Tag: اردو سفرنامہ

  • آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    میں جب بھی شہر کی گہما گہمی سے اکتاتا ہوں تو آسٹریلیا کے کسی دیہی علاقے کا رُخ کرتا ہوں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبات بلکہ گاؤں میں بھی ہوٹل دستیاب ہیں۔ جدید سہولتوں کے باوجود گاؤں کی زندگی اب بھی زیادہ نہیں بدلی۔ بلکہ صدیوں پرانی طرز پر قائم ہے۔

    وسیع رقبے پر بنے سادہ سے مکانات، کشادہ سڑکیں، درختوں اور سبزے کی بہتات، صاف ستھری آب و ہوا اور حدّ نظر تک پھیلے کھیت اور کھلیان فطرت سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تنہائی اور سکوت درکار ہو تو فارم ہاؤس بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔

    چند ماہ قبل ہمیں ایسے ہی ماحول کی طلب محسوس ہوئی تو ہم نے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنز لینڈ کے درمیان واقع شہر ٹاری کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس چند دنوں کے لیے بُک کرا لیا۔ راہ کے خوشگوار مناظر دیکھتے، سبزے اور درختوں کے بیچ ہموار سڑک پر چلتے اور بھیڑوں، گائیوں اور گھوڑوں کے فارمز کا مشاہدہ کرتے پانچ گھنٹے کے بعد ہم اس فارم کی طرف مڑنے والی سڑک کے سامنے جا پہنچے۔ فارم ہاؤس کی طرف جانے والی یہ دو کلومیٹر سڑک کچی تھی مگر اس پر چھوٹے چھوٹے پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ جس پر گاڑی چلنے سے کڑکڑاہٹ کی آواز آتی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف گھنے، اُونچے اور قدیم درخت ایستادہ تھے جن کی خستہ ڈالیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں۔ ہم فارم ہاؤس کے سامنے پہنچے تو دور دور تک جنگلوں میں گھرے، آبادیوں سے دور اس اکلوتے گھر کو دیکھ کر یوں لگا جیسے جنگل میں بہار آگئی ہے۔ کیونکہ گھر کے چاروں اطراف بڑے درختوں کے بجائے بے شمار چھوٹے اور پھول دار پودے رنگ بکھیر رہے تھے۔ ان میں پھلوں سے لدے لیمن، مالٹے،سٹرابری اور سیب کے درخت بھی شامل تھے۔ مرکزی دروازے کے پاس لگی انگور کی بیل گھر کی دیوار پر پھیلی تھی۔ جب کہ عقب میں کافی دور تک گھاس کا میدان تھا جہاں بکریاں، گائیں اور گھوڑے چر رہے تھے۔ گھر کے ارد گر آہنی تاروں کی باڑ تھی اور سامنے دھکیل کر کھلنے والا گیٹ تھا۔

    گیٹ کھول کر ہم گاڑی اندر لے گئے اور ایک شیڈ کے نیچے پارک کر دی۔ گھر کے باہر نمبر کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے مجھے کچھ شک تھا کہ یہی ہمارا مطلوبہ فارم ہاؤس ہے۔ یہ شک رفع کرنے کے لیے وہاں کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ میں نے فارم کی مالکن کو فون کر کے بتایا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس نے فون پر ہی خوش آمدید کہا اور بتایا ’’چابی مرکزی دروازے کے سامنے دیوار پر چسپاں ایک بکس کے اندر ہے اور باکس کھولنے کے لیے کوڈ نمبر یہ ہے۔ گھر کے اندر آپ کو ہر شے تیار اور صاف ستھری ملے گی۔‘‘

    ہم اس خاتون کی ہدایت کے مطابق دروازہ کھول کر اندر گئے تو واقعی پورا گھر سجا دھجا اور صاف ستھرا تھا۔ بستر کی چادریں، تکیے، تولیے، فریج، ٹی وی، چولہے، برتن ، کیتلی، ٹوسٹر، لائبریری، ویڈیو، برآمدے میں باربی کیو چولہا اور دیگر سب چیزیں موجود اور صاف ستھری تھیں۔

    ہم چار دن وہاں رہے، اس دوران کوئی شخص وہاں نہیں آیا۔ آخری دن کرایہ بھی وہیں رکھ کر آئے۔ دراصل ہم نے یہ فارم ہاؤس صرف تین دن کے لیے لیا تھا۔ تیسری رات میرا ایک دوست بھی اپنی بیگم کے ساتھ وہاں آگیا۔ حالانکہ وہاں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا پھر بھی میں نے فون کر کے مالکن کو بتایا، ’’ آپ کو مطلع کرنا تھا کہ ہمارے دو مہمان آئے ہیں۔ دوسرے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ہم ایک رات مزید یہاں رُک سکتے ہیں۔

    میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اضافی افراد کا اضافی کرایہ طلب کرے گی۔ کیونکہ گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں، اتنا بجلی اور پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ مگر اس نے یہ جواب دے کر ہمیں حیران کر دیا، ’’مہمانوں کا کوئی مسئلہ نہیں، ہاں آپ ایک رات مزید رک سکتے ہیں کیونکہ کل کوئی اور مہمان نہیں آرہا۔ اس اضافی رات کا کرایہ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔’’

    یہ جواب میرے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ کافی دیر تک یقین نہیں آیا کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں لالچ چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ فارم ہاؤس کی مالک خاتون ایک ریستوراں میں اور اس کا میاں کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہ بات اس نے خود مجھے فون پر بتائی تھی۔ فارم ہاؤس کا خرچ نکال کر انہیں اس سے معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود انہیں لالچ اور حرص نہیں تھی۔

    اس فارم میں درجن بھر گائیں، اتنی ہی بکریاں اور دو گھوڑے تھے۔ فارم کے مکین کی حیثیت سے آپ کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ پچیس ایکڑ میں پھیلے اس فارم میں خود ہی چرتے پھرتے ہیں۔ دھوپ اور بارش سے پناہ لینی ہو تو درختوں کے جھنڈ تلے چلے جاتے ہیں۔ فارم میں تین چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں جہاں بارش کا پانی جمع رہتا ہے۔ وہیں سے یہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ہاں مہمان اپنے شوق کی خاطر انہیں چارہ ڈالنا چاہیں تو فارم ہاؤس کے عقب میں ایک شیڈ میں گائے، گھوڑے اور بکریوں کے لیے الگ الگ چارہ موجود ہے۔ چارہ لے کر باڑ کے پاس جائیں تو گھوڑے اور گائیں جمع ہو جاتے ہیں، آپ باڑ کے اوپر سے انہیں گھاس ڈال سکتے ہیں۔ بکریوں کا الگ باڑہ ہے۔ وہاں پرانا سا شیڈ بھی ہے جہاں وہ سردی اور بارش میں پناہ لیتی ہیں۔ فارم ہاؤس میں بجلی کی سپلائی ہے مگر اس کے ساتھ شمسی توانائی بھی استعمال ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں شمسی توانائی کا استعمال عام ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فارم ہاؤس میں استعمال ہونے والا تمام پانی بارش سے جمع کیا ہوا ہے۔ گھر سے ملحق دو بڑے بڑے پلاسٹک کے ٹینک ہیں جہاں چھت سے بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ یہی پانی نہانے دھونے، کھانے پینے ہر مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    میں سوچتا تھا کہ آسٹریلیا اور ہندوستان پاکستان کے موسموں میں بہت مماثلت ہے۔ بارشیں اور دھوپ دونوں جگہوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ بلکہ پاکستان میں دھوپ زیادہ پڑتی ہے۔ وہاں ایسے شمسی پلانٹ آسانی سے اور ارزاں داموں لگ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہمارے دیہات میں بھی ایسے تالاب بنائے جا سکتے ہیں جیسے اس فارم میں بنے ہیں۔ جب بارش نہ تو یہ پانی مویشیوں اور فصلوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی کام بھی مشکل اور مہنگا نہیں ہے۔ نہ جانے اس طرف کسی کی توجّہ کیوں نہیں ہے۔

    اس علاقے میں شہد کے بہت سے فارم ہیں۔ علاوہ ازیں سیب، ناشپاتی ، سٹرابری، انگور اور دیگر پھلوں کے باغات ہیں۔ ہم اس علاقے میں ڈرائیونگ کرتے تو کئی گھروں کے آگے شہد اور ان پھلوں کی فروخت کا بورڈ رکھا نظر آتا۔ ایک جگہ گاڑی روک کر ہم اندر گئے۔ وہاں برآمدے میں میز پر خالص شہد کی بوتلیں اور پھلوں کی ٹوکریاں رکھی تھیں۔ ان پر قیمت درج تھی اور ایک طرف کھلا بکس رکھا تھا، جہاں سے بڑا نوٹ ہونے کی صورت میں آپ اپنا چینج بھی لے سکتے ہیں۔ وہاں نہ کوئی شخص تھا اور نہ کوئی کیمرا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی شخص چوری یا بے ایمانی کرے۔

    گاؤں کے یہ لوگ سادہ اور فطری زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی مگر وہ قناعت کی دولت سے مالامال ہیں۔ پرانے گھروں ، چھوٹی گاڑیوں اور قدرے غربت کے باوجود بڑے شہروں سے دور رہ کر اپنے طرزِ حیات سے خوش ہیں۔ یہاں آبادی اور ذرائع روزگار دونوں کم ہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی سطح مرتفع پر فصلیں نہیں اُگتیں صرف مویشی بانی، باغبانی اور دیگر چھوٹے چھوٹے مشاغل ہیں جن کی محدود آمدنی ہے مگر وہ صبر شکر کے ساتھ اس سے گزارہ کر لیتے ہیں۔

