کراچی: خوش بو جیسے اشعار اور نظمیں کہنے والی اردو زبان کی مقبول عام شاعرہ پروین شاکر کا 67 واں یوم پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔
رنگ اور خوش بو کی شاعرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گوگل نے اپنا ڈوڈل پروین شاکر کے نام کر دیا ہے۔
خوش بو، صد برگ، خود کلامی، اور انکار جيسے شعری مجموعوں کی مصنفہ پروین شاکر بلاشبہ ہر دل عزیز شاعرہ تھیں، کتاب خوشبو سے شہرت کی بلنديوں کو چھونے والی شاعرہ کو آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
24 نومبر 1952 کو کراچی ميں پيدا ہونے والی پروين شاکر 26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوئیں اور 42 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔
محبت کی خوش بو شعروں میں سمونے والی پروین شاکر نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا، آج ان کے مداح ان کی 67 ویں سال گرہ منا رہے ہیں۔
اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی شاعرہ پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں، بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔
ان کے چند مشہور اور زبان زد عام اشعار یہ ہیں:
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی اس نے خوش بو کی طرح میری پذیرائی کی
….
وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے
….
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
….
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
….
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
….
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
….
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
….
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
منفرد لب و لہجہ کی معر وف شاعرہ ، افسانہ نگار، صحافی، کالم نگارر عابدہ اقبال آزاد کی ساتویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ اس موقع پران سے منسوب بہار ایوارڈز کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔
عابدہ اقبال جدید دور کی شاعرہ تھیں۔ شاعری، افسانہ ہو یا کالمز ، عابدہ نے اپنی تحریر میں فن و تخلیق کا بھرپوراستعمال کیا۔آپ 20 اپریل 2012 کو کم عمری میں ہی خالقِ حقیقی سے جا ملی تھیں۔
بے وقت وفات نے اردو ادب اورفنِ شعر کو ا نتہائی قوت کے ساتھ ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ سے محروم کر د یا ہے۔ عابدہ اقبال بنگلہ دیش کے مشہور تاجرغلام ربانی کی بیٹی اور کراچی میں ایڈورٹائزنگ کی دنیا کے معروف نام اقبال آزاد سیدکی اہلیہ تھیں۔
انہوں نے ڈھاکا سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی لیکن مسیحائی کو بطور پیشہ نہیں اپنایا بلکہ صحافت کو ترجیح دی، عابدہ زندگی اور انسانیت کی شاعرہ تھیں۔بنگال کے موسم ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ا
ن کی منفرد شاعری کی کتاب ’آسمان ‘نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔عابدہ اقبال کراچی شہر کے حالات پر گہری نظر رکھتی تھیں۔ انہوں نے شہر قائد میں امن و امان کی صورت حال پر بے شمارنظمیں، کالمز اور مضامین رقم کی۔
عابدہ اقبال آزاد کی شاعری اور تحریر کا بنیادی عنصر ظلم اور نا انسافی کے خلاف انسانیت کے حق میں صدائے احتجاج ہے۔عابدہ نے عام اور معاشی لحاظ سے محروم طبقے سے وابستہ لوگوں کی زندگی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنا لیا۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنی تحریر میں معاشی طورپرپسے ہوئے طبقے اورحقوقِ نسواں کے لیے اپنی پوری قوت سے آواز بلند کی اوران کے حق میں احتجاج کیا۔
وہ بنیادی طورپرامن اور سیاست میں توازن کے حق میں تھیں۔ عابدہ مساوات پریقین رکھتی تھیں اورمعاشرے کے ہراس فرنٹ پر مقابلہ کرنے کو تیارتھیں جہاں سے عام طبقے کے ساتھ نا انصافی، ظلم اور تشدد روا رکھا جاتا تھا۔
