Tag: اردو حکایات اور کہانیاں

  • بڑے بچّوں‌ کے لیے لکھی گئی ایک کہانی

    بڑے بچّوں‌ کے لیے لکھی گئی ایک کہانی

    جب رات کو سونے سے پہلے میرا نواسا فوزان اصرار کرتا ہے کہ نانا ابو کہانی سنائیں اور کہانی بھی اپنے بچپن کی تو میں سوچتا ہوں نانا دادا لوگ بچوں کے لیے ہمیشہ داستانوی کردار کیوں ہوتے ہیں؟ کیا واقعی وہ زندگی کی کہانیوں کے ہیرو ہوتے ہیں یا محض بچوں کی فنطاسیہ کا کرشمہ یعنی سراب خیال یا ایسے علائم و تصورات جنہیں وہ حقیقی خیال کر لیتے ہیں؟

    کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے بچوں کے لیے وہ کسی دور دراز سیارے کی مخلوق ہوتے ہیں یا ان دیکھے زمانوں کے کردار جنھیں بچے ہمیشہ کوئی کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے دیکھنا یا سننا چاہتے ہیں۔

    میں اپنے بچپن کے یاد رہ جانے والے تمام واقعات فوزان کو سنا چکا ہوں مگر وہ تو ہر شب میرے بچپن کی کوئی نہ کوئی کہانی سننا چاہتا ہے۔ گاؤں کے ایک متوسط زمیندار گھرانے کے بچے کے بچپن میں کیا ہو سکتا تھا! گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں دادیوں، ماسیوں، خالاؤں، چچیوں کی تیز نگاہوں سے بچ بچا کر مٹیوں سے اناج نکالنا اور ہٹی سے پھلیاں، نگدی اور بتاشے لے کر کھانا، ویرانوں میں جن بھوت ڈھونڈنا، کھیتوں سے خربوزے چوری کرنا، رہٹوں اور ڈلیوں میں ننگا کھلا ہوکر نہانا، کوئلوں سے دیواروں پر تصویریں بنانا، پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے اور بچے چوری کرنا، آنکھ مچولی کھیلنا اور کھیتوں میں اور ڈیروں اور خالی چھتوں پر ہونے والی نو عمر محبتوں کو چھپ چھپ کر دیکھنا۔ سردیوں کی لمبی راتوں میں چرخہ کاتتی عورتوں کے درمیان گھس کر بیٹھ جانا۔ نئی سہاگنوں کی سرگوشیوں اور حنائی مہک سے ایک انجانی سی لذت محسوس کرنا اور ان کے آس پاس پھرنا، یہ ساری باتیں آج کے بیکن ہاؤس، روٹس اور سٹی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے ناقابل فہم ہیں مگر فوزان کو دلچسپ لگتی ہیں۔ عورتوں کے ذکر پر وہ بڑی معصومیت سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے جیسے اس طرح کہانی کا وہ حصہ اسے سنائی اور دکھائی نہ دے رہا ہو۔

    ہمارے گاؤں میں سانپ بہت ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کبھی چھت کے شہتیروں اور کڑیوں سے سانپ لٹکا ہوتا تھا، کبھی رسوئی سے کوبرے کی پھنکار سنائی دیتی تھی، کبھی رات کو صحن میں چلتے ہوئے اچانک پاؤں کے نیچے سانپ آ جاتا تھا اور کبھی کسی پانی کی نالی میں اس کی سرسراہٹ سنائی دیتی تھی۔ نیولوں، سانپوں، کتوں اور سیہہ کی لڑائیاں بھی بہت دیکھیں۔ فوزان کو سانپوں، پرندوں اور دیگر جانوروں کے واقعات سننا بہت پسند ہے بشرطیکہ کہانی میں ان کی موت واقع نہ ہو۔

    ایک شب جب سنانے کے لیے کوئی واقعہ نہ رہا تو پوچھنے لگا کہ آپ کے نانا ابو تھے؟ میں نے کہا کہ ہاں تھے۔ تو پھر ان کے بچپن کی کہانی سنائیں۔ میں نے کہا کہ ان کا بچپن تو میں نے نہیں دیکھا، ہمیشہ انہیں بڑا ہی دیکھا۔ فوراً چالاکی سے بولا تو وہی نا، آپ تو تب بچے تھے نا، اپنے بچپن کے نانا کی کوئی اسٹوری سنائیں پلیز نانا ابو، ورنہ میں آپ کو سونے نہیں دوں گا۔

