Tag: اردو حکایت

  • ایک گناہ اور سہی…

    ایک گناہ اور سہی…

    ایک مسجد میں اجتماع کے موقع پر ایک عالم نیکی و بدی میں تمیز سکھاتے ہوئے جنّت و دوزخ کا نقشہ کھینچ رہے تھے۔ اسی میں امانت و خیانت، ایمان داری و بے ایمانی کا ذکر آگیا۔

    مولوی صاحب نے بڑی بڑی موشگافیاں کیں۔ خوب خوب دادِ تحقیق دی۔ چوری کی ایک ایک کر کے ساری صورتیں بیان کیں۔ ہر ہر پیشہ اور ہنر والوں کے کرتوتوں کو گنوایا، ان کی کھلی ڈھکی چوریوں کو کھول کھول کر حاضرین کے سامنے رکھ دیا۔ یونہی ہوتے ہوتے کہیں درزیوں کا ذکر بھی چھڑ گیا۔ جناب نے ان کے خوب لتے لیے۔ ایسے بخیے ادھیڑے کہ کوئی ٹانکا لگا نہ رہنے دیا۔ گاہکوں کی بے اعتباری اور اس کے نتائج دنیا کے بے ثباتی، آخرت میں خرابی کو پھیلا پھیلا کر دکھایا۔ عقبیٰ کے عذاب، قیامت کے حساب کتاب سے ڈرایا اور یہاں تک فرمایا کہ یہ درزی چھوٹی بڑی چوریاں جتنی کرتے ہیں دنیا میں اگر چھپ بھی جائیں قیامت کے دن سب ’الم نشرح‘ ہو کر رہیں گی۔ یہ لوگ جب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ ایک بڑا سا عَلَم ہر ایک درزی کے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر عمر بھر کے چرائے ہوئے کپڑے، حتیٰ کہ ذرا ذرا سی کترنیں بھی، لٹکتے ہوں گے۔ ساری خدائی ان کی چوری کا یہ تماشا دیکھے گی اور درزیوں کی بڑی رسوائی ہوگی۔ یہ چوری اس کے لیے عذاب و ایذا کا آلہ بن جائی گی۔

    اتفاق سے اس مجلسِ وعظ میں کسی طرف کوئی درزی بھی بیٹھا تھا۔ اسے نجانے کیوں یہ محسوس ہوا کہ مولوی صاحب نے اُسی کو دیکھ کر اپنی تقریر کا یہ پرداز ڈالا ہے۔ اس نے جو یہ چبھتی ہوئی، حق لگتی ہوئی باتیں سنیں تو دل ہی دل میں بہت کٹا اور توبہ کی کہ چوری کے پاس نہ جاؤں گا۔ بہت دنوں تک وہ اپنے اس عہد پر قائم بھی رہا۔

    گاڑھا گزی، ململ لٹّھا، نینونین سُکھ معمولی کپڑوں کا کیا ذکر ہے اچھے اچھے ریشمی کپڑے، مخمل، اطلس، کام دانی، گل بدن کے تھان کے تھان اس کی دکان پر آتے، مگر کتر بیونت کے وقت کبھی اس کو ان میں سے کچھ کتر لینے کا خیال بھی نہ آتا۔

    اتفاق کی بات ایک دن ایک گاہک آیا اور ایک بڑھیا سا تھان کپڑے کا لایا۔ دولھا کا جوڑا بننا تھا۔ وہ ناپ تول دے کر اپنی راہ گیا۔ استاد تھان لے کر بیٹھے الٹ پلٹ کر دیکھا، جی للچایا۔ منہ میں پانی بھر آیا۔ رال ٹپکنے لگی۔ دل نے کہا۔ اس میں تو کچھ بچانا ہی چاہیے۔ ایمان پکارا، خبردار، کیا کرتا ہے، توبہ نہیں کر چکا ہے؟

    درزی نے تھان اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ مگر کپڑا جلدی سی کر دینا تھا، اس لیے پھر اٹھا لیا اور پھر وہی کش مکش شروع ہوگئی۔ آخر پرانی عادت، نئی توبہ پر غالب آگئی اور استاد نے کہا، ایں ہم بر سرِ علَم۔ یعنی جہاں ہزاروں ٹکڑے کپڑے کے قیامت کے دن میرے علَم پر ہوں گے، ان میں ایک یہ بھی سہی۔

