Tag: اردو حکایات

  • دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    دلوں‌ کا بھید (بیربل کا ایک دل چسپ قصّہ)

    بیربل بادشاہ اکبر کا محبوب اور مشہور رتن رہا ہے جسے اکبر اعظم نے ابتداً اس کی ذہانت، شگفتہ مزاجی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے اپنے دربار میں جگہ دی تھی۔ بعد میں وہ بادشاہ کے مصاحبوں میں شامل ہوا۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں‌ پڑھیے

    1556ء میں بیربل نے دربار میں قدم رکھنے کے بعد وہ شہرت پائی کہ آج بھی اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ برصغیر میں بیربل کی ذہانت و دانائی اور لطیفہ گوئی کے کئی واقعات، قصّے اور کہانیاں مشہور ہوئیں۔ اکبر اور بیربل سے منسوب ان قصوں میں بہت کچھ من گھڑت بھی ہے۔ مگر یہ سبق آموز اور دل چسپ ہیں۔ تاہم ان کی حقیقت اور صداقت مشکوک ہے۔ انھیں محض خوش مذاقی اور تفریحِ طبع کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی قصّہ ہے۔

    ایک بار کسی درباری نے اکبرِ اعظم سے کہا: "جہاں پناہ! بیربل اگرچہ عقل مند آدمی ہے، مگر خاکسار کا اپنے بارے میں خیال ہے کہ بیربل کی جگہ اگر آپ مجھے عنایت فرمائیں تو شاید آپ کا یہ نمک خوار بیریل سے زیادہ اچھا کام کرے گا اور حضور کو اپنی حاضر جوابی اور برجستگی کا ثبوت دے گا۔

    اکبر نے اُس سے کہا: اس میں شک نہیں کہ تم ایک قابل، پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی ہو۔ لیکن شاید تم بیربل کا مقابلہ نہیں کر سکو۔

    لیکن وہ شخص اصرار کرتا رہا تو اکبر نے کہا: اچھا اس کا فیصلہ کل دربار میں ہو جائے گا کہ تم بیربل کی جگہ لینے کے اہل ہو یا نہیں۔ ساتھ ہی تمھاری عقل مندی، فراست اور حاضر جوابی کا امتحان بھی ہو جائے گا۔

    چنانچہ دوسرے دن دربار میں اکبر اعظم نے اس شخص سے ایک عجیب و غریب سوال کیا کہ "بتاؤ اس وقت جو لوگ دربار میں بیٹھے ہیں ان کے دلوں میں کیا ہے۔”

    وہ شخص اکبر کا یہ سوال سن کر سٹپٹا گیا اور کہنے لگا: "حضور! یہ میں کیسے جان سکتا ہوں بلکہ کوئی بھی کیسے بتا سکتا ہے کہ لوگ اس وقت کیا سوچ رہے ہیں۔ یہ جاننا تو ناممکن ہے۔

    تب یہی سوال اکبر نے پیربل سے کیا۔ بیربل! کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت یہاں موجود لوگوں کے دلوں میں کیا ہے؟

    جی ہاں، کیوں نہیں۔ بیربل نے جواب دیا: ” حضور! سب لوگوں کے دلوں میں ہے کہ مہابلی کی سلطنت ہمیشہ قائم رہے۔ اگر یقین نہ ہو تو آپ ان سے دریافت کر لیجیے کہ میں سچ بول رہا ہوں یا جھوٹ۔

    بیربل کی یہ دانش مندانہ بات سن کر تمام درباری مسکرانے لگے اور اکبر بھی مسکراتے ہوئے اس شخص کو دیکھنے لگا جو بیربل کی جگہ لینے کا خواہش مند تھا۔ اس نے شرمندگی سے سَر جھکا لیا۔

    (اکبر اور بیربل کی کہانیاں سے ماخوذ)

  • حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    دنیا میں عقل و دانائی، حکمت و نصیحت پر مبنی واقعات پر مشتمل کتب میں شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ یہ حکایت انہی سے منسوب ہے اور اپنے وقت کے ایک مشہور دولت مند حاتم طائی کی سخاوت اور فیاضی کا وہ قصّہ ہے جس میں مہمان نوازی اور ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے۔

    سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    حکایت کچھ اس طرح ہے کہ حاتم طائی کے پاس ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا۔ وہ اس قدر خوبصورت قد آور، تیز رفتار اور اصیل تھا کہ جو اس کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ فی الحقیقت اس برق رفتار جانور کی نظیر نہیں ملتی تھی۔ اس گھوڑے کا شہرہ دور دور تک تھا۔

