Tag: اردو تنقید

  • میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میر کے ساتھ ہماری تنقید کا کیا رویہ ہے؟ زمانے بدلتے رہے مگر اردو تنقید افسوس ناک حد تک آہستہ رو رہی ہے۔

    میر کبھی گم نامی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی قبر پر ریل چل گئی تو کیا ہوا، تمام اردو شعراء نے اپنی دھڑکنوں میں ہمیشہ میر کو جگہ دی۔ ان کی کلیات بھی چھپتی رہی مگر وقفے وقفے سے۔ پھر بھی میر کے پرستاروں کو شکایت رہی کہ ان کی پذیرائی کم ہوئی۔ مجھے اثر لکھنوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ میر کو ہر دل عزیز بنانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے کہ ان بزرگوں نے اپنی ساری ذہانت کو میر کے مطالعے میں صرف کر دیا ہے مگر برا ہو اردو تنقید کا جو شاعری میں افکار اور احساسات و جذبات کو الگ الگ خانوں میں دیکھنے کی عادی ہے۔
    ناصر کاظمی ایسا فہیم شاعر بھی میر پر مضمون لکھتے ہوئے قدم قدم پر جھجھکتا ہے اور آخر میں میر اور اقبال کے یہاں مماثلت تلاش کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔

    وارث علوی کی زبان میں ’’معنی کس چٹان پر بیٹھا ہے‘‘ یعنی شاعری میں اقدار و افکار کی جستجو، جذبات اور احساسات سے الگ چہ معنی دارد؟ غالب ایسا عظیم شاعر بھی میر کی استادی کو اس طرح تسلیم کرتا ہے کہ میر کے انداز یعنی سہلِ ممتنع میں شاعری کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میر کے کلام میں بے پناہ تاثیر، زبان میں ندرت، جذبات کے اظہار میں شائستگی اور شعری صداقت، ساری نزاکتوں کا ایک آئینہ در آئینہ سلسلہ ملتا ہے۔

    میری رائے میں 1857ء کے تباہ کن اثرات سے ہم بے طرح گھبرا گئے تھے۔ حالی نے غیرشعوری طور سے اس روایت کو مجروح کر دیا جس سے ہم میر سے منسلک تھے۔ میں حالی پر الزم نہیں لگاتا، اس لیے کہ انگریز حکومت کے مہلک اثرات کی وجہ سے ہم آج تک اپنی ثقافتی تفہیم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ کبھی ہم ماضی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں بنیاد پرستوں کی طرح اور کبھی مغرب زدہ لوگوں کی بنائی ہوئی ’’جنت‘‘ کو اپنا مستقبل سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ ہمارا ماحول کیا تھا اور اب کیا ہے؟ نہ جانے کس نے ہمیں یہ سمجھا دیا تھا کہ ’’وقت کی آواز‘‘ عشقیہ شاعری کے خلاف ہے جب کہ میر کی شاعری کار زارِ حیات کی سب سے دل کش آواز تھی۔ اسی وقت سے ہماری تنقید نے میر فہمی کی راہ کھول دی تھی۔ حسن عسکری نے ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’اگر لوگ میر کے اس شعر کی جدلیات کو سمجھ لیں تو جو انقلاب رونما ہوگا وہ مارکس کے انقلاب سے کہیں بڑا ہوگا۔‘‘ (حوالہ: انسان اور آدمی)

    ظاہر ہے کہ یہ جملہ صرف ’’ترقی پسندوں‘‘ کو چھیڑنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ میر کا شعر ہے،

    وجہِ بے گانگی نہیں معلوم
    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    اس شعر میں جو نکتہ قابلِ غور ہے وہ علیحدگی، بےگانگی (Alienation) کو جنم دیتا ہے اور ہم صنعتی نظام میں داخل ہوئے تھے کہ اس کا شکار ہو گئے۔ اب ہماری بیگانگی دشمنی میں بدلتی جارہی ہے۔ اردو کی سب سے جان دار روایت عشقیہ شاعری کی تھی۔ عشق ہی تصوف اور بھکتی تحریروں کی جان تھا۔ ہماری مشترکہ تہذیب کی بنیاد تھا (قرۃ العین حیدر کے نئے ناول ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں اس دور کے چند مناظر اور کردار دیکھے جاسکتے ہیں ) ہم نے انجانی اصلاحی اقدار کے فریب میں آکر اپنی ’جڑوں ‘سے خود کو کاٹ لیا ہے اور آج ہم زندگی کی سزا پا رہے ہیں اور ادب میں خون ناحق کو بہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور حیران و ششدر ہیں۔ ہم خود اپنے جرائم کی سزا پا رہے ہیں، کم از کم بقول میر ہمارے سینے تو سوزِ عشق سے منور ہوتے،

    اعجازِ عشق سے ہم جیتے رہے وگرنہ
    کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے

    آج ہمارے پاس عشق کا سوزِ دروں ہے نہ عمل کی لگن۔ ہم۔ سب۔ ایک معنی میں ایلیٹ کے ’’کھوکھلے آدمی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں!