    ایسے علاقے میں قیام کی صورت میں ہ میں اشیائے خوردونوش کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں ریستوراں کم اور حلال کھانا نایاب ہے۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ اشیائے خورد و نوش اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ اسی علاقے کے ایک دور دراز گاؤں کی سیر کے دوران ہمیں اشتہا محسوس ہوئی تو وہاں نظر آنے والے واحد کیفے کے اندر چلے گئے۔ سہ پہر کے اس وقت وہاں کوئی اور گاہک نہیں تھا۔ کیفے کی مالکن اُدھیڑ عمر آسٹریلین خاتون سے ہم نے دستیاب کھانوں کے بارے میں دریافت کیا تو ہمارے مطلب کی کوئی حلال شے موجود نہیں تھی۔ ہمیں مایوس دیکھ کر یہ خاتون بھی پریشان ہو گئی۔ حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں نے پوچھا ‘‘ آپ کے پاس ڈبل روٹی اور انڈے ہیں؟’’ اس نے فوراً اثبات میں جواب دیا۔ ہمارے کہنے پر اس نے ڈبل روٹی، انڈے، پنیر، مکھن، ٹماٹر اور پیاز نکالے۔ ہم سب نے مل جل کر پیاز، ٹماٹر اور انڈوں کا آملیٹ بنایا، ٹوسٹ گرم کیا، مکھن لگایا اور مزے سے تازہ اور گرم کھانا کھایا جو اس علاقے کی نسبت سے غنیمت تھا۔ خاتون ہمیں خوش اور مطمئن دیکھ کر بہت خوش تھی۔

    ہم نے نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اس مہمان نواز خاتون کو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے سمجھایا کہ ہمیں صاف جگہ اور صاف کپڑا درکار ہے۔ جب سمجھ آیا تو اس نے فوراً جگہ صاف کی، صاف ستھری چادر بچھائی اور خود دروازے سے باہر چلی گئی۔ نماز کے بعد ہم نے اس مہربان خاتون کا شکریہ ادا کیا تو نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شاید یہ اس کی زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی اس خاتون نے مسلمانوں کے بارے میں نجانے کیا کچھ سن رکھا تھا۔ آج پہلی مرتبہ سامنا ہوا تو وہ ششدر رہ گئی۔ ہمارے لیے بھی یہ ‘پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے’ والا معاملہ تھا۔

    یہ دنیا تو ہے ہی حیرت کدہ! یہاں ایسی حیرتیں اکثر ملتی رہتی ہیں۔ واپسی کے سفر میں، میں سوچ رہا تھا کہ قوموں کی سر بلندی کے لیے وسائل کی نہیں۔ حسنِ اخلاق اور بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اطمینان و مسرت کے لیے روپے پیسے کی نہیں قناعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خطے میں سکون اور اطمینان کی یہی وجوہات ہیں۔

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف طارق مرزا کی ایک منتخب تحریر)

  • نازلی رفیعہ سلطان اور سیرِ یورپ

    نازلی رفیعہ سلطان اور سیرِ یورپ

    بیسویں صدی اردو سفر نامہ نگاری کے اعتبار سے ایک اہم صدی مانی جاتی ہے جس میں بہت سے عمدہ اور بامقصد سفر نامے لکھے گئے۔

    ہندوستانی ادیبوں اور ممتاز شخصیات نے اپنے وطن کو چھوڑ کر دور دراز کے ممالک کی خاک چھانی۔ ان سفر نامہ نگاروں نے دوسرے ممالک کی رسموں، رواجوں کے علاوہ اس دور کی ٹیکنالوجی سے متعلق اپنے تجربات ان سفرناموں میں محفوظ کیے۔ سر سید، شبلی اور آزاد نے بھی اسی صدی میں سفر کیا۔ لیکن اردو سفر نامہ نگاری کا باضابطہ آغاز یوسف خان کمبل پوش کے ہاتھوں ہوتا ہے جنہوں نے سفر نامہ عجائباتِ فرہنگ (تاریخِ یوسفی ) لکھ کر اس صنف میں اپنا نام سر فہرست کیا۔ اور یہ انیسویں صدی میں‌ ہوا، اس کے بعد متعدد ادیبوں نے دور دراز کے سفر کیے اور سفر نامے لکھے۔ بیسویں صدی کے آتے آتے اردو زبان میں سفر نامے لکھنے والوں میں‌ حضرات کے ساتھ خواتین قلم کار بھی شامل ہوگئیں۔ اس دور میں مغربی سیاحت کو خاص اہمیت دی جانے لگی۔ اس ضمن میں انور سدید لکھتے ہیں:

