Tag: اردو شاعری

  • دیہاتی لڑکی….ایک نظم

    دیہاتی لڑکی….ایک نظم

    سچی بات پہ جھوٹی قسمیں کھاتی لڑکی
    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

    ہنستی ہے تو گال بھنور دکھلاتے ہیں
    دائیں ہونٹ پہ تِل ہے، اور شرماتی لڑکی
    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

    کل تک جس کی یار، گلابی اردو تھی
    انگلش بول کے خود پہ ہے اتراتی لڑکی
    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

    بھاگے دوڑے، تتلی پکڑے، بوسہ دے
    غصہ کرتی، پھولوں پر چِلاتی لڑکی
    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

    آ جائے نہ یار کسی کے جھانسے میں
    ایک تو بھولی، اوپر سے جذباتی لڑکی
    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

    اس کی ہر ہر بات میں بچپن بستا ہے
    گود میں لے کر گڑیا کو سمجھاتی لڑکی
    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

    اب تک اس میں، گاؤں کی عادت باقی ہے
    بیچ سڑک پر سَر کو ہے کھجلاتی لڑکی
    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

    لاکھ ہنسے پر، روگ تو ظاہر ہوتے ہیں
    ذرا سی آہٹ پر جو ہے گھبراتی لڑکی

    میرے شہر میں آئی ہے دیہاتی لڑکی

     

    زیارت معصوم، ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے اویس احمد ویسیؔ کا کلام

  • ذکر جب  چھڑ‌ گیا قیامت کا!

    ذکر جب چھڑ‌ گیا قیامت کا!

    ہمارے مخدوم و محترم، اردو فارسی کے ممتاز اسکالر پیر حسام الدین راشدی (مرحوم) کو آثارِ قدیمہ، ادب اور ثقافت سے خاص دل چسپی تھی۔

    وہ ہر مسئلے پر کھینچ تان کر اپنی گفتگو قدیم ادب اور ثقافت تک لے جاتے تھے۔

    ایک محفل میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور پیر حسام الدین راشدی دونوں موجود تھے۔

    پیر حسام الدین راشدی صاحب قدیم ثقافت کی اہمیت پر بات کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صدیقی نے پیر صاحب کی باتیں سنتے سنتے فرمایا۔
    جی چاہتاہے کہ فانی بدایونی کے اس شعر میں تھوڑا تصرف کرلوں۔

    ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
    بات پہنچی تری جوانی تک

    پیر صاحب نے کہا۔ بہت خوب صورت شعر ہے، ایسا نہ ہو کہ آپ کے تصرف سے شعر خراب ہوجائے۔

    ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا اور انھوں نے شعر برجستہ یوں پڑھا۔

    ذکر جب چھڑ گیا ثقافت کا
    بات پہنچی موہنجو ڈارو تک

    (ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مضمون سے ایک اقتباس)

  • رضی اختر شوق نے کہا تھا، کل کسی اور نام سے آجائیں‌ گے!

    رضی اختر شوق نے کہا تھا، کل کسی اور نام سے آجائیں‌ گے!

    خواجہ رضی الحسن انصاری کو دنیائے ادب رضی اختر شوقؔ کے نام سے جانتی ہے۔

    انھیں جدید لب و لہجے کا شاعر مانا جاتا ہے۔ رضی اختر شوق نے اردو شاعری میں اپنے تخیل کو کچھ اس سلیقے سے برتا کہ ہم عصروں نے انھیں سراہا اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ شائقین نے ان کے کلام کو پسند کیا اور ان کے متعدد اشعار زباں‌ زد عام ہوئے۔

    22 جنوری 1999 کو کراچی میں اردو زبان کے اس معروف شاعر کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ سہارن پور کے رضی الحسن انصاری نے ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن سے حاصل کی۔ جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کے بعد وہ پاکستان چلے آئے جہاں کراچی میں قیام و قرار کیا۔ اس شہر میں ایم اے کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا اور امتحان پاس کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ اسٹوڈیو نمبر نو کے نام سے ریڈیو پر ان کے کئی ڈرامے سامعین کے لیے یادگار ثابت ہوئے۔

    رضی اختر شوق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جن کا کلام خوب صورت جذبوں اور لطیف احساسات سے آراستہ ہونے کے ساتھ بلند خیالی کا نمونہ ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں مرے موسم مرے خواب اور جست شامل ہیں۔

    رضی اختر شوق کا یہ شعر تو سبھی کو یاد ہے۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ

    ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
    زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

    خلقتِ شہر یونہی خوش ہے تو پھر یوں ہی سہی
    ان کو پتّھر دے، مجھے ظرفِ پذیرائی دے

    جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
    یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

    تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
    کوئی اتنا بھی نہیں طعنہَ رسوائی دے

    مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
    پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے

  • وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وحید الدین وحید کا تعلق الہٰ آباد سے تھا۔ ان کا شمار اپنے دور کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ ہوتا ہے۔

    ان سے شاعری میں اصلاح لینے والوں میں اکبرؔ الہٰ آبادی نے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے علاوہ بھی ہندوستان کے متعدد شعرا ان سے اصلاح‌ لیتے تھے۔

    کہتے ہیں ایک روز ان کے گھر کو آگ لگی تو انھوں نے باہر نکلنے کے بجائے اپنے کلام کو سمیٹنے کی کوشش کی اور اس دوران دَم گھٹ جانے سے انتقال کر گئے۔

    وحید الہ آبادی اردو کے واحد شاعر ہیں جو اپنا تخلیقی سرمایہ بچاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کے یہ دو اشعار دیکھیے۔

    میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
    دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو

    سب کی ہے اس عہد میں مٹی خراب
    ذلتیں باقی ہیں توقیریں گئیں

    وحید الہ آبادی نے اپنے تخلیقی جوہر اور شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث اس دور میں سب کی توجہ حاصل کی اور شناخت بنائی جب ہندوستان میں استاد شعرا میں‌ شاہ نصیر، آتش، ذوق اور داغ جیسی شخصیات کا نام لیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ خود وحید الہ آبادی نے مرزا حیدر علی آتش اور بعد میں بشیرعلی بشیر سے مشورۂ سخن کیا۔

  • نوحہ لکھتی ہوا، ماتمی فضا میں‌ محسن نقوی سے  ملیے!

    نوحہ لکھتی ہوا، ماتمی فضا میں‌ محسن نقوی سے ملیے!

    سید غلام عباس نقوی نے محسن تخلص کیا اور دنیائے سخن میں‌ محسن نقوی کے نام سے پہچانے گئے۔

    اردو زبان کے اس شاعر نے خوب صورت الفاظ، استعاروں اور تشبیہات سے اپنی غزلوں اور نظموں کو کچھ اس طرح‌ سجایاکہ سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔ اپنے کلام میں دل کی ہر واردات، ہر جذبے کو نہایت خوبی سے سمونے والے محسن نقوی کو قادر الکلام شاعر مانا جاتا ہے۔

    آج محسن نقوی کی برسی ہے۔ ان کے چند اشعار اور ایک مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    شاید یہ تین اشعار آپ نے بھی اپنی بیاض میں‌ کبھی لکھے ہوں‌۔

    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہو گا
    میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

    محسن نے اپنی ایک خواہش کا اظہار یوں‌ کیا ہے۔

    عمر اتنی تو میرے فن کو عطا کر خالق
    میرا دشمن مرے مرنے کی خبر کو ترسے

    غلام علی کی آواز میں‌ یہ غزل تو آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    یہ دل، یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
    اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آوارگی

    کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
    میں نے کہا تُو کون ہے؟ اُس نے کہا آوارگی

    یہ درد کی تنہائیاں، یہ دشت کا ویراں سفر
    ہم لوگ تو اُکتا گئے، اپنی سُنا! آوارگی

    کل رات تنہا چاند کو، دیکھا تھا میں نے خواب میں
    محسن مجھے راس آئے گی، شاید سدا آوارگی

  • مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے؟

    دلی کے بزرگ شعرا میں آغا قزلباش بڑے طباع اور دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جوانی میں غیرمعمولی خوب صورت رہے ہوں گے۔ بڑھاپے میں بھی سرخ و سفید تھے۔ وضع قطع سے بالکل دلّی والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

    سَر پر پشاوری کلاہ دار پگڑی، اُٹنگی چھوٹی مہری کی شلوار، بند گلے کی قمیص اس پر لمبا کوٹ، پاؤں میں انگریزی جوتا اور ہاتھ میں موٹا ڈنڈا۔

    آغا صاحب مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے۔ جب غزل پڑھنے کی باری آتی تو نہایت منمنی آواز میں ہائے آغا شاعر مر گیا، ارے مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے کا نعرہ لگاتے اور ہائے ہائے کرتے شعر پڑھنے بیٹھ جاتے۔ غزل شروع کرنے سے پہلے فرماتے۔

