Tag: اردو خطوط

  • ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    روس کے مایہ ناز ادیب دوستوفسکی کی سزائے موت کو جب چار سال قید میں تبدیل کردیا گیا اور اسے سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں بھیج دیا گیا، تو وہاں جانے سے پہلے اس نے اپنے بھائی کو ایک خط لکھا جو اس کے جذبات اور شدّتِ احساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ قید کے دوران صرف لکھنے کی اجازت چاہتا تھا اور اس کی سب سے بڑی آرزو یہی تھی۔

    پیارے بھائی!
    میں بالکل افسردہ نہیں ہوں۔ میں نے غم کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہیں دیا۔ زندگی ہر جگہ زندگی ہے، وہی ہے جو ہمارے اندر ہے نہ کہ وہ جو باہر ہے۔

    میرے ساتھ اور بھی بہت لوگ ہوں گے۔ عوام کے درمیان معمولی انسان کی حیثیت میں رہنا، ہمیشہ اسی طرح زندگی بسر کرنا اور مصائب کی پروا نہ کرنا…. یہ ہے زندگی۔ یہی زندگی کا اصلی مقصد۔ میں اس چیز کو بخوبی سمجھ چکا ہوں۔ یہ خیال میرے گوشت پوست، رگ رگ اور نخ نخ میں سرایت کر گیا ہے اور یہ بالکل صداقت پر مبنی ہے۔

    وہ سَر، جو خیالات و افکار کی تخلیق کرتا تھا، وہ سَر، جو آرٹ کی بلندیوں میں اپنا آشیانہ بنائے تھا اور جو روح کی بلند ترین ضروریات سے آگاہ اور ان کا عادی تھا۔ وہ سَر، اب میرے شانوں سے علیحدہ ہوچکا ہے۔

    وہاں ان تخیلات کے دھندلے نقوش باقی رہ گئے ہیں، جو میں ابھی صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں کر سکا۔ یہ افکار ذہنی عذاب کا باعث ضرور ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے دل میں ابھی تک وہ خون اور گوشت موجود ہے جو محبّت بھی کر سکتا ہے، مصیبت بھی جھیل سکتا ہے، جو خواہش بھی کرسکتا ہے اور آخر یہی تو زندگی ہے۔

    اگر کوئی شخص میرے متعلق اپنے دل میں کدورت رکھتا ہے، میں نے کسی سے جھگڑا کیا ہے یا میں نے کسی کے دل پر برا اثر چھوڑا ہے تو اس سے ملو اور میری طرف سے التجا کرو کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ میرے دل میں ذرّہ بھر میل نہیں ہے۔

    اس وقت میری یہی خواہش ہے کہ میں اپنے احباب میں سے کسی کے گلے ملوں۔اس سے دل کو اطمینان ہوتا ہے۔

    میرا خیال تھا کہ میری موت کی خبر تمہیں ہلاک کر دے گی لیکن اب تمہیں کوئی فکر نہیں کرنا چاہیے، میں زندہ ہوں اور اس وقت تک زندہ رہوں گا، جب ہم دونوں دوبارہ بغل گیر ہوں گے۔

    ماضی کی طرف رخ پھیر کر دیکھتا ہوں کہ بہت فضول وقت ضائع ہوا ہے۔ بیشتر ایّام خوابوں، غلط کاریوں اور بیکار مشاغل میں گزرے ہیں۔ میں نے کئی بار ضمیر کے خلاف کام کیا ہے۔ یقین مانو میرا دل خون روتا ہے۔

    زندگی نعمت ہے، زندگی مسرت ہے۔ ہر وہ لمحہ جو ضائع ہوچکا ہے شادمان عرصۂ زندگی ہونا چاہیے تھا۔ اب کہ میں اپنی زندگی بدل رہا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری روح نئے قالب میں داخل ہو رہی ہے۔ لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ میرے ہاتھ قلم کو ترستے رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ چار سال کے بعد مجھے قلم پکڑنا نصیب ہوگا۔

    اے کاش! مجھے صرف لکھنے کی اجازت دی جائے۔ کتنے افکار کتنے خیالات جو میں نے تخلیق کیے تھے، تباہ ہو جائیں گے، میرے ذہن کی یہ چنگاریاں یا تو بجھ جائیں گی یا میری رگوں میں ایک آتشیں زہر بن کر حلول کر جائیں گی۔

    (مترجم: سعادت حسن منٹو)

  • ایک خط سے جھلکتی فراق گورکھ پوری کی انکساری اور عاجزی

    ایک خط سے جھلکتی فراق گورکھ پوری کی انکساری اور عاجزی

    اردو ادب میں‌ مرزا غالب کے خطوط تو بہت مشہور ہیں، مگر ہندوستان کے دیگر مشہور و معروف تخلیق کاروں‌ کے خطوط بھی اپنے متن اور اسلوب کی وجہ سے نہایت اہم اور علمی و ادبی سرمایہ ہیں۔

    ہم یہاں‌ معروف ادیب، خاکہ نگار اور ’نقوش‘ کے مدیر محمد طفیل کے نام مشہور شاعر اور نقاد فراق گورکھ پوری کا ایک خط پیش کر رہے ہیں۔

    اس خط میں‌ جہاں‌ آپ ایک ہم عصر سے دوستانہ تعلق، شائستہ اور پُرلطف طرزِ تخاطب کا رنگ دیکھیں‌ گے، وہیں فراق کی انکساری اور عاجزی بھی قابلِ توجہ ہے۔

    محمد طفیل،
    4/8 بینک روڈ، الٰہ آباد
    12جون 1954

    برادرم تسلیم

    آپ نے یہ خط بڑے دنوں کے بعد لکھا اور عذر یہ کیا کہ مصروف رہا۔ مصروف کون نہیں ہوتا، مصروف تو وہ بھی ہوتا ہے جسے دنیا کا کوئی کام نہیں ہوتا۔

    میں نے جو آپ کے خطوں کے جواب میں اتنے اتنے لمبے خط لکھے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں بالکل ہی بیکار تھا۔

    پہلے تو آپ کا خیال یہ تھا کہ میرے جوابات کی روشنی میں مجھ پر لکھیں گے۔ اب آپ کا یہ کہنا ہے کہ اگر اجازت ہو تو ان خطوط کو ہوبہو چھاپ دوں۔ میری طرف سے تو ان کی اشاعت کی اجازت ہے، اس دریافت کا بھی شکریہ کہ ان خطوں میں تاریخی مواد ہے اور انھیں حرف بہ حرف چھپنا چاہیے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ دو ایک بار آپ نے لکھا تھا کہ میں نے بعض جگہوں پر بڑی رواداری میں لکھا ہے، بس ان با توں کا خیال رکھ لیجیے، لیکن یہ مت کیجیے گا کہ آپ مجھے انسان بھی نہ بننے دیں۔ میری کم زوریوں کا بھی اظہار ہونا ہی چاہیے۔

    اگر مجھے پہلے علم ہوتا کہ آپ میرے ہی خط چھاپیں گے، تو میں صرف اپنی کم زوریاں ہی کم زوریاں بیان کرتا۔ اس لیے کہ لوگ صرف اپنی خوبیاں ہی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ اگر آپ انڈیا آ رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو گی، لیکن الٰہ آباد کا نام انڈیا نہیں ہے، اور یہ آپ نے لکھا نہیں کہ الٰہ آباد بھی آؤں گا۔ مجھے اپنے پروگرام سے مطلع کیجیے گا۔

    آپ کا
    فراق