Tag: اردو حکایات

  • تین مچھلیاں (حکایت)

    تین مچھلیاں (حکایت)

    کسی دریا کے کنارے چھوٹا سا جوہڑ تھا جس میں تین مچھلیاں رہتی تھیں۔ ان میں ایک بہت عقلمند اور ہوشیار تھی، دوسری نسبتاً‌ کم ہوشیار اور تیسری بہت ہی کاہل تھی، لیکن آپس میں بہت پیار اور اتفاق سے رہتی تھیں۔ اس پیار محبت اور اتحاد میں بڑا کردار عقلمند مچھلی کا تھا۔ وہ دوسری دونوں مچھلیوں کو اچھے اچھے مشورے دیتی اور ان کا خیال رکھتی تھی۔

    جس جوہڑ میں وہ تینوں مچھلیاں رہتی تھیں وہاں انسانوں کی آمدورفت بہت کم تھی، مگر اس کا پانی دریا سے ایک چھوٹی سی کھاڑی کے راستے ملا ہوا تھا۔ کبھی دریا کا پانی اس جگہ پر آ جاتا اور کبھی تینوں مچھلیاں کھاڑی کے راستے کھلے دریا میں چلی جاتیں اور پھر کچھ دیر گھوم پھر کر خوش و خرم واپس آ جاتیں۔

    ایک دن دو مچھیرے ادھر آ نکلے۔ وہ سارا دن دریا میں جال ڈالے بیٹھے رہے، مگر آج ان کو زیادہ کامیابی نہ ہوئی، کیوں کہ کھلے دریا میں مچھلیوں کو مچھیروں کے جال سے بچنے کے زیادہ مواقع میسّر تھے۔ تھک ہار کر دونوں مچھیرے کچھ دیر کے لیے اپنے جال دریا کے کنارے پر چھوڑ کر سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ اتفاقاً وہ ان تینوں مچھلیوں کے جوہڑ کی طرف ہی آ نکلے تھے۔ تینوں مچھلیاں اپنی عادت کے مطابق اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں۔

    "ارے! وہ دیکھو مچھلیاں!” ایک مچھیرے کی نظر جوہڑ کے پانی پر پڑ گئی تھی۔

    "واقعی! یہ تو بڑی موٹی تازی ہیں۔ دوسرے نے کہا۔ آؤ جلدی سے جال لے آئیں۔” دونوں مچھیرے جلدی سے اپنے جال لینے چلے گئے۔

    ان دونوں مچھیروں کی گفتگو عقلمند مچھلی نے سن لی تھی۔ وہ بہت پریشان ہوئی۔ اسے خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ اس نے فوری طور پر اپنی دونوں سہیلیوں کو خطرے سے آگاہ کیا۔ اب تو وہ دونوں بھی بہت پریشان ہوئیں۔ ان دونوں مچھلیوں نے عقلمند مچھلی کی منت و سماجت کی کہ جان بچانے کا کوئی طریقہ بتائے۔

    "چلو یہاں سے دریا کی طرف بھاگ چلیں۔” عقلمند مچھلی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

    "مگر وہاں بھی مچھیرے ہوں گے۔” کاہل مچھلی نے کہا۔

    "ہاں، یہ تو ہے، مگر کھلے دریا میں ہم زیادہ محفوظ ہوں گے۔” عقلمند مچھلی نے جواب دیا۔

    "بات تو ٹھیک ہے۔” دوسری مچھلی نے ہاں میں ہاں ملائی۔

    "لیکن اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ کچھ دیر تو رک جاؤ۔ مچھیروں کو آنے میں دیر لگے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آج ادھر آئیں ہی نہیں۔” کاہل مچھلی نے کہا۔

    عقلمند مچھلی نے اسے سمجھایا، "دیکھو، وقت بہت کم ہے۔ ہمیں اس طرح‌ نہیں سوچنا چاہیے بلکہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اپنی حفاظت کا سامان کریں۔”

    مگر دوسری مچھلیوں کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ ایک تو تھی کم عقل اور دوسری بہت کاہل۔ مجبور ہو کر عقلمند مچھلی کھاڑی سے ہوتی ہوئی کھلے دریا میں چلی گئی۔ اس اثنا میں مچھیرے اپنا جال اٹھائے اس جوہڑ کی طرف آچکے تھے، جہاں انہوں نے مچھلیاں دیکھی تھیں۔ ان کی آوازیں اس مچھلی نے سنیں جو کم ہوشیار تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ عقلمند مچھلی نے صحیح کہا تھا۔ اب بھی وقت ہے یہاں سے نکل جائے تو جان بچ سکتی ہے، چناچہ فوراً ہی اس نے کھاڑی میں راستہ دیکھا اور اس سے پہلے کہ مچھیرے جال پھینک کر کھاڑی کا راستہ بند کرتے وہ دریا میں پہنچ گئی۔ لیکن تیسری اور کاہل مچھلی اس بات کا انتظار کررہی تھی کہ اسے مچھیروں کا جال نظر آئے۔ وہ یہ خیال کیے ہوئے تھی کہ شاید مچھیرے اپنا ارادہ بدل لیں گے اور یہ سوچیں‌ گے کہ اتنے سے پانی میں شکار کرنا کسی شکاری کو زیب نہیں دیتا۔ جوہڑ کی مچھلی شکار کی تو کیا تیر مارا۔ اصل میں یہ باتیں‌ بہت پہلے اس طرف آنے والے کچھ مچھیروں سے سن چکی تھی۔ وہ جوہڑ کے پاس بیٹھے ایسی باتیں‌ کررہے تھے۔ اس مچھلی کو سستی اور کاہلی نے گویا مفلوج کردیا تھا کہ وہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احتیاط کرنے سے غافل ہوگئی۔ آج برا دن تھا۔ مچھیروں نے کھاڑی پر جال پھینک کر آہستہ آہستہ کھینچنا شروع کیا۔ اب تو کاہل مچھلی بہت پچھتائی مگر وہ کھاڑی سے کھلے دریا میں‌ نہیں جاسکی اور لمحوں میں جال میں پھنس گئی۔ آخر وہ مچھیروں کو پیاری ہوگئی۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • میتھیو کی قبر (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    میتھیو کی قبر (پولینڈ کی ایک لوک کہانی)

    بہت پرانے زمانے کی بات ہے، ایک سوداگر پڑوسی ملک سے واپس اپنے گھر لوٹ رہا تھا۔ وہ کئی مہینوں بعد اپنے گھر جا رہا تھا اور اسی لیے وہ بہت خوش بھی تھا۔

    سوداگر جس چھکڑے پر سفر کر رہا تھا، وہ تجارتی سامان سے لدا ہوا تھا۔ لیکن سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی پھوٹی تھی اور گھوڑے چھکڑے کو بڑی مشکل سے کھینچ پا رہے تھے۔ وہ جس جگہ تھا، وہاں ایک اور راستہ جنگل میں سے بھی گزرتا تھا۔ سوداگر کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اس لیے اس نے جنگل والے راستے کا اںتخاب کیا۔

    اندھیری رات تھی۔ نہ چاند، نہ ستارے۔ سوداگر کی بدقسمتی تھی کہ جنگل میں ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ بارش ہونے لگی۔ ایک تو اندھیرا دوسرے کیچڑ بھی ہوگئی۔ گھوڑے بڑی مشکل سے ایک جگہ سے چھکڑا کھینچ کر نکالتے تو وہ تھوڑی دور جا کر دوسری جگہ پھنس جاتا۔ بجلی کڑک رہی تھی، بادل گرج رہے تھے کہ اچانک چھکڑا ایک گڑھے میں پھنس گیا۔ پہیے آدھے سے زیادہ پانی میں ڈوب گئے تھے اور باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی تھی۔ سامان قیمتی تھا۔ سوداگر اُسے چھوڑنا بھی نہ چاہتا تھا۔ اس نے یہ کیا کہ گھوڑوں کو کھولا، جو سامان ان پر لادا جا سکتا تھا، لاد دیا، جو خود اٹھا سکتا تھا وہ اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا اور آگے چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ اپنے آپ سے کہنے لگا: ”میں بھی تھکا ہوا ہوں، گھوڑے بھی تھک چکے ہیں۔ آخر ہم اس کالی رات میں کہاں تک چلیں گے۔ اور کوئی جنگلی جانور ہمیں کھا گیا تو کسی کو پتا بھی نہ چلے گا۔ اگر کوئی جن بھوت، شیطان یا انسان مجھے اس خوف ناک جنگل سے باہر نکال دے تو میں اپنا آدها سامان اسے دے دوں گا۔“

    جوں ہی یہ بات اُس کے منھ سے نکلی، بادل زور سے گرجا، بجلی زور سے کڑکی اور پھر بادل کے پیچھے سے چاند نکل آیا ۔ چاند کی روشنی میں سوداگر نے دیکھا کہ راستے کے ایک طرف ایک چھوٹی سی عجیب و غریب مخلوق کھٹری ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے قدر کا انسان تھا، جس کے سر پہ لمبوتری ٹوپی تھی۔ پاؤں میں ایسے جوتے تھے جن میں سے اُس کے نوکیلے پاؤں باہر نکلے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ اس کا چہرہ خوف ناک تھا۔ آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے اور ہاتھ ایسے تھے جیسے شیر کے پنجے ہوں۔

    اب تو سوداگر بہت گھبرایا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ ضرور کوئی جن یا بھوت ہے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہووت۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ چھلاوا آگے آیا اور گرجتی ہوئی آواز میں بولا: ”تمہاری خواہش کے مطابق میں تمہیں جنگل سے نکال کر گھر کے راستے پر ڈال سکتا ہوں۔ لیکن ایک شرط ہے ۔“

    ”کیسی شرط ۔۔۔۔“ سوداگر گھبرا کر بولا۔

    چھلاوا بولا: ”تمہیں وعدہ کرنا ہو گا کہ اگر تم گھر پہنچ کر وہاں کوئی ایسی چیز دیکھو جو اس سے پہلے تمہارے گھر میں نہیں تھی اور جس کا تمہیں اس وقت پتا نہیں ہے، تو وہ میری ہو جائے گی اور میں جب چاہوں اسے تم سے لے لوں گا۔“

    سوداگر نے بہت غور کیا، خوب خوب سوچا لیکن اُس کے ذہن میں ایسی کوئی چیز نہ آئی جو اس کی غیر حاضری میں گھر میں آ سکتی ہو۔

    وہ بولا: ”ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔“

    یہ بات سنتے ہی چھلاوے نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا جس پر شرطیں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر اُس نے سوداگر کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں اپنا ناخن مارا۔ خون نکلا تو اس نے اُس میں پَر ڈبویا اور سوداگر کو کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا۔

    اس کام سے فارغ ہو کر چھلاوے نے سیٹی بجائی۔ سیٹی کی آواز جنگل میں گونجتے ہی ہر طرف اسی کی شکل کے چھلاوے نظر آنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُنہوں نے سوداگر کا تمام سامان، چھکڑا، گھوڑے جنگل کے پار صاف ستھرے راستے پر پہنچا دیے۔ اس کے بعد وہ سب غائب ہو گئے۔ ان کے غائب ہوتے ہی جنگل میں جگہ جگہ آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور پھر ایسی آوازیں آئیں جیسے بہت سے لوگ قہقہے لگا رہے ہوں۔

    سوداگر نے اس علاقے سے نکلنے میں ہی خیریت سمجھی اور چھکڑے کو تیز تیز ہانکتا ہُوا بہت دور نکل گیا۔ یہاں اس نے ایک کھلے میدان میں ڈیرا ڈال دیا تاکہ آرام کر سکے۔ صبح اٹھا تو موسم صاف تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ وہ گھر کی طرف چل دیا۔

    چند دن کے سفر کے بعد، جس میں اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا، سوداگر اپنے شہر کراکو کے باہر پہنچ گیا۔ جب وہ گھر کے پاس پہنچا تو اس کی بیوی بھاگی ہوئی آئی اور اپنے شوہر کو بچے کی پیدائش کی مبارک دی جو اس کی غیر حاضری میں پیدا ہوا تھا۔ سوداگر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور بچے کو سینے سے لگا لیا۔

    اب جو اُس نے بیوی کو سفر کے حالات سنائے اور اُس معاہدے کا خیال آیا جو وہ جنگل میں چھلاوے سے کر آیا تھا تو اس پر بجلی گر پڑی اور اس نے اپنا سر پیٹ لیا۔ اب اسے احساس ہوا کہ وہ انجانے میں اپنے معصوم بچے کا سودا کر بیٹھا ہے۔ جب اُس کی بیوی نے یہ سنا کہ اس بچے کو چھلاوا لے جائے گا تو اسے اتنا غم ہوا کہ اس نے اپنے بال نوچ ڈالے۔ وقت گزرتا گیا۔ اس دوران میں اور تو کچھ نہ ہو البتہ جب کبھی وہ بچے کو گھمانے پھرانے کے لیے باہر جانے کا ارادہ کرتے تو ایک دم بادل گھر آتے، بارش ہونے لگتی، بجلی کڑکنے لگتی اور وہ گھبرا کر بچّے کو واپس گھر لے آتے۔

    بچہ بہت خوب صورت اور صحت مند تھا۔ اس کے ساتھ ہی ذہین بھی تھا اور درس گاہ کے امتحان میں ہمیشہ اوّل آتا تھا۔ اسے دیکھ کر کسی کو یقین نہ آتا تھا کہ اس پر کسی چھلاوے کا سایہ ہے۔ ماں باپ نے اس کا نام نکولس رکھا تھا۔

    جب نکولس جوان ہوا تو اُسے احساس ہوا کہ ماں باپ ہر وقت چُپ چُپ سے رہتے ہیں۔ ہنسنا تو بڑی بات ہے، کبھی مسکراتے بھی نہیں۔ آخر اس نے ایک دن اپنے باپ سے پوچھا: ”ابّا جان، میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آپ کو اور امّی کو کبھی ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا۔ کیا بات ہے؟ آپ ہنستے کیوں نہیں ؟ آخر آپ کو کیا غم ہے ؟“

