Tag: اردو خطوط نگاری

  • زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    زبان آزادی نہیں‌ پابندی چاہتی ہے!

    ہر شخص کو اپنی زبان پیاری ہوتی ہے۔ ادیبوں اور شاعروں کو اور بھی زیادہ۔ کیوں کہ زبان کا بنانا سنوارنا اور اسے ترقّی دینا انہیں کا کام ہوتا ہے۔

    اسے سیکھنے اور سلیقے سے برتنے کے لیے انہیں سیکڑوں معیاری کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے۔ پھر انہیں مشق و مزاولت کے ہفت خواں طے کرنے پڑتے ہیں۔ اس پر بھی برسوں کے بعد ان کی نثر یا نظم میں چٹخارہ پیدا ہوتا ہے۔

    امیرؔ اک مصرعۂ تربت کہیں صورت دکھاتا ہے
    بدن میں خشک جب ہوتا ہے شاعر کے لہو برسوں

    زبان کا معاملہ آزادی کا نہیں پابندی کا ہے۔ ادیبوں کا ایک ایک لفظ زبان و بیان کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے کیوں کہ ادیب سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نفیس اور قابلِ تقلید نثر لکھے لگا۔ ہر ادیب کی امکانی کوشش یہی ہونی چاہیے۔ تو اس کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا کہ وہ بے عیب نثر لکھتا ہے، یا اس سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے سامنے رہ نمائی اور تقلید کے لیے اسلاف کے اعلیٰ نمونے ہیں۔

    دلّی اور لکھنؤ کے نمونے بڑی حد تک مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ کنگز انگلش کے بعد آکسفورڈ اور کیمبرج کی انگریزی مثالی تصور کی جاتی ہے۔ اب دلّی اور لکھنؤ مرکز نہیں رہے تو لاہور اور کراچی مرکز بن گئے ہیں اور لاہور تو ایک صدی سے اردو کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کراچی قیامِ پاکستان کے بعد بن رہا ہے، کیوں کہ دلّی اور لکھنؤ کی بیشتر آبادی کراچی میں منتقل ہو گئی ہے اور اب اس 22 لاکھ آبادی کے شہر میں اردو کے مقتدر ادارے بھی قائم ہو چکے ہیں۔

    (اردو کے حال اور مستقبل سے متعلق صاحب اسلوب ادیب، تذکرہ و خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے خیالات، جن کا اظہار انھوں نے اپنے ایک ہم عصر کو لکھے گئے خط میں‌ کیا تھا)

  • مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے آیا ایک خط!

    ذاکر باغ،
    مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
    5 جنوری 1975

    مکرمی، سلام مسنون

    آپ نے جن مقامات کی سیاحت فرمائی، وہاں کے جن گزشتہ اور موجودہ علما، شعرا، سلاطین اور اکابر کو یاد کیا اور ان کی منزلت یاد دلائی، نیز یہ کہ ان کے عظیم کارنامے کتنے وسیع خطۂ ارض، کیسی گراں قدر تصانیف اور یادگاروں اور مختلف الاحوال لوگوں کے ذہن و دماغ میں کس طرح اور کس شکل میں جلوہ گر ہیں اس کا احساس شاید ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے طبقے میں بھی کم ہی لوگوں کو ہوگا۔

    ان کار ہائے عظیم اور خدماتِ جلیلہ کے باوجود ہماری جو حالت و شہرت مہذب دنیا میں ہے وہ کتنی عبرت ناک ہے۔ آپ نے اس کا احساس کیا اور کلام پاک کے حوالے سے اس کا جواب بھی دیا۔ لیکن کلامِ پاک کی تنبیہ اور تاکید کو یاد دلانا آسان ہے اس کو منوانا اور ذہن نشیں کرا دینا، جس کی قدرت میں ہے، وہ نہ ہمارے بس کا ہے نہ آپ کے بس کا۔

    قلب ضرور ہمارا ہے، لیکن اس کا مقلب تو کوئی اور ہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں کا اقبال گزشتہ تہذیبوں کے فطری زوال کے مانند عمر طبعی کو پہنچ چکا ہو۔ ایسا ہے تو اس کی ضرب کہاں کہاں پہنچتی ہے اس کا اندازہ مجھ سے کہیں زیادہ آپ کرسکتے ہیں۔

    دعا ہے کہ آپ اس پایہ کی تصنیف سے ہمارے ولولوں کو آنے والے اچھے دنوں کی بشارت سے تازہ کار رکھیں گے اور تقویت پہنچاتے رہیں گے۔ آپ کی تصانیف میں انشا پردازی کا جو حسن، جامعیت اور ”موافق الاحوال“ ہونے کی صفت پائی جاتی ہے اس کا اعتراف مجھ سے بہتر لوگ کرچکے ہیں۔ مختلف تقریبوں میں آپ کی تقریریں بڑی عالمانہ، شگفتہ، شائستہ اور بَرمحل ہیں۔ کہیں کوئی ڈھیل بر بنائے مصلحت نہیں ملتی۔ سطرِ آخر سے پہلی سطر میں آپ نے ”اسلامی نخوت“ کا فقرہ لکھا ہے۔

    نخوت کا لفظ اسلامی کے ساتھ کھٹکا، عربی، فارسی زبان میں نخوت کا جو بھی مفہوم ہو، اردو میں تکبر، گھمنڈ اور غرور کے معنی میں بالعموم استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر کبرونخوت ہی بولتے ہیں۔ اردو میں نخوت کو بزرگی کا مفہوم شاید ہی کسی نے دیا ہو، لیکن اس معاملے میں آپ کا قول، قولِ فیصل ہے۔

    دعا ہے کہ آپ خوش و خرم ہوں۔

    مخلص
    رشید احمد صدیقی


    (ممتاز ادیب، نقاد اور محقق رشید احمد صدیقی نے معروف عالمِ دین اور نہایت قابل شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی کے نام اس خط میں‌ ایک سفر نامے پر مولانا کو مسلمانوں‌ کا حقیقی خیر خواہ اور مصلح کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے)