Tag: اردو زبان

  • دنیا کا تہذیبی، ثقافتی ورثہ مادری زبانوں‌ کی آغوش میں محفوظ ہے

    دنیا کا تہذیبی، ثقافتی ورثہ مادری زبانوں‌ کی آغوش میں محفوظ ہے

    اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا نے مادری زبانوں کا دن عالمی سطح پر منانا شروع کیا تھا۔

    ہر سال 21 فروری (آج) کو یہ دن اس عزم اور جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ حکومتیں زبانوں کے پھلنے پھولنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں‌ گی اور قوموں کو یاد رکھنا ہو گا کہ زبانیں ان کا فخر اور بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ یوں یہ دن اس حوالے سے یاد دہانی کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔

    زندہ معاشروں میں اس روز مذاکرے، مباحث منعقد ہوتے ہیں اور زبانوں سے متعلق علمی و تحقیقی کاموں کو آگے بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ دانش ور اور ماہرینِ لسانیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ صاحبانِ اختیار کو مادری زبانوں کے تحفظ، فروغ اور احیا کی طرف متوجہ کریں۔

    آج پاکستان میں بھی یہ دن منایا جارہا ہے۔ قومی زبان اردو کے علاوہ ہمارے ملک کے تمام صوبوں‌ کی اپنی زبان اور مقامی بولیاں‌ ہیں‌ جو ثقافتی تنوع اور تہذیب و روایت کی رنگارنگی کا مظہر ہیں۔

    مادری زبان دراصل ہماری پیدائشی بولی، گھر اور خاندان میں رابطے کا ذریعہ بننے والی زبان ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو زبان کے بعد مختلف بولیاں اور چھوٹی زبانیں بھی رابطے کا ذریعہ ہیں جو مقامی اور ثقافتی لب و لہجے میں گندھی ہوئی ہیں۔

    اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی مقامی سطح پر مختلف زبانیں اور بولیاں سمجھی اور بولی جاتی ہیں۔ تاہم کئی زبانیں اور مقامی بولیاں ابھی متروک ہوتی جارہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ زبانوں کا تحفظ اور رکن ممالک ان کو فروغ دینے کی کوشش کریں تاکہ دنیا کا عظیم ثقافتی اور لسانی ورثہ محفوظ رہے۔ یاد رہے کہ کسی قوم کی ثقافت، تاریخ، فن، اور ادب اس کی مادری زبان کا مرہون منت ہوتا ہے اور زبانوں کے متروک ہونے سے تاریخ و ثقافت مٹ سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں مختلف لہجوں میں لگ بھگ 74 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو، براہوی، میمنی، مارواڑی، پہاڑی، کشمیری، گجراتی، بلتی، دری اور بہت سی دوسری بولیاں قبائل اور برادریوں کے افراد میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔

  • صدر کی پیروڈی

    صدر کی پیروڈی

    پیروڈی ادب کی معروف اصطلاح ہے جو مغرب سے آئی اور اردو زبان نے اسے سمیٹا۔

    ہمارے یہاں‌ ادب میں‌ زیادہ تر شاعری کو پیروڈی کا بوجھ اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم یہ نثر اور نظم دونوں سے متعلق ہے جس میں‌ ظرافت اور مزاح غالب ہوتا ہے۔

    اردو کی شعری روایات میں کسی شاعر کے مصرع پر مصرع باندھنے کی روایت بڑی پرانی اور مضبوط ہے۔ طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کرنے والے اکثر مشہور مصرعوں پر "ہاتھ صاف” کرتے ہیں اور اگر کبھی سامعین یا قارئین کو قہقہے لگانے پر مجبور نہ کرسکیں‌ تو یہ شاعری انھیں‌ مسکرانے پر ضرور مجبور کردیتی ہے۔

    ایک زمانہ تھا جب مزاحیہ مشاعرے بھی منعقد ہوا کرتے تھے اور ان میں‌ اپنا طنز و مزاح‌ پر مبنی کلام پیش کرنے کے ساتھ شعرا پیروڈی بھی پیش کرتے تھے۔ دہلی کے ایک ایسے ہی مشاعرے کے آغاز پر صدرِ محفل اور اپنے وقت کے مشہور شاعر کے درمیان دل چسپ مکالمہ ہوا جس کا پنڈال میں‌ موجود شعرا اور سامعین نے خوب لُطف لیا اور وہاں دیر تک ان کے قہقہے گونجتے رہے۔ آپ بھی پڑھیے۔