    ایک دفعہ شاہِ روم کے دربار میں بھی حاتم کی بے مثل سخاوت اور اس کے بے نظیر گھوڑے کا ذکر نکل آیا۔ بادشاہ کا وزیر حاتم طائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی شخصیت سے بہت مرعوب نظر آرہا تھا۔ بادشاہ کا موڈ اچھا تھا اور دربار کا ماحول خوشگوار تھا۔ بادشاہ اپنے وزیر کی زبانی حاتم طائی کی تعریفیں سنتا رہا مگر جب گھوڑے کا ذکر ہوا تو اچانک اپنے وزیر سے کہا کہ بغیر دلیل و ثبوت کے ڈینگیں مارنا رسوائی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں حاتم سے یہ گھوڑا مانگوں گا۔ اگر اس نے دے دیا تو جانوں گا کہ واقعی وہ بڑا سخی اور ایثار کرنے والا آدمی ہے۔ اگر اس نے دینے سے انکار کیا تو سمجھوں گا کہ اس کی شہرت محض خالی ڈھول کی آواز ہے۔ چنانچہ اس نے ایک عقل مند قاصد آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا کہ وہ حاتم سے اس کا وہ بہترین اور پیارا گھوڑا مانگ لائیں۔ قاصد اور اگر کے ساتھی منزلوں پر منزلیں مارتے حاتم کے قبیلہ میں پہنچے اور رات کو حاتم کے ہاں قیام کیا۔

    اس وقت تیز بارش ہو رہی تھی اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے ہر ذی نفس اپنے گھروں میں محصور تھا۔ گھر سے باہر قدم رکھنا ناممکن تھا۔ حاتم کے مویشیوں کا گلہ گھر سے کافی فاصلے پر چراگاہ میں تھا اور اتنے مہمانوں کے طعام کے لیے اس وقت گھر میں کوئی چیز نہ تھی۔ البتہ وہ مشہورِ زمانہ گھوڑا جس کا ذکر شاہِ روم کے دربار میں اس کے وزیر نے کیا تھا، اس کی قیام گاہ کے مخصوص احاطے میں موجود تھا۔ حاتم کو یہ گھوڑا بہت عزیز تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اسے اپنے کسی دوسرے اصطبل یا چراگاہ میں نہیں چھوڑتا تھا۔ یہ بات حاتم کی سخاوت اور مہمان نوازی سے بعید تھی کہ اس کے گھر آئے ہوئے لوگ بھوکے رہیں یا وہ ان کی خدمت میں کوئی کسر چھوڑے۔ حاتم طائی نے وہی گھوڑا ذبح کردیا اور مہمانوں کے سامنے خوان سجا کر پیش کر دیا۔ سب نے پیٹ بھر کر لذیذ کھانا کھایا اور رات گزاری۔

    صبح ہوئی تو شاہِ روم کے قاصد نے حاتم سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ بادشاہ کی خواہش معلوم ہوئی تو حاتم پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ حسرت سے اپنے ہاتھ ملنے لگا اور بہت نادم نظر آیا۔

    حاتم نے قاصد سے کہا، اے نیک بخت! تُو پہلے حرفِ مدعا زبان پر کیوں نہ لایا ؟ وہ گھوڑا تو میں نے گزشتہ شب تمہاری ضیافت کے لیے ذبح کر دیا، رات کو اسی کے کباب تم نے کھائے ہیں۔ افسوس کہ اس کے سوا کل رات میرے گھر کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ اور مجھے یہ گوارا نہ تھا کہ مہمان بھوکے رہیں۔

    یہ سن کر قاصد جذباتی ہوگیا اور بے اختیار حاتم کے ہاتھ چوم لیے۔ حاتم طائی نے ان کو کہا کہ وہ بادشاہ تک اس کی معذرت پہنچائیں اور پھر ان کو بہت سے گھوڑے دے کر رخصت کیا۔

    شاہِ روم کے قاصد کئی منزلیں طے کر کے دربار میں پہنچے اور وہاں یہ سارا قصّہ سنایا تو ہر ایک کی زبان پر حاتم کے لیے تحسین و آفرین کے کلمات تھے۔ شاہِ روم نے وزیر کے سامنے تسلیم کیا سعادت اور سخاوت حاتم طائی پر ختم ہے۔

  • ناقد (حکایت)

    ناقد (حکایت)

    ایک رات کا ذکر ہے کہ ایک آدمی گھوڑے پر سوار سمندر کی طرف سفر کرتا ہوا سڑک کے کنارے ایک سرائے میں پہنچا۔ وہ اترا اور سمندر کی جانب سفر کرنے والے سواروں کی طرح رات اور انسانیت پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے گھوڑے کو سرائے کے دروازے کے قریب درخت سے باندھا اور سرائے میں چلا گیا۔

    مشہور حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    رات کے وقت جب تمام لوگ سو رہے تھے ایک چور آیا اور مسافر کا گھوڑا چرا لے گیا۔

    صبح وہ آدمی اٹھا تو دیکھا اس کا گھوڑا چوری ہو گیا ہے۔ وہ گھوڑا چرائے جانے پر بیحد غمگین ہوا۔ نیز اس بات پر اسے بے حد افسوس ہوا کہ ایک انسان نے اپنے دل کو گھوڑا چرانے کے خیال سے ملوث کیا۔

    تب سرائے کے دوسرے مسافر آئے اور اس کے گرد کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔

    پہلے آدمی نے کہا کہ "کیا یہ تمہاری حماقت نہیں کہ تم نے گھوڑے کو اصطبل سے باہر باندھا۔”

