Tag: اردو سفرنامے

  • تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟

    تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟

    عتیق صدیقی 1979ء میں لکھنؤ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے گئے تھے اور اس وقت وہ نوجوان تھے۔ عتیق صدیقی کا سفرنامہ، بعنوان سفرِ گزشت دراصل ایک عام آدمی کا سفرنامہ ہے جو بسوں ریلوں رکشوں اور پیدل اپنے رشتے داروں سے ملنے ملتان سے لکھنؤ، ملیح آباد وغیرہ گئے۔1979 میں انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔

    عتیق صدیقی لکھنؤ جانے کے لیے مسافروں سے بھری ایک ٹرین میں بیٹھے تو اس میں ایک ایسی پاکستانی خاتون بھی سفر کر رہی تھیں جن کی کہانی سن کر دوسرے مسافر بھی آب دیدہ ہو گئے۔ لاہور کی رہائشی یہ خاتون برصغیر کی تقسیم کے وقت کا ایک عہد نبھانے کے لیے انبالہ جا رہی تھیں۔ ان کے ہمراہ برتنوں سے بھرا ایک تھیلا تھا۔ یہ برتن انہوں نے برسوں سے سنبھال کر رکھے تھے۔ تقسیم کے وقت لاہور میں انہیں ایک سکھ خاندان نے پناہ دی تھی جو بعد ازاں ہندوستان روانہ ہو گیا تھا لیکن جاتے جاتے اس گھرانے کی بہو نے اپنے برتنوں پر اس طرح ایک نگاہِ حسرت کی جیسے کوئی اپنے کسی پیارے کو آخری بار دیکھ رہا ہو۔ اس لمحے ان خاتون نے خود سے عہد کیا کہ وقت آنے پر یہ امانت انبالہ ضرور پہنچائیں گی۔ ٹرین میں بے انتہا رش کی وجہ سے وہ ایک سردار جی پر خفا ہو رہی تھیں جن کی پتلون پر خاتون کے ٹرنک کا کونا لگ جانے کی وجہ سے کھرونچا پڑ گیا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے مسافروں نے بھی اس نوک جھونک میں دل چسپی لینا شروع کر دی، آئیے یہ منظر دیکھتے ہیں:

    ’’آپ پاکستان سے آئی ہیں اماں‘‘۔۔ کسی نے پوچھا۔

    ’’ہاں‘‘۔ خاتون نے مختصر سا جواب دیا

    ’’کیا حال ہیں پاکستان کے؟‘‘ ایک لہکتی آواز آئی۔

    ’’بہت اچھے۔ کرم ہے سوہنے رب کا۔‘‘

    ’’سنا ہے مہنگائی بہت ہے پاکستان میں۔‘‘ ایک نئی آواز ابھری۔

    ’’مہنگائی! مہنگائی کہاں نہیں ہے؟ تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے؟ مہنگائی سے تو دنیا پریشان ہے۔‘‘

    ’’مگر وہاں آمدنی بھی زیادہ ہے جی۔ ‘‘ کسی نے اعتراف حقیقت کیا۔ ’’ لوگ باگ زیادہ خوش ہیں ہمارے ملک سے۔‘‘

    خاتون بولیں،’’ تو اور کیا۔ مہنگائی ہو بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بازار بھرے رہتے ہیں خریداروں سے۔ ‘‘ خاتون کے لہجے میں فخر تھا۔ ’’ آج کل ہی دیکھو، وہاں آلو دس روپے کلو بک رہے ہیں مگر لوگوں نے کھانا نہیں چھوڑ دیے، اسی طرح خرید رہے ہیں جیسے روپے ڈیڑھ روپے میں خریدے جاتے تھے۔‘‘

    ’’دس روپے کلو آلو۔‘‘ کئی تحیر آمیز آوازیں ایک ساتھ ابھریں اور چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔

    ’’واہ بھئی واہ پاکستان۔‘‘ کھرونچا زدہ پتلون والے سردار جی بدبدائے تھے۔

    خاتون نے ان کی بات سن لی اور بھنا کر زور سے بولیں،’’ وہاں تیری طرح کپڑے پر ذرا سی لکیر آ جانے سے کوئی اتنی بدتمیزیاں بھی نہیں کرتا عورت ذات سے۔ ایک تو کیا دس پتلونیں پھٹ جائیں، کسی کو پروا نہیں ہوتی۔‘‘

    ان کی اس بات پر زور کا قہقہہ پڑا۔

  • عربی اور فارسی میں سفرنامۂ حج

    عربی اور فارسی میں سفرنامۂ حج

    اردو میں حج کے سفر نامہ کا آغاز تو انیسویں صدی کے وسط میں ہوا لیکن اس سے پہلے سفرنامہ نگاروں کے سامنے فارسی و عربی میں سفر نامۂ حج کی مستحکم روایت موجود تھی۔

    اردو اہلِ قلم اور مصنّفین سے پہلے عربی اور فارسی میں حج کے سفرنامے لکھے جاتے رہے۔ عربی اور فارسی میں لکھے گئے۔ ان سفرناموں نے اردو میں اس سلسلے کے آغاز اور رواج میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے چند اہم سفر ناموں کا تذکرہ ہم یہاں‌ کررہے ہیں۔

    ’’سفرنامہ حکیم ناصر خسرو‘‘ حکیم ناصر خسرو کا لکھا ہوا ہے جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے۔ یہ سفرنامۂ حج انھوں نے فارسی زبان میں تحریر کیا تھا۔ حکیم ناصر خسرو نے 1047ء میں یہ سفر شروع کیا اور پانچ سال بعد ایران، آذربائیجان، شام مصر، عرب اور عراق کی سیر کے بعد واپس ہوئے۔ یہ سفرنامۂ حج ان ممالک کے سفر کی روداد سے بھرا ہوا ہے۔ یہ فارسی کا قدیم ترین سفرنامۂ حج ہے جو آج سے تقریباً ہزار سال پہلے لکھا گیا تھا۔

    ’’رحلۃ ابنِ جبیر‘‘ عربی زبان میں‌ ابن جبیر اندلسی کا تحریر کردہ سفرنامۂ حج ہے۔ ابن جبیر نے 1183ء میں یہ سفر شروع کیا اور 1185ء میں واپس ہوئے۔ انھوں نے اس سفر میں حجاز کے علاوہ مصر، عراق، شام کی بھی سیاحت کی۔ اس سفرنامہ میں ان تمام ممالک کے سفر کی روداد کو انھوں نے بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔

    عربی زبان کا ایک اور سفرنامۂ حج ’’ سفرنامہ ابن بطوطہ ‘‘ ہے۔ اس سفرنامۂ حج کے مصنف مشہور سیاح ابن بطوطہ ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے طویل سفر اور سیاحت کے دوران چار مرتبہ حج کیا۔ اس سفرنامۂ حج میں ابن بطوطہ نے مکہ، مدینہ، خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبوی سے متعلق اپنے مشاہدات اور قلبی تعلق کو بیان کیا ہے۔

    عربی زبان کا ایک اور سفرنامۂ حج ’’فیوض الحرمین ‘‘ ہے۔ اس کے مصنف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے 1730ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔

    فارسی زبان کا ایک قدیم سفرنامۂ حج عبد الحق محدث دہلوی کا ’’جذب القلوب الیٰ دیارُ المحبوب‘‘ ہے۔ عبدالحق محدث دہلوی نے 1590ء میں حج کی سعادت حاصل کی اور اس کے تین سال بعد اس سفرنامۂ حج کو مکمل کرکے شائع کیا۔

    اردو کے مشہور و معروف شاعر اور تذکرہ نگار نواب محمد مصطفیٰ خان شیفتہ نے بھی 1839ء میں حجاز کا سفر کیا اور اپنے اس سفرِ حج کی روداد رقم کی۔

    ( صلاح الدین خان کے تحقیقی مضمون سے ماخوذ)

  • "پیرس چمک رہا تھا!”

    "پیرس چمک رہا تھا!”