بطور صحافی وہ دو عنوانات سے کالم لکھا کرتی تھیں، کرنٹ افیئرزپران کی گرفت ان کے کالم ’آئینہ‘ سے ظاہرہوتی تھی اور سماجی مسائل پر کالم لکھے جانے والے کالم دوسراچہرہ کے حوالے سے وہ عوام میں بے حد پسند کی جا تی تھیں۔
عابدہ اقبال کی شاعری، کالمزاوردیگر مضامین مختلف اخبارات، میگزینز اور مڈویک میں شائع ہوتے رہے۔ ا ن کی ادبی خدمات کے وجہ سے قارئین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
بہارایوارڈز
ان کی یاد میں تنظیم برائے فن اورتخلیق مماسلات اسرار کے جانب سے آج ’بہارایوارڈز‘ کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ بہار ایوارڈز مشترکہ طورپرعابدہ اقبال آزاد اوراسرار حسین کی یاد میں اردو شاعری پر مبنی ایک تخلیقی مقابلہ ہے۔
ایوارڈز کے لیے نامزدگیاں پانچ فروری سے 9 اپریل 2019 تک لی گئیں۔ اس مقابلے میں پاکستان اوردیگر ممالک سے شعراءاور شاعرات نے بھرپور حصہ لیا۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی او ر ادبی تنظیم حلقہ ارباب ذوق کے جانب سے اس موقع پریادگاری نشستوں اورسمپوزیم کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
بہارایوارڈز کو مختلف کیٹیگریوں میں تقسیم کیا گیا تھا، نظم کی کیٹیگری میں علیزہ زہرہ نے پہلی پوزیشن حاصل کی، غزل کی کیٹیگری میں فواد رضا پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے، جبکہ نثری نظم میں سیمی کرن سرفہرست رہیں۔
آج شاعری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، شاعری جذبات کی عکاسی اورالفاظ میں کہانی کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے، یوم شاعری کا مقصد شاعری کی اہمیت کو اجاگرکرنا ہے۔
یوم شاعری سال 1999 سے منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے مطابق یہ تقریب منانا شروع کی گئی تھی۔ سال دو ہزار نو سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات ایوان ادباء میں منعقد کی جاتی ہیں۔
یوم شاعری کا مقصد نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے۔ جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔
جب شاعری خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔
فنِ شعرِ گوئی نے جب عقیدت کی راہ پر سفرشروع کیا تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان بھی۔
اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوُآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعری کی تھی۔
شاعری کیا ہے ؟؟
کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔
شاعری کی اقسام
شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم غزل ہے، صنف غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔
مشہوراصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں قلی قطب شاہ، میرتقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی اوربہادرشاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔
تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے شعراء بامِ شہرت کے عروج پر فائر ہوئے جن میں فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی ‘ افتخار عارف‘ حمایت علی شاعر اور جون ایلیاء جیسے عظیم نام ملتے ہیں۔
برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔
آوٗپھرجوش کو دے کرلقبِ شاہ ِسخن دل و دینِ سخن، جانِ ہنرتازہ کریں
جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔
انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔
عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے
جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔
رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں
اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں
کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔
اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے
ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔
22 فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔
اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔
فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کوشاعرِ مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، وہ انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے، ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے، اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
فیض نے 1930 میں لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبۂ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔
فیض نے 1935 میں ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کی پھر 1942 میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔
فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے، انھوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔
انھوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔
اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سرِ وادی سینا ،مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔
اردو کے عظیم شاعر فیض 1959 میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری تعینات ہوئے پھر 1962 تک وہیں تعینات رہے۔ ادبی رسالہ ادب لطیف کے مدیر اور اس کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر اعلیٰ رہے۔
انھیں 9 مارچ 1951 کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا، فیض نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں گزارے، جب کہ دو اپریل 1955 کو انھیں رہا کر دیا گیا۔
فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنھیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔
اردو کے شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی شاعری آج بھی بے حد مقبول ہے۔
اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔
مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔
دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔
نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔
بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔
غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔
غزل کے نامور شاعر ناصر کاظمی کا 93واں یومِ پیدائش ہے، ناصر کاظمی کو اردو غزل میں نمایاں مرتبہ حاصل ہیں ان کی کئی غزلیں مشہورِ زمانہ فلمی گیت بھی بنیں۔
ناصر رضا کاظمی آٹھ دسمبر انیس سو پچیس کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ناصر کاظمی کے والد محمد سلطان کاظمی سرکاری ملازم تھے۔ والد کے پیشہ ورانہ تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا تھا۔
انہوں نے میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ناصر کاظمی لاہور کے ایک ہاسٹل میں رہتے تھے ان کے استادِ خاص رفیق خاور ان سے ملنے کے لئے اقبال ہاسٹل میں جاتے اور ان کے کمرے میں شعر و شاعری پر ہی بات کرتے تھے۔
،کبھی دیکھ دھوب میں کھڑے تنہا شجر کو’’ ‘‘ایسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے
قیام پاکستان تک اُن کے شعروں کی مہک چہار سو پھیل چکی تھی، ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی زندگی بنا لیا اور رات دن اسی کی دھن میں مست رہے، ناصر کاظمی نے میر تقی میر کی پیروی کرتے ہوئے غموں کو شعروں میں سمویا اور ان کا اظہارغم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔
استاد نصرت فتح علی خان کی آواز میں ایک مشہور غزل غم ہے یا خوشی ہے تو قارئین کی نذر
ناصر کاظمی غزل کو زندگی بنا کر اسی کی دھن میں دن رات مست رہے۔ ناصر نے غزل کی تجدید کی اور اپنی جیتی جاگتی شاعری سے غزل کا وقار بحال کیا اور میڈیم نور جہاں کی آواز میں گائی ہوئی غزل ’’دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا ‘‘ منہ بولتا ثبوت ہے۔
