Tag: اردو شاعر

  • خواجہ حیدر علی آتشؔ:‌ اردو کا مقبول و محبوب شاعر

    خواجہ حیدر علی آتشؔ:‌ اردو کا مقبول و محبوب شاعر

    خواجہ حیدر علی آتش کلاسیکی اردو غزل کے ابتدائی ادوار کے سرفہرست شعراء میں سے ایک تھے۔ آتش نے اردو غزل کو علم و بیان و بدیع کے جملہ محاسنِ شعری سے مزین کیا اور ان کی شاعری میں کلاسیکی روایت سے جڑے سبھی موضوعات اور اسالیب و شعری تلازموں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

    آتش کے کلام میں روایتی موضوعات سے لے کر جدید مباحث اور فکر و فلسفہ کی ترجمانی ملتی ہے۔ تصوف سے گہرا لگاؤ اور اخلاقی موضوعات کے بارے میں آتش کا نکتہ نظر منفرد اور دلآویز ہے۔ آج اپنے زمانے کے ممتاز اور معتبر شاعر خواجہ حیدر علی آتش کا یوم وفات ہے۔

    مولانا محمد حسین آزاد ؔ جیسے بڑے ادیب اور نقاد نے آتش کے گزر بسر کا نقشہ یوں کھینچا ہے: ”زمانے نے ان کی تصاویرِ مضمون کی قدر ہی نہیں کی بلکہ پرستش کی مگر انھوں نے اس کی جاہِ حشمت سے ظاہر آرائی نہ چاہی۔ نہ امیروں کے درباروں میں جاکر غزلیں سنائیں، نہ ان کی تعریفوں میں قصیدے کہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں جس کی چھت کچھ چھپر سایہ کیے تھے، بوریا بچھا رہتا تھا۔ اسی پر لُنگ باندھے صبر و قناعت سے بیٹھے رہے اور عمرِ چند روزہ کو اس طرح گزار دیا جیسے کوئی بے نیاز فقیر تکیے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی متوسط الحال اشراف یا کوئی غریب آجاتا تو متوجہ ہو کر باتیں بھی کرتے تھے، امیر آتا تو دھتکار دیتے، وہ سلام کر کے کھڑا رہتا کہ آپ فرمائیں تو بیٹھے، یہ کہتے ہوں، کیوں صاحب! بورے کو دیکھتے ہو کپڑے خراب ہو جائیں گے؟ یہ تو فقیر کا تکیہ ہے، یہاں مسند تکیہ کہاں؟″

    آتش کے خاندان کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت تذکروں میں نہیں ملتے۔ البتہ مصحفیؔ لکھتے ہیں: ”آتشؔ کا نسب نامہ خواجہ عبداللہ احرار تک پہنچتا ہے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا، وطنِ قدیم چھوڑ کر دلّی میں آبسے اور قلعہ کہنہ میں آباد ہو گئے۔”

    خواجہ حیدر علی آتشؔ کے والد کا نام خواجہ علی بخش تھا جو دلّی کے باشندے تھے۔ بعد میں دلّی چھوڑ کر فیض آباد آگئے اور یہیں خواجہ حیدر علی پیدا ہوئے۔ آتش کی تاریخِ ولادت بھی درست معلوم نہیں۔ لیکن سنہ 1778ء لکھا گیا ہے۔ خواجہ حیدر علی آتش گورے، چٹے اور جوانِ رعنا تھے۔ تعلیم کا سلسلہ معقول حد تک چلا اور ابتدائے موزونی طبع سے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہنے لگے۔ آتش نے نوجوانی میں تعلیم ضروری حد تک حاصل کر لی تھی لیکن کئی ادبی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آتش بانکے اور آزاد منش شاعر تھے۔ نواب محمد تقی خاں کی سرکار میں ملازم ہوگئے تھے اور فیض آباد میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی فوج میں ملازمت تھی اور معلوم نہیں کہ کس سپاہ میں ملازم تھے اور کب اور کس عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ تذکرہ نگاروں نے بھی خواجہ صاحب کی زندگی کے حالات و اقعات کو اکٹھا کرنے اور کھوجنے کی کوشش بہت نہیں کی۔

    خواجہ حیدر علی آتش کی شادی کا ذکر عبدالرّؤف عشرت نے اپنے تذکرہ آبِ بقا میں اس طرح کیا ہے۔ ”نواز گنج کے قریب چوٹیوں سے آگے مادھو لال کی چڑھائی مشہور ہے۔ وہاں سے اتر کر ایک چھوٹا سا باغیچہ اور ایک کچا مکان تھا۔ وہ آتش نے خرید لیا اور اسی میں رہنے لگے۔ مکان لینے کے بعد آتش نے اپنا نکاح کسی شریف خاندان میں کر لیا۔ ”

