Tag: اردو شاعری

  • اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    شعرائے متقدمین اور نثر نگاروں کے درمیان ادبی معرکہ آرائی، معاصرانہ چشمک کے علاوہ بعض ایسے تنازع بھی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں‌ جن میں اپنے عہد کی نام ور شخصیات اور مشاہیر کا نام سامنے آتا ہے۔ یہ جھگڑے کہیں خالص ادبی نوعیت کے تھے تو کبھی ان کی وجہ محض عداوت اور حسد رہا۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کو بھی اپنی مثنوی میں قدیم صوفی شعرا پر تنقید کے بعد اپنی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    ادبی تحریریں‌ اور علمی و تحقیقی مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فارسی کی مثنوی اسرارِ خودی کی اشاعت 1915ء میں ہوئی جو اقبال کے فلسفیانہ خیالات پر مبنی تھی۔ اسرارِ خودی کو چند سطروں میں سمیٹا جائے تو یہ ایسی مثنوی تھی جس میں اقبال نے اس دنیا کا تصور پیش کیا ہے جس میں مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنیاد پر متحد ہوں۔ اقبال کی فکر کہتی ہے کہ اس کی تکمیل کے لیے ‘خودی’ پر انحصار کرنا ہوگا اور عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن صوفی شاعروں کے ترکِ دنیا کا فلسفہ بے عملی کی ترغیب دیتا ہے جو مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ اقبال نے صوفیا پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا کہ مسلمانوں کو گوشہ نشینی کی نہیں عملی میدان میں‌ اترنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اقبال نے فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی اور ساتھ ہی فلسفۂ وحدت الوجود پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بعض ایرانی شعرا نے وحدت الوجود سے متعلق جو نکتہ طرازیاں کی ہیں، وہ صرف پُرکشش ہیں، مگر اس شاعری نے تقریباً تمام اسلامی دنیا کو ذوقِ عمل سے محروم کردیا ہے جسے خودی کا فلسفہ بیدار کرسکتا ہے۔

    ادبی تذکروں میں یہ تفصیل کچھ اس طرح پڑھنے کو ملتی ہے:

    علّامہ اقبال کی فارسی مثنوی 1915ء میں شائع ہوئی۔ اس میں افلاطونؔ اور حافظ شیرازیؔ پر علّامہ نے تنقید کی تھی۔ انہوں نے حافظؔ پر 35 اشعار میں تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کو حافظ کے کلام سے دور رہنے کی تلقین کی تھی جس پر ادبی حلقوں میں بحث چھڑ گئی۔ اخباروں میں ان کے خلاف مضامین لکھے گئے۔ اہلِ تصوف علاّمہ سے بدظن ہوگئے۔ بعض حضرات نے ان کی مثنوی کا منظوم جواب دیا۔ جہلم کے میاں ملک محمد قادری نے اپنے منظوم جواب میں حافظ شیرازی کا دفاع کیا، اسی طرح پیر زادہ مظفر احمد فضلی نے ’اسرارِ خودی‘ کے جواب میں ’’رازِ بے خودی‘‘ کے عنوان سے مثنوی لکھی جس میں علاّمہ اقبال پر تنقید اور حافظ کا دفاع کیا گیا تھا۔

    فارسی کے عظیم شاعر حافظ پر تنقید سے حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی بھی ناراض ہوئے۔ مؤخرالذّکر نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام اپنے خطوط میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’اسرار خودی‘ کے شائع ہونے کے دو سال بعد انہوں نے مولانا دریا بادی کو ایک خط تحریر کیا:’’اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے۔ کہتے ہیں عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے، خلافِ اسلام ہے۔‘‘

    جب ’رموز بے خودی‘ شائع ہوئی تو اقبالؔ نے اس کا نسخہ اکبر الہ آبادیؔ کو بھی روانہ کیا جنھوں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے مولانا دریا بادی کو لکھا: ’اقبال نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ بُرا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ ان کی مثنوی اسرارِ خودی آپ نے دیکھی ہوگی۔ اب رموزِ بے خودی شائع ہوئی ہے۔ میں نے نہیں دیکھی۔ دل نہیں چاہا۔‘ تاہم بعد میں اکبر الہ آبادی ہی نے علامہ اقبال اور حسن نظامی میں صلح کروا دی۔

    حافظ پر تنقید سے اہلِ تصوف بھی علّامہ سے ناراض ہوئے۔ انہوں نے اس تنقید کو تصوّف دشمنی پر محمول کیا۔ چنانچہ 15 جنوری 1916ء کو علامہ اقبال نے ’’وکیل‘‘ میں ’اسرارِ خودی اور تصوّف‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس سے یہ سطور ملاحظہ ہوں:

    ’’شاعرانہ اعتبار سے میں حافظؔ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں لیکن ملّی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراضِ زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے۔ اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو پست یا کمزور کرنے کا میلان رکھتے ہوں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔ جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ حالت افرادِ قوم کے لیے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطر ناک ہے۔‘‘

    انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو بھی اس کے دو ماہ بعد ایک خط میں یہی بات دہرائی اور فن کے متعلق اپنا نظریہ واضح کیا۔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہ ہوا اور غالباً پیدا بھی نہ ہوگا لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور اور ناتواں کرنے والی ہے۔‘‘

    ادھر علاّمہ اقبال کی حمایت میں مولانا اسلم جیراجپوری نے بھی ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ خواجہ حافظ ؔ کے بارے میں اس طرح کی آرا پہلے بھی ظاہر کی جاچکی ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے منادی کرا دی تھی کہ دیوانِ حافظ کوئی نہ پڑھے کیوں کہ لوگ اس کے ظاہری معنیٰ سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔

  • میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ کا وہ درد انگیز شعر جو کسی زبان میں مشکل ہی سے ملے

    میر تقی میرؔ سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہو گا۔

    یہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جنھوں نے موزونی طبع کی وجہ سے یا اپنا دل بہلانے کی خاطر یا دوسروں سے تحسین سننے کے لیے شعر کہے ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمہ تن شعر میں ڈوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے اپنے کلام سے اردو کی فصاحت کو چمکایا اور زبان کو زندہ رکھا۔

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    یہ شعر کس قدر سادہ ہے، اس سے زیادہ آسان، عام اور معمولی الفاظ اور کیا ہوں گے لیکن اندازِ بیان درد سے لبریز ہے اور لفظ لفظ سے حسرت و یاس ٹپکتی ہے۔ اردو کیا مشکل سے کسی زبان میں اس پائے کا اور ایسا درد انگیز شعر ملے گا۔ ایک دوسری بات اس شعر میں قابلِ غور یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو غل نہ کرنے اور آہستہ بولنے کی ہدایت کر رہا ہے، وہ بھی بیمار کے پاس بیٹھا ہے، اور اس پر لازم ہے کہ یہ بات آہستہ سے کہے۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ لفظ ایسے چھوٹے، دھیمے اور سلیس ہوں کہ دھیمی آواز میں ادا ہو سکیں۔ اب اس شعر کو دیکھیے کہ لفظ تو کیا ایک حرف بھی ایسا نہیں جو کرخت ہو یا ہونٹوں کے ذرا سے اشارے سے بھی ادا نہ ہو سکتا ہو۔

    جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
    تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہے گا

    اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں، مگر شعر کس قدر پُر درد ہے، دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیز بنا دیا ہے۔ یہ سلاست اور یہ اندازِ بیان اور اس میں یہ درد میرؔ صاحب کا حصہ ہے، ان اشعار کے سامنے صنائع و بدائع، تکلف و مضمون آفرینی، فارسی، عربی ترکیبیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔

    (مقدمۂ انتخابِ میر از مولوی عبدالحق سے اقتباس)

  • "میں کیوں لکھتا ہوں…”

    "میں کیوں لکھتا ہوں…”

    شاعر ہو یا ادیب، وہ کسی فکر اور نظریے کا حامل ہو اور کسی خاص سماجی، سیاسی تحریک یا افتادِ طبع اور داخلی جذبات و احساسات کے زیرِ اثر قلم و قرطاس سے ناتا جوڑتا ہے۔

    رؤف خلش حیدرآباد دکن کے جدید شعراء میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامے، بدلتے اسلوب کو ایک نیا پن دیا۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ وہ کیوں لکھتے رہے اور اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے۔ ان کا یہ جواب ادب کے قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔ رؤف خلش رقم طراز ہیں:

    "میں کیوں لکھتا ہوں” اس کے تین جواب ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ میں صرف اپنے لیے لکھتا ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اوروں کے لیے لکھتا ہوں۔ تیسرے یہ کہ میرے اندر کی تحریک مجھ سے لکھواتی ہے، جسے اندرونی احساس” یا Inner feeling کانام دیا جاسکتا ہے۔

    اگر میں اپنا تخلیقی تجربہ بیان کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین چیزیں میرے تخلیقی عمل کا حصہ بنی ہیں۔ وہ ہیں مشاہدہ تجربہ اور احساس۔ دراصل تخلیقی عمل ایک شعور و لا شعور کے جھٹ پٹے کا عمل ہے۔ کم از کم میرے تجربے کے مطابق ایک قوت کار فرما رہتی ہے جسے حالی کی زبان میں "قوت متخیلہ ” کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں اس عنوان کے تحت آتی ہیں کہ میں کیوں کر لکھتا ہوں یا کیسے لکھتا ہوں۔ تخلیقی سطح پر میرا دائرہ شعر گوئی پر محیط ہے جس کی دو شاخیں ہیں۔ ایک فرمائشی دوسری تخلیقی۔ فرمائشی سے مراد وہ شاعری ہے جو کسی دیے گئے موضوع، عنوان یا کسی طرحی مصرع پر کی جائے۔ اسے پیداوار یا Productive کہا جاسکتا ہے۔ اگر میں اسے اپنے مزاج یا افتادِ طبع کا حصّہ نہ بناؤں تو یہ خدشہ رہتا ہے کہ شاعری کہیں قافیہ پیمائی یا تک بندی بن کر نہ رہ جائے۔ البتہ اپنے مزاج، اسلوب یا تحریک پر آزادنہ شعر کہا جائے تو اسے تخلیق یا Creative کہیں گے۔ ہر دو کے لیے یہ "جذبۂ تحریک ” یا Motivation کا ہونا بہت ضروری ہے۔