،دنیا نے مجھ کو یوں ہی غزل گر سمجھ لیا’’ ‘‘میں تو کسی کے حسن کو کم کر کے لکھتا ہوں
اسی طرح خلیل حیدر کو بھی ناصر کی غزل ’’نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں ‘‘ گا کر پہچان ملی۔ نا صر کا ظمی نے شاعری میں سادہ الفاظ کا چناؤ کیا خوبصورت استعاروں اورچھوٹی بحر میں غزلیں کہنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔
ناصر کاظمی کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے۔ ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ “برگ نے” ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ دوسرے دو مجموعے “دیوان” اور “پہلی بارش” ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔
گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کرگیا وہ
ناصر کی شاعری میں محبت کے ان جزیروں کی تلاش ہے جہاں پرندے چہکتے اور پھول مہکتے ہیں،جہاں کو ئی کسی سے نہ بچھڑتا ہو۔ ناصر کاظمی دو مارچ 1972 کو اِس دارفانی سے کوچ کرگئے، وہ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻣﻦ ﭘﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺳﻮﺩﮦ ﺧﺎﮎ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﻮﺡ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ان ہی ﮐﺎ ﯾﮧ ﺷﻌﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﮯ۔
برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔
آوٗ پھر جوش کو دے کر لقبِ شاہ ِ سخن
دل و دینِ سخن، جانِ ہنر تازہ کریں
جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔
انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔
عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے
جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔
رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں
اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں
کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔
اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے
ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔
22 فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔
لاہور: اردو کی نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں، ان کی عمر 73 سال تھی اور کافی عرصے سے شدید علیل تھیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز شاعرہ اور فکشن نگار فہمیدہ ریاض لاہور میں جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں، وہ 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔
[bs-quote quote=”خواتین کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کے حوالے سے بھی مشہور تھیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]
فہمیدہ ریاض کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا، ان کے والد ریاض الدین احمد ایک ماہرِ تعلیم تھے، تقسیم کے بعد ان کا خاندان حیدر آباد سندھ میں قیام پذیر ہوا تھا۔
فہمیدہ ریاض شاعری میں اپنی تانیثی (فیمنسٹ) آواز کے لیے معروف تھیں، وہ اپنے غیر روایتی خیالات کے باعث اردو ادبی منظر نامے میں تیزی سے مقبول ہو گئی تھیں۔
وہ خواتین کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کے حوالے سے بھی مشہور تھیں، جمہوریت کی خاطر انھیں جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا، ضیا الحق کے انتقال کے بعد وہ بھارت سے واپس پاکستان آئیں۔
فہمیدہ ریاض نے لندن سے فلم ٹیکنک میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا، طالب علمی ہی کے زمانے میں حیدر آباد میں پہلی نظم لکھی جو معتبر ادبی پرچے ’فنون‘ میں چھپی۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔
ان کی شعری تصانیف میں پتھر کی زبان، بدن دریدہ، دھوپ، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے، اپنا جرم ثابت ہے، ہم رکاب اور کلیات میں مٹی کی مورت ہوں شامل ہیں۔
