Tag: اردو زبان

  • حکومت کو  ایک ماہ میں  اردو زبان کو تمام اداروں میں نافذ کرنے کا حکم

    حکومت کو ایک ماہ میں اردو زبان کو تمام اداروں میں نافذ کرنے کا حکم

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو ایک ماہ میں اردو زبان کے نفاذ کو یقینی بنا نے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں اردو زبان کو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کیلئے دائر درخواستوں پرسماعت ہوئی۔

    جسٹس رضا قریشی نے اردو زبان کے نفاذ کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ نے تمام سرکاری اداروں میں اردو زبان کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کا حکم دیا، حکم کے باوجود حکومت نے اردو زبان کے نفاذ کیلئے اقدامات نہیں کیے، عدالت حکومت کو اردو زبان کے تمام اداروں میں نفاذ کا حکم دے۔

    عدالت نےاردوزبان کو تمام اداروں میں نافذ کرنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ حکومت ایک ماہ میں اردو زبان کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

    عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کےباوجوداردوزبان کوکیوں نہیں نافذ کیا گیا،سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطلاق لازمی اور ہر صورت ہوگا۔

    لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ حکومت فیصلےپرعمل درآمدکرکےرپورٹ ڈپٹی رجسٹرارکےپاس جمع کرائے،عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

  • ہم اردو کے لیے کیا کام کریں؟

    ہم اردو کے لیے کیا کام کریں؟

    کچھ دیر کے لیے آپ چہل قدمی کو کسی قدیم جنگل میں چلے جائیے، وہاں آپ کو تناور اور گرانڈیل درخت، چھوٹے بڑے پودے، طرح طرح کی بیلیں، پھولوں کے تختے، قسم قسم کی گھاسیں، جڑی بوٹیاں وغیرہ نظر آئیں گی۔ آپ درختوں میں پھل بھی لگے دیکھیں گے۔ بہت سے ایسے جنھیں ہم جانتے ہیں مثلاً کیلے، انجیر، آم وغیرہ اور بہت سے ایسے جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے ہیں۔

    اس کے بعد کسی اچھے باغ میں جائیے۔ یہاں بھی سایہ دار اور ثمر دار درخت اور خوش نما پھول اور پھل دیکھنے میں آئیں گے۔ یہ سب چیزیں باغوں اور چمنوں کی زینت ہیں، جنگل سے آئی ہیں، لیکن انسان نے اپنی عقل و تمیز سے ان میں حیرت انگیز شگوفہ کاریاں کی ہیں۔

    ایک آم ہی کو لیجیے۔ ایک جنگل کا آم ہے، دوسرا باغ کا آم، دونوں کے ذائقے میں زمین آسمان کا فرق ہے، انسان نے اپنی حکمت سے ان میں طرح طرح کی ایجاد کی ہیں۔ قلم باندھ باندھ کر بے شمار قسمیں بنائیں اور ان میں لطیف خوش بو، ذائقے اور لذتیں پیدا کیں۔ اوّل اوّل یہ سب کچھ ہمیں ذوق کی بدولت میسر آیا، پھر تجارت نے اسے ابھارا۔ شوق اور تجارت نے مقابلے پر اکسایا، مقابلے نے کش مکش پیدا کی، یہ کش مکش ہے جو بناتی، سنوارتی اور ابھارتی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی بقا اس کی کش مکش پر ہے۔ قریب قریب یہی حال ہماری اردو زبان کا ہے۔

