Tag: اردو ترجمہ

  • وبالِ جاں

    وبالِ جاں

    میرے ڈاک والے بکسے میں ایک موٹا لفافہ میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے کھولا اور رقم گنی۔ یہ پوری تھی۔ اس میں ایک رقعہ بھی تھا جس پر آدمی کا نام اور تفصیل کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا تھا۔ اس میں، اس کی ایک پاسپورٹ سائز تصویر بھی تھی۔ میں نے خود پر لعنت بھیجی۔مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے ایسا کیوں ہوا۔ میں پیشہ ور ہوں اور ایک پیشہ ور کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، لیکن یہ بس منہ پر آ ہی گئی۔

    مجھے بندے کا نام پڑھنے کی ضرورت پیش نہ آئی، میں نے تصویر سے ہی اس بندے کو پہچان لیا تھا۔ گریس۔ پیٹرک گریس، یہ امن کا نوبل انعام یافتہ ایک اچھا آدمی تھا۔ واحد اچھا بندہ جسے میں جانتا تھا۔ اور اگر اچھے بندوں کی بات کی جائے تو دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو، جو اس کا مقابلہ کر سکے۔

    میں پیٹرک سے صرف ایک بار ہی ملا تھا۔ اور یہ ملاقات اٹلانٹا کے ایک یتیم خانے میں ہوئی جہاں وہ ہم سے جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ ہم سارا سال گندگی اور غلاظت میں گزارتے اور وہ ہمیں پیٹ بھر کھانا بھی نہ دیتے۔ اور اگر کوئی احتجاج میں اپنا منہ کھولتا تو وہ ہماری پٹائی چمڑے کی پیٹی سے کرتے۔ اکثر تو وہ یہ تکلیف بھی گوارا نہ کرتے کہ اس پیٹی کا بکسوا الگ کر دیں۔ لیکن جب وہاں گریس آیا تو انہوں نے یہ بات یقینی بنائی کہ ہم سب صاف ستھرے ہوں۔۔۔ ہم اور وہ موتری بھی، جسے وہ یتیم خانہ کہتے تھے۔ اس کے آنے سے پہلے، ڈائریکٹر نے ہمیں تنبیہہ کی کہ اگر کسی نے بھی منہ کھولا تو اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑنا تھا۔ اس کی تقریر سے ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ وہ جو کہہ رہا تھا، وہ اس نے کرکے بھی دکھانا تھا۔

    گریس، جب، ہمارے کمرے میں داخل ہوا تو ہم چوہوں کی طرح خاموش اور دبکے ہوئے تھے۔ اس نے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہم آگے سے کچھ بھی نہ بو لے۔ ہر لڑکے نے اس سے تحفہ وصول کیا، اس کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے بستر پر چلا گیا۔ مجھے ایک ڈارٹ بورڈ ملا۔ میں نے جب اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ میرے قریب ہوا۔ میں دبک گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ شاید مجھے مارنے لگا تھا۔ گریس نے پیار سے میرے بالوں کو سہلایا اور بغیر کچھ بولے، میری قمیض اوپر اٹھائی۔ میں ان دنوں میں خاصی بکواس کیا کرتا تھا۔ گریس نے میری کمر پر نظر ڈال کر اس کا اندازہ کر لیا تھا۔ اس نے پہلے تو کچھ نہ کہا، لیکن پھر اس کے منہ سے مسیح کا نام تین چار بار نکلا۔ بالآخر اس نے میری قمیض چھوڑی اور مجھے گلے لگا لیا۔ اور جب اس نے مجھے گلے لگایا تو اس نے یقین دلایا کہ آئندہ کسی نے بھی مجھے ہاتھ نہیں لگانا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ لوگ بلا جواز آپ کے ساتھ اچھی طرح سے پیش نہیں آتے۔ مجھے لگا کہ یہ ایک طرح کا مکر تھا؛ اس نے کسی بھی لمحے اپنی پیٹی اتارنی تھی اور مجھے پیٹنا تھا۔ جتنی دیر اس نے مجھے گلے لگائے رکھا، میں یہ خواہش کرتا رہا کہ وہ وہاں سے چلا جائے۔ وہ چلا گیا اور اسی شام ہمارے یتیم خانے کا سارا عملہ بدل دیا گیا اور ہمیں ایک نیا ڈائریکٹر بھی مل گیا۔ اور تب سے کسی نے بھی مجھے دوبارہ ہاتھ نہ لگایا، سوائے اس سیاہ فام کے، جسے میں نے’جیکسن وِل‘ میں مار بھگایا تھا۔ کیا یہ ایک ایسا کام تھا جسے میں نے بغیر کسی معاوضے کے کیا تھا؟ اس کے بعد تو کسی کی بھی جرأت نہ ہوئی کہ میری طرف انگلی بھی اٹھا سکے۔

    میں اس کے بعد پیٹرک گریس سےکبھی نہ مل پایا۔ لیکن میں اس کے بارے میں اخبارات میں بہت کچھ پڑھتا رہا۔ ان لوگوں کے بارے میں، جن کی اس نے مدد کی اور ان سارے اچھے کاموں کے بارے میں، جو وہ کرتا تھا۔ وہ ایک اچھا آدمی تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس سے اچھا انسان کہیں اور نہ تھا۔ وہ اس بد رنگ اور مکروہ دنیا میں واحد آدمی تھا، جس کا میں دین دار تھا۔ اور اب دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس سے دوبارہ ملنا ہے۔ اور دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس کے سَر میں ایک گولی داغنی ہے۔

    میں اکتیس برس کا ہوں۔ میں جب سے اس کام میں پڑا ہوں، مجھے اب تک انتیس ٹھیکے مل چکے ہیں۔ ان میں سے چھبیس کو تو میں ایک ہی ہلّے میں پار کر گیا تھا۔ میں جن کو قتل کرتا ہوں، انہیں جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں انہیں کیوں مار رہا ہوں۔ دھندا، دھندا ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میں ایک پیشہ ور قاتل ہوں۔ اور کام میں میری ساکھ بہت اچھی ہے۔ اور ایسے پیشے میں، جیسا کہ میرا ہے، اچھی ساکھ ہی اہم ہوتی ہے۔ آپ اخبار میں اشتہار نہیں دیتے یا ایسے لوگوں کے لیے خصوصی بھاﺅ نہیں لگاتے جن کے پاس اچھی مالیت والے کریڈٹ کارڈ ہوں۔ اس دھندے میں آپ تبھی کامیاب ہوتے ہیں جب لوگوں کو آپ پر اعتماد ہو کہ آپ ان کا کام کر دیں گے۔ اسی لیے میری یہ پالیسی ہے کہ میں، اپنے معاہدے سے کبھی نہیں پھرتا۔ جب بھی کوئی بندہ میرا ریکارڈ دیکھتا ہے تو اسے سوائے مطمئن گاہکوں کے اور کچھ نہیں ملتا؛ مطمئن گاہگ اور سخت گیر کھرا پن۔

    میں نے کیفے کے بالکل سامنے گلی میں ایک کمرہ کرایے پر لیا اور اس کے مالک کو دو ماہ کا کرایہ پیشگی دیتے ہوئے بتایا کہ میرا باقی کا سامان پیر وار کو پہنچنا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ اسے وہاں پہنچنے میں لگ بھگ آدھا گھنٹہ لگنا تھا، مطلب قتل کرنے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اپنی بندوق جوڑی اور اس کی انفرا۔ ریڈ روشنی میں اس کا نشانہ بٹھایا۔ چھبیس منٹ ابھی باقی تھے۔ سگریٹ سلگا کر میں اس کوشش میں تھا کہ کسی شے کے بارے میں کچھ نہ سوچوں۔ میں نے سگریٹ پی کر اس کا بچا ہوا ٹکڑا کمرے کے ایک کونے میں پھینکا۔ اس جیسے بندے کو کون مارنا چاہے گا؟ وہ یا تو کوئی جانور ہو سکتا ہے یا کوئی ایسا بندہ جو مکمل طور پر پاگل ہو چکا ہو۔ میں گریس کو جانتا ہوں۔ اس نے مجھے تب گلے لگایا تھا جب میں ابھی بچہ تھا۔ لیکن دھندا تو دھندا ہے۔ ایک بار جب آپ احساسات کو در آنے دیتے ہیں تو سمجھیں دھندے میں آپ کا انت ہو گیا۔ اس کونے سے جہاں سگریٹ کا ٹکڑا گرا، قالین سے دھواں اٹھنے لگا۔ میں بستر سے اٹھا اور سگریٹ کے ٹکڑے کو مسلا۔ ابھی اٹھارہ منٹ باقی تھے۔ اٹھارہ منٹ اور، اور پھر یہ کام ختم ہو جانا تھا۔ مجھے فٹ بال کے بارے میں خیال آیا، ڈین مارینو۔۔۔ 42 ویں اسٹریٹ کی وہ طوائف بھی جو مجھے کار کی اگلی سیٹ پر بٹھا کر فلیتو کرنے لگتی ہے۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ میں کسی بھی شے کے بارے میں نہ سوچوں۔

    وہ بالکل وقت پر آیا۔ اس کی اچھل اچھل کر چلنے والی چال اور کندھوں تک لمبے بالوں نے مجھے اس کو پہچاننے میں مدد دی۔ وہ کیفے کے باہر ایک انتہائی روشن جگہ پر پڑی میز کے پاس ایسے بیٹھا کہ اس کا چہرہ بالکل میرے سامنے تھا۔ یہ درمیانی دوری والے نشانہ کے حوالے سے ایک کامل زاویہ تھا۔ اور میں اسے آنکھیں بند کرکے بھی لگا سکتا تھا۔ انفرا۔ ریڈ کا نقطہ اس کے سر کے ایک طرف بائیں سے تھوڑا آگے تھا۔ میں اسے دائیں طرف اس وقت تک موڑتا رہا جب تک وہ بالکل وسط میں نہ پہنچ گیا اور تب میں نے اپنی سانس روک لی۔

    اور جب، میرے لیے سب کچھ تیار تھا، ایک بوڑھا آدمی دو تھیلوں میں اپنا متاعِ حیات لیے، گھومتا گھماتا وہاں پہنچا۔۔۔ ایک عام بے گھر بندہ، جن سے یہ شہر بھرا پڑا ہے۔ جیسے ہی وہ کیفے کے سامنے پہنچا، اس کے تھیلوں میں ایک کا دستہ ٹوٹا اور تھیلا نیچے گر گیا اور اس میں موجود سارا کاٹھ کباڑ باہر نکلنے لگا۔ مجھے نظر آیا کہ گریس کے جسم میں ایک تناﺅ آیا اور اس کے منہ کے ایک کونے میں اینٹھن پیدا ہوئی، اور وہ ساتھ ہی بوڑھے کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ فٹ پاتھ پر گھٹنوں کے بل جھکا اور ردی اخبار اور ٹین کے خالی ڈبے اکٹھے کرتے ہوئے تھیلے میں واپس رکھنے لگا۔ میری شِست اس پر بندھی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ اب میرا تھا۔ لال نقطہ اب اس کے ماتھے کے وسط میں یوں چمک رہا تھا جیسے کسی انڈین کے ماتھے پر روغنی ٹیکا لگا ہو۔ یہ چہرہ جو کہ اب میرا تھا، بوڑھے کو دیکھ کر مسکرایا تو اس پر ایک چمک آئی۔ ایسی چمک جو کسی گرجا گھر میں دیوار پر ٹنگی مقدس مذہبی پیشواﺅں کی پینٹنگز میں ان کے چہروں پر ہوتی ہے۔