    دوسرے نے کہا، "اور یہ اس سے بڑھ کر حماقت ہے کہ گھوڑے کو چھنال نہیں لگائی۔”

    تیسرے نے کہا، "اور یہ حماقت کی انتہا ہے کہ سمندر کی طرف گھوڑے پر سفر کیا جائے۔”

    چوتھے نے کہا، "صرف سست اور کاہل لوگ ہی گھوڑے رکھتے ہیں۔”

    تب مسافر بے حد حیران ہوا اور پھر وہ چلّا کر بولا: "میرے دوستو! کیا تم اس لئے میری غلطیوں اور کوتاہیوں کو گنوا رہے ہو کہ میرا گھوڑا چوری ہو گیا ہے، لیکن کیا یہ عجب نہیں ہے کہ تم نے ایک لفظ بھی اس شخص کہ متعلق نہیں کہا جس نے میرا گھوڑا چرایا۔

    (عالمی شہرت یافتہ شاعر، نثر نگار اور دانش ور خلیل جبران ہیں)

  • پرانا دوست (حکایت)

    پرانا دوست (حکایت)

    یہ جب کی بات ہے جب شیر خان نے لالہ بنسی دھر سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے۔ اس وقت اس کا دوست جیون بھی اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لالہ نے یہ روپے چھ ماہ کی مدت پر دیے تھے۔ لیکن جب یہ مدّت گزر گئی۔ تو شیر خان نے دو ماہ کی مدّت طلب کی جو لالہ نے دے دی۔ مگر دو کیا جب چار ماہ گزر گئے اور لالہ بنسی دھر روپیہ مانگنے گیا تو شیر خان نے روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ تم جھوٹ بولتے ہو میں نے تم سے کوئی روپیہ نہیں لیا۔ جاؤ رپٹ لکھا دو تھانے میں۔

    بس اب تو بات ہی الٹ گی۔ شیر خان نے نہ صرف یہ کہ ایک سال گزر جانے پر روپے نہیں دیے، بلکہ اس بات سے ہی انکار کردیا کہ اس نے روپے لیے ہیں۔

    کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لالہ بنسی دھر کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس کو یاد آیا کہ روپیہ دیتے وقت جیون بھی وہاں بیٹھا تھا۔ جیون بڑا سچا پکا اور نمازی آدمی تھا، اسی لیے لوگ اس کو ملا جیون کہتے تھے۔ لالہ بنسی دھر نے عدالت میں درخواست لگا دی اور یہ بھی لکھ دیا کہ ملا جیون سے اس کی تصدق کر لی جائے۔

    شیر خان کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بہت پریشان ہوا۔ لیکن اس کو یہ اطمینان ہوا کہ معاملہ ملّا جیون کے ہاتھ میں ہے اور ملّا جیون اس کا پکّا دوست ہے۔ وہ فوراً ملّا جیون کے پاس گیا اور سارا معاملہ اس کو سنا دیا اور یہ کہا، ’’یہ میری عزّت کا سوال ہے میں تم کو اپنی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں۔‘‘

    ملّا جیون بہت پریشانی میں پھنس گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے سوچ کر کہا، ’’شیر خان اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا دوست۔ ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا ساتھ دینا چاہیے۔‘‘

    شیر خان نے چمک کر کہا۔ پرانے کا۔ میں تو تمہارا پرانا دوست ہوں۔‘‘ شیر خان ملاّ جیون کی اس بات کی گہرائی کو نہ جان سکا اور یہ سمجھ لیا کہ وہ اسی کے حق میں گواہی دے گا۔ وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔

    چند ہفتہ بعد عدالت میں پیشی ہوئی۔ بنسی دھر نے اپنا معاملہ پیش کیا۔ جج صاحب نے بہ حیثیت گواہ ملّا جیون کو طلب کیا۔ شیر خان بہت خوش تھا۔ اس کی دوستی کام آ رہی تھی۔ ملّا جیون آیا اور بیان دیا: ’’لالہ بنسی دھر سچ کہتا ہے، اس نے شیر خان کو پانچ سو روپے میرے سامنے دیے تھے۔ شیر خان جھوٹ بولتا ہے۔‘‘ عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا اور شیر خان کو دو ہفتہ کے اندر ادائیگی کا حکم دے دیا۔

    شیر خان شیر کی طرح بپھرا ہوا ملّا جیون کے پاس آیا اور کہا ’’تم دھوکے باز ہو تم نے مجھے دھوکا دیا۔‘‘

    ملّا جیون نے نرمی سے کہا، ’’ناراض مت ہو۔ میں نے یہ کام تمہارے مشورہ سے کیا۔‘‘

    ’’میرا مشورہ….کیا خاک مشورہ۔‘‘ شیر خان غصّے سے بولا۔

    ملّا جیون نے کہا ’’تم کو یاد نہیں؟ میں نے کہا تھا کہ اگر کسی آدمی کے دو دوست ہوں ایک نیا، ایک پرانا۔ تو اس کو کس کا کہا ماننا چاہیے۔ تم نے جواب دیا پرانے کا۔ بس پھر میں نے تمہارے مشورہ پر عمل کیا۔ اور پرانے دوست کا کہنا مانا۔‘‘

