Tag: اردو زبان

  • تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان اور اردو زبان

    تحریکِ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے بے مثال جذبے، جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی داستان ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کو بیک وقت جن دو دشمن قوتوں کا سامنا تھا، ان میں ایک انگریز سامراج اور دوسرا وہ ہندو تھا جو دل میں بغض و عناد اور مسلمانوں سے عداوت رکھتا تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی جو ناکام رہی۔ مگر بعد میں یہ کھلا کہ ہندو قیادت انگریزوں سے مل کر مسلمانوں‌ کے خلاف سازش کر رہی ہے تو مسلمان اکابرین نے اپنی شناخت اور قومیت کو بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

    1857ء کے بعد ہندوؤں کو محسوس ہوا کہ مسلمانوں‌ کی وجہ سے ان کا متحدہ ہندوستان پر راج قائم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تو انہوں نے انگریز سرکار کی قربت حاصل کر لی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کر دیا اور دوسری طرف ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کی شناخت مٹائی جاسکے۔ انہوں نے اقتصادی و معاشی، تہذیبی و ثقافتی، علمی و ادبی الغرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلا واسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اردو زبان جو برصغیر کی بولیوں اور مسلمان ریاستوں کی زبانوں عربی، ترکی اور فارسی کا امتزاج تھی اور مسلمانوں کے عہد میں ہی پروان چڑھی تھی، اپنے ارتقائی سفر کو طے کرتے ہوئے برصغیر کی مقبول ترین زبان بنی اور مسلمانوں کی شناخت اسی سے کی جانے لگی۔ چوں کہ اس زبان میں بکثرت عربی اور فارسی الفاظ شامل تھے اور اس کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی تھا، اس لیے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے صرف مسلمانوں کی زبان کہہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا۔

    تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ علیحدہ وطن کے مطالبہ کی وجوہ میں ایک اردو ہندی تنازع بھی شامل تھا۔ زبان ایک ثقافتی عنصر ہے۔ کسی قوم کی زبان اس کے مافی الضمیر کے اظہار اور اس کی تہذیب و ثقافت کی علم بردار ہوتی ہے۔ برصغیر میں یہ زبان مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کا وسیلہ بنی کیوں کہ برطانوی حکومت نے دفاتر سے فارسی زبان کا خاتمہ کردیا تھا۔ اس کے بعد اردو ہی عوام اور خواص میں مقبول ہوئی جسے مخصوص ذہینت کے حامل ہندو قبول نہ کرسکے اور زبان کا تنازع بھی زور پکڑ گیا۔

    اردو زبان کے ساتھ مسلمانوں کا لگاؤ اس لیے بھی تھا کہ حضرت امیر خسرو سے لے کر ولی دکنی تک اور میر و غالب جیسے شاعر بھی فارسی اور مقامی بولیوں کے ساتھ اسی زبان سے وابستہ تھے۔ اس سرمائے اور اپنی شناخت کی حفاظت مسلمانوں کا ملّی اور قومی فریضہ تھا۔دوسری طرف تنگ نظر ہندو سوچ اردو زبان کو مٹا کر ہندی کو فوقیت دلانے پر کمر بستہ تھی۔ ان حالات میں علیحدہ وطن کا مطالبہ زور پکڑتا گیا اور پاکستان بن کر رہا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اردو زبان کے خلاف اس محاز آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا۔ اس ضمن میں محمد علی چراغ اپنی کتاب اکابرینِ تحریک پاکستان میں لکھتے ہیں:

    ’’سر انتونی میکڈانل نے متحدہ صوبہ جات کا گورنر بنتے ہی صوبہ بہار سے اردو کو ختم کرکے اس کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ اردو چونکہ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک طرح کی شناخت کا ذریعہ تھی اس لئے مسلمانوں نے اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنا شروع کیا‘‘۔

    اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ ’’اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا وہ ’’انجمنِ ترقیِ اردو” تھا۔ اور کئی ایسی تنظیموں‌ اور اہل علم و ادب کی جدوجہد سے ہندوؤں پر واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر میں موجودہ دور میں اردو کے دامن میں پھلنے پھولنے والی اپنی تہذیب اور ثقافت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اردو ہندی تنازع پر بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد جو سب سے بڑا سانحہ ہوا وہ یہ ہے کہ اس ملک میں انہوں محکوم قوم کی زبان سنسکرت اور ہندی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ ہندو اردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی اور اس کے علاوہ اردو زبان ہندو سماج کی نمائندگی کرنے کے بجائے اسلامی معاشرت کی نمائندگی کرتی تھی۔ لہٰذا ہندوؤں نے اس کے مقابلے میں ہندی کو لا کھڑا کیا تھا۔ حالانکہ اس سے پیشتر برعظیم کی زبان اردو یا اردو کی کوئی مورد اور مفرس قسم ہی ایک عام زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عہد تک اسی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لیے ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور چینیوں نے بھی کام کیا۔ پھر مسلمانوں میں عام لوگوں سے بڑھ کر صوفیائے کرام نے بھی اس مد میں اہم خدمات انجام دیں۔ اردو کو قوت بخشی اور اسے بجا طور پر محفوظ کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ 1857ء کے بعد تو چونکہ اردو ہندی تنازع اردو اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بن گیا تھا۔ اس لیے واضح طور پر ہندوؤں کے لیے ہندی زبان اور مسلمانوں کے لیے اردو زبان ان کی دو سیاسی امتیازی نشان اور قومی علامتیں بن گئی تھیں‘‘۔

    اس دور میں اردو ہندی تنازع لسانی سے بڑھ کر سیاسی نوعیت کا ہو چکا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے تو ساتھ ہی اردو زبان کے تحفظ کو بھی لازمی خیال کیا جاتا تھا۔ بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں انہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4 دہائیوں سے لڑ رہے تھے۔ جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔

    تحریک پاکستان کے پورے سفر میں رابطہ کی زبان اردو رہی۔ ایک طرف تحریک پاکستان میں عوامی رابطہ کی زبان اردو تھی اور تقاریر، جلسے اور ریلیوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ بھی اسی زبان میں ہو رہی تھی جب کہ دوسری طرف ہمارے شاعر اور ادیب اردو زبان میں نظریۂ پاکستان کا تحفظ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:

    ’’برعظیم کے مسلمانوں میں اجتماعی روح پیدا کرنے، ان کے ملّی اور قومی شعور کو بیدار کرنے، اسے تقویت دینے اور سیاسی انتشارات کی مختلف تباہیوں اور بربادیوں کے بعد ان کے مردہ دلوں کو حرارت سے آشنا کرنے میں اردو زبان و ادب نے جو اہم کردار ادا کیا، وہ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوا‘‘۔

    اردو زبان کے ان شاعروں اور ادیبوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے قلم کے ذریعے کردار ادا کیا۔ تحریکِ پاکستان میں اردو زبان کے جس شاعر کا سب سے اہم اور ناقابلِ فراموش کردار رہا وہ مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ہیں۔ ان کی نظم و نثر نظریہ پاکستان کی عکاس اور محافظ ہے۔ ان کے بعد جس شاعر کا نام اس ضمن میں اہم ہے وہ رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی ہیں۔ وہ ایک سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ اردو زبان کے اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں برطانوی سامراج کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھا جس کی وجہ سے ان کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافتی میدان میں بھی وہ سر گرمِ عمل رہے۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی اردو شاعری اور صحافت کے ذریعے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کانام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

    اردو شاعری کی طرح اردو نثر نے بھی تحریک پاکستان میں اپنا حصّہ ڈالا۔ اردو زبان کے جن ادیبوں نے نظریۂ پاکستان کا پرچار کیا ان میں عبد الحلیم شرر، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، عبد المجید سالک، مولوی عبد الحق وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

    تحریک پاکستان کے دوران صحافتی میدان میں بھی اردو زبان کے بے شمار اخبارات، رسائل اور جرائد نظریۂ پاکستان اور تحریک پاکستان کی تائید کرتے رہے اور ان کے مالکان کو قید و بند کے ساتھ انگریز سرکار کی جانب سے جرمانے بھی کیے گئے۔

    (وقار حسن کے تحقیقی مضمون سے منتخب پارے)

  • کیا اردو کے فروغ کے لیے فلم اور میڈیا کسی کام آسکتا ہے؟

    کیا اردو کے فروغ کے لیے فلم اور میڈیا کسی کام آسکتا ہے؟

    موجودہ عہد میں اپنے فکشن اور منفرد تخلیقات کی وجہ سے اردو ادب میں مشرف عالم ذوقی ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔ انھوں نے اردو زبان اور کلچر کے علاوہ دورِ جدید کے موضوعات پر تنقیدی مضامین لکھے۔ ان کی تحریروں‌ کا ایک موضوع فن و ادب اور اس سے وابستہ لوگوں کی مشکلات، جدید دور میں‌ ان کے مسائل اور امکانات رہے ہیں۔

    مشرف عالم ذوقی نے ناول اور افسانہ نگاری میں انفرادیت کے ساتھ اپنی پہچان بنائی۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کی یہ تحریریں فن اور سماج کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ مستقبل کے خطرات، بڑی تبدیلیوں اور نئے امکانات کا راستہ دکھاتی ہیں۔ یہ مضمون اسی نوعیت کا ہے جس میں مصنف نے بھارت میں اردو زبان کے مسائل اور مستقبل پر بات کی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کا مضمون پڑھیے:

    زندہ زبانیں زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ ہوتی ہیں اور ان کے اثرات اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ ہر شعبے کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اردو ہماری ضرورت کی حدوں سے دور ہوتی جارہی ہے۔ اردو بولنے والے معاشرے کے سامنے اب تشخص کے ساتھ زبان کے تحفظ کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ اور اسی لیے یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ اردو کو زندہ رکھنے نیز فروغ دینے کے لیے کس طرح کی تدبیریں کی جاسکتی ہیں۔ اور یہیں پر دھند بھرے موسم میں ایک سوال ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے…. کہ کیا اردو کے فروغ کے لیے فلم اور میڈیا ہمارے کسی کام آسکتا ہے؟ دیگر صورت میں اگر فلم اور میڈیا سے بات نہیں بنتی ہے تو اس کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟

    ایک وقت تھا جب یہی زبان ہماری بول چال اور رابطے کی زبان تھی۔ یہی وہ شیریں اور دلنشیں زبان تھی جس نے گفتگو کا سلیقہ سکھایا، جینے کے آداب دیے….. گنگا جمنی تہذیب سے رشتہ استوار کیا اور یہی وہ زبان تھی جسے ہماری فلمی صنعت نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہی وہ زبان تھی جس نے غلام ہندوستان اور فرنگیوں سے مورچہ لیا۔ سیاست کے طوفان اور تقسیم کی آندھیوں سے گزری اور لہولہان ہوئی۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ رابطے کی زبان، کروڑوں دلوں کی دھڑکن نظر انداز کیے جانے والے سلوک اور غیریت کی دھول میں کھوتی چلی گئی۔ لیکن اس سوتیلے سلوک کے باوجود یہ اردو زبان بیان کا ہی دم تھا کہ نہ صرف یہ زبان زندہ رہی بلکہ مسلسل جدو جہد کے راستے، اپنوں سے زیادہ غیروں کے دلوں تک کا سفر طے کرتی رہی اور زندہ رہی۔ مگر اب مشکل یہ پیش آ رہی ہے کہ اردو جاننے والی نسل پرانی ہوچکی ہے اور نئی نسل اردو سے بیزار۔ اور اس بیزاری کی وجہ ہے کہ نئی نسل کو اردو میں اپنا مستقبل نظر نہیں آتا۔ اس لیے پہلا سوال یہیں سے پیدا ہوتا ہے کہ اردو کے فروغ کی صورتیں کیا ہوسکتی ہیں۔ میڈیا اورفلم اردو کی مقبولیت میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    میں بچوں کی پڑھائی کو لے کر اپنی گفتگو کی شروعات کرتا ہوں۔ وقت کے ساتھ ایجوکیشنل سسٹم میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس سسٹم کو ڈیجیٹل ٹکنالوجی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ زیادہ تر گھرانے بچوں کی اردو تعلیم کے لیے پرانی روش پر چل رہے ہیں جب کہ بچے آنکھیں کھولنے کے بعد ہی موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور ٹبلیٹ سے کھیلنے لگتے ہیں۔ یعنی آنکھیں کھولتے ہی وہ خود کو سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے قریب پاتے ہیں۔ لیکن ہوش سنبھالتے ہی اردو اور مذہبی تعلیم کے لیے جو سسٹم ان کے سامنے لایا جاتا ہے، اس میں ان کی دل چسپی نہیں ہوتی۔ میں اپنا ایک تجربہ آپ سے شیئر کررہا ہوں۔ بچوں کی تعلیم کے لیے ای بکس، ویڈیو گیمس اور خوبصورت ٹیبلٹس کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ایک بڑے پبلیکیشن ادارے نے ابھی کچھ دن پہلے مجھ سے رابطہ کیا۔ یہ بچوں کے لیے کتابیں شائع کرتا ہے اور اس کا کروڑوں کا کاروبار ہے۔

    A book of enviormental study کی ایک کتاب تھی جس میں بچوں کو گھر، والدین، پڑوسی، صاف صفائی، صحت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ پبلشر نے میٹنگ میں بتایا کہ بچوں کو اب کتابوں کی ضرورت نہیں۔ انہیں فلم چاہیے۔ مائی سیلف My Faimly، ہیلتھ الگ الگ باب کو لے کر وہ 22 سے 25 منٹ کی فلم شوٹ کرنا چاہتے ہیں۔ میٹنگ میں طے ہوا کہ ہر باب کو فلم کا رنگ دیا جائے۔ اور بچوں کی نفسیات کی سامنے رکھ کر فلم بنائی جائے۔ پبلشر کے ساتھ میری کئی میٹنگس ہوئی۔ پبلشر کا خیال تھا کہ بچے اسپائیڈرمین، آئرن مین اور اسٹار وارس جیسا شو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر پروگرام کی تقسیم کچھ اس طرح ہو کہ 60 فیصد انہیں تفریح فراہم کی جائے اور 40 فیصد تعلیم کا حصہ ہو۔ میری رائے تھی کہ بیسک ایجوکیشن کے لیے بچوں کو اسپائیڈر مین، آئرن مین اور اسٹار وارس کی دنیا میں لے جانا مناسب نہیں۔ انہیں پری اور دیو کی کہانیاں سنائی جائیں۔ مثال کے لیے پرستان سے ایک پری آتی ہے۔ ایک بچہ ہے جو بالکل پڑھنا نہیں چاہتا۔ پری بچے سے ملتی ہے۔ اور وہ اسے پڑھانا شروع کرتی ہے۔ جب ہم بنیادی تعلیم بچوں کو دے چکے ہوں گے تو پھر ہم کچھ زیادہ بڑے بچوں کے لیے مارس، اسٹار وارس جیسی کہانیاں بھی لے آئیں گے۔ ڈائرکٹرس میری بات سے مطمئن تھے….بچوں کو فنٹاسی بھی چاہیے اور تعلیم بھی۔ اور جب آپ دونوں کا مکسچر دیتے ہیں تو پھر بچوں کو تعلیم کی طرف جھکاؤ کے لیے زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تعلیم کو انفوٹینمنٹ سے جوڑنا ہوگا۔

    ایک سروے کے مطابق اس وقت دنیا میں چھ ہزار اور ہندوستان میں 880 زبانیں ہیں جو بولی جاتی ہیں۔ زبانیں تیزی کے ساتھ ختم ہورہی ہیں۔ یونسکو نے زندہ رہنے والی زبانوں میں چینی، انگریزی، جاپانی، ہسپانوی، بنگالی اور ہندی کو ملا کر کل ساتھ زبانوں کو شامل کیا ہے۔ 65۔ 60 سال پہلے ہندوستان میں عام بول چال سے لے کر قانون کی کتابوں تک اردو کا ہی چلن اور رواج تھا۔ آج ہندی محفوظ زبانوں میں شامل ہے اور (ہندوستان میں) اردو گم ہورہی ہے۔ زبانوں کے گم ہو جانے کا مطلب ایک تہذیب کا گم ہوجانا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ قومی اردو کونسل نے اس جانب خصوصی توجہ کیا ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی، اور ڈاکٹر خواجہ اکرام کی ٹیم اس ماڈرن ٹیکنالوجی کی ضرورتوں پر غور کررہی ہے جس کے سہارے اردو زبان کو ڈیجیٹل اور نئی ٹکنالوجی کے ساتھ سیدھے عوام سے وابستہ کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے لیے اردو لرننگ کورس کی سہولیت۔ ای بکس کی جانب توجہ۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے ذریعہ زبان کو ہر خاص و عام تک لے جانے کا جذبہ۔ اردو کی وکی سائٹ، فونیٹک اور کسٹمائزڈ کی بورڈ کا اجراء۔ اردو کی آن لائن اور آف لائن ڈکشنری، آگے بڑھیں تو ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ، ٹبلیٹ، اینڈ رائیڈ، ونڈوز فون میں اردو کا استعمال، اور اس سے بھی آگے بڑھیں تو اردو ٹولس اور اردو میڈیا کے ذریعہ اردو کو مقبول بنانے کی کوشش اور ان کا فائدہ یہ کہ کمپیوٹر ٹکنالوجی کے ذریعہ بھی اردو کو روزگار سے جوڑا جاسکتا ہے۔ قومی اردو نے نسل کو زبانوں کو زندہ رہنے کا یہ راز جان لیا ہے کہ زبان کو روزگار کا راستہ دکھا دیں تو اس سے بڑھ کر فروغ کی دوسری کوئی کوشش ہو ہی نہیں ہوسکتی۔

    فلمیں بھی الکٹرانک میڈیا کا ہی حصہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان فلموں میں اردو کا چلن تھا۔ اداکار سے ٹیکنیشئنس تک سب اردو بولنے والے لوگ تھے۔ مکالموں سے گیت تک اردو کا ہی رواج تھا۔ نئی صدی کے 13 برسوں میں اردو فلموں سے گم ہے اور اردو والے بھی۔ منا بھائی ایم بی بی اس اور گینگس آف واسع پور جیسی فلموں سے موالیوں کی زبان کا چلن بڑھا ہے۔ اردو تو کجا ہندی بھی مکالموں سے باہر ہو چکی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ صرف تاریک پہلوؤں کو لے کر ہم اپنی زبان کے فروغ کے بارے میں غور نہیں کرسکتے اور نہ صرف ماضی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے سے کوئی بات بنے گی۔ اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ فلموں میں از سر نو اردو کا فروغ کیسے ہو تو اس کے لیے یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ کیا ہماری طرف سے کی جانے والی کوششیں کافی ہیں؟ تو میرا جواب ہے نہیں۔

    فلموں سے غزلوں کا چلن بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ میوزک انڈسٹریز کی توجہ بھی غزلوں سے ہٹ چکی ہے۔ لیکن چیلنج یہی ہے کہ اردو زبان کو تاریکی سے نکال کر اطلاعات ٹکنالوجی کے مقابل کھڑا کیا جائے۔ صارفی سماج کی ضرورتوں اور کمرشلائزیشن کا ساتھ دیتے ہوئے اردو کو نمایاں طور پر فلم انڈسٹری اور میڈیا میں ایک بار پھر سے مقبول عام بنانے کی ضرورت ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں ایک بڑی دنیا ہارڈ ڈسک، ڈی وی ڈی، پین ڈرائیو میں سما چکی ہے۔ اس ڈیجیٹل اور سائبر دور میں ہم نئی ٹکنالوجی کے سہارے ہی اردو کے فروغ کے بارے میں غور کرسکتے ہیں۔ ابھی حال میں فیس بک اور ٹوئیٹر کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسی سطح پر بزم اردو کی شروعات کی گئی ہے۔ بزم اردو کی معرفت فیس بک کی طرح ہی آپ اپنے خیالات بھی شیئر کرسکتے ہیں، دوست بھی بنا سکتے ہیں۔ تصاویر بھی اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ اردو زبان کو انہی راستوں سے ہو کر مستقبل میں سفر کرنا ہے۔

    انٹرنیٹ نے ہماری آج کی زندگی کو آسان کردیا ہے۔ یہاں آپ کی سہولت کے لیے وہ سب کچھ ہے جس کی آج ایک ترقی یافتہ اور مہذب دنیا کو ضرورت ہے۔ آئن لائن ٹریڈ، آن لائن لرننگ سے لے کر دنیا کی تمام سہولتیں انٹرنیٹ کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انٹرنیٹ سے اردو کے رشتے کو اور مضبوط بنایا جائے۔ گوگل سرچ انجن نے دیگر کئی زبانوں کے ساتھ اردو کو بھی شامل کیا ہے۔ آپ گوگل اردو میں جاکر اپنے مطلب کی ایک وسیع وعریض دنیا تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ فیس بک میں اردو کا چلن بڑھا ہے۔ اور پوری دنیا سے ایک بہت بڑی تعداد اردو جاننے والوں کی، ایک دوسرے سے اردو میں رابطے کی پہل کررہی ہے۔ ابھی حال میں جب فیس بک کے عالمی افسانہ میلے کے تحت کہانیوں کی فرمائش کی گئی تو صرف 4 دن کے اندر سو سے زیادہ نئے لکھنے والوں کی کہانیاں اس میلے حصہ تھیں۔ افسانہ میلہ کے نگراں بھی اس حقیقت سے واقف نہیں تھے کہ اردو والوں کی اتنی بڑی تعداد اس میلے کا حصہ بن سکتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو ماڈرن انفارمیشن ٹکنالوجی سے قریب کرتے ہیں تو زبان کے فروغ کے راستہ بھی کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اردو یونیکوڈ نے بھی عوامی رابطہ کو آسان بنایا ہے۔ اردو میں ہزاروں ادب کی سائٹس، ڈیجیٹل لائبریریاں موجود ہیں۔