    ’’اس دور میں ہندوستان میں انگریزی حکومت نہ صرف مستحکم ہوچکی تھی بلکہ اس کے خلاف ردِ عمل کی تحریکوں نے بھی سَر ابھارنا شرع کر دیا تھا۔ غلامی کے اس احساس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کے علمی افلاس کو دور کرنے کے لیے مغرب کے علمی خزانوں تک براہِ راست رسائی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ چنانچہ بیرونی ممالک کے اسفار کو اس دور میں خصوصی اہمیت حاصل ہوئی اور دورانِ سفر جو تجربات حاصل ہوتے ان میں ابنائے وطن کو شریک کرنے کی کاوش بھی کی جاتی۔‘‘

    بیسویں صدی تغیرِ زمانہ کے اعتبار سے اہم صدی رہی ہے۔ ایک طرف پوری دنیا دو عظیم جنگوں سے جھلس گئی، وہیں دوسری طرف ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی یہ دور خاصہ تبدیلی کا رہا۔

    ٹیکنالوجی اور جدید وسائل کی مدد سے سفر کے طریقے آسان ہونے کے ساتھ ہی دل چسپ بھی ہو گئے۔ اس طرح ہر ادیب میں سفر کی خواہش پیدا ہونے لگی بالخصوص مشرقی قلم کار مغرب کی سرزمین کی سیر کو باعثِ فخر محسوس کرنے لگے۔ یہ سیّاح مغربی دنیا کے حیرت انگیز تجربات اور ایجادات کو فخریہ الفاظ میں تحریر کرنے کو بھی اپنی شان سمجھتے تھے۔ اس دوران نہ صرف مردوں نے دور دراز کے سفر کیے بلکہ عورتوں نے بھی گھروں کی دہلیزوں سے باہر قدم رکھ کر دوسرے مقامات جا کر وہاں کے حالات و واقعات قلم بند کیے۔

    بیسویں صدی کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار نازلی رفیعہ سلطان ہیں جنہیں اردو ادب میں پہلی سفر نامہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انھوں نے یورپ کا سفر کر کے یہ ثابت کیا کہ عورت بھی ایک اچھا ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا سفر نامہ نگار بھی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے سیرِ یورپ لکھ کر اردو میں پہلا سفر نامہ تحریر کیا۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اردو سفر نامہ نگاری کے ارتقاء میں خواتین سفر نامہ نگاروں کا اہم کردار ہے۔

    نازلی رفیعہ سلطان صرف بیسویں صدی کی ہی نہیں بلکہ اردو ادب کی بھی پہلی سفر نامہ نگار ہیں۔ انھوں نے اس زمانے میں یورپ کا سفر کیا جب عورت کا گھر سے نکلنا باعثِ‌ تعجب تھا۔ اس ضمن میں سعد احمد یوں رقم طراز ہیں:

    ’’اردو سفر نامے کے ارتقاء کو تیز تر کرنے میں بیسویں صدی کے نصف اوّل کی خواتین سفر نامہ نگاروں نے اہم کارنامہ انجام دیا۔ اردو کی پہلی خاتون سفر نامہ نگار ہونے کا شرف نازلی رفیعہ سلطان کو حاصل ہے۔‘‘

    رفیعہ سلطان نے سفر نامہ ’سیرِ یورپ‘ کو خطوط کی تکنیک میں تحریر کیا تھا۔ دورانِ سفر انہوں نے جو خطوط اپنے بزرگوں کو لکھے تھے، بعد میں ان خطوط کو ترتیب دے کر سفر نامہ مرتب کیا۔ مصنفہ خود اس سفر نامے کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’اس میں نہ عبارت ہے نہ قافیہ پیمائی۔ صاف سیدھی عبارت ہے، وہاں کے حالات، طرزِ معاشرت، تدبیرُ المنازل، بعض امورِ سیاسیہ، تجارت، ہنروری، اقسامِ فنون کی کثرت۔ تہذیب، طریقۂ تعلیم، دربار کے آداب، جو میں جتنا سمجھ سکی اپنی زبان میں اپنے اہلِ وطن کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ نسبتاً جب یورپ اور ایشیا کو دیکھتی ہوں تو اپنی نظروں میں تھوڑی تھوڑی ہو جاتی ہوں۔‘‘