    یہ ایک قصّہ ہے جس میں صداقت کچھ نہ ہو، مگر یہ فارسی کی ایک مشہور ضربُ المثل ہے۔ اگر اس کا اردو میں ترجمہ کریں تو اس طرح ہوگا کہ ‘یہ بھی جھنڈے پر سہی۔’ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں ہزاروں گناہوں کی پوٹ سَر پر ہو، ایک گناہ اور سہی۔

    سچ یہ ہے کہ ہمیں اگر کوئی بُری عادت پڑ گئی ہو اور ہم کچھ وقت کے لیے اس عادت کو ترک بھی دیں تو جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ یونہی عود کر آتی ہے جیسا کہ اس درزی کے ساتھ ہوا۔

  • بادشاہ کے تین سوال

    بادشاہ کے تین سوال

    ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو تین سوالوں‌ کا درست جواب دینے پر آدھی سلطنت دینے کا وعدہ کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ چاہے تو یہ چیلنج قبول کرے اور اگر اسے لگتا ہے کہ ناکام ہوجائے گا تو معذرت کر لے، لیکن ان سوالوں کو جان لینے کے بعد اسے جواب لازمی دینا ہو گا اور اس امتحان میں ناکامی کی سزا موت ہوگی۔

    وزیر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا ایسا کون سا سوال ہے جس کا جواب نہ ہو۔ وہ کسی دانا اور عالم سے پوچھ کر بادشاہ کو ضرور جواب دے سکے گا۔ اس نے ہامی بھر لی۔ بادشاہ نے اس کے سامنے اپنا پہلا سوال یہ رکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟ اور تیسری بات جو بادشاہ نے پوچھی وہ یہ تھی کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟

    بادشاہ نے اپنے وزیر کو ایک ہفتہ کی مہلت دی اور وزیر نے سلطنت کے عالی دماغ اور دانا لوگوں کو اکٹھا کرلیا۔ وہ ان کے سامنے یہ سوال رکھتا گیا لیکن کسی کے جواب سے وزیر مطمئن نہیں ہوا۔ اسے موت سر پر منڈلاتی نظر آنے لگی۔ مہلت ختم ہونے کو تھی، تب وزیر سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر محل سے فرار ہوگیا۔ چلتے چلتے رات ہوگئی۔ ایک مقام پر اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا۔ وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دیے۔ اس نے پہلے سوال کا جواب دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اسی طرح‌ دوسرا جواب تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔ اور تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کے جواب بتا دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔

    کسان کی بات سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے شاہی اصطبل کا نگران بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا۔ وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤ گے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے ہرکارے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤ گے۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے مسترد کر دیا۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے، بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لو تو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتا دوں گا۔ یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔

    وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
    تو کسان نے کہا کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے! جس کے لیے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے!

  • اوس اور گدھے کی آواز (ایک حکایت)

    اوس اور گدھے کی آواز (ایک حکایت)

    ایک ٹڈا کسی شاخ پر بیٹھا سیٹیاں بجا رہا تھا۔ قریب سے ایک گدھا گزرا۔ اس کے کانوں‌ میں‌ چھوٹے سے ٹڈے کی سیٹیاں پڑیں تو اس سے رہا نہ گیا۔

    اکثر ٹڈے گدھے کے جسم پر بھی بیٹھ جایا کرتے تھے۔ یوں وہ اس چھوٹے سے کیڑے سے واقف ہی تھا۔ گدھے کا ایک احساسِ کمتری یہ تھا کہ اسے اپنی آواز بھونڈی اور نہایت فضول معلوم ہوتی تھی۔ آج ٹڈے کو سن کر وہ اس سے کہنے لگا۔​

    "ٹڈے میاں! تمہاری آواز بڑی سریلی ہے۔ میں تو اس پر عاشق ہو گیا ہوں۔ تم کیا کھاتے ہو؟ بتاؤ، میں بھی وہی غذا استعمال کر کے اپنی آواز تمہاری طرح سریلی بنا سکوں۔”​