    میں نے شِست سے نظر ہٹائی اور اپنی انگلی کو غور سے دیکھا۔ یہ ٹریگر کی پکڑ پر کانپ رہی تھی۔ یہ نہ صرف باہر بلکہ سُن بھی تھی۔ میں اس انگلی کے ساتھ کام پورا نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو دھوکہ دینے کی ضرورت نہیں ، مجھ سے یہ کام ہونا ہی نہ تھا۔ میں نے سیفٹی کیچ لگایا، بولٹ کو واپس دھکیلا اور گولی اپنے چیمبر میں واپس چلی گئی۔

    میں بندوق کو اس کے بکسے میں رکھا اور اسے ساتھ لیے کیفے کی طرف بڑھا۔ اب یہ بندوق نہیں تھی، یہ اس کے پانچ بے ضرر حصے تھے۔ میں گیا اور گریس کی میز پر اس کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور ایک کافی منگوائی۔ اس نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ اس نے مجھے پچھلی بار تب دیکھا تھا جب میں فقط گیارہ برس کا لڑکا تھا لیکن اسے، مجھے پہچاننے میں کوئی دِقت نہ ہوئی۔ اسے میرا نام تک یاد تھا۔ نوٹوں سے بھرا لفافہ میز پر رکھ کر میں نے اسے بتایا کہ کسی نے، اسے قتل کرنے کے لیے میری خدمات کرایے پر لیں تھیں۔ میری کوشش تھی کہ خود کو ٹھنڈا رکھوں اور ایسا ظاہر کروں کہ جیسے میں نے یہ کام کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ گریس مسکرایا اور اس نے کہا کہ اسے یہ پتہ تھا۔ اور یہ کہ یہ بندہ وہ خود ہی تھا جس نے لفافے میں مجھے پیسے بھجوائے تھے کیونکہ وہ مرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ میں اس سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ میں ہکلایا اور پوچھا کہ کیوں؟ کیا اسے کوئی مہلک بیماری لاحق تھی؟ ”بیماری؟“ ،اس نے قہقہہ لگایا۔ ” ہاں، ایک طرح سے۔ تم یہ کہہ سکتے ہو۔“ اس کے منہ کے ایک کونے میں پھر سے اینٹھن ابھری، ویسی ہی جیسی میں کھڑکی میں سے، پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اور پھر اس نے بولنا شروع کیا؛

    ”میں جب بچّہ ہی تھا، یہ بیماری تب سے مجھے لاحق ہے۔ اس کی نشانیاں بہت واضح تھیں، لیکن کسی نے بھی اس کا علاج کرانے کی کوشش نہ کی۔ میں ہمیشہ اپنے کھلونے دوسرے بچّوں کو دے دیتا تھا۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا، میں نے کبھی کوئی شے چرائی نہ تھی۔ مجھے کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ اسکول میں لڑائی کے دوران جوابی حملہ کروں۔ مجھے ہر بار یہ پتہ ہوتا کہ میں نے اپنا دوسرا گال ہی آگے کرنا تھا۔ میرے دل کی اچھائی ایک مجبوری کی طرح دن بدن بڑھتی گئی لیکن کوئی بھی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کے برعکس اگر میں اندر سے برا ہوتا تو وہ مجھے کسی نہ کسی طور اسے کم کرنے پر مائل کرتے یا کچھ اور کرتے۔ وہ اسے ختم کرنے کی بھی کوشش کرتے۔ لیکن جب آپ اچھے ہوتے ہیں ؟۔۔۔ تو ہمارے سماج میں لوگوں کو یہ بات زیادہ راس آتی ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں اسے وصول کرتے رہیں۔۔۔ اور جواب میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے چند تعریفی کلمات کہتے رہیں۔ یوں میری حالت مزید بگڑتی گئی۔ یہ اس حد تک بگڑ گئی کہ میں تسلی سے کھانا بھی نہیں کھا سکتا اور میں ہر نوالہ چبانے کے بعد رُک جاتا اور ڈھونڈتا کہ مجھ سے زیادہ بھوکا کہیں کوئی اور تو نہیں۔۔۔ تاکہ میں اپنا کھانا اس سے بانٹ کر کھا سکوں۔ اور تو اور راتوں میں میرا سونا حرام ہو گیا۔ خود ہی سوچو کہ ایک بندہ، نیو یارک میں رہتے ہوئے سونے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے، جبکہ اس کے گھر سے ساٹھ فٹ کے فاصلے پر پارک میں، بینچوں پر بیٹھے لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں؟

    اس کے منہ کے کونے پر اینٹھن پھر سے چھائی اور اس کا سارا بدن لرز اٹھا۔ ”میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتا، نیند کے بغیر، کھانے کے بغیر، محبت کے بغیر، زندگی کیسے گزر سکتی ہے۔ ایسا بندہ جس کے پاس محبتیں لٹانے کے لیے وقت ہے، جب کہ اس کے گردا گرد بے تحاشہ تکلیفیں ہیں، زبوں حالی ہے؟ یہ ایک برا خواب ہے۔ میرے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرو۔ میں نے تو ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔ یہ تو ایک طرح کا ’ ڈائی بُک‘ ہے، فرق بس اتنا ہے کہ شیطان کی جگہ آپ میں ایک فرشتہ گھس جائے۔ لعنت ہے۔ اگر شیطان مجھ میں گھسا ہوتا تو کسی نہ کسی نے مجھے کب کا ختم کر دینا تھا۔ لیکن یہ فرشتہ پن؟“ گریس نے ہولے سے آہ بھری اور اپنی آنکھیں بند کیں۔

    ” سنو۔“ ، وہ پھر سے بولنے لگا، ” یہ ساری رقم لو۔ جاﺅ اور کسی چھت یا بالکنی میں جا کر اپنی جگہ سنبھالو اور اپنا کام ختم کرو۔ ظاہر ہے کہ میں یہ کام خود نہیں کر سکتا۔ اور میرے لیے زندہ رہنا ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مہربانی کرو، اوپر کسی چھت پر جاﺅ اور یہ کام کر دو۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔“ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ یہ ایک اذیت بھرا چہرہ تھا، ویسے ہی جیسے صلیب پر لٹکے ہوئے مسیح کا ہو۔۔۔۔ بالکل مسیح جیسا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ میں کیا کہوں۔ میں، جس کے پاس ہمیشہ جواب ہوتا تھا، اقرار لینے والے پادری کے لیے، مئے خانے میں بیٹھی ایک طوائف کے لیے یا کسی وفاقی پلسیے کے لیے، لیکن اس کے لیے؟ میں اس کے سامنے یتیم خانے والا وہی ایک ننھا، ڈرا ہوا بچّہ تھا، جو ہر غیر متوقع حرکت پر دبک جاتا تھا۔ اور وہ ایک اچھا بندہ تھا اور میں اسے کبھی بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ میں تو اسے مارنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میری انگلی نے تو ٹریگر کے گرد لپٹنا ہی نہیں تھا۔

    ”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں کافی دیر بعد ہولے سے بولا، ” میں یہ نہیں۔۔۔“
    ” تم مجھے مار بھی نہیں سکتے۔“ ، وہ مسکرایا ، ” چلو ٹھیک ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ تم پہلے نہیں ہو۔ تم سے پہلے بھی دو بندے اور تھے جنہوں نے مجھے لفافہ لوٹا دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب بد دعا کا حصہ ہے۔ تم، یتیم خانہ اور سب۔۔۔ “، اس نے کندھے اچکائے، ” اور میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہوں۔ ایسے ہی مجھے خیال آیا تھا کہ شاید تم میری بھلائی کا بدلہ چکا دو گے۔“

    ”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں نے پھر سے سرگوشی کی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، ” کاش کہ میں ایسا کر سکتا۔۔۔“

    ”اس کا ملال مت کرو۔“ اس نے کہا، ” میں سمجھتا ہوں۔ کچھ نہیں بگڑا۔ چھوڑو دفع کرو۔“، اور جب اس نے مجھے کافی کا بل اٹھاتے دیکھا تو وہ منہ ہی منہ میں مسکرایا۔ ” کافی میرے کھاتے میں، اور میں اس پر اصرار کرتا ہوں، تمہیں پتہ ہی ہے کہ ایسا کرنا ہی تو میری بیماری ہے۔“ مڑا تڑا نوٹ جیب میں واپس رکھتے ہوئے، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا۔ جب میں چند قدم آگے بڑھ گیا تو اس نے مجھے آواز دی۔ میں اپنی بندوق وہیں بھول گیا تھا۔

    میں، دل ہی دل میں خود پر لعنت بھیجتا، اسے لینے واپس گیا اور مجھے لگا جیسے میں اس پیشے میں نووارد ہوں۔

    تین دن بعد، ڈیلس میں کوئی سینیٹر میرے ہاتھوں مرا۔ یہ مشکل کام تھا۔ دو سو گز کی دوری، آدھا چھپا آدھا نظر آتا بندہ، اوپر سے ایک طرف کو کھینچتا ہوا کا دباﺅ، پھر بھی وہ فرش پر گرنے سے پہلے مر چکا تھا۔

    (ایٹگر کریٹ کا عبرانی افسانہ جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

  • تیرتھ رام:‌ ایک کام یاب مدیر، بہترین مترجم

    تیرتھ رام:‌ ایک کام یاب مدیر، بہترین مترجم

    کسی زبان کے پھلنے پھولنے میں ترجمہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اردو ادب کی بات کی جائے تو کئی نئی اصنافِ ادب سے ہم ترجمے کی بدولت ہی آشنا ہوئے اور بعد میں تخلیق کاروں نے ان اصناف کو اپنایا بھی اس سے دنیا کی مختلف زبانوں سے کسی زبان میں ترجمہ کی اہمیت اور ضرورت واضح ہوتی ہے۔ یہاں ہم تذکرہ کریں گے منشی تیرتھ رام فیروز آبادی کا جو اپنے دور کے ایک ناول و افسانہ نگار، مدیر اور بہترین مترجم تھے۔

    منشی صاحب کے حالاتِ‌ زندگی اور ترجمہ کے میدان میں ان کے کام پر بات کرنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ متحدہ ہندوستان میں جدید عہد میں اردو زبان میں ترجمے کا کام وسیع پیمانے پر فورٹ ولیم کالج کی سرپرستی میں ہوا۔ ترجمہ کی روایت ہمارے یہاں مغرب سے داخل ہوئی اور برطانوی دور میں مستحکم ہوتی چلی گئی۔ منشی صاحب اسی زمانے کے آدمی تھے جب ہندوستان میں اردو کے بڑے بڑے نثر نگار اور شعرا بھی عالمی ادب سے تراجم کا کام کررہے تھے۔

    اس دور میں ماہرینِ لسانیات اور نثر نگاروں نے ترجمہ کے حوالے سے اصول اور طریقے بھی بیان کیے تاکہ آنے والے دور میں مترجمین کو آسانی ہو جائے اور ترجمے کا کام ایک منظم شکل میں ہوسکے۔ ترجمہ کو طبع زاد کی ضد بھی کہا جاتا ہے اور اکثر اس کے مقابلہ میں یہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے، لیکن دوسرے فنون کی طرح ترجمہ نگاری ایک فن ہے اور ادب میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔ ترجمہ ہی وہ فن ہے جس کے ذریعے سے ایک قوم دوسری قوم کے ذخیرۂ علم و ادب سے آشنا ہوتی رہی ہے۔ ناول نگار، افسانہ نگار، مدیر اور مترجم منشی تیرتھ رام فیروز آبادی کا سنہ پیدائش 1885 بتایا جاتا ہے جب کہ وفات کا سنہ 1954ء ہے۔ تاہم اس پر اختلاف بھی ہے۔ وہ غیرمعمولی شخصیت تھے جس نے واجبی تعلیم کے باوجود اپنے علم اور زورِ قلم سے طبع زاد تخلیقات کے ساتھ ترجمہ کے میدان میں اعلیٰ پائے کا کام کیا۔ منشی تیرتھ رام فیروز آبادی نے 40 سال سے بھی کم عرصے کے دوران 155 سے زائد کتابوں پر پھیلے ہوئے ہزاروں صفحات پر مشتمل ترجمہ شدہ نثری افسانے تیار کیے۔