    اس سفر نامے میں انھوں نے یورپی ترقی سے متاثر ہوکر جو خطوط لکھے تھے ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یورپ کے گن گائے جائیں بلکہ وہ اس ترقی سے اپنے ہم وطنوں کو ترقی کا راستہ دکھانا چاہتی تھیں۔ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستانی تعلیمی اور معاشی اعتبار سے بہت پیچھے ہیں۔ اس طرح ان خطوط کی وجہ سے مصنفہ نے اپنے ہم وطنوں کو یورپ کی سیر کرائی، انھیں یورپی صنعتی اور تمدنی ترقی سے روشناس کرایا۔ جس دور میں سفر نامہ ’ سیرِ یورپ‘ رفیعہ سلطان بیگم نے تحریر کیا تھا اسی دور میں عطیہ فیضی نے سفر نامہ ’زمانہ تحصیل‘ لکھا اور شاہ بانو نے سفر نامہ ’سیاحتِ سلطانی‘ تحریر کیا تھا۔

  • مصر: آثارِ قدیمہ میں کوئی شہر اس کی ہمسری نہیں کرسکتا

    مولانا شبلی نعمانی نے روم، مصر و شام كے سفر سے ہندوستان واپس آكر وہاں کے تمدن اور حسنِ معاشرت کو بیان کرنے کے علاوہ اپنے سفرنامے میں‌ قابلِ دید مقامات، اور قدیم عمارات کے بارے میں‌ بھی تفصیل رقم کی تھی جس میں مصر کی قدیم یادگاریں کے عنوان سے ایک باب بھی شامل ہے۔ اس میں اہرامِ مصر سے متعلق معلوماتی مضمون میں‌ وہ لکھتے ہیں:

    آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے کوئی شہر اس شہر کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ سچ یہ ہے کہ یہاں کی ایک ایک ٹھیکری قدامت کی تاریخ ہے۔

    سوادِ شہر کے ویرانوں میں اس وقت تک سیکڑوں خزف ریزے ملتے ہیں جن پر کئی کئی ہزار سال قبل کے حروف و نقوش کندہ ہیں۔ مجھ کو اتنا وقت بلکہ سچ ہے کہ اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تمام قدیم یادگاروں کی سیر کرتا۔ البتہ چند مشہور مقامات دیکھے اور انہی کے حال کے لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

    اہرام، یہ وہ قدیم مینار ہیں جن کی نسبت عام روایت ہے کہ طوفاں نوحؑ سے پہلے موجود تھے۔ اور اس قدر تو قطعی طور سے ثابت ہے کہ یونان کی علمی ترقی سے ان کی عمر زیادہ ہے، کیوں کہ جالینوس نے اپنی تصنیف میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ مینار نہایت کثرت سے تھے۔ یعنی دو دن کی مسافت میں پھیلے ہوئے تھے۔ صلاح الدین کے زمانہ میں اکثر ڈھا دیے گئے۔ ان میں سے جو باقی رہ گئے ہیں۔ اور جن پر خاص طور پر اہرام کا اطلاق ہوتا ہے۔ صرف تین ہیں، جو سب سے بڑا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو اسّی فٹ یعنی قطب صاحب کی لاٹ سے دگنی ہے۔ نیچے کے چبوترہ کا ہر ضلع سات سو چونسٹھ فٹ ہے۔ مینار کا مکعب آٹھ کروڑ نوے لاکھ فٹ ہے۔ اور وزن اڑسٹھ لاکھ چالیس ہزار ٹن۔

    اس کی تعمیر میں ایک لاکھ آدمی بیس برس تک کام کرتے رہے۔ جڑ میں تیس تیس فٹ لمبی اور پانچ پانچ فٹ چوڑی پتھر کی چٹانیں ہیں اور چوٹی پر جو چھوٹی سے چھوٹی ہیں آٹھ فٹ کی ہیں۔

    اس کی شکل یہ ہے کہ ایک نہایت وسیع مربع چبوترہ ہے۔ اس پر ہر طرف سے کسی قدر سطح چھوڑ کر دوسرا چبوترہ ہے۔ اس طرح چوٹی تک اوپر تلے چبوترے ہیں۔ اور ان چبوتروں کے بتدریج چھوٹے ہوتے جانے سے زینوں کی شکل پیدا ہو گئی ہے۔ تعجب یہ ہے کہ پتھروں کو اس طرح وصل کیا ہے کہ جوڑ یا درز کا معلوم ہونا تو ایک طرف۔ چونا یا مسالے کا بھی اثر نہیں معلوم ہوتا۔ اس پر استحکام کا یہ حال ہے کہ کئی ہزار برس ہو چکے اور جوڑوں میں بال برابر فصل نہیں پیدا ہوا ہے۔