    ٹڈا اپنی آواز کی تعریف سن کر بڑا خوش ہوا اور بولا۔ "تم میرے دوست ہو۔ کبھی کبھی میں شاخ سے اچھل کر تمہاری گردن پر بیٹھ جاتا ہوں تو مجھے پنگوڑے کا مزہ آتا ہے۔ تم اپنی گردن ہلا کر مجھے خوش کر دیتے ہو۔ آج تمہیں اپنی آواز سریلی بنانے کا خیال آیا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ ہے تو راز کی بات لیکن میں تمہیں بتائے دیتا ہوں۔ دیکھو، یہ راز کسی اور کو مت بتانا۔ تم خود اس سے فائدہ اٹھاؤ۔”​

    گدھے نے قسم اٹھا کر ٹڈے کو یقین دہانی کرائی کہ وہ یہ راز کسی کو نہیں بتائے گا۔ اس پر ٹڈے نے کہا۔” اوس کھایا کرو۔”​

    گدھا واقعی سنجیدہ تھا۔ وہ ٹڈے کی زبانی آواز اچھی بنانے کا یہ راز جان کر بہت خوش ہوا۔ اس نے سب کھانا پینا چھوڑ کر اوس چاٹنا شروع کر دی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ چند ہی دنوں میں گدھا بھوک پیاس کی شدّت سے مر گیا۔​

    اس حکایت سے سبق یہ ملا کہ دوسروں سے اپنا موازنہ نہیں‌ کرنا چاہیے اور اگر کوئی نئی بات معلوم ہو تو اس کی خوب تحقیق اور اطمینان کرلینا بہتر ہے۔

  • بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ ہاتھی پر سوار کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جو درختوں کی کاٹ چھانٹ میں‌ مصروف تھا۔

    وہ پھل دار درخت تھے، لیکن ابھی ان پر پھل آنے کا موسم نہ تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص خاصا سن رسیدہ ہے اور اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا اور شاہی سواری کو فیل بان نے اس مقام پر ٹھہرا لیا۔ اب بادشاہ نے سپاہیوں‌ کو کہا کہ اس بوڑھے کو میرے سامنے حاضر کرو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    بوڑھا بادشاہ کے روبرو آیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاصا کمزور ہے اور اس کی جلد جھریوں سے بھری ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا، اے بوڑھے! تُو جن درختوں کا خیال رکھ رہا ہے، کیا تجھے ان درختوں کا پھل کھانے کی اُمید بھی ہے؟

    بوڑھے نے کہا، بادشادہ سلامت! ہمارے پہلے لوگوں نے زراعت کی، اپنے جیتے جی اناج پایا اور اسے پکا کر کھایا، پھر باغات کی زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ بیج کو اپنے اندر دبا کر اللہ کے حکم سے اس کے بطن سے پودا نکالے جو توانا درخت بنے اور اس کی شاخیں پھلوں سے بھر جائیں۔ وہ زندہ رہ سکے تو پھل بھی کھایا اور جب وہ نہیں رہے تو ان کے بچّوں اور ان بچّوں‌ کی اولادوں‌ نے وہ پھل کھائے۔ ان کی محنت سے ہم سب لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے حضور لیکن اب میں اپنے بعد آنے والوں کے لیے یہ محنت کر رہا ہوں تاکہ وہ نفع حاصل کریں۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بامذاق اور مفید بات بہت ہی پسند آئی۔ خوش ہو کر بادشاہ نے بوڑھے کو ایک ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دیں۔ اس پر بوڑھا ہنس پڑا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟ بوڑھے نے کہا مجھے اپنی محنت کا اس قدر جلد پھل مل جانے سے تعجب ہوا۔ اس بات پر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا۔ بوڑھا یقیناً ذہین بھی تھا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اور دیں۔ باغ بان بوڑھا پھر ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیوں ہنسے؟ وہ بولا کہ کاشت کار پورا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے میری باغ بانی نے تھوڑی سے دیر میں دو مرتبہ اپنی محنت کا ثمر دے دیا۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار اشرفیاں مزید دیں اور سپاہیوں‌ کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔

    سبق: زندگی میں‌ کوئی کام صرف اپنے مفاد اور نفع کی غرض‌ سے نہیں‌ کرنا چاہیے، بلکہ نیک نیّتی کے ساتھ دوسروں‌ کی بھلائی کے لیے بھی اگر کچھ وقت نکال کر کوئی کام کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور اکثر ہماری توقع سے بڑھ کر اور آن کی آن میں قدرت ہم پر مہربان ہوسکتی ہے۔

  • موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    موتی کہاں ہیں؟ (دل چسپ حکایت)