    اس نے نیند بھری آنکھوں سے دھمکی دی۔ میں نے بتایا کہ میرے نانا درویش منش تھے۔ ان کا گاؤں میرے ددھیال سے دو کوس کے فاصلے پر تھا۔ وہ پانچوں نمازیں مسجد میں جاکر ادا کرتے تھے۔ گھر میں گائے بھینس بھی تھی مگر انھوں نے اپنے شغل کے لیے چندر دھاری بکریاں پالی ہوئی تھیں جنھیں چرانے کے لیے قریبی جنگل میں لے جاتے تھے اور اس بہانے سارا سارا دن فطرت سے ہمکلام رہتے تھے۔ جب میں ننھیال میں ہوتا تھا تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک کنواں اور ایک کھیت میں سبزیاں پالی ہوئیں تھیں جن کی بالکل بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ میں نے پہلی بار بھنڈی توری کے پھول وہیں دیکھے۔ جتنا وقت گھر میں ہوتے کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے تھے۔ ان کی غذا سادہ اور سونے کے اوقات کم تھے۔

    فوزان کے لیے علمِ موجودات سے متعلق یہ باتیں قدرے بوجھل تھیں کہنے لگا۔ وہ تو ٹھیک ہے نانا ابو لیکن کہانی بھی شروع کریں نا۔۔۔ اور میں نے کہانی شروع کی۔ میں تیسری جماعت میں تھا۔ کھیتوں پر ٹڈی دَل نے حملہ کر دیا تھا۔ ٹڈی کا آنا کال کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسپرے وغیرہ تو تھے نہیں۔ حکومت نے تمام اسکولوں کو حکم نامہ جاری کیا کہ بچوں کی پڑھائی موقوف کر کے انھیں ٹڈی مار مہم پر روانہ کیا جائے۔ ہمارے ایک یک چشم ماسٹر جی تھے بڑے ظالم۔ انہوں نے پانچ پانچ بچوں کی ٹولیاں بنائیں اور ڈنڈا لہراتے ہوئے فی بچہ پانچ پانچ سو ٹڈیاں مارنے کا حکم دے کر روانہ کر دیا۔ ہم کچھ ماسٹر جی کے ڈر سے اور کچھ جوش میں ٹڈیوں کے لشکر کو مارتے، کشتوں کے پشتے لگاتے چلے گئے۔ پتا ہی نہ چلا اور گاؤں سے بہت دور نکل آئے۔ اچانک احساس ہوا کہ ہم صرف دو ہیں، میں اور میرا ایک چچا زاد۔ باقی تینوں کسی اور طرف نکل گئے تھے۔ چلچلاتی دھوپ میں بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا۔ کپڑے اور جوتے بھی پھٹ چکے تھے۔ اچانک سامنے ننھیالی گاؤں نظر آیا اور ہم اس طرف چل پڑے اور ننھیال پہنچ گئے۔ ہماری حالت دیکھ کر نانی اور نانا پریشان ہو گئے۔ پہلے پانی پلایا اور دیر تک دونوں پنکھا جھلتے رہے۔ پھر نانا ہمیں باری باری غسل خانے تک لے گئے اور گاؤں کے واحد کنویں سے لا کر ذخیرہ کیے ہوئے ٹھنڈے پانی سے نہلایا۔ اس دوران نانی نے کھانا تیار کر لیا۔ نانی کے بنائے ہوئے پراٹھوں، مکھن، لسّی، اچار اور آم کے مربے کا وہ ذائقہ آج تک نہیں بھولا اور ہمیں کھاتے ہوئے دیکھ کر نانا کے چہرے پر جو شانتی تھی۔ وہ زندگی میں پھر کہیں نہیں دیکھی۔ اسی نروانتا میں ہم خواب نشیں میں چلے گئے۔ جاگے تو سہ پہر ڈھل چکی تھی۔ نانا نے ایک آدمی کے ساتھ ہمیں ہمارے گاؤں روانہ کیا۔

    فوزان نے سوتے سوتے اگلا سوال داغ دیا۔ آپ کی امی کے نانا ابو تھے؟ امی ابو کی طرح ہر بچے کے نانا نانی اور دادا دادی ہوتے ہیں میں نے اپنے تئیں اسے شافی جواب دیا۔ اللہ میاں کے بھی؟ اللہ میاں بچہ نہیں ہوتا میں نے کہا۔ تو پھر اللہ میاں کتنا بڑا ہوتا ہے؟ وہ مجھے لاجواب کرنے پر تلا ہوا تھا۔ دیکھو میری امی کے نانا بڑے بہادر تھے۔ وہ لوگ حقیقی ہیرو تھے۔ ان کی زندگیاں کسی مہم جوئی سے کم نہیں ہوتی تھیں۔ یہ سنتے ہی فوزان کی نیند سے بوجھل آنکھوں میں یکدم چمک آ گئی۔ میں اسے پھر کہانی کی طرف لے آیا۔