    گلوبلائزیشن کے اس عہد میں یہ دنیا ایک وسیع بازار میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اور اس بازار میں آپ کو نئی اور ماڈرن ٹکنالوجی کے ساتھ ہی رہنا اور جینا ہے۔ آپ اپنی زبان سے ہمدردی رکھتے ہیں تو آپ کو صرف اتنا کرنا ہے کہ اس بازار کے ساتھ اپنی زبان کو وابستہ کر دیجیے۔ اور اس زبان کا ہمدردی اور محبت سے ایک مضبوط حصہ بن جائیے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سیموئیل ہنگٹن نے اپنی کتاب کلیش آف سویلائزیشن میں ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ اس دور کو فکر و خیال کی موت سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہم نتیجہ پر پہنچیں تو احساس ہوگا کہ کمرشلائزیشن نے فکر کی جگہ ایک بڑے بازار کو آپ کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ انڈسٹری، بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانے اور میڈیا والے مسلسل اس بات پر نگاہ رکھ رہے ہیں کہ یہاں کیا فروخت ہورہا ہے اور کس شے کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ اردو اس بازار میں پہنچ چکی ہے۔ آپ کو مارکیٹنگ اور مینجنگ کا ہنر آتا ہے تو ابھی صرف اردو کو مقبول بنانے اور مارکیٹ ورلڈ کی ضرورت ہے۔ اردو اپنے عالمگیر کردار کے ساتھ بازار کی اس دنیا کا دل جیت لیتی ہے تو پھر اس کے تحفظ اور فروغ میں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

  • بھارتی سپریم کورٹ کا ’’اردو زبان‘‘ کے حق میں بڑا فیصلہ

    بھارتی سپریم کورٹ کا ’’اردو زبان‘‘ کے حق میں بڑا فیصلہ

    بھارت کی سپریم کورٹ نے اردو زبان کے حق میں بڑا فیصلہ دے کر ہندو انتہا پسندوں کی اردو دشمنی کو خاک میں ملا دیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے ریاست مہاراشٹرا میں میونسل کونسل کے سائن بورڈز پر اردو زبان کے استعمال کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اردو سے دوستی کریں، یہ بھارت کی زبان ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے ممبئی ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ریاست مہاراشٹر میں میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو قانونی اور درست قرار دیا ہے۔

    سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دوران سماعت کہا کہ اردو ایک موثر رابطے اور بھارت کی اپنی زبان ہے۔ اس کو صرف مسلمانوں کی زبان ماننا افسوسناک ہے۔ زبان کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک برادری، علاقے اور لوگوں کی پہچان کا ذریعہ ہے۔

    عدالت نے درخواست گزار کی درخواست مسترد کرنے کے ساتھ ریمارکس دیے کہ "اردو سے دوستی کریں، کیونکہ یہ نئی زبان نہیں، یہیں پیدا ہوئی، پلی بڑھی اور پروان چڑھی ہے۔”

    واضح رہے کہ مہاراشٹر کی ایک سابق مقامی خاتون کونسلر نے میونسل کونسل کے بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو زبان لکھنے کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ سرکاری بورڈز پر صرف مراٹھی زبان لکھی جانی چاہیے۔

    تاہم عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر علاقے میں اردو بولنے والے شہری موجود ہیں، تو مراٹھی کے ساتھ اردو کا استعمال کوئی مسئلہ نہیں۔

  • کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے، اس تاثر میں کتنی سچائی ہے، یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں

    کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے، اس تاثر میں کتنی سچائی ہے، یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں

    اردو ایک مہذب، نفیس اور خوب صورت زبان مانی جاتی ہے۔ پاکستان میں کراچی والوں کو اس زبان کا امین سمجھا جاتا تھا اور کراچی کے اردو بولنے والے اس پر فخر بھی کرتے تھے، لیکن اب شکوہ کیا جاتا ہے کہ کراچی میں اردو زبان پہلی جیسی رہی، نہ ہی گفتگو کا وہ سلیقہ رہا۔

    کراچی میں اردو گم ہو گئی ہے۔ اس تاثر میں کتنی سچائی ہے یہ جاننے کے لیے ہم اردو کی تلاش میں نکلے۔ قریہ قریہ گئے اردو کو تلاش کیا، لوگوں سے ملاقات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کراچی میں اردو زبان کا صحیح تلفظ اور حسین لہجہ کہیں کھو تو نہیں گیا، کراچی والوں کا شین قاف اب بھی درست ہے یا بگڑ چکا ہے۔

    اس ویڈیو رپورٹ کی ریکارڈنگ کے دوران لوگوں کی دل چسپ گفتگو سننے کو ملی۔ کچھ لوگوں نے کہا جو زبان اور حسین لب و لہجہ ان کے آبا و اجداد ہجرت کے وقت کراچی لے کر آئے تھے اس کی نہ صرف انھوں نے حفاظت کی بلکہ اگلی نسلوں میں بھی گفتگو کا سلیقہ منتقل کیا۔


    کیا 6 ماہ سے یرغمال بنے سکندر کو ماموں نے قتل کیا؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو رپورٹ


    کچھ لوگوں نے اعتراف کیا کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ زبان اور لہجے میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔ اردوزبان اب بولی بن گئی ہے۔ صرف رابطہ قائم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے لیے نئی نسل کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر ہم اچھے اور درست الفاظ کا استعمال نہیں کریں گے تو نئی نسل سے شکوہ کرنا غلط ہے۔ کراچی میں اردو گم نہیں ہوئی ارد گرد ہی موجود ہے صرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • مذکر اور مؤنث میں الجھتی ایک حُجّتی لڑکی کا قصّہ

    مذکر اور مؤنث میں الجھتی ایک حُجّتی لڑکی کا قصّہ

    میری چھوٹی بھتیجی تہمینہ نے ایک دن سوال کیا کہ چچا جان! درد لڑکی ہوتی ہے یا لڑکا؟

    میں نے کہا، لڑکا۔ وہ بولی، کیوں؟

    میں نے کہا درد اٹھتی نہیں اٹھتا ہے، اچھی ہوتی نہیں، اچھا ہوتا ہے۔ اس نے حجت کی کہ درد کو لڑکا کیوں کہتے ہیں؟

    وہ شاید درد کو کہیں مؤنث بولتے سن آئی تھی۔ میں نے کہا اس لیے کہ شریر ہوتا ہے، تنگ کرتا ہے، لڑکیاں تو تکلیف نہیں پہنچاتی، شرارت نہیں کرتی، وہ تو آرام پہنچاتی ہیں۔

    وہ بولی تو تکلیف لڑکی ہے اور آرام لڑکا؟ اس پر میں ذرا چکرایا بات بنانے کو کہا کہ بھئی بعض لڑکیاں بھی تو شریر ہوتی ہیں، تو بس تکلیف ایک ایسی ہی شریر لڑکی ہے، مگر دیکھو… خوشی لڑکی ہے اور رنج لڑکا… اکثر اچھی اچھی چیزوں کو لڑکی ہی بنایا گیا ہے۔“

    اس پر وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی اور بولی تو ان چیزوں کو لڑکا اور لڑکی کون بناتا ہے؟ میں نے کہا کہ بولنے والوں نے بنایا ہے جیسے اللہ میاں نے کسی کو لڑکا اور کسی کو لڑکی بنا کر بھیج دیا ہے۔

    کہنے لگی وہ تو اس لیے بناتے ہیں کہ بڑے ہوں گے، تو ان کا بیاہ ہو جائے گا، تو کیا درد اور تکلیف کا بھی بیاہ ہو سکتا ہے؟

    اس کی منطق میرے لیے خاصی ٹیرھی کھیر بن گئی تھی۔ پہلے تو میں فقط ہنس دیا، ذرا مہلت لینے کے لیے کہ کوئی نکتہ سوجھے تو اس کو کچھ بتاؤں۔ کچھ نہ کچھ تو مجھے کہنا تھا، میں نے کہا ہاں، ہو سکتا ہے، بلکہ ہوتا ہے۔ جسمانی درد کا دلی تکلیف کے ساتھ جوڑ لگتا ہی ہے، دونوں ایک ہی ذات کے ہیں!

    تہمینہ پوچھنے لگی کیا پھر ان کے بچے بھی ہوتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ضرور ہوتے ہیں، آہیں، آنسو، کراہیں، سبکی، سسکی… انہی کے بچے تو ہیں۔ آنسو کو شریر لڑکا ہی بتاتے رہیں. آنسو ٹھہرتا نہیں، گھر سے نکل پڑتا ہے۔

    وہ بولی ٹھہریے ٹھہریے… ایک آنسو کو چھوڑ کر یہ تو سب لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں۔ آہیں، کراہیں، توبہ، اف، سسکی…

    میں نے کہا کیا مضائقہ ہے، ان کے لیے کوئی جہیز وغیرہ کا تو انتظام کرنا نہیں پڑتا۔

    اب اس نے پوچھا کہ انہیں پہنچاتے کیسے ہیں کون لڑکی ہے اور کون لڑکا؟
    میں نے کہا ایسے ہی جیسے آدمیوں کو، یعنی نام سے اگر کسی کا نام شاہدہ ہے تو لڑکی ہے، اگر شاہد ہے تو وہ لڑکا۔ شاہد کی طرح زاہد، قاصد، مرشد، قائد… سب لڑکے شمار ہوں گے۔

    یہاں میں نے خود ہی اپنے آپ کو پھندے میں پھنسا لیا۔ وہ جھٹ بولی کہ مگر قاعدہ تو لڑکا ہے، جب شاہدہ لڑکی ہے، تو قاعدہ اور فائدہ لڑکے کیسے ہو سکتے ہیں؟ شاہدہ تو آتی ہے اور قاعدہ تو پڑھایا جاتا ہے اور فائدہ بھی ہوتی نہیں، ہوتا ہے۔

    میں کھسیانی ہنسی ہنسا اور بولا دیکھو یہ ذرا زیادتی ہو گئی، مگر سنو قاعدہ کی جمع قواعد کو مؤنث بنا دیا ہے۔ وہ فوراً بولی قواعد بن جاتے ہیں یا بن جاتی ہیں؟

    ابھی تو آپ نے کہا قواعد کو قاعدہ کے بدلے میں لڑکی بنایا گیا ہے۔ میں نے سنجیدگی قائم رکھنے کے لیے کہا مطلب یہ ہے کہ سن کر یا پڑھ کر اس کی آواز سے محسوس ہو جاتا ہے لفظ مذکر ہے یا مؤنث۔

    اس نے اپنی چلائی، کہنے لگی مجھے تو درد لڑکی لگتی ہے۔ میں نے پیچھا چھڑانے کو کہا، ہاں ہاں، تم یوں ہی بولا کرو اور لوگ بھی بولتے ہیں تم اکیلی نہیں ہو، مگر یاد رکھو کہ مذکر مؤنث کی کچھ واضح علامتیں بھی ہیں۔