    دہلی میں شعرا ایک پیروڈی مشاعرے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ جب گلزار زتشی کا نام صدارت کے لیے پیش کیا گیا تو انھوں‌ نے تواضع اور انکساری کا مظاہرہ کیا اور بولے:

    ”جناب! میں صدارت کا اہل کہاں ہوں؟“

    اس پر مشہور شاعر کنور مہندر سنگھ نے برجستہ کہا:

    ”مطمئن رہیں، آپ صدر کی پیروڈی ہی ہیں۔“

  • اردو زبان مسلمانوں‌ میں‌ اختلافات اور دوریوں‌ کی وجہ؟

    اردو زبان مسلمانوں‌ میں‌ اختلافات اور دوریوں‌ کی وجہ؟

    بھارتی ریاست تامل ناڈو کا شہر چنائے کبھی مدراس کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    یہاں کی زبان تامل یا تمل ہے جو یوں‌ تو سبھی بولتے اور سمجھتے ہیں، مگر چند مقامی زبانیں‌ یا بولیاں بھی لوگوں میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔ تامل ناڈو ریاست کے مختلف شہر اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

    مدراس یعنی چنائے کی بات کی جائے تو یہ شہر ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ یہاں کی بیش تَر مسلم آبادی بھی مقامی ثقافت میں رنگی ہوئی ہے اور ایک لحاظ سے متنوع ہے۔ تاہم زبان کے فرق نے چنائے کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔

    مسلمانوں کا ایک گروہ وہ ہے جو اردو کو مادری زبان مانتا ہے اور ان کے لیے یہ زبان تہذیبی اور مذہبی شناخت کا اہم ذریعہ ہے جب کہ ریاست کے اندرونی اور ساحلی علاقوں کے مسلمان خاندانوں کا اردو سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تامل بولتے اور ہر معاملے میں اسی زبان اور مقامی بولیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسئلہ زبان نہیں ہے بلکہ وہ ثقافت ہے جسے وہ اس خطے کی اساس اور پہچان سمجھتے ہیں۔

    تامل ناڈو میں بہت تجزیہ نگار اور دانش وَر بھی اردو بولنے والوں پر تنقید کرتے ہیں اور انھیں سیاسی یتیم کہا جاتا ہے ۔ ان کی نظر میں اردو کو اپنی مذہبی شناخت اور ثقافت کے لیے ناگزیر سمجھنا ایک پسماندہ سوچ ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ تامل ناڈو اور چنائے جیسے بڑے شہر میں اردو بولنے والے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان کی معاشی حالت بھی اچھی نہیں اور ان میں سے بیش تَر تجارت اور معمولی کاروبار کرتے ہیں۔ یہ اپنے مذہب اور اردو زبان کی بنیاد پر اپنے رہن سہن اور ثقافت کا تعین کرتے ہیں۔

    دوسری جانب تامل بولنے والے مسلمانوں اور اردو بولنے والے مسلمانوں کے درمیان عام معاملات میں کھنچاو اور ایک قسم کی دوری نظر آتی ہے اور بعض علاقوں میں تو ان کے سماجی روابط برائے نام ہیں۔

    اردو اور تامل بولنے اور مخصوص ثقافت کے حامی ان مسلمان خاندانوں میں سماجی خلیج نے انھیں آپس میں شادی بیاہ کرنے سے بھی دور رکھا ہوا ہے۔ یہ آپس میں‌ کسی قسم کے مراسم اور تعلقات استوار نہیں‌ کرنا چاہتے بلکہ تامل زبان بولنے والے جانتے ہیں کہ اردو بولنے والے مسلمان انھیں اچھا اور مکمل مسلمان ہی نہیں مانتے اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے۔

  • اسرار الحق مجاز اور مولانا حالی کی شگفتہ بیانی

    اسرار الحق مجاز اور مولانا حالی کی شگفتہ بیانی

    سعادت مند

    مشہور شاعر اسرار الحق مجاز بلا کے مے نوش تھے۔ ایک روز کسی صاحب نے ان سے پوچھ لیا۔
    ’’کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر اعتراض نہیں کرتے؟‘‘
    مجاز جیسے زرخیز ذہن کے مالک اور خوب صورت شاعر نے اس سوال پر ان صاحب کو ایک نظر دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے مختصر جواب دیا۔

    ‘‘جی نہیں۔’’ پوچھنے والا ان کے اس مختصر جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور اس کی وجہ جاننا چاہی۔ اس کے اصرار پر مجاز نے جو کہا وہ ان کی حاضر دماغی اور ظرافت کا ثبوت ہے۔
    ‘‘دیکھیے، یوں تو لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر آپ سمجھ لیں کہ میرے والدین سعادت مند ہیں۔’’