    امی جی کے نانا کا گاؤں میرے ننھیالی گاؤں سے پانچ چھ کوس کے فاصلے پر تھا۔ ان کی نالا بھمبھر کے کنارے کچھ زمین تھی جہاں وہ ہر سال خربوزے کاشت کرتے تھے۔ وہ تہبند باندھتے تھے، قمیص کم ہی پہنتے تھے، کاندھے پر ایک چادر اور ہاتھ میں ڈانگ یا کلہاڑی ضرور رکھتے تھے۔ خربوزوں کے موسم میں ان کا معمول تھا کہ ہر چوتھے پانچویں روز چادر میں خربوزے بھر کر اپنی بیٹی یعنی میری نانی کو پیدل دینے جاتے تھے۔ وہ بعد دوپہر چلتے اور شام کے قریب بیٹی کے گھر پہنچتے، خربوزے چارپائی پر ڈھیر کرتے اور پانی کا ایک پیالہ پی کر واپس چل پڑتے۔ بیٹی کے گھر رکنا یا کھانا پینا معیوب سمجھتے تھے۔

    ایک بار خربوزے دینے آئے تو شام ڈھل چکی تھی۔ ان دنوں ایک بھیڑنی کے قصے بڑے مشہور تھے۔ رات کو کئی راہگیروں پر حملہ کر کے انھیں زخمی کر چکی تھی۔ اس لیے نانی نے کہا کہ رات کو نہ جائیں مبادہ بھیڑنی انھیں نقصان پہنچائے۔ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور کلہاڑی پر ان کے ہاتھوں کی گرفت سخت ہو گئی جیسے اندر ہی اندر انھوں نے کوئی فیصلہ کر لیا تھا۔ امی بتاتی تھیں کہ انھوں نے جلدی جلدی پانی پیا، اپنے ایک ہاتھ پر چادر کو مضبوطی سے لپیٹا، دوسرے ہاتھ میں کلہاڑی پکڑی اور تیزی سے واپس روانہ ہو گئے۔ راستے میں بھیڑنی نے سچ مچ ان پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے چادر والا ہاتھ آگے کیا۔ جونہی بھیڑنی نے اس پر اپنے دانت گاڑے دوسرے ہاتھ سے کلہاڑی کے زوردار وار سے اس کی گردن کاٹ دی۔ اگلے دن سارے علاقے میں ان کا یہ کارنامہ مشہور ہو گیا۔ میں نے فاتح نظروں سے فوزان کی طرف دیکھا جیسے بھیڑنی کو امی کے نانا نے نہیں میں نے مارا ہو، لیکن وہ نیند کی جھپکی میں تھا۔ اچھا ہی ہوا ورنہ وہ کلہاڑی اٹھتے ہی چیخ اٹھتا نانا ابو اسے مارنا نہیں اور ممکن ہے اس کی آواز سے امی کے نانا کا اٹھا ہوا ہاتھ رک جاتا اور بھیڑنی اصل میں تو نہیں کہانی میں انہیں زخمی کر دیتی۔

    میں سوچنے لگا کہ وہ لوگ واقعی بہادر تھے جو دوسروں کا سفر اور راستے محفوظ بنانے کے لیے اپنی جان کی پروا نہیں کرتے تھے جبکہ ہم جیسے نظریاتی بزدل، قانون پسند پرامن شریف شہری، معیشت، سماج اور صارفیت کے جبر میں جکڑے ہوئے اپنے جائز حقوق کا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔ انسانی بھیڑیے اور بھیڑنیاں ہمیں نوچتی رہتی ہیں۔ میرے وسوسوں اور سوچوں سے بے نیاز فوزان ہونٹوں پہ ایک ملکوتی مسکراہٹ لیے گہری نیند سو رہا تھا۔

    (شاعر و ادیب پروفیسر نصیر احمد ناصر کے قلم سے)

  • تاجر کی گواہی ( حکایت)

    تاجر کی گواہی ( حکایت)

    چند تاجروں نے بیان کیا کہ ہم مختلف شہروں سے آکر مصر کی جامع عمرو بن العاص میں جمع ہو جاتے تھے اور باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم باتیں کر رہے تھے کہ ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو ہمارے قریب ایک ستون کے نیچے بیٹی تھی۔ ہم میں سے ایک شخص نے جو بغداد کے تاجروں میں سے تھا، اس عورت سے کہا کیا بات ہے جو یہاں‌ بیٹھی ہو۔