    آتش نے فیض آباد سے ترکِ سکونت کیا اور لکھنؤ آگئے کیونکہ آصف الدولہ نے اس شہر کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا۔ آتش غزل گو شاعر تھے اور ان کا کمال اسی صنفِ سخن میں ظاہر ہوا۔ ادھر آتش کو لکھنؤ کی فضا میں اپنے دور کے نمائندہ شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    خواجہ صاحب کے اشعار میں مزاج اور اظہار کا وہ منفرد انداز واضح ہے جو کسی بھی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ملتا۔ ان اشعار میں ندرتِ ادا بھی ہے اور تازگی بھی اور یہی آتش کی پہچان ہے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے۔

    ایک شعر دیکھیے؎
    آئے بھی، بیٹھے بھی، اُٹھ بھی کھڑے ہوئے
    میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا

    اور یہ شعر بھی ملاحظہ ہو؎
    سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
    کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

    خواجہ حیدر علی آتش کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا۔ ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام ایک دوست نے کیا۔ آج آتش کا گھر ہے نہ ان کی قبر کا کوئی نشان۔ سنہ وفات 1847ء ہے۔ مصحفی سے لے کر عشرت تک کے تمام تذکرہ نگاروں میں آتش کو مقبول و محبوب شاعر قرار دیا ہے۔

  • تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    یہ مجازؔ کا تذکرہ ہے، وہ مجاز جس کا کلام ہندوستان بھر میں مقبول تھا اور خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں جس کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھا کرتے تھے۔ مجاز کی نظموں میں جذبات کی شدّت اور ایسا والہانہ پن تھا جس نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ شاعر اسرارُ الحق مجازؔ کی نظم ’آوارہ‘ نے اپنے دور میں سبھی کو چونکا دیا تھا۔ یہ نظم بہت مقبول ہوئی اور ہر باذوق کی زبان پر جاری ہوگئی تھی۔ مجاز کو شراب نے اتنا خراب کیا کہ عین جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ اردو شاعری کے آسمان پر گویا لمحوں کے لیے چمکے اور پھر ہمیشہ کے لیے سب کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

    معروف ادیب مجتبیٰ حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ اس وقت وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئے تھے۔ شراب نے انھیں برباد کردیا تھا۔ لکھنؤ میں انتقال کرنے والے مجاز کا خاکہ مجبتیٰ حسین کی کتاب نیم رُخ میں شامل ہے۔ مجبتیٰ حسین لکھتے ہیں:

    بارے مجاز ڈائس پر آئے۔ انہوں نے "اعتراف” سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آ رہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے۔ طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جا رہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہو چکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہو کر پڑھے جا رہے تھے:

    خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
    شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
    شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
    خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

    ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آ گیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔ مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔ دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے۔‘

    معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔ جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔ اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔

  • اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    اختر الایمان جنھیں سردار جعفری کی انانیت نے پنپنے نہ دیا!

    ادب میں اختر الایمان کی پہچان ایک شاعر کی طرح ہے، لیکن وہ تنہا شاعر ہیں جنھوں نے فلم میں رہ کر اپنی شاعری کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا۔ تقریباً نصف صدی وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے، فلموں کے لیے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے رہے لیکن (سوائے فلم ’’غلامی‘‘ کے اوپیرا کے) کوئی گانا انھوں نے فلم کے لیے نہیں لکھا۔

    ایسا نہیں کہ فلم کی سطح تک اتر کر شاعری نہیں کرسکتے تھے مگر ان کا شاعری کے لیے جذبۂ احترام تھا کہ انھوں نے اسے میوزک ڈائریکٹروں کی دھنوں کی تان پر قربان نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ’’شعری جینیس‘‘ کو صرف سنجیدہ اور فکر انگیز شاعری کے لیے ہی محفوظ رکھا اور فلمی ادیبوں کی بھیڑ میں منفرد رہے۔ آج کے دور میں اپنے فن کے لیے اس قدر پرخلوص ہونا بے مثال ہے۔

    اخترالایمان نے نہ صرف یہ کہ فلمی شاعری نہیں کی، بلکہ سیاسی اور نیم سیاسی قصیدے بھی نہیں لکھے۔ اپنی شاعری کو ہر مصلحت سے دور رکھا اور وہی کہا جو شدت سے محسوس کیا اس لیے وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’گرداب‘‘ کی اشاعت (۱۹۴۳ء) کے ساتھ ہی صفِ اوّل کے شاعروں میں شمار کیے جانے لگے تھے اور یہ بلند مرتبہ انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعرانہ عظمت نہ کسی ’’تحریک‘‘ کی رہین منت ہے نہ کسی سیاسی یا غیرسیاسی گروہ یا شخصیت کی۔ وہ تنہا اپنے بل پر نمایاں رہے، بھیڑ میں سب سے الگ۔