    یہ ایک سوداگر کی کہانی ہے جس کی چار سو دینار سے بھری ہوئی تھیلی گم ہوگئی تھی۔ اس نے منادی کروا دی کہ جس شخص کو اس کی تھیلی ملے اور وہ اس تک لے آئے تو اُسے دو سو دینار انعام دیا جائے گا۔

    اتفاقاً یہ تھیلی ایک غریب شخص کو مل گئی۔ وہ اُسے لے کر مالک کے پاس انعام کی اُمید میں پہنچ گیا۔ لیکن سوداگر نے جب اپنی گم شدہ تھیلی کو پایا، تو اس کے دل میں دو سو دینار کے خسارے کا خیال آگیا۔ وہ بدنیّت ہو گیا تھا اور اسے ایک بہانہ سوجھا۔ سوداگر اس غریب آدمی سے کہنے لگا’’اس تھیلی میں نہایت قیمتی موتی بھی تھے۔ کیا وہ بھی اس کے اندر ہیں؟‘‘ وہ آدمی بڑا گھبرایا اور سمجھ گیا کہ یہ اب دھوکا کر رہا ہے اور انعام نہ دینے کے لیے جھوٹ بولنے لگا ہے۔ اب ان دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ آخر یہ دونوں لڑتے ہوئے فیصلے کے لیے قاضی کے پاس پہنچے۔ قاضی نے اس غریب آدمی سے موتیوں کے بارے میں پوچھا تو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ تھیلی میں اسے دیناروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں ملی۔ اب قاضی نے سوداگر سے پوچھا کہ بتاؤ وہ موتی کیسے تھے؟ سودا گر نے الٹی سیدھی باتیں کیں اور کچھ صحیح نہ بتا سکا۔

    قاضی سمجھ گیا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اور جھوٹ سے مقصد اس کا یہ ہے کہ اپنے اعلان کے مطابق اسے انعام نہ دینا پڑے۔ قاضی نے کہا کہ میرا فیصلہ سنو! اے سوداگر! تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہاری تھیلی گم ہو گئی جس میں دینار تھے اور موتی بھی تھے اور یہ آدمی جو تھیلی لایا ہے اس میں کوئی موتی نہیں ہے، لہٰذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تھیلی تمہاری ہے ہی نہیں۔ تم اپنی گم شدہ تھیلی کے لیے دوبارہ منادی کراو۔ ممکن ہے تمہاری گم شدہ تھیلی تمہیں مل جائے جس میں وہ موتی بھی موجود ہوں اور تم بامراد بن جاؤ۔ یہ تھیلی تو تمہاری نہیں ہے۔

    اب قاضی نے اس غریب آدمی سے مخاطب ہو کر کہا: ’’ یہ تھیلی چالیس روز تک احتیاط سے رکھو۔ اگر اس کا کوئی دوسرا دعوے دار نہ ہو تو یہ تمہاری ہے۔‘‘ قاضی کا فیصلہ سن کر سوداگر کا دل بجھ گیا مگر وہ کیا کرسکتا تھا؟ دل میں‌ آئے کھوٹ نے اسے یہ دن دکھایا تھا۔ وہ بری طرح‌ پچھتایا اور وہ غریب شخص خوشی خوشی چار سو دیناروں‌ والی تھیلی لے کر اپنے گھر کو روانہ ہوگیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا کوئی دعوے دار نہیں‌ آئے گا اور اب وہی اس رقم کا مالک ہے۔

    (انتخاب از دل چسپ حکایات)

  • درزی کی نصیحت

    درزی کی نصیحت

    ایک بوڑھا درزی اپنے کام میں مگن تھا کہ اس کا چھوٹا بیٹا دکان میں داخل ہوا اور کہنے لگا، "بابا میں نے اپنے ابتدائی قاعدے اچھی طرح یاد کر کے اپنے استاد کو سنا دیے ہیں اور انہوں نے مجھے اگلی جماعت میں شامل کر لیا ہے۔”

    باپ نے بیٹے کو مبارک باد دی تو بیٹا کہنے لگا، ” بابا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جب میں یہ قاعدے یاد کر لوں گا تو آپ مجھے زندگی گزارنے کا ایک بہترین گُر سکھائیں گے، تو بابا آج وہ وعدہ پورا کریں۔”