    صاحبو، میرا قاعدہ ہے کہ میں تبرکاً استاد کے دو اشعار پہلے پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہہ کر داغؔ کے منتخب شعر نہایت پاٹ دار آواز میں پڑھتے۔

    آغا صاحب نہایت عمدہ تحت اللفظ پڑھتے اور الفاظ اور لہجے کی تصویر بن جاتے۔ اس طرح وہ داغ کے شعروں سے مشاعرہ الٹ پلٹ کر دیتے اور داد کے اسی تأثر میں وہ اپنی غزل پر زیادہ داد حاصل کر لیتے۔

    شاعرِ نازک طبیعت ہوں، مرا دل کٹ گیا
    ساقیا لینا کہ شاید بال پیمانے میں تھا

    یہ مشہور شعر آغا شاعر قزلباش کا ہے۔

    (تابش دہلوی کی کتاب دید و باز دید سے انتخاب)

  • کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    کیفی اعظمی: رومان پرور گیتوں‌ سے انقلابی نظموں‌ تک

    مشہور شاعر کیفی اعظمی کے سریلے گیتوں، غزلوں‌ اور لطیف جذبات سے آراستہ نظموں کے دیوانے آج ان کا یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔

    سید اطہر حسین رضوی ان کا اصل نام تھا۔ وجہِ شہرت شاعری اور قلمی نام کیفی اعظمی سے معروف ہیں۔

      1919 کو بھارت کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے کیفی اعظمی نے 11 برس کی عمر ہی میں شاعری شروع کر دی تھی۔ زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا تو سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔ اس دور میں‌ یہ شعر ان کی شناخت بنا۔

    مدت کے بعد اس نے جو الفت سے نظر کی
    جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

    غور و فکر کی عادت اور مطالعے کے شوق نے انھیں دنیا بھر کا ادب پڑھنے، مختلف نظریات اور تحریکوں سے آگاہی کا موقع دیا اور انھوں نے بامقصد تخلیق کو اہمیت دی۔ جلد ہی اشتراکیت اور کارل مارکس سے شناسائی ہو گئی۔ وہ ان تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔

    کیفی اعظمی کی غزلیں اور نظمیں جہاں انھیں اردو زبان کے ایک رومان پرور شاعر کے طور پر متعارف کرواتی ہیں، وہیں ان کی شاعری میں انسان دوستی کا رنگ بھی ہے اور ان کے کلام سے ان کی انقلابی فکر کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

    وہ ظلم و جبر کے خلاف اپنی تخلیقات ہی کے ذریعے آواز نہیں اٹھاتے رہے بلکہ میدانِ عمل میں بھی پیش پیش رہے۔ کیفی اعظمی مزدور تحریک کا حصہ بنے، کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے طور پر سرگرم رہے اور صحافت بھی کی۔

    فلم کے لیے گیت نگاری کے علاوہ صحافت بھی کیفی اعظمی کا ایک حوالہ ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ جذبات کی فراوانی کے ساتھ خوب صورت الفاظ کا انتخاب اور منفرد لہجہ ہے جس میں انقلابی فکر اور باغیانہ ترنگ بھی شامل ہے۔ کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے کلام سے چند جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

    تم  اتنا  جو مسکرا  رہے  ہو
    کیا غم ہے جس کو چھپارہے ہو
    آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
    کیا حال ہے، کیا  دکھا رہے ہو
    بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
    یہ  اشک جو پیتے  جا رہے ہو
    ریکھاؤں  کا  کھیل  ہے  مقدر
    ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    یہ گیت آپ نے بھی سنا ہو گا۔

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
    دبا دبا سا  سہی دل میں پیار  ہے کہ نہیں
    تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
    مری طرح ترا دل بے قرار  ہے کہ نہیں
    وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
    اُس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں

  • دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    دسمبر: ہجر، اداسی، یادیں اور شاعری

    کہنے کو تو دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے، لیکن اس نے جو معنی پہنے، جو مفہوم اوڑھا، اس کی تفصیل کے لیے دفتر چاہیے۔

    یخ بستہ ہوائیں، خنک شامیں اور یادیں دسمبر کا امتیاز ہیں۔ سال کا یہ آخری مہینہ نجانے کب جدائی اور ہجر کا استعارہ بنا ہو گا، کیوں‌ اسے یادوں سے جوڑا اور کب یاسیت اور افسردگی سے نتھی کیا گیا ہو گا۔