    باپ اپنے بیٹے کو کچھ بتانا نہ چاہتا تھا۔ اس نے ہوں ہاں کر کے اُسے ٹالنا چاہا تو وہ بولا:
    ” جب کبھی میں جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ کبھی آگے سے گزرتا ہے کبھی پیچھے سے۔ کبھی درختوں سے آواز آتی ہے، نکولس، تمہارا پڑھنا لکھنا سب بیکار ہے تمہیں تو آخر کار وہی کچھ کرنا ہے جو میں تمہیں سکھاؤں گا۔“

    یہ سُن کر اس کا باپ رونے لگا۔ جب ذرا طبیعت سنبھلی تو بولا ”بیٹے میں وہ بدنصیب ہوں جس نے تمہاری زندگی کے راستوں میں کانٹے بو دیے ہیں۔ تم ابھی بچّے ہی تھے کہ میں نے انجانے میں تمہارا سودا ایک چھلاوے سے کر لیا تھا۔“ یہ کہہ کر اس نے اُس رات والا تمام قصّہ اُسے کہہ سنایا۔ اس کے بعد پھر رونے لگا۔

    بیٹے سے باپ کا رونا دیکھا نہ گیا۔ وہ بولا: ”ابّا جان آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ میں نے جنگلوں میں گھوم پھر کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ میں اس چھلاوے سے وہ کاغذ جس پر آپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے، چھین کر لے آؤں گا۔ آپ اور امی اپنا دل خراب نہ کریں۔ خوش رہیں۔“
    نکولس نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنے کے لیے اپنے والدین کو خدا حافظ کہہ کے گاؤں سے چلا گیا۔ ابھی زیاره دور نہیں گیا تھا کہ اُسے ایک ایسا بوڑھا ملا جس کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے اور چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔

    نکولس نے سلام کیا تو بوڑھے نے پُوچھا: ”اچھّے بیٹے، کہاں جا رہے ہو؟“

    نکولس بولا: ”میں اُس چھلاوے کی تلاش میں نکلا ہوں جس نے میرے باپ کو دھوکا دے کر اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اُس سے ایک کاغذ پر دستخط کروا لیے تھے۔“

    ”تو ایسا کرو۔۔۔“ بوڑها بولا۔ ” اسی راستے پر چلتے جاؤ۔ جب سُورج چھپ جائے تو سب سے پہلی جو جان دار چیز نظر آئے، اُسی کے پیچھے پیچھے چل دینا۔ تمہارے من کی مراد پوری ہو گی۔“

    نکولس اسی راستے پر چلتا گیا۔ جب شام ہوئی اور سورج ڈوبنے لگا تو بڑا پریشان ہوا کہ اب کِدھر کو جائے؟ ابھی تھوڑا سا اُجالا باقی تھا کہ ایک بھورے رنگ کی چھوٹی سی چوہیا اچانک کہیں سے نکلی اور نکولس کے آگے آگے بھاگنے لگی۔ نکولس کو بوڑھے کی بات یاد آ گئی۔ وہ چوہیا کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب بالکل اندھیرا ہو گیا تو نکولس نے سوچا کہ اب آرام کرنا چاہیے۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اس نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر چوہیا بھی رُک گئی ہے۔ رات کو پہلو بدلتے ہوئے نکولس کی آنکھ کھلتی تو اسے دو موتی سے چمکتے نظر آتے۔ یہ چوہیا کی آنکھیں تھیں جو لگاتار نکولس کو گھور رہی تھیں۔

    اب ہوتا یہ کہ اگلی صبح کو نکولس اس چوہیا کے پیچھے چلتا اور وہ آگے اور اسی طرح وہ ہر شام کو کسی جگہ رک جاتے تھے۔ نکولس روٹی کھاتا تو اس کے ذرے زمین پر گر جاتے۔ وہ چوہیا کھا لیتی۔ وہ کبھی کبھی آنکھوں سے اوچھل بھی ہو جاتی ۔ لیکن جب بھی نکولس راستہ بھول جاتا اور سوچنے لگتا کہ اب کِس طرف جانا ہے تو چوہیا فوراً بھاگتی ہوئی آ جاتی۔
    اب راستہ اونچا ہوگیا تھا۔ اس کے دونوں طرف اونچی نیچی پہاڑیاں، ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ سبزے کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ بڑی خوف ناک جگہ تھی۔ چرند، پرند، اِنسان کوئی بھی جاندار نظر نہ آتا تھا۔ نیچے لوگوں نے اسے بتایا تھا کہ اُوپر پہنچو تو میتھیو کے غار سے بچ کے رہنا۔ اس کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا تھا کہ میتھیو ایک بدمعاش ہے اور اس پہاڑی پر رہتا ہے اور لوگوں کو جان سے مار ڈالتا ہے۔ چوہیا نکولس کو راستہ دکھا رہی تھی اور نکولس تھک ہار کر آرام کرنے کی سوچ رہا تھا کہ دُور ایک ٹمٹاتی ہوئی روشنی نظر آئی۔ وہ اُسی سمت چل دیا۔ یہ راستہ چٹانوں کے اندر ایک غار تک جاتا تھا۔ غار کے باہر دروازہ تھا۔

    نکولس نے دروازے پر دستک دی۔ کافی دیر بعد ایک بڑھیا باہر نکلی، جس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔ نکولس نے جھانک کر اندر دیکھا تو اسے لکڑیاں جلتی ہوئی نظر آئیں۔

    نکولس نے بڑھیا کو سلام کیا تو وہ بولی: ”لڑکے یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ، ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں۔ میرا ظالم بیٹا میتھیو واپس آنے والا ہے۔ وہ اپنے کوڑے سے تمہاری چمڑی ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ تم ابھی نوجوان ہو اور اچھے گھرانے کے نظر آتے ہو۔ جاؤ، جلدی کرو۔ یہاں سے بھاگ جاؤ۔“

    ”اچھی امّاں“ نکولس بولا: ”میں اتنا تھکا ہوا ہوں کہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا۔ آپ مجھے یہاں رات گزارنے کی اجازت دے دیں۔ آگے جو میری قسمت۔“

    بڑھیا نے نکولس کو لکڑیوں کے ڈھیر کے نیچے چھپا دیا۔ آدھی رات کے قریب میتھیو واپس آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں سیب کے درخت کا کوڑا تھا۔ غار کے اندر داخل ہوتے ہی اُس نے ناک اُوپر کر کے کچھ سونگھا اور پھر گرج کر بولا: ” بڑھیا! مجھے انسانی جسم کی بُو آ رہی ہے۔ بتا، کہاں چھپا رکھا ہے تُو نے اُس کو؟“

    بڑھیا نے بہت کوشش کی لیکن میتھیو کو ٹال نہ سکی اور جب میتھیو نے خود ہی تلاش کرنا شروع کر دیا تو بڑھیا نے یہی مناسب سمجھا کہ اس کو سب کچھ بتا دے۔ اس نے میتھیو کو بتایا کہ کِس طرح ایک نوجوان لڑکا آیا تھا اور اس نے اُسے پناہ دی ہے۔ یہ سنتے ہی نکولس لکڑیوں کے نیچے سے نکل آیا۔ میتھیو نے اُس کی طرف گھور کر دیکھا اور گرج کر بولا: ”کون ہو تم ؟ کیا لینے آئے ہو یہاں؟“

