Tag: اردو شاعری

  • آج ممتازشاعرامیرمینائی کا یوم وفات ہے

    آج ممتازشاعرامیرمینائی کا یوم وفات ہے

    امیر کے نام سے شاعری کرنے والے ممتاز غزل گو شاعرامیر احمد مینائی 21 فروری 1829 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے،آپ کا تعلق مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تعلق تھا اس لیے مینائی کہلائے،آپ علمِ طب،جفر اور علمِ نجوم میں ماہر تھے اسی وجہ سے اپنے معاصرین سے ممتاز تھے۔

    حالاتِ زندگی کے کچھ پر تو

    امیر مینائی کوشعروسخن کا شوق بچپن سے تھا،شروع میں مظفرعلی اسیرسے تلمذ حاصل تھا پھر 1852ء میں واجد علی شاہ کے دربار سے تعلق قائم ہوا اور ان کے حکم سے دو کتابیں’’ارشاد السلطان‘‘ اور ’’ہدایت السلطان‘‘ تصنیف کیں۔

    ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے بعد آپ رام پور چلے گئے اور نواب یوسف علی خاں والئ رام پور کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خاں کے استاد مقرر ہوئے اور رام پور میں 43 برس بڑی عزت وآرام سے زندگی بسر کی اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہے۔

    نواب کلب علی خان کے انتقال کے بعد آپ اپنے ہم عصر شاعر اور قریبی دوست داغ دہلوی کے ایماء پر امیرمینائی حیدرآباد (دکن) چلے آئے اور اپنے آخری ایام یہی گذارے۔

    سفرِ جہانِ فانی 

    1892 میں امیرؔ مینائی بیمار ہو گئے، حکیموں اور ڈاکٹروں سے علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہوا،آخر 13 اکتوبر 1900 ء کو 71 برس کی عمرمیں خالق حقیقی سے جا ملے،مینائی خود فرماتے ہیں کہ

    توڑ ڈالی موت نے غربت میں میناےٗ امیرؔ

    اور اسی دن درگاہ شاہ یوسف و شاہ شریف میں ابدی نیند سلا دیئے گئے، جہاں ان کا مزار مرجع خلائق ہے،جناب امیر مینائی کے لوحِ مزار پر جلیلؔ رانکپوری کی یہ تاریخ کندہ کی گئی ہے

    امیر کشور معنی امیرؔ مینائی
    خدا کے عاشقِ صادق درِ نبیﷺ کے فقیر
    گےٗ جو خلد بریں کو تو ان کی تربت پر
    جلیلؔ نے یہ لکھا روضہٗ جناب امیرؔ

    جب کہ امیر مینائی کی قبر انور کے لوح مزار کی پشت پرامیرؔ مینائی کا اپنا ہی یہ شعر کنداں ہے جو اہل دنیا کو دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ کرتا رہتا ہے کہ

    ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں
    پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

    تاریخ وفات 

    امیرؔ کے انتقال پر دنیائے اردو ادب میں عام طور پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اخبارات و رسائل میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے اور اکثر ہم عصروں شاگردوں اور دوسرے شاعروں نے اردو اور فارسی میں وفات کی تاریخیں کہیں۔

    ان میں مہاراجہ کشن پرشادؔ،داغؔجلالؔ اور جلیل وغیرہ کی تاریخیں خصوصیت کی مالک ہیں۔داغؔ کی تین تاریخوں میں سے ایک تاریخ ملاحظہ ہو۔

     

    کر گئے رحلت امیر احمد امیرؔ
    اب نشاطِ زندگی جاتا رہا
    مل گئی تاریخ دل سے داغؔ کے
    آہ لطفِ شاعری جاتا رہا

    مشہورغزل

    سرکتی جاےٗ ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
    نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
    جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
    حیا لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
    شب فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
    کبھی فرصت میں کر لینا حساب آ ہستہ آہستہ
    سوال وصل پر ان کو ردو کا خوف ہے اتنا
    دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آ ہستہ آہستہ
    وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اور میں کہوں ان سے
    حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

    چند اور نمونہ شاعری

    کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟
    غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے
    اُس کو سمجھاتے نہیں جاکے کسی دن ناصح
    روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے
    تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟
    حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے
    آئے میخانے میں، تھے پیرِ خرابات امیر
    اب چلے مسجدِ جامع کی امامت کرنے


    یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں
    خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں
    جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم
    ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں
    حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں
    مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں
    الٰہی ہے دل جائے آرام غم
    نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں
    کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا
    کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں
    وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں
    الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں
    زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر
    ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں


    ہر غنچہ میں وحدت کا تماشا نظر آیا
    ہر پھول میں رنگِ چمن آرا نظر آیا
    کیا ذکر حرم جا کے جو میخانہ میں دیکھا
    واں بھی تری قدرت کا تمشا نظر آیا
    وہ رند ہوں میں دل کی طرح سینہ میں رکھا
    ساقی جو شکستہ کوئی مینا نظر آیا
    منہ چھاگلوں کے کھول دیے چھالوں نے میرے
    کانٹا کوئی صحرا میں جو پیاسا نظر آیا
    اس بزم میں حیرت کی مری وجہ نہ پوچھو
    آئینے سے پوچھو کہ تجھے کیا نظر آیا
    وہ آپ ہی ناظر وہ ہے آپ ہی منظور
    نظارہ ہی اک بیچ میں پردا نظر آیا
    تارا جسے سمجھا تھا امیرؔ آنکھ کا اپنے
    دیکھا تو وہی داغ جگر کا نظر آیا


    اک ادا سے ،ناز سے، انکار سے
    دل میں وہ آےٗ تو کس تکرار سے
    لوٹ جانا پاےٗ رنگیں پر امیرؔ
    سیکھ لے کوئی حناےٗ یار سے

     

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو شاعری میں کلاسک کی حیثیت رکھنے والے اس شعر کے خالق حسرت موہانی کی آج 66 ویں برسی ہے۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    قیام پاکستان سے قبل جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار، انگریزوں کی غلامی کا دور اور اس کے بعد تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو اردو شاعری حسن و عشق کے قصوں کو چھوڑ کر قید و بند، انقلاب، آزادی اور زنجیروں جیسے موضوعات سے مزین ہوگئی۔ غزل میں بھی انہی موضوعات نے جگہ بنالی تو یہ حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے اردو غزل کا ارتقا کیا۔

    البتہ اس وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات سے وہ بھی نہ محفوط رہ سکے اور ان کی شاعری میں بھی سیاست در آئی۔ وہ خود بھی سیاست میں رہے۔ پہلے کانگریس کے ساتھ تھے پھر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

    حسرت موہانی ایک صحافی بھی تھے۔ 1903 میں انہوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردو معلیٰ بھی جاری کیا۔ 1907 میں ایک حکومت مخالف مضمون شائع ہونے پر انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

    ان کا یہ مشہور زمانہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔

    علامہ شبلی نعمانی نے ایک بار ان کے لیے کہا تھا۔ ’تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔‘ حسرت موہانی سے زیادہ متنوع شاعر اردو شاعری میں شاید ہی کوئی اور ہو۔

    حسرت کی شاعری سادہ زبان میں عشق و حسن کا بہترین مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔

    بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
    ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

    اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والا یہ شاعر 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں انتقال کر گیا۔

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    شاعرِ آخرِالزماں جوش ملیح آبادی کوگزرے33 برس بیت گئے

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗ پھر جوش کو دے کر لقبِ شاہ ِ سخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنر تازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی بارات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

  • شعلہ بیان شاعر شکیب جلالی کو بچھڑےاڑتالیس برس بیت گئے

    شعلہ بیان شاعر شکیب جلالی کو بچھڑےاڑتالیس برس بیت گئے

    کراچی (ویب ڈیسک) – آج اردو زبان کے شعلہ بیان شاعر سید حسن رضوی المعروف شکیب جلالی کا یومِ وفات ہے ان کی شاعری معاشرتی نا ہمواریوں اور احساسِ محرومی کی عکاس ہے۔

    یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
    گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں

    شکیب جلالی یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش کے علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ انہوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں شاعر ی شروع کر دی اور شاعری بھی ایسی کہ جس میں آتش کدے کی تپش تھی۔

    دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
    پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے

    شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہورمیں مقیم رہے، وہیں سے انہوں نے ایک رسالہ ’جاوید ‘نکالا لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ اس کے بعد ’مغربی پاکستان‘نامی سرکاری رسالے سے وابستہ ہوگئے۔

    کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئی
    میں پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں

    ان کی شاعری میں معاشرتی نا ہمواریاں اور احساس کی تپش نمایاں تھی اور ان کی یہی تپش جب ان کی برداشت سے باہر ہوگئی تو محض بتیس سال کی عمر میں 12 نومبر1966 کو سرگودھا ریلوے اسٹیشن کے قرین ایک تیز رفتار ٹرین کے سامنے آکر انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

    ان کا مجموعہ کلام 1972 میں روشنی اے روشنی کے نام سے شائع ہوا اور 2004 میں ان کا مکمل کلام کلیاتِ شکیب کے نام سے شائع ہوا۔

    مجھ کو گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
    جس طرح سائہ دیوار پہ دیوار گرے
    دیکھ کر اپنے در وبام لرز اٹھتا ہوں
    میرے ہم سائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

    اتر گیا ترے دل میں توشعر کہلایا
    میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا
    میں ساحلوں میں اتر کر شکیب کیا لیتا
    ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

    سوچو توسلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

    اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
    زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمیں چلنے لگی