    میرتقی میر بنیادی طور سے رومانی کرب کے شاعر تھے مگر یہ کرب صرف جنسی تشنگی اور دیوانگی کی دین نہیں تھا، اس میں آئندہ مستقبل کے خواب کی پنہاں آرزوئیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ یہی نہیں اپنے ماحول کی ساری تہذیبی شکست و ریخت بھی شامل تھی۔ اطالوی ناقد ماریو پراز (Mario Praz) نے یوروپی شاعری (اٹھارہویں صدی) کو اسی اصطلاح سے جانچنے کی کوشش کی تھی۔ اٹھارہویں صدی کا یورپ بھی ہنگاموں اور انقلابوں کا مرکز تھا۔ انقلابِ فرانس نے یورپ کو پہلی بار انسانیت کو مساوات، اخوت اور آزادی کا پیغام دیا تھا۔ اس دور کے شاعر بھی اسی جانکاہ درد و غم سے سرشار تھے جس سے کہ رومانی کرب کی پہچان ہوتی ہے۔

    روسو کے اعترافات (دوجلدیں ) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت سے انسانی دوری کتنی مہلک ہوگی۔ ماریو پراز کا خیال تھا کہ مسرت کی جستجو ہی درد و غم کی راہ سے گزرتی ہے اور درد ہی مسرت کی جستجو کی منزل ہے۔ اس طرح خوشی اور غم کی جذباتی کشمکش حزنیہ لب و لہجے کو جنم دیتی ہے جو رومانی کرب کی نشان دہی کرتا تھا۔ میر کی شاعری میں جو گھلاوٹ، نرمی اور سپردگی ہے، وہ اسی غم کی قبولیت کی وجہ سے کہ درد ہی مسرت کی جان ہے اور مسلسل کرب ہی جہدِ حیات ہے۔

    انگریزی رومانی شعرا سے میر کا تقابل پروفیسر احمد علی نے بھی کیا تھا۔ احمد علی نے اپنی کتاب سنہری روایت (The Golden Tradition) میں میر کی عظمت کا اعتراف کیا ہے، یہ کتاب آج بھی مطالعے کے قابل ہے، گو کہ اس کو شائع ہوئے پندررہ برس گزر چکے ہیں (مطبوعہ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ ۱۹۷۳ء) میر تقی میر کی شاعری کو ان کی کشادہ شخصیت، بے پناہ تخلیقی قوت اور فکر خیز تخیل (Imagination) کی رہینِ منت ٹھہرایا ہے۔ یہی نہیں ان کی (احمدعلی) رائے میں میر کے پائے کا شاعر انگریزی رومانی شعرا میں کوئی نہیں تھا۔ فراق اردو میں یہی بات کہہ چکے ہیں۔ وہ میر کی شاعری میں ’دل‘ کے استعارے کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری یہ بات اپنے مضمون میں کہہ چکے ہیں (سردار جعفری ایک عرصے تک مجنوں سے اس لیے خفا رہے کہ مرحوم نے کئی شعر ایسے لکھے تھے جو میر کے نہیں ہیں۔ خیر) احمد علی کا خیال ہے کہ میر کے ذہن کی جستجو ہمیں ان اشعار سے کرنی چاہیے جو میر نے دل کو محور بنا کر کہے تھے، اس لیے کہ دل ہی عشق اور زندگی کا سرچشمہ ہے اور یہ اشعار بھی پیش کیے ہیں،

    جا کے پوچھا جو میں یہ کارگہِ مینا میں
    دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
    کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
    ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
    دل ہی سارے تھے یہ اک وقت میں جو کر کے گداز
    شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں سے شیشہ

    یہی نہیں، احمد علی کا خیال ہے کہ ایک معنی میں میر ایک وجودی شاعر تھے اور سارتر کا بیان نقل کرتے ہیں :Existence Precedes Essence یعنی وجود روح سے پہلے ہے۔ میر کا خیال ہے، ’’مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا‘‘ کی مثال بھی دیتے ہیں۔ میر پر انگریزی میں جو چند مضامین اور کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں یہ کتاب زیادہ ’’شہرت‘‘ کی مستحق تھی، اس لیے کہ اس کتاب میں میر کے اچھے خاصے ترجمے بھی شامل ہیں۔