    میری ترجیحات ہمیشہ فرمائشی کے بجائے تخلیقی کی طرف زیادہ رہی ہیں۔ اس کی وجہ میرا "شعری مزاج” ہے۔ سوال یہ ہے کہ میرا شعری مزاج کیا ہے؟ اگر میں اسے ایک جملے میں بیان کروں تو کہوں گا کہ میرا شعری مزاج تفصیل کے مقابل جامعیت، بیانیہ کے مقابل ایمائیت اور روایت کے مقابل جدیدیت کا حامل ہے۔ اور میرا یہ شعری مزاج بہت کچھ اپنے انفرادی ذوق یا پسند نا پسند کی بناء پر رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ میرا شعری رویہ ایک طرح سے "خود احتسابی” کا رویہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نظرِ ثانی کو بہت اہم مانتا ہوں۔ موزوں طبع ہونے کے باوجود جب تک میری طبیعت شعر کہنے کی طرف خود بخود مائل نہیں ہوتی میں شعر موزوں نہیں کرتا۔ شعر گوئی میرے لیے ایک انبساط یا کیف و سرور کا عمل ہے۔ "کاتا اور لے دوڑی” کا میں بالکل قائل نہیں۔

    میں کرتا یہ ہوں کہ پہلے استعارہ: بصری لمسی یا سماعی پیکر میں ڈھلتا جائے بعد میں قرطاس و قلم کی مدد سے شعر بنے۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ کسی بھی نظریۂ حیات کو ادب میں ڈھالتے ہوئے شاعر کو dogmatic یا ادعا پسند نہیں ہونا چاہیے۔ 60ء کی دہائی میں "وابستگی ” یا "ناوابستگی ” کی اسی بحث نے اختلافات کی خلیج پیدا کر دی۔ غالباً ترقی پسند ادب کی سیاسی نظریے سے وابستگی نے یہ جنجال کھڑا کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بیشتر شاعری نعرہ بازی یا پروپگنڈا بن کر رہ گئی۔ یہ قول بڑی حد تک درست ہے کہ ادب بہترین پروپگنڈا ہے لیکن بہترین پروپگنڈا ادب نہیں ہوتا۔

  • دسمبر آج ملنے جا رہا ہے جنوری سے (منتخب اشعار)

    دسمبر آج ملنے جا رہا ہے جنوری سے (منتخب اشعار)

    اک اجنبی کے ہاتھ میں دے کر ہمارا ہاتھ
    لو ساتھ چھوڑنے لگا آخر یہ سال بھی

    حفیظ میرٹھی نے اپنے اس شعر میں نئے سال کو ‘اجنبی’ کہا ہے۔ واقعی، سال 2025ء ابھی ہمارے لیے ایک اجنبی کی طرح ہے، لیکن آج کی شب یہ ہم سے اپنا تعارف کروائے گا اور کل طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی ہمارا آشنا بن جائے گا۔

    دنیا نئے سال کو خوش آمدید کہنے جارہی ہے اور شاید آپ اس موقع پر اپنے احساسات اور کیفیات کا اظہار کرنے کے لیے اشعار کا سہارا لینا چاہتے ہیں۔ اردو زبان کے ہر بڑے شاعر نے جہاں دسمبر کو ہجر اور اداسی کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے وہیں‌ نئے سال سے متعلق اردو شاعری بھی ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں ہم آپ کے لیے وہ اشعار نقل کررہے ہیں جو نئے سال کی آمد پر خوشی اور مسرت کے اظہار کے ساتھ گزرتے ہوئے اس برس کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔ اشعار پیشِ‌ خدمت ہیں۔

    یہ کس نے فون پہ دی سالِ نو کی تہنیت مجھ کو
    تمنا رقص کرتی ہے، تخیل گنگناتا ہے
    علی سردار جعفری

    ایک پتا شجرِ عمر سے لو اور گرا
    لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں

    چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں
    دیوار سے پرانا کلینڈر اتار دے
    ظفر اقبال

    گزشتہ سال کوئی مصلحت رہی ہوگی
    گزشتہ سال کے سکھ اب کے سال دے مولا
    لیاقت علی عاصم

    اک پل کا قرب ایک برس کا پھر انتظار
    آئی ہے جنوری تو دسمبر چلا گیا
    رخسار ناظم آبادی

    ستاروں آسماں کو جگمگا دو روشنی سے
    دسمبر آج ملنے جا رہا ہے جنوری سے
    بھاسکر شکلا

    کسی کو سالِ نو کی کیا مبارک باد دی جائے
    کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے
    اعتبار ساجد

    نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
    خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے
    فریاد آزر

  • پروین شاکر: مقبول شاعرہ جو تلخیِ حیات سے “خود کلامی” کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی!