    نکولس نے ساری بات کہہ سنائی تو میتھیو نے کہا: ” میں زندگی میں پہلی بار رحم کھا رہا ہوں، اور تمہیں ایک شرط پر زندہ چھوڑتا ہوں۔ جس راستے پر تم جا رہے ہو یہ تمہیں سیدھا اُسی چھلاوے کے علاقے میں لے جائے گا جس کی تلاش میں نکلے ہو۔ میں نے بھی اپنی نوجوانی میں اُس سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ تمہارے والد نے یہ معاہدہ انجانے میں کیا تھا، لیکن میں نے جان بوجھ کر کیا تھا۔ اب جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، میری پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ خدا جانے وہ کس دن مجھے لینے آجائے۔ تمہیں اس شرط پر زندہ چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ تو واپسی میں ادھر سے ہو کر جانا اور مجھے بتانا کہ میرے متعلق چھاوے کے کیا ارادے ہیں۔“

    نکولس نے میتھیو کی شرط مان لی۔ پھر وہ آرام سے سو گیا۔ صبح اٹھا تو بڑھیا نے اس کا تھیلا کھانے کی چیزوں سے بھر دیا اور وہ پھر سفر پر روانہ ہوگیا۔ چوہیا اسی طرح اُس کی راہ نمائی کر رہی تھی۔

    اب راستہ اور بھی مشکل ہو گیا تھا۔ ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیاں کہیں اُوپر کو جاتیں اور کہیں ڈھلان کی صورت میں نیچے کو۔ ارد گرد کی پہاڑیوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ برف کے تودے پھسل پھسل کر گرتے تو نکولس بڑی مشکل سے جان بچاتا۔ وہ اِس سرد پہاڑی علاتے سے گزر گیا تو آگے گرم علاقہ شروع ہو گیا۔ یہاں اُس نے ابلتے پانی کا ایک سمندر دیکھا۔ مختلف ملکوں کے پرندے یہاں سردیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ یہاں اُس نے ایک آنکھ والے آدم خوروں کو بھی دیکھا جن کے پیر بیلچوں جیسے تھے۔

    نکولس یہ بات سمجھ چکا تھا کہ کوئی خاص طاقت اسے اِن سب مصیبتوں سے بچائے لیے جارہی ہے۔ یہاں ہوا میں جگہ جگہ آگ کے شعلے اُڑ رہے تھے اور بہت بری بُو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ ب وہ جنوں، پریوں اور چھلاوں کے علاقے میں آ گیا ہے۔ دلدلوں میں سے درختوں کے جلے ہوئے تنے اُچھل اُچھل کر باہر گر رہے تھے۔ جنگل سانپوں، بچھّوؤں سے بھرے پڑے تھے۔ سو سو سروں والے اژدھے دانت نکالے پھر رہے تھے۔ آخر کچھ آگے جا کر نکولس کو چھلاوے کا محل نظر گیا۔ یہاں زمین صاف اور ہموار تھی اور اس پر گھاس اُگلی ہوئی تھی۔

    نکولس محل میں داخل ہو گیا۔ وہ جس طرف بھی جاتا دروازے خود بخود کھل جاتے۔ چوہیا اب بھی اُسے راستہ دکھا رہی تھی۔ جب وہ آخری دروازے میں سے ہو کر بڑے کمرے میں داخل ہوا تو اسے میز پر وہ کاغذ پڑا نظر آیا جس پر اس کے باپ نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔
    اس نے جھپٹ کر کاغذ اٹھایا اور اِدھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کمرے میں لمبی لمبی میزوں پر عمده عمده لذیذ کھانے چُنے ہوئے تھے۔ لیکن بھوکا ہونے کے باوجود اُس نے اُن کی طرف دھيان نہ دیا۔ اُس نے کاغذ جیب میں ڈالا تو اُسے وه وعده ياد آ گیا جو اُس نے میتھیو سے کیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس وقت تک یہاں سے نہیں جانا چاہیے جب تک میں چھلاوے سے میتھیو کے بارے میں نہ پوچھ لوں۔

    اس کا یہ سوچنا تھا کہ چوہیا کمرے میں ایک جگہ بار بار گھومنے لگی۔ نکولس نے اُس جگہ تہ خانہ دیکھا۔ نیچے سیڑھیاں جاتی تھیں۔ وہ نیچے اُتر گیا۔ یہاں گھپ اندھیرا تھا۔ پہلے پہل تو اُسے کچھ نظر نہ آیا۔ پھر اچانک ابلتے ہوئے تیل کی بُو آئی، جیسے پکوڑے تلنے والی کڑاہی سے آتی ہے۔ وہ کمرے کے دائیں کونے کی طرف گیا تو اس سے آگے ایک اور کمرا تھا اور اس میں روشنی ہو رہی تھی۔ نکولس وہاں گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بہت بڑی کڑاہی میرا تیل کھول رہا ہے اور پاس ہی دیوار پر لکھا ہے:

    ”میتھیو کی قبر۔“

    نکولس کو بہت دکھ ہوا اور وہ فوراً ہی محل سے باہر نکل آیا۔ اب چوہیا اس کے آگے آگے نہ تھی۔ بلکہ جوں ہی وہ محل سے نِکلا اس نے ایک اُلّو نے اس چوہیا کو پنجوں میں پکڑ رکھا تھا۔
    واپسی میں اُسے سب کچھ بدلا ہوا نظر آیا۔ نہ وہ آدم خور، نہ سانپ، نہ دلدلیں اور نہ وہ پہاڑیاں۔ وہ بغیر کسی دقّت کے میتھیو کے غار تک پہنچ گیا۔ یہاں اب وہ بڑھیا نہ تھی۔ میتھیو رات کو آیا اور نکولس نے اُسے بتایا کہ چھلاوا اُس کو تیل میں تل کر کھانے کا انتظام کر رہا ہے تو اُس نے گھبرا کر کہا ”اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟“

    نکولس بولا ”یہ جو تمہارا کوڑا ہے نا، یہ خونی کوڑا جس سے تُم نے نہ جانے کتنے لوگوں کو قتل کیا ہے، اِسے زمین میں بو دو۔ پھر اسے ایک چشمے کے پانی سے سینچو، لیکن چشمے سے پانی کِسی برتن میں نہیں، منھ میں بھر کر لانا ہے اور گھٹنوں کے بل چل کر آنا ہے۔ جب تک یہ کوڑا پھوٹ نہ نکلے اور اس میں شاخیں اور پتّے نکل نہ آئیں، اسے اسی طرح پانی دیتے رہنا۔ تمہاری مصیبت ٹل جائے گی۔“

    میتھیو کو یہ ہدایت دے کر نکولس اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے ماں باپ نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی کیوں کہ ان کا بیٹا بڑی بہادری کا کام کر کے آیا تھا۔ جب نکولس کے بوڑھے والدین فوت ہوگئے تو اس نے ان کی چھوڑی ہوئی تمام دولت غریبوں میں بانٹ دی اور خود دنیا چھوڑ کر جنگل میں چلا گیا۔ جنگل سے اُسے بچپن سے پیار تھا۔

