Tag: اردو حکایات

  • مثنوی مولانا رومؒ: اصلاحِ نفس کی ترغیب کا پُراثر ذریعہ

    مثنوی مولانا رومؒ: اصلاحِ نفس کی ترغیب کا پُراثر ذریعہ

    اسلامی ادب اور تاریخ میں ایسی کتابیں شاذ و نادر ہی پڑھنے کو ملیں گی، جن کی اثر پذیری اور وقعت و اہمیت کئی صدیوں سے قائم ہے۔ مولانا جلال الدّین رومی کی مثنوی ایسی ہی ایک کتاب ہے جو دل کے اندر سوز و گداز اور تڑپ پیدا کردیتی ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علما اور صوفیا بھی دنیا و آخرت کے نفع و نقصان کو سمجھانے اور ظاہر و باطن کو سنوارنے کے لیے اس سے مدد لیتے رہے ہیں۔

    مولانا جلال الدّین رومی 1207ء (604 ھجری) کو قدیم شہر بلخ (افغانستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ علاقہ اس زمانے میں خراسان کہلاتا تھا۔ مؤرخین کے مطابق والد کی طرف سے آپؒ کا سلسلۂ نسب، حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ مولانا رومی کا خاندان اس خطّے میں خراسان کی فتح کے موقع پر آباد ہوا تھا۔ مولانا جلال الدّین کو اسلامی دنیا میں مولانا رومی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے والد کا اسمِ گرامی شیخ بہاءُ الدّین ولد تھا جو اپنے زمانے کے ایک بلند پایہ عالم اور صوفی بزرگ تھے جن کے دینی اور روحانی مرتبے کے سبب اُنھیں’’ سلطانُ العلماء‘‘ کہا جاتا تھا۔

    اسی عظیم المرتبت والد کی تربیت تھی کہ مولانا رومی بھی علم و فضل میں ممتاز ہوئے۔ مولانا رومیؒ نے ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی تھی اور بعد میں سیّد برہان الدّین ترمذیؒ کے آگے زانوئے تلمّذ طے کی، جو ممتاز عالمِ دین تھے۔ کہتے ہیں مولانا رومی کی عمر 24 برس تھی، جب ان کے والد وفات پاگئے اور پھر مولانا حصولِ‌ تعلیم کے لیے اس زمانے میں دمشق کے علمی مرکز چلے گئے۔ وہاں محی الدّین ابنِ عربیؒ، شیخ سعد الدّین حمویؒ اور شیخ صدر الدّین قونویؒ وغیرہ کی رفاقت و صحبت نصیب ہوئی۔ انھوں نے حلب اور دمشق کے علماء سے تفسیر، حدیث اور فقہ کا درس لیا اور علم و فضل میں ممتاز ہوئے۔

    مولانا جلال الدّین رومی اپنے زمانے کے بڑے عالمِ دین، فقیہ و مدرّس اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ انھوں نے کئی تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کے لیے درس کا اہتمام کیا اور تعلیم دی۔ کہتے ہیں اس دور کے سلاطین اور امراء بھی ان کے پاس حاضری دینے کو سعادت سمجھتے تھے اور مولانا رومی عوام کے محبوب عالم اور مدرس تھے۔

    مولانا رومی کا درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک روز زندگی نے پلٹا کھایا اور وہ مولانا جلال الدّین، مولائے رومؒ بن گئے۔ روایت ہے کہ ایک روز ایک مجذوب سے اُن کی ملاقات ہوئی، جس نے ان کے ظاہری علم اور مرتبے پر اپنی روحانی طاقت اور چشمِ باطن سے وہ اثر کیا کہ ہمیشہ کے لیے ان کے اسیر ہوگئے۔ وہ شمس تبریزؒ تھے جن سے ملنے کے بعد مولانا روم کی زندگی کا وہ باب شروع ہوا جس نے ان کو دائمی شہرت بخشی۔ عشق و مستی کی شمس تبریز کی صحبت اور ان کے زیرِ سایہ تربیت کے نئے سلسلے نے مولانا کو معرفت کی جو منازل طے کروائیں، اس کے بعد وہ سراپا سوز و ساز بن گئے۔ اس حوالے کئی واقعات اور روایات پیش کی جاتی ہیں جن میں مرشد کی نگاہِ عرفان اور عشق و مستی کے ساتھ فیض پانے کا ذکر ہے اور یہ ایک تفصیلی باب ہے۔

    یہاں ہم اس مثنوی کی بات کریں گے جس نے مولانا رومیؒ کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہزاروں اشعار پر مشتمل یہ مثنویاں مولانا روم نے اپنے خلیفہ، حسّام الدّین کی فرمائش پر لکھی تھیں۔ اس کتاب میں مولانا رومؒ نے مختلف حکایات کے ذریعے علم و حکمت کے موتی بکھیرے ہیں۔ بقول مولانا ابو الحسن علی ندوی،’’مثنوی نے عالمِ اسلام کے افکار و ادبیات پر گہرا اور دیرپا اثر ڈالا۔ عالمِ اسلام کے اِتنے وسیع حلقے کو طویل مدّت تک متاثر رکھا ہے۔ چھے صدیوں سے مسلسل دنیائے اسلام کے عقلی، علمی، ادبی حلقے اس کے نغموں سے گونج رہے ہیں اور وہ دماغ کو نئی روشنی اور دِلوں کو نئی حرارت بخش رہی ہے۔‘‘ اردو سمیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں مثنوی کے تراجم اور شروحات لکھی جا چکی ہیں اور یہ ہر خاص‌ و عام میں مقبول ہیں۔

    حکایاتِ رومیؒ آج بھی ہم سب شوق سے پڑھتے اور اس سے غور و فکر اور نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ مولانا رومیؒ نے ہر قسم کے سود و زیاں، نفع و نقصان، معاشرت سے لے کر زندگی اور موت تک لوگوں کو سکھانے اور تلقین کرنے کے لیے نہایت خوب صورت انداز میں‌ حکایات کا سہارا لیا۔ اس مثنوی کا پُراثر پیرایہ بھی قابلِ ذکر ہے اور اس میں‌ بیان کردہ واقعات آج بھی اصلاحِ نفس کی ترغیب دینے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔

  • برتر کون….؟ (دل چسپ حکایت)

    برتر کون….؟ (دل چسپ حکایت)

    ایک دفعہ چیونٹی اور ایک مکھّی کہیں آمنے سامنے ہوگئیں۔ باتوں باتوں میں‌ ایسا ہوا کہ ان میں اس بات پر تکرار شروع ہوگئی کہ کون برتر ہے۔

    مکھی کہنے لگی کہ دنیا میں کون سی مجلس عیش و نشاط کی ہوتی ہے کہ جس میں ہم شریک نہیں ہوتے۔ سارے بُت خانے اور عالی شان عمارتیں میرے لیے کھلی رہتی ہیں۔ بتوں کے آگے کا خاصہ ہم چکھتے ہیں اور شاہ زادوں کی دعوت کھاتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ بغیر خرچ اور دردِ سر کے یہ سب چیزیں ہم کو میسّر ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی بادشاہوں کے تاج پر پاؤں رکھ دیتے ہیں اور کبھی کبھی نازنینوں کے لب سے لب ملاتے ہیں۔ بھلا تیری کیا حقیقت ہے کہ میرے آگے اپنی بزرگی جتاتی ہے؟

    چیونٹی نے یہ سنا تو غصّے سے جواب دیا، چپ رہ! اور فخرِ بے ہودہ نہ کر۔ تجھے کیا معلوم نہیں کہ مہمان اور بن بلائے میں کتنا فرق ہے؟ اور تیری صحبت کو لوگ ایسا پسند کرتے ہیں کہ جہاں تجھے پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں۔ تجھ سے کسی کو کچھ حاصل نہیں، یہاں تک کہ جس چیز کو تُو چھوتی ہے اس میں پِلو پڑ جاتے ہیں۔ اور خوب صورتوں کے منہ چومنے پر ناز مت کر۔ گھورے پَر کے غلیظ کے سوا تیرے منہ سے کیا نکلتا ہے جس کو معشوق اور لطیف طبع لوگ پسند کریں۔ اور میرا حال یہ ہے کہ بندی جو خود پیدا کرتی ہے، اسی کو کھاتی ہے اور لوٹ اور تاراج سے علاقہ نہیں رکھتی اور گرمیوں کے دن میں خوب ذخیرہ کرتی ہے تاکہ جاڑوں میں اوقات بسر ہو۔ اور تیری زندگی اس کے برعکس کٹتی ہے کہ چھے مہینے اٹھائی گیروں کی طرح ادھر اُدھر سے لوٹ پاٹ کر کھاتی ہے اور باقی چھے مہینے فاقہ کرتی ہے۔

    حاصلِ کلام یہ کہ انسان کو بات منہ سے نکالتے ہوئے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنی حیثیت و مرتبہ دیکھ کر بات کرنا چاہیے۔ ہم جب تک اپنے گریبان میں نہیں‌ جھانکتے، ہمیں‌ اپنا آپ ہی اچھا نظر آتا ہے، لیکن جب دوسروں سے اپنے بارے میں سنتے ہیں تو جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ ہمارے لیے باعثِ شرم اور آزار بھی ہوسکتی ہے۔ سچ ہے، ہر ایک کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔

    (ماخذ: جوہرِ اخلاق، مصنّف ایسوپ)

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)

  • فقیہ کی دستار اور چور

    فقیہ کی دستار اور چور

    ایک دفعہ کسی فقیہ نے کپڑے کی بہت سے چندیاں دھوئیں اور پاک صاف کرکے انہیں اپنے سَر پر عمامے کے نیچے اس طرح‌ باندھ لیا کہ اس کا عمامہ بلند اور وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے جس کے سَر پر ایسی بھاری دستار سجی ہوئی ہے۔

    بلاشبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہوگیا، لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے پست، کم حیثیت اور بے قیمت ہی تھی۔ دراصل فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی اور پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔

    وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سَر پر باندھ کر اگلے روز صبح سویرے ایک مدرسے کی طرف چلا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ وہاں اس کی یہ اونچی اور سجیلی دستار اس کی عزت و عظمت کا ایک سبب بنے گی۔ وہ سمجھ رہا تھاکہ عزّت اور تکریم ہی نہیں کچھ ہدیہ بھی اپنی جانب متوجہ ہونے والوں سے حاصل کر سکے گا۔

    راستے میں‌ ایک چور نے تاڑ لیا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آرہا ہے۔ جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا چور نے دستار جھپٹ لی اور بھاگا تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔

    فقیہ نے اُسے آواز دی کہ ارے بھائی! یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو بڑے شوق سے لے جا۔ میں نے تجھے عطا کی۔