    ثریا حسین کے سفر ناموں میں ان کی خوب صورت اور رواں نثر، پُرلطف منظر نگاری اور دل چسپ اسلوب قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ علی گڑھ کی، شعبۂ اردو سے وابستہ ثریا حسین نے 1984 تک اہم درس گاہ میں‌ صدرِ شعبہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔

    ثریا حسین کا ایک سفر نامہ ’پیرس و پارس‘ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے نام میں جو حسن ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

    ’پیرس و پارس‘ گویا مشرق و مغرب کی تہذیبوں کا وصال ہے۔ یہ جدید و قدیم دو متضاد لہروں اور سمتوں کا حسین امتزاج بھی ہے۔ گویا مصنفہ نے ’پیرس و پارس‘ کے ذریعے دو مختلف اور متضاد تہذیب و تمدن سے عوام کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور ان دونوں کے تضادات اور مماثلات کو بھی روشن کیا ہے۔

    یہ سفر نامہ بنیادی طور پر ان کے پیرس کے قیام پر محیط ہے۔ انھوں نے وہاں جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، جیسے جیسے مقامات مشاہدے میں آئے، جیسے جیسے افکار و خیالات کے جزیروں سے آشنائی ہوئی، ان سب کو انتہائی خوب صورت پیرائے میں ڈھال کر اسے سفرنامے کی شکل عطا کر دی۔

    اس میں جہاں پیرس کی تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی صورت حال سے آشنائی ہوتی ہے وہیں وہاں کے رنگ و بو سے بھی ذہن کو نئی روشنی ملتی ہے۔

    وہاں کے دریا، محلات، مصوری اور گیت، غرض یہ کہ ہر چیز کا ذکر تمام تر تفصیلات کے ساتھ موجود ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ کتاب محض جغرافیائی اور تاریخی معلومات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے، بلکہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس ملک کا سفر کر رہے ہیں اور ایک ایک ذرے سے آشنا ہو رہے ہیں۔ چوں کہ پیرس مصوری کا مرکز رہا ہے، تو وہاں کے مصوروں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔

    شہر دل ربا پیرس کے بارے میں اس سفر نامے سے ایک پارہ آپ کے ادبی ذوق اور سیاحت کے شوق کی تسکین کے لیے پیش ہے:

    ”رات کے دو بجے پیرس سے پندرہ میل دور ’اورلی‘ ایئرپورٹ، طیارہ کی کھڑکی سے دیکھا، دور دور تک پیرس چمک رہا تھا۔ دل کی شکل یہ سحر آفریں، روشنیوں کا شہر! پیرسیائی نام کے کیلٹک قبیلہ نے پہلی صدی قبل مسیح دریائے سین کے کنارے ایک گاؤں آباد کیا جو لوٹیشیا کہلاتا تھا، بعد میں اس جگہ رومن سپاہیوں نے اپنی چھاؤنی چھائی۔

    تیسری صدی عیسوی میں جرمن قبائل کے حملوں سے بچنے کے لیے لوٹیشیا کے باشندے دریائے سین کے جزیروں پر چلے گئے۔ ان کی یہ بستی بہت جلد پیرسیوں کا شہر کہلانے لگی اور اس قبیلہ نے Sle De La Cite جزیرے کے شہر کو قلعہ بند کیا۔ (اسی جزیرہ پر آج نو تردام کا کلیسا اور پولیس کا ہیڈکوارٹر موجود ہے)

    ثریا حسین مزید لکھتی ہیں:

    پیرس بہت جلد ایک اہم مسیحی مرکز بن گیا اور یہاں بہت سی خانقاہیں قائم ہوئیں۔ کئی بادشاہوں نے اس شہر کو اپنی راج دھانی بنایا۔

    نویں صدی میں نارویجین حملہ آور اپنے جہاز لے کر سین پر اترے لیکن جزیرہ کے قلعے کو فتح نہ کر پائے۔“

    ثریا حسین نے اس سفر نامے میں بہت سے ادیبوں کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں موپاساں، برگ ساں، موزاٹ اور فرائڈ شامل ہیں۔