    مثلاً ’ی‘ پر ختم ہونے والے لفظ مونث ہوں گے اور الف پر ختم ہونے والے لفظ مذکر، جیسے امی ابا، نانا نانی، مرغی مرغا، کنگھا کنگھی، بکرا بکری، تمہاری چچی اور میں تمہارا چچا۔

    تہمینہ پھر سوچ میں پڑ گئی کہ بے حد حجتی واقع ہوئی ہے، پھر بولی کہ بھائی کو بھائی کہنا تو غلط ہو گا، ’بھا‘ کہا کروں؟ اور آپا کو آپی… بھئی یہ بڑی گڑ بڑ کی بات ہے، دھوبن کو دھوبی کہوں اور دھوبی کو دھوبا؟

    میں نے بات کا رخ بدلنے کے لیے کہا کہ دیکھو، بعض لفظوں میں جوآخر میں ’ی‘ آتی ہے، وہ ان کے پیشے کو ظاہر کرتی ہے، جیسے دھوبی، درزی، نائی، قسائی وغیرہ

    تو بولی یہ سب آپ کیا کہتے ہیں مونث ہیں؟ اور ماما، آیا کیا کہتے ہیں مذکر؟ آیا، آئی یا ’آیا آیا؟‘

    وہ پھندے پر پھندا ڈالتی جا رہی تھی اور مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا کہ ابھی تمہیں باتیں سمجھانا بہت مشکل ہے۔

    (ماہر لسانیات، شاعر، محقق اور نقاد شان الحق حقی کی ایک دل چسپ تحریر سے اقتباسات)

  • موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    موسمیاتی آفات سے پاکستان کی پہاڑی زبانیں تباہ ہو رہی ہیں

    شمالی پاکستان میں 2010ء کا سیلاب اور اس کے درد ناک مناظر، تورولی-کوہستانی لغت نگار، انعام توروالی کی یادداشت میں اب بھی تازہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی بدترین انسانی تباہی میں سے ایک، اس سیلاب کی وجہ سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے شمالی پہاڑی علاقوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ تورولی سمیت کتنے ہی لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے۔ ان کے کھیت پانی میں ڈوب گئے جس کی وجہ سے وہ اور ان کے خاندان کو پشتون اکثریتی مینگورہ شہر کی طرف ہجرت کرنی پڑی جو ضلع سوات میں ان کے آبائی شہر سے 59 کلومیٹر دور ہے۔

    موسمیاتی آفات کی وجہ سے پہاڑی علاقوں مکین ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور اس عمل میں ان کی زبانیں اور ثقافتیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

    تباہی کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ جن میں واضح طور پر ان کی آبائی زبان توروالی کو لاحق خطرہ ہے۔ انہوں نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے نوجوان، اب غالب زبانوں؛ جیسے، پنجابی، پشتو اور اردو کے بہت سے مستعار الفاظ کے ساتھ یا تو ایک مختلف تورولی بولی بول رہے ہیں، یا بالکل بھی نہیں بول سکتے۔ ان کے بھتیجے اب پشتو بولتے ہیں، جو صوبے کی زبان ہے۔

    توروالی کہتے ہیں، “موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحران کی شدّت سے متعلق پہاڑی کمیونٹیز کے پاس کوئی علم نہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے کسی قسم کی حکمت عملی سے یہ لاعلم ہیں”۔ مزید براں، گلگت بلتستان کی آب و ہوا کی حکمت عملی ہجرت، اور نقل مکانی کرنے والوں کی ترسیلات کو ایک مثبت موافقت کی حکمت عملی کے طور پر پیش کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی موسمی حکمت عملی موسمی تبدیلی کے تحت نقل مکانی کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کی موافقت کی حکمت عملی آنے والے مہاجرین کے لئے بہتر شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے محدود ہے۔ نہ ہی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ آب و ہوا کی وجہ سے نقل مکانی، شمالی پاکستان کی ثقافتوں اور زبانوں کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔

    پہاڑی خطّوں میں چھوٹی آبادیاں غیر محفوظ ہیں
    پاکستان کے پہاڑی شمالی علاقوں میں 30 سے ​​زیادہ ‘خطرے سے دوچار‘ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان میں سے بہت سی زبانیں صرف چھوٹی آبادی میں بولی جاتی ہیں، جو کہ چند ہزار پر مشتمل ہیں۔ اس خطّے میں آباد کمیونٹیز متعدد موسمی آفات کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ 500 سے زائد گلیشیئرز رکھنے والے ضلع چترال کو، “17 سالوں میں 2021 تک، 13 سے زیادہ برفانی سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی گھرانے بے گھر ہوئے اور وہ سالوں تک عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور رہے”۔ گلگت بلتستان میں 2010 کے سیلاب کے علاوہ 1999 سے 2017 تک 15 گلوف (جی ایل او ایف) واقعات ریکارڈ کئے گئے۔

    چھوٹی آبادی کی بولی جانے والی زبانوں پر ان آفات کا بلواسطہ گہرا اثر ہے۔ مثال کے طور پر، جب 2018 میں گلگت بلتستان کے ضلع غذر کا گاؤں بدسوات ایک گلوف (جی ایل او ایف) کا نشانہ بنا، تو واکھی زبان بولنے والے خاندانوں کو مجبوراً گلگت شہر منتقل ہونا پڑا۔ واکھی صرف 40,000 لوگ بولتے ہیں اور یہ گلگت شہر کی زبان نہیں ہے، یہاں نئے مہاجرین کو شینا یا پاکستان کی سرکاری زبان اردو میں بات چیت کرنا سیکھنا پڑا۔

    لیکن شینا خود بھی ایسے ہی عوامل کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔ گلگت سے تعلق رکھنے والے زبانوں کے محقق محمد وزیر بیگ نے بتایا کہ ان کے بہت سے رشتہ دار جو 1978 اور 2010 کے سیلاب میں اپنا گھر کھو بیٹھے تھے وہ کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ” جب میں گزشتہ اکتوبر ان سے ملا تو میں نے ان سب کو شینا کے بجائے اردو بولتے ہوئے پایا۔

    لوگوں کے ساتھ ثقافتیں بھی بے گھر ہورہی ہیں
    اسلام آباد میں قائم فورم فار لینگوئج انیشی ایٹو (ایف ایل آئی) کے ڈائریکٹر فخرالدین اخونزادہ نے کہا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی پہاڑی آبادیوں کو نئی زبانیں سیکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور یہ انہیں اس جغرافیہ سے بھی دور کرتا ہے جس نے ان زبانوں کو تشکیل دیا تھا۔ .

    اخونزادہ نے کہا، “یہ زبانیں مویشیوں، کھیتی باڑی، دریاؤں، برف، اور جنگلات والے اونچے پہاڑوں سے مالا مال مخصوص ماحول میں تیار ہوئیں – یہ سب اب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ یہ زبانیں دوسرے خطوں میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں، اور بے گھر ہونے والی آبادی اب اپنے ثقافتی تہوار نہیں مناتی، روایتی کہانیاں نہیں سناتی یا اپنی مادری زبان میں بات چیت نہیں کرتی۔ اس سے ان کی مادری زبانوں میں مہارت بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔

    سمیع اللہ ارمان، جو ایڈورڈ کالج، پشاور میں پڑھاتے ہیں، اسے زبان کی “مارکیٹ ویلیو” میں گراوٹ بتاتے ہیں، کیونکہ یہ لوگوں کو اپنے اردگرد کا ماحول سمجھنے میں مدد نہیں دیتی۔ “کسی زبان کی مارکیٹ ویلیو جتنی زیادہ ہوگی، اتنے ہی زیادہ لوگ اسے بولیں گے، اور یہ پھلے پھولے گی،” ارمان نے کہا، جو مقامی زبانوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی ایک تحقیقی اور ترقیاتی تنظیم، مفکورہ میں شعبہ زبان، ادب اور ثقافت کے سربراہ بھی ہیں۔

    ارمان سے اتفاق کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کے سربراہ امجد سلیم نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ قدرتی آفات کی وجہ سے نقل مکانی صرف افراد کی نہیں بلکہ ثقافتوں کی نقل مکانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، “جب یہ بے گھر خاندان نقل مکانی کرتے ہیں، وہ غالب زبان بولنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ اسکولوں اور بازاروں میں ان کی مادری زبان بہت کم بولی جاتی ہے۔ وہ اپنی بیگانگی کے احساس پر قابو پانے کے لئے تیزی سے غالب زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس طرح ایک زبان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔”

    زبانیں جو صرف گھروں میں بولی جاتی ہیں
    پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی اور اطلاقی لسانیات کی ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر روبینہ سیٹھی نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین کسی زبان کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن اس تحفظ کا اثر اس بات پر منحصر ہے کہ بچوں کو ان کے گھروں سے باہر کیا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ “اگرچہ زبان ان کے گھروں کے اندر ان کے دلوں کے قریب اور پیاری ہو سکتی ہے، لیکن باہر اس کی افادیت کا فقدان انہیں اس خطے کی غالب زبان کو اپنانے پر مجبور کرتا ہے” جہاں وہ اب آباد ہوئے ہیں۔

    اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے، عصمت اللہ دمیلی، ایک محقق جنہوں نے 2000 میں دمیلی زبان کے حروف تہجی مرتب کیے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “ہم اپنی مادری زبان صرف اپنے گھروں کے اندر بولنے کو ترجیح دیتے ہیں… اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایک وقت آئیگا جب آنے والی نسلیں اسے بولنے کے قابل نہیں رہیں گی۔” دمیلی زبان صرف 5,000 لوگ بولتے ہیں، اور چترال ضلع میں واقع دمیل ویلفیئر سوسائٹی کے مطابق جو زبان کے تحفظ کے لئے کام کرتی ہے – اس آبادی کا تقریباً 40 فیصد 2010 کے سیلاب کے بعد مختلف شہروں میں منتقل ہو گیا۔

    ٹھوس ڈیٹا کی کمی کسی اقدام کے راستے میں رکاوٹ ہے
    نقل مکانی متعدد عوامل سے ہوتی ہے، اور موسمیاتی تبدیلی اور جبری نقل مکانی کے درمیان ایک خطی اور اسبابی تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔ بہرحال، پشاور یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں ماحولیاتی سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر اویس احمد نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں سے خاص طور پر 2010 کے بعد نقل مکانی کا بنیادی محرک ہے۔ انہوں نے کہا،”لوگ ایک اور بڑی آفت سے بچنے کے لیے اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لئے سب کچھ کریں گے، اس لئے وہ اکیلے یا اپنے خاندان کے ساتھ پہاڑوں سے نیچے آجاتے ہیں”۔

