Tag: اردو تراجم
-
ایک سو انیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
ڈریٹن کو اپنے پیچھے آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ وہ تیزی کے ساتھ اندھیرے اور ہوا دار سرنگ میں دوڑتا جا رہا تھا۔ ٹارچ کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آخر کار وہ سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جب وہ سرنگ سے باہر نکلا تو اس نے خود کو صنوبر کے جھنڈ میں پایا۔ اس نے مڑ کر ٹارچ لوچ جھیل میں پھینک دیا۔ سرنگ کا دہانہ ایک ٹیلے سے نکلا ہوا تھا، اسے ٹیلے کے اوپر چڑھنے کا راستہ نظر آیا تو بغیر کوئی دوسری سوچ، وہ اوپر چڑھنے لگا۔ ٹیلے پر چڑھنا اتنا آسان بھی نہ تھا، اسے درختوں کی جڑیں اور پتھر تھامنے پڑ رہے تھے، اور وہ ہر دو قدم بعد واپس نیچے کی طرف پھسل پڑتا تھا۔ سرنگ کے دہانے کے عین اوپر پہنچ کر اس نے کئی بڑے پتھر اٹھا کر دیکھے اور بڑبڑایا۔ ’’ہونہہ… یہ یقیناً ٹھیک رہیں گے، ان میں سے کئی ایک کے سر تو آسانی سے پھاڑ سکوں گا۔‘‘
صورت حال ایسی تھی کہ ان میں سے جو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، اوپر سے ایک پتھر آ جاتا۔ ایسے میں جونی کو ایک خیال سوجھا۔ ’’اس طرح تو ہم باہر نہیں نکل سکیں گے، اس لیے میں اور جمی واپس قلعے جاتے ہیں، اس وقت تک تم میں سے کوئی نہ کوئی کچھ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اسے مصروف رکھے، ہم پیچھے سے آ کر اسے بے خبری میں پکڑ لیں گے۔‘‘
-
ایک سو پندرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
جونی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دوگان نے ایسا ہی کیا تھا، اور جو بات کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ ہے کہ شہزادی آنا بھی ماں بننے والی تھی۔ ان کا بچہ جاربی دوگان کا بیٹا تھا لیکن آنا نے یہ بات دنیا سے چھپائے رکھی۔ شہزادیاں والدین کے مرنے کے کئی سال بعد قلعہ آذر آئیں، اور یہیں رہنے لگیں۔ یہیں پر انھوں نے شادیاں کیں۔ جاربی کو ایک مقامی دیہاتی نے پالا تھا۔
’’مائری، آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ جیک نے ان کی طرف مڑ کر کہا: ’’آپ کا ورثہ بلاشبہ قابل فخر ہے، کم از کم آدھا تو ضرور ہے۔ شہزادی آنا ایک بہت ہی خوب صورت خاتون تھیں۔ دوگان کے ظلم سے نجات پا کر انھوں نے خوش گوار زندگی گزاری تھی۔‘‘سب سے تعارف کے بعد مائری نے ایک طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’ہزاروں سال قدیم انسانوں سے مل کر مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔ پتا نہیں آج کی رات اور کتنے عجائب دیکھنے کو ملیں گے۔ پتا نہیں کیوں میں اچانک سنسنی سی محسوس کرنے لگی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی شیطانی مخلوق ہو!‘‘
’’مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ جمی بولا: ’’لیکن یہ یہاں کی ہوا کی وجہ سے ہے۔‘‘
مائری نے اپنے بازؤں پر مساج کیا اور دیواروں پر نظریں دوڑانے لگیں۔ ایسے میں انھیں شیشے کی منقش کھڑکی نظر آ گئی۔ ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے حال ہی میں صاف کی گئی ہو۔‘‘
فیونا جلدی سے بولی: ’’ممی، یہ دانی نے صاف کی ہے، یاد رہے کہ ہم یہاں پہلے بھی آ چکے ہیں۔ یہ میز دیکھیں ممی، یہ بہت خاص میز ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں بعد میں بتاؤں گی، ویسے یہ بہت پرانی ہے، حتیٰ کہ کنگ کیگان کے وقتوں سے بھی پہلے کی ہے۔‘‘
جیک، جیزے اور جمی میز کے پاس آ کر بہ غور دیکھنے لگے۔ میز پہچان کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان سے زیادہ اس میز کی اہمیت اور خاصیت سے بھلا کون واقف تھا۔
عین اسی وقت سیڑھیوں پر دھواں سا پھیل گیا جو اُن کی طرف بڑھنے لگا تھا اور پھر چھت کی طرف اٹھ گیا۔ پھر وہ ایک دیوار کے پیچھے چھپ گیا، اُن میں سے کسی نے بھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کی تھی۔ اگلے لمحے پہلان نے پہچان لیا کہ کمرے میں دراصل تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور اور کیگان کے تین آدمی ہیں۔ یہ جان کر وہ تیزی سے مڑا اور سیڑھیاں اترتے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ ڈریٹن کے پاس جانے لگا لیکن وہ اسے سیڑھیوں ہی پر مل گیا۔ ڈریٹن کے گرد دھوئیں کی طرح پھیل کر اس نے تیز لہجے میں کہا: ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو، میں نے تمھیں بڑے غار ہی میں رہنے کے لیے کہا تھا۔ وہ سب قلعے میں آ چکے ہیں!‘‘
ڈریٹن ٹارچ تھامے تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ ’’میری سانسیں پھولنے لگی ہیں، یہاں تو ہزاروں سیڑھیاں ہیں، اور کتنا نیچے ہے یہ غار!‘‘ ’’ہونہہ… چند ہی قدم اٹھا کر تھک گئے ہو لڑکے۔‘‘ پہلان نے طنز کیا۔ ’’جلدی کرو، کیا تم مزید تیز نہیں چل سکتے۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا، کیوں کہ وہ بار بار پیچھے مڑ کر ڈریٹن کا انتظار کرنے لگتا تھا۔
ڈریٹن نے ٹارچ اپنے سامنے رکھا تھا تاکہ کوئی مخلوق سامنے آئے تو اس سے نمٹ سکے۔ اچانک کوئی چیز اوپر سے آئی اور اس کے ہاتھ سے ٹکرا گئی۔ اس کی توجہ اس طرف ہو گئی اور وہ اپنے راستے میں آئے ہوئے لکڑی کے پرانے اور ٹوٹے کریٹ کو نہیں دیکھ سکا۔ غلط قدم پڑتے ہی اس نے ایک جھٹکا کھایا، توازن بگڑا اور اگلے لمحے وہ سیڑھیوں پر گلاٹیاں کھاتا ہوا نیچے گرنے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو روکا۔ لیکن اس کے گرنے اور کریٹ کی آواز سے قلعے میں دور تک بازگشت پھیل گئی تھی!