    جس وقت یہ وجود میں آرہی تھی کسی کو اس کا علم تو کیا احساس بھی نہ تھا کہ کوئی نئی زبان بن رہی ہے۔ البتہ قدرت یعنی تقاضائے وقت اپنا کام کر رہا تھا۔ قدرت کے قانون بھی عجیب و غریب اور پر اسرار ہوتے ہیں، وہ اپنا کام چپکے چپکے کرتے ہیں، خواہ کسی کو خبر ہو یا نہ ہو، انسانی معاملات میں یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز سب سے قریب ہوتی ہے، اس پر سب کے بعد نظر پڑتی ہے۔ جب کہ ہم فارسی، عربی، سنسکرت پر فریفتہ تھے اور ان کی تصانیف اور کلام کے مزے لے رہے تھے، یہ غریب اور حقیر بولی چپکے چپکے ہمارے گھروں، بازاروں، خانقاہوں اور لشکروں میں گھر کر رہی تھی، میں نے اسے غریب اور حقیر اس لیے کہا کہ اس وقت یہ بازاری اور عامیانہ خیال کی جاتی تھی اور اہلِ ادب اور اہلِ ذوق اسے منھ نہیں لگاتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی نام بھی نہ تھا۔ جب دارُ الحکومت دہلی کی آس پاس کی بولی پر فارسی کی قلم لگی تو یہ وجود میں آئی۔ کسی نے دانستہ قلم نہیں لگائی اور نہ کسی جماعت اور انجمن نے یہ مشورہ دیا۔ یہ قدرت کے کام تھے۔

    اس وقت اس کی ضرورت تھی۔ بولیاں اور موجود تھیں لیکن یہ سب مقامی اور محدود تھیں۔ حکومت کی وسعت کے ساتھ ایک عام اور وسیع زبان کی ضرورت تھی اور وہ صرف قلم لگانے ہی سے پیدا ہو سکتی تھی اور اس قلم لگانے میں فاتح اور مفتوح دونوں شریک تھے۔ جب اس قلمی زبان کی بو باس اور رسیلے پن سے لوگوں کے کام و دہن آشنا ہوئے تو اس کا چرچا پھیلا۔ فقیر اور صوفی، تاجر اور پیشہ ور، لشکری اور بازاری اسے دور دور تک لے گئے اور جہاں گئی مقبول ہو گئی۔ آخر کار جب یہ بے نام اور عوام کی بول چال سے نکل کر مسندِ ادب و انشا تک پہنچی تو پہلی بار اسے نام کا شرف بخشا گیا یعنی ریختہ کہلائی۔ اور بعد میں اردو سے موسوم ہوئی جو اب اس کا عام اور مقبول نام ہے۔

    اس وقت فارسی کا بول بالا تھا، اس سے اس کا مقابلہ ہوا۔ مقابلے میں فارسی کی ہار اور اردو کی جیت ہوئی۔ فارسی کو ہٹا کر دفتروں اور عدالتوں میں پہنچی، مدارس میں داخل ہوئی۔ ذریعۂ تعلیم بنی۔ اخبار اور رسالے جاری ہوئے۔ بہت سی انجمنیں اور ادارے اس کی حمایت اور اشاعت کے لیے قائم ہوئے۔ علم و ادب میں ترقی اور علوم وفنون میں کتابیں لکھی جانے لگیں۔ غرض ہراعتبار سے سارے ملک پر چھا گئی اور ہندوستان کی مشترکہ اور عام زبان مانی جانے لگی۔ اردو کی یہ جیت ذوقِ ضرورت اور کش مکش سے حاصل ہوئی اور اب بھی انہی کی بدولت ہوگی۔

    اردو یوں ہی ایسی شیریں، وسیع اور علمی و ادبی زبان نہیں بن گئی۔ اس نے بڑی بڑی مصیبتیں اور آفتیں جھیلیں ہیں، بڑے بڑے مقابلے کیے ہیں۔ اس نے دیسی بولیوں کو نیچا دکھایا، اس لیے کہ وہ مقامی اور محدود نہیں۔ اس نے فارسی کو نکالا اس لیے کہ وہ غیر تھی۔ اس نے دوسری بولیوں پر فوقیت اور فضیلت حاصل کی اس لیے کہ اس میں ہندو مسلم دونوں کی تہذیبوں اور دونوں کے اتحاد کی جھلک تھی اور اس لیے کہ اس کے حامیوں نے اس کے سنوارنے، بنانے اور ترقی دینے میں دل و جان سے جد و جہد کی اور اپنی کوششوں میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ اردو کو جو حیثیت اور اہمیت حاصل ہو چکی ہے، اسے قائم رکھنا حامیانِ اردو کا فرض ہے۔

    اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اردو کے لیے کیا کام کریں؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا جو چیز سب سے قریب ہوتی ہے، اس پر نظر نہیں پڑتی۔ کام کے لیے بہت وسیع میدان ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں، ایک زبان کے علم و ادب میں اضافہ اور ترقی، دوسرا زبان کی اشاعت۔ جن لوگوں کو قدرت نے صلاحیت عطا کی ہے (بشرطے کہ ان کا صحیح اندازہ کیا گیا ہو) وہ علمی و ادبی تحقیقی کام کریں، جن میں یہ استعداد نہیں وہ اشاعت میں کوشش کریں۔ اردو کتابیں اور رسالے پڑھیں، دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب دیں۔ گھروں میں خاص کر لڑکیوں اور عورتوں کو اردو پڑھائیں، اردو بولیں، لکھیں، خط پتر اردو میں لکھیں، نام کی تختیاں اردو میں ہوں، حساب کتاب اردو میں لکھا جائے۔ جہاں اردو کے حق میں ناانصافی ہوتی ہو اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اَن پڑھوں کو پڑھائیں، جہاں اردو کا رواج کم ہو وہاں اسے رواج دیں، جو ادارے اردو کی ترقی و اشاعت کا کام کر رہے ہیں، ان سے تعاون کریں، ان کی مدد کریں۔ غرض اس قسم کے سیکڑوں کام ہیں جو ہر شخص اپنی بساط اور حالات کے مطابق کر سکتا ہے۔

    زیادہ تقریریں کرنے سے قوّتِ عمل ضعیف ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کام ضعیف ہیں۔ جو شخص اور قومیں کام سے جی چراتی ہیں انہیں کبھی آزادی نصیب نہیں ہو سکتی۔ انسان کی نجات استقلال سے محنت اور کام کرنے میں ہے۔ کسی کو باتیں اور تقریریں کرنے کا حق نہیں۔ جس نے کچھ کر کے نہ دکھایا ہو۔ خالی باتیں طبل تہی کی آوازیں ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمارے گھروں، کالجوں اور چائے خانوں اور دفتروں میں جلی قلم سے جگہ جگہ یہ لکھ دیا جائے، ’’باتیں کم اور کام زیادہ۔’‘

  • سنیما اور اردو زبان….

    سنیما اور اردو زبان….

    ہندوستانی فلموں پر ہونے والی گفتگو اردو زبان اور اس کی تہذیب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ہندوستانی فلموں نے اردو کی آغوش میں آنکھیں کھولیں اور اردو زبان کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔

    پہلی ہندوستانی فلم ’عالم آرا‘ پر غور کیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی کہانی، مکالمے، نغمے، برتاؤ وغیرہ سب کے سب اردو کے رنگ میں ہیں۔ اس فلم کے مکالمے کی زبان اردو تھی جسے عوامی سطح پر بے حد مقبولیت حاصل تھی۔ اس فلم کے ہِٹ ہونے میں مکالمے کا اہم رول رہا۔ اس پہلی متکلم فلم ’عالم آرا‘ کے مکالمے منشی ظہیر نے لکھے تھے جو اردو میں تھے۔

    عالم آرا سے لے کر اب تک کی تمام ہندوستانی فلمیں اگر کام یابی سے ہم کنار ہوئیں تو اس میں مکالمے کا رول اہم رہا ہے۔ ابتدا میں موسیقی سے لبریز فلمیں شائقین کے لیے لطف اندوزی کا ذریعہ تھیں، مگر سنیما صنعت کی ترقی کے ساتھ رواں دواں زندگی کی پیش کاری کے لیے جہاں کئی ذرائع اظہار استعمال کیے گئے، وہیں جذبات و احساسات کے حسین اور پُر اثر اظہار کے لیے مکالمے کو بہترین آلۂ کار مانا گیا۔ بولتی فلموں کے آغاز سے اب تک مکالمے کی اہمیت برقرار ہے۔ ہزاروں مکالمے پسندیدگی کی سند پا چکے ہیں اور خاص و عام کی زبان پر جاری ہیں۔ جہاں بھی فلموں میں پُر اثر اداکاری کا ذکر ہوتا ہے وہیں مشہور ڈائلاگ برسوں تک شائقین بھول نہیں پاتے۔

    آخر مکالمے میں ایسی کیا بات ہے کہ فلموں میں اس کی اتنی اہمیت ہے۔ اس کو تعریف کا جامہ کس طرح عطا کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں فلموں سے وابستہ فن کاروں کی رائے سود مند ہو سکتی ہے اور ان نکات پر گفتگو کی جا سکتی ہے جن کی طرف آرٹسٹوں نے توجہ دلائی ہے۔ جناب احسن رضوی جنھوں نے فلم مغلِ اعظم کے کچھ مکالمے لکھے، ان کے مطابق ’’مکالمہ وہ پیرایۂ گفتگو ہے جو کہانی کی تمام ضرورتوں پر حاوی ہو۔‘‘ انھوں نے کہانی اور منظرنامے میں مکالمے کی بنیادی حیثیت کو قبول کیا ہے۔ جدید شاعری کا اہم ترین نام اخترالایمان تقریباً چالیس سال تک فلموں سے وابستہ رہے۔ کہانیاں، شاعری اور مکالمے انھوں نے فلموں کے لیے لکھے۔

    فلم کی کام یابی کے لیے جن نکات پر محنت کی جاتی رہی ہے ان میں مکالمہ بھی ایک ہے۔ مکالمے صرف تحریر نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ اس کی قرأت کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ مکالمہ نویس اور اداکار کے درمیان مکالمے پر تبادلۂ خیال کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ اداکار کو اس بات کے لیے تیّار کیا جاتا ہے کہ مکالمے اس انداز سے ادا کیے جائیں جو اس زبان کی اصلیت کو برقرار رکھے۔ اس کے لیے باضابطہ طور پر آدمی بحال کیے جاتے ہیں۔

    اردو زبان کی ہمہ گیری اور مقبولیت کے پیشِ نظر فلموں کے مکالمے میں صرف الفاظ استعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ لہجہ بھی اردو والا ہی ہوا کرتا ہے۔ چند مکالمے ملاحظہ کیجیے اور ان میں اردو کی جلوہ گری محسوس کیجیے۔

    ’’آج میرے پاس گاڑی ہے، بنگلہ ہے، پیسہ ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘۔۔۔۔ ’’میرے پاس، میرے پاس ماں ہے۔‘‘

    ’’آپ کے پاؤں بہت حسین ہیں، انھیں زمین پر مت اتاریے گا، میلے ہو جائیں گے۔‘‘ (فلم پاکیزہ)

    ’’انار کلی، سلیم کی محبّت تمہیں مرنے نہیں دے گی اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے۔‘‘ (فلم مغلِ اعظم)

    ’’بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ (فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے)

    کبھی کبھی کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا پڑتا ہے۔ اور ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں۔‘‘ (فلم بازی گر)

    یہ وہ مکالمے ہیں جو فلم دیکھنے والے حضرات کو ازبر ہیں۔ عوام میں ان مکالموں کا استعمال روزمرّہ کی طرح ہوتا ہے۔ کسی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کو بولنے والے سے اثر انداز ہو کر اس کو جاننے کی سعی کرنا۔ اردو زبان کی خصوصیت ہے کہ دوسری زبانوں کو جاننے والے جب ان الفاظ کو سنتے ہیں تو اس کو سیکھنے کی للک ہوتی ہے۔ ہندی یا دوسری علاقائی زبانوں کو جاننے اور بولنے والے اردو کے الفاظ کا استعمال کرکے خوش ہوتے ہیں اور اس کے حُسن کی تعریف کرتے ہیں۔