    پروین شاکر: مقبول شاعرہ جو تلخیِ حیات سے “خود کلامی” کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی!

    عورت ذات کی زندگی کے المیوں، دکھوں اور کرب کو بیان کرنے اور رومانوی شاعری سے ملک گیر مقبولیت حاصل کرنے والی پروین شاکر کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ایسی شاعرہ تھیں جن کی ذاتی زندگی بھی تلخیوں اور رنجشوں کے سبب بے رنگ اور یاسیت کا شکار رہی۔

    شوہر سے علیحدگی کے بعد ان کی کل کائنات اکلوتا بیٹا مراد تھا۔ نوجوانی میں پروین شاکر نے طلاق کے بعد اپنی زندگی کا مشکل وقت دیکھا، لیکن بیٹے دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کے ساتھ شعر و شاعری اور ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئیں اور زندگی کا سفر جاری رکھا۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ زیادہ عرصہ اپنے بیٹے کے ساتھ نہ رہ سکیں اور عین جوانی میں ٹریفک حادثہ میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ یہاں ہم پروین شاکر کے مشہور اشعار اور ان کی زندگی کے حالات مختصراً پیش کررہے ہیں۔

    حادثہ اور ماہِ تمام

    26 دسمبر 1994ء کو پروین شاکر اسلام آباد میں صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جانے کے لیے روانہ ہوئی تھیں کہ ایک ٹریفک سگنل پر ان کی کار موڑ کاٹتے ہوئے کسی تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ شدید زخمی پروین شاکر کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ انھیں اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ پروین شاکر کی ناگہانی موت پر شعرو ادب کی دنیا سوگوار ہوگئی اور ان کے مداح اشک بار نظر آئے۔

    یہ بھی پڑھیے: پہلے مقبول ترین شعری مجموعے میں شامل وہ غزل جو پروین شاکر کی پہچان بنی

    ابتدائی حالاتِ زندگی

    اردو زبان کی اس مقبول شاعرہ نے 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد سید ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کر تے تھے۔ اسی نام کو پروین نے اپنایا اور پروین شاکر مشہور ہوئیں۔ وہ ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ زمانہ طالبعلمی میں مباحث میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ کم عمر تھیں جب شعر گوئی کا آغاز کیا اور جلد ہی ملک بھر میں‌پہچانی جانے لگیں۔

    تعلیم

    پروین شاکر نے انگریزی ادب اور لسانیات میں گریجویشن کے بعد انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ وہ نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور پھر 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طورپر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں انھوں نے ٹرینٹی کالج سے مزید تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔

    شادی اور علیحدگی

    1976ء میں پروین شاکر کی شادی ان کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ پروین شاکر ایک بیٹے کی ماں بنیں۔ لیکن ازدواجی زندگی تلخیوں‌ کا شکار رہی اور 1987ء میں ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔

    خاندانی حالات

    پروین شاکر کی والدہ کا نام افضل النساء تھا ۔ان کے والد ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے.پروین شاکر کاخاندان ہندوستان کے صوبہ بہار کے ایک گاؤں چندی پٹی سے تعلق رکھتا تھا ۔ پروین شاکر اور ان کی بڑی بہن نسرین بانو نے بچپن ایک ساتھ گزارا۔ پروین شاکر ایک ذہین اور خوبصورت خاتون تھیں جنھیں معاشرے کے رویے اور گھٹن کا شکار ہونے کے بعد شادی ختم ہونے سے بھی شدید رنج ہوا۔ ایک حساس طبع اور شاعرہ نے خود کو سمیٹنے کی کوشش کے ساتھ خود کو منوانے کے لیے بہت جد و جہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں عورتوں کے جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔

    شاعری اور ادبی سفر

    پروین شاکر کا پہلا مجموعہ خوشبو شائع ہوا تو اس وقت شاعرہ کی عمر صرف 24 برس تھی۔ اس مجموعہ کو ملک گیر پذیرائی ملی اور پروین شاکر کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ پروین شاکر کی شاعری کی تعریف اس دور کے مشہور شعراء نے کی اور انھیں بہت سراہا۔ پروین شاکر کو پانچ بڑے ادبی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ان کے شعری مجموعے 1980ء میں صد برگ، 1990ء میں خود کلامی، 1990ء میں ہی انکار اور 1994ء میں ماہ تمام( کلیات) کے عنوان سے شائع ہوئے۔

    نمونۂ کلام

    نظم: ضد
    میں کیوں اس کو فون کروں!
    اس کے بھی تو علم میں ہوگا
    کل شب
    موسم کی پہلی بارش تھی!