    راقم الحروف کی ملاقات اختر الایمان سے ٹھیک ساٹھ سال پہلے ہوئی۔ ۱۹۴۲ء ماہ جون، میرے آبائی قصبہ نگینہ میں آل انڈیا انصار کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کے کونے کونے سے انصاری برادری کے لیڈران آئے تھے۔ میرا مطلب ہے ’’انصاری جدید‘‘ اور اس کانفرنس کی وجہ سے قصبہ کے ایک مشہور حکیم ایوب انصاری اپنی بدنامی سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ تین روزہ کانفرنس کے دوران اپنے گھر سے ہی نہ نکلے۔ اس کانفرنس کے سکریٹری مشہور رہنما قیوم انصاری نے ایسی گرم تقریر کی کہ غیر انصاریوں کو جوش آگیا اور نقصِ امن کا اندیشہ ہونے لگا۔ تب صدر محفل کے کہنے پر اخترالایمان نے جو ان ’جغادریوں‘ کے سامنے ’’طفلِ مکتب‘‘ معلوم ہو رہے تھے، وہ دھواں دھار تقریر کی کہ دونوں فریقوں کو شکایت کی گنجائش نہ رہی۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہ انگریزی سامراج کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے دو گروپ ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ اختر الایمان اس انصار کانفرنس کے ہیرو ٹھہرے۔ اور بعد میں ہم نوجوانوں نے جو ’’ساقی‘‘ میں ان کی نظمیں پڑھتے تھے، ان سے کلام سنانے کی فرمائش کی تو اخترالایمان نے اپنی دو نظمیں ’’نقش پا‘‘ اور ’’محلکے‘‘ ترنم سے سنائیں۔ تب تک ان کا مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔ چند ماہ بعد پھر وہ نگینہ تشریف لائے اور اس رات ہم نے ان کی زبانی وہ سب نظمیں سنیں جو ’’گرداب‘‘ میں شائع ہوئیں۔

    ’’انصار کانفرنس‘‘ کی لیڈری ان کے قدموں میں تھی مگر اختر نے اس سلسلے کو منقطع کردیا۔ ان دنوں وہ ساغر نظامی کے رسالے ’ایشیا‘ کے نائب مدیر تھے۔ نگینہ کے بعد اخترالایمان سے میری ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں مگر وہ جلد ہی علی گڑھ ایم۔ اے کرنے چلے گئے۔ وہاں بھی ایک سال رکے اور ان کے کچھ عرصہ کے لیے قدم تھمے۔ پونا میں اور پھر پونا سے بمبئی۔ بمبئی میں اخترالایمان کو خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے لکھنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ باندرہ میں ان کا دو کمرے کا ایک فلیٹ تھا، گراؤنڈ فلور پر۔ پھر جب ان کی مقبولیت اور آمدنی میں اضافہ ہونے لگا تو انھوں نے اس مکان میں اپنی لائبریری بنالی اور باندرہ میں ہی ایک بڑا فلیٹ خرید لیا۔ بمبئی آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ اس نئے فلیٹ میں وہ ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلم ’’قانون‘‘ جس میں کوئی گانا نہیں تھا، ان کے مکالموں کے باعث بہت مقبول ہوئی اور وہ ان کی کامیابی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ البتہ آخری دنوں میں انھوں نے بیماری اور مالی مجبوریوں کے باعث وہ بڑا فلیٹ بیچ دیا تھا اور باندرہ میں ہی دو کمرے کا فلیٹ خرید لیا تھا۔

    میں ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور اکثر ان کے گھر ان سے ملنے جاتا تھا اور مجھے اخترالایمان نے ہمیشہ ایک مشفق بزرگ کا پیار دیا۔

    جس طرح اخترالایمان نے غزل نہیں لکھی اور فلمی شاعری نہیں کی اسی طرح ان کی وضع داری کا ایک گواہ ان کا لباس بھی تھا۔ وہ ہمیشہ بغیر کالر کا کھدر کا کرتہ اور پاجامہ پہنتے تھے۔ دہلی میں تو سردیوں میں شیروانی پہنتے تھے مگر بمبئی میں بس ان کا یہی ایک لباس تھا۔ کھدر کا سفید کرتہ اور پاجامہ۔ اس لباس میں میں نے انھیں پہلی بار نگینہ میں دیکھا تھا۔ اور اسی لباس میں ان کے انتقال سے کچھ دن پہلے تک دیکھا۔