    ’’کون ہے تمہارا پرانا دوست؟‘‘ شیر خان نے چمک کر کہا۔

    ’’میرا پرانا دوست اللہ ہے۔‘‘ ملّا جیون نے کہا۔ ’’جس سے میری پچاس سال پرانی دوستی ہے۔ روز میں اس کے پاس وقت گزارتا ہوں، اس کی باتیں سنتا ہوں، اپنی باتیں سناتا ہوں۔ اس نے کہا دیکھو جھوٹ کبھی نہیں بولنا۔ بس میں نے یہ کام اس کی دوستی کی خاطر کیا۔ رہا تمہارے قرضہ کا سوال تو کل میں نے اپنا مکان رہن رکھ کر لالہ بنسی دھر کو پانچ سو روپے دے دیے ہیں۔ اب وہ تمہارے پاس رقم کا مطالبہ کرنے نہیں آئے گا۔‘‘

  • کپڑے کا نقص اور جعلی دینار

    کپڑے کا نقص اور جعلی دینار

    ایک مرتبہ کوئی گھڑ سوار اپنی سواری کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے شہر مکّہ کے راستے پر جارہا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے بال گرد و غبار سے اَٹے ہوئے ہیں اور لگتا تھا کہ وہ کئی میل کی مسافت طے کرتا ہوا یہاں سے گزرا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کسی قافلے کی تلاش ہے۔ کیوں کہ وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے تیزی سے آگے نکل رہا تھا۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    کئی کوس آگے جانے کے بعد اس گھڑ سوار کو چند راہ گیر نظر آئے تو اس نے اپنا گھوڑا روک لیا اور ان سے کسی قافلے کے بارے میں دریافت کیا۔ کسی نے بتایا کہ اس طرف لوگوں کے ایک قافلے کو جاتے ہوئے دیکھا ہے تو اس نے اپنے گھوڑے کو اسی سمت دوڑا دیا۔ کچھ دور جا کر اسے وہی قافلہ مل گیا جس کی تلاش میں وہ میلوں کا سفر کر کے آیا تھا۔ مقصود کو اتنا قریب دیکھ کر اس کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے ایک شخص کو مخاطب کر کے اس سے پوچھا: ”کیا آپ نے احمد بن طبیب سے کپڑا خریدا تھا؟“

    اس شخص نے گھڑ سوار کو دیکھا اور کچھ تجسس سے بولا، ”جی ہاں! میں نے خریداری کی تھی۔“

    ”دراصل بات یہ ہے کہ میرے دلال احمد بن طبیب نے آپ کو کپڑا بیچ کر پیسے مجھے دیے تو میں نے اس سے پوچھا کہ کپڑا کسے بیچا ہے؟………..اس نے بتایا کہ ”ایک مسافر کو۔“

    ”میں نے استفسار کیا کہ کیا اس کپڑے کا فلاں عیب اسے بتا دیا تھا؟“ اس پر احمد بن طبیب نے کہا کہ ”وہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔“

    نوجوان گھڑ سوار ایک لمحے کو چپ ہوا اور پھر بولنا شروع کیا کہ یہ سن کر مجھے بے حد پریشانی ہوئی، میں اس پر غصے ہوا تو اس کا کہنا تھا، ”میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا بلکہ یہ نسیان کے سبب ہوا، اس لیے جو کچھ ہوا آپ اسے بھول جائیے! آئندہ میں احتیاط کروں گا۔“ لیکن میں اس کے سَر ہو گیا۔ اسے آپ کا پتہ معلوم کرنے کو کہا، بڑی مشکل سے پوچھ تاچھ کی تو آپ کا کچھ ٹھکانہ معلوم ہوا لیکن جب میں اس پتے پر آپ سے ملنے پہنچا، تو معلوم ہوا کہ آپ حاجیوں کے قافلے کے ساتھ مکہ معظمہ روانہ ہو چکے ہیں۔ میں نے ایک برق رفتار گھوڑا کرائے پر لیا اور آخرکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں تاکہ آپ کو بتا سکوں کہ کپڑے میں یہ نقص ہے۔

    قافلے کے سبھی لوگ اس نوجوان تاجر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ خریدار جو اس قافلے کے ساتھ حج کے لیے جارہا تھا، ایک عجیب احساس میں گھر چکا تھا۔ وہ کبھی کپڑے کو دیکھتا اور کبھی میلوں دور تک اپنی تلاش میں آنے والے اس تاجر کو، جو محض کپڑے کا نقص بتانے کے لیے اتنی تکلیف اٹھا چکا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا اور پھر کہنے لگا ”کیا وہ دینار جو میں نے آپ کے دلال احمد کو دیے تھے وہ آپ کے پاس ہیں؟“