    حکایات، سبق‌ آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے لنک کھولیں
    عورت نے اس کی توجہ پا کر کہا، میں لاوارث ہوں۔ میرا شوہر دس برس سے مفقود الخبر ہے۔ مجھے اس کا کچھ بھی حال معلوم نہیں ہوا۔ قاضی صاحب کے یہاں پہنچی کہ وہ میرا نکاح کروا دیں مگر انہوں نے روک دیا ہے۔ میرے شوہر نے کوئی سامان نہیں چھوڑا، جس سے بسر اوقات کر سکوں۔ میں کسی اجنبی آدمی کی تلاش میں ہوں جو مجھ پر رحم کرے اور قاضی کے سامنے کہے کہ واقعی میرا شوہر مر گیا یا پھر یہ کہ اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اس بات کا گواہ ہے تاکہ قاضی مطمئن ہوجائے اور اس کی گواہی کے بعد مجھے نکاح کی اجازت دے دے۔ یا پھر وہ شخص یہ کہہ دے کہ میں اس کا شوہر ہوں اور پھر وہ اسی وقت مجھے قاضی کے سامنے طلاق دے دے تاکہ میں عدت کا زمانہ گزار کر کسی سے نکاح کر لوں۔

    عورت سے یہ تفصیل سن کر اس شخص نے کہا کہ تو مجھے ایک دنیار دے دے تو میں تیرے ساتھ قاضی کے پاس جا کر کہہ دوں گا کہ میں تیرا شوہر ہوں اور تجھے طلاق دے دوں گا۔ یہ سن کر وہ عورت رونے لگی اور کہا خدا کی قسم! اس سے زیادہ میرے پاس نہیں ہے اور چار رباعیاں نکالیں (درہم کا چوتھائی حصّہ) تو اس نے وہی اس سے لے لیں اور اس عورت کے ساتھ قاضی کے یہاں چلا گیا۔ پھر وہ دیر تک ہم دوستوں سے نہیں ملا۔ بعد میں اس سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے اس سے کہا تم کہاں رہے؟ اتنی دیر کے بعد آج ملے ہو۔

    اس نے کہا چھوڑو بھائی میں ایک ایسی بات میں پھنس گیا جس کا ذکر بھی رسوائی ہے۔ ہم نے کہا ہمارے اصرار پر اس نے بیان کیا کہ میں اس روز جس عورت کے ساتھ قاضی کے یہاں پہنچا اور جب اس نے مجھ پر زوجیت کا دعوی کیا تو میں نے اس بھی اس کے بیان کی تصدیق کر دی۔ اس سے قاضی نے کہا کہ کیا تو اس سے علیحدگی چاہتی ہے؟

    اس عورت نے کہا۔ نہیں واللہ! اس کے ذمہ میرا مہر ہے اور دس سال تک کا خرچہ۔ مجھے اپنا حق چاہیے۔ تب مجھے قاضی نے کہا کہ اس کا یہ سارا حق ادا کر، اور پھر تجھے اختیار ہے اسے طلاق دے یا نہ دے۔ میرا یہ حال ہو گیا کہ میں متحیر ہو گیا اور یہ ہمّت نہ کر سکا کہ اصل واقعہ بیان کر سکوں۔ میرے چپ ہوجانے اور حواس باختہ ہونے پر قاضی نے یہ اقدام کیا کہ مجھے کوڑے والے کے سپرد کر دیا۔ بالاخر دس دیناروں پر باہمی تصفیہ ہوا جو اس نے مجھ سے وصول کیے اور وہ چاروں رباعیاں جو اس نے مجھے دی تھیں، وہ وکلاء اور قاضی کے اہل کاروں کو دینے میں خرچ ہو گئیں۔ اتنی ہی مزید اپنے پاس سے دینا پڑیں۔ یہ سن کر ہم نے اس کا مذاق اڑایا۔ وہ اس قدر شرمندہ ہوا کہ مصر ہی سے چلا گیا۔

    سبق
    یہ دنیا اس فریبی عورت کی مانند ہے۔ بڑی مسکین صورت میں انسان کو پھسلاتی ہے اور کچھ لالچ دے کر اسے اپنے ساتھ بلا لیتی ہے جو انسان اس کے دھو کے میں آ جائے۔ وہ پھر اسی طرح‌ کی طرح اپنا سب کچھ لٹا کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

    (اردو ترجمہ از کتاب الاذکیا ابن جوزی)

  • احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    مصر کے ایک حاکم احمد کو اس دور کے دستور کے مطابق اپنے باپ کے نام کی نسبت سے احمد بن طولون پکارا جاتا ہے۔ اس والیِ مصر کا تذکرہ ایک بہادر اور عادل و منصف کے طور پر کیا گیا ہے اور اس سے چند حکایات بھی منسوب ہیں۔

    مزید حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    بعض تاریخی کتب اور تذکروں میں احمد بن طولون کے باپ کو ایک ترک غلام لکھا گیا ہے جو عباسی خلیفہ مامون الرشید کی فوج میں شامل تھا۔ احمد پیدا ہوا تو اسے بھی تعلیم و معاشرت کے مراحل طے کرنے کے بعد فوجی تربیت دی گئی۔ وہ بیس سال کی عمر میں اس وقت کے مصر کے حکم راں‌ بایکباک کی فوج میں شامل ہوا۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کے سبب 868ء میں مصر کا حاکم مقرر ہوا۔ چند سال بعد عباسی خیلفہ مہدی کے زمانہ میں اسے مصر میں خود مختار فرماں روا بنا دیا گیا۔ احمد بن طولون کو مردم شناس اور علم دوست حکم راں بھی کہا جاتا ہے۔