    اختر الایمان کا ایک وصف بہت کاٹ دار تقریر کرنا تھا۔ ان کی سب سے پہلے تقریر تو میں نے انصار کانفرنس کے اسٹیج پر سنی اور دوسری تقریر ۱۹۴۴ء میں دہلی کے دربار ہال میں جہاں ترقی پسندوں اور رجعت پرستوں کے درمیان باقاعدہ مناظرہ ہوا تھا۔ ایک طرف خواجہ محمد شفیع، مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور سلطان اور دوسری طرف سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور اخترالایمان تھے۔ اختر الایمان کی تقریر مدلل اور برجستہ تھی۔ ایک کامیاب ڈبیٹر کی تقریر اخترالایمان کی تیسری معرکۃ الآراء تقریر میں نے بمبئی میں صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں سنی۔ یہ بھی ایک مناظرہ ہی تھا۔

    یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سردار جعفری کی انانیت نے اختر الایمان کو پنپنے نہ دیا لیکن جب ۱۹۶۰ء میں جدیدیت کی رو چلی تو اس گروپ نے اختر الایمان کو اپنا بنالیا تو اختر الایمان کو دیر سے ہی سہی، اپنی کاوشوں کا صلہ ملا اور ادبی حلقوں میں وہ سردار جعفری سے کہیں بہتر شاعر تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر اپنے وقت کے ان دونوں بڑے شاعروں میں ایک محتاط دوستی تھی۔ محفلی زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا، ملنا جلنا بھی تھا۔ لیکن معاصرانہ چشمک کی ایک لہر دونوں طرف تھی۔

    اختر الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیق القلب اور ہمدرد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔ میں اختر الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اختر الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔ اخترالایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب ولہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے بازگشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔ ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے سوائے ایک نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کے۔

    (ہندوستان کے مشہور شاعر اور ادیب رفعت سروش کے ایک مضمون سے چند پارے)

  • ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    اردو کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کا وہ طرزِ بیان ہے جس میں شدّتِ جذبات کے ساتھ سوز اور برجستگی نمایاں‌ ہے۔ اس کے ساتھ اردو غزل کو ناصر نے اپنے احساسِ تحیّر سے وہ انفرادیت بخشی جو انھیں‌ آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    یہ ناصر کی غزل کے وہ اشعار ہیں‌ جن میں‌ حسن و عشق کا موضوع اور وہ کسک نمایاں‌ ہے جس کے لیے ناصر پہچانے گئے۔ انھوں نے اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیوں، محرومیوں، سرشاری اور حسرتوں کو بڑی شدّت سے اپنے اشعار میں‌ سمویا۔ روایتی شاعری سے انحراف کیے بغیر ناصر کاظمی نے جدید لب و لہجہ اپنایا، جو عام فہم بھی تھا اور نہایت دل نشیں‌ بھی۔

    ناصر کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ وہ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ آزادی سے قبل وہ ایک بڑے گھر میں‌ نہایت آسودہ زندگی بسر کررہے تھے لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ انھوں‌ نے چھوٹے سے معمولی گھر میں‌ نوکریاں‌ کرتے ہوئے زندگی گزار دی۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ناصر کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں عہد ساز شاعر اور اردو ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    بھارتی ادیب، شاعر اور نقّاد ستیہ پال آنند فراق کی علمی قابلیت اور ادبی حیثیت پر لکھتے ہیں، پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکا کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے ناراین پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ الٰہ آباد میں وہ فراق گورکھپوری کی انڈر گریجویٹ کلاس میں تھیں اور ان سے ذاتی طور پر انس رکھتی تھیں۔ میں چونکہ شعبۂ انگریزی کی لٹریری سوسائٹی The Three Hundred کا پروفیسر انچارج تھا، میں نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ اب کے جب وہ اپنے والدین سے ملنے الٰہ آباد جائیں تو فراق گورکھپوری صاحب کو راضی کریں کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک توسیعی لیکچر دینے کے لیے تشریف لائیں۔ ہم ٹرین سے فرسٹ کلاس کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی رہائش کا گیسٹ ہاؤس میں بندوبست ہو گا۔ اور میں ذاتی طور پر ایک چپراسی کو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ان کے پاس حاضر رہنے کا انتظام کر دوں گا، اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود بھی موجود رہوں گا۔

    فراق گورکھپوری آئے۔ آڈیٹوریم میں ان کی تقریر نے جیسے ہم سب کو مسحور کر لیا۔ شستہ انگریزی لہجہ، اس پر ہر پانچ چھ جملوں کے بعد اردو سے (موضوع سے متعلق) ایک دو اشعار، اور پھر انگریزی میں گل افشانی۔ یہ تجربہ ہم سب کے لیے نیا تھا، کیونکہ ہم تو کلاس روم میں صرف (اور صرف) انگریزی ہی بولتے تھے۔ ایک گھنٹہ بولنے کے بعد تھک گئے۔ میں چونکہ اسٹیج پر تھا اور مجھے بطور شاعر جانتے تھے، مجھے کہا کہ جب تک وہ تھرموس سے ’’پانی‘‘ پی کر سانس لیں گے، میں کچھ سناؤں۔ میں نے اپنی ایک نظم انگریزی میں اور ایک اردو میں سنائی۔ تین چار گھونٹ ’’پانی‘‘ پینے اور دس پندرہ منٹ تک آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دَم ہو گئے۔ ایک بار پھر چالیس پنتالیس منٹوں تک بولے۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سبھی مسحور بیٹھے تھے، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ تب کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بھائی، کوئی کھانا وانا بھی ملے گا کہ نہیں!‘‘ اور تب طلبہ کو بھی خیال آیا کہ انہیں ہوسٹل کے میس میں کھانے کے لیے پہنچنا ہے، جس کا وقت گزر چکا ہے۔