    فقیہ کی یہ آواز سن کر اُچکے نے دوڑتے دوڑتے اس وزنی دستار کو کھولا اور ایک جگہ سے اس کی سلائی ادھیڑ دی۔ اس میں سے رنگ برنگی کپڑوں کی دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں بوسیدہ کپڑا رہ گیا جسے جھّلا کر زمین پر پھینکا اور رک کر کہنے لگا۔

    اے غریب اور فریبی انسان! تُو نے اس دغا بازی سے خواہ مخواہ میری محنت برباد کی۔ یہ کیسا فریب دیا تُو نے کہ ظاہر میں ایسی عمدہ دستار بنائی جس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں‌ تیرے سر سے کھینچ لوں اور بازار میں بیچ کر مال بناؤں؟ تجھے ذرا حیا نہ آئی ایسا مکر کرتے ہوئے۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے ایک گناہ کیا اور وہ بھی بے لذّت۔

    فقیہ نے اس کی بات سن لی تھی۔ اس نے چور کو جواب دیا، تُو سچ کہتا ہے کہ بے شک یہ دھوکا تھا، لیکن یہ سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کردیا کہ لے جانے سے پہلے اسے کھول کر دیکھ لے۔ اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا۔ اس لٹیرے نے فقیہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    سبق: اے عزیز! فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے اس کا بھی اس نے سب پر اظہار کر دیا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  • انوکھا بیج

    انوکھا بیج

    ایک تاجر اپنی مستقل مزاجی، لگن اور محنت سے کام یابی کی منازل طے کرتا چلا گیا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دل چسپ ترکیب نکالی۔

    اس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سب کو ایک ایک بیج دوں گا۔ اسے بونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا۔”

    کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا۔ وہ خاموش رہا اور اپنی خفت کو مٹانے کے لیے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا۔

    ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹروں کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا۔ سب خوب صورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا، خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دور والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا۔ اس اُمید پر کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے۔

    سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا، “ایک آدمی کم لگ رہا ہے۔” اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا، کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا، “جناب، مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اگا۔” اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کیا۔

    چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا۔ اس پر کئی حاضرینِ مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانت دار بھی ہے۔

    میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیے تھے جو اُگ نہیں سکتے۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیے۔”

    (ماخذ: انوکھا بیج از افتخار اجمل بھوپال)

  • لومڑی کا صبر

    لومڑی کا صبر

    ایک سوداگر جو ایک قلعے میں زندگی بسر کرتا تھا، اس کا پیشہ پوستین دوزی تھا۔ وہ گاؤں کے قصّابوں سے بھیڑ، گائے کی کھالیں خریدتا۔ انھیں رنگتا اور پھر پوستینیں بناتا اور بیچتا۔

    ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بھوکی لومڑی قلعے کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑ کی کھال کی بُو اس کی ناک میں دَر آئی اور وہ خوراک کے لالچ میں قلعے کے نزدیک کی ایک بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوگئی، بُو سونگھتی سونگھتی پوستین دوز کی دکان تک جا پہنچی اور کھالوں کے سراغ میں مصروف ہوگئی۔ وہ کھالوں کی بُو سے سرشار اور خوش ہو گئی تھی۔

    اس نے چند کھالوں پر اپنے دانت صاف کیے اور ان سے کُچھ تکّے نوچ کھائے، بعض کھالوں کو جگہ جگہ سے پھاڑ ڈالا اور جب دیکھا کہ یہ تو صرف کھالیں ہیں اور ان میں گوشت نام کو نہیں تو جس راستے سے آئی تھی، اسی سے لوٹ گئی اور صحرا کی طرف بھاگ نکلی۔

    اگلی کئی راتوں تک اس کا یہی وتیرہ رہا۔ کھالوں کی بُو اور گوشت کے لالچ میں وہ بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی، سوداگر کی دکان کے اندر جاتی اور اُسی طرح کھالوں کو چیرتی پھاڑتی اور پھر لوٹ آتی۔

    بیچارہ سوداگر لومڑی کے پاؤں اور پنجوں کے نشان دیکھ کر حقیقتِ حال کو جان گیا تھا۔ لومڑی کے ہاتھوں اس کا ناک میں دَم آگیا تھا۔ اُس نے اپنے آپ سے کہا: بہتر ہے کہ میں کچھ راتیں بے خوابی میں گزاروں اور چالاک لومڑی کو اس کے کیے کا مزہ چکھاؤں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    اسے معلوم تھا کہ قلعے کی دیواریں بہت بلند ہیں اور اس کے دروازے بھی رات کو بند ہو جاتے ہیں۔ اسے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ کتّوں کے ڈر سے لومڑی دن کے وقت قلعے میں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر وہ یہ راز پا گیا کہ لومڑی بدر رو کے رستے قلعے میں داخل ہوتی ہے۔

    ایک رات سوداگر نے اپنے اوپر نیند کو حرام کیا۔ وہ بدر رو کے سوراخ کے قریب گھات میں بیٹھ گیا۔ بیٹھا رہا، بیٹھا رہا حتّٰی کہ صبح ہونے سے کچھ پہلے لومڑی حسبِ معمول بدر رو کے رستے اندر آئی اور اس نے کھالوں کے ذخیرے کی جانب رخ کیا۔ سوداگر نے بھی اپنی جگہ سے حرکت کی اور اس تختے سے، جسے وہ ساتھ لیتا آیا تھا، بدر رو کا رستہ بند کردیا اور اس کے ساتھ مٹی کا پشتہ لگا کر اسے خوب مضبوط کر دیا۔ پھر اس نے لاٹھی ہاتھ میں لی اور لومڑی کے کھوج میں چل پڑا۔