    اور ایک سوال میر ے ذہن میں آتا ہے کہ میر کی عشقیہ شاعری کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ کیا اب یہ عہد پارینہ کی ایک شعری داستان ہے اور بس۔۔؟ سرمایہ دارانہ سماج میں ہر شے فروخت ہو سکتی ہے۔ اب عشق یا تو محض جنسی شے (بدن کی تہذیب کہاں؟) یا تفریح کا سامان۔ ایک ایسے دور میں جب ہم میر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت اور معصومیت سے نئی لذت کے ساتھ دوچار ہوتے ہیں یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب وہ ’’رومانی کرب‘‘ اپنی جاذبیت بڑی حد تک کھو چکا ہے مگر کسی حد تک معصومیت حسن کی اور عشق کی کشمکش کو بڑی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔

    عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
    قیس کی آبرو کا پاس رہا
    عشق کا گھر ہے میر سے آباد
    ایسے پھر خانماں خراب کہاں

    رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
    جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

    دور بیٹھا غبار میر ان سے
    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    یہ خود کلامی کا ’’جادو‘‘ بھی رکھتی ہے۔ پروفیسر مسعود حسین ادیب نے میر کی شاعری کو ’’عشق کی زبان‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ مجھے اکثر یہ احساس ہوا ہے کہ میر کے آنسو’’پارس پتھر‘‘ تھے، جس لفظ کو چھو لیتے تھے کندن بن جاتا تھا۔ اس طرح جسمانی حسن کا بیان بھی ساری لطافتیں لیے ہوئے ہے،

    ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
    جیسے جھمکے ہے پڑا گوہرِ تر پانی میں

    حسن کی بالیدگی کا یہ عالم شاید ہی کسی اردو شاعر نے کبھی سوچا اور بیان کیا ہو گا۔ میر کی عشقیہ شاعری ایک جمالیات کی نئی دستاویز تھی جس میں انبساط کے کم رنگ تھے مگر زرد رنگ سب سے نمایاں تھا جیسے ڈچ مصور وان گاف کی مصوری! آج میر کی عشقیہ شاعری ایک ایسی ’’فردوسِ گمشدہ‘‘ کی یاد دلاتی ہے جس میں دوزخ کو سیر کرنے کے لیے ملا دیا گیا ہو۔

    (ممتاز نقاد اور روایت شکن قلم کار باقر مہدی کے مضمون کا ایک حصّہ ہند و پاک سمینار جامعہ ملیہ (نئی دہلی) میں ۱۹۸۳ء میں پڑھا گیا تھا)

  • سائنس کا ایک کرشمہ

    کلیم الدّین احمد اردو زبان و ادب کی ایک مشہور مگر مشاہیر اور ہم عصروں میں متنازع بھی تھے جنھوں نے تنقید لکھی، شاعری کی اور مختلف موضوعات اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مضامین سپردِ قلم کیے۔

    ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اردو کی ہر چیز کو انگریزی کے مخصوص چشمے سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ اردو ادب میں کوئی چیز کام کی نظر نہیں آتی۔ کبھی وہ غزل جیسی مقبول اور ہر دور میں‌ لائقِ ستائش اور معتبر صنف کو نیم وحشی کہہ کر مسترد کرتے ہیں تو کبھی لکھتے ہیں کہ اردو میں‌ تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔ الغرض کلیم الدّین احمد اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے ہمیشہ متنازع رہے۔ انھوں نے فنونِ لطیفہ، ثقافت اور اصنافِ‌ ادب کو جس طرح دیکھا اور سمجھا، اسے رقم کر دیا اور اپنی مخالفت کی پروا نہ کی۔

    کلیم الدّین احمد 1908ء میں‌ پیدا ہوئے تھے اور اسّی کی دہائی کے آغاز تک بقیدِ‌ حیات رہے۔ انھوں نے وہ دور دیکھا جب ہندوستان میں‌ ریڈیو تیزی سے مقبول ہوا اور معلومات کی فراہمی اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا۔ آج کے دور میں‌ ریڈیو سیٹ تو گھروں‌ میں‌ رہا ہی نہیں اور ٹیلی ویژن کی اہمیت بھی موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر دن گھٹ رہی ہے، لیکن دہائیوں‌ پہلے لوگ ریڈیو کو کیسی جادوئی اور نہایت اثرانگیز ایجاد تصور کرتے تھے اور ہندوستان میں اس کی کیا اہمیت تھی، یہ بتانے کے لیے کلیم الدّین احمد کے مضمون سے چند پارے حاضرِ‌ خدمت ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ریڈیو بھی سائنس کا ایک کرشمہ ہے اور دوسری سائنٹفک ایجادوں کی طرح ہم اس کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور غیرناقدانہ طور پر اس کی تعریف میں رطبُ اللّسان ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس چیزوں کی ایجاد کرتا ہے، لیکن ان چیزوں سے کام لینا ہمارا کام ہے۔”