(جاری ہے…)
-
چیہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
منگل کی صبح گیل ٹے کے لوگوں نے سورج کی روشنی کو، اور بادلوں سے بالکل صاف آسمان دیکھا تو ایک دوسرے سے خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ شاہانہ نے بلال کو مخاطب کیا: ’’میں آج مائری اور اس کی بیٹی کے لیے ایک ٹی پارٹی دینا چاہتی ہوں، گھر میں توڑ پھوڑ کی وجہ سے وہ بہت رنجیدہ ہے، کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
’’بڑا نیک خیال ہے۔‘‘ بلال نے خوش دلی سے جواب دیا: ’’جب آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو بھلا میں رنگ میں بھنگ کیسے ڈال سکتا ہوں۔ تو میرے لیے کیا حکم ہے، میں کہاں جاؤں؟‘‘
شاہانہ مسکرائیں: ’’آپ مچھلیوں کے شکار پر خوشی خوشی جا سکتے ہیں، ویسے بھی ہمیں ٹراؤٹ کھائے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔‘‘ ایک لمحہ ٹھہر کر انھوں نے پوچھا: ’’یہ جبران کہاں ہے؟‘‘بلال کچن ٹیبل کے سامنے بیٹھے کافی پیتے ہوئے بولے: ’’وہ تو ابھی سو رہا ہے۔ ارے ہاں، کیا وہ اسکول نہیں جائے گا؟‘‘
’’آج چھٹی کر لے گا تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی، ویسے بھی آج ہاف ڈے ہے۔‘‘ شاہانہ نے کہا۔ ’’میں بدھ کو اس کی ٹیچر سے بات کر لوں گی اور جو کام رہ گیا ہے اسے پورا کرنے میں اس کی مدد بھی کردوں گی۔ آپ جا کر اسے جگا دیں، میں چند دعوت نامے تیار کروں گی۔‘‘
ناشتہ کرنے کے بعد جبران دعوت نامے لے کر گھر سے نکل گیا۔ جانے سے پہلے شاہانہ نے اسے ایک بار پھر تاکید کی؛ ’’ایک مائری اور فیونا کو دینا، اور فلورا، ایلسے کی بی اینڈ بی جانا بھی مت بھولنا، ہاں نیلی کرافورڈ اور جینی مک ڈونلڈز کے گھر بھی جانا۔‘‘
جبران نے اس پر برا سا منھ بنا لیا تھا لیکن چار و ناچار اسے تمام دعوت نامے پہنچانے کے لیے جانا ہی پڑا۔ اس کے جاتے ہی شاہانہ نے پھر بلال کو مخاطب کیا: ’’سنیے جی، جبران آ جائے تو پھر آپ بھی جا سکتے ہیں، مجھے ابھی بہت سارے کام کرن ہیں، ذرا جانے سے پہلے گول میزیں تو نکال کر باغیچے میں رکھ دیں۔ ارے میں تو بھول گئی، باغیچے میں تو اتنی گندگی پڑی ہے، پلیز جاتے جاتے وہ بھی صاف کر دیں اور اسپرے بھی کر دیجیے۔‘‘ بلال خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہو گئیں تو بول اٹھے: ’’میں تھوڑی دیر اور رک جاتا ہوں، آپ یاد کرلیں شاید کوئی اور کام بھی یاد آ جائے۔‘‘
’’نہیں… نہیں…‘‘ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئیں، اور پھر ہنس پڑیں: ’’بے فکر رہیں، بس اتنا ہی کام ہے، اور کسی کام کے لیے نہیں بولوں گی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔ادھر جبران نے بی اینڈ بی کے دروازے پر دستک دی تو ذرا دیر بعد ایلسے نے دروازہ کھول دیا۔ ’’ہیلو جبران، سویرے سویرے یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘
جبران بولا: ’’امی نے مائری اور فیونا کے لیے دوپہر میں ایک ٹی پارٹی کا انتظام کیا ہے۔ کیا آپ نے کچھ سنا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘‘
اس وقت ڈریٹن اٹھ کر باتھ روم جا رہا تھا کہ اس کو ایلسے اور جبران کی گفتگو سنائی دی۔ وہ سیڑھیوں پر ٹھہر کر ان کی باتیں سننے لگا۔
’’ایلسے چونک کر بولی: ’’کیا ہوا ان کے ساتھ؟ وہ خیریت سے تو ہیں؟‘‘
جبران نے جواب دیا: ’’ہاں لیکن کوئی ان کے گھر میں گھس گیا تھا اور شدید توڑ پھوڑ کی وہاں۔ اس نے کھانے کی ساری چیزیں دیواروں پر پھینک ماری تھیں۔ اسے صاف کرتے ہوئے پوری رات گزر گئی۔ مائری بہت رنجیدہ ہیں، اس لیے امی انھیں ٹی پارٹی دے رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ بھی آ سکیں گی۔‘‘
جبران دعوت نامہ دے کر واپس چلا گیا۔ ایلسے نے دعوت نامہ رکھا اور مہمانوں کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ ڈریٹن دبے قدموں نیچے آیا اور دعوت نامہ کھول کر دیکھا، پھر بڑبڑایا: ’’تو مائری اور اس کی چہیتی دوپہر کو جا رہی ہیں، یہی وقت ہے کہ میں اس کے گھر دوبارہ جاؤں اور اسے یاد دلاؤں کہ ابھی میں یہیں پر ہوں۔‘‘
