Tag: اردو سفر نامے

  • سینیگال اور صوفی ازم

    سینیگال اور صوفی ازم

    افریقہ کے مغربی اور انتہائی گرم ترین علاقے میں واقع جمہوریہ سینیگال کی اکثریت اسلام کی پیروکار ہے۔ اس ملک کے دارُالحکومت کا نام ”ڈاکار“ ہے جو افریقہ کی مشہور بندر گاہوں میں سے ایک ہے۔

    کہتے ہیں ڈاکار ایک مسلمان بزرگ کا نام تھا اور بعد میں ان کے عقیدت مندوں نے یہ شہر بسایا اور اسے بزرگ سے موسوم کیا۔ سینیگال کے شمال اور شمال مشرق میں دریائے سینیگال بہتا ہے اور اس کے پڑوسی ممالک میں موریطانیہ، مالی، گنی بساؤ اور گنی شامل ہیں۔ آج ہر سال کی طرح سینیگال میں عوام قومی دن منارہے ہیں۔ یہ ایک میدانی خطّہ ہے جس کی دفتری زبان فرانسیسی ہے۔ آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ ملک 1960ء کو آزاد ہوا اور بعد میں الگ ریاست کے طور پر شناخت حاصل کی۔

    مونگ پھلی یہاں کی ایسی پیداوار ہے جس کے باعث سینیگال دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا اور موسم اس فصل کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ مونگ پھلی کی پیداوار اور اس کی تجارت کے دور میں یہاں ہر طرف خوش حالی نظر آتی ہے اور دریاؤں پر بنے بحری اڈوں کی رونقیں عروج پر ہوتی ہیں۔

    سینیگال میں نویں صدی میں ”تکرر“ نامی خاندان برسرِ اقتدار تھا جب کہ تیرھویں اور چودھویں صدی میں یہ ملک”جولوف“ نامی ریاست کا حصّہ رہا۔ پندرھویں صدی کے وسط میں یہاں‌ پرتگالیوں نے قدم رکھا اور بعد میں فرانسیسیوں، ڈچ اور برطانوی حکم رانوں نے بھی قسمت آزمائی کی، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ 1677ء میں فرانس یہاں بلا شرکتِ غیرے قابض ہو چکا تھا۔ یوں افریقہ سے انسانوں کو غلام بنا کر یورپ بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    انیسویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں ایک زبرست تحریک چلائی اور اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اسی تحریک کے نتیجے میں جنوری 1959 میں سوڈان اور سینیگال نے مل کر مالی فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور فرانس سے آزادی حاصل کی۔ 4 اپریل 1960ء کو ایک معاہدے کے تحت فرانسیسیوں کا سینیگال سے انخلا مکمل ہوا جس کے بعد اسی تاریخ کو سینیگال کا یومِ آزادی منایا جاتا ہے، جب کہ چند ماہ بعد ہی متحد ممالک سینیگال اور سوڈان بھی الگ ہو گئے تھے۔ سینیگال میں پہلا دستور 1963ء میں تیار کیا گیا تھا جس میں متعدد ترامیم کی جا چکی ہیں۔

    گیارھویں صدی میں اس خطّے میں‌ اسلام متعارف ہوا تھا جسے یہاں کے لوگوں نے تیزی سے قبول کیا اور آج یہ دنیا میں‌ مسلمان اکثریتی ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے، اور جہاں لوگ کسی نہ کسی روحانی سلسلے کے پیروکار ہیں اور صوفیائے کرام کے بڑے عقیدت مند ہیں۔

  • ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    ’’گِلِ گُل‘‘ کیا ہے اور کس کام آتی ہے؟ جانیے

    شیراز کو دیکھنے کا ارمان تھا۔ ایک عمر کے بعد خدا نے پورا کیا۔

    اللہ اللہ! خواجہ حافظ اور شیخ سعدی کا پیارا وطن جس پر وہ لوگ تعریفوں اور دعاؤں کے پھول چڑھائیں۔ اس کو دیکھنے کا ارمان کیوں نہ ہو، میں نے دیکھا اور تعجب کے ساتھ دیکھا، کیوں کہ جس شیراز پر نورانی بزرگوں نے نور برسائے تھے، اُس کی رونق و آبادی ان کے ساتھ ہی رحلت کر گئی۔

    اب بڑی بڑی وسیع اور بلند پرانی مسجدیں اور کہنہ مدرسے گرے پڑے کھڑے ہیں اور بنانے والوں کی ہمّتوں پر دلائل پیش کر رہے ہیں۔