    شام کو میں گیسٹ ہاؤس پہنچا تو انتظار ہی کر رہے تھے۔ میں وہسکی کی ایک بوتل اپنے اسکوٹر کے بیگ میں رکھ کر لایا تھا اور باورچی خانے میں سوڈے کی بوتلیں پہلے ہی لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر راج کمار بھی آ گئے۔ خاموش طبع انسان تھے اور بہت کم پیتے تھے، اس لیے گفتگو کا فرض ہم دونوں نے ہی ادا کیا۔ میں مودبانہ انداز سے ، لیکن کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتا اور پھر ان کے منہ سے گل افشانی شروع ہو جاتی۔ ایک موضوع جو زیرِ بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تینوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں ، مسئلہ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے)۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ ‘‘ کو حالتِ جماع میں دیکھتا ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔

    فراق جیسے حالتِ استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوہی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لواطت تو خیر، …..میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اوّل و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔‘‘ خوش ہو گئے۔ فرمایا، ’’کبھی الٰہ آباد آئیں تو غریب خانے پر بھی تشریف لائیں۔

    فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوا تھا۔ آنجہانی فراق گورکھپوری کے فنِ شاعری اور ان کے کلام پر کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور اردو زبان و ادب کے بڑے نقادو‌ں نے فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے رگھو پتی سہائے المروف بہ فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو منشی گورکھ پرشاد کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم اور ماہرِ قانون بھی تھے۔ فراق کو ان زبانوں کی تعلیم گھر پر ہی دی گئی اور بعد میں فراق نے باقاعدہ مکتب میں‌ داخلہ لیا۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

    فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور نقّاد کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا۔

  • بے مثال ملّی نغمات اور لازوال فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کا تذکرہ

    بے مثال ملّی نغمات اور لازوال فلمی گیتوں کے خالق کلیم عثمانی کا تذکرہ

    کلیم عثمانی کا نام پاکستان کے مقبول ملّی نغمات کے خالق کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ گیت نگار ہی نہیں غزل گو شاعر کی حیثیت سے بھی اردو شاعری میں مقام رکھتے ہیں۔ 28 اگست 2000ء کو کلیم عثمانی وفات پاگئے تھے۔ آج کلیم عثمانی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ وہ ضلع سہارن پور، دیو بند میں 28 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی شاعر تھے اور اس علمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے احتشام الٰہی نے بھی یہی مشغلہ اپنایا۔ وہ شاعری کے میدان میں کلیم عثمانی کے نام سے پہچانے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آگیا تھا جہاں بطور شاعر انھوں نے شہرت پائی۔

    کلیم عثمانی اپنے وقت کے مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے تھے۔ لاہور اور پاکستان بھر میں مشاعروں میں‌ انھیں مدعو کیا جاتا تو وہ ترنم سے کلام پیش کرکے داد سمیٹا کرتے۔ کلیم عثمانی نے غزل گوئی سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں‌ فلموں کے لیے گیت نگاری شروع کی اور ان کے لکھے ہوئے گیت مقبول ہوئے۔ فلم بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے گیتوں کی بدولت کلیم عثمانی کو فلم انڈسٹری میں خاصا کام ملا۔

    فلم راز کا یہ ایک مقبول گیت تھا، میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا….. جو کلیم عثمانی نے لکھا تھا اور اس گیت کو سرحد پار بھی پسند کیا گیا۔ جوشِ انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب اور نازنین نامی فلموں میں بھی کلیم عثمانی کے تحریر کردہ نغمات کو پسند کیا گیا اور یہی نغمات جب ریڈیو‌ پر پیش کیے گئے تو پاکستان بھر میں‌ ہر ایک کی زبان پر جاری ہوگئے۔

    1973 میں کلیم عثمانی کو فلم گھرانا کے اس مقبولِ عام گیت "تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں….” پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح ان کے لکھے ہوئے ملّی نغمات نے دھوم مچا دی اور آج بھی یہ گیت اس قوم کے جذبات کی ترجمان ہیں اور ہماری آزادی اور پاکستان کی پہچان اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ "اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں” اور "یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے” کلیم عثمانی کے وہ ملّی نغمات ہیں جو پاکستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گونجتے رہیں گے۔