    چند مشہور اشعار
    حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
    دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

    کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
    دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

    وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
    برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

  • جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    جلالؔ کا شعر اور مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کے آنسو

    ضامن علی نام، جلالؔ تخلص۔ والد کا نام حکیم اصغر علی، خاندانی پیشہ طبابت۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں۔ مزاج میں نزاکت کے ساتھ کچھ چڑچڑا پن۔ پستہ قد، سانولا رنگ، گٹھا ہوا بدن، آواز بلند، پڑھنا بہت بانکا تھا۔ پڑھنے میں کبھی کبھی ہاتھ ہلاتے تھے، اپنا آبائی پیشہ یعنی طبابت بھی نظر انداز نہیں کیا۔

    ایک مرتبہ رام پور کے مشاعرہ میں حضرتِ داغؔ دہلوی نے مندرجۂ ذیل مطلع پڑھا:

    یہ تری چشمِ فسوں گر میں کمال اچھا ہے
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    مشاعرہ میں بہت داد دی گئی، مگر جلالؔ مرحوم نے تعریف کرنے میں کمی کی اور جب ان کی باری آئی، ذیل کا شعر پڑھا جس کی بے حد تعریف ہوئی:

    دل مرا آنکھ تری دونوں ہیں بیمار مگر
    ایک کا حال برا ایک کا حال اچھا ہے

    ایک اور مشاعرہ میں جلالؔ نے ایک شعر پڑھا، مولانا عبد الحق مرحوم منطقی خیر آبادی کو وجد آگیا۔ جھوم اٹھے اور بے اختیار آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے:

    حشر میں چھپ نہ سکا حسرتِ دیدار کا راز
    آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو

    مولانا مرحوم روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ کیا با اثر شعر ہے، کس مزے کی بلاغت ہے، رازِ حسرتِ دیدار چھپانے کی انتہائی حد دکھائی ہے، عمر بھر حسرت چھپائی، وقت مرگ بھی افشائے راز نہ ہونے دیا لیکن مقام حشر جو آخری دیدار کی جگہ ہے وہاں حسرتِ دیدار کا راز کسی طرح چھپائے نہ چھپ سکا۔ آنکھ کم بخت سے پہچان گئے تم مجکو۔

    (کتاب لکھنؤ کی آخری شمع سے انتخاب)

  • الفاظ اور شاعر

    الفاظ اور شاعر

    صرف ادبیوں اور شاعروں کے یہ دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم و راہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کُھل کھیلنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی الٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔

    البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں اُن کے لباس تبدیل کر دیں۔ اُن کی لَے اور رنگ بدل دیں، اُن کا رخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرما دیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں ادنیٰ و اعلیٰ ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔

    ؎ ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
    ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
    مومن خاں مومنؔ

    لفظ ” بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔

    ؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سَر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔

    (از قلم: جوشؔ ملیح آبادی)

  • گلزار دہلوی:‌ اردو زبان کے شیدائی اور دہلوی تہذیب کے شاعر کا تذکرہ

    گلزار دہلوی:‌ اردو زبان کے شیدائی اور دہلوی تہذیب کے شاعر کا تذکرہ

    گلزار دہلوی ہندوستان میں اردو زبان و تہذیب کے نمائندہ شاعر اور ان کی شخصیت دہلوی تہذیب کا بے مثال نمونہ تھی۔ گلزار دہلوی ہر مکتبِ‌ فکر اور طبقہ ہائے عوام میں اپنی فراخ دلی اور بے مثال رواداری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ان کا نام بھی گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی کرتا ہے کہ خود کو ڈاکٹر پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نظامی لکھا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں ہندوستان میں مجاہدِ اردو، شاعرِ قوم، اور بلبلِ دلّی کے خطاب و القاب دیے گئے۔

    اس ہمہ صفت اور باکمال شاعر نے ہندوستان میں اردو کے سچّے عاشق اور اس زبان کے زبردست حامی کے طور پر اردو کا مقدمہ لڑتے ہوئے عمر گزار دی۔ گلزار دہلوی نے بھارت میں اردو کو اس کا مقام اور جائز حق دلانے کے لیے پُرخلوص کوششیں کیں۔

    پنڈت آنند موہن زتشی کا قلمی نام گلزار دہلوی تھا۔ وہ نسلاً کشمیری تھے۔ وہ 7 جولائی سنہ 1926ء کو پیدا ہوئے اور 1942ء میں ان کے شعر و سخن کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ تا دم مرگ جاری رہا۔ گلزار دہلوی کو دنیا بھر میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی ادبی حلقوں میں مشہور تھے۔ گلزار دہلوی کو متعدد جامعات نے تمغہ جات اور ادبی اعزازات سے نوازا اور ان میں پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز بھی شامل ہے۔ جب کہ غالب ایوارڈ، اندرا گاندھی میموریل قومی ایوارڈ کے علاوہ بھارت میں گلزار دہلوی کو اردو زبان و ادب کی خدمت اور ثقافت کے فروغ کے لیے کوششوں پر مختلف تنظیموں کی جانب سے اعزازات دیے گئے۔