میرے پسندیدہ ادیب گیبریئل گارسیا مارکیز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نوبیل انعام کے حصول کے بعد جب ان کی شہرت کو پر لگ گئے تو ان کے لیے نئے دوستوں کی تعداد گننا نا ممکن ہو گیا، مارکیز کے مطابق جہاں کچھ افراد منافقانہ خوشامد کے ساتھ ان کی شہرت سے اپنا حصہ لینے کے خواہش مند تھے وہیں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اتنے ہی مخلص تھے جتنا غربت اور مشکلات کے دور میں ساتھ دینے والا کوئی خلوص کا مارا ہم درد ساتھی ہوسکتا ہے، شہرت نے انھیں میرا اتا پتا بتایا اور وہ مجھ سے آ ملے، شہرت سے مخلص دوستوں کے ملنے کا یہ پہلو تعجب خیز اور دل فریب بھی ہے۔
حفیظ تبسم سے رابطے کا معاملہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہے لیکن یہاں ملاپ کا ذریعہ میری یا حفیظ کی شہرت نہیں بلکہ فیس بک کی ویب سائٹ تھی۔ صحیح طرح سے یاد نہیں، حفیظ نے شاید اپنے پسندیدہ ناولوں کی فہرست لگائی تھی اور دوستوں کو دعوت دی کہ وہ بھی اپنے ناولوں کی لسٹ بنائیں، حفیظ نے شاید میرے کسی دوست کو ٹیگ کیا ہوا تھا اس لیے اُس پوسٹ تک میں بھی پہنچ گیا، اس وقت دوچار تنقیدی کتابیں کچی پکی پڑھ کر میں ’’کلاسیکی تنقیدیت‘‘ کو اپنے جیب میں ڈالے گھوما کرتا تھا۔ جھٹ سے اپنی فہرست اس تیقن کے ساتھ لگائی کہ اس سے بہتر کوئی لسٹ روزِ قیامت تک وجود میں نہیں آ سکتی۔ حفیظ نے اعتراض کیا، میں نے جواب دیا، کچھ ایچ پیچ بھی ہوئی، میں نے حفیظ کی پروفائل پر جا کر سرسری جائزہ لیا تو ان کو صاحبِ کتاب پا کر مرعوب ہوگیا، وہ بھی تین کتابیں، میں نے پسپائی میں ہی عافیت سمجھی، دوسری مرتبہ کسی پوسٹ میں برادرم سید کاشف رضا کا کمنٹ پڑھا جس میں انھوں نے حفیظ تبسم کی شاعری سے نہایت مثبت توقعات کا اظہار کیا تھا۔ میں نے اسی روز انہیں فرینڈ ریکویسٹ بھیج دی اور یوں ہماری دوستی کی بنیاد پڑی۔
حفیظ تبسم
حفیظ سے پہلی ملاقات آرٹس کونسل کراچی میں عالمی ادبی کانفرنس کے موقع پر ہوئی جب وہ عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام کے گھیرے میں آڈیٹوریم کے مرکزی دروازے کی سیڑھیوں پر ٹہلتے نظر آئے، عطاء الرحمٰن خاکی اور فیصل ضرغام سے حلقہ ارباب ذوق کراچی کے اجلاسوں میں شناسائی ہوچکی تھی، حیرت کی بات یہ تھی کہ حفیظ تبسم کو پہچاننے میں بھی مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی، شاید اس کی وجہ ان کا اور میرے جثے کا متضاد ہونا تھا، مجھے اگر تین برابر حصوں میں کاٹا جائے تو ایک حصے کا وزن حفیظ تبسم سے تھوڑا زائد ہی نکل آئے گا، ایک بھاری جسم والا انسان سنگل پسلی کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور زیادہ نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ پھر اسے بھوک لگ جاتی ہے۔ رشک کے اسی جذبے نے اس کے منحنی سے وجود کو میرے دماغ میں نقش کردیا تھا۔
حفیظ تبسم نے جب اپنی کتاب ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ میرے حوالے کی تو انوکھے عنوان نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا، دشمنوں کی فہرست کا جائزہ لیا تو سرفہرست میرے جگری دوست رفاقت حیات، سید کاشف رضا، عاطف علیم، عطاء الرحمٰن خاکی اور پسندیدہ شخصیات میں افضال احمد سید، پابلو نیرودا، رسول حمزہ توف، نصیر احمد ناصر، ملالہ یوسف زئی، سید سبط حسن، سورین کرکیکارڈ، عذرا عباس اور انور سن رائے کی نام جگمگاتے نظر آئے، حفیظ نے منٹو کو بھی نہیں بخشا، فیشن کے مطابق تو منٹو کو گالی دینا مشرقی روایات کے عین مطابق ہے لیکن حفیظ نے دشمنی کے لیے منٹو کو کیوں چنا یہ فی الوقت واضح نہیں تھا۔
سب سے پہلے لفظ دشمن پر غور کیا، امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا فقرہ یاد آیا کہ میری قدر و قیمت کا اندازہ میرے دشمنوں سے لگایا جائے، مطلب یہ کہ دشمن آپ کی طاقت یا کم زوی کا پیمانہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو حفیظ تبسم نے ایسے دشمن چنے ہیں جن کی تخلیقات لاکھوں افراد کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں اور کروڑوں دلوں پر راج کرتے ہیں اور حتمی طور پر حفیظ تبسم کے فکری نشوونما اور شاعری کی رخ کو بھی متعین کرتے ہیں۔