    "سائنس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں کبھی وہم و گمان بھی نہ تھا وہ واقعہ بنی ہوئی ہیں۔ جو باتیں ہم خیالی داستانوں میں پڑھا یا سنا کرتے تھے وہ اب خیالی نہیں رہیں، زندہ حقیقت کی طرح چلتی پھرتی نظرآتی ہیں۔”

    "داستانوں میں ہم جادو کے گھوڑے پر بیٹھ کر ہوا میں اڑتے پھرتے تھے، آج نئے نئے قسم کے ہوائی جہازوں میں بیٹھ کر ہم دور دراز کا سفر قلیل مدت میں طے کر سکتے ہیں۔ زمین اور سمندر میں سفر کر سکتے ہیں۔ دور کی خبریں سن سکتے ہیں۔ دور کی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ غرض بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جن کے تصور سے پہلے ہمارے دل کی تسکین ہوتی تھی۔ یہ چیزیں اچھی بھی ہیں اور بری بھی۔ اور ان کی اچھائی اور برائی استعمال پر منحصر ہے۔”

    "ہوائی جہاز کو لیجیے۔ اس سے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ خط کتابت اور سفر کی آسانی ہے۔ اسی سے مسٹر چرچل کی بیماری میں ضروری دوائیں جلد سے جلد پہنچائی جا سکتی ہیں، لیکن آج یہی ایک ایسے وسیع پیمانہ پر، جس کے تصور سے دل دھڑکنے لگتا ہے، قتل و خون، تباہی و بربادی، انسان کی خوف ناک مصیبتوں کا آلہ بنا ہوا ہے۔ سائنس نے ہوائی جہاز تو ایجاد کر دیا لیکن اس سے اچھا یا برا کام لینا تو انسان پر منحصر ہے۔ سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتا اور نہ بتاسکتا ہے کہ ہم اس ایجاد سے کیا مصرف لیں۔ سائنس کو انسانی قدروں سے کوئی خاص سروکار نہیں۔ اس کی ایجادوں کی مدد سے انسانیت ترقی کر سکتی ہے اور انہی سے انسانیت تباہ و برباد بھی ہو سکتی ہے۔”

    "آج کے خونیں مناظر کے تصور سے دل بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے کاش سائنس نے یہ ترقیاں نہ کی ہوتیں۔ پھر انسانیت کو اس خون کے غسل سے سابقہ نہ پڑتا۔ سائنس کی ترقی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ پہلے سالہا سال کی جنگ میں جتنی جانیں تلف ہوتی تھیں اس قدر آج ایک روز میں ضائع ہو سکتی ہیں۔ توپیں، بم کے گولے، ٹینک، آبدوز کشتیاں، زہریلی گیس، مہلک امراض کے جراثیم، غرض ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت خودکشی پر آمادہ ہے اور اس جرم میں سائنس اس کا معین و مددگار ہے۔”

    "ظاہر ہے کہ کسی چیز کی صرف اس لیے کہ وہ سائنس کی حیرت انگیز ایجاد ہے، ہم بے سوچے سمجھے تعریف نہیں کر سکتے۔ اس قسم کی تعریف ہماری بے صبری کی دلیل ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ سائنس کی کسی ایجاد سے ناجائز مصرف لینے کا ذمہ دار انسان ہے سائنس نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس تو ہمیں قتل و غارت کی تلقین نہیں کرتا، انسان کو خود کشی پر نہیں ابھارتا، اس لیے سائنس موردِ الزام نہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح ہے لیکن ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ سائنس پر سماجی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ انسانی بہبود کے لیے عالمِ وجود میں آیا اور اسے مقصد کو کبھی نہ بھولنا چاہیے۔ سائنس تباہی و بربادی کے سامان مہیا کر کے علیحدگی اختیار نہیں کرسکتا اور یہ کہہ کر الزام سے بری نہیں ہو سکتا کہ چیزیں تو ایجاد ہو گئیں، اب ان سے کام لینا میرا کام نہیں۔ سائنس اور سائنس داں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ایجاد کی ہوئی چیزوں کو انسانیت کی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سائنس کو اپنے مقام سے واقف ہونا چاہیے۔ اگر یہ اپنے حد سے نہ بڑھے، اپنی خامیوں اور حدود سے واقف ہو اور خدائی کا دعویٰ نہ کرے تو بہت سے الزام جو اس پر عائد ہوتے ہیں ان سے محفوظ رہے گا۔”