اس نے دعوت نامہ رکھا اور اوپر جا کر نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر لیے۔
(جاری ہے)
-
بہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
جمی نے کہا: ’’وہ اس قابل ہو جائے گا کہ جادوگر پہلان کو آزاد کر سکے، جو ایک شیطان ہے۔ وہ اس وقت موت کی قید میں ہے، اور وہ صرف اپنی روح کے ذریعے اُس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ گولا حاصل کرنے کے بعد وہ مل کر خوف و دہشت اور خون خرابے کے ساتھ دنیا پر حکومت کرنے لگیں گے۔ کوئی بھی ان کو روک نہیں پائے گا۔ پہلان اسے تمام شیطانی کام کرنے پر اکسائے گا، حتیٰ کہ قتل کرنے پر بھی آمادہ کرے گا۔ اس طرح وہ روح کی قید سے آزاد ہو کر جسمانی صورت میں پھر نمودار ہو جائے گا اور اس کے پاس اپنی ساری طاقتیں واپس آ جائیں گی۔ وہ بات جو اس نوجوان کو معلوم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پہلان کی خواہش کے مطابق کام ہو جائے گا تو وہ اس نوجوان کو مار دے گا کیوں کہ وہ اس کے کسی کام کا نہیں ہے۔‘‘
یہ سن کر اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں یہ ٹھیک رہے گا کہ آپ یا آپ کا بھائی جیزے یہاں رہے۔‘‘ اینگس کہتے کہتے مسکرائے۔ ’’ٹھیک ہے اس کا نام پونڈ ہے لیکن میں اسے جیزے ہی کہوں گا۔‘‘
جمی نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس طرح بات دوسروں پر نہیں کھلے گی، کیوں کہ رازداری ضروری ہے، ورنہ یہ معلومات غلط لوگوں کے ہاتھ لگی تو ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ جیزے پہنچ گیا، اس نے آتے ہی کہا: ’’بچّے بہ حفاظت گھر پہنچ گئے۔ آلرائے مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے اسے فیونا کی ماں کے گھر رہنے کی ضرورت سے آگاہ کیا، کیوں کہ یہاں اب سبھی متعلقہ لوگوں خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔‘‘
جمی نے کہا: ’’ہم یہ بات جانتے ہیں کہ فیونا اپنی ماں کی طرف سے اصل وارث ہے لیکن یہاں جو شخص جھانک رہا تھا وہ بھی معمولی نہیں ہے۔ اس کی رگوں میں بھی کیگان اور دوگان کا خون دوڑ رہا ہے۔‘‘
اچانک اینگس نے پوچھا کہ جمی فیونا اور مائری سے متعلق کیا جانتا ہے۔ جمی نے کہا: ’’جب دوگان نے شہزادی آنا اور ازابیلا کو اغوا کیا تو اس نے دونوں سے زبردستی شادی رچائی۔ ازابیلا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام ہیگر رکھا گیا۔ دوگان نے بچہ اس سے لے لیا اور پھر دونوں شہزادیوں کو در بہ در ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے ہیگر اپنے باپ کی طرح ظالم اور بد کردار نکلا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نسل کا ہر وارث ایسا ہی ظالم اور بد کردار تھا۔ اگرچہ شہزادی ازابیلا نے انتقام کی قسم کھا لی تھی لیکن وہ کبھی انتقام نہ لے سکی۔ ہیگر نے اس بات کو یقینی بنا لیا تھا کہ اس کی ماں کسی بھی صورت سلطنتِ زناد میں قدم ہی نہ رکھ سکے۔ لیکن دوگان کو ایک بات کا علم نہیں تھا، وہ یہ کہ شہزادی آنا بھی اس کے ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔ جب دونوں شہزادیوں کو زناد سے نکالا گیا تو دوران سفر وہ بھی بیٹے کی ماں بنی۔ جب وہ قلعہ آذر پہنچیں تو اس وقت بچے کی عمر دو سال تھی۔ دونوں شہزادیوں نے دو مقامی بھائیوں کے ساتھ شادی کر لی۔ انھوں نے اپنے اس بچے کی حقیقت کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ آنا کا شوہر رابرٹ فرگوسن ایک بہت اچھا انسان تھا، اس نے آنا کے بچے کو اپنے بیٹے کی طرح پالا، اور بچّے کا نام انھوں نے جوربی رکھ لیا۔ اس کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا اصل باپ کون تھا۔ چناں چہ اس ساری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ مائری اور فیونا بھی دونوں بادشاہوں کیگان اور دوگان کی مشترکہ وارث ہیں۔ انھیں خود اس رشتے کا علم نہیں ہے اور بہتر بھی یہی ہوگا کہ انھیں اس حقیقت کا پتا نہ چلے۔‘‘
’’تو شہزادی ازابیلا نے کس سے شادی کی؟‘‘ اینگس نے اگلا سوال کیا۔
(جاری ہے)
-
میں تو اُسی دن قتل ہوگیا تھا!
دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت میں ہمیں نصیحت آمیز قصّے اور دل چسپ داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہماری دنیا کی ہر زبان کا ادب ایسی کہاوتوں اور حکایات سے مالا مال ہے جو دانایانِ رفتہ کے علم، ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہیں اور ہمارے لیے سبق آموز۔
عربی کی ایک مشہور کہاوت ہے ”میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا۔“ اسی ضربُ المثل سے جڑی ایک دل چسپ حکایت بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔
کہتے ہیں کسی جنگل میں دو بیل رہتے تھے، ایک لال اور ایک سفید۔ ان کی آپس میں گہری دوستی تھی، ایک ساتھ چرنے کے لیے جانا اور گھومنا پھرنا۔ ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا۔ اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور ہر بار اس نے گرتے پڑتے ہی بھاگ نکلنے میں عافیت جانی۔
ایک دن شیر نے ایک چال چلی۔ اس نے لال بیل کو چکنی چپڑی باتیں کر کے بہلایا اور اسے کچھ خواب دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا۔ شیر نے باتیں ہی ایسی کی تھیں کہ اسے اپنے ساتھی سفید بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر سے راہ و رسم بڑھانا زیادہ ’محفوظ‘ نظر آ رہا تھا۔ لال بیل کے اپنے ساتھی سے دوری اختیار کر لینے سے سفید بیل شیر کے مقابلے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد شیر نے سفید بیل کے شکار کا پروگرام بنایا اور ایک روز موقع ملتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔
اس سے پہلے جب شیر ان میں سے کسی ایک کو بھی گھیرتا تھا تو دوسرا اس کی مدد کو آجاتا تھا اور وہ مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے، مگر اس بار اکیلے بیل کے لیے شیر کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا… سفید بیل نے اپنے ساتھی لال بیل کو بہت پکارا، بہت آوازیں دیں، پرانی دوستی کے واسطے دیے اور بیل ہونے کے ناتے ’بھائی چارے‘ کا احساس دلایا، مگر شیر کی دوستی کے نشے میں ڈوبے لال بیل پر اس کی پکار کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اپنی برادری کے ایک فرد کو درندے کا شکار بنتا دیکھتا رہا۔ وہ بہت مطمئن تھا کہ سفید بیل کے ساتھ نہ تھا ورنہ آج شیر کے حملے میں اس کام بھی تمام ہو جاتا۔ شیر نے پے در پے حملے کرکے سفید بیل کو شدید زخمی کردیا اور وہ اس کے آگے ڈھسل گیا۔ شیر نے مزے سے اس کا گوشت کھایا اور اگلے دن کے لیے بھی کچھ بچا کر رکھ لیا۔ وہ اپنے باقی ماندہ شکار کو کھینچتا اپنے ٹھکانے پر لے گیا تھا۔
تھوڑے دن گزرے تھے کہ شیر نے لال بیل کو بھی ہڑپ کرنے کا سوچا۔ جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل کی آنکھوں میں ملال کی سرخی دوڑ گئی اور اب وہ شیر کا ساتھ دینے پر پچھتا رہا تھا۔ اس نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باسیوں کو پیغام دیا کہ… ”میں تو اسی دن ہی قتل ہو گیا تھا، جس دن سفید بیل قتل ہوا…!“
-
چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
میگنس نے خاکی سوٹ پہن رکھا تھا، لیکن اب وہ گہرے نیلے میں بدل چکا تھا۔ ٹوپی ہلکے نیلے رنگ کی ہو گئی تھی اور یہی رنگ جوتوں کا تھا۔ اس کی آنکھیں قمقموں کی طرح چمک اٹھی تھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ تینوں جہاں کھڑے تھے، وہیں بت بن کر کھڑے رہ گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے سامنے ایک زندہ بھتنا کھڑا ہے۔ جبران کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’تت … تت … تم سچ مچ بھتنے ہو؟‘‘
فیونا بھی یہ دیکھ کر تھوڑی سی گھبرا گئی تھی: ’’تت … تم … تو بالکل نیلے گلیشیئر کی طرح چمک رہے ہو۔‘‘
بھتنا بولا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ نہیں آئے ہو، اور میں ہیمے میں ٹرالز کے بارے میں بھی جانتا ہوں، میں نے تم تینوں کی نگرانی کے لیے اپنی ننھی دوست انیکا کو بھیجا تھا۔‘‘
تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اوہ … تو وہ انیکا تھی، جس نے ہماری مدد کی تھی۔ وہ دھن بھی انیکا کی تھی اور پفن پرندوں کو بھی اس نے ہمارے ساتھ بھیجا۔‘‘
میگنس نے پراسرا مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی سے سر ہلا دیا۔ ’’واؤ … یہ سب کتنا شان دار لگ رہا ہے۔ میں یہاں آئس لینڈ میں کھڑا ایک بھتنے سے بات کر رہا ہوں۔ میں اس سے قبل کبھی کسی بھتنے سے نہیں ملا۔ دراصل مجھے ان کے وجود پر یقین ہی نہیں تھا۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا۔ اس کے بعد تینوں نے باری باری میگنس بھتنے سے مصافحہ کیا، فیونا نے کہا کہ چھوٹی سے روشنی پری کو ہماری مدد کرنے پر شکریہ کہہ دینا، اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔ میگنس نے کہا: ’’آئس لینڈ ایک جادوئی جگہ ہے۔ یہاں بھتنے، بونے، پریاں اور حتیٰ کہ ٹرالز بھی ہیں۔ اکثر ٹرالز اپنے آپ میں گم رہتے ہیں لیکن وہ والے دراصل شیطان کے زیر اثر تھے۔‘‘