    وہ تقسیم سے قبل لاہور میں رہے، لیکن اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ فیروز پوری جوڑا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منشی صاحب فیروز پور، پنجاب کو اپنا اصل مقام سمجھتے تھے۔ ان کی فارسی اور بعض عربی بھی بتاتی ہے کہ انھوں نے کسی مقامی مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ فیروز پور، جو اس وقت ایک چھوٹا تجارتی مرکز تھا لیکن آہستہ آہستہ ایک فوجی چھاؤنی کے طور پر جانا گیا، اس میں کئی مدرسے اور ایک سرکاری ہائی اسکول تھا۔ چوں کہ منشی صاحب کے درست حالاتِ زندگی یا ان کے تعلیمی سفر کا علم پوری طرح نہیں تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منشی صاحب نے میٹرک کے دوران انگریزی سیکھی تھی اور ان کا افسانوں کی جانب رجحان بڑھا تھا۔ وہ اسکول کی لائبریری اور بک اسٹال سے کتابیں پڑھ کر سیکھتے رہے اور کالج تک نہیں جاسکے۔

    1902 یا 1903 کے آس پاس میٹرک کے بعد منشی صاحب لاہور چلے گئے۔ وہاں بہت سے اشاعتی ادارے اور پرنٹنگ پریس تھے۔ اس شہر میں منشی صاحب نے ابتدائی چند سال کس طرح گزر بسر کی، اس کا بھی کچھ علم نہیں ہوسکا۔ لیکن پھر وہ ایک مدیر اور مترجم کے طور پر مشہور ہوئے۔ غالباً انھوں نے اپنے جریدے کے لیے لکھنا شروع کیا اور مضمون نگار کے طور پر جگہ بناتے ہوئے تراجم بھی شروع کردیے۔ ادیب (الہ آباد) وہ رسالہ تھا جس میں ان کے مضامین 1910 اور 1913 کے درمیان شائع ہوتے رہے۔ وہ مختلف موضوعات پر لکھتے تھے جن میں اخذ کردہ اور تراجم پر مبنی معلومات شامل ہوتی تھیں۔

    منشی صاحب کی بطور مترجم پہچان 1915 میں اس وقت ہوئی جب ان کے ناشر، لال برادرز، نولکھا، لاہور نے ترجمان شروع کیا، جو فلسفے، سائنس، اور ادب پر ماہ نامہ تھا اور اس کے مدیر منشی تیرتھ رام تھے۔ انھوں نے یہاں کئی ناولوں اور مضامین کا ترجمہ کرکے شایع کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے ہزاروں صفحات ترجمہ کرکے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی اور یہ حیرت انگیز تھا کہ صرف میٹرک پاس شخص اتنے بہترین تراجم کس طرح کرسکتا ہے، لیکن یہ منشی صاحب کا جنون اور وہ شوق تھا جس نے انھیں اس مقام پر پہنچایا۔

    منشی تیرتھ رام فیروز آبادی نے ایسے ناولوں کا ترجمہ کیا جو سادہ اور معیاری انگریزی میں لکھے گئے تھے۔ 1947 میں منشی صاحب کا ہندوستان جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن حالات نے ان کو لاہور چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ جالندھر میں آباد ہو گئے اور جلد ہی اشاعتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ لیکن پھر زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔ کہتے ہیں کہ ان کا انتقال دلّی میں ہوا تھا۔ شہر لاہور کے علمی اور ادبی ماحول میں رہتے ہوئے معمولی تعلیم کے باوجود تیرتھ رام نے انگریزی سے خوب تراجم کیے اور لاہور چھوڑنے کے بعد ان کا دل نہ لگتا تھا۔

    تیرتھ رام نے اس دور کے تقریباً تمام مشہور انگریزی جاسوسی اور سنسنی خیز کہانیوں اور پراسرار واقعات پر مبنی ناولوں کا ترجمہ اس انداز میں کیا تھا کہ قاری کو پڑھتے وقت کہیں بھی اس کے ترجمہ ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے زیادہ تر ناول لاہور کے نرائن دت سہگل اینڈ سنز نے شائع کیے تھے۔ تیرتھ رام کے تراجم کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ناشر کے پاس ان کے مستقل خریداروں کی ایک فہرست تھی جنھیں ہر مہینے اشاعت کے بعد بذریعہ ڈاک ناول ارسال کیا جاتا تھا۔

  • ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر اردو تراجم کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ایسی آرا سامنے آتی رہی ہیں کہ ایک تاثر تشکیل پاتا ہے جیسے اردو ترجمہ پڑھنا بہ ذات خود ایک کم تر اور پست ذہن کا کام ہو۔ کچھ لوگ انگریزی زیادہ اچھے سے پڑھ لیتے ہیں اور وہ ایک ادائے دل بری سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو براہ راست انگریزی ہی میں کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں (جیسے اردو ترجمہ پڑھنا ایسا ہو جیسے ہماری زبان میں کچھ پیشوں اور کچھ ذاتوں کو ’نیچ‘ کے درجے پر رکھ دیا گیا ہے)۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ جو انگریزی کتاب وہ پڑھ رہے ہیں، وہ انگریزی میں نہیں لکھی گئی، بلکہ خود کسی دوسری زبان سے کیا گیا ترجمہ ہے۔ یعنی مسئلہ ترجمہ نہیں ہوتا، بلکہ انگریزی زبان سے جڑی ’برتری‘ کی غیر منطقی سوچ ہوتی ہے۔ جس نے نفسیات میں گھر کر لیا ہے۔ یہ پوسٹ کولونیل دور کی ایک حقیقت ہے۔ اور قابل ہم دردی بھی۔

    اردو ترجمے سے متعلق عام طور سے ترجمے کے کئی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ مجھے ان میں سے کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، میں ان میں دو مزید اہم نکتے شامل کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اسے عام قارئین کے لیے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہو، کیوں کہ اس قسم کی باتیں مخصوص اصطلاحات میں کی جاتی ہیں، تاکہ طویل وضاحتی اقتباسات سے بچا جا سکے، ورنہ ایک ہی بات کے متعدد پہلوؤں کو تفصیلاً بیان کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ میری بات سہولت سے سمجھ میں آ سکے۔

    ثقافتی ڈسکورس (کلامیہ): تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ یعنی جس زبان میں ادب لکھا گیا ہے، وہ زبان جس معاشرے میں بولی جاتی ہے، اس معاشرے میں وہ زبان کس طرح اور کیوں معنی سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک عام جملہ گرائمر کے اصولوں کی پیروی کرتا ہے، لیکن ایک ڈسکورس جملے اور جملوں کے درمیان ربط سے پیدا ہونے والا ایک نیا معنیٰ ہے، جو زیادہ تر سیاسی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی کالونی کے طور پر برصغیر سے متعلق یہ جملہ بہت عام رہا ہے، اور لوگ اسے اپنے مضامین میں کوٹ کرتے رہے ہیں: ’’برصغیر کے عوام ثقافتی اور علمی طور پر پس ماندہ ہیں۔‘‘ اپنے ظاہری معنی میں یہ ایک عام سا جملہ تھا لیکن دراصل یہ کالونیل دور کے ’’آقاؤں‘‘ کا انھیں ’’تہذیب یافتہ‘‘ کرنے کا حیلہ تھا۔ اسی سے جڑا ہوا ایک جملہ اب بھی عام ہے، ’’برصغیر کے عوام آج تک ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکے‘‘ یہ بھی اپنے ظاہری معنی سے کہیں زیادہ معنی اور سیاسی معنی کا حامل جملہ ہے۔ اس کے ذریعے آج کے پوسٹ کالونیل دور کے ’’آقا‘‘ ان افراد پر حملہ کرتے ہیں جو ’’مقامی سامراج‘‘ کو بے نقاب کرتے ہیں اور وہ جواب میں انھیں کبھی ’’مغرب کے پروردہ‘‘ کبھی وطن اور کبھی دین کے ’’غدار‘‘ قرار دیتے ہیں۔

    کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے معاشرے کے لوگوں کی سوچ کتنی تہہ دار ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے رہنما اصول کس گہرائی کے ساتھ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔

    معنی کا فہم: مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟

    یعنی مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے، تو محض اس کا قاموسی معنیٰ (لغت/ڈکشنری) ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزا محسوس ہوتے ہیں۔ اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    لغت میں مترجم کو متبادل لفظ تو مل جائے گا، لیکن جیسا کہ ساختیات بتاتی ہے کہ معنیٰ کا بھی معنیٰ ہوتا ہے، اگر اس معنی کا فہم حاصل نہیں ہو سکا ہے تو ترجمے کے عمل میں ثقافتی صورت حال ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے۔ ایک عام سے جملے کا ایک عام سا ترجمہ ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اس جملے کا ایک معنیٰ تہذیبی اور سیاسی تناظر میں بھی تشکیل پاتا ہے، اس معنی تک پہنچنے کے لیے مترجم کو ڈسکورس کے جدید لسانیاتی اور فلسفیانہ تصور سے شناسائی مددگار ہوتی ہے۔

    اوپر میں نے زبان کے محاسن کی بات کی ہے، اس کا اشارہ کلام کے محاسن کی طرف تھا۔ ہم اپنی گفتگوؤں اور تحاریر میں عموماً اپنے آئیڈیاز پیش کیا کرتے ہیں۔ ادب میں ہم اس مقصد کے لیے کلام کے محاسن سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اپنے بیان میں معنی کی ایک سے زائد پرتیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان ایک سے زائد اور مختلف پرتوں تک رسائی ترجمے کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اکثر اسی سبب ترجمہ ناقص قرار پاتا ہے، یا مترجم خود کو ایک مشکل صورت حال میں گرفتار پاتا ہے۔

    معنی کے فہم کے سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ تراجم کے ضمن میں عموماً یہ مذکور کیا جاتا ہے کہ معنیٰ ثقافتی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ اس بات کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ مترجم کے پاس ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے رشتہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ترجمے کے اندر بھی معنی سازی کا عمل متن کی زبان کے اپنے ثقافتی تناظر میں آگے بڑھتا ہے۔ یعنی ترجمہ اگر کسی فکشن کے متن کا ہے تو صرف کہانی ہی منتقل نہیں ہوتی، اس میں موجود ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظریات کا ایک پیکج بھی ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ مترجم اگر ثقافتی یا تہذیبی تصادم جیسے کسی نظریے پر یقین رکھتا ہو، تو اصل میں وہ نقب زن ہے مترجم نہیں۔ اپنے تصادمی سوچ کے باوجود وہ دوسری زبان کے متون میں دل چسپی لے رہا ہے لیکن ترجمے کے عمل میں اسے پورا پیکج قبول نہیں۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک طرف اگر وہ اُس متن کے معنی کے پیکج کو مسترد کرتا ہے تو دوسری طرف عین استرداد کے اُسی لمحے میں وہ معنی کے اس نظام کو منہدم کر کے اپنی پسند کی معنویت تشکیل دے دیتا ہے۔ یعنی معنی کے ایک نظام کا انہدام از خود ایک اور نظام کی تشکیل کے مترادف ہوتا ہے۔ اس طرح تصادمی سوچ ترجمے کے عمل کو مہملیت کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس عمل میں موجود ایک حماقت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے جو ترجمے کے میدان کو تہذیبوں کے تصادم کا میدان سمجھ کر کارفرما ہوتی ہے۔