    جب وہ اپنی دکان کے قریب پہنچا، لومڑی اپنے کام سے فارغ ہوکر واپس جارہی تھی۔
    جونہی لومڑی کی نگاہ اس شخص پر پڑی جو ہاتھ میں لاٹھی تھامے اس کے درپے تھا، اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ سوداگر بھی اس کے پیچھے تیزی سے دوڑا۔

    جب لومڑی بدر رو کے سوراخ کے نزدیک پہنچی تو اُسے بند پایا۔ اس نے چاہا کہ دروازے کے رستے بھاگ لے، مگر قلعے کا دروازہ بھی بند تھا۔ اسے خیال آیا کہ گلی کوچوں میں داخل ہوکر بھاگ نکلے، مگر کتّوں کی عَو عَو نے اسے خوف میں مبتلا کر دیا۔ ناچار اس نے سوچا کہ سوداگر کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس پر حملہ کرے۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتی، سوداگر نے لاٹھی سے اس کے سَر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ درد سے بے حال ہوکر زمین پر گر پڑی۔

    لومڑی نے بھانپ لیا تھا کہ اس کے فرار کے سارے رستے بند ہوچکے ہیں۔ اب اگر وہ زیادہ دوڑ دھوپ کرتی ہے تو یا تو وہ لاٹھیاں کھا کر ماری جائے گی یا اس شور غوغے سے کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور معاملہ اور بگڑ جائے گا، لہٰذا اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ یونہی بے حس و حرکت پڑی رہے، گویا مرچکی ہے۔

    جب سوداگر کو اندازہ ہوا کہ اس کی پہلی ضرب ہی کاری ثابت ہوئی اور اس نے لومڑی کو ادھ موا کردیا تو اس کے دل میں رحم آیا اور وہ خود سے کہنے لگا: بس کافی ہے۔ اگر وہ مرنے کے لائق تھی تو قریبِ مرگ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بھی وہ بہرحال تائب ہو جائے گی اور دوبارہ اس قلعے کے نزدیک نہیں پھٹکے گی۔

    جاتے جاتے اس نے اُسے پاؤں سے ایک ٹھوکر بھی لگائی، مگر اسے بے حس و حرکت پاکر اپنے گھر لوٹ آیا۔ اسی اثناء میں اندھیرا چھٹنے لگا تھا اور لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر آنا جانا شروع ہوگئے تھے۔

    بدفطرت لومڑی جس وقت زمین پر پڑی خود کو جھوٹ موٹ مردہ ظاہر کررہی تھی، اسے خیال آیا کہ قلعے کا دروازہ اور بدر رو کا رستہ تو بند ہے، اب اگر میں حرکت کرتی ہوں اور کوئی مجھے دیکھ لے تو داد فریاد شروع ہو جائے گی، کتّوں کو خبر ہو جائے گی اور وہ میری تِکّہ بوٹی کر ڈالیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ میں اسی طرح مچلی بنی پڑی رہوں تاکہ دھوپ نکل آئے، قلعے کا دروازہ کھُل جائے اور میں فوراً اٹھوں اور فرار کر جاؤں۔

    آہستہ آہستہ فضا زیادہ روشن ہوتی گئی۔ لوگ آنے جانے لگے اور ان کی نگاہیں لومڑی پر پڑنے لگیں۔ ان میں سے ایک قریب آیا اور اسے مردہ سمجھ، ٹھوکر مار کر آگے بڑھ گیا۔ ایک اور شخص نے اسے دیکھا، بُرا بھلا کہا اور چل دیا۔ اُدھر سے کچھ بچّوں کا بھی گزر ہوا۔ انھوں نے لومڑی کی دُم پکڑ کر ادھر اُدھر کھینچنا شروع کر دی، بڑی عمر کے لوگوں نے ان کی سرزنش کی۔

    لومڑی یونہی چپکی پڑی رہی اور اس نے کسی قسم کا ردِّعمل ظاہر نہ کیا اور یہی سوچتی رہی کہ جب تک کتّے قلعے کے اندر ہیں اور جب تک دروازہ بند ہے، راہِ فرار کی کوئی صورت نہیں۔ سو صبر کرنا چاہیے کیوں کہ صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    رفتہ رفتہ کچھ بیکار اور آوارہ منش لوگ لومڑی کے گرد آن اکٹھے ہوئے اور لگے اس کے بارے میں باتیں کرنے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ کہاں سے آٹپکی اور یہاں موت سے کیسے دوچار ہوئی۔

    ایک بولا: اسے یقیناً کتّوں نے مارا ہے۔ دوسرے نے جواب دیا: نہیں اگر کتّوں کی نگاہ اس پر پڑی ہوتی تو وہ اتنی آسانی سے اُسے چھوڑ نہ دیتے۔ اتنے میں ایک بوڑھا، جو دراصل قلعے کا دروازہ کھولنے پر مامور تھا، موقع پر آن پہنچا اور گویا ہوا: میں نے ایک فال گیر سے سنا ہے کہ اگر لومڑی کے بال آگ میں جلائے جائیں تو جادو ٹونے کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور لومڑی کے جسم سے تھوڑی سی پشم کاٹ کر کاغذ میں رکھ، جیب میں اُڑس لی اور قلعے کا دروازہ کھولنے چل دیا۔

    ایک اور شخص جو وہاں کھڑا تھا بولا: یہ فضول باتیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جادو ٹونا جھوٹ ہے اور اس کا چنداں اثر نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ کہ لومڑی کے بالوں کا سحر اور جادو سے کیا تعلق؟