    انعام تورولی نے اپنے تحقیقی مطالعے بعنوان “فیوچر آف توروالی مائیگرانٹس ان اربن سٹیز” میں بتایا ہے کہ 90 فیصد مہاجر خاندان مالی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے آبائی شہروں کو واپس نہیں آئے۔ ایک قدیم ایرانی زبان یدغہ جو صرف 6,000 لوگ بولتے ہیں، کے تحفظ کے لئے وقف محقق محمد ولی، نے مزید کہا، “موسمیاتی تبدیلیوں نے پہلے سے غربت کے شکار پہاڑی علاقوں کو مزید غریب کردیا ہے اور نقل مکانی کو بڑھا دیا ہے۔ جن کے پاس ہجرت کے ذرائع ہیں وہ پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں، پیچھے صرف وہ لوگ رہ گئے ہیں جو ضروری وسائل سے محروم ہیں۔”

    جس طرح ریاست کو موسمیاتی تبدیلی اور نقل مکانی کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، ارمان نے کہا کہ اسے ثقافتوں کے مزید زوال کو روکنے کے لئے حکمت عملی کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں میں زبان کے نقصان کے مسئلے کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ سلیم نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا، “یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نصاب میں تمام زبانوں کو شامل کرنے کے لئے اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بچوں کو پڑھائی جائیں اگر اس کا ارادہ چھوٹی زبانوں کو محفوظ کرنے کا ہے۔”

    (فواد علی کی تحریر ڈائلاگ ارتھ پر اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • اردو، جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا

    اردو، جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا

    مشہور شاعر داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎

    اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
    ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

    اردو ہمارے ملک کی مشترکہ وراثت کی امین ہے۔ یہ خالص ہندوستانی زبان ہے اور ہمارے مشترکہ کلچرکی نمائندگی کرتی ہے۔ اردو ترکی زبان میں فوج یا لشکر کو کہتے ہیں۔ دراصل اس زبان کی پیدائش اور پرورش فوجی چھاؤنی میں ہوئی جہاں ہر مذہب، ذات اور نسل کے فوجی ہوتے ہیں۔ ان فوجیوں کے آپسی میل جول اور مختلف زبانوں کے تال میل سے اردو زبان وجود میں آئی۔

    ایک غلط فہمی ہمارے معاشرے (ہندوستان) میں عام ہو چکی ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ اس زبان کا فارسی رسم الخط ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آج اردو لکھنے پڑھنے کا دستورعموماً مسلمانوں میں ہی پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں ۶۰ فیصد سے زیادہ کھڑی بولی کے الفاظ ہیں جو اردو اور ہندی دونوں کی ماں ہے۔ اس زبان کو ابتدا میں ہندوستانی، ہندوی اور اردو کے نام سے موسوم کیا گیا۔ چودھویں صدی عیسوی میں جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے فوجی سپاہیوں کی زبان ترکی، عربی اور فارسی تھی۔ اس وقت ہندوستان میں سنسکرت، کھڑی بولی، برج بھاشا، مگہی اور ہریانوی زبانوں کا بول بالا تھا۔ مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے باہمی میل جول سے ایک نئی تہذیب اور ایک نئی زبان وجود میں آئی جس میں مختلف تہذیبوں کی رنگا رنگی اور مختلف زبانوں کے الفاظ و استعارات نے جگہ پائی۔ مشہور تاریخ داں ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں:

    ’’مسلم ذہن ہندوانہ رنگ و روپ قبول کرنے لگا اور اس نے فارسی و ترکی کی جگہ مقامی زبانوں کو سیکھنا اور استعمال کرنا شروع کیا۔ ہندوؤں نے عربی، فارسی اور ترکی الفاظ کو مقامی محاوروں میں جگہ دی۔ اس لین دین کا منافع ہماری تہذیب کے خزانے میں اردو کی شکل میں شامل ہوا۔‘‘

    کرشن چندر نے اردو کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’اردو ادب شروع ہی سے ایک مشترکہ ہند آریائی تہذیب اور کلچر کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت میں ہندوؤں اور مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں نے مل جل کر حصہ لیا ہے۔اردو ایک ہندوستان گیر زبان ہے۔ اس نے اپنے دائرہ اثر میں ہر مذہب و ملت ، ہر رنگ و نسل کے افراد کے محسوسات اور جذبات کو سمو کر ایسا ادبی رنگ و روپ عطا کیا ہے جس سے اس زبان کے ادب اور شاعری پر باہمی میل جول، رواداری، محبت، اخوت اور قومی یکجہتی کے جذبوں کی گہری چھاپ پڑ چکی ہے۔ ان ہی عناصر کی موجودگی نے اردو زبان و ادب کو ایک سیکولر مزاج عطا کیا ہے جو سارے ہندوستانی عوام کے جمہوری جذبے سے ہم آہنگ ہے۔‘‘

    انہی خیالات کو جگن ناتھ آزاد نے شعری پیکر میں یوں ڈھال کر پیش کیا ہے:

    غلط ہے جو سمجھتا ہے اغیار کی بولی
    یہ ہے اخلاص کی، طرزِ تکلم، پیار کی بولی

    ریاضِ ہند میں اردو وہ اک خوش رنگ پودا ہے
    جسے خون جگر سے ہندو مسلم نے سینچا ہے

    برج لال رعنا نے اردو کے ہندوستانی نژاد ہونے کا یوں اعتراف کیا ہے:

    نام اردو کبھی ہندی کبھی ہندوستانی
    فارسی خالہ مری سنسکرت ہے نانی

    بھارتی اپنا لباس اور سنگھار ایرانی
    لے کے ہر پھول سے رس، کرتی ہوں گل افشانی

    میرا ہر دیس سے پربندھ ہے، ہر قوم سے سمبندھ
    میں کسی دین کی تابع، نہ دھرم کی پابند

    اردو زبان کے اس سیکولر مزاج کے باوجود آج اردو زبان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسے محض مسلمانوں کی زبان تعبیر کر لیا گیا ہے۔ زبان تہذیب اور کلچر کی پروردہ ہوتی ہے لیکن اسے مذہب سے جوڑکر دیکھا جانے لگا۔ زبان مذہبی لٹریچر کے مطالعے کا وسیلہ تو ہوسکتی ہے لیکن کوئی مذہب کسی زبان کو جنم نہیں دے سکتا۔ آج چونکہ اردو لکھنے پڑھنے والا طبقہ بیشتر مسلمانوں پر محیط ہے، اس لئے اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے تو اردو زبان و ادب کی ترقی اور نشوونما میں کار ہائے نمایاں انجام دینے والے غیر مسلم ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ہم کیا نام دیں گے؟ کیا اردو زبان و ادب کی تاریخ سینکڑوں غیر مسلم شعرا و ادیب کے ذکر کے بغیر مکمل ہو سکتی ہے جنہوں نے نہایت پیارسے اردو کی زلفیں سنواری ہیں اور اس زبان کی آبیاری اور نشوونما میں اپنا خونِ جگر شامل کیا ہے۔

    یہ درست ہے کہ اردو کے فروغ اور ارتقائی سفر میں ولی دکنی، میر امن، مرزا ہادی رسوا، داغ دہلوی، بہادر شاہ ظفر، حسرت موہانی، میر، غالب، ذوق، اقبال، فیض، ساحر وغیرہ کا اہم رول رہا ہے لیکن نہال چند لاہوری، درگا سہائے سرور، للو لال جی کوی، دیا شنکر نسیم، لبھو رام جوش ملیسانی، پنڈت بالمکند عرش ملیسانی، موہن دتاتریہ کیفی، برج نارائن چکبست، تلوک چند محروم وغیرہ بھی وہ شاعر اور ادیب ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں اردو کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ یہ رام بابو سکسینہ تھے جنہوں نے پہلی بار اردو ادب کی تاریخ مرتب کی۔ منشی نول کشور کی خدمات سے صرف نظر ممکن ہی نہیں ہے، جنہوں نے ۱۸۵۸ء میں لکھنؤ میں نول کشور پرنٹنگ پریس اور بک ڈپو قائم کیا جس کے توسط سے سینکڑوں کتابیں اور رسالے محفوظ ہوئے۔ ان کی اس گراں بہا خدمت کے اعتراف میں حکومت ہند نے ۱۹۷۰ء میں ان پر ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ راجہ رام نارائن موزوں، مہاراجہ شتاب رائے، کلیان سنگھ عاشق کی سرپرستی اور مربیانہ سلوک کی وجہ سے اردو نے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ ان لوگوں نے نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ اردو کو پاؤں پاؤں چلنا سکھایا۔اردو ادب کی تاریخ منشی پریم چند کو کیسے فراموش کر سکتی ہے جنہوں نے اردو کا پہلا افسانہ ’سوز وطن‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ یہی نہیں بلکہ منشی پریم چند نے ہی اردو افسانے کو رومان کی وادی سے نکال کر حقیقت کی سنگلاخ زمینوں پر قدم جمانے کا ہنر عطا کیا۔ یہ پریم چند تھے جنہوں نے ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے شروع ہونے سے پہلے افسانہ ’کفن‘ لکھ کر اپنی دور اندیشی اور ترقی پسندی کا ثبوت دیا۔

    سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، علی عباس حسینی کے ساتھ ساتھ راجندر سنگھ بیدی، اپندر ناتھ اشک، دیوندر ستیارتھی، بلونت سنگھ، ہنس راج رہبر، رامانند ساگر وغیرہ نے اردو افسانے کو فن کی بلندی تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ اسی طرح شاعری کے میدان میں مجاز، فیض، جگر مراد آبادی، جوش، سردار جعفری، جذبی، کیفی اعظمی، اخترالایمان کے ساتھ رام پرساد بسمل، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کی غزلوں نے اردو عوام کے دلوں پر حکومت کی ہے۔ یہ دور اردو زبان و ادب کا سب سے سنہرا دور کہلاتا ہے جس میں اردو زبان اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہوئی اور ہر طرح کے موضوعات و مضامین اردو زبان کے وسیلے سے ادا ہونے لگے۔ اردو شاعر و ادیب کی اس نسل سے پیوستہ جو دوسری نسل اردو کی آبیاری کے لئے تیار ہوئی اس میں مسلم ادیب و شاعر کے شانہ بہ شانہ جگن ناتھ آزاد، کنہیا لال کپور، نریش کمار شاد، بششیر پردیپ، دیوندر اسر، برج پریمی، آنند نارائن ملا، حکم چند نیر، گیان چند جین، مالک رام، کمار پاشی، کشمیری لال ذاکر، کنور مہندر سنگھ سحر وغیرہ جیسے عاشقانِ اردو کا نام سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے لائق ہے۔

    اردو کو اپنے قلم کا وسیلہ بنانے والوں کی یہ طویل فہرست اس بات کی ضامن ہے کہ اردو زبان کسی خاص مذہب، فرقے یا علاقے کی زبان نہیں ہے بلکہ اس کی آبیاری اور نشوونما میں ہر مذہب و ملت اور خطے کے افراد نے بھرپور حصہ لیا ہے۔ اردو زبان اسی مشترکہ تہذیب کی نہ صرف نمائندہ ہے بلکہ اس تہذیب کے اظہار کا وسیلہ بھی ہے۔ لیکن آج اس تلخ حقیقت کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اردو کے متوالوں کی تعداد پہلے کے تناسب میں کافی کم ہو چکی ہے۔ اردو کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے شیدائی اب خال خال نظر آتے ہیں لیکن صورت حال مایوس کن بھی نہیں ہے۔