    اس تمام قضیے کی جو بنیادی الجھن ہے وہ اس سوال کی صورت میں ہے کہ جس زبان کے متن کا ترجمہ ہدف ہے، کیا وہ برتر زبان ہے؟ کیا ترجمہ اس کے آگے محض حاشیائی اہمیت کا حامل ہے؟ میں نے اس پر ڈی کنسٹرکشن کو متعارف کرانے والے فلسفی ژاک دریدا کی فکر کے تناظر میں جتنا غور کیا ہے، اس کی جڑیں میں نے کسی زبان میں مسلسل آنے والی تبدیلی و ترقی کے عمل میں پیوست پائی ہیں۔ کوئی بھی متبادل لفظ ترجمے کی زبان ہی کا لفظ ہونا چاہیے، اس یونیورسل رعایت کے ساتھ کہ زبانیں مشترک الفاظ کا ایک ذخیرہ بھی رکھتی ہیں۔ زبان کو ایک اصطلاح کی منتقلی کے دوران خود کو وسعت آشنا بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ جاپانی پروفیسر کے ساتھ ژاک دریدا کی خط و کتابت میں "ڈی کنسٹرکشن” کے جاپانی متبادل پر گفتگو ہوئی اور خود انگریزی و فرانسیسی میں اس اصطلاح کے اندر موجود پیچیدگی زیر بحث آئی، لیکن دریدا کا مؤقف تھا کہ اس کا جاپانی متبادل جاپانی زبان کے اپنے پس منظر میں ہونا چاہیے۔ ایک زبان دوسری پر تسلط قائم نہیں کر سکتی۔ ایک اصطلاح کے لیے دوسری زبان میں موزوں متبادل کی تلاش کی یہ کوشش اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ زبان کے ماہرین کے درمیان یہ معمول کی ایک سرگرمی ہے۔ زبان میں اگر ترقی کا عمل جاری ہے تو وہ دیگر زبانوں کے ثقافتی پیکجز سے نہ تو گبھراتی ہے نہ اس کے آگے خود کو اس کا "دوسرا” محسوس کرتی ہے۔

  • آخری جماعت

    آخری جماعت

    اس صبح مجھے اسکول سے خاصی تاخیر ہو چکی تھی، اور میں ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرا ہوا تھا۔ خاص طور پر سَر ہامل نے کہا ہوا تھا کہ وہ اسم، صفت اور فعل کا امتحان لیں گے، اور مجھے ان کے بارے میں ٹھیک سے پتا نہیں تھا۔

    ایک لمحے کے لیے میں نے اسکول سے دور رہنے اور کھیتوں میں آوارہ گردی کا سوچا، میں یہ سب اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ امتحان سے بچ سکوں مگر میرے اندر مزاحمت کی طاقت نہیں تھی اور میں اتنی تیزی سے اسکول کی طرف دوڑا جتنا تیز میں چل سکتا تھا۔

    میں کوتوال کے دفتر کے پاس سے گزرا تو دیکھا یہاں چند لوگ ایک بورڈ کے گرد جمع تھے جس پر نوٹس آویزاں کیا گیا تھا۔ گزشتہ دو سال سے ہماری تمام بری خبریں اسی بورڈ پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ ”ہم جنگ ہار گئے“ ہیڈ کوارٹر کی طرف سے فوج میں جبری بھرتی کا حکم، میں نے بغیر رکے سوچا، ”اب کیا ہو گا؟“ پھر جب میں دوڑتے ہوئے چوک کے پاس سے گزرا۔

    ایک محافظ لوہار نے جو اپنے شاگردوں کے ساتھ کھڑا ”اعلان“ پڑھ رہا تھا مجھے پکار کر کہا۔ ”بچے…. اتنی جلدی نہ کرو، تم جلد ہی اسکول پہنچ جاؤ گے۔“

    میں نے سوچا وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں دوڑا سَر ہامل کے چھوٹے سے حصے کی طرف جو اسکول میں اس کے لیے وقف تھا۔ پھولی ہوئی سانس کے ساتھ۔ عام طور پر اسکول کے آغاز کے وقت بہت شور ہوتا تھا جو گلیوں میں بھی سنائی دیتا۔ ڈیسک کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں، اکٹھے ہو کر سبق دہرانے کی آوازیں، ہمارے کان اس کے عادی ہو چکے تھے اور استاد کا بید جسے وہ ڈیسک پر مارتے رہتے۔

    ”ایک دم خاموشی؟“ عام دنوں میں، مَیں اپنے ڈیسک تک پہنچنے تک اس شور پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ مگر اس دن مکمل خاموشی تھی۔ ایک اتوار کے دن کی طرح۔

    اگرچہ میں دیکھ سکتا تھا کمرے کی کھڑکیوں سے کہ میرے ساتھی اپنی جگہوں پر پہلے ہی بیٹھے تھے اور سَر ہامل کمرے میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک آہنی رولر اپنی بغل میں دبائے۔ میں نے دروازہ کھولا اور اس مکمل خاموشی کے ماحول میں داخل ہو گیا۔

    سَر ہامل نے میری طرف دیکھا، ان کی نظر میں غصہ نہیں تھا بہت تحمل تھا۔
    ”فوراً اپنی نشست پر پہنچ جاؤ میرے چھوٹے، ہم تمہارے بغیر ہی شروع کرنے والے تھے۔“

    میں نشست کی طرف بڑھا اور فوراً بیٹھ گیا۔ اس وقت تک میں اپنی گھبراہٹ پر جزوی طور پر قابو پا چکا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارا استاد آج اپنا خوب صورت نیلا کوٹ پہنے ہوئے ہے۔ دھاری دار گلو بند اور سیاہ ریشمی کڑھائی والا پاجامہ جسے وہ صرف ان دنوں میں پہنتے جب تقسیمِ انعامات کا موقع ہوتا یا اسکول کے آغاز کا دن۔

    اس کے علاوہ جماعت میں گہری سنجیدگی تھی مگر میرے لیے سب سے حیرانی کا باعث کمرے کا وہ پچھلا حصہ تھا جو عام طور پر خالی رہتا تھا۔ وہاں گاؤں کے چند لوگ بیٹھے تھے، اتنے ہی خاموش جتنے ہم۔

    تین کونوں والے ہیٹ پہنے معزز بزرگ، سابق کوتوال، سابق پوسٹ ماسٹر اور ان کے ساتھ اور لوگ۔ وہ سب پریشان لگ رہے تھے۔ اور معززین کے پاس پرانے ہجوں والی ایک کتاب تھی جس کے کونے کُترے ہوئے تھے۔ جسے ان میں سے ایک نے اپنے گھٹنوں پر کھول کر رکھا ہوا تھا اور اپنی عینک کو ترچھا کیا ہوا تھا۔
    اسی دوران جب میں اس سب پر حیران ہو رہا تھا، سَر ہامل نے آغاز کیا اور یہ اتنا ہی تحمل آمیز اور سنجیدہ آواز میں تھا جسے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اپنایا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا۔

    ”میرے بچو! یہ آخری دفعہ ہے جب میں تمہیں پڑھاؤں گا۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ السیشن اور لوریانی میں جرمن زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں کچھ نہ پڑھایا جائے۔ نیا استاد کل آ جائے گا۔ فرانسیسی کی یہ آخری جماعت ہے۔ تو میری درخواست ہے بہت توجہ سے سنو۔“

    ان چند الفاظ نے مجھے مغلوب کر دیا۔ اچھا یہ وہ بدمعاشی تھی جو کوتوالی کے دفتر کے سامنے آویزاں تھی۔

    ”فرانسیسی میں میری آخری جماعت!“

    میں ابھی ٹھیک سے لکھنا نہیں جانتا تھا، تو میں نہیں سیکھ سکوں گا۔ میں یہیں رک جاؤں گا جہاں میں ہوں۔ میں اپنے سے بہت ناراض تھا کہ میں نے کتنا وقت ضایع کیا۔ وہ سبق جو میں نے چھوڑ دیے۔ گھونسوں کے پیچھے بھاگتے، سارا دن دریا میں پھسلتے ہوئے گزار دیا۔

    بیچارہ! یہ آخری سبق کا تقدس تھا کہ اس نے یہ لباس پہننا تھا اور اب مجھے گاؤں کے ان معززین کی کمرے میں موجودگی بھی سمجھ آ گئی۔ ایسا لگتا تھا انہیں کبھی کبھی اسکول نہ آنے کا پچھتاوا تھا۔ ہمارے استاد کی ایمان دارانہ چالیس سال کی نوکری کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریقہ تھا اور اجداد کی سرزمین کو عزت دینے کا جو اب برباد ہو رہی تھی۔

    میں انہی خیالات میں گم تھا کہ مجھے اپنا نام پکارنے کی آواز آئی۔ یہ میری سبق کی قرأت کرنے کی باری تھی۔ میں اسم کی حالتوں کے اصولوں کو شروع سے آخر تک پڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اونچی آواز میں بغیر اٹکے۔ لفظوں کو پہلے لفظوں سے ملا جلا دیا اور اپنی نشست پر کھڑا جھوم رہا تھا، بھاری دل کے ساتھ سر اٹھانے سے خائف۔ میں نے سر ہامل کو کہتے سنا۔

    ”میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ میرے چھوٹے فرانٹز۔ تم بہت سزا بھگت چکے۔ ایسے ہی ہر دن ہم خود سے کہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت ہے۔ میں اسے کل یاد کر لوں گا۔ اور پھر تمہیں پتا ہے کیا ہوتا ہے؟“

    آہ ہمارے السیشنوں کی یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم آج کا سبق کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اب وہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں۔ ”تم فرانسیسی ہونے کا دعویٰ کیسے کرو گے؟، تم فرانسیسی زبان نہ بول سکتے ہو نہ پڑھ سکتے ہو۔ اس صورت حال میں پیارے فرانٹرز صرف تم نادم نہیں ہو۔ اپنے آپ کو مخاطب کریں تو ان ملامتوں میں ہم سب حصہ دار ہیں۔“

    ایک بات سے دوسری بات نکالتے سر ہامل نے فرانسیسی زبان کے بارے میں گفتگو شروع کی۔ انہوں نے کہا یہ دنیا میں خوب صورت ترین زبان تھی۔ نہایت صاف، برقرار رہنے والی، ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے۔“ اس کے بعد سر نے گرامر کی کتاب اٹھائی اور ہمارا سبق پڑھا۔

    میں حیران ہوا کہ کتنی آسانی سے میری سمجھ میں آ گیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا مجھے نہایت آسان محسوس ہوا۔ بہت آسان۔ میں جانتا ہوں کہ پہلے میں نے اتنے غور سے نہیں سنا اور یہ ان کی وجہ سے بھی تھا کہ اس سے پہلے انہوں نے سمجھاتے وقت اتنے تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ استاد جاتے ہوئے ہمیں سارا علم سونپنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ایک ہی پھونک سے ہمارے ذہنوں میں بھرنا چاہتا ہے۔

    جب سبق ختم ہوا ہم لکھنے کی طرف آئے اور اس دن سَر کچھ بالکل ہی نئی مثالیں تیار کر کے لائے تھے، جو انہوں نے خوشخط کر کے لکھیں۔

    اسکول کی چھت پر کبوتر آہستگی سے بول رہے تھے اور میں نے اپنے آپ سے کہا جیسے میں نے ان کو سنا۔

    دیر بہ دیر جب بھی میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں میں نے سر ہامل کو کرسی پر ساکت بیٹھے پایا۔ سب چیزوں کو گھورتے ہوئے جیسے وہ اپنے ساتھ اس چھوٹے سے اسکول کو بھی اٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔

    ذرا سوچو! چالیس سال سے وہ یہاں ہیں۔ اس کی بہن کمرے میں چکر کاٹ رہی ہے اور سامان باندھ رہی ہے کیوں کہ کل انہوں نے جانا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ کے لیے۔ تاہم ان میں آخر تک جماعت کو پڑھانے کی ہمت تھی۔ لکھنے کے بعد وہ تاریخ کے مضمون کی طرف آئے اور تمام چھوٹے بچوں نے مل کر گایا با…. بی…. بی…. بو…. بو…. وہاں کمرے کے پچھلے حصے میں بوڑھے معززین نے اپنی عینکیں پہن لیں اور قدیم ہجوں والی کتاب کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ انہوں نے بھی بچوں کے ساتھ ہجے کرتے ہوئے آواز ملائی۔ میں نے دیکھا سر بھی اپنی آواز ساتھ ملا رہے تھے۔ ان کی آواز جذبات سے بھرا گئی۔ اور میرے لیے ان کو ایسے دیکھنا ایک مزاحیہ بات لگ رہی تھی۔ ہم سب ہنس رہے تھے، رو رہے تھے، آہ…. میں اس آخری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔

    اچانک گرجے کی گھڑی نے بارہ بجائے، دعا پڑھی گئی۔ سر ہامل موت کی طرح زرد، اپنی کرسی سے اٹھے، اس سے پہلے وہ مجھے کبھی اتنے لمبے محسوس نہیں ہوئے۔

    ”میرے دوستو“ انہوں نے کہا…. ”میرے دوستو، میں …. میں ….“ مگر کسی چیز نے ان کی آواز کو گھوٹ دیا۔ وہ اپنا جملہ مکمل نہ کر سکے۔

    وہ تختہ سیاہ کی طرف بڑھے، چاک کا ایک ٹکڑا اٹھایا، اور اپنی تمام ہمت جمع کر کے اتنے بڑے حروف میں لکھا جتنا وہ لکھ سکتے تھے۔

    ”فرانس دائم آباد“

    پھر وہ اپنا سر دیوار کے ساتھ لٹکائے وہاں کھڑے رہے، بغیر کچھ بولے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، ”بس…. اب جاؤ۔“

    (فرانسیسی ادیب الفونزے ڈاؤڈٹ کی اس کہانی کے مترجم آکاش منور ہیں)

  • دستاویز

    دستاویز

    ہمارا خاندان نسلوں سے نیو یارک میں آباد ہے۔ میرا نام انتھونی پورٹر ہے، یہ نام میرے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا۔

    21 دسمبر 1820 کی بات ہے۔ ویرک اسٹریٹ پر واقع مورٹیئر ہاؤس، چارلٹن کے آخری گوشے میں منتقل کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ اب نیو یارک کے وسط میں آگیا ہے۔ منتقلی کے موقع پر میرے دادا انتھونی پورٹر نے اپنے ملازموں کی خدمات مستعار دی تھیں۔

    اس پرانی حویلی کو ایک اعزاز حاصل تھا، یہ جون 1776 سے ستمبر 1776 تک جارج واشنگٹن کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کی گئی تھی۔ منتقلی کے موقع پر باورچی خانے کی چمنی کی ایک اینٹ اکھڑی ہوئی تھی، اس کے پیچھے سے ایک خط ملا تھا۔

    یہ خط لیفٹیننٹ جنرل سر ولیم ہوو کے نام تحریر کیا گیا تھا۔ خط پر 29 جولائی 1776 کی تاریخ پڑی تھی۔ سَر ولیم ان برطانوی فوجوں کے کمانڈر تھے جو نیویارک کے اطراف میں جمع تھیں۔

    نامعلوم وجوہ سے وہ انگریز قاصد یہ خط نکالنے سے قاصر رہا جو اسے خفیہ مقام سے نکال کر منزل تک پہنچانے کا ذمے دار تھا، اس طرح یہ خط کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔

    میرے آبا و اجداد یہ خط ایک یادگار کے طور پر محفوظ کیے ہوئے تھے مگر بعد کی نسلیں ماضی کے بجائے مستقبل پر زیادہ نگاہ رکھتی تھیں۔ لہٰذا خاندان کے دیگر اہم کاغذات کے ساتھ اس خط پر بھی مٹی جمتی رہی۔

    میں چوں کہ اپنی نسل کا آخری فرد تھا اور میں نے شادی بھی نہیں کی تھی اس لیے میرا شجرہ آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی بنا پر میری دل چسپی اپنے بزرگوں کے ادوار اور ان کی نشانیوں سے بڑھتی رہی۔

    پہلی ہی بار اس خط کے متن نے مجھے متاثر بھی کیا تھا اور الجھن میں بھی ڈال دیا تھا۔ خط کا مضمون یہ تھا۔

    عزت مآب، عالی جناب جنرل صاحب!

    جب یہ خط آپ تک پہنچے گا آپ اس خط کی ایک اہم اطلاع سے با خبر ہوچکے ہوں گے یعنی ہمارا دشمن جارج واشنگٹن مرچکا ہوگا اس کے مرنے کے بعد ان کی فوج کی حیثیت ایک ایسی ناگن جیسی رہ جائے گی جس کا سر قلم کردیا گیا ہو۔

    دشمن کو کچلنے کے لیے طاقت استعمال کرنی پڑے گی لیکن اس میں کیا مضائقہ ہے۔ امید ہے، سورج غروب ہونے تک دشمن کا بالکل صفایا کردیا جائے گا۔ اس وقت تک میں بھی مرچکا ہوں گا لیکن یہ بات میرے اور میرے خاندان کے سوا کسی کے لیے اہم نہیں ہوگی۔

    میں جنرل واشنگٹن کے ادارے میں باورچی کی حیثیت سے ملازم ہوں اور پہلے بھی آپ کو باغیوں کے منصوبوں اور ان کی صف بندی کے بارے میں خبریں بھیجتا رہا ہوں اور یہ میرے اور میری نسلوں کے لیے باعثِ صد افتخار ہے کہ مجھے تاجِ برطانیہ کے لیے ایک انتہائی اہم خدمت انجام دینے کا موقع میسر آرہا ہے۔

    جنرل واشنگٹن ایک تنہائی پسند شخص ہے اور اپنے دانتوں کی تکلیف کی وجہ سے اکثر تنہا کھانا کھاتا ہے۔ حال میں سردی لگنے سے اس کے سر میں بھی تکلیف شروع ہوگئی، سر درد نے اس کے ذائقے کی حس بری طرح متاثر کی ہے۔

    آج رات کے کھانے میں، میں نے اس کے لیے بچھیا کا گوشت پیاز اور آلو پکائے ہیں اور ساتھ ہی اپنا ایک خاص جزو بھی کھانے میں شامل کیا ہے۔ یہ ایک لال پھل ہے جو نائٹ شیڈ فیملی کے ایک زہریلے پودے پر اُگتا ہے۔

    جناب والا کو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک بے حد مشکل کام ہے، میں ایک باعزت آدمی ہوں، میں نے آج تک کسی کو چوری چھپے یا عیاری سے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اس کے علاوہ میری دانست میں جنرل واشنگٹن ایک عظیم راہ نما ہے، اس کے بلند مرتبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

    خطرات میں ہوش مندی سے کام لینا اس کا شیوہ ہے، اس کی دیانت داری کی داستانیں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں، اس کی ہمت اور باتدبیری سے آپ خود بھی بہ خوبی واقف ہیں لیکن …… لیکن چوں کہ وہ میرے ملک معظم تاج دار برطانیہ عظمیٰ جارج کی خداداد حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اس لیے تاج شاہی کے ایک ادنیٰ وفادار کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں اپنے طور پر جب بھی مناسب موقع میسر آئے اس کا قصہ پاک کردوں۔

    مجھے ہر چند افسوس بھی ہے کہ میں جارج واشنگٹن، ایک بڑے آدمی کی موت کا ذمے دار ہوں گا، لیکن یہ احساس میرے افسوس پر غالب آجائے گا کہ میں نے یہ کام خدا، ملکِ معظم اور اپنے عظیم ملک کے لیے انجام دیا ہے۔

    یہاں سے چند سطریں خالی تھیں جیسے خط نا مکمل چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس کے بعد خط دوبارہ لکھا گیا تھا۔

    شکر ہے میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ میں نے جنرل کی موت اس کے خاص خادم کے ہاتھوں میں پہنچا دی ہے اور اس طرح میں نے اپنے بادشاہ (خدا اسے تا قیامت سلامت رکھے) سے کیا ہوا عہد پورا کر دیا ہے۔ اب مجھے اپنے کام کا آغاز کرنا ہے۔ میں یہ خط مقرر کردہ جگہ پر رکھ دوں گا۔

    چوں کہ مجھے جنرل کے حامیوں کی جانب سے وحشیانہ انتقام کا خطرہ ہے چناں چہ اپنی جان خود لے رہا ہوں۔ زہر کھانے پر میری طبیعت مائل نہیں ہے۔ اپنے فربہ جسم کی وجہ سے میں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکنے سے بھی قاصر ہوں البتہ چاقو کے استعمال میں مجھے خاصی مہارت حاصل ہے لہٰذا اسی کو ترجیح دے رہا ہوں۔

    الوداع، میری درخواست ہے کہ میرے بعد میرے بیوی بچوں کو کوئی مشکل پیش نہ آنے پائے۔ میں انھیں تاج دار برطانیہ جارج کی سخاوت کے نام پر اور سر ولیم آپ کی پناہ میں چھوڑے جارہا ہوں۔ میرے بعد میری شہرت اس بات کا ثبوت ہوگی کہ میں نے آپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، میں بہ صمیم قلب و دماغ اپنے ملک، اپنے بادشاہ اور آپ کی اقبال مندی کے لیے دعا گو ہوں۔

    مجھے فخر ہے کہ میں ہمیشہ آپ سب کا وفادار رہا ہوں۔

    آپ کا حقیر ترین تابع
    جیمز بیلی

    اس خط میں جولیس سیزر کے قتل کی تاریخ کے سب سے اہم قتل کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ واقعہ کبھی پیش نہیں آیا، ہم سب جانتے ہیں کہ جارج واشنگٹن اس کے بعد پورے تئیس برس یعنی 1799 تک زندہ رہا اور اس بات کا کہیں کوئی نشان نہیں ہے کہ 1776 میں اس کی جان لینے کی کوئی ناکام کوشش بھی کی گئی ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جیمز بیلی نے اس مفروضہ قتل کی انتقامی کارروائی کے خوف اور ندامت کے باعث خود کو ہلاک کرلیا تھا۔

    اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے جرم کی سزا دے ڈالی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا، میں نے خود کو اس تناقص کی توجہیہ کے لیے وقف کردیا کب کوئی قتل، قتل نہیں ہوتا؟

    یہ سوال بچوں کی پہیلیوں کے مانند میرے ذہن میں گردش کرتا رہاکہ کب کوئی زہر، زہر نہیں ہوتا؟ پھر میں نے اپنی توجہ اس پھل پر مرکوز کردی جس کا تذکرہ جیمز بیلی نے اپنے خط میں کیا تھا۔

    لال پھل؟ میری نگاہ میں یہی ایک کلید تھی، میں نے اپنی تحقیق کا آغاز اسی سے کیا۔

    آخر میں نائٹ شیڈ فیملی کا ایک ایسا پودا اور دریافت کرنے میں کام یاب ہوگیا جس پر لال پھل اُگتے تھے۔

    امریکا میں یہ پھل 1882 تک زہریلا سمجھا جاتا تھا۔ یہ پھل جب بھی موجود تھا اور آج بھی دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ اسے ہم سب ٹماٹر کے نام سے جانتے ہیں۔