    بوڑھا درزی یہ سن کر بیٹے سے بولا، ” ہاں میرے بیٹے میں ذرا کام سے فارغ ہوجاؤں تو پھر بتاتا ہوں۔ تم ذرا وہ قینچی تو مجھے پکڑاؤ۔” بیٹے نے باپ کو قینچی دی تو درزی نے ایک بڑے کپڑے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنا شروع کر دیا۔ کاٹنے کے بعد قینچی کو زمین پر رکھے جوتوں میں پھینک دیا، پھر سوئی اٹھائی، اس میں دھاگہ ڈالا اور ان ٹکڑوں کو سینے لگا، ٹکڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سی کر ایک قمیص میں بدل دیا اور سوئی کو سَر پر بندھے ہوئے عمامے میں لگا کر بچ جانے والے دھاگے کو اپنی جیب میں ڈال لیا۔

    درزی کا بیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، "بابا آج تو آپ نے عجیب کام کیے ہیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھے تھے، مہنگی قینچی کو زمین پر جوتوں میں ڈال دیا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک معمولی قیمت کی سوئی کو سَر پر عمامہ میں لگا لیا ہے، ایسا کیوں؟

    یہ سن کر باپ نے مسکراتے ہوئے کہا، "بیٹا میرے پاس وہ بڑا کپڑا ایک خاندان کی مانند تھا جس کو قینچی نے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں‌ تبدیل کر دیا، تو سمجھو قینچی اس شخص کی طرح ہوئی جو مضبوط رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں الگ ہونے پر مجبور کر دیتا ہے، اور سوئی کی مثال اس شخص کی ہے جو ان رشتوں کو دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے جب کہ دھاگہ ایک مددگار شخص جیسی چیز ہے جو اگر سوئی کے ناکے میں نہ ہو تو اس سے سلائی نہیں‌ کی جاسکتی۔ اب میرے بیٹے زندگی بھر اس نصیحت کو یاد رکھنا کہ بظاہر قیمتی دکھائی دینے والے لوگ جو رشتوں کو تقسیم کردیتے ہیں، وہ قینچی کی طرح جوتیوں میں رکھنے کے ہی لائق ہیں، جب کہ تعلق اور رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کرنے والا شخص جو سوئی کی طرح عام سا دکھائی دیتا ہے، اسے سَر آنکھوں‌ پر بٹھانا چاہیے۔ آخری بات یہ کہ دھاگہ میں نے جیب میں رکھ لیا تھا، اس سے مراد کوئی بھی قدم اٹھانے جاؤ اور اہم فیصلہ کرنے لگو تو اس سے پہلے اپنے آس پاس مددگار ضرور رکھنا۔

    (قدیم عربی ادب سے ماخوذ)

  • مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    ایک متقی و صالح شخص کسبِ معاش کے بعد اپنے مال کا ایک تہائی راہِ خدا میں خرچ کردیتے اور ایک تہائی اپنی ضروریات پر۔ اس کے علاوہ وہ اسی مال کا ایک تہائی اپنے ذریعۂ معاش پر لگا دیتے تھے۔ یہ برسوں سے ان کا معمول تھا۔

    ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے۔ انہوں نے اس سے کہا پہلے تو حلال کمانے کی جستجو کرو اور اسے یقینی بناؤ اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حلال کمائی کو خود مستحق مل جائے گا۔ دنیا دار شخص نے اس بات کو بزرگ کی مبالغہ آرائی پر محمول کیا تو شیخ نے کہا، اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے لیے تمہارے دل میں جذبۂ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا۔

    چنانچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لیے اس کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ یہی وہ مستحق ہے جسے صدقہ خیرات دینا چاہیے۔ اس نے اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کر دیا۔ دوسرے دن وہ اسی ضعیف اور نابینا شخص کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس وقت وہ بوڑھا اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک آدمی سے بات کررہا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ کل ایک مال دار شخص نے ترس کھا کر مجھے کچھ مال دیا تھا، جسے میں نے فلاں فلاں بدکار شخص کے ساتھ عیاشی اور شراب نوشی میں اڑا دیا۔