    جب احمد بن طولون نے مصر کے شہر قاہرہ میں وہ عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جو آج اسی کے نام سے مشہور ہے، تو اس پر ایک لاکھ دینار کی خطیر رقم خرچ کی۔ پھر علما، قرّاء، اربابِ شعائر اور متعلقہ مکانات کے لیے ماہانہ دس ہزار دینار کی باقاعدہ رقم مقرر کر دی، اور روزانہ صدقے کے لیے سو دینار وقف کیے۔

    یہ مسجد نہ صرف عبادت کا مقام تھی، بلکہ سلطان نے اس کے ذریعے خیر، عدل اور دینی شعائر کی نگہبانی کا بھی کام لیا۔ کہتے ہیں کہ اس مسجد کے آس پاس ایک غریب آدمی اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ ماں بیٹی گھر میں بیٹھ کر سوت کاتا کرتی تھیں تاکہ گزر بسر میں کچھ آسانی ہو اور ماں چاہتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا جہیز بھی تیار کرسکے۔ لڑکی باحیا، پردہ دار اور شریف تھی۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی۔

    ایک دن اس نے والدین سے فرمائش کی کہ وہ بھی سوت لے کر ان کے ساتھ بازار جائے گی۔ چنانچہ وہ گھر سے بازار کے لیے نکلے۔ تینوں بازار کی طرف بڑھے، تو راستے میں ایک مقام پر ایک درباری امیر الفیل کا دروازہ پڑا۔

    اتفاق تھا کہ ماں باپ کسی بات میں مشغول ہو کر آگے بڑھ گئے اور بیٹی بھی دھیان نہ رکھ سکی کہ وہ راستے میں اِدھر اُدھر ہوتی ماں باپ سے فاصلہ پر رہ گئی ہے۔ اس لڑکی کی جب نگاہ اٹھی تو ماں باپ نظر نہ آئے۔ وہ گھبرا کر وہیں کھڑی ہو گئی۔ اس کے دل میں خوف تھا اور چہرے پر حیرت۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جائے تو کہاں، اور کس طرف قدم بڑھائے۔

    یہ لڑکی حسن و جمال میں بے مثال تھی۔ اتفاق سے اسی لمحے امیر الفیل محل سے باہر نکلا اور جب اس کی نظر اس دوشیزہ پر پڑی تو دل و دماغ پر عاشقانہ جنون چھا گیا۔ وہ اُسے پکڑ کر اندر محل نما گھر میں لے گیا۔ پھر اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ لڑکی کو نہلا کر، خوشبو لگا کر، عمدہ لباس پہنا کر اُس کے لیے تیار کریں۔ اس بد بخت کی نیّت خراب ہوچکی تھی۔ اسے لڑکی سے دو باتیں‌ کرکے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تنہا بھی ہے اور اس کا باپ بھی کوئی بااثر اور بڑا آدمی نہیں ہے۔ اس نے لڑکی کی عصمت دری کی اور مردود بن گیا۔

    ادھر ماں باپ اپنی بیٹی کے یوں بچھڑ جانے کے بعد بدحواسی کے عالم میں راستے پر واپس لوٹے، لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ اب وہ شہر بھر میں اسے ڈھونڈتے پھرے، مگر کہیں ان کو اپنی بیٹی کا سراغ نہ ملا۔ وہ رات ہونے پر رنج و غم سے نڈھال، روتے بلکتے، گِریہ و زاری کرتے گھر لوٹ گئے۔

    نیند تو ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دونوں‌ بیٹی کی جان و آبرو کی سلامتی کے لیے دعا کررہے تھے کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ غریب باپ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک اجنبی کھڑا ہے۔

    اس نے سلام کرکے غریب آدمی کو بتایا کہ "تمہاری بیٹی کو سلطان کے امیر الفیل نے اٹھایا ہے اور اس کی عصمت دری کی ہے۔”

    یہ سن کر لڑکی کے باپ پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔ وہ اتنے بڑے آدمی کے خلاف کیا کرے اور کیسے اپنی بیٹی تک پہنچے…اسے کچھ نہیں‌ سوجھ رہا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ بیتابی سے اس مسجد کے مؤذن کی طرف دوڑا جو اس کے گھر کے قریب تھی۔