    (رچرڈ ایم گورڈن کی اس کہانی کو رابعہ سلطانہ نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے)

  • دوا کا نسخہ

    دوا کا نسخہ

    لڑکی دوا فروش سے سکون آور دوا کا مطالبہ کررہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر کا نسخہ دکھاؤ۔

    لڑکی کو یہ مطالبہ کچھ عجیب سا لگا کیوں کہ وہ خواب آور دوا نہیں مانگ رہی تھی۔ دوا فروش اس کی بات تو سمجھ گیا لیکن سکون آور دوا کے لیے بھی ڈاکٹر کا نسخہ ضروری تھا۔

    لڑکی اب بحث پر اتر آئی۔ ”سکون آور دوا سے کسی قسم کے نقصان کا خطرہ نہیں ہے اور میں اس دوا کی عادی ہوں۔“

    دوا فروش نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ ”سوال یہ نہیں ہے کہ تم کیا کیا استعمال کرتی رہی ہو۔ تم جو کررہی ہو، یہ ایک خطرناک حرکت ہے۔“

    ”یعنی تم سمجھتے ہو کہ میرا خود کُشی کا ارادہ ہے؟“

    ”نہیں ایسا تو نہیں، مگر اس میں کافی خطرہ ہے۔“

    اب لڑکی نے ذرا مختلف انداز میں سوال کیا۔ ”تمہارے پاس سکون آور دوائیں کون کون سی ہیں۔“

    دوا فروش نے ایک نام بتایا۔ یہ ایک بہت ہی معمولی طاقت کی دوا تھی اور اس کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ پھر بھی اس کا خیال تھا کہ زیادہ مقدار میں استعمال کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    ”دیکھو! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔“ لڑکی نے جھلا کر کہا۔

    ”اگر کوئی اس دوا سے خودکشی کرنے کی کوشش کرے تو اسے کم از کم ایک سو گولیاں کھانی ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی درجن بوتلیں درکار ہوں گی۔ انھیں نگلنے کے لیے بھی گھنٹوں لگ جائیں گے اور بے اندازہ پانی پینا پڑے گا۔ یہ تمام ملغوبہ مل کر اس کے پیٹ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دے گا اور اس قدر طویل وقت کو دیکھتے ہوئے موت کو بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔

    گولیوں کو اپنا اثر دکھانے کے لیے ایک معقول وقت چاہیے اور یہ عمل پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ آدمی اپنی حرکت سے توبہ کرلے گا اور فوراً اسپتال پہنچ جائے گا جہاں ڈاکٹر اسے بچالیں گے۔ اب تو تمہاری عقل میں یہ بات سماگئی ہوگی کہ اس قدر معمولی مقدار کی سکون آور دوا خودکشی کے لیے ناکافی ہے۔“

    ”آپ بڑی ذہین اور سمجھ دار خاتون ہیں۔“ دوا فروش نے مرعوب ہوتے ہوئے کہا۔ ”آپ پورے مرحلے سے اچھی طرح با خبر ہیں، فرض کرلیں کہ آپ کی تمام باتیں تسلیم کر لیتا ہوں…..“

    ”آپ جو کچھ بھی سوچ رہے ہیں وہ سب غلط ہے۔“ لڑکی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
    دوا فروش نے یہ دیکھتے ہوئے کہ مزید بحث کرنا فضول ہے، اسے ایک بوتل پکڑا دی۔ لڑکی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل گئی۔

    اس نے دوسری فارمیسی میں بھی یہی ڈراما دہرایا۔ تیسری فارمیسی میں اسے اپنی کہانی سنانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ دوا فروش نے بلا حیل و حجت ایک شیشی اسے پکڑا دی۔ چوتھی میں اسے زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں پڑی اور اسی طرح پانچویں میں بھی اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔

    اخبار میں خبر کی اشاعت ہوئی کہ ایک نوجوان لڑکی اپنے بستر پر مردہ پائی گئی۔ اس کے قریبی میز پر سکون آور دوا کی کئی بوتلیں خالی پڑی تھیں اور اس کے ساتھ ہی ایک نوٹ بھی رکھا ہوا تھا۔

    ”میں نے اس زندگی کو خود پسند کیا تھا اور اس کے لیے کسی سے رائے نہیں مانگی، مگر زندگی نے میری قدر نہ کی لہٰذا میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، اپنی زندگی کو ختم کرلینے کا فیصلہ بھی میرا اپنا ہے۔“

    لوگوں نے یہ خبر پڑھ کر اظہار تاسف کیا۔ بے چاری لڑکی! نہ جانے کس بات سے عاجز آکر اس نے یہ فیصلہ کر ڈالا۔ ایک شخص نے تبصرہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی نے اس کے ساتھ بے وفائی کی، دوسرے نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    دوا فروش نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہاکہ وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھی اور اس نے خودکشی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔

    دوا فروش نے اخبار میں تصویر دیکھ کر اس کو پہچان لیا اور اپنے بیان میں کہاکہ اب اس بات کو زیادہ طول نہ دیا جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اس کی ماں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا۔

    ”ہم نے اس کی جان بچانے کی سَر توڑ کوشش کی۔ اس کی زندگی میں کوئی راز نہیں تھا۔ اسے اپنی زندگی سے بے حد پیار تھا۔ وہ بے حد شرارتی اور کھلنڈری لڑکی تھی۔ شاید اس نے کوئی شرارت سوچ کر یہ حرکت کی ہوگی۔

    (اس کہانی کے مصنف ڈیزی الامیر (عراق) اور مترجم ابوالفرح ہمایوں ہیں)

  • نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    نورِ چشم (فرانسیسی ادب سے ایک کہانی کا انتخاب)

    سفر کا سب سے دل چسپ پہلو مختلف لوگوں سے ملنا ہوتا ہے۔ یہ اتفاقی ملاقاتیں کبھی کبھی پورا سفر یادگار بنا دیتی ہیں۔

    ماضی کی یادیں ہماری عمر ایک بار پھر برسوں پیچھے دھکیل دیتی ہیں۔ نہ جانے کتنوں نے سفر کی راتیں، رَت جگوں میں بسر کی ہوں گی۔ کسی دور افتادہ گاﺅں میں جہاں ابھی اسٹیم انجن نہیں پہنچا ہے، تمام رات کوچ کا سفر اور کوچ کے سفر میں کسی خوب صورت خاتون کی ہم سفری۔

    کوچ کی مٹیالی روشنی میں اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں۔ وہ حُسن جو تمام راستے صرف جھلک دکھاتا رہا ہے، وہ حُسن جو راستے میں کہیں سے دفعتا سوار ہو کے آپ کا ہم سفر بن جاتا ہے اور جب سحر نمودار ہونے لگتی ہے، کتنا اچھا لگتا ہے، اپنی ہم سفر کو نیند سے بیدار ہوتے دیکھنا پھر وہ اپنی نشست پر محتاط ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ اس کی توجہ آپ پر نہیں بلکہ راستے کے قدرتی مناظر پر ہے۔

    میری یادداشت میں سفر کے ایسے کئی لمحے محفوظ ہیں جو آج بھی مجھے ایک سرور انگیز بے چینی عطا کرتے ہیں۔

    ان دنوں میں فرانس کے ایک دور دراز پہاڑی سلسلے میں پیدل سفر کر رہا تھا۔ یہ سلسلہ نہ بہت اونچا تھا نہ ہی بنجر، میں نے ابھی ایک مختصر پہاڑی عبور کی تھی اور اب ایک چھوٹے سے ریستوران میں داخل ہو رہا تھا، میری نظر ایک ضعیف عورت پر پڑی۔ ایک اجنبی، کوئی قابلِ ذکر شخصیت بھی نہیں۔ وہ تنہا ایک میز پر بیٹھی لنچ کر رہی تھی۔

    کھانے کا آرڈر دے کے میں نے اسے ذرا غور سے دیکھا۔ اس کی عمر تقریباً ستّر سال ہوگی۔ نکلتا ہوا قد جوانی کی دل کشی کے آثار اب بھی اس کے چہرے پر نظر آرہے تھے، سفید بال سلیقے سے پرانے فیشن کے مطابق بنائے گئے تھے۔ اس کا لباس انگریز سیاح عورتوں جیسا تھا، یہ لباس اس کی شخصیت سے قدرے مختلف تھا جیسے اب لباس کی اس کی نظر میں زیادہ اہمیت نہ رہ گئی ہو۔

    اسے دیکھ کر ایک قدیم روایتی خاتون ذہن میں ابھرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی اور چہرے پر حوادثِ زمانہ کے زخم صاف نظر آتے تھے۔ میں نے اسے بہت غور سے دیکھا۔ یہ اکیلی ان تکلیف دہ پہاڑی سلسلوں میں کیوں گھوم رہی ہے؟ میں ابھی اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے کھانا ختم کیا اور بل ادا کرکے شال درست کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔

    باہر ایک گائیڈ اس کا منتظر تھا۔ میں ان دونوں کو دور تک وادی کی جانب جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ دو گھنٹے بعد میں ایک وسیع سبزہ زار میں ٹہل رہا تھا۔ سبزہ زار کے کنارے کنارے شفاف دریا بہہ رہا تھا۔ منظر اتنا خوش نما تھا کہ وہیں بیٹھ جانے کو دل چاہ رہا تھا، معاً میں نے اسی عورت کو دیکھا۔

    وہ دریا کے کنارے نظریں نیچی کیے ایک مجسمے کی طرح ساکت کھڑی تھی۔ وہ دریا کی طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس کی گہرائی میں کچھ تلاش کررہی ہو۔ میں اس کے قریب سے گزرا تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی آنکھوں میں آنسو مچل رہے ہوں۔ مجھے دیکھ کر وہ تیزی سے درختوں کے قریب کھڑے ہوئے گائیڈ کی طرف چلی گئی۔

    دوسرے دن شام کے وقت میں سیورولز کے قلعے کی سیر کررہا تھا۔ یہ قدیم قلعہ وادی کے درمیان ایک اونچے ٹیلے پر ایک دیو ہیکل مینار کی طرح کھڑا تھا۔

    میں اکیلا کھنڈروں میں گھوم رہا تھا۔ اچانک ایک دیوار کے پیچھے مجھے کسی سائے کا گمان ہوا اور کسی ہیولے کی جھلک دکھائی دی جیسے اس ویران قلعے کے کسی مکین کی بے چین روح ہو۔ میں کچھ ڈرا، لیکن پھر ایک دَم میرا ڈر جاتا رہا۔ میں نے اسے پہچان لیا یہ وہی عورت تھی۔

    وہ رو رہی تھی، زار و قطار رو رہی تھی، اس کے ہاتھوں میں رومال تھا جس سے وہ بار بار آنسو پونچھتی۔ میں نے لوٹ جانا مناسب سمجھا، لیکن ابھی میں پلٹنے ہی والا تھا کہ اس نے مجھے مخاطب کیا۔

    ”ہاں موسیو! میں رو رہی ہوں، لیکن ہمیشہ نہیں روتی ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔“

    ”معاف کیجیے گا خاتون! میں آپ کی خلوت میں مخل ہوا۔“ میں شرمندگی سے ہکلانے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں۔

    ”ہاں…. نہیں۔“ اس نے کہا۔

    وہ رومال آنکھوں پر رکھ کے ہچکیاں لینے لگی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں، خود پر قابو پایا اور اپنی روداد سنانے لگی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنا غم کسی دوسرے کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہے جیسے غم کا بوجھ تنہا سہارنا اب اس کے لیے مشکل ہو۔