    سلیقے سے ہواوؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
    ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

    کالم نگار شکیل شمسی نے اردو کے ماضی اور موجودہ تشفی بخش صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’اگر ہم اردو کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کسی زمانے میں منشی نول کشور اس کے فروغ میں مصروف نظر آئیں گے، کہیں غالب کی تحریروں میں ہر گوپال تفتہ جا بجا مسکراتے ہوئے ملیں گے، کہیں پنڈت برج نارائن چکبست اور رتن ناتھ سرشاراردو کی راہوں میں پھول بچھاتے ہوئے نظر آرہے ہوں گے۔ شاید کوئی کہے کہ آزادی سے پہلے کی بات کرنے کا کیا فائدہ؟ مگر آزادی کے بعد بھی تو رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کنور مہندر سنگھ بیدی، جگن ناتھ آزاد، نریش کمار شاد، سمپورن سنگھ گلزار، کرشن بہاری نور، شین کاف نظام اور پنڈت گلزار زتشی جیسے نام بھی تو گلستان اردو کو سیراب کرتے رہے اور آج تو نہ جانے کتنے نوجوان لڑکے رنجیت چوہان کی شکل میں اردو کی خدمت کررہے ہیں تو ان کو کیا کہیں گے؟

    دراصل اردو زبان میں محبت کی ایسی خوشبو بسی ہوئی ہے جو ہر کسی کے دل و دماغ کو معطر کر دیتی ہے۔ اس زبان کی جادوئی قوت نے سب کے دلوں کو مسخر کر رکھا ہے۔ اردو دراصل محبت اور آشتی کی زبان ہے۔ اس زبان میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنانے کی بڑی قوت ہے۔اس لئے اردو میں مختلف زبانوں کے الفاظ نے جگہ بنائی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تمام لوگ اس زبان کو لکھ یا پڑھ نہ سکیں لیکن ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں اسے سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان کا اپنا کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہے لیکن یہ سارے علاقے کی زبان ہے۔ اردو زبان کی شیرینی اور مٹھاس کے بغیر فلم، ڈرامے، غزلیں، گانے سب نامکمل ہیں۔ اردو زبان کی فصاحت اور شین قاف کی درستی کی وجہ سے گلوکاروں اور اداکاروں کے لئے اس زبان کو اپنانا لازمی ہوتا ہے۔ کسی شاعر نے بہترین اعتراف کیا ہے:

    وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
    ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

    (بھارتی ادیب اور مضمون نگار وصیہ عرفانہ کی ایک تحریر سے اقتباسات)

  • جب گلے پر چھری رکھ دی گئی!

    جب گلے پر چھری رکھ دی گئی!

    ہندوستان میں انگریز راج کے دوران اردو اور ہندی زبان کے جس تنازع نے سَر اٹھایا تھا، وہ برس ہا برس سے مختلف شکلوں میں جاری ہے اور بٹوارے کے بعد اب بھی بھارت میں‌ اردو بولنے اور لکھنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے وہاں زبان کو مذہب سے جوڑ کر پیش کیا گیا ہے اور اردو کی بنیاد پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ اس وقت انگریزوں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے۔ اسی لیے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا مگر اس پر 1867ء میں چند ہندو تنظیموں اور اکابرین نے اردو زبان كی مخالفت شروع كر دی جس نے بعد میں اردو ہندی تنازع کو جنم دیا جو آج تک جاری ہے۔

    یہاں ہم اس تناظر میں‌ اردو زبان کلاسیکی طرز کی شاعری اور اپنی شگفتہ اور رواں نثر کے لیے مشہور، متعدد اخبارات اور ادبی رسائل کے مدیر اور فلمی گیت نگار ماہر القادری کا ایک مضمون نقل کررہے ہیں جس سے اردو دشمنی میں بھارتی حکومت کی پالیسیوں اور بعض اقدامات کے علاوہ اس وقت کے ہندو قائدین اور انتہا پسند تنظیموں‌ کے بغض و عناد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی فرماں روا کو ہندوستان جیسا بیوقوف اور نا سمجھ ملک حکومت کرنے کے لیے نہیں ملا۔

    ناواقفیت اور کور چشمی کی حالت میں، کنوئیں میں گر جانا قابلِ اعتراض فعل نہیں، لیکن سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوئے کنوئیں میں گر پڑنا، یقیناً دماغ کی خرابی اور فہم کی کوتاہی کی دلیل ہے۔

    ابھی ہندو، مسلمان حقوق کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے اور یہ گتھی سلجھنے بھی نہ پائی تھی کہ زبان کا اختلاف پیدا ہوگیا۔ جس نے رہے سہے اتحاد کا خاتمہ کر دیا اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انشقاق کی گہری اور وسیع خلیج حائل ہوگئی۔ اگر مدبرین ملک نے مسئلہ کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے، زبان کے اس اختلاف کو دور نہ کیا، تو یہ خلیج اور زیادہ وسیع و عمیق ہو جائے گی اور پھر اس کی پایابی کے امکانات شاید باقی نہ رہیں گے۔

    مولوی عبدالحق صاحب معتمد انجمن ترقی اردو نے جو بیان شائع کرایا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برادرانِ وطن نے اس اکھاڑے میں کتنی پھرتی اور چالاکی کے ساتھ پینترے بدلے ہیں اور اردو کو مٹانے کے لیے کس قدر منظم کوشش کی جارہی ہے۔ نوعیتِ مسئلہ اب اس منزل میں پہنچ گئی ہے، جہاں خاموش رہنا گناہ نہیں کفر ہے۔ اردو کے جسم پر جب تک خراشیں پہنچائی جاتی رہیں، ہم خاموش رہے، مگر اب جب کہ گلے پر چھری رکھ دی گئی ہے، زبان فریاد کرنے سے کس طرح رک سکتی ہے؟

    ہندو لیڈروں میں تین اصحاب غیرمعمولی اثر و اقتدار رکھتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالویہ! ہندوستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پنڈت مالویہ جی نے ہندو، مسلم اختلاف کی خلیج کو اپنے طرزِ عمل اور روش سے ہمیشہ وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ہم ان سے قریب قریب مایوس ہیں۔ مہاتما گاندھی سے بہت کچھ امیدیں وابستہ تھیں مگر جب سے مہاتما جی ضمیر کی آواز سننے لگے ہیں، مذہبی تعصب نے ان کے دل و دماغ کو گھیر لیا ہے۔ انہوں نے سیاسیات سے علیحدگی اختیار کرکے، ہریجن تحریک شروع کردی، جو خالص مذہبی تحریک ہے۔

    مہاتما جی کو ہندو مسلمان دونوں اعتماد کی نظر سے دیکھتے تھے مگر ان کی عجیب و غریب روش نے اس اعتماد کو زائل کر دیا، جس کے وزن نے ان کو ’’مسٹر‘‘ سے ’’مہاتما‘‘ بنا دیا تھا۔ اس حقیقت کو کون جھٹلاسکتا ہے کہ کئی برس سے مہاتما جی کا وجود ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کے خیالات مذہبی تعصب کے تنگ دائرہ سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ خیال تھا کہ کانگریس کے اجلاس کے بعد ہندو مسلمانوں میں اتفاق ہو جائے گا اور مہاتما جی اپنی روش بدل دیں گے مگر انہوں نے روش میں تبدیلی پیدا کرنے کے بجائے، ہندی اردو کا فتنہ کھڑا کردیا، جس نے دو قوموں کو اختلافات کی دلدل میں پھنسا دیا۔

    جب مہاتما جی ملک کے خیرخواہ تھے اور ان کے دائرۂ فکر و عمل میں مسلمانوں کے لیے بھی جگہ تھی، اس وقت انہوں نے اردو زبان سیکھی اور اپنے قلم سے مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم کو اردو میں خط لکھا مگر آج وہی مہاتما جی اردو سے بیزاری ظاہر فرماتے ہوئے، سنسکرت کے ایسے کٹھن الفاظ استعمال فرما رہے ہیں، جن کو شاید ’’پاننی‘‘ سمجھ سکے تو سمجھ سکے! جو زبان گاندھی جی استعمال کر رہے ہیں وہ اردو کو کھلا چیلنج ہے۔ ان حالات کے تحت مہاتما جی سے بھی ہم مایوس ہی سے ہیں، کیونکہ وہ ارادے کے بہت پکے ہیں، اور ایسا ارادہ، جس کی دیواروں میں تعصب کا سیسہ پگھلایا گیا ہو، اس کو کون جنبش دے سکتا ہے۔
    پنڈت جواہر لال نہرو ایک معقول اور وسیع القلب رہنما ہیں، جن کا مسلمان بھی اب تک احترام کرتے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جی فکر و رائے کی اس آزادی کے باوجود، گاندھی جی سے بے حد متاثر ہیں اور بعض وقت گاندھی جی کے ایک انچھر میں پنڈت جی کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو خود اچھی اردو بولتے ہیں اور ان کی خواتین بھی اردو کے میٹھے بولوں کے لیے مشہور ہیں مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جواہر لال نہرو کی صاحب زادی کو خاص طور پر ہندی کی تعلیم دی جارہی ہے۔

    ہم ہندی کے دشمن نہیں ہیں، اگر کوئی شخص ہندی سیکھتا ہے تو اس میں ہمارا کیا جاتا ہے، مگر پنڈت جواہر لال نہرو کی اس منقلب ذہنیت کا اتا پتا پا کر، شبہ ہوتا ہے کہ کہیں سابرمتی آشرم کے جوگی نے کچھ پڑھ کر پھونک تو نہیں دیا۔ اردو، ہندی کے مسئلہ میں پنڈت جواہر لال نہرو متذبذب سے نظر آتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردو سے بظاہر ان کو خاص لگاؤ اور رغبت نہیں رہی۔ لیکن اس تمام افسوس ناک صورتِ حال کے باوجود ہم پنڈت جواہر لال نہرو سے مایوس نہیں ہیں۔ پنڈت جی، ملک کے بہی خواہ ہیں اور جب وہ محسوس کریں گے کہ اس اختلاف کے سبب ملک تباہی کے گڑھے میں جارہا ہے تو وہ ضرور اس کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہمارا قیاس ہے، خدا کرے یہ قیاس صحیح ثابت ہو۔

    ایک طرف اردو کے خلاف مورچہ جما ہوا ہے اور دوسری طرف ہز ایکسیلنسی سر مہاراج کشن پرشاد بہادر یمین السطنت، سر تیجؔ بہادر سپرو، مسٹر اینؔ ہسکر، پنڈت برج موہنؔ دتاتریہ کیفی، رائے بہادر امر ناتھ اٹل، مسٹر سروجنی نائیڈو وغیرہ جیسے بہی خواہانِ اردو بھی موجود ہیں، جو اس مسئلہ میں تعصب سے بالکل الگ تھلگ رہ کر، حق کی حمایت کر رہے ہیں۔ خدا کرے کہ حق کی یہ حمایت بدستور جاری رہے، اور ورغلانے والوں کے حربے کارگر ثابت نہ ہوں۔

