Tag: اردو خاکہ نگار

  • جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    جب تک گھٹنے سلامت ہیں!

    "سر سید کے گھٹنوں میں جو تکلیف تھی، اسے آرتھرائٹس کہتے ہیں۔

    میں نیویارک کے بازار نما بھنڈار (store) سے خریدی ہوئی خانگی صحت اور طب کی نئی کتاب کھولتا ہوں۔ لکھا ہے کہ انسان کے جسم میں 187 جوڑ ہیں۔ گھٹنے کے جوڑ کو عمر بھر جتنا بوجھ اٹھانا اور کام کرنا پڑتا ہے، اتنی مشقت کسی اور جوڑ کی قسمت میں نہیں لکھی۔ اس جوڑ کے بنانے میں قدرت سے ذرا سی چوک ہو گئی اور یہ اتنا مضبوط نہ بن سکا، جتنا اس کو ہونا چاہیے تھا۔

    صرف امریکا میں تقریباً پچاس ملین افراد ایسے ہیں، جو گھٹنے کے درد میں مبتلا ہیں۔ اگر علم کی دولت سے مالا مال ملک کا یہ حال ہے تو ہمارے پسماندہ ملک میں اس کی تباہ کاریوں کا کیا عالم ہو گا۔

    میں گھبرا کر دوسری کتاب اٹھا لیتا ہوں۔ یہ عالمی ادب کی رفتار اور ترقی کے بارے میں ہے۔ 250 سال قبل مسیح وفات پانے والے یونانی شاعر تھیوک رے ٹس (Theocritius) کے اس قول پر نظر ٹھہر گئی:

    "Men must do somewhat while their knees are yet nimble”

    ہر شخص کا فرض ہے کہ جب تک اس کے گھٹنوں کا پھرتیلا پن سلامت ہے، وہ جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کر دکھائے۔

    اس شاعر پر آفرین ہو جس نے سوا دو ہزار سال پہلے جوڑوں کے درد کو عالمی ادب میں جگہ دی۔ اہلِ روم بھی اس سلسلہ میں زیادہ پیچھے نہیں رہے۔ ایک بہت پرانی کہانی میں نوجوان لڑکی باپ کو جو گرمیوں کے موسم میں درخت کے نیچے لیٹا ہوا ہے، ایک کتاب پڑھ کر سنا رہی ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر مصنف نے یہ اضافہ کیا کہ باپ ریشمی غالیچہ پر لیٹا ہوا ہے، تا کہ وہ گنٹھیا کے درد سے محفوظ رہے۔

    میں عالمی ادب کی تاریخ ایک طرف رکھ دیتا ہوں اور تہذیبِ عالم کی تاریخ اٹھا لیتا ہوں۔ داستان کا تعلق ملکہ میری اسکاتلندی سے ہے۔ اسے پرستان کی ملکہ کہتے ہیں۔ پیدائش کے ایک ہفتہ بعد وہ اسکاٹ لینڈ کی ملکہ اور سولہ سال کی عمر میں فرانس کی ملکہ بن گئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی۔ قسمت کا پھیر اسے فرانس سے واپس اسکاٹ لینڈ لے گیا۔

    ہر روز بغاوت، ہر شب سازش، اکثر شکست، گاہے قید، بار بار فرار، کبھی میدانِ جنگ سے اور کبھی قید خانے سے۔ سالہا سال حراست میں رہنے کی وجہ سے اس کی صحت خراب ہو گئی۔ پینتیس برس کی عمر میں بال سفید ہو گئے اور گنٹھیا سے ٹانگیں اتنی سوج گئیں کہ دو چار قدم چلنا بھی دشوار ہو گیا۔

    چوالیس سال کی عمر میں اس نے چہرے پر نقاب ڈالا، روتی ہوئی وابستہ دامن خواتین کو صبر کی تلقین کی اور اپنا وبالِ دوش سر شاہانہ وقار کے ساتھ مشینِ گردن زنی کے کندھے پر رکھ دیا۔ مشین چلی۔ سر اُچھل کر دُور جا گرا۔ بے حس ٹانگیں جہاں تھیں وہیں پڑی رہیں۔”

    (مختار مسعود کی کتاب حرفِ شوق سے اقتباس)

  • میں سمجھا یہ کوئی پہلوان ہیں…!

    میں سمجھا یہ کوئی پہلوان ہیں…!

    نصر ﷲ خاں کا حلقۂ احباب وسیع اور ان کے شناسا بہت تھے۔ پاک و ہند کے مختلف شہروں میں ان کے دوست احباب اور ملنے والے موجود تھے جن میں ادیب، شاعر، صحافی اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل تھیں۔

    نصر اللہ خاں نے کئی معروف شخصیات کو بہت قریب سے دیکھا، جن کے خاکے 1948 میں شایع ہونے والی ان کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں شامل ہیں۔

    نصر ﷲ خاں ایک ادیب، صحافی اور کالم نویس کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، ان کے لکھے ہوئے خاکوں میں مولانا عبد السلام نیازی کی جھلک کچھ یوں ملتی ہے۔

    "مولانا عبدالسلام نیازی کو میں نے پہلی مرتبہ حکیم نصیر میاں کے دیوان خانے میں دیکھا تو سمجھا، یہ کوئی پہلوان ہیں۔ سَر گھٹا ہوا، چار ابرو کا صفایا، سَر پر چوٹی ہوتی اور دھوتی باندھے ہوتے تو متھرا کے چوبے معلوم ہوتے، شاہ نظام الدین حسن بریلویؒ کے مرید تھے۔”

    "جن لوگوں نے مولانا کا ناریل چٹختے دیکھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مولانا کا جلال دیکھنے کا ہوتا تھا۔ اپنے حریفوں پر ایسا گرجتے برستے تھے کہ اللہ کی پناہ، گالیاں دینے پر آتے تو ان گالیوں میں بھی علمی و ادبی رنگ جھلکتا۔ وہ عالموں میں عالم تھے، رندوں میں رند، پابند شرع اور عابد شب زندہ دار تھے۔

    مولانا بڑے طباع اور حاضر جواب تھے۔ جملہ ایسا چست کرتے کہ سبحان اللہ!”

    (کتاب ”کیا قافلہ جاتا ہے“ سے ایک ورق)