    لومڑی کہ اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کی بھانت بھانت کی بولیاں سن رہی تھی، اپنے دل میں کہنے لگی: یہ جو کہتے ہیں کہتے رہیں، پروا نہ کر۔ بہتر ہے صبر کر اور جب بھیڑ چَھٹ جائے، فرار ہو جا۔ وہ بوڑھا جو میرے جسم کی تھوڑی سی پشم کاٹ لے گیا، توجہ کے قابل نہیں۔ اِس وقت صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اتنے میں ایک بڑھیا بھی موقعے پر آپہنچی۔ اس نے لوگوں کے ہجوم کو چیر کر اپنا راستہ بنایا اور کہنے لگی: میں نے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ لومڑی کا کان چشمِ بد سے محفوظ رہنے کے لیے اچھا ہے۔ اس نے بھی آگے بڑھ کر لومڑی کے کان کا ذرا سا حصہ کاٹا اور ساتھ لیے چل پڑی۔ لومڑی کو کان کے کٹنے سے بڑی تکلیف پہنچی اور اس کا دل چاہا کہ روئے پیٹے، مگر لوگوں کے ہجوم سے ڈر کر اس نے چُپ سادھے رکھی اور خود سے کہنے لگی: کان کے ذرا سے حصّے کے کٹ جانے کا کیا مضائقہ۔ جانے دے، بڑھیا بھی اس سے خوش ہوئی ہوگی۔ میرے لیے صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اس موقع پر ایک اور شخص وہاں آدھمکا۔ لومڑی کو دیکھا اور کہا: واہ واہ! میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس لومڑی کا دانت ہو تو کتّا اس پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ یہ کہا اور ایک پتھر سے لومڑی کا ایک دانت توڑا اور اپنے ساتھ لے کر چلتا بنا۔

    اب لومڑی کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی اور وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: کیسے احمق لوگ ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ اگر میرے ایک دانت سے یہ معجزہ ممکن ہے تو پھر میں خود، جو منہ میں سولہ دانت رکھتی ہوں، کتّوں سے کیوں خوف کھاتی ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں ایک دانت کے چلے جانے کا کیا غم۔ جلد بازی میں حرکت کرنا خطرناک ہے اور جب تک چھری میری ہڈیوں تک نہیں جاپہنچتی، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بہتر ہے۔

    اسی اثنا میں قلعے سے باہر کا کوئی شخص گھومتا گھامتا وہاں آپہنچا۔ لومڑی کو دیکھا اور گویا ہوا: تعجب ہے، کیا یہ لومڑی مرچکی ہے؟ کتنا اچھا ہوا کہ میں یہاں چلا آیا۔ میرے شہر میں لوگ لومڑی کی دُم خریدتے ہیں اور اسے اپنے لباس پر مڑھ لیتے ہیں۔ بہت خوب، میں اس لومڑی کی دُم لے جاتا ہوں۔ یہ کہا اور چھری جیب سے نکالی کہ اس کی دُم کاٹ لے۔

    لومڑی نے دل میں کہا: میں کس مصیبت میں آن پھنسی ہوں۔ یہ لوگ جب تک میرے جسم کی بوٹی بوٹی نہ کرلیں گے، ٹلیں گے نہیں۔ جب تک معاملہ میری پشم تک تھا، میں نے پروا نہ کی، جب بات میرے کان کی ہورہی تھی، میں نے پروا نہ کی اور سست اور ساکت پڑی رہی، جب میرا دانت لے اُڑنے کے لیے سوچا جارہا تھا، میں نے جی کڑا کر کے صبر سے کام لیا مگر اب جب چھری میری ہڈیوں تک پہنچنے کو ہے، صبر اور خاموشی ہر چیز سے بدتر ہے۔

    مجھے چاہیے کہ اٹھوں اور خود کو نجات دلاؤں۔ اگر میں اب بھی یہاں پھنسی رہی تو میرے ساتھ بہت بُرا ہوگا۔ سو جونہی مذکورہ شخص چھری ہاتھ میں لیے نزدیک آیا، اچانک لومڑی نے جست لگائی اور لوگوں کے ٹانگوں اور پاؤں کے بیچ سے، جو اس کے اچانک حرکت کرنے سے وحشت زدہ ہوگئے تھے، نکلی اور قلعے سے فرار ہوگئی۔

    (فارسی ادب سے کہانی جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر تحسین فراقی نے کیا ہے)

  • نادان منشی

    نادان منشی

    ایک منشی خاصے عرصے سے بیروزگار تھا اور بہت پریشان تھا۔ ایک دن وہ شیخ سعدی کے پاس گیا اور اپنا حال بیان کرنے کے بعد کہا کہ آپ کی بادشاہ کے دربار تک رسائی ہے، کسی سے کہہ سُن کر کوئی کام دلوا دیں۔ اس کی بات سن کر شیخ صاحب نے کہا، بھائی، بادشاہوں کی ملازمت خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔ نان ہاتھ آنے کی امید کے ساتھ جان جانے کا امکان بھی ہوتا ہے۔

    انھوں نے یہ نصیحت اس کی بھلائی کے خیال سے کی تھی، لیکن وہ سمجھا کہ بزرگ اسے ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیخ‌ سعدی کو کہنے لگا، یہ بات ٹھیک ہے، لیکن جو لوگ ایمان داری اور محنت سے اپنا کام کریں، انھیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ میلے کپڑے ہی کو دھوبی پٹرے پر مارتا ہے۔