    دراصل اس مسجد کو خاص اہمیت حاصل تھی کیوں کہ اسے والیِ مصر احمد بن طولون نے تعمیر کروایا تھا۔ وہاں کے مؤذن کو احمد بن طولون نے ہدایت کر رکھی تھی کہ اگر شہر میں کسی پر ظلم ہو اور ایسا واقعہ پیش آئے جس میں کوئی بڑا درباری ملوث ہو، تو مخصوص وقت سے ہٹ کر اذان دے۔ اور سلطان کے خاص سپاہی اذان سن کر فوراً مؤذن سے معاملہ پوچھیں۔

    غریب آدمی نے مؤذن کو نیند سے بیدار کردیا اور اپنی مشکل بتائی تو اس نے فوراً مینار پر چڑھ کر اذان دی۔ اگلی صبح یہ معاملہ احمد بن طولون کے دربار میں پہنچ چکا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ دربار میں موجود تھے اور جب وہ بدبخت امیر الفیل معمول کے مطابق دربار میں حاضر ہوا تو سلطان نے اس پر سختی کی۔ پھر اس لڑکی کے باپ سے کہا: "میں اپنے اس غلام سے تمہاری بیٹی کے نکاح کا اعلان کرتا ہوں۔”

    لڑکی کے باپ نے اس کا فیصلہ قبول کرلیا اور گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ اس امیر سے لڑکی کا نکاح کردیا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ سلطان نے بڑی رقم مہر میں رکھی تھی جس سے انکار کی جرأت امیر الفیل نہ کرسکا تھا۔

    نکاح کے بعد احمد بن طولون نے جلّاد کو بلایا اور حکم دیا کہ امیر الفیل کا سر تن سے جدا کر دے۔

    چند لمحوں میں اس کا سر کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا۔ پھر ابن طولون نے لڑکی کے باپ سے کہا: "اب تمہاری بیٹی بیوہ ہے، اور شوہر کی ساری متروکہ دولت پر اس کا حق ہے۔”

    "جاؤ۔ اطمینان سے زندگی بسر کرو۔” ماں باپ فرطِ جذبات سے روتے اور سلطان کو دعا دیتے محل سے روانہ ہوگئے۔

    (عربی حکایات کے اردو ترجمہ نوادر الخلفاء سے انتخاب)

  • مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی غریب لکڑہارا ایک جھونپڑی میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بڑے بیٹے کا نام ہینسل اور بیٹی کا نام گریٹل تھا جو دراصل اس کی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد لکڑہارے نے دوسری شادی کر لی تھی۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لکڑہارا دن بھر جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور پھر ان کو بازار لے جا کر بیچ دیتا۔ اس سے جو کچھ نقدی ملتی، اس سے گھر کا خرچ چلاتا، لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اکثر اس کنبے کو ایک وقت کی روٹی ہی میسر آتی۔ اس کی بیوی، جو بچوں کی سوتیلی ماں تھی، ایک سخت جان اور خود غرض عورت تھی۔

    ایک رات، جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، لکڑہارے کی بیوی نے اس سے کہا، "ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں کہ سب کا پیٹ بھر سکے۔ ہمیں بچوں کو جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے تاکہ ان کی ذمہ داری ختم ہو اور ہم دونوں اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ وہاں کسی طرح کچھ کھا پی کر جی ہی لیں گے۔” لکڑہارا اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا، اس نے انکار کر دیا، لیکن اس نے طرح طرح کی باتیں بنا کر اور طعنے دے کر اپنے شوہر کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔

    اتفاق سے جس رات لکڑہارے کو اس کی بیوی نے اس ظلم اور گھناؤںے کام کے لیے بھوک کا خوف دلاتے ہوئے قائل کیا، ہینسل کسی وجہ سے سو نہیں سکا تھا۔ وہ ایک ہوشیار اور بہادر لڑکا تھا۔ اس رات خاموشی سے زمین پر لیٹے ہوئے ہینسل نے اپنی سوتیلی ماں کا منصوبہ سن لیا تھا۔ پہلے تو وہ گھبرایا مگر پھر اپنے ذہن کو اس کا حل تلاش کرنے کے لیے دوڑانے لگا اور پھر مطمئن ہو کر سو گیا۔ اگلی صبح، سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ کچھ دیر بعد وہ سب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلیں گے۔ اس نے ہینسل اور گریٹل کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی دیا۔ اب ہینسل نے گریٹل کو ساتھ لیا اور جھونپڑی سے باہر نکل گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آیا۔

    بچوں نے دیکھا کہ والدین جیسے انہی کے منتظر تھے۔ وہ ہینسل اور گریٹل کو لے کر جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ جنگل شروع ہوا تو ہینسل اپنی جیب سے وہ مخصوص قسم کے پتھر راستے میں گراتا ہوا جانے لگا، جو اس نے صبح کنویں کے قریب ایک عمارت کے کھنڈر سے جمع کیے تھے۔ یہ عام پتھر نہیں تھے بلکہ چاند کی روشنی میں‌ ایک خاص چمک پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ پتھر نشانی کے طور پر گرا رہا تھا تاکہ راستہ پہچان سکے۔ گھنے درختوں کے درمیان پہنچ کر سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ وہ ایک جگہ بیٹھ جائیں، ہم دونوں ذرا آگے لکڑیاں کاٹنے جا رہے ہیں اور جلد لوٹ آئیں گے، لیکن کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں لوٹے۔ وہ دونوں منصوبہ کے مطابق بچوں کو چھوڑ کر گھر واپس چلے گئے تھے۔

