Tag: اردو حکایات

  • فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    کہتے ہیں، ایک بادشاہ کسی باغ کی سیر کو گیا۔ وہاں اپنے مصاحبوں کے درمیان وہ خوش و خرم بیٹھا جو اشعار پڑھ رہا تھا ان کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ دنیا میں مجھ جیسا خوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔

    اتفاق سے ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں ایسا شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں‌ تھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟

    یہ آواز بادشاہ کے کانوں میں پڑی تو اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ واقعی فقیر کا کرتہ نہایت خستہ تھا اور اس کا دامن تار تار تھا۔ اس کی یہ بات سن کر بادشاہ ایک لمحے کو جیسے لرز کر رہ گیا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخش دیا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر اپنا دکھڑا پھر رونے لگا۔

    کسی نے بادشاہ کو اطلاع کی کہ وہی فقیر اب محل کے اطراف گھومتا رہتا ہے اور آپ کو اپنی حالت پر متوجہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ بادشاہ کو فقیر پر غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا۔

    جو شخص دن میں جلاتا ہے شمعِ کا فوری
    نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

    بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہم درد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضورِ والا نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور، اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔ وزیر نے بادشاہ کے سامنے یہ خوب صورت اشعار پڑھے اور فقیر پر رحم کرنے کی درخواست کی۔

    دیکھا نہیں کسی نے پیاسے حجاز کے
    ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
    آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
    پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر

    سبق: شیخ سعدی سے منسوب اس حکایت میں دو امر غور طلب ہیں۔ ایک طرف تو فضول خرچی اور روپے پیسے کے سوچے سمجھے بغیر استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اسے غلط بتایا ہے جب کہ مال و دولت رکھنے والوں کو کہا گیا ہے کہ جذبات میں آکر نادان اور کم عقل لوگوں پر مال نہ لٹائیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر ضرورت کے مطابق ہی غریبوں کی امداد کریں، لیکن انھیں دھتکارنا درست نہیں ہے کہ وہ مال داروں کی طرف نہ دیکھیں‌ تو کہاں‌ جائیں گے؟ یہ حکایت بتاتی ہے کہ جو لوگ کسی کی بخشش اور خیرات کو بلا ضرورت اور ناجائز صرف کرتے ہیں، ایسی ہی تکلیف ان کا مقدر بنتی ہے۔

  • لالچی سپیرا اور اژدھا

    لالچی سپیرا اور اژدھا

    زمانۂ قدیم ہی سے قصّے کہانیاں انسانوں‌ کی دل چسپی اور توجہ کا محور رہی ہیں۔ بالخصوص بچّے اور نوجوان بہت اشتیاق اور ذوق و شوق سے اپنے بڑوں کی زبانی وہ کہانیاں سنتے رہے ہیں، جو ان تک سینہ بہ سینہ اور کتابوں کے ذریعے پہنچی تھیں۔

    یہ سبق آموز کہانیاں اور حکایات اکثر سچے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جن میں عقل و دانش کی بات اور کوئی ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے جو بچّوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت، فکری اور جذباتی راہ نمائی اور ان کو معاملاتِ زمانہ سکھانے میں‌ مددگار ثابت ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہ درس گاہوں کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور لوگوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں۔ دنیا کی کوئی قوم، کوئی علاقہ یا کوئی براعظم ایسی سبق آموز کہانیوں اور حکایات سے خالی نہیں اور ہر ایک قوم کے پاس لوک کہانیوں اور حکایات کا خزانہ موجود ہے۔ ان حکایات میں ہزاروں سال کے انسانوں کے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس سے بڑے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور اسے اپنے بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    بچّو! یہ ایک سپیرے کا قصہ ہے۔ سپیرا کسے کہتے ہیں، تم جانتے ہو نا؟ یہ وہ آدمی ہوتا ہے جو جنگل بیاباں میں جاکر سانپ پکڑتا ہے اور اسے حکیم اور طبیب وغیرہ کو فروخت کردیتا ہے یا اس کا تماشا دکھا کر روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے پاس ایک بین ہوتی ہے جسے بجاتا ہوا وہ اپنے شکار کی تلاش میں پھرتا رہتا ہے۔

    ہم جس سپیرے کی کہانی سنا رہے ہیں، وہ دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل، ویرانوں اور صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخت سردی کا موسم تھا۔ سپیرا پہاڑوں میں سانپ تلاش کر رہا تھا۔ وہ خاصا تھک گیا تھا اور اب مایوس ہو کر گھر لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک اژدھا نظر آیا۔ یہ ایک بہت بھاری اور بہت لمبا اژدھا تھا۔ سپیرے نے غور کیا کہ اژدھا اس کے پیروں کی آواز اور اس کے بین بجانے پر ذرا بھی حرکت نہیں کر رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مَر چکا ہے۔ سپیرے نے ہمّت کی اور اژدھے کے قریب گیا۔ اس نے اپنی چھڑی سے اس کے جسم پر متعدد بار ضرب لگائی اور ہلایا بھی، لیکن اس نے ذرا بھی حرکت نہ کی، تب سپیرے کو یقین ہوگیا کہ اژدھا مر چکا ہے، کیوں کہ پہاڑوں پر پچھلے چند ہفتوں کے دوران سخت سردی ہی نہیں پڑی تھی بلکہ برف باری بھی ہوئی تھی۔ سپیرے نے سوچا کہ موسم کی سختی کے باعث وہ شکار کر کے اپنا پیٹ بھرنے میں ناکام رہا ہوگا اور یخ بستہ ہواؤں کو برداشت نہیں کرسکا جس کے سبب اس کی موت واقع ہوگئی۔ سپیرے نے سوچا اگر اس مردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جاؤں تو اسے دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا اور یہ تماشا کرکے میں خوب مال کماؤں گا۔