    ان میناروں کو دیکھ کر خوا مخواہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جَرِّ ثَقِیل کا فن قدیم زمانہ میں موجود تھا۔ کیوں کہ اس قدر بڑے بڑے پتھر اتنی بلندی پر جَرِّ ثَقِیل کے بغیر چڑھائے نہیں جا سکتے۔ اور اگر اس ایجاد کو زمانۂ حال کے ساتھ مخصوص سمجھیں تو جرِّ ثقیل سے بھی بڑھ کر عجیب صنعت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔

    ان میناروں میں سے ایک جو سب سے چھوٹا ہے۔ کسی قدر خراب ہو گیا ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ 593 ہجری میں ملک العزیز (پسر سلطان صلاح الدّین) نے بعض احمقوں کی ترغیب سے اس کو ڈھانا چاہا۔ چنانچہ دربار کے چند معزز افسر اور بہت سے نقب زن اور سنگ تراش اور مزدور اس کام پر مامور ہوئے۔ آٹھ مہینے تک برابر کام جاری رہا اور نہایت سخت کوششیں عمل میں آئیں۔ ہزاروں لاکھوں روپے برباد کر دیے گئے۔ لیکن بجز اس کے کہ اوپر کی استر کاری خراب ہوئی۔ یا کہیں کہیں سے ایک آدھ پتھر اکھڑ گیا اور کچھ نتیجہ نہیں ہوا۔ مجبور ہو کر ملک العزیز نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

    اہرام کے قریب ایک بہت بڑا بت ہے جس کو یہاں کے لوگ ابوالہول کہتے ہیں۔ اس کا سارا دھڑ زمین کے اندر ہے۔ گردن اور سَر اور دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ چہرہ پر کسی قسم کا سرخ روغن ملا ہے۔ جس کی آب اِس وقت تک قائم ہے۔ ان اعضا کی مناسبت سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ پورا قد ساٹھ ستّر گز سے کم نہ ہو گا۔ باوجود اس غیر معمولی درازی کے تمام اعضا ناک کان وغیرہ اس ترتیب اور مناسبت سے بنائے ہیں کہ اعضا کے باہمی تناسب میں بال برابر کا فرق نہیں۔

    عبداللّطیف بغدادی سے کسی شخص نے پوچھا تھا کہ آپ نے دنیا میں سب سے عجیب تر کیا چیز دیکھی؟ اس نے کہا کہ ابوالہول کے اعضا کا تناسب۔ کیوں کہ عالمِ قدرت میں جس چیز کا نمونہ موجود نہیں، اس میں ایسا تناسب قائم رکھنا آدمی کا کام نہیں۔

  • اردو کے چند مقبول سفر نامے

    اردو کے چند مقبول سفر نامے

    اردو زبان میں سفر نامہ کل کی طرح آج بھی قارئین میں مقبول ہے۔ سفر نامے میں کسی ملک یا شہر کی سیر کے دوران تاریخ و جغرافیے سے آگاہی کے ساتھ، اس کی معاشرت، لوگوں کا رہن سہن دیکھنے اور ان کی قدروں کو سمجھنے کی کوشش کے بعد سفر نامہ نگار اس میں اپنے احساسات اور مشاہدات کو شامل کرکے دل چسپ اور معلومات افزا انداز میں قارئین کے سامنے رکھتا ہے۔

    اردو میں اکثر سفر نامے مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی کی وجہ سے بھی بہت مقبول ہوئے ہیں۔ تاہم ایک اچھا اور معیاری سفر نامہ وہی ہوتا ہے جو حقائق اور واقعات میں صداقت پر مبنی ہو اور اس میں‌ قلم کار نے اپنے تاثرات کو نہایت خوبی سے داخل کیا ہو۔

    اردو میں آج سے کئی سال پہلے بعض بہت عمدہ سفر نامے لکھے گئے ہیں جنھوں نے اردو ادب کا دامن بھی وسیع کیا ہے۔

    اردو زبان میں ایک سفر نامہ یوسف خاں کمبل پوش کا عجائباتِ فرنگ ہے جو پہلی بار 1847ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد کے برسوں میں سرسید احمد خان، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور منشی محبوب عالم کے سفرنامے شایع ہوئے۔ یہاں ہم چند اہم ادیبوں اور اہلِ‌ قلم کے سفر ناموں کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    خواجہ احمد عباس کا سفر نامہ مسافر کی ڈائری
    خواجہ احمد عباس اردو زبان و ادب کا ہی نہیں‌ صحافت اور فلم انڈسٹری کا بھی بڑا نام ہے جنھیں ان کے نظریات اور اشتراکیت سے ان کی گہری وابستگی کی بنیاد پر بھی خاص مقام حاصل ہے۔ ان کا یہ سفر نامہ ادبی رنگ ہی نہیں، ان کے نظریات اور صحافتی طرز کا بھی نمونہ ہے۔ اس میں انھوں نے بعض مقامات پر سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن یہ ایک مختلف اور جدید انداز کا سفر نامہ ہے۔

