Tag: اردو خاکہ نگاری

  • مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    مولوی صاحب نے جب محبّت نامہ پڑھا!

    پروفیسر سید محمد عقیل نے اپنی زندگی کے تقریباً 70 سال اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزارے اور دو درجن سے زائد تصنیفات یادگار چھوڑیں‌۔

    وہ 2019ء میں‌ بھارت میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار ممتاز ترقّی پسند ادیبوں اور ناقدین میں‌ ہوتا ہے۔ پروفیسر سیّد محمد عقیل نے علمی و ادبی سرگرمیاں انجام دینے کے ساتھ تدریس کا پیشہ اپنایا اور نسلِ‌ نو کی تعلیم و تربیت کرتے رہے۔

    ان کی قابلِ ذکر کتابوں میں "اردو مثنوی کا ارتقا، اصول تنقید، ترقی پسند تنقید کی تنقیدی تاریخ، تنقید اور عصری آگہی، سماجی تنقید اور تنقیدی عمل، غزل کے نئے جہات، مرثیہ کی سماجیات” وغیرہ شامل ہیں۔

    ان کی خودنوشت سوانح حیات گئو دھول کے نام سے 1995ء میں شایع ہوئی تھی۔ یہاں ہم عقیل صاحب سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں جو بھارت کے معروف ادیب اور نقّاد ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے خاکوں کی کتاب ‘‘فن اور فن کار‘‘ سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ممتاز بزرگ افسانہ نگار رتن سنگھ کسی سلسلے میں الہ آباد آئے تو میں نے اپنے گھر پر ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا۔ رتن سنگھ نے افسانہ پڑھا۔ ہم سبھی نے اس کے موضوع پر اپنے اپنے انداز سے تبصرہ کیا۔

    عقیل صاحب بھی اس محفل میں موجود تھے۔ انھوں نے موضوع پر گفتگو کرنے کے بجائے دو تین جگہ پر املا اور جملے پر اعتراض کر دیے۔

    رتن سنگھ تھوڑا سا خفیف ہوئے، اس وقت کچھ نہ بولے، لیکن جب عقیل صاحب چلے گئے اور چند احباب رہ گئے تو رتن سنگھ نے بڑی دل چسپ بات کہی۔

    فاطمی! تمھارے استاد کا معاملہ ایک مدرسے کے اس مولوی کی طرح ہے جو لڑکے اور لڑکیوں دونوں کو پڑھاتا تھا، ان میں سے ایک لڑکی مولوی صاحب پر عاشق ہو گئی اور محبّت نامہ لکھ کر بھیج دیا، مولوی صاحب نے محبّت نامہ پڑھا اور املا کی دو تین غلطیاں نکال کر بڑی شفقت سے کہا۔ ”بی بی پہلے اپنا املا درست کیجیے، اس کے بعد عشق کیجیے گا۔”

  • ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    معروف ادیب اور مشہور ادبی جریدے ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے۔ انھوں‌ نے شخصیت اور تذکرہ نویسی کے علاوہ علمی و ادبی شخصیات سے خط و کتابت کو بھی اہمیت دی اور یہ خطوط اردو ادب میں معتبر و مستند ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انھیں محمد نقوش کا خطاب دیا تھا۔

    محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے وقت کے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی تھی۔ 1944ء میں انھوں نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ایک ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ لاہور سے شایع ہونے والے اس جریدے کے 18 شماروں کی اشاعت کے بعد محمد طفیل نے اس کی ادارت کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔

    ان کی ادارت میں نقوش کام یابی سے طباعت اور اشاعت کے مراحل طے کرتے ہوئے ہر لحاظ سے معیاری اور ممتاز جریدہ ثابت ہوا جس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام ور شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوئیں۔

    نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔

    محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے، ان کے خاکوں‌ کے مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی خود نوشت بعد از وفات ناچیز کے عنوان سے نقوش کے محمد طفیل نمبر میں شایع کی گئی۔

    محمد طفیل کو حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ میانی صاحب لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