    یوں‌ تو سبھی دسمبر سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں، لیکن اردو شعرا نے خاص طور پر اپنی تخلیقات میں‌ دسمبر سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

    آئیے، 2019 کے اس دسمبر کو شاعری کے قالب میں‌ دیکھتے ہیں۔

    امجد اسلام امجد کی نظم "آخری چند دن دسمبر کے” پڑھیے

    ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
    خواہشوں کے نگار خانے میں
    کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
    رفتگاں کے بکھرتے سالوں کی
    ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
    فون کی ڈائری کے صفحوں سے
    کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
    جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
    اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
    کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
    رینگتی بدنما لکیریں سی
    میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
    دوریاں دائرے بناتی ہیں
    دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
    مشعلیں درد کی جلاتے ہیں

    خالد شریف کے اشعار

    کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
    کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
    ذرا سی دیردسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
    یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں

    یہ شعر ملاحظہ ہو

    یہ سال بھی اداس رہا روٹھ کر گیا
    تجھ سے ملے بغیر دسمبر گزر گیا

    اور دسمبر میں کسی امید پر ایک دستک، ایک آہٹ پر بے تاب ہو جانے والے شاعر کی یہ کیفیت دیکھیے

    دسمبر کی شبِ آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
    یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا

    جب کسی کے سامنے خود کو بکھرا ہوا اور شکستہ نہ ثابت کرنا ہو تو اس شعر کا سہارا لیا جاسکتا ہے

    مجھے کب فرق پڑتا ہے دسمبر بیت جائے تو
    اداسی میری فطرت ہے اسے موسم سے کیا لینا

    وہ دسمبر کی آخری اور نامہربان شام تھی جب عبدالرحمان واصف نے جنوری کے نام ایک پیام پڑھا، ان کی یہ نظم پڑھیے

    جنوری مبارک ہو

    ڈوبتے دسمبر کی
    ناتمام کرنوں نے
    شام کے سرہانے پر
    چند پھول رکھے ہیں
    دل نشین لہجوں کے
    دل فگار باتوں کے
    دل فریب لمحوں کے

    یہ پیام بھیجا ہے
    دل نشین چہروں کو
    دل فریب لہجوں کو
    دل نواز لوگوں کو
    زندگی مبارک ہو
    جنوری مبارک ہو
    آنے والے وقتوں کی دوستی مبارک ہو!

  • ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    مولانا ظفر علی خاں ساری زندگی سیاست اور صحافت کے میدان میں سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات و واقعات کے زیر اثر ان کے مضامین اور نظم و نثر کے موضوعات کی نوعیت سیاسی ہوتی تھی، مگر بنیادی طور پر وہ ایک شاعر اور ادیب تھے۔

    ان کا نظریہ، فکر اور صحافت کا ڈھب ہی نرالا تھا۔ نظم و نثر میں سبھی ان کے کمال کے معترف ہیں۔ حاضر دماغ، طباع اور خوش مذاق تھے۔ کہتے ہیں چائے اور حقہ دونوں ان کے پسندیدہ تھے۔ گویا دھواں اور بھاپ ان کے ذہن کی مشین کو متحرک رکھتا تھا اور ان کا قلم اداریے، نظمیں لکھتا اور مختلف موضوعات پر تحاریر کو ان کی نظر سے گزار کر اشاعت کے قابل بناتا تھا۔

    تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ حقے کی نے منہ میں ڈالے، اس کے ہر کش پر ایک شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ حقے کے کش کا دھواں ان کے منہ سے ایک شعر تر ساتھ لے کر نکلتا تھا۔

    حقے اور چائے پر فدا تھے اور فرماتے تھے، زندگانی کے لطف دو ہی تو ہیں، صبح کی چائے اور شام کا حقہ، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کے ہاں حقے اور چائے میں صبح و شام کی کوئی قید نہ تھی۔ ان کا ذہن رواں ہی حقے کے کش کے ساتھ ہوتا تھا۔ اسی طرح چائے کے بارے میں ان کا نعرۂ مستانہ شعر کا روپ یوں دھارتا ہے۔

    چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
    جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے

    شیخ کرامت ﷲ گجراتی سے مروی ہے کہ مولانا ظفر علی خاں ایک دفعہ اتحاد ملت کے جلسے منعقدہ گجرات میں جب رات کے ایک بجے صدارتی تقریر سے فارغ ہوئے تو چائے کی فرمائش کردی۔ اس وقت دیگچی کا ابلا ہوا دودھ ملنا مشکل تھا، جسے وہ چائے کے لیے بہ طور خاص پسند کرتے تھے۔

    شیخ کرامت ﷲ کہیں سے دودھ منگوانے میں کام یاب ہو گئے اور مولانا کی دل پسند چائے تیار کروا کر ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ مولانا نے جونہی چائے کی چسکی لی، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ چائے کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔

  • غالب کون ہے؟

    غالب کون ہے؟

    لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
    مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

    مرزا غالب کا کلام، ان کے اشعار آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔ غالب ہر عمر اور طبقے میں یکساں مقبول ہیں اور غالب کو پڑھنے کے ساتھ ان کے کلام اور ان کی نثر کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے، نوجوان اور نئے پڑھنے والے غالب پر مباحث میں‌ دل چسپی لیتے ہیں۔

    آئیے مرزا غالب کے یومِ پیدائش پر ان کی زندگی کی کتاب کے چند اوراق الٹتے ہیں۔

    خاندان اور غالب کی نجی زندگی
    والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ یہ خاندان آگرہ کے ایک محلے میں رہتا تھا۔ 27 دسمبر1797 کو عبداللہ بیگ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسد اللہ بیگ رکھا گیا۔

    زندگی کے چند برس ہی والد کی شفقت اور پیار نصیب ہوا۔ وہ ایک جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور یوں غالب کم عمری میں یتیم ہو گئے۔

    پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔

    شادی اور پریشانیاں

    13 سال کی عمر میں اسد اللہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد آبائی وطن چھوڑ کر دہلی میں سکونت اختیار کرلی۔

    اب زندگی اور ضروریات کا تقاضا اور تھا۔ شادی کے بعد اخراجات اور مالی مسائل بڑھ گئے۔ مے نوشی نے بھی مشکلات سے دوچار کیا اور غالب مقروض ہو گئے۔

    مالی پریشانیوں نے مجبور کیا تو شاہی دربار میں ملازمت کی کوشش کی۔ تذکروں میں لکھا ہے کہ انھیں تاریخ لکھنے پر مامور کیا گیا۔

    بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب دیا۔ اسی کے ساتھ وظیفہ مقرر ہوا۔

    غدر اور مرزا کی پنشن
    غدر کے بعد مرزا غالب کو ایک مرتبہ پھر مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو جو پنشن ملتی تھی وہ بند ہو گئی۔ گزر بسر مشکل اور قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ گئے۔

    1857 کے بعد نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور تک کسی طرح احوال پہنچایا تو انھوں نے سو روپے ماہ وار باندھ دیے۔ کہتے ہیں مرزا غالب یہ وظیفہ تادمِ مرگ پاتے رہے۔

    مرزا غالب اور شاعری
    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

    یہ بات کسی قدر عجیب تو ہے کہ اسد اللہ خاں غالب جو خود فارسی کو اردو کلام پر ترجیح دیتے تھے، ان کی وجہِ شہرت اردو شاعری ہے۔ آج وہ دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں اور اردو زبان کے عظیم شاعر کہلاتے ہیں۔

    مرزا غالب کو اردو اور فارسی شاعری میں یدِطولیٰ حاصل تھا جب کہ ان کی نثر بھی کمال کی ہے۔ مرزا غالب کے خطوط اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    غالب کی شاعری کو موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے گویا ایک جہان آباد ہے۔ وہ دنیا دار بھی ہیں، عاشق مزاج اور رندِ بلا نوش بھی۔ خدا پرست اور شاکی بھی۔ درویش اور فلسفی ہی نہیں مرزا غالب شوخی اور ظرافت میں بھی آگے ہیں۔

    غالب کی ژرف نگاہی کے ساتھ ان کی سادہ بیانی ہی ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی ہے۔

    وفات
    15 فروری 1869 کو یہ سخن وَر ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گیا تھا، مگر اس کے اعجازِ سخن کا چرچا آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ دہلی میں‌ غالب کا مقبرہ اب ان کی ایک یادگار ہی نہیں بلکہ زندگی کے درد و غم، مصائب و آلام جھیلتے ہوئے مہربان نیند کو خوش آمدید کہنے پر مجبور انسان کی حقیقت بھی ہم پر عیاں‌ کرتا ہے.