    ایک دن وہ ذرا دور نکل گیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ پھولوں کی خوش بُو پھیلی ہوئی تھی۔ نکولس کے ساتھ ایک گڈریا لڑکا بھی تھا۔ اس نے سیب کے ایک درخت کے نیچے گرے ہوئے سیب اکھٹے کر لیے۔ لیکن جُوں ہی اس نے درخت کی شاخ پر سے سیب توڑنا چاہا تو ایک آواز آئی: ”یہ پھل مت توڑو۔ یہ درخت تم نے نہیں بویا تھا۔“ گڈریا یہ سن کر خوف زدہ ہو گیا اور اس نے یہ بات نکولس کو بتائی۔ نکولس کو اپنی جوانی کا واقعہ یاد آگیا، بھاگ کر سیب کے درخت کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ درخت کا تنا دراصل خود میتھیو تھا اور اس کے بازو، داڑھی کے بال اور سر کے بال ٹہنیوں اور پتّوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

    نکولس کو دیکھتے ہیں وہ چلّایا: ”تم نے مجھے سیب کے درخت کی لکڑی کا کوڑا زمین میں دبانے کو کہا تھا۔ میں نے ایسا ہی کیا، اسے پانی دیتا رہا اور ایک دن خود ہی درخت بن گیا۔“
    نکولس درخت کے تنے کے پاس بیٹھ گیا اور میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا ایک ایک کر کے اقرار کرنا شروع کر دیا۔

    جب وہ اپنے کسی گناہ کی معافی مانگتا، درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر گرتا اور لڑھک کر دور چلا جاتا۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ میتھیو نے اپنے تمام گناہوں کا اقرار کرلیا اور کہا کہ وہ اپنے کیے پر سخت نادم ہے تو نکولس نے دیکھا کہ درخت کے تمام سیب گرچکے ہیں اور وہ درخت خاک ہوچکا ہے۔ خاک کے اس ڈھیر میں سے ایک سفید کبوتر نکل کر آسمان کی طرف پرواز کرگیا اور ایک آواز آئی: ”اب میں آزاد ہوں۔ اب چھلاوا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔“

    (کتاب پولینڈ کی کہانیاں سے انتخاب، مترجم سیف الدّین حُسام)

  • خطا کس کی؟

    خطا کس کی؟

    کہانیاں اور حکایات سبق آموز بھی ہوتی ہیں اور بہت سی حکایات ہماری اخلاقی تربیت اور اصلاحِ احوال کے علاوہ ہمیں پُر لطف اور دل چسپ انداز میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ ایک مختصر اور بہت سادہ حکایت ہے جو نہ صرف پُرلطف ہے بلکہ اثر انگیز بھی ہے۔

    ایک غریب آدمی کے مکان کی چھت ٹوٹ گئی تھی اور بارشوں کا موسم تھا۔ وہ غریب آدمی اُس چھت کو کسی طرح سدھارنے کی کوشش کررہا تھا اور اس پر گھاس پھونس بچھا رہا تھا تاکہ برسات میں کمرے پانی سے بچے رہیں۔ اتفاق سے ایک سخی اور امیر شخص اُدھر آ نکلا۔ اس غریب آدمی کو یہ سب کرتا ہوا دیکھ کر اس نے کہا۔ بھلے آدمی! اس گھاس پھونس سے بارش کیا رکے گی۔ پکی چھت بنوا لو تو ٹپکنے کا اندیشہ جاتا رہے۔‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! آپ کا فرمانا تو بے شک بجا ہے اور میں بھی جانتا ہوں۔ مگر حضور! میرے پاس پکی چھت بنوانے کے لیے رقم کہاں؟‘‘

    امیر آدمی نے اس سے پوچھا۔ ’’پکی چھت بنانا چاہو تو اس پر کیا لاگت آئے گی؟‘‘

    غریب نے جواب دیا۔ ’’جناب! ڈیڑھ سو روپے تو لگ ہی جائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر امیر نے جھٹ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس غریب کو ڈیڑھ سو روپے نکال کر دے دیے۔ اور یہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا کہ جاؤ اس سے اپنا کام چلاؤ۔

    جب امیر کی دی ہوئی رقم اس غریب نے گنی تو اس پر شیطان حاوی ہوگیا اور اسے بہکایا کہ یہ تو بڑا سخی دولت مند تھا۔ تم نے بیوقوفی کی، اگر پانسو کہتے تو اتنے ہی دے جاتا۔ غریب نے سوچا کہ اس نے بڑی غلطی کر دی ہے۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ اچانک اس غریب نے آگے قدم بڑھا دیے اور سیدھا اس سخی انسان کے بڑے سے مکان پر پہنچا اور اسے بلا کر کہنے لگا، جناب! میں نے اندازے میں غلطی کی تھی۔ چھت پر پانسو روپے خرچ ہوں گے۔‘‘

    امیر نے یہ سن کر کہا۔ ارے، اچھا بھائی، وہ ڈیڑھ سو کہاں ہیں جو میں نے تمھیں دیے تھے؟‘‘

    غریب آدمی نے فوراً‌ رقم نکال کر اس کے سامنے کر دی۔ امیر آدمی نے وہ رقم اٹھائی اور اپنی جیب میں رکھ کر کہا۔ ’’جاؤ، میری تو اتنی حیثیت نہیں کہ تم کو پانسو دے سکوں۔ کوئی اور اللہ کا بندہ دے دے گا۔

    یہ دیکھ کر غریب بہت گھبرایا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟ امیر آدمی اس کی طرف دیکھے بغیر اپنے گھر کے اندر چلا گیا- وہ غریب یہ کہتا ہوا گھر کو پلٹ آیا کہ امیر کی کوئی خطا نہیں۔ یہ میرے ہی لالچ کی سزا ہے۔

  • نو سو ننانوے اشرفیاں

    نو سو ننانوے اشرفیاں

    ملّا نصر الدّین کو ایک عقل مند، دانا اور ایسا خوش مزاج کہا جاتا ہے جو ہنسی مذاق اور تفریح میں لوگوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کا کام کرتا تھا۔ کتنے ہی قصّے، دانائی کی باتیں اور لطائف ملّا نصر الدّین سے منسوب ہیں، اور یہ ایک ایسا قصّہ ہے جو دل چسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔

    کہتے ہیں کہ ملّا نصر الدّین کے پڑوس میں ایک مال دار شخص رہتا تھا جو بہت کنجوس تھا۔ وہ اپنا مال تجوری میں بھرتا جاتا تھا اور کسی غریب اور محتاج کی مدد کو آمادہ نہ تھا۔ ملّا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے، اس میں سے کچھ غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، تاکہ خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ لیکن اس نے ملّا ہمیشہ ٹال دیا۔ آخر ملّا نصر الدّین کو اس سے مال نکلوانے اور کنجوس کو سبق سکھانے کی ایک ترکیب سوجھی۔

    ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگا، یا اللہ، اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کر دوں۔ لیکن اگر اس میں ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو میں اسے ہرگز قبول نہ کروں گا۔

    وہ یہ دعا اتنے بلند آواز میں کر رہا تھا کہ اس کا کنجوس پڑوسی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملّا بڑا ایمان دار بنتا ہے، اسے آزمانا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے ایک تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھر لیں اور اس میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈال دیا جس پر لکھا تھا کہ اگر یہ نعمت قبول نہ ہو تو اسے اپنے صحن سے باہر گلی میں جھانکے بغیر پھینک دینا۔ اب وہ گھر سے نکل کر ملّا کے صحن کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ عین اس وقت جب ملّا نصر الدّین نے دعائیہ کلمات دہرائے تو کنجوس شخص نے تھیلی اس کے صحن میں پھینک دی۔