    کانگریس سے دو باتیں
    اس کے بعد ہم ہندوستان کی سب سے بڑی نمایندہ اور منظم جماعت کانگریس سے دو دو باتیں کرنا چاہتے ہیں، بشرطیکہ ہماری آواز سنی جائے۔ ہماری آواز یقیناً کمزور ہے مگر کانگریس تو کمزوروں کی حمایت کی دعوے دار ہے، ہم بے سرو سامانی کی حالت میں حق کا نعرہ بلند کر رہے ہیں لیکن سنا ہے کہ کانگریس تو حق پرست بے سرو سامانوں کو ہی اپنے آغوشِ شفقت میں لینے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ اگر یہ دعویٰ صحیح اور درست ہے تو پھر ہم کو یقین رکھنا چاہیے کہ ہماری آواز نہ صرف سنی جائے گی بلکہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور بھی کیا جائے گا۔

    کانگریس کا نصب العین آزادی ہے اور یہ امر بالکل متحقق اور مسلم ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں نے کانگریس میں شامل ہو کر جو قربانیاں دی ہیں، ان کو کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پشاور کے شہدا مسلمان ہی تھے، جنہوں نے کانگریس کے اصول کی کامیابی کے لیے اپنی چھاتیوں پر گولیاں کھائیں اور خاک و خون میں تڑپ کر جان دے دی۔ ان قربانیوں سے کانگریس کے وقار میں کس قدر اضافہ ہوا، اس کا جواب کانگریس ہی دے گی۔

    اسمبلی کے گزشتہ انتخاب میں مسلمانوں نے کانگریس کا بہت کچھ ساتھ دیا مگر اب کانگریس کی روش مشتبہ معلوم ہوتی ہے اور وہ شاید مسلمانوں سے اشتراکِ عمل کرنا نہیں چاہتی۔ کانگریس کے اکثر ہندو لیڈر اردو کے مخالف ہیں اور مسٹر پٹوردھن جیسے لوگ تو اردو کی بنیادیں کھوکھلی کر دینا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ وہ زبان جس کو کروڑوں انسان بولتے ہیں، جو ہزاروں کتابوں کا سرمایہ رکھتی ہے، کسی طرح مٹائی نہیں جا سکتی۔ اس تخریبی کوشش کا ہاں یہ نتیجہ ضرور برآمد ہوگا کہ ہندو، مسلمانوں کے دل پھٹ جائیں گے اور کانگریس اپنے حصولِ آزادی کے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے گی۔

    اگر میرے پاس اطلاعات صحیح پہنچی ہیں، تو مجھے اس کا اظہار کرتے ہوئے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ کانگریس کے اجلاسوں کی کارروائیاں خالص ہندی زبان اور ہندی رسم الخط میں چھپوا کر تقسیم کی گئیں۔ خدا کرے یہ اطلاعات غلط ہوں، لیکن اگر صحیح ہیں تو پھر کانگریس کی اس غیر دانش مندانہ روش پر ماتم کرنا پڑے گا۔

    اس کے بعد کانگریس سے یہ عرض کرنا ہے کہ اردو رسم الخط اور اردو کا سرحد، کابل، بلوچستان، کاشغر، لداخ، ایران، عراق، شام، فلسطین، شرق اردن، حجاز، یمن، مصر، جنوبی افریقہ، جاوہ وغیرہ ممالک سے گہرا تعلق ہے اور لسانی اعتبار سے ترکستان سے بھی شناسائی ہے، ان تمام ممالک میں اردو زبان کے بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں جہاں فارسی اور عربی بولی جاتی ہے، اردو جاننے والا کسی نہ کسی حدتک اپنا ما فی الضمیر ادا کرسکتا ہے۔

    اس اعتبار سے آزاد ہندوستان کروڑوں باشندوں سے اپنے تعلقات آسانی کے ساتھ قائم کرسکے گا اور تجارتی اور سیاسی سہولتیں پیدا ہو جائیں گی۔ کیا کانگریس اردو کو ختم کر کے ان ممالک سے بیگانہ بننا چاہتی ہے جن سے ہمسایگی، قربت اور ایشیائی ثقافت کے باعث تعلقات قائم رکھنا پڑیں گے۔ اردو زبان میں بین الاقوامی شان پیدا ہوگئی ہے، اور دنیا اس کو قبول کرتی جارہی ہے، کانگریس کو تو اردو کے شیوع میں مدد دینی چاہیے تاکہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کے خیالات غیرلوگوں تک پہنچیں اور وہ ہمارا وزن محسوس کریں۔

    کانگریس اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہوگی کہ سول نافرمانی کے زمانے میں جن مقررین نے ملک میں آگ لگائی اور ملک میں بیداری پیدا کی، ان میں سے زیادہ تعداد اردو بولنے والوں کی تھی۔ وہ قوت جو کانگریس کا دست و بازو رہ چکی ہے، کیا کانگریس اس کو بیکارکر دینا چاہتی ہے۔ یہ حقیقت اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ اردو زبان اپنے اندر خطابت کی بڑی گنجایش رکھتی ہے اور اس زبان کے ذریعہ ملک و قوم کی بہت کچھ خدمت کی جاسکتی ہے۔ کیا کانگریس ہمارے اشارات پر غور کرے گی؟

    سنسکرت کا تجزیہ
    اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اردو، ہندی کے بنیادی موضوع پر آتے ہیں۔ جس ہندی زبان کے پرچار کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کی اصل سنسکرت اور پراکرت زبان ہے۔ پہلے ہم کو ہندی یا دیوناگری کے ماخذ (سنسکرت) پر نظر ڈالنی چاہیے کہ دنیا میں اس کا کیا درجہ رہا ہے اور اس وقت اس کی کیا حیثیت ہے؟ بھارت ورش کی قدیم تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ بھارت باشیوں نے غیرملکوں سے تعلقات پیدا کرنے کی عام طور پر کوشش نہیں کی۔

    بھارت کے رہنے والے اپنے ملک کی چہار دیواری ہی میں امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے، اپنے ملک سے باہر جانے کی انہوں نے یا تو ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور ضرورت محسوس کی تو وہ وطن کی جدائی شاید گوارا نہ کرسکے۔ یہ تو معاشرتی اور تجارتی نوعیت تھی۔ اب مذہب باقی رہ جاتا ہے۔ مذہب کی تبلیغ کے سلسلہ میں دوسری قوموں اورملکوں سے تعلقات قائم ہو جایا کرتے ہیں مگر ہندوؤں کا قدیم مذہب کسی ایسے شحص کو جو دھرم سماج گھرانے میں پیدا نہیں ہوا، اپنے اندر جذب کرنے سے صاف انکار کردیتا ہے۔ بھارت کے قدیم باشندوں (اہل ہنود) کے اسی طرزِ عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی خطہ پر نہ تو ہندو دھرم کا سایہ پڑ سکا اور نہ ہندو تہذیب کا کوئی نقش باقی رہ سکا۔ بھارت باشیوں نے اپنے کو دوسرے خطوں سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کی اور وہ بھارت ورش کے مرغزاروں میں ہی گھوما کیے۔

    سنسکرت ان لوگوں کی مادری زبان تھی، لہٰذا ان کی اس اجنبیت اور الگ تھلگ رہنے کا یہ اثر ہوا کہ ان کی زبان میں ’’بین الاقوامی‘‘ استعداد کبھی پیدا نہ ہوسکی اور شاید دنیا کے کسی لٹریچر کی ایک کتاب بھی سنسکرت میں منتقل نہیں ہوئی۔ ہم سنسکرت کے مصنفین کی علوِ خیالی اور جادو نگاری کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کا طائرِ خیال ہمالیہ کی چوٹیوں سے آگے نہیں اڑ سکتا اور ان کی جادو نگاری کا چشمہ گنگا، جمنا میں گھل مل کر رہ جاتا ہے۔ اس زمانہ میں سنسکرت شباب پر تھی اور ہندو راجاؤں کے اقبال کا چراغ گنگا، جمنا کی لہروں پر جلتا تھا، اس زمانہ میں ہی جب سنسکرت کو وسعت دے کر ’’بین الاقوامی‘‘ زبان نہیں بنایا گیا، تو اس وقت کیا امید ہوسکتی تھی، جب کہ ان کے اقبال کا چراغ گل ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان نے بہت سے پلٹے کھائے، سنسکرت نے بھی بہت سے چولے بدلے اور آخر یہ زبان بالکل مردہ ہو گئی۔

    جس دریا کا منبع ہی خشک ہوگیا ہو، اس کے بہتے رہنے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ جب ہندی زبان کا ماخذ ہی ’’بین الاقوامیت‘‘ پیدا نہ کرسکا اور آخر کار وہ مردہ ہو گیا، تو پھر ہندی زبان سے ہم اس کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں کہ وہ اس زمانے میں جب کہ غیرممالک کے تعلقات ہندوستان سے قایم ہو رہے ہیں، افہام و تفہیم، رسل و رسائل اورنامہ و پیام کا ذریعہ بن سکے گی۔

    ہندی زبان کی ساخت کچھ اس نوعیت کی ہے کہ اس میں دوسری زبانوں کے لٹریچر منتقل کیے جانے کی صلاحیت ہی نہیں پائی جاتی۔ اس کے ثبوت کے لیے سنسکرت، پراکرت، برج بھاشا اور ہندی کی کتابیں اٹھا کر دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ دوسری زبانوں کے لٹریچر سے یہ زبانیں یکسر خالی ہیں۔ ہندی میں خود کوئی جان اور وسعت نہیں ہے، اس کو دوسری زبانوں کے لٹریچر کے ترجمہ کے لیے سنسکرت کے الفاظ سے امداد لینا پڑے گی۔ لیکن اس معاملہ میں سنسکرت تو خود تہی مایہ اور کنگال ہے۔ برخلاف اس کے اردو زبان میں، دنیا کی مختلف زبانوں کی سیکڑوں کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جب کبھی خاص اصطلاحات کے لیے جدید الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے، تو اردو اپنی پشت پر فارسی، عربی کا لامحدود سرمایہ پاتی ہے جو اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ فارسی اور عربی زبان کی ’’بین الاقومیت‘‘ ظاہر ہے، ان ہی زبانوں کے اثر نے اردو میں بھی ’’بین الاقوای استعداد‘‘ پیدا کر دی اور وہ دنیا کے ہر لٹریچر کے ہر مفہوم کو ادا کرسکتی ہے۔