    کلیم عثمانی لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ اردو زبان و ادب کے رسیا قارئین نے ان کی یہ مشہور غزل ضرور سنی ہوگی۔

    رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح
    چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

    خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں
    شہر بھی اب تو نظر آتا ہے جنگل کی طرح

    پھر خیالوں میں ترے قرب کی خوشبو جاگی
    پھر برسنے لگی آنکھیں مری بادل کی طرح

    بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے حیات
    میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح

  • مجاہدِ اردو اور گنگا جمنی تہذیب کے امین گلزار دہلوی کا تذکرہ

    مجاہدِ اردو اور گنگا جمنی تہذیب کے امین گلزار دہلوی کا تذکرہ

    گلزار دہلوی اپنے طرز کے واحد انسان تھے۔ انھیں اردو زبان و تہذیب کا نمائندہ شاعر کہا جاتا ہے۔ گلزار دہلوی 95 سال کی عمر میں آج ہی کے دن 2020ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    وہ جب تک زندہ رہے، ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا نمونہ اور وہ ہر مذہب، مسلک کے ماننے والوں کے لیے فراخ دل ثابت ہوئے اور رواداری کی مثال بنے رہے۔ ہر طبقۂ فکر کو اتحاد و اتفاق، یگانگت کا درس اور ہر سطح پر رواداری کو فروغ دینے والے گلزار دہلوی کا نام بھی ان کے اسی نظریے کا عکاس ہے۔ وہ اپنا پورا نام ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے۔ ان کی انہی صفات کی بنیاد پر انھیں مجاہدِ اردو، سراجِ اردو، پرستارِ اردو، شاعرِ قوم، گلزارِ خسرو، بلبلِ دلّی کے خطاب اور القاب سے یاد کیا جاتا تھا۔

    اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ انھوں نے بھارت میں اردو کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے اخلاص سے کوششیں جاری رکھیں اور اپنی شاعری سے بھی اردو کی شمع روشن کیے رکھی۔ گویا زبان اور تمام مذاہب کا احترام ان کی ادائے خاص رہی۔ برصغیر میں انھیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے منفرد نمائندے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

    پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ سات جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہونے والے گلزار دہلوی مجاہدِ آزادی اور ایک اہم انقلابی شاعر تھے۔ انھوں نے غالباً 1942ء سے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تا عمر جاری رہا۔ گلزار دہلوی ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں اردو زبان کے عالمی مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ انھیں متعدد تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں پاکستان کا نشانِ امتیاز، غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ مختلف اعزازات شامل ہیں۔

    گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھاکہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

    مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کُل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔ باوصف اس کے وہ "سائنسی شاعر” مشہور تھے۔

    اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
    میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

    گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

    گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
    دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
    اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
    اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
    تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

    گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

  • اختر حسین جعفری، جنھیں فکر و نظر کی مکمل آزادی عزیز تھی!

    اختر حسین جعفری، جنھیں فکر و نظر کی مکمل آزادی عزیز تھی!

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ احمد ندیم قاسمی کے مضمون سے یہ اقتباس جدید اردو نظم کے بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر اور شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتا ہے۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ آخری سانسیں‌ لینے والے اختر اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا، انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    ممتاز نظم گو شاعر اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خواہ مخواہ حیدر آبادی اُن بزلہ سنج شعرا میں شامل ہوئے جنھیں لوگوں نے سندِ قبولیت بخشی اور ان کی سخن طرازیوں پر خوب داد و تحسین سے نوازا۔ آج اس مزاح گو شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    نثر یا نظم میں‌ طنز و مزاح کسی بھی معاشرے کے افراد میں جہاں برداشت، تحمل اور بردباری پیدا کرتا ہے، وہیں‌ ان کو زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے آزار سے دور اور پھیکے پن سے نکل کر لمحۂ موجود کو خوش گوار بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر یہ کوشش کوئی شاعر کرے اور اس میں‌ کام یاب ہوجائے تو وہ مقبول بھی ہوجاتا ہے۔ غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی ایسے ہی شاعر تھے جن کا انتقال 2 مئی 2017ء کو ہوا۔