    وہ اژدھا کیا تھا، ستون کا ستون تھا۔ سپیرے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جانا مشکل تھا۔ مگر اس نے دماغ لڑایا اور کسی طرح درختوں کے چند بڑے بڑے پتّوں کو جمع کر کے سوکھی ہوئی مضبوط شاخوں کی مدد سے اژدھے کے جسم کو ان پر پتّوں پر ڈال دیا۔ اب اس نے درختوں کی چھال سے ایک قسم کی رسّی بٹ لی اور جان لیا کہ وہ بڑی آسانی سے اژدھے کو کھینچ سکتا ہے۔ سپیرے نے خوشی خوشی شہر کا رخ کیا۔ وہ اسے ہموار راستے پر گھسیٹ کر اور ناہموار جگہوں پر پتّوں سمیت دونوں ہاتھوں میں‌ اٹھا کر، الغرض کسی طور شہر کے مصروف علاقے کے مرکزی بازار میں لے آیا۔ سپیرے کے اس کارنامے کی شہر میں دھوم مچ گئی۔ جس نے سنا کہ شہر میں فلاں سپیرا ایک نایاب نسل کا اژدھا پکڑ کر لایا ہے، وہی سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ آتے اور اژدھے کا مالک سپیرا دیکھتا کہ خاصے لوگ جمع ہوگئے ہیں‌ تو وہ اس کے جسم پر سے وہ چادر ہٹا دیتا جو اس نے یہاں‌ پہنچ کر ڈال دی تھی۔ اس کے ساتھ وہ لوگوں کو پہاڑوں کی جانب اپنے سفر اور خطرناک سانپوں کی تلاش کا قصّہ بڑھا چڑھا کر سناتا جاتا اور اس کا سچ جھوٹ سن کر لوگ حیران بھی ہوتے اور باتیں‌ بھی بناتے، مگر اسے انعام اور اس تماشے پر بخشش کے طور پر اشرفیاں ضرور دیتے۔ سپیرے کو اور چاہیے بھی کیا تھا۔ وہ ان لوگوں کے مذاق کا نشانہ بن کر اور ایسی ویسی باتیں سن کر بھی خوش تھا، کیوں کہ وہ شام کے آغاز سے اس وقت تک جتنی رقم جمع کرچکا تھا، وہ ایک سے دو ہفتے تک سپیرے اور اس کے گھر والوں کی کھانے پینے کی ضرورت کو کافی تھی۔ سپیرا لالچ میں آگیا اور گھر لوٹنے کے بجائے مرکزی چوک پر اژدھے کے ساتھ ہی سو گیا۔ اسے گھر جانے اور اس رقم کو اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کا خیال ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا زیادہ سے زیادہ مال بنا لے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو کسے معلوم تھا کہ یہ دن سپیرے پر آج کیسا غضب ڈھائے گا۔

    بچّو! جب سپیرا اژدھے کے ساتھ شہر آیا تھا، تو شام کا وقت شروع ہوچکا تھا۔ سورج ٹھنڈا‌ پڑنے کے بعد ڈوبنے کو تھا۔ مگر آج تو اژدھا مسلسل سورج کی تپش اور سخت دھوپ میں پڑا رہا تھا۔ دراصل وہ اژدھا زندہ تھا اور پہاڑوں پر سخت سردی اور برف باری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ہو چکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ بے حس و حرکت ایسا پڑا تھا جیسے مردہ۔ آج جیسے جیسے سورج کی براہِ راست تپش اور دھوپ اس کے جسم پر پڑی، اس کا منجمد جسم زندگی کی طرف لوٹنے لگا۔ دوپہر کو سخت دھوپ تھی اور لالچ کا مارا سپیرا جو اسے مردہ سمجھ رہا تھا، اژدھے کے قریب ہی کھڑا تھا۔ اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف کے عالم میں جس کا جدھر منہ اٹھا اسی طرف کو بھاگا۔ سپیرے نے جب اچانک بھگدڑ مچتے دیکھی اور شور سنا تو پلٹا اور تب مارے دہشت کے سپیرے کا خون ہی گویا اس کی رگوں میں جم گیا۔ اس نے دل میں کہا غضب ہو گیا۔ یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا۔ ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا بڑا سا منہ کھول کر اس سپیرے کو نگل لیا۔ لوگ تو اس افتاد سے ہڑبڑا کر دور جا کھڑے ہوئے تھے اور اکثر تو وہاں سے بھاگ ہی نکلے تھے۔ کون اس بیچارے سپیرے کو بچاتا؟

    سپیرے کو نگلنے کے بعد اژدھا رینگتا ہوا آگے بڑھا، اور ایک بڑے اور قدیم پیڑ کے مضبوط تنے سے خود کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اندر موجود اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔

    بچّو! یہ مولانا روم سے منسوب حکایت ہے جس میں ہمارے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ محض نام و نمود اور مال کی خواہش میں کیا گیا کوئی کام خطرے سے خالی نہیں‌ ہوتا۔ خوب سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے ہی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس کی اچھائی اور نفع کا خوب یقین نہ ہو۔ اس حکایت سے ایک دوسرا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ہمارا نفس بھی سردی میں ٹھٹھرے ہوئے اژدھے کی مانند ہے جسے جب عیش و آرام کی حدّت اور سازگار ماحول ملتا ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے اور تب ہماری ہی جائز و ناجائز خواہشوں کی شکل میں ہمیں نگلنے کو لپکتا ہے۔

  • ملّاح اور دو بھائی (حکایتِ سعدی)

    ملّاح اور دو بھائی (حکایتِ سعدی)

    ایک بار میں (شیخ سعدی) سفر پر روانہ ہوا اور کشتی کے ذریعے دریا پار کر رہا تھا۔ ہماری کشتی کے پیچھے ایک اور نسبتاً چھوٹی کشتی آ رہی تھی جس میں چند مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔

    اتفاق ایسا ہوا کہ چھوٹی کشتی دریا کے بہاؤ میں توازن کھو بیٹھی اور الٹ گئی۔ اس میں جو مسافر سوار تھے، وہ پانی میں‌ ڈوب گئے۔ چند ہی لمحوں بعد میں نے دیکھا کہ وہ لوگ پانی میں‌ غوطے کھا رہے ہیں۔ ہماری کشتی کے سبھی مسافر ان کی حالت پر افسوس کر رہے تھے اور ان کی جان بچانے کے لیے ہمیں کچھ سوجھتا نہ تھا۔ اتنے میں‌ ایک امیر آدمی نے اِس کشتی کے ملاح سے جس میں ہم سوار تھے کہا، اگر تُو ڈوبتے مسافروں کو بچانے کی کوشش تو میں تجھے بھاری انعام دوں گا۔

    یہ بات سن کر ملاح فوراً دریا میں کود گیا اور وہ دو افراد کے قریب گیا جن میں سے ایک کو کسی طرح بچا لایا۔ دوسرے نے دریا بُرد ہونے سے پہلے ملاّح کی طرف بڑی امید سے دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں‌ بڑی حسرت تھی۔ مآل کار وہ دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ میں نے ملّاح سے کہا کہ تُو نے اپنی طرف سے ان دونوں کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ڈوبنے والے کی زندگی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس وجہ سے تیری کوشش کام یاب نہ ہوئی۔

    ملّاح میری یہ بات سن کر مسکرایا اور پھر کہا، ”بے شک یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس مسافر کے ڈوبنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک بار مجھے کوڑے سے پیٹا تھا۔ تم کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ جسے میں‌ بچا لایا ہوں، اسی دریا برد ہوجانے والے شخص کا حقیقی بھائی ہے۔ جس وقت اس نے مجھے پیٹا تھا، وہ طاقت ور تھا اور ناجائز ایسا کیا تھا۔ میں اس سے بدلہ نہ لے سکا تھا، لیکن وہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہتی تھی۔ آج مجھے وہی بات یاد آ گئی اور میں نے اسے بچانے کے لیے ویسی کوشش نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ رہا اس مسافر کا معاملہ جسے میں بچا کر لایا ہوں تو اس نے ایک بار مصیبت کے وقت میری امداد کی تھی۔ میں صحرا میں پیدل سفر کر رہا تھا اور بری طرح تھک چکا تھا۔ یہ ادھر سے گزرا تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا۔ بس اس کی وہ بات مجھے اس وقت یاد آ گئی اور میں نے اسے بچا لیا۔

    ملّاح کی یہ بات سن کر میں نے دل میں کہا، سچ ہے۔ انسان جو عمل بھی کرتا ہے، اسی کے مطابق اسے پھل ملتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ترجمہ : جس نے نیک عمل کیا وہ اپنے نفس کے لیے کیا اور جس نے برائی کی، اپنے نفس کے لیے کی۔

    (کتاب سعدی صاحب کی کہانیاں سے انتخاب، مترجم نامعلوم)

  • تین سو انسٹھ داؤ

    تین سو انسٹھ داؤ

    کسی لائق فائق پہلوان کا ایک شاگرد ایسا تھا جو اپنے فن میں یکتا تھا۔ اس نے اپنے استاد سے ہر قسم کا داؤ پیچ سیکھا۔ استاد نے تین سو ساٹھ داؤ پیچ میں سے تین سو انسٹھ داؤ سکھا دیے لیکن ایک نہ سکھایا۔​

    شاگرد جب کشتی کے فن میں اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کا مقابل کوئی نہ رہا تو دماغ میں فتور آ گیا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں استاد کو ذلیل کرنے کے لیے یہ کہا کہ اس کا استاد اس سے بزرگی اور تربیت میں برتر ہے لیکن فنِ پہلوانی اور شہ زوری میں نہیں۔ اگر بادشاہ سلامت چاہیں تو مقابلہ کا حکم دیں اور میں اسے چٹکی بجاتے ہی ہرا دوں۔​

    بادشاہ نے اس کی آزمائش کا فیصلہ کیا اور استاد اور شاگرد کے درمیان کشتی کا وقت مقرر کر دیا۔

    وقتِ مقررہ پر ایک وسیع و عریض اکھاڑے میں مقابلہ شروع ہوا۔ بادشاہ، اس کے وزیر، امیروں کے علاوہ ہزاروں لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ شاگرد خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اس طرح میدان میں آیا جیسے طاقت کا جو پہاڑ بھی سامنے آئے گا، وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔​

    استاد خوب جانتا تھا کہ اس کا شاگرد نوجوانی کے زعم میں مبتلا ہے اور کافی شہ زور بھی ہے لیکن وہ خوب سوچ سمجھ کر میدان میں اترا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ بادشاہ یہ مقابلہ دیکھ رہا تھا۔ کبھی کوئی غالب آتا تو کبھی کوئی داؤ سے نکل جاتا اور وہ پھر آمنے سامنے ہوتے۔ سنسنی خیز مقابلے میں سب کی دل چسپی بڑھ رہی تھی۔ زور آزمائی کے دوران تماش بینوں کو اندازہ ہوا کہ استاد نے شاگرد کے ہر داؤ کو ناکام بنا دیا۔ آخر کار اس نے وہ پوشیدہ داؤ آزمایا جو اپنے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اچانک استاد نے کوئی ایسا داؤ کھیلا کہ شاگرد زمین پر آرہا۔ وہ چاروں شانے چت ہوا۔ استاد سینے پر چڑھ بیٹھا۔

    لوگوں نے واہ واہ شروع کردی۔ خوب شور مچایا۔ استاد کو بادشاہ نے انعام و اکرام سے نوازا اور شاگرد کو خوب لعن طعن کی۔ اس نے کہا۔” او ناہنجار! تجھے اپنے استاد کو للکار کے کیا ملا۔ سوائے ذلّت کے اور ندامت کے۔ کہاں گیا تیرا دعویٰ؟”