    شیخ صاحب نے اسے پھر سمجھایا کہ تُو ٹھیک کہتا ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں، بہت مشہور بات ہے، لیکن بادشاہوں اور حاکموں کے بارے میں لومڑی کی سی احتیاط برتنی چاہیے جو گرتی پڑتی بھاگتی چلی جاتی تھی۔ کسی نے پوچھا کہ خالہ لومڑی کیا مصیبت پڑی ہے جو یوں بھاگی چلی جا رہی ہو؟ لومڑی بولی، میں نے سنا ہے بادشاہ کے سپاہی اونٹ بیگار میں پکڑ رہے ہیں۔ اس نے ہنس کر کہا، عجب بے وقوف ہے، اگر اونٹ پکڑے جا رہے ہیں تو تجھے کیا ڈر؟ تُو لومڑی ہے۔ لومڑی نے جواب دیا، تیری بات ٹھیک ہے، لیکن اگر کسی دشمن نے کہہ دیا کہ یہ اونٹ کا بچّہ ہے، اسے بھی پکڑ لو تو میں کیا کروں گی؟ جب تک یہ تحقیق ہو گی کہ میں لومڑی ہوں یا اونٹ کا بچّہ، میرا کام تمام ہو چکا ہو گا۔ مثل مشہور ہے کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، وہ بیمار چل بسا ہو گا جس کے لیے تریاق منگوایا گیا ہو گا۔

    یہ سُن کر بھی منشی نے اپنی فریاد جاری رکھی۔ شیخ نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے بادشاہ کے دربار میں ملازمت دلوا دی، شروع شروع تو اسے ایک معمولی کام ملا لیکن وہ آدمی قابل تھا، اس لیے بہت ترقّی کر گیا اور عزّت و آرام کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔

    شیخ صاحب انہی دنوں حج پر چلے گئے اور جب لوٹے تو دیکھا کہ وہ منشی بھی ان کے استقبال کو آیا ہوا ہے، لیکن اس کی حالت سے پریشانی ظاہر ہوتی تھی۔ حالات پوچھے تو اس نے کہا دربار میں بھیجنے سے پہلے آپ نے جو بات کہی تھی، وہ بالکل ٹھیک تھی۔ میں نے اپنی قابلیت اور محنت سے ترقّی کی تو حاسد بھی پیدا ہوگئے اور انھوں نے الزام لگا کر مجھے قید کروا دیا۔ اب حاجیوں کے قافلے لوٹنے کی خوشی میں شاہی حکم پر قیدیوں کو آزاد کیا گیا ہے، تو اسی میں مجھے بھی رہائی نصیب ہوئی ہے۔ ورنہ بادشاہ نے تو یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی کہ میں بے گناہ ہوں اور الزام کی تحقیق تک نہ کروائی۔ شیخ سعدی نے افسوس کا اظہار کیا اور منشی اپنی راہ ہولیا۔

    حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب مختلف کتب میں منقول اس حکایت میں بادشاہوں اور حاکم و امرا کا قرب حاصل کرنے کے بجائے قناعت اور صبر کا راستہ اپنانے کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ اس وقت کے مطلق العنان بادشاہوں کی ہر الٹی سیدھی بات قانون کی حیثیت رکھتی تھی اور دربار سازشی عناصر سے بھرے رہتے تھے اور اکثر ان کی وجہ سے منشی جیسے قابل اور سیدھے سادے لوگ مشکل میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ آج کے صاحبِ اختیار لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے، طاقت ور اور بااختیار اگر عدل و انصاف کرنے اور اپنی عقل سے کام لینے سے قاصر ہو تو اس کا قرب خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

  • درویش وزیر! (حکایت)

    درویش وزیر! (حکایت)

    کسی بادشاہ نے معمولی خطا پر اپنے وزیر کو اس کے منصب سے ہٹا دیا۔ فراغت کے دنوں‌ میں وزیر کو درویشوں کی صحبت میں‌ بیٹھنے کا موقع ملا اور اس نے خود کو بہت مطمئن، آسودہ اور روحانی طور پر مسرور پایا۔ ادھر تھوڑا عرصہ گزرنے پر بادشاہ کو احساس ہوگیا کہ وزیر کی خطا ایسی نہ تھی کہ اسے یوں دربار سے نکال دیا جاتا۔ اس نے وزیر کو دربار میں طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے اور جو ہوا اسے فراموش کردے۔

    اس پر سابق وزیر نے بادشاہ سے جو کہا وہ دنیا داروں اور درباریوں کے لیے حیران کُن تھا۔ درباریوں‌ نے سنا کہ اس نے بادشاہ کو نہایت نرم اور مؤدب لہجے میں‌ انکار کردیا اور وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ اب گوشہ نشیں‌ ہے اور سمجھتا ہے کہ جو لوگ مکانِ عافیت میں‌ بیٹھ جاتے ہیں‌ وہ دوسروں کی ناخوشی اور اپنی سلامتی کے خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر اصرار کیا اور کہاکہ مجھے سلطنت کے انتظام کے واسطے ایک عقل مند اور تجربہ کار وزیر کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے تم سے بہتر کوئی نہیں‌ ہے۔

