو خبردار کیا: ’’خود کو سنبھالو!‘‘
    لمحوں کے اندر اندر وہ دونوں پانی میں مکمل طور پر بھیگ گئے تھے۔ صاف اور برفیلے پانی نے انھیں اس طرح گھیرا جیسے کوئی انھیں زمین یا دیواروں پر پٹخ رہا ہو۔ آگ کی وجہ سے غار میں ٹھنڈا یخ دھواں پھیل گیا تھا۔ برف کے بڑے بڑے تودے ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے اور برف کی چھت میں دراڑیں نمودار ہو گئی تھیں، جن روشی چھن کر غار میں آنے لگی تھی۔ روشنی دیکھ کر دانیال خوشی سے چیخ کر بولا: ’’فیونا، تمھارے جادو نے کام کر دکھایا، ہم آزاد ہو رہے ہیں۔‘‘
    جب کرسٹل کو پتا چلا تو دیر ہو چکی تھی، وہ چیخنے چلانے لگی اور برف کے گرتے ٹکڑوں سے خود کو بچاتے ہوئے ادھر ادھر بدحواسی میں اڑنے لگی۔ ’’تم نے میرا گھر برباد کر کے اچھا نہیں کیا، تم یہاں سے باہر نہیں جا سکتی، تم نے یہیں میرے ساتھ رہنا ہے۔‘‘
    اُمڈتے ہوئے پانی کے تیز دھارے نے آخرکار گلیشیئر کی دیواروں کو توڑ دیا اور پہاڑ کے نشیب کی طرف بہنے لگا۔ اس کا رخ بھی اسی طرف تھا جس طرف کچھ دیر قبل پانی کا ایک ریلا گیا تھا۔ گلیشیئر کا سامنے والا حصہ مکمل طور پر گر کر ٹوٹ چکا تھا۔ پانی کی لہر ان تینوں کو بھی اپنے ساتھ اس غار سے باہر نکال کر لے گئی۔
    (جاری ہے……)
  • ایک سو بیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    سارے دن کے سیر سپاٹے کے بعد تینوں خوب تھک گئے تھے۔ بھوک زوروں پر تھی، فیونا نے پوچھا کہ پہلے کمرے میں جا کر نہایا جائے یا پیٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ دانیال نے کہا کہ اس کے پیٹ میں تو چوہوں نے تیسری عالمی جنگ برپا کر دی ہے، اس لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ جبران نے بھی تائید کر دی اور ساتھ میں امید ظاہر کی کہ ہوٹل کا ریستوران کچھ ڈھنگ کا ہوگا۔ تینوں ہوٹل کی لابی سے گزر کر ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے۔ یہ ایک کمرہ نما جگہ تھی جہاں دس میزیں ادھر ادھر لگائی گئی تھیں۔ ہر میز پر ایک ایک موم بتی روشن تھی اور ساتھ ایک ننھا مسالہ بھرا بارہ سنگھا رکھا ہوا تھا۔ دیواروں پر بارہ سنگھے اور ریچھوں کے بڑے بڑے سر نکلے ہوئے تھے۔ جبران نے انھیں دیکھ کر برا منھ بنایا اور کہا: ’’کوئی بارہ سنگھا یا ریچھ مرا ہوگا تو انھوں نے اس کی کھال کے اندر چیزیں بھر کر انھیں یہاں لٹکا دیا۔‘‘
    ’’میرے خیال میں یہ حقیقی نہیں ہیں، مینو دیکھ کر اپنے لیے ڈش پسند کرو۔‘‘ فیونا نے کہا۔
    دانیال بولا: ’’میں تو بارہ سنگھے کی پسلیاں اور ہرن کا قورمہ اور اس کے ساتھ یوکان کے گولڈ پوٹیٹو، گرم ڈبل روٹی اور موزبیری جیلی کا آرڈر دوں گا۔‘‘ جبران آنکھیں دکھا کر بولا: ’’اس کے لیے انھیں ایک بارہ سنگھا اور ہرن مارنا پڑے گا۔‘‘
    فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’جبران، میں تو اود بلاؤ کی بُھنی ہوئی دم کھانے جا رہی ہوں۔ ہاں، مجھے پتا ہے کہ کسی غریب اود بلاؤ نے اپنی جان دی ہوگی، اس کے بعد کہیں جا کر اس کی دم میرے حصے میں آئے گی۔ لیکن یہ ہے دل چسپ۔ ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ میں بھی یوکان کے گولڈ پوٹیٹو وِد ڈبل روٹی منگواؤں تو اچھا رہے گا۔ سائیڈ میں نرم بٹر مِلک بسکٹ اچھے رہیں گے۔‘‘
    جبران نے منھ بنایا اور کہا: ’’میں صرف پوٹیٹو، بٹر ملک اور سلاد لوں گا۔‘‘ تھوڑی دیر جب ویٹرس آئی تو فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ پڑھ کر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’مس روتھ، کیا یہ موز بیری جیلی بارہ سنگھے کی ہے؟‘‘ ویٹرس نے جواب دیا: ’’نہیں، یہ کرابیری سے بنائی جاتی ہے، ہم اسے موز بیری اس لیے کہتے ہیں تاکہ سیاح اس میں دل چسپی لیں۔‘‘
    ویٹرس آرڈر لے کر چلی گئی اور وہ تینوں خاموشی سے کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ دیواروں پر سونے کی کانوں کے دنوں کی تصاویر لٹکی ہوئی تھیں۔ کھانا ختم کرنے کے بعد جب ویٹرس نے فیونا کو بل دیا تو پوچھنے لگی کہ کیا وہ تینوں پہلی بار وائٹ ہارس آئے ہیں۔ فیونا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ اس سے قبل ہم یہاں کبھی نہیں آئے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آج رات آرورا بوریلس ضرور دیکھیں، یہ ایک رنگین نظارہ ہوتا ہے۔ فیونا نے کہا کہ اس نے یہ نظارہ اسکاٹ لینڈ میں بھی دیکھا ہے لیکن ویٹرس کا کہنا تھا کہ اتنا روشن نظارہ اور کہیں نہیں ہوتا۔ روتھ نے بتایا کہ انھیں بس اتنا کرنا ہے کہ آج رات اس ہوٹل کی چھت پر پہنچ جانا ہے، جہاں ہوٹل کے مہمانوں کے لیے نشستیں رکھوائی گئی ہیں۔دانیال نے اس کے جاتے ہی آرورا بوریلس کے بارے میں پوچھ لیا۔ فیونا بتانے لگی کہ زمین پر شمال بعید کے علاقے میں جو نارتھ پول کہلاتا ہے، وہاں سورج سے برقی ذرات خارج ہو کر جمع ہو جاتے ہیں، جس سے روشنی کی رنگین پٹی بن جاتی ہے۔ یہ روشنیاں آرورا بوریلس یعنی انوارِ قطبی کہلاتی ہیں۔ اور اس کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آرورا قدیم روم کی ایک دیوی کا نام ہے جو فجر کی دیوی کہلاتی ہے۔
    (جاری ہے….)
  • انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانی)

    انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانی)

    ایک ندی تھی اور اس کے کنارے انار کا ایک درخت۔ درخت پر کچھ انار لگے ہوئے تھے اور ندی میں کچھ مچھلیاں بھی دُمیں ہلاتی رہتی تھیں۔

    زمین کے نیچے سے درخت کی جڑیں ندی میں پاؤں پھیلانے لگی تھیں۔ مچھلیوں نے کئی بار اناروں سے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں نہ پھیلائیے لیکن انہوں نے سنی ان سنی کر دی تھی۔ مچھلیوں نے طے کر لیا کہ درخت کی جڑیں چبا ڈالی جائیں۔ مچھلیوں نے جڑیں چبانا شروع کر دیا۔

    اناروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ اب کی بار مچھلیوں نے سنی ان سنی کر دی۔ اناروں نے سخت دھمکیاں دیں۔ مچھلیوں نے کہا: جو کرنا ہے، کر لیجیے۔ اناروں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا اور ان میں سے ایک انار نے خود کو ایک مچھلی پر گرا لیا۔ مچھلی کا سر پھٹ گیا۔ خون بہنے لگا۔ ساری ندی سرخ ہو گئی۔

    مچھلیوں نے انار کو پکڑ کے باندھ لیا۔ اناروں نے احتجاج کیا کہ تمہیں ہمارے ساتھی کو گرفتار کر لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آخر ہم ایک ملک میں رہتے ہیں، جس کا کوئی قانون ہے، قاضی ہے۔ ایک مچھلی نے کہا: تمہیں کس نے حق دیا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں پھیلاؤ؟ ایک انار کہنے لگا: پانی صرف تمہارا تھوڑی ہے؟ ہمارا بھی تو ہے۔ یہ ندی تمہاری پیدائش سے پہلے کی موجود ہے اور ہم بھی اسی وقت سے موجود ہیں۔ مچھلیاں کہتی رہیں کہ تم اناروں نے زیادتی کی ہے۔ تم نے ہماری ساتھی بے چاری کا سر پھوڑ دیا ہے۔

    بات کسی طرف نہ لگی اور ان میں تُو تکار بڑھ گئی۔ آخر کار قاضی کے پاس پیش ہونا طے پایا۔ سر پھٹی مچھلی اور ہاتھ بندھا انار قاضی کے ہاں جا پہنچے۔ قاضی کے پاس کئی اور مدعی اور ملزم بھی جمع تھے۔ انہیں دیکھتے ہی قاضی کی رال ٹپکنے لگی اور اس نے کہا: آئیے آئیے، کہیے کیا مسئلہ ہے؟ دونوں نے اسے ماجرا کہہ سنایا۔ قاضی نے کہا : آپ ذرا انتظار کر لیجیے، میں پہلے دوسروں کے معاملے نمٹا لوں۔

    انار اور ننھی مچھلی ایک کونے میں کھڑے ہو کر لگے انتظار کرنے۔ قاضی کام ختم کر کے ان کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کے منہ ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ بہت دلاسا دیا اور پھر اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا: بیگم! توے پر خوب گھی ڈال کر چولھے پر چڑھا دو، دوپہر کو ہم مچھلی کھائیں گے۔ اور ہاں سنو! یہ انار بھی لے جاؤ، اس کا رس مچھلی پر چھڑکیں گے تو اور ہی مزہ آئے گا۔ انار اور مچھلی کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کھسر پھسر کی کہ دیکھو تو ہم کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے قاضی کی بیگم کی بہتیری منت سماجت کی کہ ہمیں ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں، ہمیں جانے دیجیے مگر بیگم نے کہا: فیصلہ تو قاضی ہی کا چلتا ہے۔ مجھے تو اس پر عمل کرنا ہے اور بس۔ یہ کہہ کر اس نے مچھلی کی کھال اتاری اور اسے توے پر چڑھا دیا۔ مچھلی بے چاری تڑپتی پھڑکتی رہی۔ پھر اس نے انار کو پکڑ کر اس کا رس نکالا اور تلی ہوئی مچھلی پر چھڑک دیا۔ قاضی اور اس کے بیوی بچوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔

    خبر اناروں اور مچھلیوں تک بھی پہنچ گئی۔ وہ دکھ اور درد میں ڈوب گئے اور انہوں نے دونوں کا سوگ منایا۔ سوگ کے دنوں ہی میں وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ قاضی اگر باہر کا ہوا تو ان کے لیے کبھی کچھ نہیں کرے گا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے معاہدہ کر لیا کہ ایک دوسرے کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کیا کریں گے۔

    (کتاب سفید پرندہ سے منتخب کردہ کہانی)