    محمود نظامی کا نظر نامہ
    1958ء میں محمود نظامی کا سفر نامہ ’’نظر نامہ‘‘ کے نام سے شایع ہوا جسے جدید سفر نامہ کہا جاتا ہے وہ اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی عمدہ مذاق رکھتے تھے اور ان کے اس سفرنامے میں ان کا ادبی اسلوب بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے تاریخ کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے اور قارئین کو ماضی کی جھلکیاں دکھائی ہیں۔

    بیگم اختر ریاض الدّین کا دھنک پر قدم
    1969ء میں دھنک پر قدم کی اشاعت سے پہلے سفر نامہ نگار نے ’سات سمندر پار‘ کے عنوان سے پہلا سفر نامہ لکھا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ دھنک پر قدم کو ان کے اسلوب کی وجہ سے بہت مقبولیت اور پذیرائی ملی۔

    ابنِ‌ انشا کا سفر نامہ دنیا گول ہے
    ابنِ انشا نے 1972ء میں‌ اپنے منفرد انداز میں قارئین کو جس سفر نامے سے محظوظ ہونے کا موقع دیا وہ ان کے طنز و مزاح کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔ انھوں نے کئی سفر نامے لکھے۔ وہ شاعر، کالم نویس بھی تھے اور عمدہ نثر نگار بھی۔ انھیں طنز و مزاح نگاری میں‌ بہت شہرت ملی۔ دنیا گول ہے وہ سفر نامہ ہے جس میں انھوں‌ نے شگفتگی، بے ساختگی کے ساتھ روانی سے اپنے قارئین کو گرفت میں‌ لیا ہے۔

    اشفاق احمد کا سفر در سفر
    اشفاق احمد اردو کے معروف افسانہ نگار اور کہانی نویس تھے جنھوں نے حکایات اور سبق آموز واقعات کو نہایت خوب صورتی سے اپنے قلم اور لیکچرز میں بیان کیا ہے۔ انھوں‌ نے اپنے اس سفر نامے میں یہی انداز اپنایا ہے اور حالات و واقعات کے ساتھ بعض پراسرار اور دل چسپ کہانیاں پیش کی ہیں۔ ان کا یہ افسانہ 1981ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔

  • سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    سوئٹزر لینڈ خوش سواد، روح افزا اور فرحت بخش ملک

    یورپ میں سوئٹزر لینڈ کو قریب قریب وہی حیثیت حاصل ہے جو ایشیا میں ہمالیہ اور کاکیزس ماؤنٹین (کوہ قاف) کی وادیوں کو، بلکہ بعض انگریزی سیّاح تو دعویٰ کرتے ہیں کہ سوئٹزر لینڈ کی نزہت و شادابی اور وہاں کی سینریوں کی خوش نمائی و نظر فریبی دنیا بھر کے ممالک سے بڑھی ہوئی ہے۔

    خیر اس کو تو ہم اسی خود پسندی کے اصول پر مبنی سمجھتے ہیں جس بنا پر کہ بعض وطن دوست انگریز لندن کے گرجے سینٹ پال کو روم کے سینٹ پیٹرس اور مِلا ن کے بڑے کنیسہ پر ترجیح دینے لگے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں کہ سوئٹزر لینڈ کے سواد میں خدا نے بہت کچھ دل فریبیاں ودیعت کر رکھی ہیں۔

    کوہسار آلپس کا سلسلہ ملک کو ایک طرف سے دوسری طرف تک قطع کرتا چلا گیا ہے اور اسی کوہستان کے دامنوں اور اونچے اونچے سر بہ فلک قلوں کی گھاٹیوں میں یہ چھوٹا سا ملک آباد ہے۔

    تاہم کوہ قاف کی گھاٹیوں اور سرکیشیا کی سرزمین کی طرح یہاں یہ بات کہاں کہ نباتی پھولوں اور سبز پوشانِ چمن کی طرح انسانی چہرے بھی ہر طرف دل فریبیاں کر رہے ہوں۔ وہ پری جمال اور دل رُبا چہرے جو صد ہا سال سے ایران اور روم کی حرم سراؤں کی رونق رہا کیے ہیں اور وہ نازک اندام اور آفت زمانہ لڑکیاں جو کوہِ البرز وغیرہ کی گھاٹیوں کے لطیف آبشاروں میں ہاتھ منہ دھوتی اور مویشیوں کے گلے چراتی نظر آتی ہیں، ان کا سوئٹزر لینڈ کی بھدّی مگر توانا و تن درست عورتوں میں کہیں پتہ نہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آلپس کی گھاٹیوں میں چاہے وہ دل فریب حسن و جمال نہ ہو، مگر ایسے ایسے نظر فریب منظر اور اس طرح کی جاں بخش سینریاں آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہیں کہ ہر مقام پر یہی جی چاہتا ہے کہ دین و دنیا چھوڑ کے یہیں بیٹھ رہیے۔