    یہ اہلِ ایران میں عام دستور ہے کہ اشرافِ سفید پوش کے مکان کے ساتھ ایک مردانہ مکان ہوتا ہے۔ وہ حرم سرائے سے زیادہ آراستہ ہوتا ہے اور ضروریات کے سامان موجود ہوتے ہیں۔

    اکثر ہوتا ہے کہ موافق طبع دوست صبح ملاقات کو آیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر رخصت ہوا۔ یا رات کو رہا، صبح ناشتا کر کے رخصت ہوا۔

    شیراز کے لوگ اب تک لباس و اوضاع میں اپنے بزرگوں کی تصویر ہیں۔ علما اور ثقہ لوگ عمامہ باندھتے ہیں۔ عبا پہنتے ہیں۔ خاندانی تُرک کلاہ پوست برہ کی پہنتے ہیں۔ طہران کے اوضاعِ جدید ابھی تک وہاں لذیذ نہیں ہوئے۔

    شیراز میں چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بکتی دیکھیں کہ ان سے لوگ سَر اور داڑھیاں دھوتے تھے۔ وہ ایک قسم کی مٹّی ہے جس کی کان شہر کے پاس ہے۔ اس میں خوش بُو کے اٹھانے کی قدرتی تاثیر ہے۔ اُسے پھولوں میں بسا کر صاف کرتے ہیں اور ٹکیاں بنا کر بیچتے ہیں۔ شہروں میں تحفہ لے جاتے ہیں۔ گِلِ گُل اس کا نام ہے۔ مجھے گلستان کا سبق یاد آیا۔

    گلِ خوشبوئے در حمام روزے

    جن دنوں ہم نے پڑھا تھا تو خدا جانے کیا سمجھے تھے۔ پھر ایک خیالِ شاعرانہ سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ شیراز کا اصلی تحفہ ہے۔

    جاڑے کا موسمِ کوہ برف لیے سَر پر چلا آتا تھا۔ بڑھاپے نے خوف کے لحاف میں دبک کر کہا کہ شیراز تو دیکھ لیا۔ اب اصفہان کو دیکھو اور آگے بڑھو کہ تلاش کی منزل ابھی دور ہے۔

    شیراز کے دوست بہت روکتے اور رستہ کے جاڑے سے ڈراتے رہے، مگر جب کارواں چلا، مجھے اشتیاق نے اٹھا کر کجاوہ میں بٹھا دیا۔ چار چار، پانچ پانچ کوس پر شاہ عباسی سرائیں آباد، موجود تھیں جن کی پختگی اور وسعت قلعوں کو ٹکّر مارتی تھی۔ ان سراؤں میں مسافر اگر روپیہ رکھتا ہو تو خاطر خواہ سامان آسائش کا ملتا ہے، چار پانچ آنہ کو مرغ اور پیسے کے دو دو انڈے، ہر قسم کے تر و خشک میوے نہایت اعلیٰ اور نہایت ارزاں ملتے ہیں۔

    رستہ آبِ رواں سے سبزہ وار آبادیوں سے معمور تھا۔ جہاں منزل کرتا، گاؤں میں جا کر پوچھتا اور جو اہلِ علم ہوتا اُس سے ملاقات کرتا۔ چھوٹی سے چھوٹی آبادی میں بھی ایک دو عالم اور بعضے صاحبِ اجتہاد ہوتے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر تعجّب آتا تھا۔ مثلاً کھیت سے گائے کے لیے گھاس کندھے پر لیے آتے ہیں۔ یا نہر پر کپڑے دھو رہے ہیں۔ لڑکا گھر کی دیوار چُن رہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اسے شرع لمعہ یا قوانین الاصول کا سبق پڑھانے لگے۔

    جب اُن سے پوچھتا کہ کسی شہر میں جا کر ترویج علم کیوں نہیں کرتے؟ کہ رواجِ کار بھی ہو تو کہتے کہ وہاں خلوت کا لطف نہیں رہتا، حضورِ قلب میں خلل آتا ہے، دنیا چند روز ہے۔ گزار دیں گے اور گزر جائیں گے۔ یہ علمی روشنی کل مملکتِ ایران میں عام ہے کہ شاہان سلف کی پھیلائی ہوئی ہے۔

    میں اُن سے کہتا تھا کہ ہماری تمہاری تو جس طرح گزری گزر گئی۔ لڑکوں کو طہران بھیجو اور دار الفنون پڑھواؤ کہ زمانہ کی ہوا پھر گئی ہے۔ اکثر ہنس دیتے اور میرے ساتھ ہم داستان ہو کر کہتے، انہی کو کہو کہ ان کا معاملہ ہے۔ بعضے بحثنے لگتے اور آخر اتفاق رائے کرتے۔