    ہندوستانی فلموں کی ایک صد سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’عالم آرا‘ سے اب تک کی فلموں میں مکالمے کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ بے حد کام یاب فلمیں یا باکس آفس پر سپر ہٹ ہو نے والی فلموں کی کام یابی کی وجہ اگر تلاش کی جائے تو جہاں دوسرے عناصر کا نام آئے گا وہیں مکالمے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    (محمد منور عالم کے مضمون سے انتخاب)

  • اردو کے بارے میں گنوار کی رائے

    اردو کے بارے میں گنوار کی رائے

    فراق گورکھپوری ایک عہد ساز شاعر اور نقّاد تھے۔ اردو زبان کے جن شعرا نے جدید شاعری میں اپنی انفرادیت کے سبب جو شہرت اور مقبولیت سمیٹی، ان میں فراق کا نام سرِ فہرست ہے۔

    فراق کے بارے میں‌ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کا کہنا ہے کہ، اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا اور نئی شاعری کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔

    ہندوستان میں‌ اردو اور ہندی زبان کا تنازع نیا نہیں۔ آج بھی بھارت میں‌ اردو کی مخالفت میں‌ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس میں‌ ہندی کے چند مصنّفین نے فراق کے سامنے اردو کی مخالفت کی تھی اور سخت جواب پایا تھا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک مرتبہ ہندی کے چند ادیبوں کی محفل میں فراق کا جانا ہوا، ادھر ادھر کی باتوں کے بعد گفتگو کا رخ ہندی اور اردو کی طرف مڑ گیا۔ ہندی کے ایک ادیب نے کہا۔

    ’’فراق صاحب! اردو بھی کوئی زبان ہے۔ اس میں گل و بلبل کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟ ہلکی پھلکی اور گدگدی پیدا کرنے کے علاوہ سنجیدہ اور اونچے قسم کی فلاسفی سے متعلق باتیں اس زبان میں ادا نہیں کی جاسکتیں۔ آپ بڑے شاعر ضرور ہیں ، لیکن اردو ایک گھٹیا زبان ہے۔‘‘

    فراق نے تحمّل اور سنجیدگی سے ان کی بات سنی، پھر ایک سگریٹ سلگایا اور کہا: ’’ہر گنوار انسان، خوب صورت چیز کے بارے میں وہی کہتا ہے، جو آپ نے اردو کے بارے میں فرمایا ہے۔‘‘

  • دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    ہندوستان کے بٹوارے اور تقسیم کے کئی سال بعد بھی بھارت میں متعصب اور انتہا پسند حلقوں کی جانب سے اردو کی مخالفت میں باقاعدہ مہم چلائی گئی اور ہر سطح پر اردو بولنے اور لکھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔

    اس زمانے میں اردو بولنا اور لکھنا جیسے جرم تھا اور یہ سوچ مذہبی شخصیات اور عوام ہی تک محدود نہیں‌ تھی بلکہ علم و دانش اور ادب سے وابستہ افراد نے بھی اس حوالے سے تنگ نظری اور پستی کا ثبوت دیا، لیکن بعض عالی دماغ اور روشن نظریات و خیالات رکھنے والی شخصیات نے اسے علم دشمنی اور صدیوں پرانی تہذیب اور ثقافت کا قتل قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا۔