    ہندوستان اور بیرونِ ممالک مقیم باذوق اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والے افراد کی اکثریت خواہ مخواہ حیدرآبادی کی مداح ہے اور دکنی بولی میں ان کے کلام سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کو بالخصوص مشاعروں‌ میں‌ بڑے شوق اور توجہ سے سنا جاتا تھا۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کے اوراقِ‌ زیست کو الٹتے ہوئے طنز و مزاح‌ سے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ رائے بھی پڑھیے: ’’مزاح نگار اپنی نگاہِ دوربین سے زندگی کی ان ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں کو دیکھ لیتا ہے جو ایک عام انسان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔ دوسرے ان ناہمواریوں کی طرف مزاح نگار کے ردعمل میں کوئی استہزائی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ان سے محظوظ ہوتا اور اس ماحول کو پسند بھی کرتا ہے جس نے ان ناہمواریوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ ان ناہمواریوں کی طرف اس کا زاویۂ نگاہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ مزاح نگار اپنے ’’تجربے‘‘ کے اظہار میں فن کارانہ انداز اختیار کرتا ہے اور اسے سپاٹ طریق سے پیش نہیں کرتا۔‘‘ خواہ مخواہ حیدرآبادی نے بھی زندگی اور مسائل کو فن کارانہ طریقے سے اپنے کلام میں‌ پیش کیا اور اسے ہر طرح‌ کے ابتذال اور سطحی پن سے بھی دور رکھا۔

    خواہ مخواہ حیدرآبادی 1928ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ نوجوانی میں‌ مشاعرے پڑھنے لگے تھے اور دکن میں‌ اپنی اردو اور دکنی زبان میں‌ مزاحیہ شاعری کے باعث لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ انہیں مزاحیہ مشاعروں میں خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا بلکہ وہ ہندوستان کے مزاحیہ مشاعروں کا جزوِ لازم تھے۔ خواہ مخواہ ان شعرا میں سے تھے جن کا دکنی زبان مں کلام زباں زدِ عام ہوا۔ ’’نئیں بولے تو سنتے نئیں‘‘ اس شاعر کا وہ کلام ہے جسے ہندوستان اور بیرونِ ملک منعقدہ مشاعروں‌ میں ہمیشہ فرمائش کرکے سنا جاتا تھا۔

    ان کا اصل نام غوث محی الدّین احمد تھا۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں پائی اور اردو میڈیم میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ غوث خواہ مخواہ کو بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں منعقدہ مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہاں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد انھیں بڑے شوق سے سنتی تھی۔ ان میں‌ پاک و ہند کے لوگوں کے ساتھ بنگلہ دیشی اور دیگر ممالک کے اردو سمجھنے والے افراد شامل ہیں۔ فالج کے حملے کے بعد اپنی مزاحیہ شاعری سے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دینے والے خواہ مخواہ حیدرآبادی چلنے پھرنے معذور اور بولنے سے قاصر تھے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کی تصانیف میں ’’حرفِ مکرر‘‘، ’’بفرضِ محال‘‘اور ’’کاغذ کے تیشے‘‘ شامل ہیں۔

  • مولانا عامر عثمانی کا تذکرہ جن کی نظم سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہے

    مولانا عامر عثمانی کا تذکرہ جن کی نظم سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہے

    آج اردو کے معروف شاعر، مصنّف مولانا عامر عثمانی کی برسی ہے جن کی تخلیقات کا نمایاں پہلو ان کی طنز نگاری ہے۔ وہ ایک محقق بھی تھے جن کا قلم دینی تعلیمات کے فروغ اور سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لیے متحرک رہا۔ چند برسوں کے دوران مولانا عامر عثمانی کی ایک نظم سوشل میڈیا کے ذریعے ہر خاص و عام تک پہنچی ہے۔ یہ نظم انسانوں کی بے بسی، جبر اور ظلم کی منظر کشی کرتی ہے اور کسی بھی معاشرے میں‌ ناانصافی پر عوام کے جذبات کی عکاس ہے۔

    اس نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:

    آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
    میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
    آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
    میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
    جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں
    نشۂ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
    جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون
    ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
    تشنگی نفس کے جذبوں کی بجھانے کے لیے
    نوعِ انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
    ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے
    ان سے ہر سانس میں تحریکِ بغاوت ہے مجھے

    پاکستان میں ان دنوں‌ ایک طرف سیاسی افراتفری، انتشار بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب عوام مسائل اور مصائب کے بوجھ تلے دبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ظلم و ستم اور ناانصافی کے واقعات عام ہیں‌۔ لوگ لٹیروں کے نشانے پر ہیں۔ لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر جرائم پیشہ افراد کئی شہریوں کو ابدی نیند سلا چکے ہیں۔ ایسے ہی افسوس ناک واقعات کی فوٹیجز کے پسِ پردہ ایک گلوکار کی آواز میں‌ ہم یہ نظم سنتے ہیں جس کے اشعار ناانصافی اور لاقانونیت کا شکار ہونے والوں کی بے بسی اور کرب کو ظاہر کرتے ہیں۔ لوگوں میں‌ اپنی نقدی اور اسباب کے چھن جانے اور زندگی سے محروم ہوجانے کے خوف کو اجاگر کرتی یہ نظم بحیثیت شہری ان کے حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کا نوحہ بھی ہے۔ عامر عثمانی کی یہ نظم عوام کو بغاوت پر اکساتی ہے۔ شاعر نے اپنی اس نظم کو عنوان بھی بغاوت ہی دیا ہے۔