    تاجر نے جواب دیا ”ہاں یہ لیں۔“ مسافر نے وہ دینار لیے اور دور پھینک دیے اور دوسرے دینار نکال کر اس نوجوان تاجر کی طرف بڑھا دیے۔ تاجر نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا کہ وہ دینار آپ نے کیوں پھینک دیے؟

    مسافر نے جواب دیا کہ ”وہ کھوٹے تھے، لیکن آپ کی راست گوئی اور دیانت داری دیکھ کر میرے ضمیر نے ملامت کی اور مجھے یہ اعتراف کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ میں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا، لیکن اب جب کہ آپ نے دیانت داری کا ایسا مظاہرہ کیا ہے تو میں کیسے پیچھے رہ سکتا ہوں۔ مجھے یہ کپڑا نقص کے ساتھ قبول ہے اور اس کی قیمت حاضر ہے۔“

    (دل چسپ، سبق آموز اور انوکھے واقعات پر مشتمل ایک کتاب سے انتخاب)

  • کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    مختلف ممالک کی لوک داستانیں، حکایات یا سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کا شوق رکھنے والے قارئین نے شاید کبھی غور کیا ہو کہ بالخصوص حکایات نہ صرف مختصر ہوتی ہیں بلکہ مکالمہ کے بجائے ان میں زیادہ تر بیانیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرز کی ایک چینی حکایت ہے، جس میں زندگی کی ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ایسی حقیقت جس کا ہم میں سے اکثر لوگوں کو کبھی نہ کبھی تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔

    قارئین نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا ہے کہ حکایتوں میں حالات و واقعات اور ان کا پس منظر بھی پڑھنے کو نہیں ملتا جس کے باعث شاید ان میں وہ لطف اور دل کشی نہیں محسوس ہوتی جو ایک کہانی یا داستان کا حصّہ ہوسکتی ہے، مگر کوئی حکایت جو رمز یا حقیقیت اجاگر کرتی ہے اور ان سے جو سبق ملتا ہے، وہ ہماری سوچ کو بدلنے اور شخصیت کو سنوارنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    حکایت ملاحظہ کیجیے:

    یہ دراصل ایک گفتگو ہے جو شہزادہ چِن، جس نے بعد ازاں تاجِ سلطنت پہنا اور اس کے مشیر ژو، جو وقت گزرنے پر وزیرِ اعظم کے مرتبے پر فائز ہوا، کے درمیان ہوئی۔

    سبق آموز، نصیحت آمیز اور دل چسپ حکایات اور کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے

    شہزادے نے ژو سے دریافت کیا۔ “میرے تمام مشیروں میں تم سب سے زیادہ ذہین و فطین ہو، پھر بھی لوگ پیٹھ پیچھے تمہیں کثرت سے تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟”

    یہ سوال ایک طرح سے ژو کے فہم و تدبر کا امتحان بھی تھا۔ ژو نے مدبرانہ انداز میں جواب کچھ یوں دیا:

    “جب بہار میں بارش برستی ہے تو کسان اسے رحمت جان کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کھیتیاں سیراب ہوئیں، لیکن مسافر اسی بارش کو زحمت گردانتے ہیں کہ راہیں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں۔ جب خزاں کی راتوں میں چاندنی پورے جوبن پر ہوتی ہے تو نازنین عورتیں اس کی چمک سے لطف اٹھاتی ہیں، مگر چور اسی روشنی کو کوستے ہیں کہ وہ ان کے (دوسروں کی نظروں سے) چھپنے کے راستے بے نقاب کر دیتی ہے۔

    جب قدرتِ کاملہ خود سب کو راضی نہیں کر سکتی، تو پھر ایک بندۂ دربار سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    (مترجم و حوالہ نامعلوم)

  • کنجوس آدمی کا سخی بیٹا (حکایت)

    کنجوس آدمی کا سخی بیٹا (حکایت)

    کسی ملک کے ایک قصبہ میں کوئی کنجوس شخص رہتا تھا لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ اس کا بیٹا بڑا بہت دریا دل اور سخی مشہور تھا۔ باپ جس قدر کنجوس تھا، بیٹا اس سے کہیں زیادہ فیاض تھا۔

    آخر وہ وقت آیا جب اس کا کنجوس باپ اپنے سفر آخرت پر روانہ ہوا اور ظاہر ہے کہ اس نے جو مال بچایا تھا اور جو دولت اکٹھا کی تھی، وہ اس کے مرنے کے بعد اولادوں کو مل گئی۔ اس شخص کے فیاض بیٹھے کو جو دولت ملی وہ اس نے فراخ دلی سے خرچ کرنا شروع کر دی۔ وہ اپنے قصبے کے غریب اور نادار لوگوں کی ضروریات پوری کرنے لگا اور کوئی سوالی اس کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جاتا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کے ایک خیر خواہ نے اسے سمجھایا کہ دیکھو میاں ایسی دریا دلی بھی اچھی نہیں جو تم کو کنگال کر دے۔ دولت ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے، حالت بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ خزانوں کے مالک پل بھر میں خاک چھاننے لگتے ہیں۔ کچھ اپنے آڑے وقت کے لئے بھی بچا رکھو۔ کون جانے کل کیا ہو۔ اس لڑکے نے یہ سنا تو پوچھا کہ اگر میں نے اسی طرح اپنی دولت غریبوں کو دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور کنگال ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟

    اس آدمی نے کہا، یہ کیسی بات پوچھی، کیا تم نہیں‌ جانتے کہ آج متمول ہو اور کل خدانخواستہ مفلس ہو گئے تو فقیروں کی جھولیاں بھرنے والا خود فقیر بن کے دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا چاہے گا؟ دیکھو میاں میں تمہارے بھلے کی بات کہتا ہوں۔ ہم تو تمہارے خیر خواہ ہیں۔

    اس سخی نوجوان نے اس آدمی کا جواب سنا اور بولا ’’اے میرے ہمدرد و ناصح سنو، تم مجھے جس دولت کے بارے میں نصیحت کر رہے ہو، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ بخشے میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے یہ دولت کوڑی کوڑی جوڑ کر جمع کی تھی، جسے آخرت کے سفر پر جاتے ہوئے وہ دوسروں کے لیے چھوڑ گیا ہے۔ یہی معاملہ میرے ساتھ پیش آئے گا۔ میں بھی اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔ ایسی صورت میں کیا یہ اچھا نہیں کہ میں اسے مستحق لوگوں میں خرچ کر دوں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ مجھے یقین ہوگا کہ میں اللہ کے گھر میں اس کا اجر پاؤں گا۔ یہاں میرے بعد میں جمع پونجی میری اولاد کیسے اڑائے گی یہ میں نہیں‌ جانتا۔ اس لیے مجھے اپنا کام کرنے دو اور میرے حق میں دعا کرو۔

  • احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    یہ رمز و نکتہ آفریں حکایت شیخ سعدی سے منسوب ہے اور اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ سعدی کہیں جارہے تھے اور انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، جس کی ایک بکری اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی آ رہی تھی۔

    شیخ سعدی اسے دیکھنے لگے۔ وہ جوان جس سمت منہ کرتا اور آگے بڑھتا بکری بھی اسی جانب چل پڑتی۔ حضرت سعدی نے اس سے سوال کیا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسّی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟

    شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ میری بات کا جواب دیے بغیر اس جوان نے اپنی بکری کے پٹے کو کھول دیا۔ اب دیکھتا ہوں کہ بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی ہے۔ وہ جوان آگے بڑھ رہا ہے اور پٹے سے آزاد ہونے کے بعد بھی بکری اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے چلتی رہی، کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ بکری نے اس جوان کے ہاتھ سے چارہ کھایا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ جوان سیر کرکے واپس ہوا اور مجھے وہیں راستے میں پایا تو بولا، اے صاحب، اس بکری کو یہ رسّی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔

    جوان مزید بولا، حضرت! ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہٰذا ہمیں برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کرنا چاہیے، کیونکہ جو تیری روٹی کھائے گا وہ کہیں تجھ سے وفا ضرور کرے گا۔

  • فریبستان آدم زاد (حکایت)

    فریبستان آدم زاد (حکایت)

    یہ ایک مشہور حکایت ہے جو مولانا رومی سے منسوب ہے۔ حکایات اور سبق آموز کہانیاں‌ ہماری اصلاح اور تربیت کرکے ہمیں سیرت و کردار کو بہتر بنانے کا موقع دیتی ہیں۔

    اس حکایت میں ایک ملک کو فریبستان کا نام دے کر اس کے چند علاقوں کے باسیوں کی اکثریت کو ہوس زدہ، لالچی اور پست ذہنیت کا بتایا گیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ ان علاقوں میں تین قسم کے آدم زاد رہتے تھے۔ ان میں سے ایک کی نظر اتنی تیز تھی کہ وہ چیونٹی کے پاؤں تک دیکھ لیتا تھا لیکن وہ دل کی آنکھوں سے اندھا تھا۔ دوسرے کی سماعت بہت تیز تھی لیکن اس کے دل و دماغ کے ”کان‘‘ بند تھے۔ تیسرا مادر زاد برہنہ تھا لیکن اس کے کپڑے کا دامن دراز تھا۔

    مولانا بیان کرتے ہیں، ایک روز اندھے نے کہا کہ ”یارو! آدمیوں کا ایک گروہ چلا آ رہا ہے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں، کیوں نہ ہم یہاں سے بھاگ جائیں۔ بہرے نے کہا کہ ”ہاں ہاں، تُو ٹھیک کہتا ہے، میں بھی ان آدمیوں کے قدموں کی چاپ سن رہا ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑا گروہ ہے۔‘‘ اب برہنہ بیٹھے شخص نے کہا ”بھائیو! مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ میرے قیمتی کپڑے ہی نہ لے لیں۔‘‘ اندھا گویا ہوا، لو، وہ تو قریب آ گئے ہیں اور ان کے ارادے بھی اچھے نہیں لگ رہے، کہیں واقعی وہ ہمیں نقصان نہ پہنچا دیں۔‘‘ بہرے نے کہا کہ ”آواز قریب آ گئی ہے، ہوشیار رہنا۔‘‘ برہنہ بولا، ”بھاگو، بھاگو سب سے زیادہ خطرہ تو مجھ کو ہے۔‘‘ تینوں آگے پیچھے دوڑتے بھاگتے، ہانپتے ہوئے شہر سے باہر ایک گاؤں کے قریب پہنچ گئے۔ مارے بھوک کے ان کا برا حال ہو رہا تھا۔