    شاگرد نے جواب دیا۔” استاد مجھ سے طاقت کے زور پر نہیں بلکہ اس داؤ کی وجہ سے جیتا ہے جو اس نے مجھ سے چھپا رکھا تھا اور لاکھ اصرار اور تقاضہ بھی سکھانے میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔”

    استاد نے جواب دیا۔” یہ داؤ میں نے اسی دن کے لیے اٹھا رکھا تھا کیونکہ داناؤں نے کہا ہے کہ اس قدر قوت دوست کو بھی نہ دو کہ بوقتِ دشمنی اسی طاقت کے بل پر تم کو شدید نقصان پہنچائے۔”​

    (یہ حکایت شیخ سعدی سے منسوب ہے)

  • شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    شیر کی دعوت اور لومڑی کا جواب

    کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا جو بہت بوڑھا ہوگیا تھا۔

    وہ بہت کم شکار کے لیے اپنے ٹھکانے سے نکل پاتا تھا۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو وہ چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہو گیا۔ اس حالت میں بھوک سے جب برا حال ہوا تو اس نے اپنے غار کے آگے سے گزرنے والی ایک لومڑی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا۔” فکر نہ کرو، میں پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوبست کردوں گی۔”

    یہ کہہ کر لومڑی چلی گئی اور اپنے وعدے کے مطابق اس نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ لومڑی تو ایک چالاک جانور مشہور ہی ہے۔ وہ جنگل کے کسی بھی جانور سے خوش کہا‌ں تھی۔ اسے سبھی برے لگتے تھے۔ اس لیے اس نے ایسا کیا تھا۔

    یہ خبر سن کر جنگل کے جانور اس بوڑھے اور معذور کی عیادت کو آنے لگے۔ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا تھا، لیکن لومڑی کے کہنے پر روزانہ ایک ایک کرکے عیادت کے لیے آنے والے جانوروں کو کسی طرح شکار کرکے اپنی بھوک مٹانے لگا تھا۔

    ایک دن لومڑی نے خود بھی شیر کا حال احوال پوچھنے کے لیے غار کے دہانے پر کھڑے ہو کر اسے آواز دی۔ اتفاقاً اس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا۔ اس نے لومڑی سے کہا۔” باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ۔”

    لومڑی جو بہت چالاک تھی، اس سے نے جواب دیا۔” نہیں میں اندر نہیں آ سکتی۔ میں یہاں باہر سے آنے والے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں۔”

    اس حکایت سے سبق یہ ملا کہ انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • بزدل غلام

    بزدل غلام

    ایک بادشاہ اپنے چند درباریوں کے ساتھ دریا کنارے سیر کو گیا۔ دریا کے دونوں کناروں پر دور تک درخت اور سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کررہے ہیں۔ فضا میں پرندوں کی پرواز اور ان کی چہکار سے بادشاہ کا دل شاد ہو گیا۔

    کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرنے کے بعد بادشاہ نے کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کی خواہش ظاہر کی تو فوراً ایک بڑی کشتی حاضر کردی گئی۔ بادشاہ اور درباریوں کے ساتھ چند غلام بھی کشتی میں‌ سوار ہوگئے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا۔ دریا کی روانی اور بہتے پانی کے شور میں‌ لہروں پر کشتی کے ڈولنے سے وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اسے ڈر ہوا کہ کشتی ڈوب جائے گی اور وہ تیرنا بھی نہیں‌ جانتا، تب کیا ہو گا۔ جیسے ہی سفر شروع ہوا خوف کے مارے وہ غلام رونے لگا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزرا۔ پہلے تو سب نے اسے سمجھایا، لیکن اس کا رونا دھونا بند نہ ہوا تب ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا۔ اس پر بھی غلام چپ ہو کر نہ دیا۔

    کشتی میں ایک جہاں دیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے اجازت دی تو اس دانا شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ جب وہ غلام تین چار غوطے کھا چکا تو اسی دانا شخص نے دوسرے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال لو۔ چنانچہ دو غلام جو اچھے تیراک بھی تھے، فوراً دریا میں کودے اور سَر کے بال پکڑ کر خوف زدہ غلام کو کشتی تک لے آئے اور اس میں‌ گھسیٹ لیا۔ سب نے دیکھا کہ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا، اب بالکل خاموش اور پُر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا ہے۔

    بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟

    دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش ہو گیا ہے۔

    جس نے دیکھی نہ ہو کوئی تکلیف، قدر آرام کی وہ کیا جانے
    نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ، جَو کی روٹی کو کب غذا مانے

    سبق: یہ حکایت حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے، جس میں انھوں نے انسان کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس راحت اور آرام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں‌ لگا سکتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص جسارت اور قوّتِ برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ آسودہ، پُرمسرت اور کام یاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جس نے کسی بھی قسم کا رنج اور مشکل دیکھی ہو اور کسی بھی طرح کا راحت بھرا وقت گزارا ہو۔

  • پُراسرار درویش

    پُراسرار درویش

    قریبی واقع تکیہ (خانقاہ) کی محراب اور قبرستان کے احاطہ کے درمیان چوک پر کھیلنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ خانقاہ کے باغ میں لگے شہتوت کے درخت بہت بھاتے ہیں۔ باغ کے پیڑوں کے ہرے بھرے پتے ہمارے محلہ کی رونق ہیں۔ ان کے کالے کالے شہتوت ہمارے ننھے دلوں کو خوب لبھاتے ہیں۔

    یہ خانقاہ گویا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو باغ سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا باغ کی جانب کھلنے والا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اس کی کھڑکیاں بھی بند رہتی تھیں۔ اس طرح پوری عمارت اداسی اور تنہائی میں ڈوبی جدائی کی تصویر بن کر رہ گئی تھی۔