دشمنوں کو ایک اور پہلو سے ممتاز بھارتی ادیب ارون دھتی رائے نے دیکھا ہے، ان کے بقول دشمن تمہارے حوصلے کبھی توڑ نہیں سکتے یہ کام صرف دوست سر انجام دیتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے حفیظ تبسم کے دشمنوں کی لسٹ پر نظر دوڑائی جائے تو حفیظ کے حوصلوں کی بلندی قابل داد نظر آتی ہے۔ کس ماں نے ایسا بچہ کب جنا ہے جو منٹو کے حوصلوں کا مقابلہ کرے۔
میں نے لفظ دشمن کو کسی اور نقطۂ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عام فہم معنی میں میٹھی سی زندگی کے اندر کڑواہٹ گھولنے والوں کو دشمن کہا جاتا ہے، جسم کی طرح دماغ بھی آرام کا متلاشی رہتا ہے، دماغ کے لیے سوچنا ایک قسم کی مشقت ہے اور پسینہ بہانا (لغوی معنوں میں) کسے پسند ہے۔ دنیوی راحتوں اور رنگینیوں میں مست فرد کے دماغ کو سوچنے کی دعوت دینا سخت اذیت سے دوچار کرنا ہی کہلائے گا، بغیر کسی حتمی جواب کے سوالات اٹھانا کسی بھی پرسکون دماغ میں اتھل پتھل لانے کے لیے کافی ہے، حفیظ نے جو دشمنوں کی فہرست بنائی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو سوالات اٹھانے کا خطرناک فن جانتے ہیں۔
سنجیدہ ادب کے مقابلے میں پاپولر ادب کو اسی لیے عام قارئین پسند کرتے ہیں کہ اس میں اول تو کسی قسم کے سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے اور اگر غلطی سے ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے سوالات خود بہ خود کھڑے بھی ہو جائیں تو مصنف کی جیب میں موجود آفاقی سچائیوں سے جوابات ڈھونڈ کر قاری کو مطمین کر دیا جاتا ہے اور سوالات ہمیشہ کے لیے لٹا دیے جاتے ہیں، ایک بے راہ رو ہمیشہ آسمانی عذاب کا شکار ہوتا ہے، گنہگار اپنے بد ترین انجام کو پہنچتا ہے، عظیم سپاہی ہمیشہ اپنے مشن میں کام یاب ہوتے ہیں اور آخر میں ہیرو ہیروئن عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں (نسیم حجازی کے ناولوں میں وہ گھوڑوں پر سوار ہوکر اپنے مزاج کے مطابق بحرِ ظلمات کے روٹ پر بھی نکل جاتے ہیں)۔
دماغ اسی وقت پریشان ہوتا ہے جب منٹو ایمان والوں کو ’’کھول دو‘‘ کی ننگی حقیقت سے دوچار کرتا ہے۔ جب وہ کوٹھے کے جہنم میں بھی جنتی وجود تلاش کرلیتا ہے اور چمڑی بیچنے والے سوداگروں میں انسانی جذبات کو باہر کھینچ نکال لاتا ہے۔
حفیظ تبسم کی نظموں کی سب سے بڑی خوبی جس نے مجھے از حد متاثر کیا وہ سریئلزم اور تجریدی تمثالوں کی فراوانی ہے، آپ ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ کا کوئی صفحہ بھی بلا ارادہ کھول لیں، سریئلزم کی جان دار تمثیلوں اور تشبیہوں سے دماغ کو عجیب سی فرحت کا احساس ملتا ہے، افضال احمد سید، احمد جاوید، احمد فواد اور سعید الدین سمیت ہمارے متعدد شعرا نے نثری نظموں میں جس کے قسم کے جدید سریئلزم تجربات کیے، حفیظ اسی راستے کو کام یابی کے ساتھ اپنے خوب صورت اور بے لگام تخیل سے مزید کشادہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
دوسری خوبی جو اس مجموعے کو منفرد بناتی ہے اور وہ منظومہ افراد کی تخلیقات کے عنوانات سے ان افراد کے کردار کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے سارے تخلیقی حوالوں کے بعد ان کی نظم کی تفہیم مشکل ہوجاتی اور جب تک دشمنانِ منظومہ کی تمام تخلیقات کا مطالعہ نہ کرلیا جائے اسے سمجھنا مشکل ہوتا لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ حفیظ تبسم نے ان تخلیقات کے موضوعات اور عنوانات کو نظم کی کرافٹ میں اتنی سلیقہ مندی سے کھپایا ہے کہ وہ منظومہ فرد کی شخصیت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایک کارنامہ ہی ہے کہ حفیظ نے اپنے تخیل سے فن پارے کو اس کے فن کار کی ذات میں تحلیل کرکے اسے ایک نئی معنویت تک پہنچا دیا ہے۔