    اندھے نے ایک موٹا تازہ مرغا دیکھا۔ بہرے نے اس کی آواز سنی اور برہنہ شخص نے اسے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ یہ مرغ کافی عرصے سے وہاں مرا پڑا تھا بلکہ اس کے مردہ جسم پر گوشت نام کی کوئی شے نہ تھی۔ ہڈیوں پر بھی کوؤں کی چونچوں کے نشانات تھے۔

    پھر یہ تینوں ایک دیگ ڈھونڈ کر لائے جس کا پیندا تھا نہ منہ۔ اس ہوس کی دیگ کو انہوں نے چولھے پر چڑھا دیا اور اس میں مرغ کو ڈال دیا۔ پھر انہوں نے ظلم و زیادتی کی اس قدر آگ جلائی کہ مرغ کی ہڈیاں جل کر حلوہ ہو گئیں۔ البتہ ان کے ضمیر کو حرارت چھو کر بھی نہ گئی۔ وہ تینوں اس مرغ پر ٹوٹ پڑے اور کھا کھا کر ہاتھی کی طرح موٹے ہو گئے۔ مگر ذہنیت ان کی اتنی پست کہ وہ ظالم مٹاپے کے باوجود بے شرمی کے دروازے کے باریک سوراخ سے بھی گزر جاتے تھے۔

    اس علامتی اور استعاراتی زبان میں قصہ بیان کرتے ہوئے مولانا آگے لکھتے ہیں ”جھوٹی امید کی مثال بہرے کی ہے۔ جو دوسروں کے مرنے کی خبر تو رکھتا ہے مگر اپنی موت اسے یاد نہیں۔ حرص و ہوس کی مثال اندھے کی ہے جو دوسروں کے معمولی عیبوں پر تو نظر رکھتا ہے ان کی تشہیر کرتا پھرتا ہے مگر اس بدنصیب کو اپنے عیب دکھائی نہیں دیتے۔ تیسرا آدمی سب سے بڑا بے وقوف دنیا پرست ہے۔ یہ ظالم بھی بھول گیا کہ وہ دنیا میں برہنہ آیا تھا اور اسی حالت میں دنیا سے واپس جائے گا۔ تن پر اس کی مرضی کا کوئی کپڑا نہ ہو گا، اسے ساری عمر یہی ڈر رہتا ہے کہ کہیں کوئی اس کا دامن چاک نہ کر دے، کوئی اس کے عیبوں کو بیان نہ کر دے۔ مال کی محبت میں ڈوبا رہتا ہے۔ ساری زندگی چور کے خوف سے اس کی زندگی اجیرن رہتی ہے، ایسے آدمی کو موت کے وقت سب کچھ پتہ چل جائے گا، تب حب مال والا سمجھے گا کہ وہ تو بالکل ہی مفلس تھا۔ اور صاحبِ فہم کومحسوس ہو گا کہ وہ بالکل بے ہنر تھا۔

  • فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    کسی ملک میں لٹیروں کا کوئی گروہ بڑا طاقت ور ہوگیا۔ اس میں شامل لٹیروں کے پاس بہت سے ہتھیار بھی تھے۔ وہ لوگوں سے لوٹ مار کرتے اور قتل سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ہر طرف اس گروہ کی دہشت پھیل گئی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں کی شکایات پر بادشاہ نے اپنی فوج کو ان لٹیروں کی سرکوبی کا حکم دے دیا۔ یہ چور ملک کی ایک پہاڑ کی چوٹی پر قابض تھے۔ یہی ان کی کمین گاہ تھی۔