ایسے میں جبران نے اس کے عجیب جوتوں پر ایک نظر ڈال کر پوچھا: ’’کیا میگنس آپ کا اصل نام ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ بھتنے نے جواب دیا کہ اس کا اصل نام تھوری ہیلا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہاں کے لوگ جان گئے کہ میں بھتنا ہوں تو مجھے کبھی بھی کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اسی لمحے ہلکی سی روشنی اس کے گرد جھلملانے لگی۔ وہ چونک کر بولا: ’’اوہ… انیکا… تم عین وقت پر آ گئی ہو، دیکھو تمھارے دوست رخصت ہو رہے ہیں یہاں سے۔‘‘
اگلے لمحے ان کے سامنے ایک ننھی سی ہلکی نیلی پری نمودار ہو گئی، ظاہر ہے کہ اس کے دو پر تھے اور اس کے بال سنہری تھے۔ دانیال بول اٹھا: ’’اس پری کی آنکھیں بھی تمھاری طرح نیلی ہیں۔‘‘
’’ہاں یہی تو ہماری پہچان ہے۔ ہم انسانوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، لیکن جو ہمارے بارے میں جانتے ہیں وہ ہمیں ان آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں۔‘‘ بھتنا مسکرا کر بولا۔
’’ہیلو انیکا …‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ انیکا فوراً بھتنے کے پیچھے چھپ گئی۔ میگنس بولا: ’’روشنی کی پریوں کو کبھی مت چھونا، ورنہ جل جاؤ گی، اچھا اب میں اپنے کام پر جاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر پہلے والے لباس میں آ گیا۔ تینوں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو گئے۔ میگنس نے جاتے جاتے ہانک لگائی: ’’مجھے مت بھولنا۔‘‘
وہ تینوں سڑک پر آ گئے، اور نیلی جھیل کے لیے بس پکڑ لی۔ جھیل کا پانی گہرا نیلا تھا، اوپر سے ٹھنڈا لگ رہا تھا لیکن حقیقت میں خاصا گرم تھا اور اس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کی حرارت ایک سو چار فارن ہائٹ تھی۔ دراصل اس میں ایک میل گہرائی میں بجلی پیدا کرنے والے پمپ لگے ہوئے تھے۔ وہ پمپ سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کر کے باقی پانی کو جھیل میں چھوڑ دیتے تھے۔ تینوں اس میں نہانے کے بعد پھر بس میں بیٹھ کر ٹاؤن پہنچ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر آئس لینڈ کی کرنسی تبدیل کروا لی اور پھر ان ہی پہاڑیوں کی طرف چل دیے جہاں وہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئے تھے۔ تینوں عین اسی مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ وہ خاموشی سے آئس لینڈ کو دیکھنے لگے۔
دانیال بولا: ’’مجھے آئس لینڈ بہت یاد آئے گا، خصوصاً پفن اور میگنس۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم آئس لینڈ کے ایک بھتنے کو جانتے ہیں۔‘‘
فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’کیا تم دونوں تیار ہو … ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔‘‘
اس کے ساتھ ہی وہ واپسی کا منتر پڑھنے لگی۔ ’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘ ان کی سماعتوں سے جبران کی آواز ٹکرائی: ’’الوداع اے آئس لینڈ۔‘‘
لیکن ابھی اس کے منھ سے پورا جملہ ادا نہیں ہو پایا تھا کہ انھوں ںے خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔
(جاری ہے)
-
پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
’’یہ تو بہ ظاہر پتھر دکھائی دے رہا ہے، چٹان حرکت نہیں کرتی، یہ کوئی زندہ مخلوق ہے۔‘‘ دانیال نے بیگ سے کیمرہ نکالتے ہوئے ایک نئی بات کہہ دی۔ ’’جب ہم لنچ کر رہے تھے تو میں نے دو آدمیوں کو ہولڈوفوک کے متعلق باتیں کرتے سنا تھا۔‘‘فیونا چونک اٹھی: ’’ہولڈوفوک؟ کیا میں پوچھنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ یہ کس قسم کی مخلوق ہے؟‘‘
’’ہولڈوفوک چٹانوں کے درمیان رہتی ہے اور چٹانوں کی طرح دکھائی دیتی ہے اور یہ لوگوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ دانیال نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور کیمرے کا فلیش دبا دیا۔ ’’آؤ، میں ذرا قریب سے اس کی تصویر کھینچ لوں۔‘‘
’’کیا یہ دن میں بھی نکل آتی ہے یا صرف رات کو نکلتی ہے؟‘‘ جبران کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔
’’دن ہو یا رات، اس کی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہاں انھیں براہ راست سورج کی روشنی پسند نہیں۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔
انھوں نے ’پتھر‘ کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ تو حرکت نہیں کر رہا، ہم خوامخواہ کچھ کا کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ یہاں کوئی ایسی ویسی مخلوق نہیں ہے۔ اور ٹرال کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ محض تصوراتی مخلوق ہے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھا۔
’’ہاں تم نے ٹھیک کہا، نہ ہونے کو تو ماربل عفریت بھی کوئی چیز نہیں جو سانپ کے سروں والی مخلوق ہے لیکن پھر بھی ہم نے دیکھ لی تھی۔‘‘ دانیال نے اس پر طنز کیا۔ ’’پتا ہے اس جزیرے پر تو بہت ساری پریاں، بالشتیے اور لمبے کانوں والی پری نما مخلوق بھی رہتی ہے۔‘‘
’’تو پھر ٹھیک ہے، آؤ انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے قائل ہو کر کہا اور کوٹ کی جیب سے کیمرا نکال لیا۔ اس دوران دانیال کئی تصاویر بنا چکا تھا۔ وہ تینوں دل ہی دل میں ڈر رہے تھے لیکن اس مخلوق کو قریب سے دیکھنا بھی چاہتے تھے۔
’’اوہو، تم بھی کیمرہ لائی ہو۔‘‘ جبران چہکا۔ عین اسی وقت ان کے سامنے کوئی چیز چمکی، جیسے اچانک کوئی شعلہ بھڑکا ہو۔ ’’ارے یہ کیا تھا … کیا یہ ٹرال مخلوق تھی؟‘‘ جبران اچھل پڑا۔
’’میں جانتا ہوں یہ کیا ہے۔‘‘ دانیال پرجوش ہو کر بولا اور تیزی سے روشنی کی طرف بڑھا۔ ’’یہ روشنی پری ہے۔ یہ دراصل ٹرال ہی کے متعلق باتیں کر رہی تھی۔ یہ پریاں بالکل پیٹر پان کی ٹِنکر بیل جیسی ہوتی ہیں۔ جب یہ اڑتی ہیں تو اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑ جاتی ہیں۔ اور پتا ہے یہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں۔ اگر ایک بوتل مل جائے تو میں کسی ایک کو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھر بھی لے کر جاؤں۔‘‘
’’پتا نہیں، ہم کیسی عجیب و غریب جگہ پر آ گئے ہیں، ہمیں آگے کیا کچھ دیکھنے کو مل جائے، میں تو واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران اچانک خوف زدہ ہونے لگا تھا۔ فیونا نے اسے تسلی دی: ’’کچھ نہیں ہوگا، ڈرو مت، ہم تقریباً پہنچ ہی گئے ہیں، بس ذرا ہی آگے لاوا غار ہے، اور احتیاط سے چلو سب، یہ زمین نوک دار ہے۔‘‘
فیونا نے چلتے چلتے مڑ کر دانیال کی طرف دیکھا اور پکارا: ’’واپس آ جاؤ، چھوڑیوں پریوں کو… آہ… میرے ٹخنے پر چوٹ لگ گئی!‘‘(جاری ہے)
-
اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
’’لو یہ تو بڑی جلدی مل گیا۔ یاد ہے نا ہم نے کس طرح کرنسی حاصل کی تھی۔ اب پھر ہمیں وہی دکھ بھری کہانی سنانی ہے۔ تو سب سے پہلے میں کوشش کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے مسکرا کر یاد دلایا اور بینک کے اندر چلی گئی۔ پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آئس لینڈ کے کرنسی نوٹ تھے۔ وہ آتے ہی چہک کر بولی: ’’میں بہت شان دار اداکاری کرنے لگی ہوں۔ اچھا تم دونوں یہ رقم رکھ لو، جب ہم واپس جائیں گے تو انکل اینگس کو بقایا رقم واپس کر دیں گے۔‘‘ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم دے دی۔
’’میری دعا ہے کہ کوئی ہم سے پاسپورٹ نہ طلب کر لے۔ ویسے اگر ہمارے پاس پاسپورٹ ہوتے تو ہم اس پر ان سارے مقامات کی مہر لگوا لیتے۔‘‘ دانیال نے کہا۔
فیونا نے آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا: ’’ایسا ظاہر کرو کہ تم یہیں رہتے ہو، ایسی حرکتیں نہ کرو کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر چہک کر بولی: ’’واہ یہ کتنا پیارا ہوٹل ہے۔‘‘
وہ تینوں وائی کنگ شپ نامی ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سامنے ہی قدیم بادبانی کشتی وائی کنگ کا ماڈل نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ ’’یہ کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ جبران دوڑ کر اس کے قریب چلا گیا۔ کشتی میں وائی کنگ جنگجوؤں کے مجسمے کھڑے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور بھاری ڈھالیں تھیں۔ وہ ایک بڑے کمرے میں کھڑے تھے، جس کی چھت کے قریب دیواروں پر چوبی ڈریگن یا سمندری عفریت چاروں طرف چکّر کاٹ رہا تھا۔ اس کے منھ سے شعلے نکلتے اور ہر چند فٹ کے بعد اس کی پشت میں ایک کوہان نما اٹھ کر چھت سے ٹکراتا۔ وائی کنگ جنگجو نہ صرف کشتی میں کھڑے تھے بلکہ پورے دالان میں چند قدم کے فاصلے پر ایستادہ تھے۔ ہوٹل کے کمرے کے وسط میں شیشے کے صندوق میں وائی کنگ ٹوپیاں، سکے، کھلونے، پیالے اور دوسری نوادرات رکھی ہوئی تھیں۔ فیونا نے سرگوشی کی: ’’تم دونوں یہ نوادرات دیکھو، میں اندر جا کر کوئی کمرہ کرائے پر لیتی ہوں۔‘‘
’’ذرا ٹھہرو فیونا، اگر انھوں نے تم سے پاسپورٹ کے متعلق پوچھا تو؟ ‘‘ جبران نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ارے تم پریشان کیوں ہو گئے ہو، گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ فیونا نے جواب دیا اور بغیر اس کی بات سنے چلی گئی۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کی انگلی سے ایک چابی لٹک رہی تھی۔ اس نے چالاکی سے ہنستے ہوئے کہا: ’’انھوں نے مجھ سے پاسپورٹ مانگا لیکن میں نے کہہ دیا کہ میرے والدین بعد میں آئیں گے اس لیے انھوں نے مجھے کمرہ لینے کے لیے بھجوا دیا۔ اور یہ سن کر اس نے میری بات پر یقین کر لیا۔‘‘
’’تم تو بہت زبردست جا رہی ہو فیونا، تمھارا جواب نہیں۔‘‘ جبران خوش ہو کر بولا۔ اپنی تعریف سن کر فیونا کا سینہ فخر سے پھول گیا۔
’’ہمارے کمرے کا نمبر کیا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔ ’’سیکنڈ فلور، روم نمبر 217.‘‘ فیونا نے بتایا۔
وہ تینوں اپنے کمرے میں آ گئے۔ یہ اتنا اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا، جس میں تین عدد بستر بچھے تھے۔ تینوں ایک ایک بستر پر بیٹھ کر سستانے لگے۔ فیونا فوراً لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا سا ہوا اور وہ ایک منظر دیکھنے لگی۔ یہ ایک آتش فشاں پہاڑ کا منظر تھا جو ایک زبردست دھماکے سے پھٹا اور وہ آگ اور لاوا اگلنے لگا۔
وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی، دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔ فیونا نے کہا میں جان گئی ہوں کہ مرجان کہاں ملے گا ہمیں۔ وہ دونوں اس کے پاس آ گئے۔ فیونا نے کہا سب سے پہلے ہمیں یہاں کسی سے قریبی آتش فشاں کے بارے میں معلوم کرنا ہوگا، ہمیں وہیں جانا ہے۔
’’کیا… آتش فشاں … ‘‘ دونوں چونک اٹھے۔
’’ہاں، چلو ہوٹل کے دالان میں کسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں کمرے سے نکلنے لگے تو جبران نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ ’’ارے یہ دیکھو، یہ کتنا خوب صورت باتھ ٹب ہے۔‘‘
فیونا اور دانیال نے بھی اندر جا کر دیکھا، تمام ٹائلوں پر وائی کنگ کشتی کی تصویر منقش تھی۔ ہر ٹائل پر کشتی کو مختلف رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ ٹاؤل ریک پر تین تولیے لٹک رہے تھے، یہ بھی مختلف رنگوں کے تھے اور ان پر بھی وائی کنگ جنگ کے مختلف مناظر کی چھپائی کی گئی تھی۔ باتھ ٹب عین وسط میں تھا اور اس پر اسکینڈے نیویا کے غار کی دیواروں والی لکیریں اور علامات بنائی گئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر جبران کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’یہ تو رونک حروف تہجی ہیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ فیونا حیران ہو گئی: ’’رونک حروف تہجی کیا ہیں؟‘‘
’’دراصل وائی کنگ لوگ اسی طرز تحریر میں لکھتے تھے۔ حیرت ہے تمھیں نہیں پتا، اسکول میں یہ ہمیں پڑھایا تو گیا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔
’’ہاں ٹھیک ہے پڑھایا ہوگا۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سبز رنگ کا تولیہ کھینچ کر بولی: ’’مجھے تو یہ والا پسند ہے، اس لیے یہ میری ہو گئی۔‘‘
جبران نے جلدی سے خاکی رنگ کا تولیہ اتار لیا۔ آخری تولیہ بھورے رنگ کا تھا جو دانیال کے حصے میں آیا۔ دانیال نے تولیہ چہرے پر مل کر دیکھا اور کہا یہ تو بہت نرم ہے۔
(جاری ہے)
-
تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
اتوار کی صبح فیونا اور اس کی ممی نے باغیچے میں گزاری۔ انھوں نے زمین کھود کر گاجر، آلو اور شلجم نکالے اور مٹر کی بیلوں سے پھلیاں اتاریں۔
’’سبزیوں سے فارغ ہو کر، میں چاہتی ہوں، کہ تم سیب اتارنے میں بھی میری مدد کرو۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ ایپل پائی بنا لوں۔‘‘ مائری مٹر کی پھلیاں ٹوکری میں ڈالتے ہوئے بولیں۔
’’ٹھیک ہے ممی لیکن کچھ دیر کے لیے میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں، واپسی پر آپ کا ہاتھ بٹاؤں گی۔‘‘
’’کب جا رہی ہو تم؟‘‘ انھوں نے پوچھا تو فیونا نے ہاتھوں سے کیچڑ کی تہہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ’’بس ابھی۔‘‘
فیونا دوڑ کر اندر گئی اور شاور لینے کے بعد اتوار کے دن کے لیے اپنا پسندیدہ لباس پہنا اور ممی کو خدا حافظ کہہ کر جبران کے گھر کی طرف چل دی۔ فیونا جیسے ہی جبران کے گھر پہنچی، عین اسی وقت وہ اپنی مما اور بہن بھائی کے ہمراہ گھر سے نکلا۔ وہ تفریح کے لیے جا رہے تھے۔
’’ہیلو فیونا، کیسی ہو تم؟ ہم گھومنے جا رہے ہیں، تم بھی چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ جبران اسے دیکھتے ہی بول اٹھا۔
’’نہیں، مجھے گھر پہنچنا ہے۔ دوپہر کو ہمارے گھر مہمان آ رہے ہیں۔ تم دونوں کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں آنا مت بھولنا۔‘‘ فیونا نے کہا اور واپس گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ گھر پہنچی تو وہاں جمی اور جونی پہلے ہی سے موجود تھے۔ جونی اسے دیکھ کر بولا: ’’ہیلو فیونا، ہم جلدی آ گئے ہیں، امید ہے تمھیں برا نہیں لگے گا۔ تمھاری ممی ہمارا بہت خیال رکھ رہی ہیں۔‘‘
’’میں ابھی آئی۔‘‘ فیونا نے کہا اور اوپر چلی گئی، اور ایک بار پھر لباس تبدیل کر کے آ گئی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ان کے مہمان بہت ساری روز مرّہ چیزوں سے واقف نہیں ہیں، اس لیے اس نے جونی کے بھائی کو مخاطب کیا۔
’’جمی انکل، کیا آپ میرے ساتھ آ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘
’’فیونا، یہ بری بات ہے۔‘‘ مائری نے اسے فوراً ٹوک دیا۔ ’’صرف جمی ہی کیوں، تمھیں دونوں بھائیوں کو چھتے دکھانے چاہیئں۔‘‘
’’دراصل میں زندگی میں بہت سے شہد کے چھتے دیکھ چکا ہوں۔ میرے بھائی نے نہیں دیکھے۔ اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ جونی نے مسکرا کر جواب دیا۔
فیونا جمی کو لے کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دکھانے چلی گئی۔ ان کے جاتے ہی جونی نے مائری سے پوچھا: ’’تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ اینور ڈروچٹ کی ہیں، مجھے ذرا اس جگہ کے بارے میں بتائیں کہ اب وہ کیسے لگتی ہے؟‘‘
مائری نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو انھیں جونی کی آنکھوں میں یادوں کا بسیرا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں خلاؤں میں کہیں بھٹکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ’’میں جب سے یہاں آئی ہوں، کوئی دو ماہ ہو رہے ہیں، پھر واپس نہیں جا سکی۔ حالاں کہ فیونا کہتی رہتی ہے کہ وہیں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر شہر چلے جاتے ہیں لیکن میں یہاں گیل ٹے میں مطمئن ہو گئی ہوں۔ اینور ڈروچٹ آج بھی وہی چھوٹا سا گاؤں ہے، تقریباً پچاس گھروں پر مشتمل۔ وہاں ایک پوسٹ آفس اور ایک ہی دکان ہے۔ اکثر لوگ یہاں گیل ٹے میں آ کر خریداری کرتے یا سیر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کل وہاں کا ایک چکر لگا آئیں۔‘‘
’’اور قلعہ آذر!‘‘ جونی نے اچانک پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں کبھی گئی ہیں؟‘‘
’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ مائری نے جھرجھری سی لی۔ ’’پتا نہیں کیوں، مجھے وہاں سے خوف آتا ہے۔ اب میری بات پر ہنسیے گا مت۔ میرا مطلب ہے کہ ان دیواروں سے مجھے کسی دردناک سانحے کی لہریں نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘جونی محسوس کیا کہ ماحول پر اداسی چھا رہی ہے تو اس نے جلدی سے مسکرا کر پوچھا: ’’کیا آپ کو مچھلی کا شکار پسند ہے؟ مجھے تو بہت پسند ہے۔ بلال صاحب نے ہمیں مچھلی کے شکار کے لیے کئی جگہیں دکھائیں۔‘‘ لیکن مائری نے اس کی بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی اور پوچھا: ’’آپ کون ہیں جونی تھامسن؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ لندن سے سیاح کے طور پر آئے ہیں تو پھر اس جگہ، جھیل، گاؤں اور حتیٰ کہ قلعے کے متعلق کیسے جانتے ہیں؟‘‘
’’میں آپ سے سچ کہوں گا۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’میں یہاں پہلے بھی آیا ہوں، اور یہاں ایک گاؤں میں رہ چکا ہوں۔ جھیل میں مچھلیاں پکڑ چکا ہوں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ میری سب سے خوب صورت اور سب سے بری یادوں کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں میں پھر ماضی کی یادوں کی چمک جھلکنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر تک ماضی کی یادوں میں کھویا رہا، پھر مائری چائے اور بسکٹ کا انتظام کرنے لگیں۔ اتنے میں فیونا اور جمی بھی لوٹ آئے۔ وہ باغیچے میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے اور چائے کے ساتھ بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دھیرے دھیرے شام کے سائے پھیلنے لگے۔ جونی نے آسمان پر چمکتے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’صرف یہی چیز ہے جو یہاں ویسی کی ویسی ہی ہے، باقی سب کچھ بدل چکا ہے۔‘‘
جمی کو حیرت ہوئی۔ اسے پتا نہیں تھا کہ اس کا بھائی کیا کہنا چاہ رہا ہے تاہم مائری صرف مسکرا دی۔ جونی نے کہا: ’’اب ہمیں جانا چاہیے کیوں کہ بلال صاحب کل ہمیں شکار پر لے جائیں گے اور ہم سارا دن اس میں گزاریں گے۔‘‘ جمی نے بھی کہا کہ کل میں بلال صاحب کے ہمراہ ایک روایتی پارٹی میں جائے گا۔‘‘
وہ دونوں جبران کی گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے باغیچے سے اندر جاتے ہوئے کہا: ’’ممی، میں بھی کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں جاؤں گی۔ جبران اور دانی بھی وہاں آئیں گے۔ کھانا ہم وہیں پر کھائیں گے اس لیے دیر ہوگی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا اور روشنیاں بجھانے لگیں۔
(جاری ہے…..)