    "غرض ریڈیو یا سائنس کی کوئی دوسری ایجاد اپنی جگہ پر اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی۔ اس ریڈیو سے بہت سے اچھے کام لیے جا سکتے ہیں۔ جلد ضروری خبریں بھیجی جاسکتی ہیں۔ ضرورت کے وقت مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ایسی جگہوں میں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر واقع ہوئی ہیں، براہ راست ربط قائم رکھا جا سکتا ہے۔ دوری کا مسئلہ ریڈیو اور ہوائی جہاز کی وجہ سے حل ہو گیا ہے، دنیا مختصر اور سمٹی ہوئی ہو گئی ہے۔ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات میں آسانیاں ہیں اور مختلف کلچر ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ سب آپس میں مل رہے ہیں اور مل کر ایک اعلیٰ انسانیت کا نمونہ قائم کر سکتے ہیں۔ یہ سب سہی لیکن اسی ریڈیو سے ناجائز مصرف لیا جا سکتا ہے۔ غلط خبریں نشر کی جا سکتی ہیں۔ جنگ میں اس سے اسی قدر مہلک کام لیا جا سکتا ہے جتنا بری و بحری اور ہوائی فوجوں سے۔ اسی سے انسان کے ذہن کوغلام بنایا جا سکتا ہے، اس کی روح کو جراثیم کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ان باتوں پر زیادہ غور و فکر نہیں کرتے اور جو چیز رائج ہو جاتی ہے اسے قبول کر لیتے ہیں۔”

    "ریڈیو کا رواج مغربی ملکوں میں عام ہے اور اب ہندوستان میں بھی عام ہو چکا ہے۔ مختلف ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے ہیں اور صبح سے رات تک پروگرام جاری رہتا ہے جیسے سنیما کا رواج عام ہے اور اسے عموماً زندگی کی ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سنیما کی اچھائی برائی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ اسے تفریح کا ایک اچھا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ سنیما اور کلچر میں کیا تعلق ہے، اس مسئلہ پر ہم سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح اخباروں کا مسئلہ ہے۔ اخباری اشتہاروں کا مسئلہ ہے۔ بازاری رسالوں، افسانوں اور ناولوں کا مسئلہ ہے۔ غرض ایسے کتنے مسائل ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے کہ یہ چیزیں انسانیت کی ذہنی خودکشی کا ذریعہ نہ بن جائیں۔ ہم ہیں کہ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔”

    "ہاں تو ریڈیو کا مسئلہ کوئی الگ مسئلہ نہیں لیکن اتنی فرصت نہیں کہ ان سب مسئلوں پر ایک نظر ڈالی جائے اور شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ریڈیو نے اخباروں، اشتہاروں، تصویروں، بازاری رسالوں اور افسانوں کو گویا اپنی وسیع آغوش میں لے لیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ریڈیو کے بارے میں کہا جائے وہ اور چیزوں پر بھی منطبق ہوگا۔”

  • محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری: اردو تنقید کے معمار کا تذکرہ

    محمد حسن عسکری کو اردو تنقید کے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نقّاد، مترجم اور افسانہ نگار تھے جن کا کام نہایت وقیع اور مستند ہے۔ ان کے نگارشات کے پس منظر میں اردو تنقید نے کئی محاذ سر کیے اور نئی دنیا بسائی۔

    18 جنوری 1978ء کو اردو تنقید نگاری کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ان کی غیرمعمولی تحریریں اور تنقیدی مضامین اردو زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    محمد حسن عسکری قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے لاہور آئے تھے، کچھ عرصے بعد وہ کراچی منتقل ہوگئے اور ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی، وہ تمام عمر تدریس کے ساتھ تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی سند لی۔ یہاں انھیں فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

    بطور ادبی تخلیق کار انھوں نے ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    انھوں نے تنقید کے ساتھ افسانہ نگاری بھی کی۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔

    وہ کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نیا زمانہ، نئے تخلیقی مزاج کا افسانہ اور تنقیدی مسائل