    ایک روز فوج کے چند سپاہیوں نے علاقے کو گھیر کر لٹیروں کے خلاف کارروائی شروع کی لیکن ناکام ہوگئے۔ کیونکہ لٹیرے پہاڑی کی ایسی پوزیشن پر تھے کہ ان کو نقصان ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی بادشاہ کے سپاہیوں کو نشانہ بناتے اور خود محفوظ رہتے۔ شاہی فوج کی یہ چھوٹی سی ٹکڑی انھیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر ناکام لوٹ گئی۔ اس طرح اس گروہ کی ہمّت بڑھ گئی۔ وزیرِ دفاع نے صلاح مشورہ کے بعد ایک فیصلہ کیا اور ایک جاسوس نے جب یہ اطلاع دی کہ لٹیرے کہیں گئے ہوئے ہیں تو چند تجربہ کار، جنگ آزمودہ لوگ اس پہاڑ کی طرف نکلے اور وہاں ایک گھاٹی میں چھپ گئے۔ رات گئے ڈاکو کہیں سے لوٹ مار کے بعد واپس آئے، ہتھیار اتارے، لوٹا ہوا مال غار میں رکھا اور تھکن کی وجہ سے پڑ کر سو گئے۔ رات کا ایک حصہ گزر گیا تو وہ ماہر لڑاکا گھاٹی سے نکلے اور انھیں نیند کے عالم میں‌ پکڑ لیا۔ تیزی سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور صبح بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ سب جانتے تھے کہ ابھی بادشاہ کے حکم پر ان کو مار دیا جائے گا۔ ان لٹیروں میں ایک خوب صورت نوجوان بھی تھا جس کی ابھی داڑھی پھوٹ رہی تھی۔ ایک وزیر کو اس پر ترس آیا اور بادشاہ سے اس کی سفارش کی کہ اس بے چارے نے ابھی اپنی جوانی بھی نہیں دیکھی۔ میری سفارش قبول کرتے ہوئے اس کا خون معاف کیا جائے۔ یہ آپ کا اس سے زیادہ مجھ پر احسان ہوگا۔ بادشاہ یہ سن کر لال پیلا ہو گیا کیونکہ یہ بات اس کے مزاج کے خلاف تھی۔ جس کی اصل بری ہو وہ نیکوں کا سایہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ نااہل کی تربیت کرنا ایسا ہی جیسے گنبد پر اخروٹ رکھنا۔ بادشاہ نے کہا کہ ان چوروں کی جڑ کاٹ دینا ہی بہتر ہے کیونکہ آگ کو بجھا کر چنگاری چھوڑ دینا یا سانپ کو مار دینا اور اس کے بچّے کی حفاظت کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر بادل سے آبِ حیات بھی برسے تب بھی تجھے بید کی شاخ سے پھل نہ ملے گا، کمینے کے ساتھ وقت ضائع نہ کر، کیونکہ بوریے کے نرکل سے شکر نہیں ملے گی۔

    وزیر نے بادشاہ کی یہ بات سن کر بادلِ نخواستہ رضا مندی ظاہر کی اور بادشاہ کی رائے کو سراہا اور عرض کیا آپ کا فرمان بجا مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی صحبت میں رہ کر ان جیسا ہو گیا ہے۔ اب اگر اس کو معاف کر دیا جائے تو نیکوں کی صحبت میں رہ کر ہو سکتا ہے نیک ہو جائے۔ ابھی بچّہ ہے اور ان کی صحبت کے اثر نے بھی اس کی طبیعت میں جڑ نہیں پکڑی۔ وزیر کی یہ بات سن کر دربار میں سے کچھ اور لوگ بھی اس کے ہمنوا ہوگئے۔چنانچہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی معاف کردیا۔ اس لڑکے کو وزیر نے اپنے ایک شاہی خادم کے سپرد کردیا۔ اور اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور ایک استاد نے اس کو آداب سکھائے، بات چیت کا طریقہ بتایا، شاہوں کی بارگاہ میں بیٹھنے کا سلیقہ تک سکھایا اور واقعی سب اس کو پسند کرنے لگے۔ ایک دن وزیر نے بادشاہ کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں کہ عقلمندوں کی کوششوں نے اس کی طبیعت پر بہتر اثر کیا ہے اور اس نے پرانی عادتیں چھوڑ دی ہیں۔

    بادشاہ نے مسکرا کر کہا!آخر کار بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے، اگرچہ انسانوں کے ساتھ تربیت پائے۔ وزیر یہ سن کر چپ ہوگیا مگر دل میں بادشاہ کی اس بات کا بڑا ملال ہوا۔ تقریباً دو سال گزرے ہوں گے کہ اس لڑکے کی چند آوارہ مزاج اور بدمعاش قسم کے لڑکوں سے دوستی ہوگئی۔ اس کا اکثر وقت ان کے ساتھ گزرنے لگا۔ وزیر کے شاہی خادم نے اس جانب توجہ نہ دی۔ اور نہ ہی وزیر سے اس کا ذکر کیا۔ ایک روز عجیب بات ہوئی۔ وہ لڑکا اور اس کے دوست کسی طرح وزیر کے گھر میں‌ گھس گئے۔ انھوں نے وزیر اور اس کے دو بیٹوں کو قتل کر کے اس کا سارا مال جمع کیا اور بھاگ گئے۔ وہ لڑکا اب اپنے انہی ساتھیوں‌ کو لے کر چوروں کی گھاٹی میں جا کر رہنے لگا۔ اس نے بغاوت کر دی تھی۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے افسوس کرتے ہوئے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا، گھٹیا لوہے سے اچھی تلوار نہیں بن سکتی، سکھانے پڑھانے سے نالائق، لائق نہیں ہو سکتا، جس کی طبیعت میں برائی رچ بس جائے اس پر تربیت بھی اثر نہیں کرتی لہٰذا ہر وقت اس کے شر سے محتاط رہنا چاہیے۔

    (ماخوذ از سبق آموز کہانیاں اور حکایت)