    وہ دنیا دار یہ سنتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور سیدھا شیخ کے پاس پہنچا۔ اس نے یہ ماجرا ان کے حضور بیان کیا۔ شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو، اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس آدمی پر پڑے یہ درہم اسے بطور خیرات دے دینا۔ اس نے یہی کیا اور شیخ کا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا اور سب سے پہلے اس کی نظر جس شخص پر پڑی وہ اسے بظاہر پیٹ بھرا اور معقول معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے پہلے تو یہ درہم اُس شخص کو دینے میں‌ ہچکچاہٹ محسوس کی، مگر شیخ کا حکم تھا، اس لیے ہمّت باندھی اور درہم اس آدمی کی طرف بڑھا دیا۔ ادھر اُس نے بھی درہم لیا اور آگے چل پڑا۔ تب وہ دنیا دار جس نے شیخ کے حکم پر یہ عمل کیا تھا، تجسس کے مارے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ بظاہر خوش حال نظر آنے والا یہ آدمی اس درہم کو کہاں‌ خرچ کرتا ہے۔

    دنیا دار سے خیرات میں‌ درہم حاصل کرنے والا آگے بڑھتا رہا اور ایک کھنڈر کے قریب پہنچ کر اس میں داخل ہوا ور پھر وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر کی راہ پکڑی۔ جب یہ مال دار آدمی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا تو وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی، البتہ ایک مرا ہوا کبوتر اس نے ضرور دیکھا۔

    مال دار آدمی نے کھنڈر سے باہر نکلنے کے بعد کچھ آگے جاکر خیرات لینے والے کو روک لیا اور قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں رہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، وہ بہت بھوکے تھے، جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی تو انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں ابھی پریشانی کے عالم میں‌ پِھر رہا تھا کہ مجھے کھنڈر میں یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا، مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے گوشت سے بچّوں کی کچھ بھوک مٹا سکوں، مگر پھر ایک جگہ اللہ نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت کیا تو وہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا، وہیں پھینک دیا اور اب کھانے پینے کی چیز لے کر اپنے گھر جاؤں‌ گا۔

    اب اس مال دار پر یہ بھید کُھلا کہ شیخ کا وہ قول محض جذباتی بات اور مبالغہ آرائی نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اللہ کی مرضی سے ضرور حقیقی ضرورت مند اور مستحق تک پہنچتا ہے جب کہ حرام اور ناجائز طریقے سے ہاتھ آیا مال بُری جگہ خرچ ہوتا ہے۔

    (باب صدقہ کی فضیلت، روایت از شیخ علی متقی عارف باللہ)

  • "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    ایک بادشاہ کو اس کے وزیروں اور مشیروں نے بتایا کہ حضور آپ کی سلطنت میں دو ایسے شخص بھی رہتے ہیں جن سے ان کے اڑوس پڑوس والے بے حد تنگ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں دربار میں طلب کرکے سرزنش کی جائے۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ مجھے ان کے متعلق تفصیل بتاؤ تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان کا قضیہ دربارِ شاہی میں لانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

    وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت ان دونوں میں سے ایک حاسد ہے اور ایک بخیل، بخیل کسی کو کچھ دینے کا روادار نہیں اور حاسد ہر کسی کے مال سے حسد رکھتا ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    اگلے روز جب دونوں بادشاہ کے حضور پیش ہوئے تو، بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں کے متعلق مشہور ہے کہ ایک حسد میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا حد درجے کا کنجوس ہے، کیا یہ سچ ہے؟

    وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے نہیں بادشاہ سلامت، یہ سب افواہیں ہیں، جو نجانے کیوں لوگ پھیلا رہے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر کہا، اچھا پھر میں تم دونوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، وہ انعام تم دونوں کی مرضی کا ہوگا، جو مانگو گے ملے گا، اور جو پہل کرتے ہوئے مانگ لے گا اسے تو ملے گا ہی مگر دوسرے کو وہی انعام دگنا کرکے دیا جائے گا۔

    اب دونوں کشمکش میں گرفتار ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرا ہی پہل کرے، کنجوس نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلے بول کر زیادہ انعام سے محروم رہوں، اور حاسد اسی سوچ میں تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میں مانگوں، اس کا دگنا انعام اس بخیل کو بھی ملے۔ وہ بھی بنا مانگے۔ اس کشمکش میں دنوں نے کافی وقت گزار دیا مگر بولنے میں پہل کسی نے بھی نہ کی۔

    اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ان دونوں پر ایک جلّاد مقرر کیا، اسے حکم دیا کہ تین تک گنتی گنو اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی بولنے میں پہل نہ کرے تو قید خانے میں ڈال دو،

    جلّاد نے جیسے ہی گننا شروع کیا تو حاسد فوراً بول اٹھا۔

    "بادشاہ سلامت، میری ایک آنکھ نکال دیجیے!”

    (قدیم عربی حکایت سے ماخوذ)

  • تین انگوٹھیاں، تین سو سال (ایک حکایت)

    تین انگوٹھیاں، تین سو سال (ایک حکایت)

    کہتے ہیں مشہور بادشاہ نوشیروان نے ایک عالی شان محل تعمیر کروانے کی غرض سے جس مقام اور جگہ کا انتخاب کیا، وہاں ایک بڑھیا کی جھونپڑی بھی تھی۔

    معماروں نے بادشاہ کے حکم پر کام شروع کردیا، لیکن جیسے جیسے محل کی عمارت تعمیر کرتے گئے اور جب اس کی وسیع چار دیواری بنانے کا موقع آیا تو جھونپڑی ان کے منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔

    نوشیروان کو اس کا علم ہوا تو اس نے بڑھیا کو طلب کرکے اس سے کہا، ’’جو تیری مرضی ہو تو یہ جھونپڑی مجھے دے دے، اس کے بدلے جہاں کہیں تیری خوشی ہو، محل بنوا دوں گا۔‘‘

    بڑھیا نے نہایت ادب اور عاجزی سے کہا، ’’مجھے اس سے زیادہ اور کس بات کی خوشی ہوگی ہے کہ اسی جگہ رہوں تو ہر روز آپ کا دیدار کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘

    بادشاہ نے کہا۔ ’’جیسے تیری خوشی بڑھیا، میں تجھ پر اس حوالے سے کوئی جبر نہیں کرتا۔‘‘ نوشیروان کے حکم پر جھونپڑی ویسی کی ویسی ہی رہی اور محل تعمیر کرلیا گیا۔ وہ جھونپڑی اب اس عالی شان قصر کے ایک طرف وسیع باغ کے احاطے میں آچکی تھی۔

    اس بڑھیا کے پاس ایک گائے تھی، وہ آتے جاتے قصر شاہی میں گندگی کرتی، لیکن نوشیروان کچھ نہ کہتا۔ اس نے پہلے بھی بڑھیا پر جبر نہیں‌ کیا تھا اور بعد میں بھی اس کی ناگوار حرکت یا نالائقی پر اسے کچھ نہ کہتا۔ وزرا اور درباری نوشیروان کے ضبط و برداشت کے قائل ہو چکے تھے۔ اس کا عدل تو مشہور ہی تھا، اب اس کی برداشت اور تحمل مزاجی بھی ان کے سامنے تھی۔

    جب نوشیروان نے اس منزلِ فانی سے کوچ کیا اور اس کی وفات کے لگ بھگ تین سو سال کے بعد ایک بادشاہ کسی سبب اپنے مصاحبوں سمیت اس کی قبر پر آیا اور اس کے مرقد کو کھودا تو دیکھا کہ اس کا مردہ جسم گویا گہری نیند میں ہے، اور اس کی انگلی میں بڑی جواہر جڑی انگوٹھیاں موجود ہیں جن پر تین نصیحتیں لکھی ہوئی ہیں۔

    ایک انگوٹھی پر لکھا تھا، ’’دوست دشمن سب سے دار مدار رکھو۔‘‘

    دوسری پر ’’سب کام مشاورت سے کرو۔‘‘ اور تیسری پر نقش عبارت تھی ’’ قناعت پکڑو۔‘‘

    تب اس بادشاہ نے اپنے وزیروں اور مصاحبوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ نوشیروان نے ان نصیحتوں پر خوب عمل کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج تین سو برس بعد بھی ان کا عدل و انصاف اور رحم دلی مشہور ہے۔

  • چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    یہ سرزمینِ عرب کے ایک بادشاہ اور اس کے مصاحبِ خاص کا قصّہ ہے جس میں‌ ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں ایک روز کسی طرح ایک شخص دربار میں‌ داخل ہونے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے۔ اندر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ بادشاہ آج کسی بات پر خوش ہے اور دربار کا ماحول بہت اچھا ہے۔