    ہمارے ہاتھ اس خانقاہ کی فصیل نما چہار دیواری کی طرف اس طرح لپکتے، جس طرح شیرخوار بچوں کے ہاتھ چاند کی طرف۔ باغ کی دیوار پر چڑھتے تو ایسا لگتا کہ ہم قلعے کے اندر پہنچ گئے ہوں۔

    اس باغ میں کبھی کبھی کوئی درویش بھی نظر آجاتا تھا جس کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تھی، اس کا چغہ ڈھیلا ڈھالا ہوتا اور ٹوپی کشیدہ کاری سے آراستہ۔ جب اس درویش کی نظر ہم بچوں پر پڑتی تو وہ مسکرا کر ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا۔ ہم سب بچّے بھی بیک زبان دعائیہ آواز سے پکارتے، ‘‘درویش! خدا تمہاری عمر دراز کرے۔’’ مگر وہ درویش کوئی جواب دیے بغیر گھاس سے لدی زمین کو گھورتے ہوئے یا چشمے کے قریب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے گزر جاتا، تھوڑی دیر میں وہ خانقاہ کے اندرونی دروازے کے پیچھے گم ہوجاتا ہے۔

    میں اکثر اپنے والد سے یہ پوچھتا ہوں، ‘‘بابا! یہ کون لوگ ہیں؟’’
    ‘‘یہ اللہ والے لوگ ہیں۔’’ جواب ملتا ہے اور پھر وہ تنبیہ کے انداز میں معنی خیز لہجہ سے کہتے، ‘‘جو انہیں تنگ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا، بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان کو پریشان کرتے ہیں۔’’

    میں چپ ہوجاتا ہوں کیونکہ میرا دل تو صرف وہاں لگے شہتوتوں کا دیوانہ تھا۔
    ایک دن میں کھیلتے کھیلتے بہت تھک گیا۔ کھیل کے بعد میں زمین پر لیٹا اور میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میں وہاں تنہا تھا۔ سورج پرانی فصیل کے پیچھے غروب ہوچکا تھا، آسمان پر خوب صورت شفق پھیل چکی تھی اور بہار کی بھیگی بھیگی مہک سے شام کی ہوا کے جھونکے مجھے سرشار کرنے لگے تھے۔ اندھیرا پھیلنے سے پہلے مجھے محلے میں واپس جانے کے لیے قبرستان کے راستہ سے ہو کر گزرنا تھا۔ میں دفعتاً چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا۔ اچانک ایک ہلکا سا احساس مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔ اس پر میں ایک لطیف محویت میں ڈوب جاتا ہوں۔

    میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میرا دل نامعلوم برکتوں سے بھر گیا ہے۔ کسی کی نظر نے مجھے محصور کیا ہوا تھا، میرے دل کو اپنی گرم نگاہ کی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ میں نے اپنا رخ خانقاہ کی طرف کیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک آدمی باغ کے درمیان والے شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ وہ کوئی درویش تو لگتا ہے مگر اُن دوسرے درویشوں کی طرح نہیں تھا جن کو ہم گاہ بہ گاہ دیکھتے ہیں۔

    وہ کافی بوڑھا تھا، خاصے ڈیل ڈول کا دراز قامت، اس کا چہرہ چمک دمک سے پُر تھا۔ گویا نور کا سرچشمہ ہو، اس کے چغے کا رنگ سبز، اس کی لمبی ڈاڑھی، سفید پگڑی، وہ ایک پُرعظمت شخص نظر آتا تھا۔ اسے گھورتے رہنے سے مجھے جیسے نشہ سا ہوگیا۔ ایک خوب صورت خیال مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ اس جگہ کا مالک یہی ہے۔ دوسرے درویشوں کے برعکس اس کے چہرے میں دوستی اور اپنائیت کی جھلک نظر آئی ۔ میں چہار دیواری کے قریب آتا ہوں اور اسے خوشی سے کہتا ہوں….‘‘مجھے شہتوت اچھے لگتے ہیں….’’ لیکن وہ صاحب نہ تو کچھ بولے اور نہ ہی کوئی جنبش کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید انہوں نے سنا ہی نہیں۔ پھر میں نے تھوڑی اونچی آواز سے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا۔ ‘‘مجھے شہتوت بہت پسند ہیں۔’’ مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے مجھے شفیق نظروں سے دیکھا اور نرم اور دھیمی آواز سے کہا۔

    بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد
    ( بلبل نے اپنے جگر کا خون پیا اور پھول حاصل کیا)

    مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے میری طرف کوئی پھل پھینک دیا ہے۔ میں پھل کو ڈھونڈنے اور اٹھانے کے لیے جھکا مگر مجھے وہاں کچھ نہ ملا۔ میں سیدھا ہو کے کھڑا ہوا تو وہاں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ خانقاہ کا اندرونی دروازہ اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آیا۔ اس واقعے کو میں نے والد صاحب سے بیان کیا۔ میری بات سن کر وہ مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگے، میں نے زور دے کر اپنی بات کی سچائی کا یقین دلایا تو وہ بول اٹھے، ‘‘یہ نشانیاں اور اوصاف تو صرف شیخ اکبر ہی کے ہوسکتے ہیں….مگر وہ اپنی خلوت سے کبھی باہر ہی نہیں آتے….’’