    ”یادش بخیر، ایک زمانہ تھا کہ میں بہت خوش و خرم تھی، میرا اپنا ایک گھر تھا، میرے اپنے شہر میں، لیکن اب میں وہاں اپنے گھر جانا نہیں چاہتی، وہاں وقت گزارا اتنا کرب ناک ہے کہ اب میں ہمیشہ سفر میں رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔

    وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میں خاموشی سے سن رہا تھا۔ ”میرا ایک بیٹا تھا، میرے اس حال زار کی وجہ وہی ہے، اسی کے باعث میں اس حالت کو پہنچی ہوں مگر آہ، بچے کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں جان سکتے، انسان کے پاس خوشی کا کتنا مختصر وقت ہوتا ہے، میں اگر اپنے بیٹے کو اب دیکھوں تو شاید ایک نظر میں اسے پہچان بھی نہ سکوں۔

    ”آہ، میں اس سے کتنا پیار کرتی تھی، کتنا چاہتی تھی اسے، ہر وقت اسے سینے سے لگائے رہتی، اسے ہنستاتی، بہلاتی پوری پوری رات جاگ کر اسے سوتے ہوئے دیکھتی رہتی، لوگ مجھے دیوانی سمجھتے، میرا مذاق اڑاتے لیکن میں ایک پل بھی اسے خود سے جدا نہ کرتی، میں نے اس کے بغیر کہیں آنا جانا ترک کر دیا، کیا کرتی اس سے الگ ہو کر مجھے چین ہی نہیں آتا تھا۔

    وہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کے باپ نے اسے بورڈنگ میں داخل کرادیا اس کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا، وہ میرا نہیں رہا۔ اوہ میرے خدا! وہ صرف اتوار کو آتا اور بس۔

    ”پھر وہ پیرس چلا گیا، وہاں کالج میں اس کا داخلہ ہوگیا، اب وہ سال میں صرف چار مرتبہ آتا، میں ہر دفعہ اس میں نمایاں تبدیلی دیکھتی ہر بار وہ کچھ زیادہ بڑا ہوجاتا، میں اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑھتے اور پھلتے پھولتے نہیں دیکھ رہی تھی، ہر بار وہ جب بھی آتا پہلے سے بدلا ہوا لگتا، اب وہ بچہ نہیں تھا لڑکا تھا، میں اس کا بچپنا کھو بیٹھی تھی، یہ دولت مجھ سے لوٹ لی گئی تھی، اگر وہ میرے ساتھ ہی رہتا تو جو محبت اسے مجھ سے ہوتی وہ اتنی آسانی سے نہیں بھلائی جاسکتی تھی۔

    ”میں اسے سال میں صرف چار بار دیکھتی تھی۔ ذرا غور کرو، ہر دفعہ اس کی آمد پر اس کا جسم اس کی آنکھیں، اس کی حرکتیں اس کی آواز، اس کی ہنسی وہ نہیں رہتی تھی جو گزشتہ آمد کے موقع پر ہوتی تھی۔ ہر دفعہ وہ نیا بن کر آتا۔

    ایک سال وہ آیا تو اس کے گالوں پر بال آگئے تھے، میں حیرت زدہ رہ گئی اور تم یقین کرو، غم زدہ بھی ہوئی، کیا یہی میرا ننھا سا منا سا بچہ ہے، میری کوکھ سے جنم لینے والا جس کے سر پر ملائم ملائم گھنگریالے بال تھے۔ میرا پیارا بیٹا، میرے جگر کا ٹکڑا جسے میں ایک کپڑے میں لپیٹ کر اپنے گھٹنوں پر سلاتی تھی، یہ طویل قامت نوجوان نہیں جانتا کہ اپنی ماں کو کیسے پیار کیا جاتا ہے، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ مجھ سے صرف اس لیے محبت کرتا ہے کہ یہ اس کا فرض ہے۔

    ذرا غور کرو، وہ اپنی ماں سے محبت ایک ڈیوٹی سمجھ کر کرتا تھا، وہ مجھے ماں کہہ کر صرف اس لیے پکارتا تھا کہ یہی روایت تھی۔

    میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، پھر میرے ماں باپ کی باری آئی، پھر میں اپنی دو بہنوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، موت کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ کام ختم کرلے تاکہ پھر ایک طویل مدت تک اسے دوبارہ نہ آنا پڑے۔ پورے خاندان میں وہ صرف ایک یا دو افراد اس لیے زندہ چھوڑ جاتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی یاد میں زندگی بھر روتے رہیں۔

    ”میں بھی تنہا زندہ رہی، میرا جوان بیٹا بہت فرض شناس تھا۔ میں اس کے پاس چلی گئی، لیکن اب وہ ایک نوجوان مرد تھا، اس کے اپنے مشاغل تھے، اپنی مصروفیات تھیں، اس نے مجھے یہ احساس دلانا شروع کردیا کہ میں اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہوں۔ آخر میں وہاں سے لوٹ آئی۔ اس کے بعد میں نے اسے زیادہ نہیں دیکھا، نہ دیکھنے کے برابر دیکھا۔

    ”اس نے شادی کرلی، میں بہت خوش تھی۔ ماں بھی عجیب ہوتی ہے۔ اولاد کی طرف سے ہمیشہ خوش فہمی میں مبتلا رہتی ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ اب ہم پھر ایک ساتھ رہ سکیں گے، میں اپنے پوتے، پوتیوں کے ساتھ کھیلوں گی، ننھے ننھے گلابی گلابی روئی کے گالے اپنی گود میں پروان چڑھاﺅں گی۔

    میں وہاں پہنچی اس کی بیوی ایک انگریز لڑکی تھی، وہ روز اول سے مجھے ناپسند کرتی تھی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ وہ سمجھتی تھی کہ میں اس کے شوہر کو اس سے زیادہ چاہتی ہوں اس طرح ایک دفعہ پھر مجھے اس کے گھر سے نکلنا پڑا، میں ایک بار پھر تنہا رہ گئی، ہاں موسیو! میں ایک بار پھر بالکل تنہا رہ گئی تھی۔

    پھر وہ انگلستان چلا گیا، اپنی بیوی کے والدین کے پاس، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہنے لگا۔ میں نے حسرت سے سوچا اب وہ ان کا ہو کر رہے گا جیسے وہ میرا نہیں ان کا بیٹا ہو، انھوں نے اسے مجھ سے چھین لیا، چرا لیا، وہ وہاں سے ہر ماہ مجھے خط لکھتا، شروع شروع میں کبھی کبھی وہ مجھ سے ملنے بھی آتا، لیکن اب اس نے آنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔

    ”اب مجھے اپنے بیٹے کو دیکھے ہوئے چار سال ہوچکے ہیں۔ آخری بار جب میں نے اسے دیکھا تھا تو اس کے چہرے پر جھریاں سی پڑنے لگی تھیں اور بالوں میں کہیں کہیں سفیدی جھلکنے لگی تھی، میں اسے اس حال میں دیکھ کر حیران رہ گئی تھی، کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ آدمی، یہ تقریباً بوڑھا آدمی میرا بیٹا ہے! ماضی کا چھوٹا سا گلابی گلابی گل گوتھنا سا۔

    ”اب میں شاید اسے کبھی نہ دیکھ سکوں۔ اب میں اپنا تمام وقت سفر میں گزارتی ہوں، کبھی مشرق میں، کبھی مغرب میں، بالکل تنہا جیسے تم دیکھ رہے ہو۔“

    اس نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ”گڈ بائی موسیو!“ مجھے رخصت کر کے وہ وہیں راستے میں کھڑی رہ گئی، میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا، کچھ دور جانے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا وہ ایک ٹیلے پر کھڑی دور افق میں دیکھ رہی تھی، جیسے کچھ تلاش کررہی ہو، تیز ہوا سے اس کے کندھے پر پڑی ہوئی شال کا ایک سرا اور اس کا اسکرٹ کسی جھنڈے کی طرح لہرا رہا تھا۔

    ( فرانسیسی ادیب موپساں‌ کی کہانی کا اردو ترجمہ)