    وزیر نے جواب دیا۔ آپ کو ایک عقل مند چاہیے اور اگر میں‌ یہ منصب قبول کرتا ہوں تو یہ میری کم عقلی اور نادانی ہو گی۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے کاموں کا ذمہ ہی نہ لیا جائے۔ بادشاہ سلامت غور کیجیے کہ ہُما تمام پرندوں میں کیوں‌ اتنا معزز ہے؟ وہ اس لیے کہ وہ ہڈیاں کھا لیتا ہے، لیکن کسی جانور کو نہیں‌ ستاتا۔

    سابق وزیر نے بادشاہ کو ایک حکایت بھی سنائی۔ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ کسی نے سیاہ گوش سے پوچھا، تم نے شیر کے قریب رہنا کیوں پسند کیا؟ سیاہ گوش نے جواب دیا، اس لیے کہ اس کے شکار کا بچا ہوا کھاؤں اور اپنے دشمنوں سے محفوظ رہوں، میں‌ شیر کے دبدبہ میں حفاظت سے زندگی بسر کررہا ہوں اور یوں دوسرو‌ں کی دشمنی سے محفوظ ہوں۔

    بادشاہ اس کی بات غور سے سن رہا تھا۔ وزیر نے اسے نرم اور اپنی طرف متوجہ پایا تو مزید حکمت و دانائی کے موتی بکھیرے۔ کہنے لگا، بادشاہ سلامت! دانا کہتے ہیں بادشاہوں کا مزاج بدلتا رہتا ہے، ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک وقت تو وہ سلام کرنے اور آداب بجا لانے پر رنجیدہ اور ناراض ہوسکتے ہیں اور دوسرے وقت گالیاں کھا کر انعام دیتے ہیں۔

    بادشاہ پر اس کی باتوں‌ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے اپنے سابق وزیر اور حال کے اس درویش مزاج شخص کو درباری منصب قبول کرنے پر مجبور نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور عزت کے ساتھ رخصت کردیا۔

    درویشوں کی صحبت میں اس دنیا اور جاہ و منصب کی حقیقت سے واقف ہوجانے والے اس شخص نے دربار سے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ اگر انسان اپنی عزت اور مرتبہ کو پہچان لے تو لازم ہے کہ وہ اس کا لحاظ رکھے، اور دل لگی اور ہنسی مذاق اُن مسخروں کے لیے چھوڑ دے جن کی کسی دربار میں‌ کمی نہیں‌ اور جو ہمہ وقت اس کام کے لیے حاضر رہنا پسند کرتے ہیں۔

    ( نامعلوم مصنف کی کہانی سے ماخوذ)

  • بوڑھے کا جواب(حکایت)

    بوڑھے کا جواب(حکایت)

    کسی ملک میں آبادی سے دور ایک پہاڑی مقام پر کوئی بوڑھا رہتا تھا جس کی ساری زندگی مطالعہ اور غور و فکر میں گزری تھی اور وہ اپنے فہم اور تدبر کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔

    مقامی اور دور دراز کے علاقوں کے لوگ بھی اس کے پاس مشورہ لینے، اپنے مسائل کا حل پوچھنے کے لیے آتے تھے۔ وہ اس بوڑھے سے اپنی مشکلات بیان کرتے تو وہ ﺍنھیں کوئی اچھی بات اور ان کے مسئلے کا آسان حل بتا دیتا۔

    کچھ ایسے لوگ بھی اس کے پاس آتے جو اس کی علمیت اور ذہانت کا امتحان لیتے اور مشکل سوالات پوچھتے۔ وہ ان کو درست جواب دیتا اور مسئلے کا حل بتا کر خوش کردیتا۔

    وہ بوڑھا سبھی کو ان کے مسائل کا حل بتا کر یہ تاکید ضرور کرتا تھا کہ اب اس پر عمل کرنا تمھارا کام ہے۔

    اسی پہاڑ کے قریب ایک بستی تھی جہاں غریب اور محنت کش لوگ رہتے تھے، ان کے بچے اور نوجوان لڑکے بہت شریر اور آوارہ گرد تھے۔ وہ اس بوڑھے سے اکثر ٹیڑھے سوال کرتے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے تھے۔

    ایک صبح اس بستی کے شریر لڑکے نے اپنے دوستوں سے کہا: آؤ اس بوڑھے کو تنگ کرتے ہیں، آج وہ ہمارے سوال کا جواب نہیں‌ دے سکے گا۔ سب بہت خوش ہوئے اور ان کا اشتیاق بڑھا کہ دیکھیں وہ کس طرح اس دانا بوڑھے کو لاجواب کرتا ہے۔

    اس لڑکے نے ایک کبوتر اپنے ہاتھوں میں‌ چھپا لیا، اس نے سوچا کہ بوڑھے سے پوچھے گا کہ اس کے ہاتھوں میں جو کبوتر ہے وہ زندہ ہے یا مردہ، اگر وہ کہے گا کہ زندہ ہے تو میں اسے دبا کر مار دوں گا، لیکن وہ کہے گا کہ مردہ ہے تو میں اسے آزاد کردوں گا اور اس کی پرواز سب کے سامنے اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہوگی۔ یوں بوڑھے کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

    لڑکا اپنے ساتھیوں سمیت بوڑھے کے پاس پہنچا اور وہی سوال پوچھا جو اس کے ذہن میں تھا۔

    اس کے ساتھی لڑکے بڑی بے تابی سے بوڑھے کے جواب کے منتظر تھے۔ اس دانا بوڑھے نے ایک نظر ان سب کو دیکھا اور پھر لڑکے کی طرف متوجہ ہوا