    تن ہا

    یہ اردو کے ایک لکھاری کی شادی کی تقریب کا واقعہ ہے جو اپنے وقت کی قدرآور شخصیات کے نہایت شستہ مزاح اور شگفتہ بیانی کی ایک مثال ہے۔

    محمد یحییٰ تنہا کی شادی تھی۔ انھوں نے تقریب میں اپنے ادیب اور شاعر دوستوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ ان میں مولانا حالی اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں۔
    تقریب کے بعد اپنے وقت کی ان قابل شخصیات نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ اصحاب بیٹھے ہی تھے کہ تنہا وہاں آگئے۔ اسماعیل میرٹھی نے انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولے۔
    جناب، آپ اپنا تخلص بدل دیں، کیوں کہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔
    اس سے پہلے کہ محمد یحییٰ تنہا ان کی بات کا جواب دیتے مولانا حالیؔ بول پڑے۔
    نہیں مولوی صاحب یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘تن۔۔۔ہا’’ تو دراصل یہ اب ہوئے ہیں۔ اس پر سبھی مسکرا دیے اور مولانا حالیؔ کی اس شگفتہ بیانی کا خوب چرچا ہوا۔

  • فرانس میں اب اردو زبان سکھائی جائے گی

    فرانس میں اب اردو زبان سکھائی جائے گی

    پیرس: فرانس میں اردو زبان سیکھنے کی کلاسز متعارف کروا دی گئیں، یہ کلاسز فرانس کے مقامی، پاکستانی نژاد شہریوں اور غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے شوقین افراد کے لیے متعارف کروائی گئی ہیں۔

    فرانس میں پاکستانی سفارت خانے نے فرانس کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر اس کام کا آغاز کیا ہے، منصوبے کا عنوان ’انسانی ترقی کے لیے ہمنوا‘ رکھا گیا ہے۔

    سفارت خانے کے مطابق فرانس میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی ایک عرصے سے اس اقدام کا مطالبہ کر رہی تھی اور اب ان کی ضرورت دیکھتے ہوئے یہ کلاسز متعارف کروا دی گئی ہیں۔

    خیال رہے کہ اردو زبان کی کلاسز دینے والا فرانس پہلا ملک نہیں، امریکا، برطانیہ، اور روس سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک میں اردو زبان سکھانے کے ادارے موجود ہیں جن میں نہ صرف پاکستان نژاد بلکہ مقامی افراد و سیاح بھی شوق سے داخلہ لیتے ہیں۔

  • لاہور ہائیکورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری

    لاہور ہائیکورٹ کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ہائیکورٹ نے اپنی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں اردو زبان میں پہلا فیصلہ جاری کردیا، غیر مستند نسخوں کی اشاعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے عدالت نے فوری طور پر ایسے نسخے ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے قرآن پاک کے غیر مستند نسخوں کی اشاعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ جاری کردیا، یہ لاہور ہائیکورٹ کی تاریخ میں اردو زبان میں جاری کیا جانے والا پہلا فیصلہ ہے۔

    لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان نے مذکورہ درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ تحریف شدہ اور غیر مستند قرآن پاک کے نسخے فوری طور پر ضبط کیے جائیں۔ ایسے نسخوں کی اشاعت کی کڑی نگرانی کی جائے۔

    عدالت نے حکم جاری کیا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں ضلع و تحصیل میں مستند نسخے کی دستیابی یقینی بنائیں۔ مستند نسخے قرآن پاک کی اشاعت میں درستگی کے لیے استعمال کیا جائے۔

    عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ حکومت قرآن بورڈ کے مجاز ناشرین کو ہی قرآن مجید کی اشاعت کی اجازت دے۔ ناشرین قرآن پاک اور دینی کتب کو کوڈ نمبر دیں جس سے ان کے مستند ہونے کو یقینی بنایا جا سکے، قرآن پاک کے ہر صفحہ پر ناشر اور کمپنی کا نام موجود ہونا چاہیئے۔

    لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ممنوعہ مذہبی مواد رکھنے والی ویب سائٹس کو بند کرنے کے لیے پیمرا اور پی ٹی اے بھی اقدامات کرے۔ پی ٹی اے کے پاس رجسٹرڈ ہونے والی ویب سائٹس کو ہی قرآن پاک یا دینی کتب کو آن لائن دکھانے کی اجازت ہوگی۔