    الغرض یہ اور ایسا روح افزا اور فرحت بخش ملک ہے جہاں ہم مِلان سے ریل پر سوار ہو کے اور اٹلی کی سرحد سے نکل کے پہنچے۔ مِلان سے 4 بجے کے قریب تیسرے پہر کو سوار ہوئے تھے۔ رات ہونے تک بلکہ اس وقت تک جب کہ ہم نے لیٹ کے سونے کا تہیہ کیا، وہی اٹلی کے خوش نما، تر و تازہ اور انگور کی بیلوں سے گھرے ہوئے کھیت نظر کے سامنے تھے، جن کے دیکھنے سے آنکھیں سیر ہو گئی تھیں اور جن میں اب کوئی جدّت نہیں نظر آتی تھی۔

    صبح کو تڑکے ہی اٹھائے گئے، اس لیے کہ ٹرین چیاسو میں کھڑی ہوئی تھی جو جنوب کی طرف سوئٹزر لینڈ کا سرحدی اسٹیشن ہے اور جہاں مسافروں کے اسباب کی تلاشی لی جاتی ہے۔ ہم سب اپنا اسباب لے لے کے گاڑی سے اترے اور قیدیوں کی طرح ایک بڑے کمرے میں بند کر دیے گئے۔ چنگی وصول کرنے والوں نے صندوقوں کو کھول کھول کے دیکھا اور پاس کیا۔ اس سخت امتحان سے نجات حاصل کرتے ہی ہم ایک دوسرے دروازے سے پھر پلیٹ فارم پر آئے اور گاڑی میں اسباب رکھا۔

    یہاں کی زندگی بخش آب و ہوا نے اتنا اثر یہیں ظاہر کر دیا کہ صبح کو ہم خلافِ معمول بہت بھوکے اٹھے، کھانا ملنے میں ابھی دیر تھی اور انتظار کی طاقت نہ تھی۔ اسٹیشن پر نہایت عمدہ تر و تازہ اور شاداب انگور بکنے کو آئے جو بہت سستے تھے، ہم نے لے کے خوب سیر ہو کے کھائے اور گاڑی آگے کو روانہ ہوئی۔
    تھوڑی دیر تک تو وہی اٹلی کی سواد نظر آتی رہی، مگر دو چار گھنٹے کے بعد ہمیں کوہستان آلپس کے سلسلے کی چوٹیاں نظر آنے لگیں اور زیادہ انتظار نہیں کرنے پائے تھے کہ انھیں پہاڑیوں کے اندر ہماری ٹرین گھسنے لگی اور وہ قدرتی مناظر ہماری نظر کے سامنے تھے، جن میں انسانی کاری گری کا ہاتھ بالکل نہیں لگا تھا۔

    ریل سر سبز اور تر و تازہ پہاڑیوں کے اندر چلی جاتی ہے، کبھی بلندی پر چڑھتی ہے اور کبھی نشیب میں اترتی ہے اور پھر اسی نشیب و فراز کے درمیان میں ایسے خوش سواد اور دل میں ولولہ پیدا کرنے والے مرغزار اور قدرت کے لگائے ہوئے چمن نظر کے سامنے آتے ہیں اور کچھ ایسی کشش سے اپنی طرف بلاتے ہیں کہ ہمارے ایک ہم سفر انگلش دوست بار بار چلّا کے کہہ اٹھتے ہیں: “مجھے نہ پکڑنا، میں یہیں کودا پڑتا ہوں”۔

    جا بجا بڑے بڑے آبشار پہاڑوں کی چوٹیوں سے بہتے اور لہراتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور ان سبزہ زاروں میں پانی پہنچا رہے ہیں۔ اکثر جگہ جہاں کہیں کوئی مسطح تختہ ہے، وہاں ایک چھوٹا شہر آباد ہے جس کی سفید سفید اور برف میں دھوئی ہوئی پختہ عمارتیں کچھ ایسی دل فریبی کرتی ہیں کہ ان پر سرور بخش اور جاں افزا وادیوں اور مرغزاروں سے بھی زیادہ بہار نظر آتی ہے۔ ہر چہار طرف سَر بہ فلک پہاڑ جو قوی ہیکل دیوؤں کی طرح سر اٹھائے کھڑے ہیں، انھوں نے بھی انسان کے مانوس بنانے کے لیے برف کے سفید اور اجلے کپڑے پہن کے بہت کچھ مہذب صورت بنالی ہے۔

    (اردو کے نام ور ادیب، مشہور ناول نگار اور جیّد صحافی عبدالحلیم شرر کے سفر نامے سے انتخاب)