    میں نے اپنا مشاہدہ صحیح ہونے پر اصرار کیا تو والد صاحب نے پوچھا:‘‘انہوں نے کیا الفاظ کہے تھے’ میں نے طوطے کی طرح وہ الفاظ رٹ دیے: ‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    والد صاحب نے پوچھا۔ ‘‘کیا تم نے اجنبی زبان کی جس عبارت کو یاد کیا اسے سمجھتے بھی ہو….؟ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟’’

    ‘‘خانقاہ سے آنے والی درویشوں کی دعاؤں کی آوازوں میں یہ عبارت میں نے پہلے بھی کئی بار سنی ہے۔’’ میں جواب دیتا ہوں۔ میرے والد کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں نے مجھ سے کہا: ‘‘کسی کو اس کے بارے میں مت بتانا۔’’

    اس واقعے کے بعد سے میں ہر روز سارے بچوں سے پہلے چوک پہنچ جاتا اور بچوں کی واپسی کے بعد اکیلا رہ جاتا اور باغ کے احاطے میں جاکر شیخ اکبر کا انتظار کرنے لگتا، مگر وہ نظر نہیں آتے۔ میں اونچی آواز میں کہتا:‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد’’

    مجھے کوئی جواب نہ ملتا۔ میں عجیب اذیت میں مبتلا رہتا۔ میں اس واقعہ کو یاد کرتا رہتا اور اس کی حقیقت کو جاننا چاہتا، سوچتا اور اپنے آپ سے پوچھتا کہ کیا میں نے واقعی شیخ اکبر کو دیکھا تھا؟ یا میں نے محض اسے دیکھنے کا دعوٰی کیا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکوں؟

    کیا وہ میرا کوئی ایسا تصور تھا۔ شیخ کے بارے میں جو باتیں ہمارے گھر میں ہوتی تھیں وہ مشاہدہ کیا اس وجہ سے تھا؟ نیند کی غنودگی اور گھر میں جھنجھٹ کی وجہ سے میں نے اپنے خیال میں ایک ایسی چیز کو ذہن میں بسا لیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے….؟ یہ سوالات میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے رہتے۔ میں نے سوچا کہ وہ مشاہدہ محض میرا تصور ہی ہوگا ورنہ شیخ اکبر دوبارہ نمودار کیوں نہیں ہوئے؟ ہر کوئی یہ کیوں کہتا تھا کہ شیخ اکبر اپنی خلوت سے باہر نہیں آتے؟ شاید میں نے یہ افسانہ تخلیق کیا اور اسے پھیلا دیا۔

    مگر شیخ کا وہ خیالی وجود بھی کہیں میرے اندر جا کے جم چکا ہے۔ یہ خیال میری یادوں کو معصومیت سے بھر دیتا ہے، اور میرے دل و دماغ میں اس طرح چھایا رہا جس طرح شہتوت کا شوق۔

    عرصے بعد والد کے ایک دوست شیخ عمر فکری والد صاحب سے ہمارے گھر ملنے آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ وکیل اور مصنف ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہمارے محلے میں پبلک سروس کے نام سے ایک ایجنسی کھول رکھی ہے۔ ایجنسی کا آفس محلہ کی مسجد اور مدرسے کے بیچ واقع ہے۔ یہ ایجنسی محلے کے لوگوں کی مختلف خدمات انجام دیتی ہے، کرائے پر مکان دلانا، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا، تجہیز و تدفین کا انتظام کرنا اور شادی و طلاق اور خرید و فروخت۔ جب ان کو میں نے اپنے والد سے فخر کے ساتھ کہتے سنا کہ ‘‘وہ اپنے طویل تجربوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں تو میرے دل میں دبی خواہش پھر سے ابھر آئی۔ میں نے پوچھا۔
    ‘‘کیا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں….؟’’
    مسکرا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
    ‘‘بتاؤ بیٹے….! تمہیں کیا چاہیے….؟’’
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا
    شیخ عمر نے زور کا قہقہہ لگایا، ان کا ساتھ والد صاحب نے بھی دیا اور پھر شیخ عمر نے کہا: ‘‘میں جو کام انجام دیتا ہوں وہ زندگی سے متعلق اور ذرا سنجیدہ قسم کے ہوتے ہیں۔’’

    ‘‘لیکن آپ نے تو کہا کہ آپ زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کے کام انجام دیتے ہیں۔’’ میں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان میں نہیں آتی۔’’انہوں نے کہا۔ ‘‘خانقاہ زندگی کے میدان سے باہر کیسے ہوسکتی ہے….؟’’ میں نے سوال کیا اور والد صاحب نے وہ شعر سنانے کو کہا جسے میں نے خانقاہ میں سن کر یاد کرلیا تھا۔ میں نے وہ شعر خوشی سے پڑھ کر سنایا۔