    معروف ہندوستانی ادیب رتن سنگھ نے اسی حوالے سے بیسویں صدی کے نام وَر شاعر، ادیب اور نقّاد فراق گورکھپوری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو ہم یہاں اپنے باذوق قارئین اور علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘فراق صاحب ریڈیو کے پروڈیوسر ایمریٹس تھے، اُن دنوں یہ ممکن نہیں تھا کہ کسی ریکارڈنگ کے لیے اُنہیں فیس کا چیک دیا جائے۔ ایسی صورت میں فراق صاحب کو یہ سمجھانا ایک ٹیڑھی کھیر تھی۔

    اس معاملے کے حل کے لیے میں نے ایک صورت یہ نکال لی کہ الٰہ آباد سے لکھنؤ آنے کا کرایہ اور ڈی اے وغیرہ دے دیا جائے۔ میں یہی کرتا تھا۔

    فراق صاحب اسی پر ہی ریکارڈنگ کے لیے راضی ہوجاتے تھے، لیکن ایک بار ایک نئی قسم کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔

    فراق صاحب کو اُردو زبان اور اس کے مستقبل کے بارے میں بولنا تھا۔ اس کے بارے میں باتیں کرتے کرتے وہ اتنی کڑوی باتیں بھی کر گئے کہ اگر اُنہیں نشر کردیتا تو واویلا کھڑا ہوجاتا۔

    ہزاری پرساد دیویدی اور نہ جانے کس کس کو اُردو کے حق سے محروم رکھنے کی شکایت کرتے ہوئے اُنہوں نے صاف صاف کہا کہ اے ہندوﺅ! میری مراد آر ایس ایس والے ہندوﺅں سے ہے، اور میں اُنہی کے لب و لہجے میں کہہ رہا ہوں کہ اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، پاکستان دشمن ہو رہا ہے۔ اگر دشمن کی بھاشا نہیں سمجھو گے تو اپنی لڑائی کیسے لڑو گے؟

    اے ہندوﺅ! اُردو پڑھ لو، اپنے ملک میں کروڑوں مسلمان رہتے ہیں۔ اُن کی زبان نہیں سمجھوگے تو بھی مشکل پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح کی باتیں کرکے فراق صاحب چلے گئے۔

    پھر الٰہ آباد سے مجھے لکھا کہ بھائی جو کچھ میں نے کہا ہے، اس کو براڈ کاسٹ کرنے کی ذمے داری تمہاری ہے۔ دیکھ لینا غور سے۔’

  • گویائی کے نئے سکّے تلاش کرتی اردو زبان

    گویائی کے نئے سکّے تلاش کرتی اردو زبان

    زبان کے الفاظ سکّوں کی طرح چلتے ہیں۔ پرانے سکّے غیر محسوس طریقے سے بازار سے نکلتے جاتے ہیں، ان کی جگہ نئے سکّے راہ پا لیتے ہیں۔ نئے الفاظ زبان پر چڑھتے ہیں، نئے محاورے اور روزمرّہ استعمال میں آتے ہیں اور نئی زبان ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے۔

    یہ سب کچھ مادّی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا۔ یعنی کوئی کھانچا یا فرما نہیں ہوتا، جس میں زبان ڈھلتی ہو بلکہ یہ نفسیاتی اور فطری عمل کے ذریعے معرضِ وجود میں آتی ہے۔ آب و ہوا اور جغرافیائی اثرات سے اصول لیتی ہے، یعنی الفاظ ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے تلفّظ اور لہجے شمال، جنوب، مشرق، مغرب سمتوں میں بدلتے رہتے ہیں۔ غرض کہ اس طرح زبان کے لیے اور جدید زاویے اُبھرتے ہیں اور ایک ایسی زبان سامنے آتی ہے، جو عوامی بولی بن جاتی ہے، جسے ہر خاص و عام سمجھتا ہے اور بولتا بھی ہے۔