    گلزار دہلوی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ نوعمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے اور اپنا کلام اپنے والد حضرت زار دہلوی کو دکھایا کرتے تھے جو دہلی کے ایک کالج میں برس ہا برس تک اردو اور فارسی کے استاد رہے تھے۔

    مشہور ہے کہ 1936ء میں جب انجمن ترقیٔ اردو ہند کے لیے کل ہند کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی تو اس کا افتتاح گلزار دہلوی کی نظم سے ہوا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی گلزار دہلوی کی شاعری کے معترف تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گلزار دہلوی ایک شاعر اور ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود سائنس سے بھی شغف رکھتے تھے۔ اور یہ امر اکثر قارئین کے لیے تعجب خیز ہو کہ وہ ایک سائنسی رسالے کے مدیر بھی رہے۔ انھیں "کونسل آف سائنٹفک انڈسٹریل ریسرچ سنٹر” کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا۔ اسی ادارے کے تحت گلزار دہلوی نے "سائنس کی دنیا” نامی اردو رسالہ جاری کیا۔

    اردو کے قادرالکلام شاعر جوش ملیح آبادی نے گلزار دہلوی کے متعلق کہا تھا:
    میاں گلزار میرے محترم بزرگ حضرت زار دہلوی کے قابلِ ناز فرزند اور نہایت ہونہار شاعر ہیں۔ ان کی جو روش سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے وہ ان کی اردو سے والہانہ شگفتگی اور مردانہ وار تبلیغ ہے۔ اسی طرح جگر مرادآبادی نے گلزار دہلوی کے بارے میں لکھا تھا: پنڈت آنند موہن زتشی گلزار ایک خاندانی و موروثی شاعر ہیں، اہلِ زبان ہیں، دلّی کی ٹکسالی زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہر صنفِ سخن پر قدرت حاصل ہے۔ غزل، نظم، رباعی، قطعہ، نعت و منقبت ہر میدان میں انہوں نے دادِ سخن سمیٹی ہے۔ وہ اردو کے مجاہد ہیں، برصغیر ہند و پاک میں ہر جگہ مقبول ہیں۔ اللہ نے انہیں ایک درد مند اور انصاف پسند دل بھی عطا کیا ہے۔ میں نے انہیں ہر صحبت میں مہذب، نیک انسان، روادار اور عاشقِ رسول پایا ہے۔ اردو پر تو ان کی رباعیاں بے مثال ہیں۔ گلزار صاحب نہ صرف ایک کام یاب اور مقبول غزل گو شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ انسانی قدروں اور اردو کی ہچکولے کھاتی نیا کے محافظ بھی ہیں۔

    گلزار صاحب کے پاکستان کے دورے کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کہا تھا: گلزار صاحب کراچی کیا آئے گویا بہار آ گئی کہ دلّی کی اردو سراپا ہو کر ان کی صورت میں کراچی کی ادبی محفلوں میں چھا گئی۔ کراچی والے ان کی زبان دانی اور قدرتِ بیان پر حیران بھی تھے اور داد و تحسین بھی کر رہے تھے۔

    گلزار دہلوی کا ایک مشہور قطعہ ہے:
    دونوں کی رگ و پے میں خون اپنا ہی جاری ہے
    اردو بھی ہماری ہے، ہندی بھی ہماری ہے
    اردو سے مگر غفلت کس واسطے ہے ہمدم
    تہذیب کی ضامن یہ خسرو کی دلاری ہے

    گلزار دہلوی کے پورے وجود سے پرانی دلّی کی تہذیب مترشح ہوتی تھی۔ رہن سہن، وضع قطع اور بولی سب کچھ ’بزبانِ دلّی‘ تھا۔ ان کے آبا و اجداد میں سنسکرت، عربی، فارسی اور انگریزی کے معلّم اور مصنّف بھی گزرے تھے۔ ددھیال و ننھیال دونوں طرف شعرا ادبا تھے۔ ماموں پنڈت گردھاری لعل کول صاحب دیوان شاعر تھے۔ والد پنڈت تربھون ناتھ زتشی المتخلّص بہ زار دہلوی، داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ والدہ کو بھی شاعری سے شغف تھا۔ بھائی بھی شاعر تھے۔ گویا اطراف و جوانب میں سخن ور ہی سخن ور تھے۔ گلزار دہلوی نے مختلف رنگ و آہنگ کے شعرا سے اکتسابِ ہنر کر کے اپنے فن کو رنگا رنگ کیا۔ گلستاں، بوستاں، انوار سہیلی، اخلاق محسنی جیسی اہم اساسی کتابیں انھیں والدہ نے پڑھائی تھیں۔ پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی سے زبان و بیان کے رموز و نکات اور انقلابی و قومی نظمیں لکھنا سیکھا۔ نواب سراج الدین احمد خاں سائل سے اسلامی تصوف اور دینیات کی آگہی کے ساتھ ساتھ دلّی کے شعری تہذیب و تمدّن کا انجذاب کیا اور پھر ہر صنف میں‌ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔

    گلزار صاحب 12 جون 2020ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ بھارتی حکومت نے انھیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

  • ”واہ واہ نظامی صاحب! کیا اچھا شعر کہا ہے!“

    ”واہ واہ نظامی صاحب! کیا اچھا شعر کہا ہے!“

    کراچی میں ان دنوں مشاعروں کا موسم ہے۔ کبھی کبھار اس کا کوئی جھونکا پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی پہنچ جاتا ہے۔ لیکن جو بہار کراچی میں آئی ہوئی ہے اُس کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ یہاں مشاعروں کا موسم اپنے جوبن پر ہے۔

    9 اپریل سے مشاعروں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے تو اہلِ کراچی گویا رَت جگوں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ مشاعروں کی ان محفلوں میں سب سے خوبصورت رنگ بھارت سے آئے ہوئے شعراء بلکہ شاعرات کا مرہونِ منت ہے۔ ان کی شاعری سے قطع نظر، ان کا ترنّم لوگوں کا دل موہ لیتا ہے۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ اپنے ترنّم کے بل پر ہی مشاعرے لوٹ لیتی ہیں۔

    بھارت میں چوں کہ مشاعرے تواتر سے ہوتے ہیں لہٰذا وہاں کے شاعر بھی سامعین کو ساری ساری رات بٹھائے رکھنے بلکہ ”رجھانے“ کا فن جانتے ہیں۔ ایسے اکثر شعراء تو”مشاعرہ باز شاعر“ کا خطاب بھی حاصل کرچکے ہیں۔ ادھر چند برسوں سے ان کے مقابلے پر کچھ شاعرات بھی میدان میں اتری ہیں۔ اگرچہ بیشتر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ”پلے بیک شاعر“ کوئی اور ہیں اور یہ محض اپنے پُرسوز اور دلکش ترنّم کی وجہ سے داد پاتی ہیں گویا:

    میں کلام ہوں کسی اور کا مجھے سناتا (بلکہ گاتا) کوئی اور ہے

    ہمارا خیال ہے کہ یہ افواہ اُن کے حاسدوں نے اڑائی ہے کیوں کہ ان شاعرات کا کلام سن کر بالکل یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے کسی اور سے لکھوایا ہوگا۔ بھلا کوئی بھی مستند شاعر ایسا ناپختہ کلام کس طرح لکھ سکتا ہے؟ وہ لاکھ چھپائے اس کا اپنا رنگ کہیں نہ کہیں ظاہر ہو کر چغلی کھا ہی جاتا ہے۔

    اس بات پر ہمیں اپنے زمانۂ طالبِ علمی کا ایک مشاعرہ یاد آگیا۔ اس زمانے میں تمام تعلیمی اداروں میں ہفتۂ طلبا بڑے زور شور سے منایا جاتا تھا اور مشاعرے اس کا ایک لازمی جزو ہوا کرتے تھے۔ سو ہمارے کالج میں بھی اسی سلسلے میں ایک طرحی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرہ ختم ہوا تو منصفین سر جوڑ کر نتائج مرتّب کرنے لگے۔ وقت گزارنے کے لیے سامعین میں سے کچھ طالبات کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دی گئی تو ایک ایسی طالبہ کا نام بھی پکارا گیا جن کا تعلق دوسرے کالج سے تھا اور جو فن ِتقریر میں شہرت رکھتی تھیں مگر حال ہی میں شاعری بھی شروع کر دی تھی۔ اکثر لوگوں کو ان کے پلے بیک شاعر کا نام معلوم تھا مگر لحاظ میں کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ اُس روز مقررۂ مذکورہ سے بھول یہ ہوئی یا شاید ان کے پلے بیک شاعر سے کہ انہیں طرحی غزل کہہ کے دے دی۔ انہوں نے غزل سنانی شروع کی تو سامعین طالبات یہ سوچ کر حیران رہ گئیں کہ اتنے مختصر نوٹس پر کوئی بھی شاعرہ طرحی غزل کس طرح کہہ سکتی ہے؟ مقررۂ موصوفہ تیسرے شعر پر پہنچیں تو خیال و شعر کی پختگی دیکھ کر مجھ سے صبر نہ ہوا اور میں نے بے ساختہ داد دی۔ ”واہ واہ نظامی صاحب! کیا اچھا شعر کہا ہے۔“

    اتفاق کی بات ہے کہ اس غزل کے خالق اور موصوفہ کے پلے بیک شاعر جناب امداد نظامی اس وقت منصف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ میری داد پر انہوں نے گھوم کر خشمگیں نظروں سے مجھے دیکھا مگر لوگوں کے قہقہے زیادہ زور دار تھے۔ چائے کی میز پر نظامی صاحب میرے پاس آئے اور گوشمالی کرتے ہوئے بولے،”تم بہت شریر ہوگئی ہو۔ میرا نام لینے کی کیا ضرورت تھی؟“

    ”اتنا اچھا شعر تھا، کیا کرتی داد دیے بغیر نہ رہ سکی اور چوں کہ مجھے پتا ہے کہ اسے غزلیں لکھ کر آپ ہی دیتے ہیں لہٰذا اصل شاعر کو داد دے دی تو کیا برا کیا؟“میں نے معصومیت سے جواب دیا۔

    خیر۔۔۔ یہ قصّہ تو برسبیلِ تذکرہ آگیا۔ بات ہو رہی تھی بھارتی شاعرات کے ترنّم اور ان کے پلے بیک شعراء کے بارے میں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ خواتین اشعار سنانے سے پہلے اپنے پلے بیک شاعر کا نام بتا دیا کریں تو کوئی ایسی بری بات بھی نہیں۔ آخر دوسرے پیشہ ور گلوکار بھی تو صرف اپنے ترنّم کے بَل پر نام کماتے ہیں بلکہ ان کی گائی ہوئی غزلیں تو انہی کے نام سے مشہور ہوتی ہیں اور شاعر بے چارے سَر پیٹتے رہ جاتے ہیں کہ آخر اناؤنسر، گلوکاروں کے نام کے ساتھ ان کے نام کیوں نہیں بتاتے؟ کئی شاعروں نے تو اس سلسلے میں مقدمے بھی لڑے مگر مقدمے جیتنے کے باوجود نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔

    (حمیرا اطہر کے فکاہیہ کالم مطبوعہ 1992ء ‘ترنم میرا باقی اُن کا’ سے اقتباس)

  • غلام محمد قاصرؔ: روایت کی سیج کو اپنے سلیقۂ سخن سے سجانے والا شاعر

    غلام محمد قاصرؔ: روایت کی سیج کو اپنے سلیقۂ سخن سے سجانے والا شاعر

    اردو شاعری میں‌ نازک خیالی اور لطیف جذبات کے اظہار نے غلام محمد قاصرؔ کو اس زبان کا معتبر اور مقبول شاعر بنایا۔ قاصرؔ نے 1999ء میں‌ آج ہی روز دنیا کو خیرباد کہا تھا۔ آج غلام محمد قاصرؔ کی برسی ہے۔

    یہاں ہم اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب غلام محمد قاصر سے متعلق ایک قصّہ نقل کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔ "ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک عظیم الشّان کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا جس میں اُس دور کے نامی گرامی شعرا ناصر کاظمی، منیر نیازی، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی اور محبوب خزاں وغیرہ شامل تھے۔ مشاعرے کے آغاز میں ایک نوجوان شاعر کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ ایک چوبیس پچیس سالہ دبلے پتلے اسکول ٹیچر نے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے کاغذ کو بڑی مشکل سے سنبھال کر ایسے لہجے میں غزل سنانا شروع کی جسے کسی طرح بھی ٹکسالی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ لیکن اشعار کی روانی، غزلیت کی فراوانی اور خیال کی کاٹ ایسی تھی کہ بڑے ناموں کی باری کے منتظر سامعین بھی نوٹس لینے پر مجبور ہو گئے۔

    جب نوجوان اس شعر پر آیا تو گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے شعرا یک لخت اٹھ بیٹھے اور انھوں نے تمام سامعین کی آواز میں آواز ملا کر وہ داد دی کہ پنڈال میں دھوم مچ گئی۔ شعر تھا

    تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
    ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

    لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے؟ اس سوال کا جواب غزل کے آخری شعر میں شاعر نے خود ہی دے دیا۔

    کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات
    یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

    احمد ندیم قاسمی قاصر کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’جب کوئی سچ مچ کا شاعر بات کہنے کا اپنا سلیقہ روایت میں شامل کرتا ہے تو پوری روایت جگمگا اٹھتی ہے۔‘‘

    غلام محمد قاصرؔ کا تعلق پاکستان کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے چند کلومیٹر دور بسائے گئے قصبے پہاڑ پور سے تھا۔ وہ 4 ستمبر 1941 میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ کوئی کالج قریب نہ تھا اور قاصر نے خود کو ماحول کے اس جبر کا شکار ہونے دیا۔ لیکن بطور پیشہ مدّرسی کو اپنایا تو راہیں کھل گئیں۔ اسی عرصہ میں‌ ایف اے کا امتحان دے کر بی اے کیا اور پھر اُردو میں ایم اے کرکے پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے دیا۔ انٹرویو میں کام یاب ہوئے اور لیکچرار ہوگئے۔ قاصر نے شاعر سعید احمد اختر کی بیٹی سے شادی کی اور اس جوڑے کو خدا نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ قاصر نے پشاور میں‌ وفات پائی۔

    قاصر اپنے وقت کے مقبول اور خوش گو شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعے’’ تسلسل‘‘،’’ آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے‘‘ اور ’’دریائے گماں‘‘ کے نام سے شایع ہوئے اور کلیات بھی ’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔ غلام محمد قاصر نثر نگار بھی تھے اور ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بہت مقبول ہوا۔

    کروں گا کیا جو محبت میں‌ ہوگیا ناکام
    مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا