Tag: اردو تراجم

  • انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح جب آسمان پر بادل پھیلے ہوئے تھے اور درمیان میں کہیں کہیں سے سورج کی کرنیں گیل ٹے پر پڑ رہی تھیں، افق پر نقرئی شعلے بھڑک رہے تھے، ایسے میں ایڈن برگ سے نکلی ہوئی ریل گاڑی گیل ٹے کے اسٹیشن پر رک گئی۔ اس وقت جزائر آرکنے سے ایک رات کی مسافت طے کرنے والی بطخیں لوچ جھیل پر اتری تھیں۔

    ڈریٹن نے جب ریل گاڑی کی وسل سنی تو ایک کنڈکٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی رکنے والے ہیں۔ اس وقت اس نے بڑبڑا کر کہا تھا: ’’اف اتنا طویل اور بے زار کن سفر تو میں نے زندگی بھر نہیں کیا تھا۔‘‘

    کارن وال میں بورڈنگ کے بعد اسے لندن میں وکٹوریہ اور پھر ایڈن برگ ہی میں ویورلے اسٹیشن پر ایک ہی رات میں ریل گاڑیاں تبدیل کرنی پڑی تھیں۔ وہ سوٹ کیس اور بیگ اٹھا کر اپنے گلے میں نیکلس کی موجودی کو یقینی بناتے ہوئے ریل گاڑی سے اترا۔ اس نے خود کو ایک جوہڑ میں پایا جو رات کی تیز بارش سے بن گیا تھا۔

    وہ نفرت سے بڑبڑایا: ’’غلیظ جگہ اور یہ منحوس سردی!‘‘ اس نے جلدی سے کوٹ کے بٹن بند کر دیے اور بڑبڑانے لگا کہ یہ تو کارن وال سے بھی بدتر جگہ ہے۔ اس کے قریب ہی اسٹیشن کا کنڈکٹر گارڈن بروس ایک شخص سے کہہ رہا تھا: ’’یہ ہے آپ کی ٹرین، یہ کریان لارچ جا رہی ہے، آپ کب واپس آئیں گے اینگس؟‘‘

    ’’میں کل دوپہر تک لوٹوں گا۔ میرا یہ دورہ مختصر ہے۔ بس ضرورت کے مطابق ہی کچھ تجارت کروں گا۔‘‘ اینگس نے ریل گاڑی میں چڑھتے وقت کہا۔ ریل گاڑی چل پڑی۔ ڈریٹن اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس نے کنڈکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا، شاید وہ اس کے چہرے کے تاثرات کو سمجھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ ڈریٹن کا حلیہ بھی عجیب تھا، اس کے کانوں میں کئی سارے چھلے لٹک رہے تھے۔ ’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں جناب؟‘‘

    ڈریٹن نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس وقت اس کا دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا تھا۔ ’’میں ڈریٹن اسٹیلے ہوں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا: ’’دراصل میں ایک کتاب لکھنے یہاں آیا ہوں، اور کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں مجھے تنہائی اور سکون میسر آئے۔ میری بدقسمتی ہے کہ اینگس نکل گئے، ہم بہت پرانے دوست ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے اینگس کے بارے میں سراسر جھوٹ بولا تھا، اور اس چالاکی پر وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، اس نے پوچھا: ’’کیا اینگس اب بھی قصبے میں رہتا ہے؟‘‘

    کنڈکٹر نے جواب دیا: ’’وہ اسی گھر میں رہ رہا ہے جس میں اس نے اپنی زیادہ تر جوانی گزاری ہے۔‘‘

    ’’کیا اس نے شادی کی ہے؟‘‘ ڈریٹن نے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا اور چہرے پر مسکراہٹ طاری کر دی لیکن کنڈکٹر کے چہرے پر سنجیدگی اسی طرح طاری رہی۔ ’’نہیں، اینگس نے کبھی شادی نہیں۔ نہ مجھے اس سے کوئی توقع ہے۔ آپ کہاں ٹھہریں گے؟‘‘

    ’’مجھے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں میں ناشتہ بھی کر سکوں اور آرام کے لیے ایک بستر بھی مل سکے۔ کیا یہاں قریب میں کوئی بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہے؟‘‘

    ’’ابھی تو بہت سویرا ہے اور آج اتوار بھی ہے، لیکن اگر آپ مرکزی اسٹریٹ چلے جائیں تو آپ کو مک ڈوگل کا بیڈ اینڈ بریک فاسٹ دکھائی دے گا۔ دروازے پر دستک دے کر ایلسے سے کہنا کہ آپ کو کنڈکٹر گارڈن نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو جگہ دے دیں گی۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور چلا گیا۔

    ڈریٹن کو خدشہ تھا کہ کنڈکٹر اس کی موجودی کے بارے میں پتا کرنے بھی آسکتا ہے اس لیے وہ مک ڈوگل کے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہی آیا۔ اس نے اپنا سامان بستر پر رکھ دیا اور کمرے سے نکل کر ’’ڈونٹ ڈسٹرب‘‘ کی تختی دروازے پر لٹکا دی، اور پھر کچن کا رخ کر لیا۔ ایلسے نے ناک پر جمی عینک ذرا سی اوپر کی جانب کھسکا کر پوچھا: ’’کیا میں آپ کو ناشتے میں کچھ دوں؟‘‘

    ’’بہت اچھا خیال ہے، یعنی نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ ڈریٹن نے دانت نکال کر حتی الامکان اپنے لہجے کو خوش گوار بناتے ہوئے کہا۔ ایلسے نے کہا: ’’دیگر مہمان کھانے کے کمرے میں بیٹھے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر سستا لیں۔ میں جلد ہی آپ کے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں، ویسے آپ کیا پسند کریں گے، چائے، کافی یا مالٹے کا جوس؟‘‘

    اس نے اپنی شخصیت کا اچھا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو مالٹے کا جوس لے کر آئیں میرے لیے۔‘‘

    ’’بہت بہتر جناب اسٹیلے، آپ جا کر بیٹھ جائیں، میں بس آتی ہوں۔‘‘

    ڈریٹن کھانے کے کمرے میں داخل ہوا تو چونک اٹھا۔ وہاں سب ہی لوگ بوڑھے تھے اور ان کے ہمراہ ان کی بیویاں تھیں جن کے چہرے اسے رنجیدہ نظر آئے۔ اپنے درمیان ایک جوان کو دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور گیل ٹے کی روایت کے مطابق ایک ایک کر کے سب اسے خوش آمدید کہنے لگے۔ ڈریٹن چوں کہ اپنی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجبوراً سب سے ہاتھ ملایا، تاہم جیسے ہی وہ کسی سے ہاتھ ملاتا فوراً ہی ہٹا دیتا۔ ذرا دیر بعد اس کے سامنے میز پر بھاری ناشتہ سج چکا تھا۔ اس نے بھنا گوشت، ساسیج، انڈا آملیٹ اور گندم کے توس کھائے اور آخر میں ایک گلاس مالٹے کا جوش بھی نوش کیا۔ پیٹ بھرنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب اس کے پیٹ میں مزید گنجائش نہیں رہی تو اس نے ایلسے کو دیکھ کر کہا: ’’ذرا سنیے ایلسے! کیا میں آپ کو اس طرح پکار سکتا ہوں؟‘‘

    اس نے جواب میں خاموشی سے سر ہلا کر اجازت دی۔ ڈریٹن نے کہا: ’’دراصل میں اپنے پرانے دوست اینگس کے ہاں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ایلسے نے کہا: ’’کیا آپ اینگس مک ایلسٹر کی بات کر رہے ہیں، لیکن وہ تو آج صبح ہی کریان لارچ چلا گیا ہے، لیکن کل دوپہر تک آجائیں گے۔ کیا آپ یہاں رہیں گے یا نہیں؟‘‘

    ڈریٹن نے کہا: ’’جی ہاں، میں یہیں رہوں گا۔ ویسے اب اس کا گھر کہاں ہے، کیا اسی پرانے گھر میں ہے وہ؟‘‘

    ایلسے نے جواب دیا: ’’وہ اسی پرانے گھر ہی میں رہ رہے ہیں، جو اینسٹر اسٹریٹ کے آخر میں ہے، نمبر 23۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط یہاں پڑھی جاسکتی ہیں

    فیونا اور اس کی ممی چند گھنٹے بعد جبران کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ ’’کتنی عجیب بات ہے، ہمارے درمیان اس سے قبل ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ چند ہی دن میں ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آ گئے ہیں، کہ اب ان کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت پر جا رہے ہیں۔‘‘ مائری نے چلتے چلتے کہا۔

    ’’کیا اس میں ہماری دوستی کا کوئی کردار نہیں ہے؟‘‘ فیونا نے پوچھا۔

    ’’بہت اہم کردار ہے بیٹی۔ بچوں کی دوستی سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانوں میں پکی دوستی ہو جاتی ہے، اور بعض اوقات دوستی کا تعلق رشتہ داری میں بدل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اب تو مسٹر تھامسن بھی ہمارے درمیان آ گئے ہیں۔‘‘ فیونا نے کن اکھیوں سے اپنی ممی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔ ’’ممی، کیا یہ سب عجیب سا نہیں لگتا آپ کو؟ ابھی چند دن پہلے تک ہم کتنی بوریت محسوس کرتے تھے اور اب کتنے پرجوش ہو گئے ہیں۔ کیا ہماری زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے؟‘‘

    چلتے چلتے مائری ایک دم رک گئیں۔ انھوں نے گھوم کر فیونا کو حیرت اور خوشی سے دیکھا اور کہا: ’’مجھے حیرت ہے تم ایسی باتیں کر رہی ہو، کل تک تم یہاں سے بور ہو گئی تھی۔ خیر میں بتاؤں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ تمھیں اپنے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔‘‘

    کچھ دیر بعد وہ جبران کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے لیے دروازہ جبران ہی نے کھولا اور انھیں مہمان خانے لے گیا۔ وہاں تھامسن اور اس کا بھائی پہلے سے موجود تھے۔ دونوں ان کے استقبال کے لیے اٹھ گئے اور پھر چاروں صوفوں پر بیٹھ گئے۔

    ’’ہم دوسری مرتبہ مل رہے ہیں مائری مک ایلسٹر، یہ آپ کی بیٹی فیونا ہے نا؟‘‘ جونی تھامسن نے بیٹھتے ہی مسکرا کر کہا۔

    ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا تعلق اینور ڈروچٹ سے ہے، یہ ایک پیارا گاؤں ہے۔‘‘ تھامسن نے اپنے بھائی جمی کو کن اکھیوں سے دیکھا۔ مائری نے کہا: ’’میں نے بھی آپ کے بارے میں سنا ہے مسٹر تھامسن، یہ کہ آپ کا تعلق لندن سے ہے۔‘‘

    ’’پلیز آپ مجھے یہ مسٹر تھامسن بلانا چھوڑ دیں، میرا نام جون ہے لیکن آپ مجھے جونی پکار سکتی ہیں۔ یہ میرا بھائی جیمز ہے، اسے جمی کہلوانا پسند ہے۔‘‘ جونی تھامسن بولا۔ ’’ویسے ہم لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

    ایسے میں جبران کے پاپا بلال کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ وہ آتش دان کے قریب بیٹھے سگار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ’’لیکن آپ کا لہجہ تو لندن والوں جیسا ہرگز نہیں ہے، آپ کے لہجے سے لگتا ہے کہ آپ یورپی ہیں۔‘‘

    جمی نے کھانس کر تھوک نگلا۔ جونی نے جواب میں کہا: ’’دراصل ہماری ماں اسکاٹ لینڈ کی تھیں، اور باپ کا تعلق مشرق وسطیٰ سے تھا، ویسے ہم دونوں لندن ہی کے ہیں۔‘‘

    بلال نے مطمئن ہو کر اثبات میں سر ہلایا اور سگار کا دھواں اڑانے لگے۔ اسی وقت شاہانہ نے آ کر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب اٹھ کر بلال کی رہنمائی میں کھانے کے کمرے کی طرف چلے۔ سب ایک بڑی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے تو شاہانہ کھانے کے ساتھ آ گئیں۔ اگلے لمحے گلابی لکیروں والا میز پوش سلور کی پلیٹوں سے چھپ گیا۔ میز پر انواع و اقسام کے کھانے چُنے گئے۔

    ’’ارے اتنا سب کچھ، یہ تو کسی بادشاہ کی فوج کے لیے بھی کافی رہے گا۔‘‘ بلال کے چہرے پر واقعی حیرت تھی، کیوں کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لیے کیا انتظام کیا گیا ہے۔ عین اسی لمحے فیونا کی نظر جونی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ اپنے بھائی جمی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ دونوں بھائی کر کیا رہے ہیں، یہ تو واقعی عجیب طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یعنی جبران نے درست کہا تھا۔

    ’’دراصل آپ میز پر جو اتنے سارے کھانے دیکھ رہے ہیں ان میں اکثر مائری کے لائے ہوئے ہیں۔ وہ آج اپنے باغیچے سے تازہ سبزیاں لائی تھیں۔ مہمان خانے میں جس گل دان میں آپ رنگ رنگ کے پھول دیکھ کر آئے ہیں، وہ بھی مائری لائی ہیں۔ ایسے پھول آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔‘‘ شاہانہ نے راز سے پردہ اٹھایا۔

    کھانا کھانے کے بعد فیونا، جبران اور دانیال دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ فیونا بولی: ’’جبران تم نے نوٹ کیا کہ وہ دونوں بھائی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے رہے۔ جمی نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہو لیکن میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے۔‘‘

    ’’تو کیا یہ دونوں قاتل اور کسی جیل سے بھاگے قیدی ہیں، اور رات کو جب ہم سو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل کر دیں گے؟‘‘ جبران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے تیرنے لگے۔

    (جاری ہے…)

  • بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بائیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    جب دانیال اور جبران دوبارہ ساحل پر پہنچے تو گدھے کا مالک نکولس واقعی کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا، اور اس کے قریب ہی اس کا گدھا بندھا ہوا تھا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    "چلو، پہلے رسی اور کھانا خریدتے ہیں، پھر گدھے کا کچھ کرتے ہیں۔” جبران بولا۔

    دونوں رسی کی تلاش میں وہاں موجود دکانوں میں پھرنے لگے، آخر کار ایک دکان سے انھیں رسی مل ہی گئی۔ کھانا خریدنے کے لیے دونوں واپس اسی ریستوراں پر جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں تھے، اس لیے وہ ایک چھوٹی سی غلیظ قسم کی عمارت کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ ایک ہوٹل تھا۔ دیوار پر مینیو لٹکا ہوا تھا۔ دونوں اسے پڑھنے لگے۔ اسی وقت ایپرن پہنے ایک ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص ان کے قریب آیا، اس کا چہرہ تیل میں لتھڑا ہوا تھا۔ اس نے دونوں سے آرڈر پوچھا تو جبران نے اسے تین عدد پیٹا برگر کا آرڈر دے دیا۔

    "یہاں اتنی گندگی ہے، کہیں یہ کھاتے ہی ہمارے پیٹ خراب نہ ہو جائیں۔” دانیال کو تشویش ہونے لگی۔

    ہوٹل کے مالک نے تین بیضوی ڈبل روٹیاں چکنے گرل پر ڈال دیں، پھر کوئی سفید چیز گوشت پر ڈال کر اسے پیٹا میں رکھ دیا۔ اس کے بعد کاہو، ٹماٹر اور کھیرے کے ٹکڑے بھی بھر کر انھیں کاغذوں میں لپیٹ دیا۔ تیل اب بھی ان سے ٹپک رہا تھا۔ جبران نے پارسل سنبھال لیا اور دانیال نے قیمت ادا کر دی۔ ہوٹل سے پلٹنے کے بعد جبران کے کہنے پر وہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنا اپنا پیٹا کھانے لگے۔

    "یار یہ تو بڑے مزے کا ہے۔” جبران کو اس کا ذائقہ بھا گیا۔

    دانیال نے سر ہلانے پر اکتفا کیا کیوں کہ اس وقت اس کا منھ بھرا ہوا تھا۔ پیٹا کھانے کے بعد دانیال بولا: "اب گدھا لینے کی باری ہے، ویسے ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور فیونا ہمارے لیے پریشان ہوگی۔”

    دونوں تیزی سے اس طرف چل پڑے جہاں نکولس اب بھی چارپائی پر لیٹا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ جبران نے دانیال کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ "ہم خاموشی سے رسی کھول کر گدھے کو لے چلیں گے۔ پہاڑ پر چڑھانے کے بعد ہم خانقاہ تک اس پر اطمینان سے سواری بھی کر سکتے ہیں۔”

    دانیال نے اثبات میں سر ہلاکر کہا: "تم نکولس پر نظر رکھنا، میں گدھے کی رسی کھول لوں گا، یہ بوڑھا ہو چکا ہے اس لیے ہمارا تعاقب نہیں کر سکے گا۔”

    اگلے لمحے دانیال نے بڑے مزے کے ساتھ گدھے کی پیٹھ سہلائی اور پھر اس کی رسی کھول لی۔ گدھا بغیر کسی مزاحمت اس کے پیچھے چل پڑا۔ "ارے یہ تو بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چل پڑا ہے۔” جبران خوش ہو گیا۔ وہ گدھے کو پہاڑ کے پاس تو آسانی سے لے گئے لیکن جیسے سیڑھیوں کے پاس پہنچے، گدھے نے قدم روک لیے۔ دونوں پریشان ہو گئے۔ انھوں نے بہت کوشش کی لیکن گدھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

    "اُف یہ گدھے تو واقعی ضدی اور سرکش ہوتے ہیں، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے۔” جبران جھلا کر بول اٹھا۔

    "اے لڑکو! یہ تم میرے گدھے کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟” اچانک ان کے کانوں میں نکولس کی تیز آواز پڑی، جسے سن کر وہ سناٹے میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ زمین پر کھڑے کھڑے بت بن گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دونوں نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا۔ نکولس کا چہرہ غصے کے مارے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس کی ناک کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔

    "بھاگو….!” جبران چلایا۔

    اس کے بعد وہ آگے اور دانیال اس کے پیچھے سر پٹ دوڑا۔ نکولس ان کے پیچھے چلایا: "تم دونوں میرا گدھا چوری کر کے لے جا رہے ہو، میں تمھیں نہیں چھوڑوں گا۔”

    لیکن وہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ تب جا کر انھوں نے مڑ کر دیکھا۔ نکولس نیچے کھڑا اپنے پیارے گدھے کی پیٹھ سہلا رہا تھا اور ان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد نکولس نے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور گدھے کو لے کر روانہ ہو گیا۔ جبران نے طویل سانس لے کر کہا: "اب کیا ہوگا؟ گدھا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ ا ب اینٹ کس طرح اکھاڑیں گے ہم؟”

    "چلو، فیونا کے پاس واپس چلتے ہیں، یہ پیٹا کھا کر اسے ہم پر زیادہ غصہ نہیں آئے گا۔” دانیال نے مسکرا کر جواب دیا۔

    (جاری ہے…..)

  • گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ تینوں حیرت سے یہ تفصیل سن رہے تھے۔ اینگس مزید بتانے لگے۔ "اس کی ساتویں بیوی امبر تھی، بیس برس کی، جب کہ شادی کے وقت رالفن اڑتیس کا ہو چکا تھا۔ وہ اسکیتھین نسل سے تھی اور ویسیگوتھز اور ونڈالز کے ساتھ جنگ کے دوران پکڑی گئی تھی۔ اس کی آٹھویں بیوی ایٹروسکن تھی۔”

    "انکل میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں سے تھی، ایٹروسکن شمالی اٹلی میں رہتے ہیں، میں نے ان کے متعلق اسکول میں پڑھا۔” فیونا نے جلدی سے اپنی معلومات سے کام لیا۔

    "بالکل درست، اس کا نام کارینا تھا، اس کی عمر بھی بیس سال ہی تھی، جب کہ بادشاہ کی عمر چالیس تھی۔ نویں بیوی سیلٹک تھی، اس کے بال آتشیں سرخ تھے، وہ بے حد خوب صورت تھی، اور وہ غالباً آئرلینڈ سے تھی۔ وہ رالفن سے بہت چھوٹی تھی، اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی جب کہ رالفن تیتالیس سال کا ہو چکا تھا۔”

    "عمر کا یہ فرق تو واقعی بہت زیادہ ہے۔” فیونا جلدی سے بول اٹھی۔

    "ہاں، لیکن اس زمانے میں ایسا ہونا کوئی خاص بات نہیں تھی۔ دسویں بیوی کا نام ٹائنا تھا، جس کا تعلق قبرص سے تھا۔ وہ اور بھی چھوٹی تھی، کیوں کہ اس کی عمر شادی کے وقت صرف سترہ برس تھی، اور رالفن چھیالیس کا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی گیارہویں بیوی آنات تھی، جو مصری تھی۔ کتاب میں لکھا ہے کہ آنات کو الیگزینڈریا میں رالفن شاہی خاندان سے بھگا کر لایا تھا۔ شروع میں اس واقعے سے ہر طرف ہنگامہ مچ گیا تھا لیکن پھر دونوں میں محبت ہو گئی اور انھوں نے شادی بھی کر لی۔ اس کی عمر بہ مشکل پندرہ سال تھی، جب کہ بادشاہ پچاس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہ آنات کے خاندان کے ساتھ مصالحت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ مصر کے ساتھ تجارت کرنے لگا۔ اس کی آخری بیوی چھوٹی سی ہیلینا اسپارٹا سے تھی، جسے اب تم یونان کے نام سے جانتے ہو۔ ہیلینا بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس کی عمر شادی کے وقت صرف دس سال تھی۔”

    "کیا…. صرف دس سال!” فیونا کی آنکھیں نکل آئیں۔ "یعنی مجھ سے بھی ایک سال چھوٹی۔”

    "دراصل ہیلینا نے اپنی پسند سے اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ وہ بادشاہ سے بے حد محبت کرتی تھی، ان کے دس بچے ہوئے۔”

    "دس بچے۔” فیونا اور جبران نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کھی کھی کرنے لگے۔ "اچھا سنو، شہنشاہ رالفن کے ڈیڑھ سو بچے جوانی ہی میں مر گئے تھے۔” اینگس نے کتاب کا صفحہ غور سے پڑھتے ہوئے کہا۔ "بلاشبہ یہ ایک بہت ہی شان دار خزانہ ہے جو تمھیں ملا ہے۔ یہ آج کے لیے تمھارا تاریخ کا سبق ہوا۔ اچھا، پھر ہوا یہ کہ جادوگر نے بادشاہ کو جادوئی گولا پیش کر دیا جس کے ساتھ ایک ہار بھی تھا۔ لومنا نے جب اس تحفے کی طاقتوں کی وضاحت کی تو بادشاہ نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کی بہت تعریف کی۔ لیکن یہ بات چھپی نہ رہ سکی، کیوں کہ گولا جس سنار نے تیار کیا تھا اس نے لوگوں سے یہ راز کہہ دیا۔

    رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس کے بارے میں مشہور ہو گیا۔ دور دراز سے لوگ حملہ آور ہو کر اس جادوئی گولے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شخص تو تقریباً کامیاب بھی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی جادوئی گولا اس کے ہاتھ نہ آ سکا، ہاں جادوگر لومنا اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ آور اسے بادشاہ سمجھا تھا۔ لومنا اس وقت میز کے سامنے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حملہ آور نے اس کے دل میں تلوار گھونپ دی۔ اس واقعے سے شہنشاہ رالفن نہایت رنجیدہ ہو گیا۔ اس نے اس میز کو قومی نشان کا اعزاز بخشا، اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اس میز پر نہیں بیٹھا۔”
    یکایک جبران اپنی جگہ سے اٹھا اور یوں بولنے لگا جیسے خواب میں بول رہا ہو۔ "کیا یہ وہی میز ہو سکتی ہے جو ہم نے کل قلعۂ آذر میں دیکھی تھی، ہو سکتا ہے اس پر خون کے دھبے اب بھی موجود ہوں؟”

    "عین ممکن ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ لومنا نے سونے کی ایک تختی پر اپنا نام کھدوا کر اس میز پر اندر کی جانب لگا دی تھی۔” اینگس پھر کتاب کے مندرجات سنانے لگا۔

    دانیال نے پوچھا "جادوگر کو کس نے قتل کیا؟”

    "بارتولف نامی ایک شیطان بادشاہ نے، جو زناد نامی سرزمین سے آیا تھا، وہ ایک بزدل بادشاہ تھا۔ اور وہ رالفن ہی کا بھائی تھا لیکن اس کی طرح بہادر نہیں تھا۔ بارتولف کی چار بیویاں تھیں، جن کے نام صورت، جدائل، شہرت اور مزدل تھے۔ یہ بیویاں وہ اپنے ساتھ ہیڈرومیٹم ہی سے لایا تھا، وہ فونیزی نژاد تھیں، یعنی آج کے لبنان کے علاقے میں واقع قدیم تہذیب سے، بدقسمتی سے بارتولف اپنی بیویوں کے حق میں بہت ہی برا ثابت ہوا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ان پر ظلم کرتا تھا۔ اس نے اپنے بھائی رالفن کو قتل کرنے کے لیے اپنے انتہائی ماہر قاتل بھیجے لیکن غلطی سے انھوں نے جادوگر لومنا کو قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد محافظوں نے قاتلوں کو پکڑا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ کافی عرصے بعد جب بادشاہ رالفن کا انتقال ہو گیا تو جادوئی گولا اور بارہ قیمتی ہیروں والا ہار نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بادشاہ کیگان پیدا ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پینتالیسویں نسل تک ان میں بیٹے ہی پیدا ہوتے رہے۔ وہ میز بھی ان کے پاس رہی۔ کوئی بھی لومنا کی اچھائی کو بھلانا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ بادشاہ کیگان اور اس کا قلعہ ہائی لینڈ کے قبائل اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ مالکولم کینمور سے کیسے اوجھل رہا؟ وہ لازمی طور پر اسکاٹ لینڈ بھیس بدل کر آتا ہوگا۔ اس نے یہاں کچھ وقت بھی گزارا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز شخص کے روپ ہی میں ٹھہرا ہوگا۔” اینگس کے ماتھے پر لکیریں ابھر آئیں۔

    "وہ لازماً عربی لباس میں آیا ہوگا ،اسی طرح اس کے خدمت گار اور محافظ بھی عربی وضع قطع میں رہے ہوں گے۔” جبران نے اپنا خیال پیش کیا۔

    (جاری ہے….)

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ دونوں ایک پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے پہاڑی بکرے کو بے تحاشا دوڑا رہے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ بکرا تنگ آ کر پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر زقند بھرتا، ذرا دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں نے پتھر اٹھا کر اس کے پیچھے پھینکے اور ہنستے ہوئے، پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔

    ان میں سے ایک نے پھولی سانسوں کے درمیان دوسرے سے پوچھا "جبران! اسے بوجھو، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے ….. بتاؤ، کیا ہے؟”

    جبران جھٹ سے بولا "شروع ہو گئی تمھاری پہیلیاں، لیکن یہ تو بہت آسان ہے، میں بتاتا ہوں ایرو پلین۔”

    پہلا لڑکا ہنس کر بولا "بے وقوف، ہوائی جہاز بھاگتا نہیں اڑتا ہے۔”

    "تو پھر…..” جبران نے چٹان پر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھک کر کنپٹی سہلائی اور دوسری کوشش کی "پہاڑی بکرا”۔

    "دھت تیرے کی” لڑکے نے قہقہ لگایا۔

    "تو پھر تم ہی بتا دو۔” جبران نے جھنجھلا کر کہا۔

    "وقت” اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ سن کر جبران اچانک اچھل کر چٹان سے کود پڑا اور بولا "ارے، میں تو بھول گیا تھا، مما نے جلدی آنے کو کہا تھا، چلو دیر ہو گئی ہے۔”

    جبران گول گول پتھروں پر چھلانگیں مارتا گھر کی جانب دوڑا، دوسرا لڑکا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ کی دوسری طرف ایک چھوٹے مگر سلیقے سے بنے نہایت خوب صورت گھر کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر جبران رک گیا۔ صحن میں ایک پُروقار خاتون تار پر سے سوکھے کپڑے اتار رہی تھیں، چہرے مہرے سے وہ چالیس سال کی لگ رہی تھیں، اور اس نے اس پہاڑی گاؤں کی روایت کے برعکس سادہ لیکن جاذب نظر شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں غیر ملکی چپل تھی، یہ بات نہیں تھی کہ انھیں اپنی روایات پسند نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک طویل عرصہ اسکاٹ لینڈ میں گزارنے کے باعث اپنے خوب صورت ترین شہر اور پُر فضا مقام گلگت کی ثقافت سے دور ہو گئی تھیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت اب بھی ان کے دل میں زندہ تھی، وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ یہاں کا روایتی لباس اب ان سے پہنا نہیں جاتا تھا۔ وہ ہلکا پھلکا لباس پہننے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کا نام شاہانہ تھا۔

    شاہانہ نے مڑ کر اپنے بیٹے جبران کی طرف دیکھا اور کلائی میں بندھی سنہری گھڑی پر نظر ڈالی، پھر تیز آواز میں بولیں۔ ” جبران ، تم دس منٹ لیٹ ہو۔”

    "سوری ممی، قصور اس پہاڑی بکرے کا ہے۔” جبران کوئی بات بنا رہا تھا کہ منھ سے بکرے کا ذکر نکل گیا۔

    "پہاڑی بکرا…. تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟” ممی نے اسے گھور کر دیکھا۔

    "وہ ممی، دراصل ہم پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔” جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ اسے پتا تھا کہ اب ممی غصہ ہوں گی، اور اسے ایک عدد لیکچر سننے کو ملے گا ، لیکن خلاف توقع انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”بے وقوفی والی باتیں مت کرو، کمرے میں جاؤ اور اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    "ٹھیک ہے ممی۔” جبران نے کہا اور پیچھے مڑ کر دوسرے لڑکے سے پوچھا "کیا تم تیاری کر چکے ہو؟”

    ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ خاتون نے اسے مخاطب کیا "دانیال بیٹا، تم بھی جاؤ، امی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی، کل صبح ہماری فلائٹ ہے، اپنی ساری چیزیں سمیٹنے میں امی کی مدد کرو۔”

    "جی آنٹی۔” دوسرے لڑکے دانیال نے سَر ہلایا اور جبران کے کندھے کو ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے نکل گیا۔

    اگلی صبح اسکاٹ لینڈ کے لیے ان کی فلائٹ تھی۔ جبران کے والد بلال احمد بیس سال سے اسکاٹ لینڈ میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ شاہانہ کی پیدائش اسکاٹ لینڈ ہی میں گلگت کے ایک خاندان میں ہوئی تھی، لیکن ان کے والدین نے انھیں بچپن میں گلگت بھجوا دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس اسکاٹ لینڈ گئیں، اور پھر تیس سال کی عمر میں ان کی شادی بلال احمد سے ہوئی۔ شاہانہ ایک عرصے بعد گلگت آئی تھیں، اور جبران نے پہلی مرتبہ آبائی گاؤں دیکھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ واپس جانے کو ابھی اس کا جی نہیں کر رہا تھا لیکن وہ اپنے کزن دانیال کو اسکاٹ لینڈ دکھانے کے لیے بے چین تھا۔ دانیال اس کے چچا کا بیٹا تھا اور گیارہ سال کا تھا، یعنی اس سے ایک سال بڑا۔ دونوں ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے تھے۔ یہ جبران ہی کی ضد تھی جو اس کے والد نے دانیال کے لیے بڑی مشکلوں سے وزٹ ویزا بھجوایا۔

    صبح نو بجے انھوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے رشتے داروں اور سرزمین پاک کو الوداع کہا، اور جزیروں کی سرزمین کی طرف محو پرواز ہو گئے۔ دانیال نے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز میں قدم رکھا تھا، اس لیے وہ با ت بات پر حیران ہو رہا تھا اور جبران اسے ہر چیز کی تفصیل پُر جوش انداز میں بتاتا جا رہا تھا۔

    دونوں دوران پرواز کبھی باتوں میں مگن ہوتے، کبھی کچھ کھاتے، کبھی سوتے ، یہاں تک کہ جہاز گلاسگو کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ تیرہ چودہ گھنٹوں کے طویل فضائی سفر نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر جبران کے والد بلال احمد ان کے منتظر تھے۔ جبران انھیں دیکھ کر دوڑا اور ان سے لپٹ گیا۔ "پپا، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”

    "مجھے بھی تم لوگ بہت یاد آ رہے تھے۔” انھوں نے جبران کو پیا ر کیا۔

    "پپا، یہ دانیال ہے، پتا ہے دانی اب میرا بیسٹ فرینڈ بن چکا ہے۔” جبران نے اپنے نئے دوست کا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ بلال احمد مسکرائے اور دانیال کو بھی گلے لگا لیا۔ "کیسے ہو بیٹا، ہوائی جہاز کا سفر کیسا لگا؟”

    "بہت زبردست، بہت مزا آیا۔” دانیال نے فوراً جواب دیا۔

    وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس آ گئے، تو کار سے پانچ سالہ عرفان اور دو سالہ سوسن بھی نکل کر ممی اور بھائی جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر جبران کی ممی نے سوسن کو گود میں بٹھا لیا اور ایک بازو عرفان کے گرد حمائل کر کے ان سے باتیں کرنے لگیں۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنے پاپا کے پاس ہی اسکاٹ لینڈ میں چھوڑا تھا۔

    گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر… دانیال اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے پہلی نظر میں یہ شہر پسند آ گیا تھا اور اس لیے وہ بہت خوش تھا۔

    گلاسگو کے مضافات می بلال احمد نے ایک چھوٹا سا لیکن خوب صورت گھر خریدا تھا، جس کے سامنے ایک پیارا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے سامنے انھوں نے گاڑی روک دی اور اعلان کیا۔ "یہ ہے ہمارا چھوٹا سا پیارا گھر۔”

    جبران تیزی سے دروازہ کھول کر اترا، اور باغیچے کے درمیان بنے تنگ راستے میں دوڑا، جس کے اختتام پر گھر کا دروازہ تھا۔ دورازہ بند تھا، وہ مڑا اور بولا "پپا پلیز، چابی مجھے دیں۔”

    بلال احمد ڈگی سے سوٹ کیس نکال رہے تھے، ذرا ٹھہر کر انھوں نے چابی نکالی اور جبران کی طرف اچھال دی۔ جبران نے چابی کیچ کر لی اور دروازہ کھول دیا۔پھر مڑ کر دیکھا اور بولا۔ "دانی، بھاگ کر آؤ، میں تمھیں اپنا گھر دکھاتا ہوں۔”

    دانیال بھی اس کی طرف دوڑا۔ گھر کو اندر سے اتنی نفاست سے سجایا گیا تھا کہ دانیال حیران رہ گیا۔ جبران نے ذرا دیر میں سارا گھر اسے دکھا دیا، وہ بے حد متاثر ہوا، پھر وہ ایک کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال احمد شاہانہ سے گاؤں کے حالات پوچھنے لگے، اور دونوں دوست اپنی گپ شپ میں محو ہو گئے۔ رات کا کھانا انھوں نے مل کر کھایا، اور پھر کچھ دیر بعد وہ سونے کے لیے چلے گئے۔

    اگلی صبح ناشتے کے بعد جبران کے پاپا تو آفس چلے گئے، جب کہ جبران، دانیال کو لے کر چھت پر آ گیا۔

    "جبران، کیا تمھارا یہاں کوئی دوست نہیں ہے؟” دانیال نے پوچھا۔ جبران نے جواب میں کہا "یہاں محلے میں تو کوئی خاص نہیں البتہ اسکول میں ڈینئل میرا بہت اچھا دوست ہے، ایک آن لائن فرینڈ بھی ہے۔ فیونا…. تمھاری ہی ہم عمر ہے، یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے گیل ٹے کے نام سے، وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔”

    دانیال نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا، اس لیے اسے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا، اس لیے اس نے پوچھا "یہ آن لائن فرینڈ سے کیا مطلب ہے؟”

    جبران کو پہلے تو اس کی بے خبری پر حیرت ہوئی لیکن پھر اس نے تفصیل سے بتا دیا کہ وہ کس طرح اس کی دوست بنی۔ "تو تم آج تک فیونا سے نہیں ملے ہو؟” دانیال نے حیران ہو کر کہا۔

    "نہیں۔” جبران بولا۔ "لیکن چلو، ابھی اس سے رابطہ کرتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ میں جیسے ہی واپس آؤں اسے ضرور بتاؤں۔”

    جبران اسے لے کر اپنے کمرے میں آیا، اور کمپیوٹر آن کر کے فیونا کو انباکس میسج کر دیا،کچھ ہی دیر میں فیونا کا جواب آ گیا، اس نے جبران کو اسکاٹ لینڈ واپس آنے پر خوش آمدید کہا تھا، اور پھر پاکستان اور گلگت کے سفر سے متعلق تفصیلات پوچھنے لگی۔ جبران نے اسے دانیال سے متعلق بھی بتا دیا۔ فیونا یہ جان کر خوش ہوئی اور کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چیٹنگ کرے، لیکن جبران نے بتایا کہ دانی کو انگریزی نہیں آتی۔ فیونا کو مایوسی ہوئی، لیکن پھر اس نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ جبران نے کہا اگر ممی پاپا نے اجازت دی تو وہ ضرور دانی کو لے کر آ جائے گا۔

    دوپہر کو کھانے کی میز پر جبران نے ممی سے فیونا کا ذکر کر دیا، اور جانے کی اجازت مانگی۔ چوں کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے انھوں نے اجازت دے دی۔ شام کو پپا نے بھی بہ آسانی اجازت دے دی اور دونوں نے اگلے دن صبح ہی گیل ٹے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

    صبح سویرے دونوں بس میں بیٹھ کر دس منٹ میں گیل ٹے پہنچ گئے۔ فیونا کا گھر ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ تھوڑی ہی دیر میں درست پتے پر پہنچ گئے۔ ایک بہت ہی پیاری لڑکی …. فیونا کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ دراصل ان ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان کے سامنے رک گئی۔ خوش آمدید کہ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔

    جاری ہے…..

  • خانو چور نہیں ہے!

    خانو چور نہیں ہے!

    تھوڑی دیر پہلے جو طوفان اٹھا تھا، وہ کسی تیز آندھی کے جھونکے کی طرح تھا جو اب تھم چکا تھا۔ ماحول پہ خاموشی چھا گئی تھی اور خانو زمین پہ پڑا ہوا تھا مگر اس کے ہونٹوں پہ ایسی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جیسی ایک جنگی سپاہی کے ہونٹوں پہ دشمن پر غالب آنے کے بعد پھیل جایا کرتی ہے۔

    خانو کا چہرہ خون میں لال پیلا ہو چکا تھا، پھر بھی فتح یابی سے چہک رہا تھا اور ایسی ہی خوشی خانو کے زخمی ساتھیوں کے چہروں سے بھی عیاں تھیں جن سب نے مل کر اپنے ہاتھوں کے سہاروں پہ خانو کے سست وجود کو اٹھایا تو وہ سب ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے وہ کسی باہمت نڈر جواں مرد کو اٹھائے جا رہے ہوں۔

    خانو نے پرانی کرسی کو ہوشیاری کے ساتھ آہستہ آہستہ سے گھسیٹتے ہوئے لکڑی کی الماری کے ساتھ لگا دیا اور پھر اچھل کر کرسی پہ کھڑا ہو گیا مگر الماری کا اوپر والا خانہ اب بھی اس کی پہنچ سے دور ہی تھا جس تک پہنچنے کے لیے بازو کا استعمال کرتے ہوئے جیسے ہی دایاں ہاتھ اوپر والے خانے کے اندر ادھر ادھر گھمایا تو ایک طرف اندر کونے میں رکھا ہوا پیالہ خانو کے چھوٹے سے ہاتھ کی ہتھیلی کی گرفت میں آگیا جسے وہ انگلیوں کی مدد سے رینگتا ہوا اپنے قریب لانے میں بھی کام یاب تو ہو گیا تھا مگر اگلے ہی لمحے ڈر اور خوف کی وجہ سے جھٹ سے پیالہ وہیں الٹ کر گر گیا اور دو دو آنے والے سکے کوٹھی کے اندر پھیل گئے۔

    پل بھر کے لیے خانو کا ننھا وجود ایک انجانے خوف سے کانپ اٹھا اور وہ اپنی جگہ ایسے کھڑا رہا جیسے وہاں سالوں سے لکڑی کی الماری کھڑی ہوئی تھی اس کے بعد جب ہر طرف سے اطمینان ہو گیا تو وہ کرسی سے نیچے اترا۔ زمین پہ بکھرے ہوئے سکے دیکھ کر اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں جن کو ایک ایک کر کے وہ گنتا گیا تو اس کے ہاتھوں کی دونوں مٹھیاں بھر آئیں۔ کچھ دیر تک چمکتی ہوئی آنکھوں سے سکوں کو دیکھتا رہا پھر دوبارہ کرسی پہ چڑھ کر احتیاط کے ساتھ انہیں پیالے میں واپس رکھ کر اسے اپنی جگہ پہ پہنچایا اور کوٹھی سے باہر نکل آیا تو اس کے کانوں تک صحن کے ایک کونے سے کپڑے دھونے اور کوٹنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ صحن میں کوئی چیز تلاش کرتا ہوا وہ باورچی خانے میں گیا اور دیوار پہ اٹکی لکڑی کی تختی کو جیسے ہی مضبوط کر کے پکڑا اسی لمحے کچھ برتن ٹن ٹن …. ٹن کی آوازیں کرتے نیچے آگرے۔

    ‘‘کون ہے …..ارے کون ہے وہاں’’ غسل خانے سے کپڑے دھونے کا شور تھم گیا اور نئی آواز پہ ماں نے وہیں سے چلّا کر پوچھا مگر خانو نے کوئی جواب دیے بغیر آہستہ سے برتن اٹھا کر اپنی جگہ پہ رکھ دیے اور تیزی سے نکل کر دوبارہ کوٹھی میں آگیا تو پیچھے سے کپڑے دھونے کی آواز پھر سے شروع ہو گئی۔ وہ دوبارہ پہلے والے انداز میں کرسی پہ چڑھا۔ سکون کے ساتھ رکھے ہوئے پیالے کو دیکھ کر جیسے نیچے اتر آیا تو اس کے کانوں میں یہ الفاظ گونج اٹھے تھے۔

    ‘‘خانو! چور ہے !….. ہاں ہاں چور ہے ….. چور ہے!’’
    ‘‘نہیں! خانو چور نہیں ہے۔’’ اپنے آپ سے بولتا ہوا وہ جذباتی انداز میں پھر کرسی پہ چڑھ گیا اور جو دو آنے اس نے لیے ہوئے تھے وہ پیالے میں ڈال کر کرسی کو اپنی جگہ لے آیا اور باہر صحن میں آکر گھر کے صدر دروازے سے نکل گیا۔ خانو جب اسکول پہنچا تو رسیس ختم ہو چکی تھی اور ماسٹر جی جماعت کو بورڈ پہ حساب لکھوا رہے تھے۔ وہ ڈرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ کلاس میں داخل ہونے لگا تو اس کے جماعت کے لڑکوں نے آپس میں سرگوشیاں کرنا شروع کر دیں۔ پیچھے سے شور آہستہ سے بڑھنے لگا تو ماسڑ جی نے پیچھے کی طرف شوخی سے دیکھا اور کہنے لگا۔

    ‘‘ کس بات پہ مستی ہو رہی ہے؟ ’’
    ‘‘ ماسٹر جی ! وہ….وہ خانو!’’ اتنا ہی بول سکا تھا۔
    ‘‘ خانو! کیا؟…. بتاؤ کیا ہوا ہے خانو کو؟!!۔’’
    ‘‘نہیں نہیں ماسڑ جی! خانو چور نہیں ہے۔’’ خوف اور ڈر سے بے ساختہ بول بیٹھا تو پہلے خانو پہ بہت حیرانگی ہونے لگی …. پھر غصے کی حالت میں ہاتھ میں ڈنڈی گھماتے ہوئے خانو سے مخاطب ہونے لگا۔

    ‘‘اے لڑکے ! تمہیں یہ کیسا مذاق سوجھا ہے …. ہاں ! چل جلدی جلدی بتا ورنہ ….. !’’
    ‘‘ ماسڑ جی! قرآن کی قسم سچی کہہ رہا ہوں خانو چور نہیں ہے!’’
    خانو ابھی تک بوکھلایا ہوا تھا اور خانو کی بات پر پوری جماعت ٹہہ …..ٹہہ کرتے ہنسنے لگی تو شور اور بڑھتا گیا جس پہ ماسٹر جی کا غُصّہ چڑھنے لگا۔
    ‘‘خاموش !’’ ماسٹر جی نے اپنی رعب دار آواز نکالتے ڈنڈی کو زور سے میز پہ دے مارا تو سب سہم کر رہ گئے۔

    ‘‘اب اگر کسی نے کوئی مستی دکھائی تو اس نالائق کی ہڈی پسلی توڑ کے رکھ دوں گا ’’….
    جب سب خاموش ہو گئے تو ماسٹر صاحب پھر سے اپنے کام میں لگ گئے مگر سارا وقت خانو جماعت میں یوں بیٹھا تھا جیسے وہاں موجود نہ ہو۔ جب چھٹی کی بیل بجی…. جماعت کے لڑکے اپنی اپنی کتابیں سنبھالے کلاس سے باہر آئے …. اسے کسی بات کا کوئی ہوش نہ رہا تھا اور جب ہوش آیا تو پیرو رعب دار آواز کے ساتھ سامنے تھا۔
    ‘‘جلدی باہر چلو رے خانو چورا’’ اپنے سامنے کھڑے پیرو کو یوں مذاق اڑاتے دیکھ کر وہ بھی بول اٹھا۔

    ‘‘ دیکھو پیرو! خانو چور نہیں ہے…. اور نہ ہی کوئی چوری کرتا ہے۔ ’’
    ‘‘ اچھا !تو پھر کیا کرتا ہے ( پیرو زور سے ہنستے ہوئے ) چور تو چوری کرے گا نا…. چل جلدی سے میرے دو آنے دے….صبح تم نے وعدہ کیا تھا اب اسے پورا کر۔ ’’
    ‘‘ تمہیں روز ایک آنہ دے کر میں تنگ آچکا ہو ں اور اب تم دو آنے کا تقاضا کرتے ہو…. کوئی آنہ دو آنہ نہیں ملے گا سمجھے ….!’’
    ‘‘ یہ بات ہے…. ٹھیک ہے پھر تیار ہو جا بچو!’’ پیرو اپنے ساتھیوں کو آوازیں دے کر پکارنے لگا۔
    ‘‘ ارے اور وشو ….. گلو …. کہاں ہو…. آؤ جلدی آجاؤ!’’

    خانو بھی دیکھنے لگا کہ پیرو اپنے دوسرے بدمعاش ساتھیوں کو بلانے لگا تھا۔ اسکول میں بھی کوئی نہیں رہا تھا سب کے سب جا چکے تھے۔ اپنے سامنے مشکل دیکھتے ہوئے اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری تھی۔

    ‘‘ چلو اب جلدی سے دے دو، دو آنے ؟ ’’ پیرو نے شوخی کے لہجے کے ساتھ خانو کو دھمکایا۔
    ‘‘ نہیں دوں گا …. کوئی دادا گیری ہے کیا؟ ’’
    ‘‘ہا ں سمجھو کہ دادا گیری ہے’’ یہ کہتے ہوئے پیرو نے خانو کے دائیں گال پر ایک زور سے گھونسہ مارا اور ساتھ ہی کہنے لگا، ‘‘اب زندہ نہیں بچو گے بچو!’’ خانو لڑکھڑا کر گر پڑا …..گرتا بھی کیسے نہ اپنے وجود میں وہ ایک کمزور سا انسان تھا جو شروع سے ہی ڈرا سہما ہوا رہتا آیا تھا اور جماعت میں اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے پیرو جیسے اوباش لڑکے اسے ڈرا دھمکا کر روزانہ ایک آنہ بطور بھتا وصول کر کے مزے سے چیزیں کھایا کرتے تھے۔

    ‘‘خانو نے جیسے ہی خود کو سنبھالنے کی کوشش کی تو پھر سے پیرو نے ایسے زور سے دھکا مارا کہ وہ جا کے دیوار سے ٹکرایا جہاں لوہے کا ٹکڑا لگا ہوا تھا جس سے خانو کا سر پھٹ گیا اور وہ خون میں لت پت ہونے لگا۔ پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری تھی۔
    ‘‘دو آنے تو کیا ایک ٹکا بھی نہیں ملے گا…..ہاں ہاں ! نہیں ملے گا بچو!….خانو چور نہیں ہے۔ ’’

    کہنے اور دیکھنے میں پیرو اور اس کے ساتھی خانو کے مدمقابل ہٹے کٹے تندرست صحت کے مالک تھے، پَر تھے تو وہ بھی آخر کا بچّے ہی۔ جب ان سب نے خانو کو خون میں لت پت ہوتے دیکھا تو ایک دم گھبرا کر وہاں سے بھاگ نکلے جن کے پیچھے ٹھوکریں کھاتا ہوا خانو بھی آنے لگا۔ اس کی نظریں جماعت کے کچھ دوسرے ساتھیوں پڑیں۔ اس کی جان میں جان آگئی۔ تب خانو نے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے اپنی آواز کو فضا میں بلند کیا۔
    ‘‘ او علن ….. شمن …. نورا…. رحیمو! سب جلدی آؤ اور سنو آج سے کوئی بھی پیرو اور اس کے بدمعاشوں کو کوئی ایک آنہ نہیں دے گا …. سمجھ گئے نا۔ اب کوئی کچھ بھی نہیں دے گا۔’’

    لاتیں چلاتے وہ گر پڑا تو اس کے ساتھیوں نے دوڑ کر سہارا دیا۔ خانو اپنے درد سے بے فکر ہو کر خود کو چھڑاتے ہوئے چیخنے لگا۔‘‘ وہ دیکھو! جا رہا ہے پیرو اپنے غنڈوں کے ساتھ …. اسے پکڑ لو…. جاؤ ہمت کرو آج وہ سب بچ کے جانے نہ پائیں۔’’

    تب سب کے سب بجلی کی تیزی سے دوڑ کر پیرو اور اس کے ساتھیوں کے راستے میں دیوار بن گئے۔ ادھر پیرو والے بھی ان سب کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ خانو بھی گرتا، سنبھلتا ہوا وہاں آپہنچا تھا جس کی کڑکتی آواز نے علن، شمن، نورا، اور رحیمو کو اک نئی ڈھارس باندھی تھی۔

    ‘‘میں کہتا ہوں کوئی بھی آنہ دو آنہ نہیں دے گا….یہ ہی موقع ہے ساتھیو پکڑ لو ان حرامیوں کو اور ایسا مزا چکھاؤ کہ زندگی بھر یاد رکھیں….’’

    ایک بار پھر خانو کے ساتھی اسے خون میں سسکتے کانپتے …. لزرتے ہوئے دیکھنے لگے جن سب کی آنکھوں میں بھی اب خون اتر آیا تھا اور اندر ہی اندر سے کمزور وجود طاقتور پہاڑ بن گئے تھے….. بس! پھر ایک طوفان سا بر پا ہوگیا۔ سب کے سب قہر خدائی بن کر پیرو اور اس کے ساتھیوں پہ ٹوٹ پڑے جن کے ساتھ گھایل خانو بھی آملا تھا۔ خانو کی حق گوئی اور مرد مجاہد نے سب کو ایسا غازی بنا دیا کہ وہ پیرو والوں کو روندتے، پیٹتے ایک ہی صدا میں ساتھ کہتے جارہے تھے۔

    ‘‘ آج سے کوئی آنہ دو آنہ نہیں دے گا…. کوئی چوری بھی نہیں کرے گا…. ہاں ہاں کوئی بھی چور نہیں ہے۔ ’’ بہت دیر تک پیرو اور اس کے اوباش ساتھی ایسے پٹتے رہے جیسے گھاٹ پر دھوبی کپڑے زور سے پیٹتے صاف کرتے رہتے ہیں۔ ان سب کو اگر آج بھاگنے کا موقع نہ ملتا تو یہ یقین ہو چلا تھا کہ سب کے سب خانو اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں جان سے مارے جاتے….

    تھوڑی دیر پہلے جو طوفان اٹھا تھا وہ کسی تیز آندھی کے جھونکے کی طرح تھا جو اب تھم چکا تھا۔ ماحول پہ خاموشی چھا گئی تھی اور خانو زمین پہ پڑا ہوا تھا مگر جن سب نے مل کر اپنے ہاتھوں کے سہاروں پہ خانو کے سست وجود کو اٹھایا تو وہ سب ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے وہ کسی باہمت نڈر جواں مرد کو اٹھائے جا رہے ہوں۔

    (حمید سندھی کا افسانہ، مترجم جہانگیر عباسی)

  • ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    ادیب کا لاکر (چینی کہانی)

    بہت عرصے پہلے کی بات ہے چین کے کسی شہر میں ایک شخص چینگ کرانو رہتا تھا۔ چینگ کرانو بہت اچھا ادیب تھا۔ برسوں سے وہ اکیلے ہی رہتا چلا آ رہا تھا۔

    اپنے کم بولنے کی عادت کی وجہ سے وہ کسی سے دوستی نہ کرسکا تھا۔ اس کے پڑوس میں ایک غریب، مگر پیاری سی لڑکی ژیانگ رہتی تھی۔ ژیانگ کو کہانیاں سننے اور پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ کرانو چوں کہ اچھا ادیب تھا، اس لیے ژیانگ اس کی بہت عزّت کرتی تھی۔

    ایک دن اس نے اپنی ماں سے اجازت لی اور کرانو سے ملنے اس کے گھر آئی۔ کرانو اس وقت کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ ژیانگ اس کے لیے شربت لائی اور ادب سے اسے پیش کیا۔ کرانو نے پہلی بار کسی کو اپنے گھر میں دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے ژیانگ کا شکریہ ادا کیا اور اس طرح ژیانگ کا کرانو کے گھر آنا جانا ہو گیا۔

    کرانو کا گھر چھوٹا سا تھا۔ اس کی تمام چیزیں بکھری رہتی تھیں۔ ژیانگ نے اس کا گھر سلیقے سے سجا دیا۔ کرانو بہت سادگی سے رہتا تھا۔ اس کے گھر میں کوئی قیمتی چیز نہ تھی۔ ژیانگ نے اس کا ذکر اپنے باپ چانگ سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ کرانو کنجوس ہے اور دولت جمع کر رہا ہے۔

    ایک دن ژیانگ اپنے گھر میں تھی تو اس نے اپنی کھڑکی سے کرانو کو ایک تھیلا ہاتھ میں لٹکائے جاتے دیکھا۔ ژیانگ سوچنے لگی کہ پتا نہیں اس میں کیا ہے۔ ژیانگ نے فوراً یہ بات اپنے باپ کو بتائی۔ وہ سمجھ گیا کرانو اپنی دولت کہیں دفن کرنے جا رہا ہے۔ اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر کرانو کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کرانو اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا اور چانگ اس کے پیچھے پیچھے تھا۔

    جب چانگ نے کرانو کو بینک میں داخل ہوتے دیکھا تو اس کا شک یقین میں بدل گیا۔ گھر آکر اس نے ژیانگ سے کہا کہ وہ ٹوہ لگائے کہ آخر کرانو نے بینک میں کیا جمع کرایا ہے۔ دوسرے دن ژیانگ نے کرانو کو قہوہ پیش کرتے ہوئے کہا، "کل آپ کسی دوست سے ملنے گئے تھے شاید؟”

    کرانو نے پہلے تو قہوے کا شکریہ ادا کیا پھر کہا، "نہیں میں بینک گیا تھا، لاکر میں ایک قیمتی چیز رکھنے۔” لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ چیز کیا تھی۔ ژیانگ نے بھی زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے تمام بات اپنے باپ چانگ کو بتا دی۔

    چانگ ایک لالچی اور خود غرض انسان تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح کرانو کی دولت حاصل کرے گا۔ تھوڑے دن بعد ہی ژیانگ کا ایک امیر گھرانے سے رشتہ آیا تو اس کی بات پکّی کر دی گئی۔ چانگ سوچ رہا تھا کہ اب ژیانگ کی شادی کے لیے بہت رقم کی ضرورت ہو گی، سو کوئی ترکیب کرنی چاہیے کہ کرانو کی دولت جلد از جلد ہاتھ آ جائے۔ وہ دن رات اسی فکر میں غرق رہتا کہ کیا کیا جائے۔ آخر ایک خطرناک خیال اس کے ذہن میں آیا۔

    ایک دن اس نے ژیانگ سے کہا، "ہوسکتا ہے کرانو اپنی دولت کسی دوست کے حوالے کر دے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کی دولت حاصل کر لیں۔”

    ژیانگ نے تعجب سے پوچھا، "مگر ہم اس کی دولت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟”

    چانگ مکّاری کے ساتھ بولا، "وہ آج کل بیمار ہے، اس لیے زیادہ تر اپنے بستر میں رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے کمرے میں بند کر کے آگ لگا دی جائے۔ اس کے کمرے میں بے شمار کاغذ ہیں، جلد ہی آگ پکڑ لیں گے، لیکن اس سے پہلے تم اس کے لاکر کی چابی اور بینک کے کاغذات حاصل کر لو۔”

    باپ کی یہ سازش سن کر ژیانگ لرز کر رہ گئی۔ اس نے فوراً انکار کر دیا۔ مگر چانگ نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے سبز باغ دکھائے اور اس پر سختی بھی کی۔ مجبوراً ژیانگ اس کے ساتھ اس سازش میں شریک ہونے کو تیار ہو گئی، لیکن اس نے آگ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ چانگ نے کہا کہ وہ آگ خود لگے گا۔

    چنانچہ ژیانگ جب اگلے روز کرانو کے گھر گئی تو اس نے کرانو کو اپنی شادی کے بارے میں بالکل نہیں بتایا، لیکن کسی نہ کسی طرح بینک کے کاغذات اور چابی حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی۔ پھر کرانو کی غیر موجودگی میں وہ صفائی کے بہانے اس کے گھر میں رک گئی اور کرانو کے سارے گھر میں تیل چھڑک دیا۔ کرانو کسی کام سے گیا ہوا تھا۔ یہ کام کر کے وہ جلدی سے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی کرانو واپس گھر آیا، چانگ نے دروازہ بند کر کے آگ کی مشعل کھڑکی سے اندر پھینک دی۔

    کرانو جب اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بُو محسوس ہوئی اور پھر آگ تیزی سے پھیلتی گئی۔ چانگ اور ژیانگ اپنے گھر جا چکے تھے۔ پھر وہ اس وقت باہر نکلے جب محلّے والوں نے شور مچایا کہ کرانو مر چکا ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ آگ کیسے لگی۔ لوگوں نے یہی خیال کیا کہ شاید کھانا پکانے کے لیے اس نے آگ جلائی ہو گی اور غلطی سے آگ کپڑوں میں لگ گئی ہو گی۔

    اس درد ناک واقعے کو کئی دن گزر گئے۔ آخر ایک دن ژیانگ اور چانگ بینک جا پہنچے۔ انہوں نے خود کو کرانو کا رشتے دار ظاہر کیا اور لاکر کھولنے میں کام یاب ہو گئے۔ لاکر میں اس تھیلے کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں لکھا تھا:

    "لاکر کھولنے والے پر سلامتی ہو۔ اس لاکر میں میری زندگی کی سب سے عمدہ کہانی ہے۔ میری یہ کہانی دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک شخص مجھے اس کے پندرہ ہزار پاؤنڈ دینے کو تیار ہے، مگر میں ابھی اسے بیچنا نہیں چاہتا۔ میں اسے اس وقت بیچوں گا جب ژیانگ کی شادی ہو گی۔ میں اس کہانی کو بیچ کر ساری رقم ژیانگ کو دے دوں گا۔ وہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے، اپنی بیٹی جیسی۔ اگر میں اس کی شادی سے پہلے مَر جاؤں تو ژیانگ اس کہانی کو بیچ سکتی ہے۔”

    اتنا خط پڑھ کر ژیانگ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو خط سن رہا تھا۔ اس وقت تک وہ تھیلے میں سے سارے قیمتی کاغذات نکال چکا تھا۔

    "کاش! میں اسے اپنی شادی کی خبر سنا دیتی!”

    ژیانگ کی یہ بات سن کر چانگ نے کہا، "کوئی فرق نہیں پڑتا، پندرہ ہزار پاؤنڈ تو اب بھی مل ہی جائیں گے۔ تم باقی خط پڑھو۔” ژیانگ پھر پڑھنے لگی:

    "لیکن کہانی کا یہ صرف ایک حصّہ ہے۔ دوسرا حصّہ بہت اہم اور ضروری ہے اور وہ حصّہ میرے تکیے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے، جسے میری موت کے بعد ژیانگ نکال سکتی ہے۔ خدا اسے ہمیشہ خوش رکھے!”

    خط کا آخری حصّہ پڑھتے پڑھتے ژیانگ کی آنکھیں بھر آئیں۔ چانگ بھی حیرت اور افسوس سے سوچ رہا تھا، "کاش میں نے لالچ نہ کیا ہوتا۔”

    (چینی ادب سے اردو ترجمہ)

  • امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    امبل میرو کا پُراسرار بھوت

    یہ واقعہ میری طویل شکاری زندگی کے اُن عجیب اور لرزہ خیز واقعات میں سے ہے جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے کی صحیح پوزیشن سمجھنے کے لیے آپ کو آندھرا پردیش کے جنگلوں میں جانا پڑے گا۔

    ضلع چتّوڑ میں بھاکر پت، چمالا اور مامندر کے تینوں جنگل قریب قریب واقع ہیں۔ ان کے کناروں پر بہت سے گاؤں اور بستیاں آباد ہیں۔ یہ جنگل اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے جتنے حسین ہیں، اس سے کہیں زیادہ خطرناک بھی ہیں۔ درندوں کے علاوہ یہاں ریچھ بھی پائے جاتے ہیں۔

    ایک روز ہمارے چیتے کا پالتو بچّہ اچانک مَر گیا۔ میری بیوی نے اُسے بڑے شوق سے پالا تھا۔ بچّے کی موت سے میری بیوی کو سخت صدمہ پہنچا، لیکن میں نے کہا، فکر نہ کرو۔ ایک دو روز تک جنگل سے دوسرا بچّہ پکڑ لاؤں گا۔ چنانچہ آندھرا پردیش کے گنجان اور سیکڑوں میل میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں میرے آنے کی صرف یہی وجہ تھی۔ اس موسم میں مادہ اکثر بچّے دیتی ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ معمولی سی تلاش کے بعد کوئی بچّہ پکڑنے میں کام یاب ہو جاؤں گا اور بندوق چلائے بغیر یہاں سے چل دوں گا، لیکن کئی دن گزر گئے، بیس بیس میل جنگل میں پھرنے کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔

    ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ رنگام پت کا ایک شخص تھانڈا جو گزشتہ دو ہفتوں سے غائب تھا، اس کی ہڈیاں مِل گئی ہیں۔ یہ شخص اردگرد کے دیہات میں جنگلی بوٹیاں بیچتا اور جادو ٹونا بھی کرتا تھا۔ اس کے غائب ہونے سے بھوت پریت کے قائل دیہاتیوں نے قیاس کیا کہ تھانڈا کو کسی بھوت نے مار ڈالا ہے۔ تھانڈا کا تھیلا اور سامان فارسٹ گارڈوں نے ایک پہاڑی چشمے کے عقب میں پڑا پایا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اس کی ہڈّیاں اور گلا سڑا گوشت بھی مَل گیا۔ پولیس کی رسمی تفتیش کے بعد یہ معاملہ ختم ہو گیا۔

    میں اسی وقت سمجھ گیا کہ ان آبادیوں پر بَلا نازل ہوا ہی چاہتی ہے، کوئی آدم خور درندہ اِدھر آ نکلا ہے۔ اگلے ہی روز سہ پہر کے وقت پولی بونو کے مقام پر ایک عجیب حادثہ پیش آیا۔ پولی بونو گاؤں، رنگام پت سے کوئی سات میل دُور تھا۔ جنگل میں سات بیل گاڑیاں گزر رہی تھیں، جب وہ نرشیا کے قریب پہنچیں، جہاں سڑک سے کوئی دو فرلانگ ہٹ کر ایک قدرتی تالاب تھا، تو گاڑی بانوں نے تالاب میں نہانے کا پروگرام بنایا۔ تھوڑی دیر بعد نہانے کے بعد وہ تالاب سے باہر نکلے، لیکن جب وہ گاڑیوں پر بیٹھے، تو دفعتاً انہیں احساس ہوا کہ ان کا ایک ساتھی غائب اور تعداد میں سات کے بجائے وہ چھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سوچا شاید پُتّو رفع حاجت کے لیے کہیں رُک گیا ہے، وہ دیر تک انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ نہ پلٹا، تو انہیں سخت تشویش ہوئی۔ وہ دوبارہ گاڑیوں سے اُترے اور اِدھر اُدھر پھیل کر اپنے ساتھی کو آوازیں دینے لگے۔ کوئی جواب نہ ملا۔ تالاب پر دوبارہ جانے کی ہمّت کسی میں نہ تھی۔

    وہ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کر رہے تھے۔ پُتّو کو کسی بَدروح نے پکڑ لیا ہوگا، ناگ دیوتا نے ڈس لیا ہے اور یہ بھی تو ممکن ہے کہ اسے کسی شیر یا چیتے یا ریچھ ہی نے مار ڈالا ہو۔ مایوس ہو کر انہوں نے پُتّو کی بیل گاڑی وہیں چھوڑی اور اپنی اپنی گاڑیاں تیز دوڑاتے ہوئے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔

    پُتّو کے بیل اپنے مالک کی راہ تکتے رہے۔ آدھی رات کو جب اوس پڑنے لگی، تو بیل سردی سے کانپنے لگے اور اپنے مالک کا خیال چھوڑ کر وہ بھی گاؤں کی طرف چل پڑے۔ اور صبح چار بجے وہ پُتّو کے گھر تک پہنچ گئے۔

    اس روز گاؤں والے دن بھر جنگل میں پھر کر پُتّو کی تلاش کرتے رہے۔ مگر بے سود۔ پُتّو کی پراسرار گم شدگی پر قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دو دن بعد پھر ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔ اس مرتبہ گاؤں کا ایک بنیا غائب ہوا، وہ رنگام پت سے تیرہ میل دُور ایک دوسرے گاؤں میں اناج اور ضرورت کا دوسرا سامان لے کر جا رہا تھا۔ اس نے سامان گدھوں لاد رکھا تھا۔ پولی بونو کے مقام پر اس نے کھانا کھایا اور آگے چل پڑا۔ ساتویں میل پر جنگل میں بانس کاٹنے والے ایک لکڑہارے نے اسے کنوئیں میں سے پانی نکال کر پلایا، اس کے بعد بنیے کو دوبارہ کسی نے نہ دیکھا۔ اس کے گدھے جنگل میں بھٹکتے ہوئے پائے گئے۔ سامان بدستور ان کی پشت پر لدا ہوا تھا۔

    چوتھے روز پولی بونو کا وہ لکڑ ہارا بھی غائب ہو گیا جس نے بنیے کو پانی پلایا تھا۔ تلاشِ بسیار کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ البتّہ ایک درخت کے قریب اس کی کلہاڑی اور سفید پگڑی پڑی مل گئی۔

    اس قسم کے پُراسرار واقعات پے درپے رونما ہوئے۔ تو بھاکر پت،چمالا اور مامندر کی آبادیوں میں سنسنی پھیل گئی اور لوگ اعلانیہ کہنے لگے کہ یہ کسی درندے کا کام نہیں، بلکہ کوئی بھوت ہے جو انسانوں کی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ درندہ اگر ایسی حرکت کرتا، تو اس کے پنجوں کے نشان، خون کے دھبّے یا کھائی ہوئی لاش کے کچھ حصّے تو ملتے۔ مگر ان میں سے کوئی نشان نہ پایا گیا۔ لوگوں نے گاؤں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ اکیلا دُکیلا آدمی تو جنگل کا رُخ کرنے کی جرأت ہی نہ کرتا تھا۔

    یہ صورتِ حال محکمۂ جنگلات کے لیے بڑی نازک تھی۔ افسروں نے پولیس کو خبردار کیا، پولیس کے کچھ آدمی آئے، انہوں نے بھی جنگل کا کونا کونا چھان مارا، مگر معمولی سا سراغ بھی نہ مِل سکا۔ بستیوں کے وہ لوگ جن کا گزارہ ہی جادو ٹونے پر تھا، بے چارے دیہاتیوں کو مسلسل ڈرا رہے تھے کہ اگر اتنا روپیہ دان نہ کیا گیا، اتنی بکریوں کا بلیدان نہ کیا گیا، اتنی شراب نہ پیش کی گئی، تو یہ نادیدہ بلا ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جائے گی۔ ایک جادُوگر نے تو یہاں تک کہا کہ گاؤں والے کسی بچّے کی قربانی دے دیں تو یہ بلا ٹل جائے گی۔ میں نے پولیس کے دفعدار سے کہا کہ اس منحوس جادوگر کو حوالات میں بند کیا جائے اور اگر گاؤں کا کوئی بچّہ گم ہو، تو کرشناپا (جادوگر) کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے، لیکن پولیس نے میرے مشورے پر عمل نہ کیا۔ آخر جس بات کا مجھے کھٹکا تھا، وہ ہو کر رہی، چند روز بعد چندرا گری کے مقام پر نو سال کا ایک اچھوت لڑکا گُم ہو گیا۔

    بچّے کی گمشدگی پر ماں دیوانی ہو گئی اور اسے کئی روز تک تلاش کرتی پھری۔ آخر یہ معاملہ پولیس کے علم میں لایا گیا۔ سب انسپکٹر نے سب سے پہلے کرشناپا جادوگر کے مکان کی تلاشی لی، لیکن پوری چھان بین کرنے کے باوجود لڑکے کا کوئی پتا نشان نہ ملا۔ پولیس انسپکٹر کو کرشناپا پر بہرحال شک تھا، اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ واردات میں اس بدمعاش کا ضرور ہاتھ ہے۔ چنانچہ وہ اسے ہتھکڑی لگا کر چوکی پر لے گیا، مگر جادوگر نے کچھ نہ اگلا۔ مایوس ہو کر کرشناپا کو چھوڑ دیا، لیکن اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں جائے گا۔ کرشناپا جادوگر نے چوکی سے نکلتے ہوئے پولیس انسپکٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

    ‘لومڑی خواہ کتنی چالاک ہو، مگر گیدڑ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔’ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور انسپکٹر کئی دن تک سوچتا رہا کہ ان الفاظ کا آخر مطلب کیا ہے۔

    اگلے روز رنگام پت اور پولی بونو کے درمیانی علاقے کی رہنے والی ایک عورت غائب ہو گئی۔ اس کا خاوند صبح سویرے مویشیوں کو چرانے جنگل میں گیا۔ دوپہر کو اس عورت نے خاوند کے لیے روٹی تیار کی اور ایک برساتی نالے کے کنارے کنارے چلتی ہوئی پیپل کے ایک درخت تک جا پہنچی۔ پیپل کے بڑے درخت سے آدھ میل دُور مٹّی کے برتن ٹوٹے پائے گئے جن میں وہ روٹی لے کر گئی تھی، لیکن خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

    میں ان دنوں اپنے ایک ہندو دوست ویوا کے ساتھ ناگا پٹلا کے فارسٹ بنگلے میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ان تمام واقعات کی اطلاع مجھے بنگلے کے چوکیدار سے ملتی رہتی تھی۔ ایک رات چوکیدار ہمارے پاس بیٹھا حسبِ معمول گاؤں والوں کے قصّے بیان کرتا رہا تھا کہ دریا کی طرف سے چیتے کے گرجنے کی آواز سنائی دی۔

    ‘صاحب، یہ چیتا بول رہا ہے۔’ چوکیدار نے سہم کر کہا۔ ‘ہاں ہمیں معلوم ہے۔ خاموش رہو۔’ ریوا نے اسے ڈانٹ دیا: ‘جاؤ، اپنی کوٹھڑی میں…’

    چوکیدار کے جانے کے بعد میں نے دیوا سے کہا: ‘چیتے کی آواز سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت سخت بھوکا ہے اور کسی شکار کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔’ دیوا کے چہرے پر دہشت کی علامات نمودار ہوئیں۔ اس نے بنگلے کی چار دیواری کا جائزہ لیا اور بولا: چیتا ان دیواروں کو آسانی سے پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے، ہمیں آج اندر کمرے میں سونا چاہیے۔’

    ہمارے بستر اندرونی کمرے میں بچھا دیے گئے۔ چیتا معمولی معمولی وقفوں کے بعد آدھی رات تک بولتا رہا۔ کمرے کے اندر حبس بہت تھا اور چوہے مسلسل پریشان کر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک موٹا سا چوہا چند لمحے تک چُوں چُوں کرنے کے بعد یکایک خاموش ہو گیا۔ چوہے کی آواز میں ایسا کرب تھا کہ دیوا کہنے لگا:

    ‘یہ چوہا اس طرح کیوں چیخ رہا تھا؟’

    شاید کسی سانپ نے اُسے منہ میں دبوچ لیا ہے۔’ میں نے جواب میں کہا۔ دیوا سانپ سے بے حد ڈرتا تھا، وہ فوراً بستر سے اُٹھا: میں تو برآمدے میں جاتا ہوں۔ اَب مجھ سے یہاں سویا نہیں جائے گا۔’

    پَو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے دفعتاً میری آنکھ کھلی۔ میری چھٹی حِس کسی انجانے خطرے کا اعلان کر رہی تھی۔ میں نے جلدی سے سرہانے رکھی ہوئی ٹارچ روشن کی اور رائفل اٹھا لی۔ دیوا بے خبر سو رہا تھا۔ معاً ایسی آواز آئی جیسے کوئی شخص دیوار کھرچ رہا ہے۔ میں نے روشنی اِدھر اُدھر پھینکی تو آواز یک لخت بند ہو گئی۔ میں دبے پاؤں اٹھا اور رائفل سنبھال کر برآمدے سے باہر آیا۔ ٹارچ بجھا دی اور ایک ستون کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا۔

    چند منٹ بعد پھر دیوار کھرچنے کی آواز کان میں آئی۔ یہ اتنی واضح اور صاف تھی کہ کوئی شبہ نہ رہا۔ کوئی جانور اپنے پنجے دیوار پر تیز کر رہا تھا۔ میں پنجوں کے بَل چلتا ہوا آواز کی بڑھا۔ ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ پیچھے سے دیوا کے کھانسنے کی آواز آئی اور پھر فوراً ہی چیتے کی غرّاہٹ فضا میں بلند ہوئی اور وہ دوڑتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔

    صبح ہم نے اس کے پنجوں کے گہرے نشان دیوار کے آس پاس دیکھے۔ ناشتے کے بعد میں نے دیوا کو ساتھ لیا اور جنگل میں ٹہلنے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پیپل کے اس درخت کے نیچے کھڑے تھے جہاں چند روز پہلے وہ عورت غائب ہوئی تھی جو اپنے شوہر کو روٹی دینے جا رہی تھی۔ چیتے کے پنجوں کے نشان دریائے کلیانی کے بائیں کنارے پر دور تک پھیلے ہوئے تھے۔

    ان نشانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ چیتا غیر معمولی طور پر قوی ہیکل اور بڑی جسامت کا ہے، لیکن مجھے جن نشانوں کی تلاش تھی، وہ کہیں نہ تھے۔ میں شیر کی تلاش میں تھا اور یہ کتنی حیرت کی بات تھی کہ جنگل کے تمام جانور پانی پینے دریا پر آتے تھے، مگر شیر اِدھر کا رخ نہ کرتا تھا۔

    بھوت پریت کے وجود کو عقل تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی اور آدم خور اگر ایسی حرکتیں کرتا، تو اپنا نشان ضرور چھوڑ جاتا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ ہے کیا بَلا؟ تمام واقعات کا اچّھی طرح جائزہ لینے کے بعد جو حقائق میرے سامنے آئے وہ یہ تھے:

    1۔ پانچوں افراد پُراسرار طور پر موت کا شکار ہوئے۔
    2۔ ہر شخص دوپہر یا سہ پہر کے وقت غائب ہُوا۔
    3۔ ان حادثوں کو کسی نے بچشمِ خود نہ دیکھا۔
    4۔ غائب ہونے والا ہر فرد تنِ تنہا تھا۔
    5۔ البتہ بنیے کے ساتھ اس کے گدھے بھی تھے جو بول نہیں سکتے، لیکن انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اطمینان سے جنگل میں گھاس چرتے رہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ خوف زدہ نہ تھے، ورنہ ضرور اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔

    اس مسئلے پر دیوا کے ساتھ میں دیر تک بحث کرتا رہا، لیکن کسی رُخ سے بھی اس معاملے کی تہ تک پہنچنا مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا، تاہم مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو، میں یہ راز بے نقاب کر کے رہوں گا۔

    (چند روز جنگل میں‌ گھومنے اور بالخصوص ان جگہوں‌ پر جانے کے بعد جہاں سے اب تک ہلاک ہونے والے غائب ہوتے رہے تھے، ایک دن دیوا اور مصنّف سو کر اٹھے تو….) ایک شخص بنگلے پر آیا اور کہنے لگا کہ وہ پولی بونو سے آیا ہے۔ وہاں امبل میرو کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بہت بڑا شیر دیکھا گیا ہے۔ جنگل میں کام کرنے والے مزدوروں نے ٹھیکیدار سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت تک کام پر نہ جائیں گے جب تک شیر کا قصّہ پاک نہیں ہو جاتا۔ ٹھیکیدار نے پیغام بھیجا تھا۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر اس شخص کے ساتھ پولی بونو روانہ ہو گئے۔ ٹھیکیدار سے ملاقات ہوئی۔ کام رُک جانے سے اس کا ہزاروں روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ میں نے ٹھیکیدار کو دلاسا دیا، مزدوروں سے بات کی اور ان سے وعدہ کیا کہ شیر کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ سمجھانے بجھانے سے مزدور راضی ہوئے اور انہوں نے کام شروع کر دیا۔

    اگلے روز دوپہر کے وقت مزدوروں کے انچارج نے سیٹی بجا کر روٹی کھانے کے وقفے کا اعلان کیا۔ وہ مزدور، جس نے ایک روز پہلے شیر کو دیکھا تھا، نہایت خوف زدہ اور بدحواس تھا، وہ بار بار اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر درخت پر کلہاڑی سے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگتا۔ اس سے صرف پانچ فٹ کے فاصلے پر کچّے بانسوں کا ایک گھنا جھنڈ تھا۔ دفعتاً اس جھنڈ میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ مزدور نے فوراً اُدھر دیکھا اور پھر کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چُھوٹ گئی۔ کچّے بانسوں کے اس جھنڈ میں وہی شیر اپنی زرد زرد چمکدار بُھوکی آنکھوں سے مزدور کو گھور رہا تھا۔ اس نے وہیں سے جست کی اور عین مزدور کے اوپر جا پڑا، لیکن اس شخص کی زندگی کے کچھ دن ابھی باقی تھے۔ اس کے حلق سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی، فوراً ہی دوسرے مزدور چیختے چلّاتے اُدھر لپکے اور شیر گرجتا غرّاتا چشم زدن میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    بہرحال یہ راز اب کھل چکا تھا کہ امبل میرو کا بھوت کون ہے؟ اور کس نے پانچ افراد کو ہلاک کر کے غائب کیا ہے۔ اَب سوال یہ تھا کہ ہم کیا کریں؟

    جب میں نے دیوا اور ساتھ آنے والے مزدوروں سے کہا کہ میں رات کو یہیں چُھپ کر آدم خور کا انتظار کروں گا، تو خوف سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔

    وقت چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔ میں نے گھڑی پر نگاہ کی، رات کے پورے بارہ بجے تھے۔ اَب میری آنکھیں تالاب اور جنگل کا منظر کچھ فاصلے تک بخوبی دیکھ سکتی تھیں۔ یکایک چرخ پھر نمودار ہوا۔ اس مرتبہ وہ چیخے چلّائے بغیر نہایت مضطرب ہو کر چکّر کاٹ رہا تھا۔ جب چوتھی مرتبہ چرخ تالاب کے نزدیک گیا تو دوسرے کنارے سے اچانک شیر غرایا۔ شیر دوبارہ ہلکی آواز میں غُرّایا اور پھر اس کی آواز سنائی نہ دی۔

    معاً میری چھٹی حِس بیدار ہوئی اور اس نے خطرے کا اعلان کیا۔ میں نے بھری ہوئی رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سن لی تھی اور اب میں بے حس و حرکت اپنی جگہ بیٹھا آنکھیں گھما کر اُدھر ہی دیکھ رہا تھا۔ میں نے نگاہوں ہی نگاہوں میں جھاڑیوں کا فاصلہ ماپ لیا تھا۔ وہ مجھ سے تیس گز دور تھیں اور ان میں چھپا ہوا آدم خور نہایت مکّاری سے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنی فطرت کے مطابق مجھے بیخبری میں دبوچ لینا چاہتا تھا۔

    اب وہ مجھ سے بیس گز دور تھا۔۔۔ پندرہ گز۔۔۔ بارہ گز۔۔۔ دس گز۔۔۔ یکایک اس نے اپنا سَر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ وہ شیرنی ہے۔ پھر جبڑا کھول کر وہ آہستہ سے غرّائی، میں نے اس کے چمکتے ہوئے لمبے دانت دیکھے اور اس سے پیشتر کہ وہ مجھ پر چھلانگ لگائے، میری گولی اس کا جبڑا توڑتی ہوئی گردن میں سے نکل گئی، لیکن کس بلا کی قوّت اس کے اندر کام کر رہی تھی۔ وہ زخمی ہونے کے باوجود اندھا دُھند میری طرف جھپٹی، لیکن مجھ سے صرف دو گز کے فاصلے پر آن کر گری اور پھر دہاڑتی گرجتی الٹے قدموں بھاگی۔ میں نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے۔ اس کی گردن سے ابلتا ہوا خون صاف غمازی کر رہا تھا کہ وہ کدھر گئی۔

    مجھے اتنا یاد ہے میرے نشانے خالی نہیں گئے اور شیرنی آگے جا کر یقیناً گر گئی ہوگی۔ میں گرتا پڑتا اور جھاڑیوں میں سے لہولہان ہو کر اس درخت تک پہنچ گیا جہاں میرے ساتھی موجود تھے۔ چند لمحے آرام کرنے کے بعد ہم سب پھر قلعے کی طرف چلے اس مرتبہ میکٹوش آگے آگے تھا اور پیچھے گاؤں والے لالٹینیں لیے چل رہے تھے۔ ایک جگہ وہ اچانک رُکا اور پھر پیچھے ہٹ کر چند پتّھر اٹھائے اور جھاڑی کے اندر پھینکنے لگا۔ غالباً آدم خور شیرنی اس کے اندر چُھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ رائفل تان کر آگے بڑھا اور میں نے ٹارچ روشن کی۔ اسی لمحے زخمی شیرنی نے کروٹ لی اور میکٹوش کے اوپر چھلانگ لگائی، لیکن چند فٹ کے فاصلے پر ہی آ کر گر پڑی اور جبڑا کھول کر غرّانے لگی۔ ہمارے ساتھی لالٹینیں پھینک کر بھاگ نکلے، لیکن اب ہمیں اس زخمی اور معذور شیرنی سے کوئی خطرہ نہ تھا، کیوں کہ وہ مرنے ہی والی تھی، مجھے حیرت تھی کہ تین گولیاں کھانے کے باوجود وہ اتنی دیر تک زندہ کیسے رہی۔ میکٹوش نے چند لمحے تک شیرنی کو غور سے دیکھا اور پھر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔

    اور اس طرح چیتل درُوگ، ہوس دُرگا اور ہوللکر میں تباہی مچانے والی آدم خور شیرنی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔

    (مصنّف اور مہم جُو کینتھ اینڈرسن کی اس روداد کے مترجم مقبول جہانگیر ہیں)

  • انسانی شخصیت اور غیر محسوس دیوتا!

    انسانی شخصیت اور غیر محسوس دیوتا!

    اب تک کی انسانی تاریخ میں اتھارٹی ہمیشہ واضح اور ٹھوس صورت میں موجود رہی ہے۔ انسان کو معلوم رہا ہے کہ اسے کس کے احکامات کی تکمیل کرنی ہے۔ مثلاً باپ، بادشاہ، استاد، آقا، خدا اور مذہبی راہ نما وغیرہ۔

    بلاشبہ ادوارِ گزشتہ میں بھی ہر قسم کی اتھارٹی کو چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ مگر خود اتھارٹی کا وجود مشتبہ نہیں رہا۔ تاہم صدی رواں کے وسط میں اتھارٹی کی ماہیت بنیادی تغیر سے گزری ہے۔ اب وہ پہلے کی طرح واضح اور ٹھوس نہیں رہی بلکہ تجریدی اور برگشتہ اتھارٹی بن گئی ہے۔ اس اتھارٹی کو چھوا جا سکتا ہے اور نہ ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اب تار بنانے والا نظر نہیں آتا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی اس کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے۔ یہ تار ہلانے والا کون ہے، یہ منافع ہے۔ معاشی ضروریات ہیں۔ منڈی ہے۔ فہمِ عامہ ہے۔ رائے عامہ ہے۔ یہ ہیں نئے انسان کے نئے آقا، یہ کھل کر سامنے آتے ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف بغاوت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

    انسانی شخصیت ان غیر محسوس دیوتاؤں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اپنے تخلیقی امکانات کی تکمیل کے محرکات سے محروم ہو گئی ہے۔ نئے آقا انسان کو ہجوم میں گم ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ انفرادیت جیسی کوئی شے باقی نہیں رہی۔ حالانکہ گزشتہ صدی کے بورژوا اس کا چرچا کرتے نہ تھکتے تھے۔ انفرادیت کا خاتمہ تو ناگزیر تھا کہ برگشتہ انسان کسی طور اپنا سامنا نہیں کر سکتا کہ اس قسم کی دہشت برداشت کرنا اس کے بس کا روگ نہیں۔

    تجریدی اتھارٹی اور اس کی خود کارانہ اطاعت اصل میں بڑی حد تک سُپر کیپٹیلزم کے اندازِ پیداوار سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ پیداوار کا جدید انداز مشین سے فوری مطابقت، منظم اجتماعی رویہ، اجتماعی اور بلا تشدد اطاعت کا طلب گار ہے۔ ایرک فرام نے اس معاشی نظام کے ایک ناگزیر نتیجہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس کا تعلق اشیا کے وسیع پیمانے پر استعمال سے ہے۔ جدید معاشی نظام کی اس ضرورت نے نئے انسان کی شخصیت کو اس طرح ڈھال دیا ہے کہ اب وہ اپنی کسی خواہش کی عدم تکمیل کو گناہِ کبیرہ خیال کرنے لگا ہے۔ اس کا راہ نما اصول یہ ہے کہ کوئی خواہش نہیں دبانی چاہیے۔ ہر خواہش کی فوری تکمیل ہونی چاہیے۔

    ہر خواہش کی فوری تسکین کے اصول نے سپرکیپٹیلزم میں انسان کے جنسی رویّوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ عموماً اس کا جواز فرائڈ کے فکری نظام کی عامیانہ توضیحات سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ خیال عام ہے کہ اگر کوئی جنسی خواہش دبائی گئی تو بہت سی نفسیاتی بیماریوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ ان سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ کسی جنسی خواہش کو تشنۂ تکمیل نہ رہنے دیا جائے۔ ایرک فرام کے نزدیک اس رویے سے وہی نتیجہ پیدا ہوتا ہے جو تجریدی اتھارٹی کی اطاعت سے پیدا ہوا ہے، یعنی انسان کی ذات اپاہج ہو کر بالآخر فنا ہو گئی ہے۔

    انسانی شخصیت کو نکھارنے کے لیے بہت سی خواہشات پر غالب آنا ضروری ہوتا ہے۔ خصوصاً بیمار معاشرے میں ایسی خواہشات کی تعداد خوف ناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ ان مصنوعی خواہشات کی تسکین کے چکر میں گرفتار ہو کر انسان غیر حقیقی مسرت اور ہوس کا پجاری بن جاتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ خواہشات کی فوری تسکین کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کرتا ہے۔ فی الواقعہ یہ خواہشات معاشی نظام کی ہی پیداوار ہوتی ہیں۔ یوں روح اور جسم دونوں اعتبار سے انسان معاشی نظام کے جبر کا شکار ہو جاتا ہے۔

    اس انسان دشمن نظام نے انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ نئے انسان نے فہم و دانش اور ضمیر کے میدان میں پیش قدمی کی ہے۔ مگر یہ محض خوش فہمی ہے۔ بجا طور پر ایرک فرام ہماری توجہ اس امر کی طرف دلاتا ہے کہ جدید انسان ذہانت کے اعتبار سے آگے بڑھا ہے۔ البتہ جہاں تک فہم و دانش کا معاملہ ہے، وہ روز بروز پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔

    ایرک فرام کے نزدیک ذہانت سے مراد کسی عملی مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر اشیا اور تصورات کو چالاکی سے استعمال کرنے کی اہلیت ہے۔ اس لحاظ سے وہ بندر بھی ذہین ہے جو دو جھڑیوں کو ملا کر درخت سے پھل اتار لیتا ہے۔ اس کے برعکس دانش اشیا کو کسی مقصد کی خاطر استعمال کرنے سے زیادہ انہیں سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ صداقت کی جستجو پر مبنی ہے۔ تاہم نئے انسان کو اشیا کی ماہیت اور حقیقت سے دل چسپی نہیں۔ وہ انہیں محض استعمال کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔

    دانش بھرپور انسانی شخصیت کا خاصہ ہے۔ اس لیے نئے انسان کو اس سے چڑ ہے۔ وہ اکثر اوقات اس کا تمسخر اُڑاتا ہے۔ فلسفہ، ادب، ادب عالیہ اور فنونِ لطیفہ اس کے نزدیک بے کاروں کے مشاغل ہیں۔ اگر اس نے مارکسیوں کے چند سیاسی نعرے سن رکھے ہیں تو وہ فوراً انہیں جاگیردارانہ عہد کے امرا اور ان کے مفت خور حاشیہ نشینوں کے چونچلے قرار دے دے گا۔

    انسان لائقِ فروخت بن جائے تو کسی معجزے کے ذریعے بھی ضمیر باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ نظام میں انسان ضمیر کی کوئی خلش محسوس نہیں کرتا۔ بس چین کی بانسری بجاتا ہے۔ ضمیر کے ساتھ اخلاقیات بھی رخصت ہوتی ہے۔ دونوں کا چرچا باقی رہ جاتا ہے۔

    (قاضی جاوید کی پُرفکر تحریر بعنوان ” ایرک فرام اور انسانی ذات کا ارتقا“ سے اقتباس)

  • ہیرے کا ہار

    ہیرے کا ہار

    شارلٹ اتنی خوب صورت تھی کہ ہر کوئی کہتا اس کو تو کسی محل میں پیدا ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ ایک سبزی فروش کے گھر پیدا ہوئی جہاں اس کی قسمت پر غربت کی مہر لگ چکی تھی۔

    بڑھتی جوانی نے شارلٹ کو اپنی خوب صورتی اور غربت کا شدید احساس دلایا۔

    وہ کتنی کتنی دیر آئینے کے سامنے کھڑی اپنے حسن کو سراہتی۔ پھر اپنی بدقسمتی پر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہو جاتیں۔ وہ تصور میں اس شہزادے کا انتظار کرتی جس کے بارے میں اس نے کہانیوں میں پڑھا تھا۔ لیکن یہ سب خواب دھرے رہ گئے جب اس کی شادی محکمہ تعلیم کے ایک کلرک سے ہو گئی۔

    الگزینڈر چاہتا تھا کہ شارلٹ کو ہر آسائش ملے۔ اس نے ایک لڑکی ملازم رکھ لی تھی جو ہر روز آ کر برتن دھوتی، کھانا پکاتی، اور باہر کے کام کاج کرتی۔

    شارلٹ اب پچیس سال کی ہو چکی تھی۔ اسے احساس تھا کہ اس کی زندگی غربت میں ضائع ہورہی ہے۔ وہ اونچی سوسائٹی کا حصہ بننا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی۔

    شارلٹ کی واحد دوست اسکول کی ایک سہیلی جین تھی جس کی شادی ایک امیر گھرانے میں ہوئی اور جو مادام جیرارڈ کی حیثیت سے سوشل حلقوں میں بہت مقبول تھی۔

    ایک دن الگزینڈر بہت خوش خوش دفتر سے لوٹا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو اس نے شارلٹ کو تھما دیا۔ شارلٹ نے اکتاہٹ سے اسے ڈریسر پر رکھ دیا۔

    ’’کم سے کم اسے دیکھ تو لو۔ یہ وزیر تعلیم کی طرف سے ایک ڈانس پارٹی کا دعوت نامہ ہے۔ کلرکوں میں بس مجھے ہی ملا۔ بڑی مشکل سے۔‘‘

    شارلٹ نے اداسی سے کہا۔ ’’میرے پاس پہننے کے لیے کوئی بھی مناسب کپڑے نہیں ہیں۔ کیسے جا سکتی ہوں۔‘‘

    ’’نیا ڈریس کتنے میں آ جائے گا؟‘‘ الگزینڈر نے پوچھا۔

    ’’چار سو فرینک سے کم میں تو نہیں آ سکتا۔‘‘

    وہ شانزے لیزے کی ایک دکان پر گئے جہاں شارلٹ نے ایک بہت خوب صورت ڈریس منتخب کیا۔ دونوں خوش خوش گھر لوٹے۔ شارلٹ نے دوبارہ ڈریس پہنا۔ دونوں ڈریسر کے آئینے کے سامنے کھڑے تھے۔ الگزینڈر نے دیکھا کہ شارلٹ اپنے آپ کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے اداس نظر آ رہی ہے۔

    الگزینڈر نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’ابھی تو بہت خوش تھیں۔ اچانک کیا ہو گیا؟‘‘

    ’’وہاں اونچے خاندانوں کی بیگمات ہوں گی جو ہیرے جواہرات سے لدی ہوں گی اور میرے پاس ایک بھی زیور نہیں جو میں اس ڈریس کے ساتھ پہن سکوں، میری کتنی تضحیک ہو گی؟‘‘

    ’’تم بالوں میں پھول لگا کر جا سکتی ہو۔ بہت اچھے لگیں گے۔‘‘الگزینڈر نے مشورہ دیا۔

    ’’نہیں الگزینڈر۔ تم یہ دعوت نامہ اپنے دفتر کے کسی اور کلرک کو دے دو۔‘‘

    ’’اب تو چار سو فرینک کا ڈریس بھی خرید لیا۔ اب تو جانا ہی ہو گا۔ کیا ہو سکتا ہے؟ اوہ، ا یسا کرو وہ جو تمہاری سہیلی ہے نا، جین، تم اس سے کوئی زیور ادھار مانگ لو۔‘‘

    شارلٹ کو یہ خیال پسند آیا۔ ابھی پارٹی میں دو ہفتے باقی تھے۔ اگلے دن شارلٹ اپنی سہیلی کے پاس گئی۔ جین نے زیورات کے کئی ڈبّے شارلٹ کے سامنے رکھ دیے۔ شارلٹ نے انہیں پہن کر دیکھا مگر کوئی پسند نہیں آیا۔

    ’’ یہ سب بہت خوب صورت ہیں مگربات بن نہیں رہی۔ تمہارے پاس اور کچھ ہے؟‘‘
    جین نے دراز سے ایک اور ڈبہ نکالا۔ سنہرے ڈبے کے اندر سیاہ مخمل کی گدی پر جگمگاتے ہیروں کی ایک بہت خوب صورت مالا رکھی تھی۔

    ’’میں پارٹی کے لیے یہ ہار ادھار لے لوں۔ صرف ایک رات کے لیے؟‘‘

    ’’کیوں نہیں، ضرور لو۔ اپنی پیاری سہیلی کے لیے میں اتنا بھی نہیں کر سکتی؟‘‘
    شارلٹ نے جین کو گلے لگا کر کہا کہ وہ یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔

    پارٹی کی رات شارلٹ انتہائی خوب صورت لگ رہی تھی۔ اعلیٰ افسران کی بیگمات اسے حسد اور ان کے شوہر اسے ہوس اور حسرت سے دیکھ رہے تھے۔ وزیر تعلیم تک اس کے ساتھ رقص میں شریک ہوا۔ ساری رات موسیقی، رقص اور مشروبات کے دور چلے۔ صبح چار بجے کے قریب پارٹی اختتام کو پہنچی۔

    وہ بہت دیر تک کپکپاتی سردی میں کرائے کی گاڑی ڈھونڈتے رہے۔ مشکل سے ایک پھٹیچر سی گھوڑا گاڑی ملی اور وہ صبح چھ بجے گھر پہنچے۔

    الگزینڈر کا تھکن سے برا حال تھا۔ وہ صوفے پر ہی سو گیا۔ لیکن شارلٹ پارٹی کے نشے میں ڈریسر کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی خوب صورتی کو سراہنے میں مصروف ہو گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہیروں کی مالا نے اس کے حُسن کو کیسے چار چاند لگا دیے تھے۔

    اچانک ایک جگر چیر دینے والی ہول ناک چیخ نے الگزینڈر کو جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ وہ بھاگا ہوا کمرے میں آیا جہاں شارلٹ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا گلا پکڑا ہوا تھا۔ اس کی رنگت بالکل زرد پڑ چکی تھی۔

    ’’کیا ہواشارلٹ۔ تم نے اپنا گلا کیوں دبوچا۔‘‘ ابھی اس کا فقرہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس پر صورتِ حال آشکار ہو گئی۔ شارلٹ کے گلے سے ہار غائب تھا۔

    ’’اچھی طرح دیکھو، کیا پتہ کوٹ کے پھٹے ہوئے استر میں گر گیا ہو؟‘‘

    ’’دیکھا ہے میں نے، ہر جگہ دیکھا۔‘‘

    ’’تم نے کرائے کی گاڑی کا نمبر دیکھا تھا؟

    ’’نہیں‘‘

    ’’اب کیا کریں؟ ‘‘

    الگزینڈر دوبارہ کپڑے بدل کر پیدل ڈانس ہال کی طرف چل دیا۔ وہ ہرقدم پر دیکھ رہا تھا کہ شاید ہار وہیں پڑا مل جائے۔ وہ کرائے کی گاڑیوں کے دفتر میں گیا۔ پولیس کو رپورٹ لکھائی۔ اخبار میں اشتہار دیا۔ مگر سب لا حاصل۔

    جب شام گئے ناکام گھر لوٹا تو لگتا تھا کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ اسی تلاش میں تین دن گزر گئے۔

    شارلٹ نے جین کو پیغام بھجوایا کہ ہار کا کندہ ٹوٹ گیا تھا، اس کو جوہری کے پاس مرمت کے لیے چھوڑا ہے، ہفتے دس دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔

    خالی ڈبّے پر جوہری کا نام لکھا تھا۔ دونوں جوہری کی دکان پر پہنچے مگر اس کے ریکارڈ میں ایسے ہار کی فروخت کا اندراج نہیں تھا۔ انھیں ایک اور دکان پر ہو بہو ویسا ہی ہیروں کا ایک ہار نظر آیا۔ ہار کی قیمت بتیس ہزار فرینک تھی۔

    الگزینڈر نے تنخواہ سے اٹھارہ ہزار فرینک پنشن فنڈ کے لیے بچائے تھے۔ باقی چودہ ہزار کے لیے اس نے گھر کی کئی چیزیں بیچیں۔ دوستوں، رشتے داروں اور کام پر ساتھیوں سے ادھار مانگا۔ قرضوں کے کاروباری بوڑھے سود خوروں کے اسٹامپ پیپر پر دستخط کر کے اپنی پوری زندگی ان کے ہاتھ گروی رکھوا دی۔ رقم جمع کی اور جوہری سے ہار خرید لیا۔

    شارلٹ ہار لے کر مادام جیرارڈ کے گھر پہنچی۔ جین نے ہار کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ڈبّہ کھول کر تک نہیں دیکھا۔

    الگزینڈر کو اب قرضوں کی ادائیگی کرنا تھی۔ سب سے پہلے تو ملازمہ کو فارغ کیا۔ پھر اس نے دفتر کے کام کے ساتھ دکانوں پر بک کیپنگ شروع کر دی۔ شارلٹ کہاں تو نچلے متوسط طبقے کو منہ نہیں لگاتی تھی اور کہاں اب یہ نوبت آ گئی تھی کہ اسے خود گھریلو ملازمت کرنا پڑی۔ وہ گھر کے سارے کام خود کرتی۔ سودا سلف کے لیے دکان داروں سے پیسے پیسے پر لڑتی۔ اس کے چہرے پر غربت کے زیاں کار آثار نمایاں ہو گئے تھے۔ اس کے خد و خال بگڑ گئے تھے۔ چہرے پر حسن اور معصومیت کی بجائے ایک کرختگی برسنے لگی تھی اور گفتگو میں ایک بازاری پن آ گیا تھا۔

    اس واقعے کو اب دس سال گزر چکے تھے۔ آج اتوار کا دن تھا۔ ہفتے بھر کی مشقت کے بعد شارلٹ گھر سے تازہ ہوا کھانے کے لیے نکلی اور شانزے لیزے کے فٹ پاتھ پر چل رہی تھی کہ اسے ایک جانا پہچانا سا چہرہ نظر آیا۔ ایک متموّل خاتون پیاری سی بچّی کے ساتھ پارک کی سمت جا رہی تھی۔ شارلٹ کو اچانک احساس ہوا کہ یہ تو مادام جیرارڈ تھیں جو ابھی تک ویسی ہی خوب صورت تھی جیسی دس سال پہلے۔

    ’’جین‘‘ شارلٹ نے مادام جیرارڈ کو آواز دی۔ جین نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے سے حیرت اور خفگی نمایاں تھی کہ ایک نچلے طبقے کی عورت اسے نام لے کر مخاطب کرنے کی جرات کیسے کر رہی ہے۔

    ’’مادام، میرا خیال ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔’’‘‘ جین نے بڑی شائستگی سے کہا۔ ’’میں آپ کو پہچانی نہیں۔‘‘

    ’’میں شارلٹ ہوں جین۔ تمھاری پرانی سہیلی۔‘‘

    ’’اوہ شارلٹ، تم کس قدر بدل گئی ہو۔ اگر تم نہ بتاتیں میں تو بالکل نہ پہچان پاتی۔ کتنی مدت ہو گئی ہے ہمیں ملے ہوئے؟ کیا حال ہے تمہارا؟ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ الگزینڈر کیسا ہے؟‘‘ جین نے بڑی گرم جوشی سے پوچھا۔

    ’’ہاں بہت مدّت ہو گئی۔ ہم اس دوران کافی سخت حالات سے گزرے۔ تمہیں گمان تک نہیں ہو گا کہ یہ سختیاں ہم پر تمہاری وجہ سے بیتیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب حالات ٹھیک ہیں۔‘‘

    ’’میری وجہ سے؟‘‘ جین نے انتہائی حیرت سے کہا۔ ’’میں نے کیا کِیا شارلٹ؟ مجھ سے کیا خطا ہوئی؟‘‘

    ’’تمہیں یاد ہے میں نے تم سے ایک ہار ادھار مانگا تھا؟‘‘

    ’’ہاں، بڑی اچھی طرح سے۔‘‘

    ’’وہ ہار مجھ سے گم ہو گیا تھا۔‘‘

    ’’یہ کیسے ممکن ہے؟ تم نے تو وہ ہار مجھے لوٹا دیا تھا۔‘‘

    ’’جو ہار میں تمھارے پاس واپس لائی تھی یہ وہ نہیں تھا جو تم نے مجھے دیا تھا۔ تمہارا ہار گم ہو گیا تھا۔ اس جیسا بتیس ہزار فرینک کا ہار خریدنے کے لیے ہمیں قرض لینا پڑا اور پچھلے دس سال سے ہم وہی قرض اتاررہے تھے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اسی سال وہ سارا قرض چکا دیا ہے۔ اب حالات ٹھیک ہیں۔ اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر شارلٹ مسکرائی اور سر اٹھا کر بڑے فخر اور معصومیت سے مادام جیرارڈ کو دیکھا اور دوبارہ کہا۔ ’’شکر ہے اب ہم قرض سے آزاد ہیں۔‘‘

    جین کو جیسے ایک دھچکا سا لگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ اس نے بڑھ کر شارلٹ کو گلے لگایا اور کہا۔

    ’’میری پیاری معصوم سہیلی۔ تمہیں کس کس دکھ سے گزرنا پڑا۔ صرف میری وجہ سے۔ مگر میرا ہار تو نقلی تھا۔ اس کی قیمت تو صرف تین سو فرینک تھی۔‘‘

    (فرانسیسی ادیب اور شارٹ اسٹوری رائٹر موپساں کی شاہ کار کہانی کا اردو ترجمہ)