  • ایک سو تئیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تئیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’میرے خیال میں آپ اور فیونا اب سو جاؤ۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’کل کا دن بہت مصروف گزرے گا۔ فیونا اگلا قیمتی پتھر حاصل کرنے جائے گی، آپ کام پر جائیں گی اور میں ایک بار پھر قلعہ آذر جاؤں گا، مجھے کچھ تلاش کرنا ہے۔ وہاں چند ایسی جگہیں ہیں جو کوئی اور نہیں جانتا۔ ہو سکتا ہے میں وہاں کوئی ایسی چیز پا لوں جو ہماری معاون ثابت ہو، مثلاً کوئی ہتھیار۔‘‘
    ’’یہ اکیسویں صدی ہے جونی۔‘‘ مائری بولیں: ’’ہم ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے نہیں لڑ سکتے۔ ویسے بھی ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔‘‘
    جونی جلدی سے بولا: ’’ہتھیار سے مراد یہ نہیں تھا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہاں کوئی اور کتاب مل جائے جس میں جادو منتر ہوں۔ یا ایسی معلومات ہوں جو پہلان اور ڈریٹن اسٹیلے کے مقابلے میں کارآمد ثابت ہوں۔‘‘
    ’’اوہ پھر ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا: ’’ویسے میں اس بات سے مطمئن نہیں ہوں کہ فیونا، جبران اور دانیال دور دراز کے ملکوں میں جا کر بلاؤں اور جنگلی جانوروں کے ساتھ لڑیں۔‘‘
    فیونا، جو سیڑھیاں چڑھ کر اوپر سونے جا رہی تھی، یہ سن کر رک گئی اور مڑ کر بولی: ’’مجھے نہیں ہوگا ممی، میں ایسا کر تو چکی ہوں، جبران اور دانی ہی میری مدد کر سکتے ہیں اور ہم مل کر تین مقامات پر جا چکے ہیں اور ہمیں کچھ نہیں ہوا، ہم ٹھیک ٹھاک ہیں!‘‘
    یہ کہہ کر وہ اوپر چلی گئی تو مائری پریشانی کے عالم میں بڑبڑانے لگیں: ’’وہ آکٹوپس کی خوراک بنتے بنتے بچی، ٹرالز اسے زندہ بھوننے والے تھے، بچھو اسے کاٹنے دوڑے تھے اور یہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں پریشان نہ ہوں، اس کی فکر نہ کروں، یہ کیسے ہو سکتا ہے، میں اپنے دل کو کیسے سمجھاؤں!‘‘ جونی نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی: ’’اب فیونا کے پاس ایک اور قوت آ گئی ہے، وہ روز بہ روز طاقت ور ہوتی جا رہی ہے، اور صرف یہی نہیں بلکہ مزید کچھ ایسی قوتیں بھی موجود ہیں جو شروع سے اس کی مدد کر رہی ہیں۔‘‘
    ’’کیا مطلب … کیسی قوتیں؟‘‘ مائری چونک اٹھیں۔ جونی نے جواب دیا: ’’میں اس کی وضاحت تو نہیں کر سکتا لیکن آئس لینڈ کو بہ طور مثال لیں، جب اسے شدید ضرورت تھی تو پریوں نے اس کی مدد کی۔ جب کسی کو واقعی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو خیر کی قوتوں کو اس کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ اس کی مدد کے لیے پہنچ جاتی ہیں۔ میرے خیال میں آپ میری بات سمجھ رہی ہوں گی!‘‘
    ’’لیکن میں کیسے ان سب کو حقیقت سمجھوں۔‘‘ مائری کی پریشانی کم نہ ہو سکی: ’’ایک ہفتہ قبل فیونا کے ساتھ یہ مسئلہ تھا کہ وہ شدید بور ہو رہی تھی اور اب وہ پریوں، بھتنوں اور شیطان جادوگروں سے مل رہی ہے، یہ سب ایک سپنے جیسا ہے!‘‘

    ’’میں جانتا ہوں۔‘‘ جونی نے آخر میں بڑی دلیل دے دی: ’’لیکن میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں تو حقیقت میں ہوں نا!‘‘

    (جاری ہے…)