    میرے پاس کھانے پکانے کا سامان نہ تھا۔ وہیں بیٹھ کر کسی گھر سے روٹی مول لیتا۔ کہیں سے انڈے کہیں سے گھی۔ اشکنہ یعنی انڈوں کا قلیہ پکاتا۔ اس میں روٹی ڈبوتا، کھاتا اور شکرِ الٰہی بجا لاتا۔ اس میں بہت باتوں اور تحقیقات کے موقع ملتے تھے اور وہ لوگ ان کاموں میں میری مدد کرنی مہمان نوازی کا جزو سمجھتے تھے جو کہ حقیقت میں فرضِ مذہبی ہے۔

    (اردو زبان کے نام ور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد 1886ء میں سیرِ ایران کے بعد اپنے وطن (ہندوستان) لوٹے تو اس سفر کی روداد لکھی، یہ مختصر پارہ اسی تحریر سے نقل کیا گیا ہے)

  • فجی، وہ ملک جہاں روزگار کی خاطر آنے والے ہندوستانیوں کو پچھتانا پڑا

    فجی، وہ ملک جہاں روزگار کی خاطر آنے والے ہندوستانیوں کو پچھتانا پڑا

    فجی 320 جزائر پر مشتمل ہے، جن میں صرف 90 آباد ہیں۔ کل رقبہ 2700 مربع میل بنتا ہے، لیکن سمندر کو ملا کر یہی رقبہ دس گنا ہو جاتا ہے۔

    سب سے بڑا جزیرہ ’وٹی لیوو‘ (VitiLevu) ہے، اس کے بعد ’وَنُوا لیوو‘ (Vanua Levu) اور پھر توِیونی (Taveuni) اور کیدوا (Kadua) آتے ہیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ لگ بھگ پچیس ہزار سال قبل بحرالکاہل کے دوسرے جزائر سے آکر لوگ یہاں آباد ہوتے گئے۔ یہ لوگ اپنے گندمی رنگ، مضبوط جسم اور عادات و خصائل کے اعتبار سے برازیل کے قدیم لوگوں سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔

    فجی کی زمین اور موسم کی بات کی جائے تو یہاں بارش بکثرت اور زوروں سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں گنا خوب پھلتا اور پھولتا ہے۔ پھر موسمِ گرما (یعنی جنوری تا مارچ) میں بحر الکاہل سے اُٹھنے والے طوفان فجی کے ساحلوں، بستیوں اور پہاڑوں سے ایسے ٹکراتے ہیں کہ الامان والحفیظ، ٹین کی چھتیں اُڑ جاتی ہیں اور اکثر بہت مالی اور جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔

    فجی کا سمباتو نامی پہاڑی سلسلہ اپنے نباتاتی حُسن اور عجیب و غریب درختوں کے سبب بھی مشہور ہے۔ اکثر پیڑ پودے ایسے ہیں‌ جو دنیا میں‌ کہیں‌ اور نہیں‌ پائے جاتے۔

    جانوروں اور عام مویشیوں‌ کی بات کریں تو فجی میں بھینس اور گدھے کا وجود نہیں۔ سارے جزائر میں درندہ نام کی بھی کوئی چیز نہیں۔ لوگ ہاتھی، شیر، چیتا، بھیڑیا، بندر، ریچھ، سانپ، بچھو، چیل، کوّے اور گدھ کو تصویروں سے پہچانتے ہوں گے، کبھی مشاہدہ نہ کیا ہو گا۔

    سووا فجی کا دارالحکومت ہے، یہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا شہر ہے اور تین اطراف سے سمندر میں گھرا ہوا ہے۔

    فجی برطانوی کالونی رہا ہے، اور کسی زمانے میں یہاں ہندوستانیوں کی بڑی تعداد مزدوری کے لیے لائی گئی تھی جن میں‌ کچھ لوگ یہیں‌ کے ہو رہے اور آج ان کی نسلیں‌ بھی یہاں‌ آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فجی میں کچھ علاقوں میں‌ بسنے والے چند خاندان اور لوگ اردو کے الفاظ بھی سمجھتے ہیں اور یہاں کی زبان میں بھی ایسے کئی لفظ شامل ہیں۔ یہاں حالیہ برسوں کے دوران آنے والے بھارتی اور پاکستانی باشندوں کے گھروں میں‌ ہندی اور اردو بولی جاتی ہے اور بھارت، پاکستان کے علاوہ یہاں ایرانی باشندے بھی مقیم ہیں۔

    ‌(مآخذ: سفرنامے اور تاریخی مضامین)