    عدالت نے حکم دیا کہ غیر رجسٹرڈ ویب سائٹس کو فوری بند کر دیا جائے۔ حکومت مستند ویب سائٹس کے حوالے سے عوام کو آگاہی دے اور قرآن بورڈ سے منظور شدہ نسخہ ہی گوگل، ایپ اسٹور، اور پلے اسٹور میں دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔

  • پیپلز پارٹی نے اقوامِ متحدہ میں وزیرِ خارجہ کے اردو میں خطاب کو مسترد کر دیا

    پیپلز پارٹی نے اقوامِ متحدہ میں وزیرِ خارجہ کے اردو میں خطاب کو مسترد کر دیا

    کراچی: بلاول بھٹو زرداری کی زیرِ صدارت پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں اقوامِ متحدہ میں وزیرِ خارجہ کے اردو میں خطاب کو مسترد کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی کے خطاب کو اس لیے مسترد کر دیا ہے کیوں کہ وہ اردو میں کیا گیا۔

    [bs-quote quote=”اپوزیشن کو پی اے سی کی چیئرمین شپ نہ ملنے پر ایوان میں احتجاج کیا جائے گا: پیپلز پارٹی” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پیپلز پارٹی نے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں خطاب پر اعتراض اٹھا دیا ہے کہ خطاب اردو میں کیوں کیا گیا، عالمی فورم پر انگریزی میں خطاب سے پاکستان کے مؤقف کا دنیا کو پتا چلتا۔

    پی پی پارلیمانی پارٹی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا خطاب پاکستانی قوم سے نہیں بلکہ اقوامِ عالم سے خطاب تھا، وہ دنیا سے مخاطب ہو رہے تھے۔

    بلاول بھٹو زرداری کی زیرِ صدارت منعقد ہونے والی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دی جائے۔

    پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن کو پی اے سی کی چیئرمین شپ نہ ملنے پر ایوان میں احتجاج کیا جائے گا۔


    یہ بھی پڑھیں:  وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے اردو میں تاریخی خطاب


    پی پی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں متعدد دیگر ملکی معاملات پر بھی غور کیا گیا، پی پی نے فیصلہ کیا کہ حکومتی بجٹ، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ اسمبلی میں اٹھایا جائے گا۔

    خیال رہے کہ 29 ستمبر کو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اکہتر ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اپنی قومی زبان اردو کو اہمیت دی اور اس تاثر کو ختم کیا کہ پاکستانی رہنما عالمی فورمز پر اپنی زبان میں بات کرنے احساسِ کم تری کی وجہ سے کتراتے ہیں۔

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی 220ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔


    اردو کے 100 مشہور اشعار


    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی219ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی219ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 219ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی،جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا،جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔

  • عالیہ بھٹ کے ساتھ بے باک مناظر ریکارڈ کروانا میری ذاتی مرضی ہے، فواد خان

    عالیہ بھٹ کے ساتھ بے باک مناظر ریکارڈ کروانا میری ذاتی مرضی ہے، فواد خان

    ممبئی: پاکستانی اداکار فواد خان کا کہنا ہے کہ بولڈ سین کرنا نہ کرنا ان کی ذاتی مرضی ہے۔

    ایک انٹرویو دیتے ہوئے فواد خان کا کہنا تھا کہ ان کی آنے والی فلم ’کپور اینڈ سنز‘ کے حوالے سے کئی دنوں تک میڈیا میں قیاس آرائیاں ہوتی رہی جس میں ان کے اور بولی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ کے درمیان بولڈ سین کی خبر پر فواد کا انکار شامل ہیں۔

    فواد کے مطابق ایسے مناظر فلمانا یہ نا فلمانا ان کی ذاتی مرضی ہے اور یہ کوئی بڑی بات نہیں۔

    فواد خان نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کے انہیں پاکستان میں اپنے گلوکاری کے دن بہت زیادہ یاد آتے ہیں۔

    اپنے کرئیر کے حوالے سے فواد کا کہنا تھا کہ انہوں نے بہت ہی مختصر کردار ادا کیے ہیں اور خوش قسمتی سے زیادہ تر میں انہوں نے کامیابی حاصل کی۔

    فواد کے مطابق انہوں نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے کچھ چیزیں مدد کرتی ہیں البتہ کچھ ایسی بھی ہیں جس کے لیے وہ دعا کرتے ہیں کہ کاش وہ انہیں نہ جانتے ہوتے۔