    اردو کی مقبولیت
    اردو زبان میں اس قدر جاذبیت اور دلچسپی ہے کہ دوسرے ممالک کے لوگ جب ہندوستان میں آتے ہیں تو اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ عربوں اورایرانیوں کو چھوڑیے، شاید ہی کوئی ایسا انگریز ملے گا، جس نے ہندی زبان، اور ہندی رسم الخط اختیار کیا ہو، برخلاف اس کے اردو جاننے والے اور اردو لکھنے والے بہت سے انگریز ملیں گے، ایک دو انگریزوں نے تو اردو میں شعر بھی کہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ آنجہانی نے مولوی عبدالکریم صاحب اکبر آبادی کو اردو زبان سیکھنے کے لیے بلایا تھا۔ یہ اس زمانہ کا قصہ ہے جب کہ اردو لٹریچر کو زیادہ وسعت حاصل نہیں ہوئی تھی مگر زبان کی شیرینی، جامعیت اور بین الاقوامی شان تو اس وقت بھی موجود تھی۔

    ہندوستان میں ہندی کے بہت سے اخبار اوررسالے نکلتے تھے لیکن غیر ممالک میں شاید ہی کوئی ہندی رسالہ یا اخبار جاتا ہو، مگر اردو کے بہت سے رسالے اور اخبار، دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں اردو کے مشاعرے ہوتے ہیں اور اردو لٹریچر کی وہاں بہت کچھ مانگ ہے۔ ایک افریقی صاحب نے ڈربن میں ہوٹل قائم کیا ہے، انہوں نے مجھ سے ایک قطعہ اور اردو تحریر کا ایک نمونہ طلب کیا ہے، جسے وہ ہوٹل میں آویزاں کرنا چاہتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ افریقہ میں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی کافی تعداد ہے۔ میں اپنے متعلق اس قسم کی باتیں لکھنے کاعادی نہیں ہوں مگر ضرورت نے مجبور کردیا۔

    اردو کی ہمہ گیری
    اردو کو مٹاکر ہندی کو فروغ دینے کے یہ معنی ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے حافظوں سے وہ الفاظ محو کر دیے جائیں جو زبانوں پر چڑھ چکے ہیں اور خیالات میں سما چکے ہیں۔ کیا یہ کوشش کسی طرح بھی تعمیری کہی جاسکتی ہے؟ کسی عمارت کو اسی وقت مسمار کیا جاتا ہے، یا تو وہ کمزور ہوگئی ہو یا زمانے کے حسین ڈیزائنوں کے مقابلہ میں بھدی اور بدشکل ہو، مگر ایک مستحکم اور حسین عمارت کو مسمار کر دینا تو ایک ایسی شدید حماقت ہے، جس پر انسانوں کو نہیں، بندروں کو ہنسی آنی چاہیے۔

    مگر ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ کوشش کبھی بارآور نہیں ہوسکتی، کروڑوں انسانوں کی زبان کو مٹا دینا ناممکن ہے۔ ہم ہندی کے پرستاروں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ وہ تخریبی کارروائی کرنے سے قبل، دیہات اور قریوں میں جاکر اردو کی ہمہ گیری، جامعیت اور قبولیت کا پہلے اندازہ لگا لیں، اس کے بعد وہ کوئی اقدام کریں۔ ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ دو گھروں کے کھیڑے میں بھی اردو زبان کے میٹھے بولوں کو سنیں گے۔

  • زبانِ‌ اردو اور دہلی و لکھنؤ کی تقلید

    زبانِ‌ اردو اور دہلی و لکھنؤ کی تقلید

    اردو لغات، قواعد اور صحتِ زبان کے لیے عشرت لکھنوی کی تصانیف آج بھی نہایت مفید اور کارآمد ہیں۔ وہ انیسویں صدی میں اردو زبان کے ایک عاشق اور پُر زور داعی کے طور پر ہم عصروں میں نمایاں ہوئے۔ لکھنؤ کے اس شاعر اور نثر نگار کا اصل نام خواجہ محمد عبدالرؤف خان تھا جن کا خیال تھا کہ اردو زبان اپنی خوبیوں کے سبب ہندوستان پر راج کرے گی اور ضرور علمی زبان بنے گی۔ وہ اردو بولنے اور لکھنے کے لیے دہلی و لکھنؤ کی تقلید کو ہندوستانیوں کے لیے ضروری خیال کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ زبان کے مراکز ہیں جن کی تقلید نہ کی گئی تو ہر دوسرے شہر کی اردو الگ ہوگی اور لوگوں کو اس کا سمجھنا دشوار ہوگا۔

    جانِ اردو عشرت لکھنوی کی اردو نحو اور محاورات پر مفید کتاب ہے جس سے یہ اقتباس آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

    ’’جو لفظ یا جو اصطلاح یا جو محاورہ ہندوستان کے کسی شہر میں یا کسی صوبے میں بولا جاتا ہے اور دہلی اور لکھنؤ میں وہ مستعمل نہیں ہے اور زبان دانانِ دہلی اور لکھنؤ نے اسے قبول نہیں کیا تو وہ ٹکسال باہر اور غلط ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض اجنبی الفاظ اخبارات میں مستعمل ہورہے ہیں یا دوسرے شہروں میں بکثرت بولے جاتے ہیں، مگر عام ہندوستان کے لوگ اُسے غلط مانتے ہیں اور اس سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی صحت کا سرٹیفکیٹ زبان کے کالج سے حاصل نہیں ہوا یعنی دہلی اور لکھنؤ کے فصحا کے نظم و نثر کلام میں دیکھنے میں نہیں آیا اور ان کی زبانوں پر اس کا استعمال نہیں ملتا۔‘‘

    ’’مثال کے طور پر لکھا جاتا ہے، ایک لفظ ہے “ٹھہرنا”، بفتح ہائے ہوّز۔ دہلی اور لکھنؤ میں بولا جاتا ہے اور دونوں جگہ کے مستند شعرا نے اسی طرح نظم کیا ہے۔ فصیح الملک مرزا داغ دہلوی مرحوم نے بھی اس کو ثمر، سفر، سحر کے قافیے میں لکھا ہے:

    کیونکر پڑے گا صبر الٰہی رقیب کو
    گر بعد مرگ میری طبیعت ٹھہر گئی

    راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے
    ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے

    غم کھاتے کھاتے ہجر میں تو روح بھر گئی
    اب زہر کھائیں گے یہی دل میں ٹھہر گئی

    لیکن اس کو لاہور کے تمام لوگ ٹھیرنا بولتے ہیں اور پنجاب کی تمام کتابوں میں یہ لفظ اسی طرح لکھا جاتا ہے لیکن پنجاب کے سوا ہندوستان میں کوئی شہر اس کی تقلید نہیں کرتا اس لیے یہ لفظ ٹکسال باہر ہے۔‘‘

    ’’ اسی طرح حیدرآباد میں تقصیر کا لفظ صرف حضور کے معنی پر بولا جاتا ہے مگر لکھنؤ کے عوام عام خاص اس جدت کو غلط جانتے ہیں، اس لیے حیدرآباد کے سِوا تمام ہندوستان کے لوگ اسے غلط جانتے ہیں اور اس معنی پر اس کا استعمال نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ اس زمانے میں بعض نا آشنا نے خود روی اختیار کی ہے اور دہلی اور لکھنؤ کے اس اقتدار کو مٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اور اُس کی لطافتِ زبان اور فصاحتِ کلام سے خار کھاتے ہیں۔‘‘

    ’’اردو ادب ایسی سہل نہیں کہ بغیر کسی تحصیل کے کوئی اس کی معنوی خوبیوں سے آگاہ ہو سکے۔ لوگوں نے معیارِ ہمہ دانی انگریزی زبان کو بنا لیا ہے۔ ایک ہندوستانی ایم اے سمجھتا ہے کہ میں اردو کا بھی مالک ہوں۔ حالانکہ دو سطریں صحیح اردو کی نہیں لکھ سکتا۔ اس ضد میں زبان خراب ہو رہی ہے اور ہندوستان کے لوگ جس درخت پر بیٹھے ہیں اُس کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ اگر تمام ہندوستان جہالت کے دریا میں غرق ہو جائے جب بھی وہ عظمت اور وہ عزت جو خدا نے زبان کے بارے میں دہلی اور لکھنؤ کو دی ہے، کسی طرح کم نہیں ہو سکتی۔‘‘

    ’’فرض کیجیے آج تمام ہندوستان کے لوگ اتفاق کرلیں کہ ہم دہلی اور لکھنؤ کی پیروی نہیں کریں گے اور اپنی اپنی زبان بولیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر شہر کی بولی الگ الگ ہو گی۔ ایک شہر کا اخبار دوسرے شہر کے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے گا۔ کوئی کہے گا ٹوپی پہنی، کوئی کہے گا ٹوپی اوڑھی۔ کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی کوئی کہے گا ٹوپی باندھی، کوئی کہے گا ٹوپی چپکائی، کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی، کوئی کہے گا ٹوپی دھری، کوئی کہے گا ٹوپی لگائی، کوئی کہے گا ٹوپی سجی، کوئی کہے گا ٹوپی چڑھائی۔ اتنا بڑا فرق صرف ایک لفظ ایک معنی میں ہو گا تو پوری زبان کا کیا ذکر ہے۔ یہ ایک موٹی بات تھی جو ہم نے بیان کی۔ ورنہ زبان میں باریک پیچیدگیاں بہت ہیں۔ سب کے سب ایک قہار سمندر میں غوطہ کھا کر مرجائیں گے اور جو زندہ رہیں گے جہالت اور مزدوروں کی زندگی بسر کریں گے؛ اور اردو زبان کا جنازہ نکل جائے گا۔ لیکن دہلی اور لکھنؤ کی عظمت و فصاحت و بلاغت بیان و زبان کا نام ہمیشہ قائم رہے گا۔‘‘

  • بابراعظم نے دیار غیر میں پاکستانیوں کے دل جیت لئے

    بابراعظم نے دیار غیر میں پاکستانیوں کے دل جیت لئے

    قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم کے اقدام نے امریکا میں موجود پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کپتان بابر اعظم امریکی یونیورسٹی میں بزنس آف انٹرٹینمنٹ، میڈیا اور اسپورٹس کے پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں۔

    آج ہارورڈ یونیورسٹی کے پروگرام میں کپتان بابر اعظم نے قومی زبان سے عملی محبت کا ثبوت د یتے ہوئے اردو میں خطاب کیا۔

    بابراعظم نے کہا کہ اس پروگرام کے لیے بہت پُرجوش ہوں،ہم عمر میں اپنے چھوٹے اور بڑے دونوں سے سیکھتے ہیں کیونکہ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔

    انہوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ خود پر یقین رکھیں اور سیدھے راستے پر چلیں کیونکہ ہم آج کل کسی اور طرف جاتے جا رہے ہیں، بڑے لوگوں کے دیئے مشوروں پر سوچنا اور سمجھنا چاہیے۔

    اس پروگرام میں قومی ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان بھی کپتان کے ہمراہ ہیں، رضوان نے کہا کہ ایسے باوقارعالمی اسٹیج پر پاکستان کی نمائندگی کرنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے، مجھے یقین ہےکہ یہ ایک دلچسپ سفر ہوگا، میں کرکٹ کی دنیا کے اگلے سپر اسٹارز کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرنےکا منتظر ہوں۔