  • گرگٹ

    گرگٹ

    داروغہ جی نیا اوور کوٹ پہنے، ہاتھ میں ایک بنڈل اٹھائے بازار کے چوک سے خراماں خراماں گزررہے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ان کا ایک کانسٹیبل ہاتھ میں ایک ٹوکری لیے لپکا چلا آ رہا تھا۔ ٹوکری ضبط کیے گئے پھلوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔
    بازار میں ہر طرف خاموشی تھی۔ ایک چڑیا بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ گھروں اور دکانوں کے کھلے ہوئے دروازے بھوکے لوگوں کی طرح سڑک کو اداسی بھری نگاہوں سے تاک رہے تھے، یہاں تک کہ کوئی گاہک تو کیا ایک بھکاری بھی آس پاس دکھائی نہیں دیتا تھا۔
    اچھا! تو تُو کاٹے گا؟ شیطان کہیں کا۔ داروغہ کے کانوں میں اچانک یہ آواز آئی۔ پکڑو جانے نہ پائے۔ پھر ایک کتے کی چیخنے کی آواز سنائی دی۔ داروغہ نے مڑ کر دیکھا تو اسے نظر آیا کہ لکڑی کی ٹال میں سے ایک کتا تین ٹانگوں سے بھاگتا ہوا چلا آرہا ہے۔
    کلف دار قمیض اور بغیر بٹن کی واسکٹ پہنے، ایک آدمی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس کا سارا جسم آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ وہ کتے کے پیچھے لپکا اور اسے پکڑنے کی کوشش میں گرتے گرتے بھی اس کی پچھلی ٹانگ پکڑ لی۔
    کتا ایک بار پھر چلاّیا اور وہی آواز دوبارہ سنائی دی۔ ‘‘مارو اسے، جانے نہ پائے۔ قانون کہتا ہے کہ کاٹنے والے کتوں کو فوراً مار دینا چاہیے۔’’
    اونگھتے ہوئے لوگ دکانوں اور گھروں سے باہر گردنیں نکال کر دیکھنے لگے، پھر بچے، بوڑھے، جوان سب ہی باہر نکل آئے اور دیکھتے دیکھتے ایک مجمع ٹال کے پاس جمع ہو گیا، گویا سب لوگ ابھی زمین پھاڑ کر اندر سے نکل آئے ہوں۔
    ‘‘جناب! معلوم پڑتا ہے کہ کچھ جھگڑا فساد ہو رہا ہے۔’’ کانسٹیبل داروغہ سے بولا۔
    داروغہ بائیں جانب مڑا اور مجمع کی طرف چل دیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹال کے پھاٹک پر وہی آدمی کھڑا ہے۔ اس کی واسکٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ وہ اپنا داہنا ہاتھ اوپر اٹھائے، مجمع کو اپنی لہولہان انگلی دکھا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے خمار آلود چہرے پر صاف لکھا ہوا ہو…‘‘اس بدمعاش کتے کو میں اس کا مزہ چکھا کر رہوں گا۔’’ اور اس کی انگلی فتح کا پرچم نظر آرہی تھی۔ داروغہ نے اس شخص کو پہچان لیا۔ یہ سنار تھا۔
    چھوٹی نسل کا سفید رنگ کا کتا، جس کا منہ نکیلا تھا اور پیٹھ پر زرد داغ تھے، مجمع کے بیچوں بیچ اگلی ٹانگیں پھیلائے ملزم بنا بیٹھا اوپر سے نیچے تک کانپ رہا تھا۔ اس کی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں میں بے بسی اور خوف کی جھلک تھی اور انداز رحم طلب تھا۔
    ‘‘یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے یہاں؟’’ داروغہ نے کندھوں سے مجمع کو چیرتے ہوئے سوال کیا۔
    ‘‘یہاں کیا کررہے ہو تم سب لوگ۔ اور تم یہ انگلی کیوں اوپر اٹھائے ہو، کون چلا رہا ہے؟’’
    داروغہ جی! میں چپ چاپ اپنی راہ چلا جا رہا تھا۔ سنار نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر، کھانستے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ‘‘بڑھئی سے مجھے لکڑی کے بارے میں کچھ کام تھا۔ یکایک، نجانے کیوں، اس بدمعاش نے میری انگلی پر کاٹ لیا۔’’
    داروغہ جی معاف کیجیے، میں ٹھہرا کام کاج والا آدمی۔ اور پھر ہمارا کام بھی بڑا نازک اور پیچیدہ ہے۔ ایک ہفتے تک تو شاید اس انگلی سے کام تک نہیں لے سکوں گا۔ اس لیے مجھے ہرجانہ دلوا دیجیے۔ اور جناب، قانون میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ ہمیں اس طرح خطرناک جانوروں کو بھی چپ چاپ برداشت کرنا ہوگا۔ اگر ایسے ہی کاٹنے لگیں، تب تو جینا دوبھر ہو جائے گا۔’’
    اچھا۔ داروغہ نے گلا صاف کر کے، بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا۔
    ‘‘ ٹھیک ہے۔ خیر، یہ کتا ہے کس کا؟ میں اس معاملے کو یہیں نہیں چھوڑوں گا، جو لوگ ایسے کتوں کو کُھلا چھوڑ دیتے ہیں، میں ان لوگوں کو سبق سکھاؤں گا۔ جو لوگ قاعدے قانون کے مطابق نہیں چلتے، ان کے ساتھ اب سختی سے پیش آنا پڑے گا۔ میں اچھی طرح سکھا دوں گا کہ کتوں اور ہر طرح کے مویشیوں کو ایسے کھلا چھوڑ دینے کا کیا مطلب ہے۔’’
    پھر کانسٹیبل کو مخاطب کرتے ہوئے انسپکٹر چلایا۔ ‘‘ذرا پتہ لگاؤ کہ یہ کتا ہے کس کا، اور رپورٹ تیار کرو، کتے کو بلاتاخیر ختم کردیا جائے۔ غالباً یہ پاگل ہوگا اور محلے والو میں پوچھتا ہوں کیا تم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کتا آخر ہے کس کا؟’’
    مجمع میں سے کسی نے کہا، ‘‘یہ کتا تو ہمارے جو نئے منسٹر صاحب آئے ہیں ان کا معلوم ہوتا ہے۔’’
    ‘‘منسٹر صاحب کا؟ کانسٹیبل، ذرا میرا کوٹ تو اتارنا۔ اف، بڑا حبس ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ بارش ہو گی۔ اچھا تو، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے تمہیں کاٹا کیسے؟’’ داروغہ اب سنار کی جانب مڑا۔
    ‘‘یہ تمہاری انگلی تک پہنچا کیسے؟ یہ ٹھہرا چھوٹا سا اور تم ہو لحیم شحیم۔ ہو نہ ہو تم نے کسی کیل ویل سے انگلی چھیل لی ہو گی اور سوچا ہو گا کہ کتے کے سَر منڈھ کر ہرجانہ وصول کر لوں۔ میں خوب سمجھتا ہوں، تمہارے جیسے بدمعاشوں کی تو میں رگ رگ سے واقف ہوں۔’’
    ‘‘داروغہ جی! اِس نے یوں ہی مذاق میں اس کتے کے منہ پر جلتی سگریٹ لگا دی تھی، اور یہ کتا بیوقوف تو ہے نہیں، اس لیے اس نے کاٹ لیا۔ یہ شخص بڑا اوٹ پٹانگ ہے، ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی ہنگامہ مچائے رہتا ہے۔’’ مجمع میں سے ایک شخص بولا تو سنار چلا اٹھا۔
    ‘‘او، بھینگے! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ تو نے مجھے یہ سب کچھ کرتے دیکھا ہے کیا؟ اپنی طرف سے گپ کیوں مارتا ہے؟ اور داروغہ جی تو خود سمجھ دار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو عدالت مجھ پر مقدمہ چلائے۔ یہ قانون میں لکھا ہے کہ سب آدمی برابر ہیں۔ میرا بھائی خود پولیس میں ہے، بتائے دیتا ہوں، کیا سمجھے!’’
    ‘‘ بند کرو یہ بکواس۔ نہیں، یہ منسٹر صاحب کا کتا نہیں ہے۔’’ سپاہی نے بڑے وثوق سے کہا۔
    ‘‘منسٹر صاحب کے پاس ایسا کوئی کتا ہے ہی نہیں، ان کے تو سبھی کتے شکاری نسل کے ہیں۔ یہ تو آوارہ لگتا ہے۔
    تمہیں ٹھیک طرح سے معلوم ہے؟’’ داروغہ نے اس کی طرف سوال اچھالا۔
    ‘‘ جی جناب، بالکل۔’’
    ‘‘ہمم ۔۔۔۔۔ویسے تو میں خود بھی جانتا ہوں۔ نئے منسٹر صاحب جانور پالنے کے شوقین ہیں، ان کے سب کتے اچھی نسل کے ہیں، ایک سے ایک قیمتی کتا ہے ان کے پاس اور یہ۔ ذرا دیکھو تو اسے۔ بالکل بدشکل، کھجیلا اور مریل ہے۔ بھلا منسٹر صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔ تم لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہوا۔ کون رکھے گا ایسا کتا؟ اگر ایسا کتا شہر کے پوش علاقوں کی سڑکوں پر دکھائی دیتا تو جانتے ہو کیا ہوتا؟ قانون کی پروا کیے بنا، ایک منٹ میں ان کا صفایا کردیا جاتا۔’’
    اب داروغہ دوبارہ سنار کی جانب مڑا اور بولا، ‘‘دیکھو! تمہیں چوٹ لگی ہے۔ تم مظلوم ہو، تم اس معاملے کو یوں ہی مت چھوڑ دینا۔ ایسے لوگوں کو سبق پڑھا کر رہنا۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔’’
    ‘‘لیکن یہ بھی ممکن ہے، یہ منسٹر صاحب کا ہی ہو۔’’ کانسٹیبل کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑایا۔
    ‘‘ اسے دیکھنے سے تو اندازہ نہیں ہوتا، مگر بالکل ایسا ہی کتا میں نے ایک دن منسٹر صاحب کے بنگلے کے دروازے پر دیکھا تھا اور اس کے گلے میں پٹّا بھی تو دیکھو۔ مطلب یہ پالتو ہے آوارہ نہیں۔’’
    ہاں ہاں، یہ کتا منسٹر صاحب ہی کا تو ہے۔ مجمع میں سے کسی کی آواز آئی۔
    ‘‘ہونہہ… کانسٹیبل، ذرا مجھے کوٹ تو پہنا دو۔ ابھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا، مجھے سردی لگ رہی ہے۔ ایسا کرو، اس کتے کو اٹھاؤ اور منسٹر صاحب کے یہاں دریافت کرو۔ کہہ دینا کہ میں نے اِسے سڑک پر دیکھا تھا اور واپس بھجوایا ہے اور ہاں، دیکھو، یہ بھی کہہ دینا کہ اسے سڑک پر ایسے نہ نکلنے دیا کریں۔ معلوم نہیں، کتنا قیمتی کتا ہے اور اگر اس طرح کا ہر بدمعاش اس کے منہ میں سگریٹ گھسیڑتا رہا تو کتا بہت جلد ہی خراب ہو جائے گا۔’’
    ‘‘اور تُو اپنا ہاتھ نیچے کر، گدھا کہیں کا۔ اپنی گندی انگلی کیوں دکھا رہا ہے؟ سارا قصور تیرا ہی ہے۔ غضب خدا کا، بے زبان جانور پر ظلم۔ اس وقت میں نہ آگیا ہوتا تو تم اسے مارہی ڈالتے۔’’
    اتنے میں کانسٹیبل نے دور سے آتے ایک شخص کو دیکھتے ہوئے کہا۔
    ‘‘وہ دیکھو، منسٹر صاحب کا باورچی آ رہا ہے، اس سے ہی پوچھ لیا جائے۔ اے خانسامے۔ ذرا ادھر تو آنا۔ اس کتے کو دیکھنا، کہیں تمہارے یہاں کا تو نہیں ہے؟’’
    ‘‘ارے میاں! یہ بھی خوب کہی۔ ہمارے یہاں کبھی بھی ایسا کتا نہیں تھا۔’’ باورچی بولا۔
    اتنا سنتے ہی داروغہ فوراً کانسٹیبل سے بولا، “بس اب مزید تفتیش کی ضرورت نہیں۔ بیکار وقت خراب کرنا ہے۔ آوارہ کتا ہے، یہاں کھڑے کھڑے اس کے بارے میں بات کرنا وقت برباد کرنا ہے۔ تم سے کہہ دیا نا کہ آوارہ ہے تو آوارہ ہی سمجھو۔ مار ڈالو اور چھٹی کرو۔’’
    ہمارا تو نہیں ہے۔ باورچی نے بات جاری رکھی۔
    ‘‘ہاں! یہ منسٹر صاحب کے بھائی ہیں جو ان کا ہے، حال ہی میں یہاں آئے ہیں۔ ہمارے منسٹر صاحب کو چھوٹی نسل کے کتوں میں کوئی دل چسپی نہیں ہے، ان کے بھائی صاحب کو یہ نسل پسند ہے۔’’
    ‘‘کیا کہا؟ منسٹر صاحب کے بھائی آئے ہوئے ہیں؟’’ اچنبھے سے داروغہ چہک اٹھا، اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ کیا مزید کچھ دن ٹھہریں گے؟’’
    ‘‘جی ہاں۔ اسے جواب ملا۔’’
    ‘بھئی خوب کہی، میں خود کئی دنوں سے ان کے بھائی سے ملنا چاہتا تھا، ان سے کام بھی تھا مجھے۔ اچھا تو یہ ان کا کتا ہے؟ بہت خوشی کی بات ہے۔ کیسا پیارا ننھا منا سا ہے۔ بس بس، اب کانپنا بند کرو۔’’ داروغہ نے کتے کے سر پر تھپکی دی۔ کتا غرانے لگا۔
    ‘‘شیطان کہیں کا۔ غصے میں ہے اور مزاج کا ذرا گرم لگتا ہے۔ یہی تو علامت ہے اچھی نسل کے کتے کی۔ کتنا پیارا ہے یہ۔’’ اب داروغہ نے سنار کی طرف دیکھا۔
    ‘‘کیوں بے! معلوم نہیں تجھ کو جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے اور وہ بھی منسٹر صاحب کے کتے پر۔ میں اگر چاہوں تو تم کو ابھی اس جرم میں سلاخوں کے اندر ڈال دوں۔ خبردار جو آئندہ ایسی کوئی حرکت ہوئی، تجھے ٹھیک مزہ چکھاؤں گا۔’’ داروغہ نے اسے دھمکایا۔
    اور پھر داروغہ اپنا اوور کوٹ اپنے جسم پر لپیٹتے ہوئے باورچی سے بولا۔
    ‘‘لے بھئی! ذرا اٹھا تو لے اس غریب کو، چل منسٹر صاحب کے یہاں پہنچا دیں۔’’
    باورچی نے کتے کو اٹھایا اور داروغہ اسے ساتھ لے کر منسٹر صاحب کے گھر کی جانب چل پڑا۔
    پیچھے پورا مجمع سنار پر ہنس رہا تھا۔

    (روسی ادیب انتون چیخوف کی کہانی کا اردو ترجمہ. یہ کہانی اس سماج کی عکاسی کرتی ہے جس میں غریب اور امیر کے لیے قانون اور انصاف کے پیمانے الگ الگ ہوتے ہیں)