    ادھر دن ڈھلنے کو تھا اور اب انھیں بھوک بھی ستا رہی تھی۔ گریٹل رونے لگی۔ ہینسل نے اسے دلاسہ دیا اور کہا، "چاند نکلنے کا انتظار کرو۔” جب چاندنی پھیلی تو ہینسل کے گرائے ہوئے پتھر چمکنے لگے۔ دونوں بہن بھائی ان کو دیکھتے ہوئے جنگل سے نکل کر گھر واپس پہنچ گئے۔ لکڑہارا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا، لیکن سوتیلی ماں غصے سے بھر گئی۔

    کچھ دن عافیت سے گزر گئے مگر پھر وہی کھانے پینے کا مسئلہ اور گھر میں فاقے کی نوبت آن پڑی۔ تب، سوتیلی ماں نے دوبارہ لکڑہارے کو مجبور کیا کہ بچوں کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے بچوں کو پہلے سے نہیں بتایا۔ یوں ہینسل رات کو پتھر جمع نہ کر سکا۔ صبح اچانک ہی ان کو سوتیلی ماں نے کسی بہانے سے جنگل جانے کا بتایا۔ وہ سب جنگل کی طرف چل دیے۔ اتفاق سے گھر میں روٹی کے چند ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ ہینسل نے آنکھ بچا کر وہ اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ راستے میں وہ روٹی کے ٹکڑوں کو گراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس مرتبہ بھی والدین نے وہی کیا، لیکن جب شام ڈھلی تو ہینسل کو واپسی کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر اندازے سے آگے بڑھنے لگا اور دونوں زمین پر غور سے نشانی ڈھونڈنے لگے، لیکن وہ ٹکڑے تو پرندوں نے کھا لیے تھے۔ دونوں بہن بھائی جنگل میں بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال، تین روز تک بھٹکتے رہے۔ اچانک انھیں ایک جھونپڑی نظر آئی، جو مٹھائی، کیک، اور چاکلیٹ سے بنی تھی۔ یہ عجیب و غریب گھر دیکھ کر وہ حیران تو ہوئے مگر بھوک کی شدت کے باعث انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر جھونپڑی کو نوچ کر سب چیزیں کھانا شروع کردیں۔ اچانک دروازہ کھلا، اور ایک بوڑھی عورت باہر نکلی۔ وہ نہایت چالاک جادوگرنی تھی۔ اس نے میٹھی آواز میں کہا، "آؤ بچو، اندر آؤ، تمھیں اور بہت کچھ کھانے کو دوں گی۔”

    جادوگرنی نے دھوکے سے ان کو اندر بلا لیا اور ہینسل کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اسے گریٹل بہت پیاری لگی۔ اس نے گریٹل کو اپنی خادمہ بنا لیا۔ جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ ہینسل کے لیے بہت سا کھانا پکائے تاکہ وہ موٹا ہو جائے اور پھر وہ اسے بھون کر کھا سکے۔ جادوگرنی کی آنکھیں کمزور تھیں، اس لیے وہ ہر روز ہینسل کی انگلیاں چھو کر دیکھتی کہ وہ موٹا ہوا یا نہیں۔ ہینسل نے پنجرے میں رہتے ہوئے اس کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ ادھر وہ اپنی بہن سے موقع پاکر اشاروں اشاروں میں باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ یہی منصوبہ بناتے تھے کہ یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ ایک روز اس نے جادوگرنی کے کھانے سے بچی ہوئی ایک ہڈی کی طرف اشارہ کیا اور گریٹل نے نظر بچا بھائی کو وہ ہڈی تھما دی۔ اب ہینسل نے ہوشیاری سے اپنی انگلی کی جگہ وہ ہڈی جادوگرنی کے چھونے کے لیے آگے بڑھا دی، جسے وہ ظالم ہینسل کی انگلی سمجھی۔ دو تین ہفتوں تک ہینسل اس کے ساتھ یہی کرتا رہا اور جادوگرنی سمجھتی رہی کہ وہ موٹا ہوگیا ہے۔