    ملّا نصر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھا لی اور اس میں سے اشرفیاں نکال نکال کر گننے لگا۔ کل نو سو ننانوے اشرفیاں تھیں۔ ساتھ ہی وہ تحریر بھی اس کے ہاتھ لگی مگر ملّا نے با آوازِ بلند خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگا۔ یا اللہ، تُو نے میری دعا قبول کی ہے، ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہیں، یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا۔ ادھر ملّا جی کے کنجوس پڑوسی نے جب یہ سنا تو سخت پریشان ہوا۔ وہ سمجھا تھا کہ ملّا اشرفیاں گننے کے بعد خدا سے شکوہ کرے گا اور تھیلی باہر پھینک دے گا۔ لیکن یہاں تو اس کے برعکس ہوا اور ملّا نے وہ اشرفیاں رکھ لیں۔

    کنجوس پڑوسی کی سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ اسے اچانک یہ احساس ستانے لگا کہ ملّا بہت چالاک ہے اور اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھا لی ہیں۔ اس کے ذہن میں یہ بات آئی ہی تھی کہ وہ تیزی سے ملّا کے گھر کا دروازہ پیٹنے لگا۔ ملّا کو دروازے پر دیکھتے ہی کہنے لگا تم بہت بے ایمان شخص ہو۔ لاؤ، میری اشرفیاں واپس کرو۔ تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کر دوں گا، لیکن اب تم وہ تھیلی قبول کرنے پر تیار ہو۔

    ملّا نصر الدّین نے بھی غصّے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا، تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، شاید تم نے سنا ہو کہ اُس سے گڑگڑا کر اس کے لیے دعا کر رہا تھا۔ جاؤ یہاں سے، اپنا کام کرو۔

    کنجوس شخص سیدھا قاضی کی عدالت میں گیا اور ملّا کی شکایت کردی۔ قاضی صاحب نے ملّا نصر الدّین کو طلب کرلیا۔ وہ کنجوس ملّا نصر الدّین کے پاس گیا اور کہا چلو، تمہیں قاضی صاحب بلاتے ہیں۔ ملّا نے جواب دیا، تم دیکھ رہے ہو کہ میرا لباس پھٹا پرانا ہے، میں اس شرط پر جانے کے لیے تیار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو، اس کنجوس نے عجلت میں یہ شرط بھی منظور کر لی اور صاف ستھرے کپڑے ملّا کو لا کر دے دیے۔ اس کے بعد ملّا نے مزید فرمائش کردی۔ کہنے لگا، میاں کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جاؤں، لوگ دیکھیں گے تو دل میں کیا کہیں گے، جاؤ اپنا گھوڑا لے آؤ، اس پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مال دار پڑوسی نے اپنا گھوڑا بھی ملّا جی کے حوالے کر دیا اور وہ نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہو کر قاضی کی عدالت میں پہنچے۔

    قاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ ملّا نصر الدّین کا قیمتی لباس اور سواری کا گھوڑا بھی جب کہ مدعی پیدل آیا تھا۔ اس نے قاضی کے روبرو سارا قصّہ سنایا تو قاضی صاحب نے ملّا جی سے کہا کہ وہ اس پر اپنی صفائی دے۔

    ملّا نصر الدّین نے کہا، حضور! یہ میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوا شخص ہے، ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی نو سو ننانوے اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں پہنے ہوئے ہوں وہ بھی اسے کا ہے۔

    یہ سنتے ہی جلد باز اور بے وقوف پڑوسی چلّا اٹھا، ہاں جناب، یہ لباس بھی میرا ہے، میں نے اسے پہننے کے لیے دیا تھا۔

    ملا نصر الدین نے مسکرا کر قاضی کی طرف دیکھا اور بولا، جناب سن لیا آپ نے، یہ لباس بھی اس کا ہو گیا اور ابھی دیکھیے یہ کہہ دے گا کہ گھوڑا بھی اسی کا ہے۔

    اشرفیوں کا حقیقی مالک اس وقت ہوش کے بجائے جوش سے کام لے رہا تھا۔ اس نے غصّے کے عالم میں کہا، ہاں حضور، یہ گھوڑا میرا ہی ہے، اس فریبی نے مجھ سے سواری کے لیے مانگا تھا۔

    قاضی کو اس کنجوس کا یہ انداز ناگوار گزرا اور اس نے خیال کیا کہ یہ کوئی احمق اور نہایت ہی جاہل انسان ہے، جو اس کا وقت ضایع کررہا ہے۔ قاضی نے اس کی کچھ نہ سنی اور ڈانٹ پھٹکار کر اس کا مقدمہ خارج کر دیا۔

    بعد میں‌ وہ کنجوس روتا پیٹتا ملّا نصر الدّین کے گھر پہنچ گیا اور اس کی بڑی منت سماجت کی۔ تب ملّا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں، لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا۔

  • لومڑی کا رزق (حکایاتِ‌ سعدی)

    لومڑی کا رزق (حکایاتِ‌ سعدی)

    ایک درویش کسی جنگل میں سفر کر رہا تھا۔ اس کی نظر ایک لنگڑی لومڑی پر پڑی جو بے بسی کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ درویش کے دل میں خیال آیا کہ اس لومڑی کے رزق کا انتظام کیسے ہوتا ہوگا جب کہ یہ شکار کرنے کے قابل نہیں ہے؟

    درویش ابھی یہ بات سوچ رہاتھا کہ اسے ایک شیر دکھائی دیا جو ایک گیدڑ کو اپنے منہ میں گرفت کیے اس لومڑی کے قریب آیا اور زمین پر پھینک کر اس کا گوشت نوچنے لگا۔ شیر نے اس کا کچھ حصّہ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی لومڑی نے بچا کھچا گوشت کھانا شروع کیا اور اپنا پیٹ بھر کر آگے بڑھ گئی۔

    درویش نے یہ دیکھا تو اسے محض اتفاق پر محمول کیا اور سوچنے لگا کہ اب جب بھوک اس لومڑی کو ستائے گی تو کیا اس پر پھر قسمت اسی طرح‌ مہربان ہوسکے گی۔ اسے یہ مشکل نظر آرہا تھا۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرے گی وہیں قیام کیا۔ اگلے روز بھی ایک شیر منہ میں شکار دبائے اس جگہ آیا اور اس نے کچھ گوشت کھانے کے بعد باقی چھوڑ دیا۔ لومڑی نے وہ باقی گوشت کھا لیا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔ درویش سمجھ گیا کہ اس کے رزق کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی درویش کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ بھی توکل کرے اور خود پیٹ بھرنے کے لیے جستجو نہ کرے۔ اس نے سوچا کہ میرا رزق اللہ مجھے خود پہنچا دے گا جس طرح لنگڑی لومڑی کو شیر کے ذریعے رزق پہنچا رہا ہے۔

    درویش یہ فیصلہ کرنے کے بعد ایک جگہ جاکر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا رزق بھی اس تک پہنچ جائے گا مگر کئی دن گزر گئے اس کے لئے کھانے کی کوئی شے نہ آئی یہاں تک کہ وہ کمزوری کی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے نزدیک ایک مسجد کے محراب سے یہ آواز سنی کہ اے درویش! کیا تو لنگڑی لومڑی بننا چاہتا ہے یا پھر شیر جو اپنا شکار خود کرتا ہے جس میں سے خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے۔

    حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ رزق پہنچانے کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ اچھا بھلا ہو اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ اللہ نے جب رزق دینے کا وعدہ کیا ہے تو بیٹھے بٹھائے رزق پہنچائے گا بلکہ اس کے لئے اسے جستجو کرنا ضروری ہے۔ محنت کرنے کے بعد ہی پھل کھانا مزہ دیتا ہے۔ وہ لوگ جو محتاج ہیں اور محنت نہیں کرسکتے ان کا انتظام قدرت کی جانب سے ایسا ہوتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن یہ سب ایک نظام کے تحت ہوتا ہے اور یہ ہر ایک کی خواہش کے تابع نہیں‌ ہے۔

  • عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    ایک عقاب بادلوں کی چادروں کو چیرتا ہوا کوہ قاف کی چوٹیوں پر پہنچا اور ان کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر بیٹھ گیا۔

    وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا اس کی خوب صورتی میں وہ محو ہوگیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے۔ کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔ کہیں پر جھیلیں اور جھیلوں کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔ کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے کوّے کی طرح کالا ہو رہا ہے۔

    اے خدا عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔ تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔‘‘

    ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔’’تو آخر کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ نیچی ہوں؟‘‘

    عقاب نے پھر کر دیکھا۔ واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تن رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔

    عقاب نے حیرت سے پوچھا ’’تو اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جب وہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے کہیں زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تو کمزور اور بے پر کیا چیز ہے۔ کیا تو رینگ کر یہاں آئی؟‘‘

    مکڑی نے جواب دیا۔ ’’نہیں ایسا تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر یہاں کیسے آگئی؟‘‘

    ’’جب تو اڑنے لگا تھا تو میں تیری دم سے لٹک گئی اور تُو نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔ لیکن میں یہاں اب تیری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تو اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ ظاہر کر اور سمجھ لے کہ میں ہی۔۔۔‘‘

    اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر گرا دیا۔

    میرا خیال ہے اور آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہوگا کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی بڑے آدمی کی دم میں لٹک کر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت بخشی ہے، مگر بات صرف یہ ہے کہ کوئی ذرا پھونک دے اور وہ اپنے جامے سمیت پھر زمین پر پہنچے ہوتے ہیں۔

    (معروف ہندوستانی اسکالر، ادیب اور ماہرِ تعلیم محمد مجیب کے قلم سے ایک حکایت)

  • حاجت روا (ایک حکایت)

    حاجت روا (ایک حکایت)

    ایک بادشاہ اپنے چند رفقاء اور درباریوں‌ کے ساتھ اپنے محل سے سیر کی غرض سے نکلا، لیکن ایک مقام پر ان سے بچھڑ گیا اور چلتے چلتے دور ویرانے میں پہنچ گیا۔ وہاں اسے ایک جھونپڑی نظر آئی!

    اس ویرانے میں ایک چھونپڑی دیکھ کر بادشاہ کو حیرت بھی ہوئی اور امید بھی بندھی کہ اب وہ دوبارہ اپنے محل پہنچ سکتا ہے۔

    بادشاہ نے جھونپڑی کے آگے کھڑے ہو کر آواز دی تو اس میں سے ایک شخص باہر آیا۔ بادشاہ نے اسے بتایا کہ وہ مسافر ہے اور راستہ بھٹک کر ادھر نکل آیا ہے۔ اس جھونپڑی میں رہنے والا ایک بوڑھا شخص تھا جس نے بادشاہ کو تسلّی دی اور جھونپڑی میں لے گیا۔ اس نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی۔ وہ غریب آدمی جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے۔ اس نے مسافر سمجھ کر بادشاہ کی خدمت کی اور جو کچھ کھانے پینے کو اس کے پاس تھا، اس کے سامنے رکھا۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ پھر اس دیہاتی بوڑھے نے بادشاہ کو اچھی طرح شہر جانے کا راستہ سمجھا کر روانہ کیا۔ روانگی کے وقت بادشاہ نے اس پر اپنی حقیقت کھول دی اور اپنی انگلی سے ایک انگوٹھی اتاری اور کہا: تم مجھے نہیں جانتے تھے کہ میں بادشاہ ہوں۔ لیکن ایک مسافر سمجھ کر تم نے میرا خیال رکھا اور یہ تمھارا نیک اور اچھا انسان ہونا ثابت کرتا ہے۔ یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، جب کبھی کوئی ضرورت ہو محل کے دروازے پر آجانا، دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھانا، ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرا دے گا۔ بادشاہ اس آدمی کے بتائے ہوئے راستے پر ہولیا اور اپنے محل پہنچ گیا۔

    ادھر وہ غریب بوڑھا ایک عرصہ بعد کسی مصیبت میں گرفتار ہوا تو سوچا، بادشاہ کے پاس جاتا ہوں تاکہ اس سے حاجت بیان کروں۔ وہ غریب محل کے دروازے پر پہنچا اور دربان کو کہا کہ اسے بادشاہ سے ملنا ہے۔ دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اور سوچا کہ اس کی کیا اوقات بادشاہ سے ملنے کی۔ دربان نے کہا تم بادشاہ سے نہیں مل سکتے، مفلس و قلاش آدمی۔ تب اس دیہاتی شخص نے وہ انگوٹھی اس کے سامنے کردی، اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس؟ دربانوں کو بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جو لے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہوں اُسے ہم تک پہنچایا جائے۔

    چنانچہ دربان اسے ساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا، دروازہ کھلا ہوا تھا، وہ اندر داخل ہوگئے۔ غریب بوڑھے نے دیکھا کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے۔ پھر اس نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا، دربان نےکہا مل تو لو کہا اب نہیں ملنا ہے، کام ہوگیا۔ اب واپس جانا ہے۔ وہ دیہاتی یہ کہتا ہوا آگے چلا گیا۔ ادھر بادشاہ دعا سے فارغ ہوا تو دربان نے یہ ساری قصّہ گوش گزار کیا۔ بادشاہ نے کہا فوراً اسے لے کر آؤ، وہ ہمارا محسن ہے۔ دربانوں نے اس دیہاتی کو جا لیا۔ وہ واپس لایا گیا تو بادشاہ نے اسے پہچان لیا اور کہا آئے تھے تو ملے ہوتے، ایسے کیسے چلے گئے؟ اس دیہاتی بوڑھے نے کہا کہ بادشاہ سلامت! اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کر دیں گے۔ مجھے ایک ضرورت پیش آئی تھی، میں اس لیے یہاں‌ آیا مگر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں، تو میرے دل میں خیال آیا کہ جس سے اتنی بڑی سلطنت کا بادشاہ بھی مانگ رہا ہے، کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگوں۔

    ( قدیم کہانیاں اور حکایات سے انتخاب)

  • کسرِ نفسی (حکایت)

    کسرِ نفسی (حکایت)