    ہمارے ملک میں یہی عمل جاری ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں اردو زبان پر کئی ردّے لگ چکے ہیں۔ اب اس کی نئی شکل ابھر کر سامنے آتی جا رہی ہے، اس نئی ابھرتی ہوئی اردو زبان کی رچی ہوئی شکل بعض ناولوں، ادبی تحریروں اور ٹی وی ڈراموں میں نظر آتی ہے۔ اس زبان میں وہی کھٹ مٹھا پن ہے، جو پیڑ میں لٹکتی ہوئی امبیا کا ہوتا ہے۔ دانت سے کترو تو مزہ بھی آتا ہے اور منہ بھی بنتا ہے۔ یہ زبان میٹھی بننے میں ابھی وقت لگے گا، مگر جب پوری طرح جوبن پر آئے گی تو اپنی مٹھاس دکھائے گی۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ اردو کو ٹکسالی میزان قرار نہیں دیا جاسکتا۔بَرخلاف اس کے آج کی تخلیقی تحریریں پڑھیے تو ان میں سے اکثر و بیش تر میں جلدی جلدی کاتا اور لے دوڑے کا عمل نظر آئے گا۔ ان تحریروں میں پھوہڑ پن کا احساس ہوگا۔ یوں محسوس ہوگا کہ لکھنے والا نہ صرف زبان و بیان اور الفاظ کے رموز سے ناواقف ہے، بلکہ وہ اپنے قدیم و جدید ادب سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہے۔

    وہ تخلیقی سطح پر زبان سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہے اور انگریزی مرکبات اور جملوں کے بھونڈے ترجموں سے عبارت کو خراب کر رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے رجحانات اور اس کے ادب کی پیروی کر کے وہاں کے ادبی مشن کو پاکستان میں درآمد کر رہا ہے۔ وہ اپنے معاشرے اور اس کے مسائل اور رجحانات سے کٹا ہوا ہے۔ صرف بدیسی اثرات اور فیشن کی سوداگری کر رہا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ عصری لسانی تقاضے، دونوں لسانی نظریات سے تکمیل پاتے ہیں۔ فن اور نظریہ دونوں کی ضرورت ہے۔ ادبی تحریر میں اپنی زمین کی بو باس ہونی چاہیے، جس تحریر میں مقامی معاشرتی بولی ترجمانی نہ کرتی ہو، بلکہ اس میں انگریزی زبان و اسلوب کے اثرات نمایاں ہوں، وہ تحریر زبان کی ٹکسالی اہمیت کو متاثر کرتی ہے اور ادبی روح کو بھی کچلتی ہے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی ایسی تحریروں کو مسترد کرتے ہیں، جب کہ نارنگ قطع نظر زبان کے فنی لزوم کے صرف زبان کے ارتقا پر نظر رکھتے ہیں، ان کی زبان میں اب زمانہ ٹکسال سے باہر آچکا ہے اور گویائی کے سکّے عام بازار میں تلاش کر رہا ہے، لہٰذا اس رویّے کو وقت کی ضرورت سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔

    (ڈاکٹر صابر حسین جلیسری کے مضمون سے غلام حسین قادر کا انتخاب)

  • دامودر ذکی: غیر مسلم نعت گو شاعر

    دامودر ذکی: غیر مسلم نعت گو شاعر

    اردو ادبا اور شعرا کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بلا تفریقِ مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔

    اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا۔ ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں مؤثر رول ادا کیا۔

    اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیورِ طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لایا۔

    حیدرآباد (دکن) میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔

    ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے۔

    انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد دریا آبادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ، جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعرا کہہ سکتے ہیں۔

    ذکی کو میلاد کے جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ میلاد کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلام سنارہے تھے۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نم ناک ہوگئی تھیں۔

    قیامت میں محمدﷺ کا سہارا ڈھونڈھنے والے
    سنا بھی زندگی میں تُو نے فرمایا محمدﷺ کا

    (رشید الدین، حیدر آباد، دکن کے مضمون سے ایک پارہ)

  • میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    1957 میں مشہور امریکی ادارے پی، ای، این نے مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے، پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی اور دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصے میں پڑے۔

    مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔

    تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔

    ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی۔

    آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔

    ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔

    (ممتاز ادیب، مترجم اور محقق ابوالفضل صدیقی کی کتاب ”عہد ساز لوگ“ سے ایک ورق)

  • میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    مجید لاہوری کے مزاحیہ اشعار محض سخن برائے گفتن نہیں بلکہ ہنسی ہنسی میں وہ زخم کریدنے، سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی مسائل پر نشتر برسانے کا فن جانتے تھے۔ ان کے چند منتخب اشعار جو آج کے جدید معاشرے کی بھی عکاسی کرتے ہیں‌ ملاحظہ ہوں۔

    میدانِ سیاست سے زورِ خطابت تک دھوکے اور فریب سے خود کو مسیحا بتانے والوں‌ کے پیچھے چلنے والے عوام سے وہ ایسے مخاطب ہوتے ہیں۔

    اے قوم بنا دے تُو مجھ کو بھی ذرا لیڈر
    کیا اور کروں آخر جب کام نہیں ملتا
    گدھوں پہ لاد کے ہم بوجھ ذمے داری کا
    یہ کہہ رہے ہیں کوئی آدمی نہیں ملتا

    حضرتِ انسان کی کم عقلی، کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اس نے دنیا میں‌ اپنے ہی جیسے انسانوں‌ کو گویا پالن ہار اور ان داتا بنا رکھا ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر دیکھیے۔

    فرعون و ہامان و قارون سارے
    سبھی مفلسوں کے بنائے ہوئے ہیں

    وہ ہمارے جمہوری نظام اور سیاسی ابتری پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

    بناتے تھے مجھے کب لوگ ممبر
    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

    اور یہ دو شعر کیسے نمکین ہیں جس میں‌ اردو زبان کی بے وقعتی پر انھوں‌ نے اہلِ علم کو خبردار کیا ہے اور اردو بولنے والوں‌ کو گویا جگانے کی کوشش کی ہے۔

    کھا کے امریکا کا گھی پھر نوجواں ہو جائے گا
    مولوی گل شیر، بھولو پہلواں ہو جائے گا
    غیر ٹھکرائیں گے،اپنے بھی نہیں اپنائیں گے
    اے مرے دل تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا

    اس شعر میں‌ مجید لاہوری نے سیاسی نظام پر ظریفانہ چوٹ کی ہے

    ہم نے بی اے کیا، کلرک ہوئے
    جو مڈل پاس تھے، وزیر ہوئے

  • کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    بخاری صاحب کا ان دنوں عالمِ شباب تھا۔ پینتیس سال کے قریب عمر ہوگی، دراز قد، گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔

    ریشمی گاؤن پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لیے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی مشہور ہندوستانی اداکار، ان کا عزیزترین شاگرد تھا۔ اکثرایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے۔

    ’’کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو، جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘‘

    لیکچر کسی کتاب یا نوٹس کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگریزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روایتی اندازِ بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سےنہیں نکلتا تھا۔

    ڈراما پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ ہملیٹ پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تأثرات پیدا کرلیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ کنگ لیر پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفانوں میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھیں، انھیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آجاتی۔

    حافظہ غضب کا پایا تھا، اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انھوں نےنہیں ہم نے پڑھی ہے۔

    ایک بار فرانسیسی فلسفی برگساں کی کتاب ’’مزاح‘‘ کی وضاحت فرماتے وقت انھوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دل چسپ باتیں بتائیں۔

    فرمایا۔ انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔

    میں نے کہا، جناب بندر بھی ہنستا ہے۔

    ہنس کر فرمایا، کیوں کہ وہ انسان کا جدِ امجد ہے۔

    بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ہنسنے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیعِ اوقات ہے۔ اگرایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں، لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی، کیوں کہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی، تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا، عقل بڑی یا بھینس۔۔۔۔

    معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون پیرومرشد سے انتخاب