    مولانا عامر عثمانی دیو بند کے فیض یافتہ تھے۔ دیوبند کے کتب خانے سے انہوں نے بہت استفادہ کیا۔ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میں‌ اپنے کمالِ فن کا اظہار کیا اور طنز نگار کی حیثیت سے مخصوص شناخت بنائی۔ مولانا عامر عثمانی کا سنہ پیدائش 1920ء اور ان کا آبائی علاقہ دیوبند ہے۔ ان کے والد کا نام مطلوبُ الرّحمٰن تھا جو انجنیئر تھے۔ عامر عثمانی نے معاش کے لیے کئی راستے اختیار کیے جن میں‌ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بنا کر بیچنا بھی شامل ہے۔ اس سے ضروریات پوری نہ ہوئیں تو شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس فن میں طاق ہوئے۔ تجلی وہ رسالہ تھا جس کے کئی سرورق مولانا عامر عثمانی نے بنائے۔ پھر کسی نے ان کو بمبئی کی فلم نگری کی طرف دھکیل دیا، مگر ان کی روح اس دنیا سے بیزار ہی رہی اور عامر عثمانی جلد ہی دیوبند لوٹ گئے۔ یہیں‌ انہوں نے ذریعۂ معاش کے طور پر 1949 میں تجلّی جیسے رسالے کا اجراء کیا۔ اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں بہت کم عرصہ میں مقبولیت حاصل کی۔ یہ رسالہ مولانا عامر عثمانی کی وفات تک 25 سال مسلسل شائع ہوتا رہا۔

    عامر عثمانی نے جہاں‌ شاعری کے ذریعے علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ اپنا تعارف کروایا، وہیں اپنے کالموں‌ کی بدولت اسلامیانِ ہند کو اپنی جانب متوجہ کیا اور مقبول ہوئے۔ ان کے کالم ’’مسجد سے مے خانے تک‘‘ کے عنوان سے تجلّی میں شائع ہوئے جن میں‌ مولانا کا بامقصد انداز اور طرزِ تحریر طنزیہ واضح ہوتا تھا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو مغرب کی نقالی، بدعات و خرافات کے ساتھ علمائے وقت کو ان کے غلط فیصلوں پر گرفت کرنے سے بھی نہ رکے اور دینی اور سماجی اصلاح کا کام انجام دیا۔

    مولانا عامر عثمانی جماعتِ اسلامی (ہند) کے بڑے حامی تھے۔ انہوں‌ نے خلافت و ملوکیت نمبر نکالا اور مولانا مودودی کے خلاف کی جانے والی باتوں‌ کا جواب دیا اور جماعت اسلامی کے مخالفین کو دلائل سے رام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا انداز جارحانہ ہی رہا۔

    بھارت میں‌ علم و ادب کی دنیا میں مولانا عامر عثمانی کی شہرت کے بعد وہ وقت بھی آیا جب بیماری کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کو چلنے پھرنے سے منع کر دیا تھا اور ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ ازحد محدود ہوچکا تھا۔ مگر ایک موقع پر وہ سفر کر کے پونے (بھارت) میں منعقدہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔ یہ طویل سفر تھا اور وہاں‌ عامر عثمانی نے اپنی مشہور نظم ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ سنائی۔ اس نظم کو سنانے کے فقط دس منٹ بعد ہی مولانا عامر عثمانی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ 12 اپریل 1975ء کی بات ہے۔

    یوں داغِ‌ مفارقت دے جانے والے عامر عثمانی پر اخبارات اور رسائل میں تعزیتی مضامین کا انبار لگ گیا۔ ماہر القادری جیسے بلند مرتبہ شاعر اور نثار نے لکھا:

    ’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ بحرِ اوقیانوس کی طرح عریض و طویل اور عمیق تھا۔ وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالوں اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے۔ پھر سونے پر سہاگہ زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی۔ تفسیر، حدیث، فقہ و تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی۔ جس مسئلے پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کر دیتے۔ ایک ایک جزو کی تردید یا تائید میں امہاتُ الکتب کے حوالے پیش کرتے۔ علمی و دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے چغادری اور اہلِ قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔‘‘

    مولانا عامر عثمانی کا شعری مجموعہ یہ قدم قدم بلائیں، حفیظ جالندھری کے شاہ نامۂ اسلام کے طرز پر شاہ نامۂ اسلام (جدید) اور کالموں پر مشتمل کتاب شایع ہوچکی ہے۔