    اس شخص نے بادشاہ کو سلام کرکے عاجزانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس نے کہا کہ میں بے روزگار ہوں، جو کام مل جاتا ہے، کر لیتا ہوں اور محنت سے جی نہیں‌ چراتا، مگر کچھ عرصے سے قسمت نے یاوری نہ کی اور بہت تنگی سے گزر بسر کرتا رہا، اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔

    بادشاہ نے اس کی قابلیت پوچھی تو کہا۔ "سیاسی (یعنی معاملہ فہم اور دانا) ہوں۔”

    بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے شاہی اصطبل کا انچارج بنا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ کام پر لگ گیا۔ چند ہفتے بعد بادشاہ نے اسے طلب کرکے اپنے سب سے چہیتے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔

    اس شخص نے جو اب شاہی سواری کے لیے مخصوص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج تھا، جواب دیا، "حضور، وہ نسلی نہیں ہے۔”

    یہ سن کر بادشاہ کو تعجب ہوا۔ اس نے سائیس کو بلاکر اس بابت دریافت کیا۔ اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے، لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر زندہ رہا اور اسی کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔

    بادشاہ نے انچارج سے پوچھا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے۔؟

    اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سَر نیچے کر لیتا ہے جب کہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سَر کو اٹھا لیتا ہے۔

    بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے داد اور انعام کے طور پر اصطبل کے رئیس کے گھر اناج، بھنے دنبے اور حلال پرندوں کا عمدہ گوشت بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ملکہ کے محل میں تعیناتی کا حکم بھی جاری کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے اس مصاحب سے اپنی زوجہ کے بارے رائے مانگی۔

    اس نے کہا، طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، لیکن "شہزادی نہیں ہے۔” یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصّہ آیا، اور اس نے اپنی ساس جو خود ایک ملک کی ملکہ تھی، کو بُلا کر معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد نے بچّی کی پیدائش پر ہی اس کا رشتہ آپ کے لیے مانگ لیا تھا، لیکن وہ ایک بیماری کے سبب سال بھر ہی زندہ رہ سکی اور ہم نے بادشاہ یعنی آپ کے والد سے تعلق اور قرابت داری کے لالچ میں کسی کی بچّی گود لے کر پالی اور اسی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔

    اب بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ "تم نے کیسے جان لیا کہ میری زوجہ کسی شاہی خاندان کی عورت نہیں ہے۔”

    اس نے کہا، "وہ اپنے خادموں کے ساتھ بدسلوکی میں کسی جاہل سے بھی بدتر ہیں۔”

    اب تو بادشاہ نے اس شخص کو دانا اور نہایت عقل مند مان لیا۔ اس نے بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام بھی دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں خاص منصب عطا کیا۔

    کچھ وقت گزرا تو بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور کہا کہ میرے بارے میں کچھ بتاؤ۔

    اس مصاحبِ خاص نے کہا، "جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔” بادشاہ نے امان کا وعدہ کیا، اس نے کہا: "آپ کا طور طریقہ اور چلن بتاتا ہے کہ آپ بادشاہ زادے نہیں‌ ہیں۔”

    بادشاہ کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا، مگر وہ جان کی امان دے چکا تھا، سو چپ رہا اور سیدھا اپنی ماں کے پاس گیا۔ اس نے اپنے بارے میں ماں سے دریافت کیا تو اس نے بتایا:

    "اس مصاحب کی بات سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو ہم نے تمھیں لے کر پالا اور کسی کو اس کی خبر نہ ہونے دی کہ تم ہماری حقیقی اولاد نہیں‌ ہو۔”

    بادشاہ نے مصاحب کو پھر بلایا اور پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ہوا؟”

    اس نے کہا، جب شاہانِ وقت کسی کو انعام و اکرام دینا چاہتے ہیں تو اسے ہیرے موتی، جواہرات دیتے ہیں اور اشرفیوں میں‌ تولتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ بکریوں اور بھنا ہوا گوشت عنایت کرتے ہیں جیسے ایک معمولی رئیس کا طور ہوتا ہے۔”

    یہ حکایت اس وقت بیان کی جاتی ہے جب کسی کی خاص عادت اور طرزِ عمل کی بنیاد پر اس کے خصائل اور اخلاقی حالت کے بارے میں رائے دینا ہو۔