    نیا زمانہ، نئے تخلیقی مزاج کا افسانہ اور تنقیدی مسائل

    صاحب، افسانے کے باب میں جو مسائل مجھے پریشان کرتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اب آپ افسانے کو لمحۂ رواں کے آشوب سے کنی کاٹ کر نہ تو لکھ سکتے ہیں نہ اس کی ادبی قدر کو طے کر سکتے ہیں۔

    پھر اس لمحۂ گزراں کی نیرنگیاں اور ستم ظریفیاں اتنی عجب ہیں کہ انہیں گرفت میں لینے بیٹھو تو روایتی صلاحیت والا آدمی پل بھر میں اتھلا ہو کر ننگا ہو جاتا ہے۔ میں اس پر زور دیتا آیا ہوں کہ تخلیقی عمل کے دوران لکھنے والا اکیلا ہو جایا کرتا ہے۔ اور اب اس باب میں یہ وضاحت کرنا پڑ رہی ہے کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی سہولت سے میں نے کہہ دی تھی۔

    دیکھا جائے تو انفرادی شعور کسی نہ کسی سطح پر ثقافتی شعور کی لہروں سے غذا پا رہا ہوتا ہے۔ یہ بات گرہ میں باندھنے کی ہے کہ یہ ثقافتی کروٹیں محض کسی جواں سال بیوہ کے بستر کی سلوٹیں نہیں ہوا کرتیں کہ انہیں تہذیبی شعور بہرحال اپنے زیرِ اثر رکھتا ہے۔ جی میں اسی تہذیبی شعور کی بات کر رہا ہوں جو بظاہر غیر فعال ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سب پر مستزاد وہ تہذیبی اور ثقافتی لین دین ہے جس سے اجتماعی شعور روحِ عصر میں ڈھلنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ تماشا جو ناقد کی کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے اور جسے وہ نئے زمانے میں افسانے کے تانے بانے کا حصہ بنتے صاف دیکھ رہا ہوتا ہے کیا وہ اسے افسانے کی تنقید سے الگ رکھ کر ادبی سطح پر درست نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔

    میں سمجھتا ہوں کہ اس باب میں اگر اس کا تنقیدی اور ادبی شعور تازہ نہیں ہے تو اسے افسانہ اور افسانے کی تنقید سے پہلے اپنی حسّیات کی تربیت اور تازگی کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ بہت خرابی ہو گی۔

    خرابی ہو گی؟….. کیا کہا صاحب؟ ہماری سدھائی ہوئی حسّیات نے کیا اب تک افسانے کی تنقید کو کج راہ نہیں کر رکھا۔ ذرا ان صاحب کو دیکھنا جو نئے شعور کو افسانے کا حصہ بنتے دیکھ کر بھونچکے، وہیں کے وہیں کھڑے ہیں بلکہ رخ بدل کر ماضی کی کہانیاں نئے شعور کے تازہ پانیوں سے دھوئے ادھر لڑھکاتے ہوئے کہے جاتے ہیں، حیرت ہے بھئی، حیرت ہے۔

    میرے لیے تو یہ حیران کن بات ہے کہ جب وہ معتبر لکھنے والا، جس نے ایک ادبی روایت کی طرح ڈالی ہو اپنا شمار نہ صرف اوپر والے حیرت زادوں میں کرے اس کا باقاعدہ ڈھنڈورچی بھی بن جائے۔ کسی زمانے میں یہ بات بھلی لگتی تھی کہ جب تک منظر آنکھ اوجھل نہیں ہو جاتا، چیزیں پرانی نہیں ہو جاتیں، واقعات ماضی کی دھول میں دفن نہیں ہو جاتے اور کردار مر مرا نہیں جاتے انہیں ادب نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ نئی صورت حال نے اس تصوّرِ تخلیق میں شگاف ڈال دیے ہیں۔

    ہماری تنقید کو بھی یہ بات سمجھ لینا ہو گی۔ اس نئے تناظر میں ناقد کی ذمہ داری یوں بڑھ جاتی ہے کہ اسے افسانے کی ادبی قدر کا ادراک کرنے کے لیے اپنی حسوں کو نئے جمالیاتی بُعد سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ گزرے وقتوں میں جمالیاتی بعد کی عدم موجودگی یوں کھلتی نہ تھی کہ تب کہانی کا لوکیل ماضی میں رکھ کر فاصلاتی بُعد سے قاری کو غچہ دینا آسان بلکہ کارگر فارمولا تھا۔