    آخر کار، جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ تنور تیار کرے، کیونکہ وہ ہینسل کو بھون کر کھانا چاہتی ہے۔ گریٹل نے معصومیت سے پوچھا، "تنور کو دہکانے کے لیے کیا کروں، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں‌ ہوا۔ میری مدد کریں۔” جادوگرنی اس کی باتوں میں آگئی۔ اس نے تنور کے اندر جھانک کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور عین اس لمحے جب وہ تنور میں‌ جھانک رہی تھی، گریٹل نے جادوگرنی کو دھکا دیا، اور وہ تنور میں سر کے بل جا گری۔ گریٹل نے قریب پڑا ہوا لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور جادوگرنی کی کمر پر برساتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ اسی وقت رکے جب گریٹل نے پنجرے سے آواز لگائی کہ وہ اسے باہر نکالے۔

    گریٹل نے ہینسل کو پنجرے سے آزاد کیا جس نے باہر آتے ہی سب سے پہلے تنور کو دہکا دیا تاکہ جادوگرنی کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب انھوں نے جھونپڑی کو کھنگالا تو وہاں کافی مقدار میں سونا اور کئی قیمتی چیزیں ملیں۔ دونوں نے ایک بڑی سی چادر میں وہ سب مال جمع کیا اور اسے پیٹھ پر لاد کر وہاں سے نکل گئے۔ کسی طرح دونوں اس جنگل سے باہر نکلنے میں بھی کام یاب ہوگئے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی ماں مر چکی ہے، اور لکڑہارا اپنے بچوں کے ساتھ ناروا سلوک پر پچھتا رہا ہے۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگیا۔ بچوں نے اپنے باپ کو جادوگرنی کی کٹیا سے لوٹا ہوا وہ خزانہ دیا جس سے ان کے باپ نے زمین خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی۔ انھوں نے ایک اچھا سا گھر بنوایا اور خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (یہ مشہور جرمن لوک کہانی کا اردو ترجمہ ہے لیکن اس میں کہانی کے مزاج اور تفصیلات کو برقرار رکھتے ہوئے کئی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو اگرچہ اصل کہانی کا حصہ نہیں مگر اسے پُرلطف اور دل چسپ ضرور بناتی ہیں)

  • لڈو کا گیت (روسی لوک کہانی)

    لڈو کا گیت (روسی لوک کہانی)

    روسی لوک کہانیوں میں عموماً پرندوں، مینڈکوں، بکریوں اور میمنے یا مختلف اشیاء کی مزاحیہ اور دل چسپ کہانیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اصلاح، کوئی سبق دینا ہوتا ہے۔ یہ ایسی ہی ایک کہانی ہے جو دل چسپ ہے اور بچّوں کے لیے سبق آموز ہے۔

    یہ ایک لڈو کی لوک کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑھیا نے ایک بڑا لڈو بنا کر اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے کھڑکی پر رکھ دیا۔ لڈو وہاں سے لڑھک کر بھاگ نکلا۔ وہ بہت زعم میں تھا۔ لڑھکتے ہوئے سڑک پر جا رہا تھا اور یہ گیت گا رہا تھا: ’’میں گول گول ہوں، لال لال ہوں، خوبصورت ہوں، خوب کمال ہوں، بوڑھیا کو چکمہ دے کر بھاگ گیا ہوں، میں چالاکی کی مثال ہوں۔‘‘

    یہ گیت گاتے ہوئے لڈو جنگل میں پہنچ گیا۔ راستے میں اسے پہلے ایک خرگوش ملا، پھر ایک بھالو ملا، پھر ایک بھیڑیا ملا۔ سب نے لڈو کو کھانے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی آسانی سے سب کو چکمہ دے کر نکل گیا۔ اس کے بعد لڈو کا سامنا چالاک لومڑی سے ہوا۔ لومڑی کے من میں بھی لڈو کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے لڈو سے کہا: ’’ارے، تم کتنا اچھا گاتے ہو! لیکن میں ذرا بہری ہوں اور تمہارا گیت ٹھیک سے نہیں سن پا رہی ہوں۔ ایسا کرو! میری زبان پر بیٹھ جاؤ اور میرے کان کے پاس آ کر پھر سے اپنا گیت سناؤ۔‘‘ لڈو اپنی ستائش سن کر پھولا نہ سمایا۔ دوسرا اسے یقین تھا کہ وہ بہت چالاک ہے اور جس طرح‌ سب کو چکمہ دے کر نکل آیا ہے اس لومڑی کو بھی اگر خطرہ محسوس کیا تو آسانی سے چکمہ دے کر بھاگ نکلے گا۔ وہ پھدک کر لومڑی کی زبان پر چڑھ گیا اور لومڑی اسے ہڑپ کر گئی۔

    اس لوک کہانی سے بتانا یہ مقصود ہے کہ غرور اور زعم عقل و ہوش اور فہم و فراست کا دشمن ہوتا ہے اور کسی بھی موقع پر انسان نقصان اٹھا سکتا ہے۔