    یہ سن کر شیخ عمر نے والد صاحب سے مخاطب ہوکر کہا ‘‘لوگ اس شعر کو بلا سمجھے پڑھا کرتے ہیں۔’’ انہوں نے مجھ سے کہا ‘‘کیا میں اس کے کسی لفظ کو سمجھتا ہوں۔’’ انہوں نے کہا ‘‘یہ لوگ اجنبی ہیں اور ان کی زبان اجنبی ہے لیکن محلے والے ان پر فریفتہ ہیں۔’’
    میں نے کہا ‘‘مگر آپ تو ہر کام انجام دینے پر قادر ہیں۔’’
    یہ بات سن کر والد صاحب نے ‘‘استغفر اللہ’’ پڑھا اور شیخ عمر نے مجھ سے پوچھا
    ‘‘میں خانقاہ کے شیخ کو کیوں دیکھنا چاہتا ہوں۔’’
    میں نے جواب دیا، ‘‘صرف اس لیے کہ جو تجربہ بچپن میں مجھے ہوا تھا اس کو پھر پرکھوں اور بس۔’’
    والد صاحب نے ان کو شیخ اکبر کو میرے دیکھنے کا واقعہ سنایا تو شیخ فکری ہنسے اور بولے‘‘میں نے بھی شیخ اکبر کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔’’
    ‘‘سچ مچ۔ ’’میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے کہا، ‘‘ایک دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ سارا محلہ شیخ اکبر کا نام لیتا رہتا ہے، کسی نے بھی ان کو نہیں دیکھا ہے اس لیے شیخ اکبر کو دیکھنا چاہیے۔ میں خانقاہ گیا اور کسی ذمہ دار آدمی سے ملنا چاہا۔ خانقاہ کے درویشوں نے مجھے پریشانی، حیرانی اور ناراضی سے دیکھا اور کسی قسم کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ عمر فکری صاحب کو افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ ان کو پریشان کیا۔ درویشوں کے رویے سے وہ جان گئے کہ خانقاہ کے اندر جائز طریقہ سے جانا ممکن نہیں اور ناجائز طریقہ قانون شکنی ہے اور اس لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔
    ‘‘اس لیے آپ اپنی خواہش کی تکمیل سے باز آگئے؟’’ میں نے سوال کیا۔
    انہوں نے جواب دیا، ‘‘یہ بات نہیں۔ میں نے محلے کے معمر اور جانے مانے لوگوں سے پوچھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ شیخ اکبر کو دیکھ چکے ہیں، لیکن ہر ایک نے ان کا حلیہ مختلف بتایا جو ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہوا کہ کسی نے بھی شیخ اکبر کو نہیں دیکھا ہے۔’’
    ‘‘لیکن میں نے شیخ اکبر کو دیکھا ہے۔’’ میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
    شیخ عمر نے کہا ‘‘تم لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے لیکن اپنے اپنے خیال کے مطابق دیکھتے ہو۔’’
    میں نے کہا ‘‘شیخ اکبر کو دیکھنا محال نہیں۔ کیا وہ گاہ بہ گاہ خانقاہ کے باغ میں گھوم نہیں سکتے۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘لیکن تم کو کیا معلوم کہ جس کو تم نے دیکھا ہے وہ شیخ اکبر ہی تھے، کوئی دوسرا درویش بھی تو ہوسکتا ہے۔’’
    میں نے کہا ‘‘ٹھیک ہے۔ اس طرح آپ نے سوچ لیا کہ شیخ اکبر کو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔’’
    انہوں نے کہا ‘‘نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو ان کو دیکھنے کا بے حد مشتاق تھا۔
    ‘‘کیا شیخ اکبر کو دیکھنے کے لیے دوسرے وسیلے نہیں ہوسکتے۔’’
    شیخ فکری نے کہا، ‘‘ہاں، عقل نے مجھے جان لیوا خواہش سے آزاد کیا۔ عقل نے باور کرایا کہ خانقاہ کو ہم دیکھتے ہیں۔ درویشوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن شیخ اکبر کو ہم کیوں نہیں دیکھتے؟’’
    یہ بات سن کر میرے والد صاحب نے کہا ‘‘اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ شیخ اکبر کا وجود ہی نہیں؟’’
    جواب ملا ‘‘نہیں، بات یہ نہیں۔’’
    ‘‘بات تو صرف یہی ہے۔’’ میں نے کہا لیکن بلاشک کوئی وسیلہ تو ضرور ہوگا جس سے شیخ اکبر کے وجود اور ان کی روایت ثابت ہو۔’’
    جواب ملا ‘‘دراصل میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی وسیلہ خلافِ قانون ہے اور میں قانون شکنی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ بولے شیخ اکبر کو دیکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔’’
    ‘‘آخر وہ لوگ خانقاہ کے دروازے بند کیوں رکھتے ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
    شیخ فکری نے جواب دیا ‘‘دراصل خانقاہ آبادی سے دور بنائی گئی تھی کیونکہ صوفیائے کرام لوگوں سے الگ تھلگ پرسکون ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اس لیے یہ خانقاہ آبادیوں میں گھر گئی۔ اب وہ درویش تنہائی کے لیے خانقاہ کے دروازے بند رکھنے لگے۔’’
    یہ بتا کر شیخ فکری نے مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ‘‘میں نے تم کو کئی باتیں بتا دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ سے ملنا عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان سے ملنے کی اجازت نہیں گویا ان سے ملنا ہے تو بغیر اجازت ہی خانقاہ میں داخل ہونا پڑے گا۔

    ‘‘شیخ اکبر کی یاد بھلائی نہیں جاسکتی۔ آج تک مجھ میں بغیر اجازت خانقاہ میں چلے جانے کی ہمت نہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بغیر شیخ اکبر کے خانقاہ کے وجود کو بھی تصور نہیں کرسکتا۔ اب حال یہ ہے کہ میں خانقاہ کو صرف مقبرے کی زیارت کے دنوں ہی میں دیکھتا ہوں۔ جب میں خانقاہ کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں اور شیخ یا جس کو میں نے کبھی شیخ سمجھا تھا کی تصویر کو یاد کرتا ہوں اور تنگ راستہ سے قبرستان کی طرف گزر جاتا ہوں۔’’

    بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’

    (نوبل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی کہانیوں کے مجموعہ ‘‘حکایاتِ حارتنا’’ (محلّہ کی کہانیاں) سے ایک منتخب کہانی کا اردو ترجمہ)

  • حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    بیان کیا جاتا ہے، ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں تک پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بُری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذّت محسوس کرنے لگا۔

    یہ انقلاب یقیناً بے حد خوش گوار تھا۔ لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو بھلا کون بدل سکتا ہے۔

    اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں کہنا شروع کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا محض دکھاوا ہے۔ یہ باتیں اس شخص تک پہنچیں تو اسے بہت صدمہ پہنچا۔ وہ واقعی اپنی بری عادات ترک کرچکا تھا اور ایک اچھا اور عبادت گزار شخص بن گیا تھا۔

    اس کا دل ان باتوں سے تھوڑا ہوا تو وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں، تو ویسا نہیں۔ صدمہ کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلاً برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتاتے۔

    سبق: اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ دنیا کی رائے کو ہرگز قابلِ اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے اور اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو بُرا اور برُوں کو اچھا کہنے کا رواج ہے۔ دوسری عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کرکے اچھا مشہور ہونے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا جان کر اس سے دور رہنا چاہیں‌۔ اس سے عافیت یہ ہے کہ وہ لوگوں‌ کے ہجوم اور بلاوجہ جھگڑوں اور وقت کے ضیاع سے بچا رہتا ہے اور نیکی اور عبادت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔

  • حکایت: بطخ کا عذر

    حکایت: بطخ کا عذر

    ایک بطخ بڑی پاک وصاف ہو کر اور نہا دھو کر پانی سے باہر آئی اور سفید کپڑے پہن کر مجلس میں چلی آئی۔

    اس نے کہا کیا کوئی ایسی شخصیت بتا سکتے ہو جو میری طرح پاکیزہ طبیعت والی اور پاک و صاف دھج والی ہو؟ میں ہر لمحہ ٹھیک ٹھاک اچھی طرح غسل کرتی ہوں اور با رہا پانی پر مصلّیٰ بچھاتی ہوں، میری طرح اور کون پانی پر کھڑا ہو سکتا ہے؟ میری کرامات میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ میں تمام پرندوں میں بڑی زاہدہ ہوں، میرا فکر و تخیل بھی پاک ہے، میرے کپڑے بھی ہمیشہ پاک و صاف ہوتے ہیں اور میری جائے نماز بھی پاک ہوتی ہے، مجھے پانی کے بغیر کہیں آرام نہیں ملتا۔ کیونکہ میری جائے پیدائش ہی پانی میں ہے۔ اگرچہ میرے دل میں غم والم کا ایک جہان پوشیدہ ہے مگر میں نے اس غم کو دھو ڈالا ہے کیونکہ پانی ہمیشہ میرا ساتھی ہوتا ہے، اس لیے میں خشکی میں گزارہ نہیں کر سکتی اور چونکہ میرا تمام کاروبار پانی ہی سے وابستہ ہے، اس لیے میں پانی سے کنارہ نہیں کر سکتی۔ جو چیز بھی دنیا میں ہے وہ سب پانی ہی سے زندہ ہے اس لیے میں پانی سے قطع تعلق نہیں کر سکتی۔ اندریں حالات میں وادیٔ معرفت کیسے طے کر سکتی ہوں؟ اور سیمرغ کے ساتھ کس طرح پرواز کر سکتی ہوں؟ جو ہمیشہ پانی کے ایک چشمے یا حوض میں رہنے کا محتاج ہو، وہ سیمرغ تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟ اور اس سے کیسے اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے؟ اور جس کی جان آگ کی ایک چنگاری سے جل جاتی ہو وہ آگ کے سمندر میں کیسے گزر سکتا ہے؟

    اس مجلس میں ہد ہد بھی موجود تھا، اس نے بطخ کو جواب ​دیا۔

    اے پانی میں خوش رہنے والی! یہ پانی تو تیری جان کے ارد گرد آگ کے مانند بنا ہوا ہے۔ خوش گوار پانی کے اندر تُو خوابِ غفلت کا شکار ہو چکی ہے۔ پانی کے قطرے کے بغیر ساری آب و تاب ختم ہو جاتی ہے۔ پانی تو میلے اور ناشستہ چہرے کے لیے ہوتا ہے، اگر تیرا چہرہ گندا ہو تو پھر پانی کی جستجو کر، آخر کب تک یہ صاف پانی تیری ضرورت رہے گا اور کب تک تیرا میلا چہرہ دیکھنے کے قابل ہو گا؟

    (منطق الطّیر سے ماخوذ و ترجمہ)

  • قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    حضرت شیخ سعدی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کسی قاضی کی عدالت میں ایک علمی نکتہ پر گفتگو ہورہی تھی۔ اسی دوران ایک مفلوک الحال شخص عدالت میں داخل ہوا اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا۔

    حاضرینِ مجلس نے اس کی ظاہری وضع قطع اور پھٹے حال کو دیکھ کر خیال کیا کہ وہ کوئی معمولی انسان ہے۔ انھوں نے اسے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔ وہ درویش اس رویّے سے دلبرداشتہ ہوا، مگر خاموش رہا اور جس علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی، وہ جاری رہی۔ درویش نے دیکھا کہ جب اہلِ مجلس اس مسئلے کا مناسب اور منطقی حل بتانے میں ناکام ہوگئے تو ان میں اشتعال پیدا ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کو لاجواب کرنے لگے۔ وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا یہ سب دیکھتا اور ان کے دلائل اور گفتگو سنتا رہا اور پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔ قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔ اس نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کا حل بتایا تو اہلِ مجلس حیران رہ گئے۔ وہ اس کی دلیل اور منطق سے قائل ہو چکے تھے۔

    اچانک حاضرین کو درویش کی علمی قابلیت کا اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال شخص بہت بڑا عالم ہے اور ہم نے اس کو سمجھنے میں‌ غلطی کی ہے۔ اس موقع پر قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کر اس درویش کو دی اور کہنے لگا کہ صد افسوس! ہم آپ کے علمی مقام اور مرتبے سے آگاہ نہ ہوسکے۔ آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔ درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا کہ میں غرور و تکبر کی اس نشانی کو ہرگز اپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یاد رکھو کہ انسان کا رتبہ اس کے علم سے معلوم ہوتا ہے اور صرف دستار سَر پر رکھنے سے کوئی عالم اور منصف نہیں بن جاتا۔

    حضرت شیخ سعدی ؒ نے اس حکایت میں علم کی فضیلت بیان کی ہے اور یہ واقعہ انہی کا ہے۔ اس مفلوک الحال کے روپ میں‌ دراصل آپ ہی اس عدالت میں‌ موجود تھے۔ ان کی یہ حکایت انہی کی مشہور تصنیف ”بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل ہے۔