    نئے عصر کی تیز بوچھاڑ میں بھیگتی ہوئی کہانی کو جانچنے والا جب تک یہ نہیں سمجھے گا کہ کسی بھی فن پارے میں جمالیاتی بُعد محض اور صرف فاصلاتی بُعد نہیں ہوتا تو وہ فن کار کے باطن سے کشید ہو کر فن پارے کی روح ہو جانے والی اس مقناطیسیت کو گرفت میں لے پائے گا جو اس تخلیق کا آہنگ بنا رہی ہوتی ہے۔

    یاد رہے یہ آہنگ زبان کی سطح پر بھی کام کر رہا ہوتا ہے اور اس کے باطن میں معنیاتی سطح پر بھی۔

    (محمد حمید شاہد کی کتاب ‘اُردو افسانہ اور افسانے کی تنقید’ سے انتخاب)

  • ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    ‘پانی پت کی بھیگی بلی’

    حالی کے دوست بے شمار تھے، لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی غیر مذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔

    حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سیّد سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سر سیّد کی سوانح حیاتِ جاوید کی تصنیف تھی۔ ہماری اس تحریر میں چند پردہ نشین مردوں کے نام بھی آئیں گے جو ظاہراً دوستی کا دَم بھرتے تھے، لیکن ان کے دل حالی سے صاف نہ تھے۔ بقول میر انیس ”میں نے تو ایک دل بھی نہ دیکھا جو صاف ہو۔“

    حالی کی مخالفت ادیبوں اور شاعروں کا مرغوب مشغلہ تھا۔ اگرچہ سر سیّد، شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیر احمد اور علّامہ اقبال کی طرح حالی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیا، مگر حالی کی شخصیت اور فن کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔

    مذہبی لوگ حالی کو سر سیّد کی بانسری اور نیچری کہتے تھے۔ حالی نے جو اُردو شاعری کی پاکیزگی کی مہم کو اپنا شعار بنایا تھا وہ بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو کھلتا تھا کیوں کہ وہ حالی کو اہلِ دلّی اور لکھنؤ نہیں مانتے تھے، وہ حالی کو پانی پت کا ایک معمولی شاعر جانتے تھے۔

    ”دلّی دلّی کیسی دلّی، پانی پت کی بھیگی بلی“

    حالی کی مخالفت ان کی موضوعاتی نظموں سے شروع ہو چکی تھی۔ مسدسِ حالی کی عوام میں پذیرائی ان کے مخالفین کے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس ہو رہی تھی جو فن برائے فن وہ بھی بطور تفنّن کے قائل تھے۔ حالی ایسی شاعری کو عفونت میں سنڈاس سے بدتر بتا رہے تھے اور ایسے شاعروں کی موجودگی یا غیر موجودگی سے متاثر نہ تھے جیسا کہ انھوں نے مسدس میں اعلانیہ کہا تھا:

    یہ ہجرت جو کر جائیں شاعر ہمارے
    کہیں مِل کے خس کم جہاں پاک سارے

    مقدمہ شعر و شاعری میں چوما چاٹی کی شاعری پر شدید رد عمل نے لکھنؤ اور دلّی کے رومانی شعرا کو حالی کے مقابل کر دیا۔ درجنوں حالی کو دشنام اور نازیبا خطوط ملنے لگے۔ مختلف روزنامے اور رسالے مستقل طور پر حالی کے خلاف صف آرا ہو گئے جن میں حسرت موہانی کا اردوئے معلّیٰ اور سجاد حسین لکھنوی کا اودھ پنج پیش پیش تھے۔ حالی کے خلاف سوقیانہ ہجو لکھی جانے لگیں۔ اودھ پنج کے سرورق پر کئی سال تک یہ شعر چھپتا رہے:

    ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے
    میدانِ پانی پت کی طرح پائمال ہے

    حالی کو خالی، جعلی، مالی، خیالی اور ڈفالی جیسے ناموں سے یا د کیا جانے لگا۔ لکھنؤ اور دلّی کے اہلِ زبان کہتے تھے، یہ پانی پتی شخص کس جرأت سے اہلِ زبان کے ہم زبان ہی نہیں بلکہ مسیحائے زبان ہونے کی کوششیں کررہا ہے۔ حالی ان تمام حملات کا خاموشی سے جواب دے رہے تھے اور ہمہ تن دن رات چمنستانِ شعر کی پاکیزگی میں مصروف تھے۔

    اردو دنیا اور دنیائے ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معاصرین پر تخریبی تنقید نظر آتی ہے جیسے والٹیر کا حملہ شیکسپیئر پر، سودا کا حملہ میر پر، شیفتہ کا حملہ نظیر پر رجب علی بیگ کا حملہ میر امن پر وغیرہ۔ چنانچہ ہر ادب اور ہر دور میں تخریبی تنقید نظر آتی ہے۔

    یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:

    ”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔

    ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سیّد صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلّیٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔ حسرت اور اُن کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے، مگر زینُ العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کر کے حسرت اور اُردوئے معلّیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے، کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے، حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے۔

    اتنے میں سیّد صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:

    ”ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔

    فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکرا کر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا، اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کردیتی تھی۔

    سچ تویہ ہے کہ لعن و طعن، گالی و شنام، طنز و اعتراضات کے طوفان کو حالی نے ایک نرالے طریقے سے زیر کیا۔

    کیا پوچھتے ہو کیونکر سب نکتہ چیں ہوئے چُپ
    سب کچھ کہا اُنھوں پر ہم نے دَم نہ مارا

    (سید تقی عابدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)

  • عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    اردو کے نام وَر شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری 3 مارچ 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوتا تھا۔ اردو ادب میں فراق کو تنقید کے حوالے سے بھی اہم مقام حاصل ہے۔

    ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ وہ 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون اور اچھّے شاعر تھے۔ اسی علمی و ادبی ماحول میں فراق کی تعلیم و تربیت ہوئی اور وہ بھی اردو زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔

    وہ اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور شاعری کے ساتھ نقد و نظر کے میدان میں بھی اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ فراق نے اردو شاعری میں‌ اپنے تنقیدی میلانات کو کتابی شکل دی جس کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی کتاب اردو کی عشقیہ شاعری کے علاوہ حاشیے بھی تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔

    فراق اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ ان کا سب سے جدا اور اپنا ہی رنگ ان کے کلام سے جھلکتا ہے۔ فراق کو عہد ساز شاعر بھی کہا جاتا ہے جب کہ تنقید کے میدان میں‌ بھی ان کا مرتبہ بلند ہے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    دلّی میں‌ وفات پاجانے والے فراق گورکھپوری کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات دیے تھے۔

  • اردو کے معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی انتقال کر گئے

    اردو کے معروف نقاد شمس الرحمٰن فاروقی انتقال کر گئے

    نئی دہلی: اردو زبان و ادب کے معروف نقاد، شاعر اور ناول نگار شمس الرحمٰن فاروقی 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق شمس الرحمٰن فاروقی کو کرونا وائرس لاحق ہوا تھا جس سے صحت یاب بھی ہو گئے تھے، تاہم اس کے اثرات کی وجہ سے وہ کافی دنوں سے علیل تھے۔

    شمس الرحمٰن فاروقی آج صبح ہی دہلی سے ایک پرواز کے ذریعے الہ آباد پہنچے تھے، جہاں ان کا انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے ادبی دنیا کو ناقابل تلافی نقصال پہنچا ہے۔

    معروف نقاد اور شاعر فاروقی کی تدفین آج شام جامعہ کے نزدیک اشوک نگر کے قبرستان میں انجام دی گئی۔

    شمس الرحمٰن فاروقی کو دنیائے ادب میں ایک زیرک تنقید نگار کے طور پر جانا جاتا ہے، انھوں نے ادبی تنقید کے مغربی اصولوں کو سمجھا اور پھر اردو ادب میں ان کا اطلاق کیا۔

    شمس الرحمٰن 30 ستمبر 1935 کو پیدا ہوئے تھے، آزاد خیال ماحول میں پرورش پائی، انھوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی مقامات پر ملازمت کی، اور 1960 میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔

    وہ 1960 سے 1968 تک انڈین پوسٹل سروسز میں پوسٹ ماسٹر رہے اور اس کے بعد چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور 1994 تک پوسٹل سروسز بورڈ، نئی دہلی کے رکن بھی رہے۔

    شمس الرحمٰن نے امریکا کی پنسلوانیا یونی ورسٹی میں ساؤتھ ایشیا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    فاروقی الہ آباد میں معروف ادبی جریدے ’شب خوں‘ کے ایڈیٹر رہے، ان کی تصانیف کئی چاند تھے سرِ آسماں، افسانے کی حمایت میں اور اردو کا ابتدائی زمانہ کو اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ان کی سب سے منفرد تصنیف شعر شور انگیز ہے جو میر تقی میر کی شاعری پر ہے۔

    شمس الرحمٰن کو اردو ادب میں منفرد خدمات پر سرسوتی ایوارڈ کے علاوہ 1986 میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، سال 2009 میں انھیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