    فارسی زبان میں چند کتابوں میں جو شہرت شیخ سعدی کی حکایتوں پر مشتمل کتابوں کو حاصل ہوئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ حضرت سعدی کی حکایات پڑھ کر بے اختیار دل جھوم اٹھتا ہے۔ ان کی سادہ اور اخلاقی حکایتیں فارسی کی وہ نثر ہے جس میں ہمارے لیے ایک جہان پوشیدہ ہے۔

    دنیا کی کئی زبانوں جرمنی، فرانسیسی، ہندی، انگریزی، اردو اور مختلف خطّوں کی مقامی زبانوں میں بھی ان کی حکایات کا ترجمہ مقبول ہوا۔ یہاں ہم شیخ سعدی سے منسوب ایک حکایت بعنوان ‘کسرِ نفسی کا درجہ نقل کررہے ہیں​۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک سال دریائے نیل نے مصر کی زمین کو سیراب نہ کیا۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہو گئے اور لوگ بلبلا اٹھے۔ کچھ لوگ حضرت ذوالنون مصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ اللہ والے ہیں، دعا کریں کہ بارش ہو جائے۔ قحط پڑا تو مخلوق خدا کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہے۔
    جب لوگ چلے گئے تو حضرت ذوالنون مصری نے اپنا سامان سفر باندھا اور ملک بدین کی طرف نکل گئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گھٹا چھاگئی اور کھل کر مینہ برسا۔ جل کا تھل ہو گیا۔ قحط کا خطرہ ٹل گیا۔

    حضرت ذوالنون مصری بارش ہونے کے بیس روز بعد واپس اپنے علاقہ تشریف لائے تو لوگوں نے وطن چھوڑ کر چلے جانے کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا۔
    "لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث جانوروں، پرندوں کا رزق کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے خیال کیا کہ اس سرزمین میں سب سے زیادہ گناہ گار اور خطا کار میں ہی ہوں چنانچہ یہاں سے چلا گیا۔”

    اس حکایت سے ہم کو سبق یہ دیا گیا کہ حضرت کا ایسا فرمانا ازراہِ کسر نفسی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خاکسار انسان ہی سرفراز ہوتا ہے۔ کسر نفسی کا درجہ بہت بڑا ہے۔ خاکسار بن کر اور غرور و پارسائی سے بچ کر ہی انسان سرخرو ہوتا ہے۔

  • دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    جزیرۂ کیش میں مجھے ایک تاجر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے چالیس کارندے تھے اور ڈیڑھ سو اونٹوں پر مالِ تجارت لدا ہوا تھا۔ وہ ایک رات مجھے اپنے گھر لے گیا مگر خیالی پلاؤ پکانے میں نہ تو رات بھر مجھے سونے دیا اور نہ خود سویا۔

    وہ تاجر اُس رات اتنا بولا کہ ہانپ ہی گیا اور ایسا لگتا تھا کہ اب مزید بولنے کی اس میں سکت باقی نہیں‌ رہی۔ کبھی کہتا کہ میرا فلاں مال ترکستان میں پڑا ہے اور فلاں شے ہندوستان میں رکھی ہے۔ کبھی کہتا کہ اسکندریہ چلیں، وہاں کی آب و ہوا بڑی خوش گوار ہے، پھر خود ہی کہہ دیتا جائیں کیسے؟ راستے میں دریائے مغرب بڑا خطرناک ہے۔ کبھی یوں کہتا کہ جس سفر کا میں نے ارادہ کر رکھا ہے اگر وہ پورا ہو جائے تو پھر عمر بھر ایک جگہ گوشۂ قناعت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کروں گا۔

    میں نے دریافت کیا، بتائیے تو وہ کون سا سفر ہے؟ کہنے لگا، فارس سے چین میں گندھک لے جاؤں گا، سنا ہے وہاں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے اور چین سے پیالیاں خرید کر روم بھیجوں گا اور وہاں سے ان کے عوض رومی کپڑا ہندوستان لے جاؤں گا۔ پھر ہندوستان سے ہندوستانی فولاد لے کر حلب میں پہنچاؤں گا اور اس کے بدلے میں آئینے خرید کریمن میں لے جاؤں گا اور پھر یمنی چادریں اپنے وطن فارس میں لا کر مزے سے ایک دکان کھول کر بیٹھ جاؤں گا اور سفر کو خیر باد کہہ دوں گا۔

    ذرا اس جنون کو تو ملاحظہ فرمائیے! بس اسی طرح بکتے بکتے اس نے رات گزار دی۔ اس نے اتنی بکواس کی کہ پھر گویا بات کرنے کو اس کے پاس کچھ رہا نہیں۔ آخر اس نے میری طرف توجہ کی اور کہا:

    شیخ صاحب! آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے، اپنے دیکھے سُنے سے ہمیں بھی تو کچھ بتلائیے۔

    اس کے جواب میں ایک شعر میں نے اسے سنایا:

    گفت چشم تنگِ دنیا دار را
    یا قناعت پرو کند یا خاکِ گور

    اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ دنیا دار کا پیٹ کبھی بھرتا نہیں، اسے یا تو صبر ہی بھرے یا پھر خاکِ گور۔

    (حضرت شیخ سعدی شیرازی سے منسوب ایک حکایت)

  • ‘سزا’

    ‘سزا’

    ایک ملک کے کسی بڑے شہر کا حاکم اپنے مشیروں اور چند سپاہیوں کے ساتھ مرکزی بازار کے گشت پر نکلا۔ اس نے وہاں‌ ایک پرندے بیچنے والے کو دیکھا جس کے پاس ایک پرندوں سے بھرا ہوا ایک پنجرہ تھا اور اس کی قیمت وہ ایک دینار لگائے ہوئے تھا جب کہ اسی پنجرے کے ساتھ ایک اور پنجرے میں ویسا ہی صرف ایک پرندہ تھا جس کی قیمت وہ دس دینار مانگ رہا تھا۔

    حاکمِ وقت کو اس عجیب فرق پر بہت تعجب ہوا تو اس نے پوچھا: ایسا کیوں ہے کہ پرندوں سے بھرا ہوا پورا ٹوکرا محض ایک دینار کا اور ویسا ہی ایک اکیلا پرندہ دس دینار کا؟

    بیچنے والے نے عرض کی : حضورِ والا، یہ اکیلا پرندہ سدھایا ہوا ہے، جب یہ بولتا ہے تو اس کے دھوکے میں آکر باقی کے پرندے جال میں پھنس جاتے ہیں، اس لیے یہ قیمتی ہے اور اس کی قیمت زیادہ ہے۔

    حاکمِ وقت نے دس دینار دے کر وہ پرندہ خریدا، نیفے سے خنجر نکالا اور اس پرندے کا سَر تن سے جدا کر کے پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر عسکری و سیاسی مصاحبوں سے رہا نہ گیا اور تعجب سے پوچھا: حضور، یہ کیا؟ اتنا مہنگا اور سدھایا ہوا پرندہ خرید کر مار دیا؟ اس پر حاکمِ وقت نے کہا: یہی سزا ہونی چاہیے ہر اس خائن اور چرب زبان منافق کی، جو اپنی ہی قوم کے لوگوں کو اپنی بولی سے بلائے، ان کو سبز سہانے مستقبل کے خواب دکھائے، اور اس قوم کو اپنے مطلوبہ مقام و منزل پر لا کر ان سے خیانت کرے۔

    (ماخوذ از حکایات)