دوسرے پہلو سے جن افراد نے دشمنانِ منظومہ کی تخلیقات کا فرسٹ ہینڈ مطالعہ کر رکھا ہے ان کے لیے نظم کی قرأت منفرد سطح کا لطف پیدا کرتی ہے، ویسے بھی نظموں میں اس طرح کے اشارے رکھنے کی ایک مکمل تاریخ ہے، ٹی ایس ایلیٹ نے جب اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ویسٹ لینڈ‘‘ شائع کی تو اسے بھی مشورہ دیا گیا کہ اس کے ساتھ اشارات اور علامات کی ایک شرح بھی شائع کی جائے۔ میرا خیال ہے حفیظ کو مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ مرتب کرنا چاہیے تاکہ ہم جیسے سہل طبیعت کے قاری بھی دشمنانِ منظومہ کی تخلیقی کارناموں سے واقف ہوسکیں اور ممکن ہے کہ جوش میں آکر کوئی قاری ان کی تخلیقات پڑھنے کا کارنامہ بھی سرانجام دے دے، معجزے کی توقع کسی بھی شخص سے رکھی جاسکتی ہے اگرچہ وہ اپنے آپ کو اردو ادب کا قاری کہتا ہو۔
حفیظ اپنے ’دشمنوں‘ کے صرف کردار کا جائزہ لینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے لاشعوری احساس سے اپنے عصر کے منظر نامے کو بھی پینٹ کرتا ہے اور اُس میں ہر اس انوکھے رنگ کو ڈال دیتا ہے جس کی ضرورت اس کا عصری مسائل سے لاشعوری طور پر مزین تخیل اجازت دیتا ہے۔ سیاسی سفاکیت اور بے حسی، فکری انہدام کی گہری گھاٹیاں، علم دشمنی کی خیرہ کن چمک دمک، نفسیاتی بھول بھلیوں اور سماجی ناانصافی کے غیر عقلی رویوں کا بیان بھی ان کی نظموں میں زیریں سطح پر بہتا ہوا نظر آتا ہے اور کسی موقع پر سرئیلزم کے زبان میں نہایت کاٹ دار لہجہ اختیار کرلیتا ہے۔
اچھے اور معیاری ادب کی یہ خوبی مسلم ہے کہ وہ مانوس کو نامانوس بنا کرپیش کرتا ہے۔ دشمنانِ حفیظ بھی جانے پہچانے اور بہ ظاہر مانوس نظر آتے ہیں۔ منٹو کا نام سن کر ہر گنہگار کانوں کو ہاتھ لگانا فرض سمجھتا ہے، نیرودا کو بھی اسی قسم کے جنسی جذبات سے عاری قدسی صفات افراد کی مخالفت کا سامنا رہا، سبط حسن کی کتابیں آج بھی کئی افراد کی جبیبوں پر شکنیں ڈال دیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملالہ یوسفزئی کو گالی دینا تو کچھ افراد کے نزدیک مذہبی رسومات میں داخل ہوچکا ہے اور ہر گالی کے ساتھ ان کے ایمانی درجے میں بڑھوتری ہوجاتی ہے۔
حفیظ کی نظموں میں یہ شخصیات ماوارئی کردار میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور کردار حقیقی وجود رکھتے ہوئے بھی اتنے غیر حقیقی بن جاتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے فینٹیسی کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ حفیظ ان کے ادبی یا سماجی کارناموں کی علامات کو تجریدیت اور سرئیلزم کی سرحد کے پار ڈال کر انہیں ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے جہاں مکمل نامانوسیت کی فضا طاری رہتی اور قاری بھی اسی انوکھی اور ان دیکھی فضا میں خود کو تحلیل ہوتے پاتا ہے۔
کہیں پڑھا تھا کہ اگر امر ہونا چاہتے ہو تو کسی ادیب سے دوستی کرلو، حفیظ تبسم نے اپنے مجموعے ’’دشمنوں کے لیے نظمیں‘‘ سے بھی اسی قسم کی کاوش کی، اُس نے اپنے’ دشمنوں‘ کو آب حیات کے رنگ سے تراشنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ خاکے ہمارے ادبی سفر کا ایک وقیع تجربہ ہیں جس کی معنویت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ خاکے ہماری زبان کے ادبی سفر کے روشن پڑاؤ ہیں جس کی روشنی راہ ادب کو مزید منور کرے گی۔
خوشی کی بات ہے کہ شاعری کے ساتھ حفیظ تبسم نے ایک ناول بھی لکھا ہے جو اشاعت سے قبل کے نظرثانی کے آخری مراحل پر ہے، مجھے امید ہے کہ اپنی شعری تخلیقات کی طرح وہ اپنے فکشن سے بھی اپنے استاد ساحر شفیق کی طرح افسانوی ادب میں نئی راہ نکالنے میں کام یاب رہیں گے۔ مجموعہ پڑھنے سے پہلے میں حفیظ کو اپنا دوست سمجھتا تھا لیکن اب، مجموعہ پڑھنے کے بعد، اُس کا نام میں نے اپنے دشمنوں کی سنہری فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ روک سکو تو روک لو۔