    "اس کبوتر کے مردہ یا زندہ ہونے سے فرق نہیں‌ پڑتا، یہ ضرور ہے کہ وہ تمھارے ہاتھوں میں ہے، اور تم اس کے ساتھ جیسا پسند کرو وہ سلوک کرسکتے ہو۔”

    یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کے اندر چلے گئے اور لڑکے اس روز ایک سبق سیکھ کر لوٹے کہ انسان کسی شعبدے، دھوکے سے خود کو نہیں منوا سکتا بلکہ اس کا عمل اس کی دانائی اور ذہانت کا ثبوت ہوتی ہے۔

    (یہ حکایت جلال الدین رومی سے منسوب ہے)

  • دو درویش اور دنیا داری

    دو درویش اور دنیا داری

    یہ ایک درویش کا قصہ ہے، ایک بہت پرہیز گار اور نیک انسان کا جنھوں نے خود کو ایک آزمائش میں‌ ڈال لیا تھا، مگر جلد ہی ان پر اپنے کیے کی حقیقت کھل گئی اور انھوں نے خدا کے کاموں میں مصلحت کو سمجھا اور اپنے دنیا میں آنے کا مقصد جان لیا۔

    کہتے ہیں اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ محنت کیے بغیر حلال رزق عطا ہو اور ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔ بزرگ نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے روز کی مشقت سے بچا اور حلال رزق عطا فرما، میں زیادہ عبادت نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ دن کا خاصا وقت معاش کی بھاگ دوڑ میں‌ گزر جاتا ہے۔

    اس رات جب بزرگ سوئے تو خواب میں کسی پہاڑ کے نزدیک جنگل دیکھا جس میں ایک جگہ بہت سے پھل دار درخت تھے، ان کی دعا قبول ہو گئی تھی اور یہ خواب ایک اشارہ تھا۔

    بزرگ نے جنگل جاکر بہت سے پھل توڑ لیے اور گھر لے آئے۔ وہ نہایت میٹھے اور فرحت بخش تھے اور ان کا شکم بھرنے کو بہت تھے۔

    درویش نے محسوس کیا کہ ان پھلوں کو کھانے سے ان کی گفتگو اور لب و لہجے میں بڑی تاثیر اور شیرینی پیدا ہو گئی ہے اور ان کا کلام سن کر لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں‌ اور ان سے بڑی محبت کرنے لگے ہیں۔ اب انھیں چاہنے والے ہر وقت گھیرے رہتے اور یوں ان کو عبادت کا وقت نہ ملتا۔

    بزرگ کے دل میں ایک اور خیال آیا اور انھوں دعا کی کہ اے پروردگار! مجھے وہ انعام عطا فرما جو سب سے پوشیدہ ہو۔ اس دعا کے بعد ان کی قوتِ گویائی جاتی رہی۔

    بزرگ کے دل کو اطمینان ہوا کیوں کہ پہلے ان کی گفتگو سننے کے لیے ہر وقت لوگ ان کے پاس حاضر رہتے تھے، لیکن اس طرح رفتہ رفتہ سب دور ہوگئے اور یوں ان کو عبادت کا زیادہ سے زیادہ موقع ملنے لگا اور قربِ خداوندی میں لطف آنے لگا۔

    اب بزرگ روزی کمانے اور محنت و مشقت کی فکر سے آزاد تھے اور لوگوں سے بھی چھٹکارا مل گیا تھا۔

    بزرگ کے پاس کمائی کے دنوں کا ایک درہم بچا ہوا تھا جسے انھوں نے اپنی آستین میں سی رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ان کا گزر جنگل کے قریب سے ہوا جہاں ایک لکڑہارے کو دیکھا جو بہت تھکا ہوا اور پسینے میں شرابور تھا، بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہ درہم اسے دے دوں؟ مجھے تو اللہ پاک رزق دے رہا ہے، لیکن اس درہم سے یہ لکڑہارا دو چار روز کی مشقت اور روزی کے غم سے بچ جائے گا۔

    جنگل میں ملنے والا وہ لکڑہارا دراصل ایک روشن ضمیر اور متقی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص کرم تھا، بزرگ نے خود یہ واقعہ بتایا کہ اس نے کشف سے میرے دل کی ہر بات جان لی اور غصے سے بھر گیا۔

    اس نے اپنی لکڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور دعا کی یہ سب سونے کی بن جائیں، اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہوش نہ رہا جب حواس بحال ہوئے تو وہ ولی اللہ دعا مانگ رہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری کرامت میری شہرت کا باعث نہ بن جائے، اس لیے ان لکڑیوں کو اپنی اصل حالت پر کر دے۔ اور اس بار بھی اس کی دعا قبول ہوئی، اس مرد نے مجھے دیکھا اور لکڑیاں لاد کر اپنی راہ چل دیا۔

    بزرگ نے کہا کہ میں نے اس واقعے کا بھید پا لیا، قدرت نے مجھے سمجھایا تھا کہ اس کا ایک باقاعدہ نظام ہے جس سے ہٹنا مسائل پیدا کرتا ہے۔ تب سے میں دوبارہ محنت کے ساتھ حلال روزی کی جستجو کرنے لگا اور جو وقت ملتا اس میں خشوع خضوع سے عبادت کرتا۔

    اس حکایت کو حضرت رومی سے منسوب کیا جاتا ہے جو ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ عبادات اور دنیاوی زندگی دونوں‌ میں توازن پیدا کرنا چاہیے اور دین میں فکرِ معاش اور حلال روزی کی کوشش ترک کرنے کو پسند نہیں‌ کیا گیا ہے۔